درد کی دوا
یثرب کے مسیحا سے جب تک نہ دوا لو گے
رستے ہوئے زخموں کو ناسور بنا لو گے
امریکہ نے دنیا کو او یار دیا کیا ہے
اک روگ نیا دے گا، کیا اس کے سوا لو گے
یہ جان تو آخر کو، اللہ کو دینی ہے
شیطاں کی بیعت کر کے کیا جان بچا لو گے
گھس بیٹھیا اس گھر مےں گھر اپنا بنا لے گا
یہ پھر نہیں نکلے گا گر اب نہ نکالو گے
جس طرح بھی ہو ممکن اب قرض سے جان چھوٹے
اس رہن سے آئندہ نسلوں کوچھڑا لو گے
شاداب زمینیں پھر سونا ہی تو اُگلیں گی
قربانیاں کچھ دے کر، گر ڈیم بنا لو گے
دو اولیں اہمیت گھمبیر مسائل کو
دفتر کو تو ”فیصل جی“ تم پھر بھی سجا لو گے
بہتر ہے جمالی کو کچھ کر کے دکھانے دو
کیا موقع نہ دینے کا الزام اٹھا لو گے؟
ملت نے تو اب تم کو مینڈیٹ دیا ایسا
مل جل کے سبھی آدھا یہ ملک سنبھالو گے
اب کام کرو سارے آپس مےں نہ دو طعنے
کشمیر سے بھارت کو تم کیسے نکالو گے؟
”یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے“
ریاض الرحمن ساغر
سچا قائد؟
کسی بھی تن پر لگ جائے سَر سچے قائدؒ کا
میرے دل مےں پھر سے بنے گھر سچے قائدؒ کا
زندہ راہ نما کے پیچھے مےں دن رات چلوں
خاموشی سے آنکھیں میچے اس کے ساتھ چلوں
کیا نہیں جو ابھی کسی نے کرے وہ ایسا کام
جو میری دھڑکن کو چھو لے دے ایسا پیغام
نصف صدی کی کھوج مےں ہم کو ملا نہیں وہ یار
لے دے کر ہے دل کا سہارا قائد تیرا مزار
ہر ٹھوکر پر یاد آتے ہےں ہم کو ترے اصول
روئیں اور چڑھائیں تیرے مرقد پر ہم پھول
لالچ کو ٹھکرا دینے کی ہمت کہاں سے لائیں
تیرا چہرہ نوٹ پہ دیکھیں اور صدقے ہو جائیں
کس برتے پر ڈالیں تیری آنکھوں مےں آنکھیں
دولت کی رم جھم مےں دل کے اندر کیا جھانکیں
پورا ملک انگریز سے لڑ کر ہم کو دے گیا تُو
دیکھ سکے تو دیکھ ہمارا کٹا ہوا بازو
دل کہتا ہے جاگ کسی دن مرقد مےں سے بول
تھام ذرا میزان ہمارے آدھے دھڑ کو تول
کہیں پہ ”نون“ کہیں پر ”پی پی“ کہیں پہ قائد لیگ
مسلم لیگ دھڑوں مےں بٹ کر بن گئی ”شائد لیگ“
ریاض الرحمن ساغر
آئی لَو یُو! پاکستان!
ہے تجھ سے میرے پہچان
تُو میری خودی مری آن
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
نہیں تجھ سا کوئی حسیں
یونہی تو پیار نہیں
مےں تیرا نام سُنوں
دنیا مےں جاﺅں کہیں
تری سب سے الگ ہے شان
تُو میرا بھرم، مرا مان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
جب مہکیں تیرے گلاب
نظروں کو کریں شاداب
سانسوں مےں بھریں خوشبو
اور لائے رنگ شباب
دل مےں جاگیں ارمان
تُو اونچی بھر لے آڑان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
یہ دھرتی جنت سی
یونہی تو نہیں ملی
اللہ کی رحمت سے
قائد کی نے ہمیں بخشی
میرے سر پر ہے قرآن
تیرا پیار مرا ایمان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
ریاض الرحمن ساغر
دیدار
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
جب سامنے صورت یار کی تھی
آنکھوں مےں خواب سویرے تھے
اور سانسوں مےں سُر تیرے تھے
لے مدھم دل کے تار کی تھی
پلکوں پہ نمی کے ڈیرے تھے
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
کیا نور تھا چہرے پر آیا
اُتری جو تھکن اسفار کی تھی
جو غیروں مےں چھوڑ آئے تھے
کچھ فکر نہ اُس گھر بار کی تھی
جو بچھڑ گیا تھا رستے مےں
ڈھرکن مےں کسک اس یار کی تھی
پیچھے پیچھے سرخ آندھی تھی
اور آگے سبز پھریرے تھے
جب تیری خاک پہ دھری جبیں
رحمت کے سائے گھنیرے تھے
ہر سُو اپنوں کے چہرے تھے
اپنی باہوں کے گھیرے تھے
آزادی کی سرشاری تھی
جذبات مےں گرمی پیار کی تھی
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
ریاض الرحمن ساغر
یا رب تیرا شکر ہے!
انا لُٹاتے تو بس اک قدم پہ راحت تھی
ضمر بیچنے جاتے تو کیا قباحت تھی
رہی حقیر سی شے آبروئے نفس عزیز
کہ سر جھکانے کی بچپن ہی سے نہ عادے تھی
جو لوگ پوچھتے ہےں عمر مےں بنایا کیا؟
انہی کے جوتوں سے آباد اپنی چوکھٹ تھی
ہوں جس کی جیسی مرادیں خدا سے پاتا ہے
وہ ہم نے پائی جو درکار ہم کو عزت تھی
بہت سکون سے سوتا ہوں بھوک لگتی ہے
ہمیشہ اتنا ہی کھایا کہ جو ضرورت تھی
نہ در بڑا ہے، نہ دربان ہی کبھی رکھا
نہ کوئی لوٹنے آیا نہ گھر مےں دولت تھی
وہ آج پوچھتے ہےں ہم سے تم کہاں گم ہو
کبھی ہمارے حوالے سے جن کی شہرت تھی
ہلال رزق سے اولاد کو جو تھا پالا
تو اس کی نظروں مےں پاتا ہوں جو عقیدت تھی
خوشی کے اور تشکر کے اشک موتی ہےں
نظر مےں آج نہ پہلے کبھی ندامت تھی
کسی کی حد مےں جاﺅ نہ اپنی حد چھوڑو
ہے یاد آج بھی ماں کی یہی ہدایت تھی
خدا کا شکر ہوئیں ساری حسرتیں پوری
مےں دل سے پوچھتا رہتا ہوں کوئی حسرت تھی؟
ریاض الرحمن ساغر
اب سب ایک ہوں!
اٹھے ہےں آج ہاتھ میرے آج اک دُعا کےلئے
خدا کی راہ مےں سب ایک ہوں خدا کےلئے
فضول آدھی صدی تک بھٹک کے دیکھ لیا
ہے صاف سمت محمد کے نقش پا کےلئے
بڑھاﺅ ربط و اخوت کہ کوئی شرط نہیں
وفا ہی شرط ہے ہر فرد باوفا کےلئے
کریں پرہیز تو سب روگ کیسے دور نہ ہوں
دوا کے ساتھ ہدایت پڑھو شفا کےلئے
درست قبلہ کرو خود ہی فلم و ٹی وی کا
ضمیر کافی ہے ہر صاحب حیا کےلئے
ہر احتساب کا آغاز دل سے ہوتا ہے
سزا بھی خود کرو تجویز ہر خطا کےلئے
ہمارے ملک کا جو بھی وزیر اعظم ہو
ہے پُل صراط بڑا اس کی ابتدا کےلئے
گھڑی یہ سخت ہے ہم سب کی آزمائش کی
ہو احتیاط سے آغاز انتہا کےلئے
عدو کی آنکھ مےں کانٹے کی طرح کھٹکے گا
ملا ہے دین کو جو مرتبہ سدا کےلئے
خدا نے موقع فراہم کیا ہے جس جس کو
وہ ہوش گنوا دے نہ پھر خدا کےلئے
ریاض الرحمن ساغر
چاچے اور دیپاچے
شعر و ادب کے ”چاچے“
لکھتے ہےں جو دیباچے
کم فہم نسل نو کو
اُلو بنا رہے ہےں
بونو کا قد بڑھا کر
پیسے کما رہے ہےں
تعریف کے پلوں پر
لنگڑے چلا رہے ہےں
بے پر کبوتروں کو
اونچا اُڑا رہے ہےں
کچھ شاعرات ایسی
اور ایسے چند شاعر
پڑھئے کلام جن کا
اک پل بہ نظر غائر
محسوس ہوگا کس کی
چکی کا کھا رہے ہےں
چہرہ ہو خوبصورت
محنت کی کیا ضرورت
پوچھے گا کون ان سے
کس سے لکھا رہے ہےں
کچھ بھی ہو وہ ادب کی
محفل سجا رہے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
نہ ہر گز حلف توڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
وفا سے منہ نہ موڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ لاﺅں گا کوئی ترمیم وعدوں اور قسموں کی
نہ لفظوں کو مروڑوں گا، مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بدلوں کا بیاں اپنا کسی بھی سخت مشکل مےں
نہ سچ کا ساتھ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ڈروں گا اور نہ ہر گز ہار مانوں گا رقیبوں سے
کوئی رشتہ نہ جوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
سدا بیٹھا رہوں گا مےں تری زلفوں کی چھاﺅں مےں
ترا آنچل مےں اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بیچوں کا ترا زیور نہ لوں گا قرض غیروں سے
نہ تیرا خون نچوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مےں خود لالہ اُگاﺅں گا ترا جوڑا سجانے کو
مےں سر سے سنگ پھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
جو تجھ پر جان وارے تجھ کو ایسی نسل نو دوں گا
جوانوں کو جھنجوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
دغا تجھ سے کریں گے جو نہ مانیں گے تری حرمت
انہیں زندہ نہ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مری جاں سوہنی دھرتی تو فضل و رحمت ربی
مےں تیری خاک اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر
سخت مرحلہ
یہ جنوں کی ابتدا ہے
یہی سخت مرحلہ ہے
وہیں تند خو ہےں موجیں
جہاں پل لرز رہا ہے
یہی وقت ہے سفر کا
یہی ایک راستہ ہے
کسی سوچ مےں ہے منصف
یہ مقام فیصلہ ہے
کہو! صاحبان دانش
یہاں سب کی رائے کیا ہے
کسی خوش قدم کی خاطر
در اقتدار وا ہے
وہاں جانے کون پہنچے
جہاں دشت کربلا ہے
کوئی سن سکے تو سن لے
یہ جو وقت کی نوا ہے
وہی پھر سے ہو نہ جائے
کئی بار جو ہوا ہے
تو مزے سے لوٹ ساغر
یہ جو فقر مےں مزہ ہے
ریاض الرحمن ساغر
میریا ڈھول سپاہیا!
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں ساری قوم دیاں اکھاں
ہن پالے شیروانی تیری بڑی مہربانی
جدوں ویکھے واجپائی اوہدی مر جائے نانی
جیہڑی گل اے ضروری ہن کر دے توں پوری
انہوں چھڈ نہ اودھوری کہ ایہہ وے ریت جمہوری
تیرے نال نیں وچوں سارے چودھری قصوری
جنے چاہویں گا توں تینوں اونے ووٹ ملن کے
تینوں وچ ریفریڈم ووٹ پائے اسی لکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں گورے بش دیاں اکھاں
تیرے نال نیں وڈیرے تیرے نال اے جمالی
توں ای صدر ہویں گا ہور کئی سال ہالی
تیرے در تے کھلوتے سارے رہن گے سوالی
اہ وی ووے گی سیاسی تیری رسم مثالی
تیری لمی حیاتی لئی مےں منتاں سکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ہن وردی توں لا ہکے، سوہنا سوٹ بوٹ پا کے
کوئی چھڈ خوشخبری یارا ٹی وی اتے آکے
بنا وردی وی توں تے سدا رہویں گا کمانڈو
اک دن ویریاں دے کڈ دیویں کا کڑاکے
تکاں تینوں بنا وردی تے مےں تکداں نہ تھکاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ریاض الرحمن ساغر
بال ٹھاکرے خبردار
بہتر یہ ہے نہ حد سے بڑھے بال ٹھاکرے
بھارت کے مسلمانوں کی تلوار سے
ہندوستان صدیوں تھا مغلوں کی سلطنت
اکبر نے جودھا بھائی کو دی شان زوجیت
وارث سلیم ”شیخو“ ہوا تخت و تاج کا
حق مسلمانوں کو آج بھی ہے اس پہ راج کا
راجہ و مہاراجہ تھے انگریز کے غلام
کرتے رہے نواب بھی انگریز کو سلام
قائد کو اور نہرو و گاندھی کو دو دُعا
ہندوستان آخرش آزاد ہوگیا
انگریز جاتے جاتے بھی اک ہاتھ کر گیا
مجروح مسلمانوں کے جذبات کر گیا
بھارت کو مسلمانوں کے کچھ شہر دے گیا
اور تم سے شیش ناگ کو بھی زہر دے گیا
وہ زہر پھن بھلا اُگلتے ہو تم سدا
ایسا نہ کچل دے مسلمان یہ گلا
تم شر پسند ہندو کے ماتھے کا ہو کلنک
کرتے ہو نشر منہ سے تعصب کا صرف ”چنگ“
بھارت مےں جتنے ہندو بھی ہےں سیکولر مزاج
تم انتہا پسندوں کو دیتے نہیں خراج
مےں ان سے کہہ رہا ہوں کہ تم کو لگام دیں
غنڈے سے بڑھ کے تم کو نہ کوئی مقام دیں
ورنہ تمہاری وجہ سے وہ مارے جائیں گے
دنیا مےں ہر جگہ سے وہ دھتکارے جائیں گے
ریاض الرحمن ساغر
صبح کا تارا کیوں لوں
ڈوبتے ڈوبتے تنکے کا سہارا کیوں لوں
چاند پاﺅں نہ، تو مےں صبح کا تارا کیوں لوں
جگمگاتی ہوئی شب تابہ سحر چاہتا ہوں
چنددم توڑتی کرنوں کا اشارہ کیوں لوں
راستہ چاہئے اب کاہکشاں سا مجھ کو
ڈھلتے خورشید کا احسان دوبارہ کیوں لوں
مجھ کو سیدھا سمندر کی طرف ہے جانا
گھومتی گھامتی ندیا کا کنارا کیوں لوں
بعد مدت کے سنی موسم گل کی آہٹ
ہاتھ مےں پھر سے کوئی شوخ شرارہ کیوں لوں
اپنے حصے کا تو دکھ درد ہے سب مےں سے سہا
غیر کے زخم کا یہ زہر مےں سارا کیوں لوں
اب تو اپنوں کا ہی بس پیار مجھے کافی ہے
اپنی باہوں مےں کسی اور کا پیارا کیوں لوں
یا تو لگنا ہے کنارے سے یا بہہ جانا ہے
کسی تالاب مےں گرتا ہوا دھارا کیوں لوں
چاند پر جانے کو اک عمر خلا مےں گزری
ٹوٹ کے گرنا ہے جس کو وہ ستارہ کیوں لوں
پہلے بے چارہ تھا اس وقت نہیں بے چارہ
نفع کیوں چھوڑوں ساغر مےں خسارہ کیوں لوں
ریاض الرحمن ساغر
ماتحتوں کے ساتھ سلوک
ماتحتوں کے ساتھ نہ رکھ ناروا سلوک
رب دیکھتا ہے بندے سے بندے! یترا سلوک
مت بھول رب کے سامنے جانا ہے اک دن
اعمال نیک و بد کو فرشتے رہے ہےں گن
ٹوٹے ہوئے دلوں سے نکلتی ہے جو بھی آہ
وہ تو ہلا کے عرش کو لے لیتی ہے پناہ
میزان عدل عرش کبھی ڈولتا نہیں
انسان کی طرح تو وہ کم تولتا نہیں
ظالم اسی جہاں مےں پا لیتا ہے سزا
ہو جاتی ہے عذاب الٰہی کی ابتدا
مظلوم خود معاف کرے تو ہے بات اور
کرتا ہے صرف اس کی دعا پر خدا بھی غور
جو ظلم تو نے جانے یا انجانے مےں کیا
مظلوم سے معافی کی کر جائے التجا
قبل اس کے بند توبہ کا در کرے وہ خدا
لے اس کی بارگاہ مےں مظلوم کی دعا
مایوس ہو کے رب سے جو کرتے ہےں خودکشی
کیوں بھولتے ہےں رب کی امانت ہے زندگی
رب کریم! سب کی خطائیں معاف کر
کہتا ہے تجھ سے سجدے مےں ساغر جھکائے سر
ریاض الرحمن ساغر
طوائف کا معیار! شیخ جی!!
گئے دن جب طوائف کا بھی اک معیار ہوتا تھا
کبھی امراﺅجاں جیسا بھی اک کردار ہوتا تھا
وہ آداب محافل بھی سکھاتی تھیں نوابوں کو
تو پھر موج تعیش مےں بہاتی تھیں نوابوں کو
تب ان کے رقص و نغمہ سے عیاں ہوتی تھی فنکاری
جھلکتی تھی ادائے دلربانی مےں وضع داری
کبھی وہ چھوڑ کر کوٹھا حویلی مےں جو بستی تھیں
تو پھر ناگنکی طرح اہل خانہ کو نہ ڈستی تھیں
نہیں انکار، ہوتی تھیں لجھیائیاں تب بھی
شریفوں کے گلے پڑ جاتی تھیں رسوائیاں تب بھی
مگر اے ”شیخ جی“ جو آج کی گندی طوائف ہے
شریف اور نیک و سادہ ہر گھرانہ اس سے خائف ہے
لہٰذا پی ٹی وی سے دور رکھئے اس طوائف کو
کہ اس کے شر سے ہے خطرہ بیچاری ہاﺅس وائف کو
یہ مانا عالمی ابلاغ کے بھی کچھ تقاضے ہےں
مگر ملک مےں دلدادہ¿ مشرق بھی رہتے ہےں
ہمارے شعر و موسیقی کا اپنا حسن ہے پیارے
دکھاتے ہےں کئی چینل بہت مغرب کے نظارے
ہمارے پی ٹی وی مےں رنگ ہو اپنی ثقافت کا
چنانچہ ختم کیجئے ناچ اس پر مست وحشت کا
وگرنہ دیجئے ہر چوک مےں مجرے کی آزادی
کہ نسل نو کی ہو اس سرزمیں پر کھل کے بربادی
سر شب ہر جھروکے مےں بدیسی ناچ گانا ہو
تو پھر اس پاک دھرتی کا ہر اک منظر سہانا ہو
ریاض الرحمن ساغر
ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں تو چلتے رہنا تھا
ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں کچھ کرتے رہنا تھا
ہمیںکچھ کر دکھانا تھا
مگر ہم نے کیا کیا ہے؟
نتیجے مےں لیا کیا ہے؟
ہمیں لہروں سے لڑنا تھا
ہمیں تو پار جانا تھا
ہم اپنے خود محافظ ہےں
زمانے کو بتانا تھا
مگر ہم نے تو بھنور مےںہےں
اگرچہ اپنے گھر مےں ہےں
یہ کس ویراں ڈگر مےں ہےں
کہ لگتا ہے کھنڈر مےں ہےں
ہمیں تو کھیت بونا تھا
ہمیں سبزہ اگانا تھا
ہمیں نان و نمک اپنا
پڑوسی کو کھلانا تھا
ہمیں کیوں قرض لینا تھا
لیا تھا تو چکانا تھا
مگر ہم مست موسم مےں
فقط گڈی اڑاتے ہےں
تو پھر کیوں چیختے ہےں جب
جہاں والے ڈراتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
شاہینوں کا سفر شہادت
آسماں سے چمکتے ستارے گئے
کتنے انمول شاہیں ہمارے گئے
کہکشاں کے مسافر زمیں کھا گئی
ہائے اڑتے پرندوں کو موت آگئی
مان ہم کو تمہاری اڑانوں پہ تھا
وہ جو پہرہ پہاڑوں چٹانوں پر تھا
کہساروں کو وہ سرخرو کر گیا
قوم کی آنکھوں مےں وہ لہو بھر گیا
گرم خوں تھا تمہارا بھی جوش مےں
لو گئے برف کی ٹھنڈی آغوش مےں
پھول تابوت پر پُوت تابوت مےں
لو چلے کتنے یاقوت تابوت مےں
ماﺅں بہنوں کی آنکھوں مےں اشک رواں
لے چلے ہو ہمارا اثاثہ کہاں
ننھے بچوں کی آہیں ہواﺅں مےں ہےں
سسکیاں دوستوں کی فضاﺅں مےں ہےں
وہ جبینوں پر مہر شہادت لیے
جا رہے ہےں جو داد شہادت لیے
پہنچے اس ملک و ملت کا ان کو سلام
ان کو جنت مےں حاصل ہو اعلیٰ مقام
اب لواحق کو انکے خدا صبر دے
جذب ایثار کا قیمتی اجر دے
ریاض الرحمن ساغر
حمید نظامی، مینار صحافت
مینار صحافت کوئی تجھ سا نہیں آیا
معیار صحافت کہیں تجھ سا نہیں پایا
تسلیم تری جرا¿ت اظہار نظامی
آگے کسی آمر کے کبھی سر نہ جھکایا
دائم ہے حمید اور مجید آج بھی قائم
سچائی کے رستے پہ جو قائدؒ نے دکھایا
اخبار کے پردے مےں تجارت نہ کبھی کی
دولت کے لئے آن کو بیچا نہ گنوایا
جو ہونٹوں پہ لاتے ہوئے کتراتے رہے ہےں
سلطان کے ایوان وہ نعرہ لگایا
سچ کہنے پہ طوفان کئی راہ مےں اٹھے
ٹھٹھکانہ رکا، تو نے قدم آگے بڑھایا
اقبالؒ ترے دل مےں دھڑکتا تھا نظامی
قائدؒ کا ہمیشہ ترے سر پر رہا سایہ
آزادی کی تحریک مےں اعلیٰ تری خدمات
سونپا گیا جو تجھ کو وہ کردار نبھایا
تو عالم اسلام کی یکجہتی کا داعی
قرآن کا پیغام صدا تو نے سنایا
جو سوچتا اور لکھتا ہے اخبار مےں ساغر
یہ تیرا قرینہ تھا یہ تو نے ہی سکھایا
کچھ لوگوں پہ تو خاص کرم کرنا ہے یا رب
ہو لحد نظامی پہ کرم خاص خدایا
ریاض الرحمن ساغر
”بش“........ خدا سے ڈر!
خدا کو چاہے تو سب پوری خواہشیں کر دے
وہ اپنے بندوں کی کم آزمائشیں کر دے
بنائے بے کس و کمزور کو جواں قوت
وہ شہ زور کی کمزور طاقتیں کر دے
ملائے خاک مےں سر پھروں کا سارا غرور
رگوں مےں خون کی مفلوج گردشیں کر دے
وہ بھر دے ذہن مےں بے کار اور بری سوچیں
پھر ایسے شخص پہ دنیا کی لعنتیں کر دے
کرے وہ پیدا جو فرعون کے لئے موسیٰ
تو کوہ طور کی روشن وہ رفعتیں کر دے
زمین اس کی ہے، ہےں ساتوں آسماں اسکے
وہ خوش جو ہو تو زمانے پہ رحمتیں کر دے
مجھے یقین ہے ”بش“ سے وہ خوش نہیں ہوگا
جو اس زمین پہ پیدا مصیبتیں کر دے
وہ عزم و حوصلہ بخشے جو ناتوانوں کو
تو سرفروشوں کی بیدار ہمتیں کر دے
وہ مرد فقر خمینی سا جو کرے پیدا
تو بادشاہوں کی غارت حکومتیں کر دے
چنانچہ مشورہ میرا یہی ہے، بش کے لئے
بھلا کے جنگ کو تازہ محبتیں کر دے
وگرنہ عرش سے آفت نہ ایسی آ جائے
جو اس کی نیست و نابود قوتیں کردے
ریاض الرحمن ساغر
خود کلامی
کبھی اکیلے مےں خود سے کلام کرتا ہوں
تو اپنے نام یہ جاری پیام کرتا ہوں
یہ ملک تجھ کو خدا نے نہ گر دیا ہوتا
تو ایک سانس سکھ کا کبھی لیا ہوتا؟
تو سوچتا ہے کہ کیا اس زمیں پہ تیرا ہے
طرح طرح کے مسائل نے تجھ کو گھیرا ہے
چمکتا تیرے گھروندے مےں کوئی چاند نہیں
ہے ملک تیرا تو آنگن مےں کیوں اندھیرا ہے
جو تیرا خون پسینہ ہے کھیتوں مےں رچا
تو آب و دانہ کا مختار کیوں وڈیرہ ہے
یہ آبشار سر کہسار تیرے ہےں
طلوع ہوتا ہوا آبشار تیرا ہے
تری ہی نسل کی جاگیر ہے یہ ہریالی
تیرے لئے ہی مہکتی ہے ہر جواں ڈالی
یہ پیڑ تیرے ہےں تو بیٹھ ان کی چھاﺅں مےں
چلے گا تیرا ہی قانون تیرے گاﺅں مےں
یہ نہر تیری ہے دریا کا پاٹ تیرا ہے
تو محو رقص ہو لہریں پہن کے پاﺅں مےں
تو اپنی رائے کو اپنی یقیں کی طاقت دے
تو اپنی خواہش و جذبے کو بھی صداقت دے
مےں تیرا فردا فقط تیرے نام کرتا ہوں
تو بادشاہ ہے، تجھ کو سلام کرتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر
میرٹ پر روزگار؟
ہمارے ملک مےں میرٹ پہ کام کیسے ہو
کسی کے حق کا یہاں احترام کیسے ہو
اُداس نوجوان پھرتے ہےں ڈگریاں لے کر
نوازشیں ہےں وزیروں کی صرف اپنوں پر
وہ بے نوازوں کی دانش نہ اہلیت دیکھیں
نہ تجربے کی سند اور نہ تربیت دیکھیں
وہ بے ہنر کو سفارش سے آگے لاتے ہےں
ذہین لوگوں سے ہر پل نظر چراتے ہےں
جو کام اچھے بھی ہوں سابقہ حکومت کے
انہیں وہ کرتے ہےں رد بے رحم سیاست سے
ملازمین کی بھرتی گریڈ سولہ تک
کمشن کرتا تو کم ہوتا ہر کسی کو شک
یہ اختیار کمشن سے لیا واپس
کریں گے بھرتی سفارش سے ہر کس و ناکس
یہ ایک بحکم نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
کھلا ہوا یہ میری نسل نو سے دھوکہ ہے
جو روزگار کی تقسیم خام کر دیں گے
وہ خاک ملک مےں تعلیم عام کر دیں گے
خدایا ملک، بے ایمان لیڈروں سے بچا
جو تیرے نیک ہےں بندے انہیں اب آگے لا
عطا ہو عدل کی توفیق حکمرانوں کو
کہ آگے بڑھنے کا رستہ ملے جوانوں کو
ہے دل مےں جو تھوڑی سی آس مر نہ جائے کہیں
ترے بھی ہونے کا احساس مر نہ جائے کہیں
ریاض الرحمن ساغر
مےں تیار ہوں
اپنی باہوں مےں لے لوں مےں سات آسماں
پیار کے پر ملیں تو اڑوں!
سارے صحراﺅں مےں کھل اٹھیں گلستاں
ساتھ دریا چلے تو چلوں
خوب جوشِ جنون اب امنگوں مےں ہے
اک جوں ولولہ اب ترنگوں مےں ہے
مےں تو تسخیر کر لوں سی سارا جہاں
کوئی آگے بڑھے تو بڑھوں!
عزم و ہمت ہے پختہ، ارادے بھی ہےں
کیا کروں ساتھ کچھ شہزادے بھی ہےں
قرض کی مے جو پی پی کے ہےں شادماں
صرف خون جگر مےں پیو¿ں!
دوستو! نسل نو کی مےں آواز ہوں
تازہ ہوں دم بہ دم مےں مےں دمساز ہوں
ہر طرف رہنماﺅں کا ”شور بیاں“
کوئی میری سنے تو کہوں!
شکر کرتا ہوں مےں اپنے اجداد کا
مشورہ ہے مجھے میرے ہمزاد کا
آگے بڑھ اور لکھ اک نئی داستاں
کیا کروں مےں پڑھوں تو لکھوں
ہے کوئی رحم دل جو قلم دے مجھے
میرے جذبے سراہے قلم دے مجھے
شمع بن کر مےں روشن کروں بستیاں
کوئی شعلہ ملے تو جلوں!
ریاض الرحمن ساغر
عذاب و ثواب کا دن
جو ایک دن کا ہو تو سہہ لیں عذاب کا ایک دن
وفور مستی، مست شباب کا ایک دن
ہمارے ملک مےں ہر دن بسنت رہتی ہے
کریں وہ کاش معین عتاب کا ایک دن
ہر اک محلے مےں دوچار سر پھرے ہر دن
پتنگ اپنی چھتوں پر اڑاتے رہتے ہےں
جو ان کو منع کرے کوئی تو بجا کے بگل
وہ اہل خانہ کو اس کے چڑاتے رہتے ہےں
شدید موسم گرما مےں بھی یہ دیکھا ہے
ذرا جو ابر جو چھائے تو پتنگ لہرائے
جو دھاتی تار گرے تار برق پر تو رو
یوں منقطع ہو کہ گھنٹوں نہ لوٹ کر آئے
نہائے طفل پسینے مےں رو کے کہتے ہےں
ہے کوئی لعنت خانہ خراب کا اک دن
گلی مےں کھیلتا بچہ شہید ڈور ہوا
تو تھوڑی دیر کو ہنگامہ اور شور ہوا
پھری یہ تیغ جو دھاگے کی تو کٹی شاہ رگ
جوان جوڑے کی اموات پر نہ شور ہوا
بہت سے بجلی کے تاروں مےں مر گئے پھنس کر
ہے ایسی موتوں کا کوئی حساب کا اک دن
خوشی مناﺅ بہاروں کی گھر مےں آمد پر
مگر نہ بھولو عذاب و ثواب کا اک دن
ریاض الرحمن ساغر
چودہ کروڑ انسانو!
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
بچو اب ان سے جو اپنا ضمیر بیچتے ہےں
اب ان کو ڈھونڈو جو خوں سے زمیں سینچتے ہےں
بڑھاﺅ آگے محب الوطن جوانوں کو
گلے لگائیں جو مزدور اور کسانوں کو
کریں خرابوں مےں تازہ کھیتیاں آباد
جو ان وڈیروں سے خود کو کرا سکیں آزاد
جو عدل دے سکیں بیواﺅں اور یتیموں کو
جو بیچ کھائیں نہ امداد کی سکیموں کو
جو روح قائد و اقبال کو مسرت دیں
جو اپنی قوم کے دل کو خودی کی دولت دیں
وہ جن کے پیش نظر بس مفاد ذات نہ ہو
گروہ کا کوئی گرفتار ذات پات نہ ہو
جھکیں نہ غیر کے آگے جو راحتوں کے لئے
فراغ دل ہوں جو انسان کی چاہتوں کے لئے
اب اپنی رائے کی طاقت بڑھاﺅ، آگے برحو
خود اپنا سویا مقدر جگاﺅ آگے بڑھو
نہ بھولیں وہ جو لٹیرے ہےں اور ڈاکو ہےں
وہ سب نظر مےں ہےں آنکھیں ہماری جگنو ہےں
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
ریاض الرحمن ساغر
بسنت کیا ہے
وہ پوچھتے ہےں بسنت کیا ہے
یہ بے حیائی کا انت کیا ہے
یہ ایک تہوار ہندوﺅں کا
لہو پیا جس نے مسلموں کا
بپا چھتوں پہ بسنت دیکھو
سروں سے آنچل ”اڑنت“ دیکھو
چلو یہ مانا بہار آئی
وہ پھول چہروں پہ رنگ لائی
چمن کو اس نے نکھار بخشا
کلی کلی کو سنگھار بخشا
تو ہوش کیا اب تمام کر دیں؟
کلی کو کیا نقش بام کر دیں؟
گلی گلی غل مچائیں بھنورے؟
یہ ہو تو ہنگامہ عام ہوگا
ہمارا پھر کیا مقام ہوگا
یہ وقت و زر کا زیاں ہے پیارو
یہ جان لیوا سماں ہے پیارو
ہماری غیرت کی موت ہے یہ
وقار ملت کی موت ہے یہ
یہ جشن مرگ وقار کب تک؟
یہ شور و غل دل فگار کب تک؟
ریاض الرحمن ساغر
واجپائی.... شادی؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی
اور کوئی بیٹی بھی ہوتی
ہوتے آپ اگر کشمیری
وہ کشمیر مےں جلتی ہوتی
آپ کے سینے مےںدل ہوتا
جو انصاف کا قائل ہوتا
وادی کو برباد نہ کرتے
اس کی رد فریاد نہ کرتے
دیتے وادی کو آزادی
اور کرتے بیٹی کی شادی
بھیگی آنکھیں دل تڑپاتیں
انسانی جذبے سمجھاتیں
آپ نے گر شادی کی ہوتی
آپ کی بھی کوئی بیوی ہوتی
بھارتی فوجی کی گولی سے
وہ بیوی بیوہ ہو جاتی
بیٹے کو بندوق تھماتی
قطرہ لے کر خون جگر کا
اس کے ماتھے تلک لگاتی
وہ بیٹا پھر جو کچھ کرتا
بھارت کیا خمیازہ بھرتا؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی!
بولی پیار کی سمجھی ہوتی!!
ریاض الرحمن ساغر
لوٹا لوٹی
جو باہم لڑ رہے ہےں ”لوٹا لوٹی“
کہیں وہ ہو نہ جائیں سوٹا سوٹی
خیال خاطر احبابرکھیں!
وہ جن کا منہ بڑا ہے بات چھوٹی
جب ان کی مانگ ہی ہے جان لیوا
تو کیوں پیچھے پڑی ہے پھر یہ چوٹی
کہاں گوجرانوالہ کے بٹیرے
یہاں ملتی نہیں ہے دال روٹی
مفاد ذات پہلے دیکھتے ہےں
یہی ہے لیڈروں کی اک کسوٹی
جو بھاگیں گے چرا کر قومی دولت
نہ ان کی ہاتھ آئے گی لنگوٹی
نہ جانے ہو گا کیا انجام ان کا
ابھی سے نیتیں ہےں جن کی کھوٹی
ہمارا کی انہیں احساس ہوگا
کہ ان کے دل ہےں بے حس توند موٹی
حسینہ وہ کہ جس دل کا حسیں ہو
بلا سے شکل ہو کالی کلوٹی
ہےں جن چار بچے ایک روٹی
نصیبوں مےں کہاں ہے ان کے بوٹی
یہی ہر وقت ساغر سوچتا ہے
برے ہےں رہنما یا قوم کھوٹی؟
ریاض الرحمن ساغر
عمران تک رہیئے
بھابی جمائما کو نہ الزام دیجئے!
عمران خان کا ان سے تو بدلہ نہ لیجئے
مانا کہ لب و لہجہ سیاست کا ہے یہی
جھوٹے لبوں پہ بات اچھلتی ہے ان کہی
عمران کی کہی کا دو عمران کو جواب
اس کی جمائما کو سزا کیوں ملے جناب
ہیرو وہ اپنے شعبے کا جان عوام ہے
محبوب اک جہان مےں اس کا بھی نام ہے
خاتون اب جو اس کی شریک حیات ہے
اس رو سے احترام کے لائق وہ ذات ہے
اس نے کسی کی ”سیتا“ پہ انگلی نہیں دھری
بینکوں سے قرض لے کے تجوری نہیں بھری
چندہ لیا تو صرف کیا کار نیک پر
کینسر کا ہسپتال ہے ظاہر ہر ایک پر
اس کا قصور ہے کہ سیاست مےں آگیا
شفاف قلب لے کے غلاظت مےں آگیا
اب آگیا تو ڈٹ کے لڑے جنگ انتخاب
اس کی ریاضتوں کا ملے گا اسے ثواب
ریاض الرحمن ساغر
زبردست۔ ذہنیت پست
کہتے ہےں اپنے منہ سے، ہے امریکہ زبردست
دعویٰ بلند و بانگ سہی، ذہنیت ہے پست
دنیا کے جاہ و حشم پر اترا رہا ہے بش
ہوتا نہیں خدا کبھی ایسے بیاں سے خوش
لے ڈوبتا ہے قوم کو لیڈر کا بڑا بول
نکلے جو اس زبان سے پہلے وہ لفظ تول
طاقت کے بل پہ دنیا کو دو گے اذیتیں؟
مانے گا کونامن کی جھوٹی نصیحتیں؟
امریکہ سے ہے دنیا کی نفرت کا یہ سبب
انسان کے حقوق کا کرتا نہیں ادب
ہاتھی کی سونڈ ہی مےںگھس جائے اب عراق
پاگل بھی ہو چلا ہے جو پہلے تھا صرف مست
ہوگا وہ حشر برپا کہ بدلے گا یہ نظام
قبل اس کے بند توبہ کے در ہو چکیں تمام
اے بش معافی اپنے خدا سے تو مانگ لے
ایسا نہ ہو گناہوں کی ہر حد تو پھلانگ ہے
دنیا مےں بانٹ مہر و وفا اور محبتیں
امریکہ کو ملیں گی نہ بدلے مےں نفرتیں
کر دے غریب ملکوں سے غربت کا خاتمہ
گر تو ہے زبردست تو پھر کیوں ہے تنگ دست؟
ریاض الرحمن ساغر
پی ٹی وی سالانہ ایوارڈ
پی ٹی وی ایوارڈ کی محفل جاری ہے
اک انور ہے ایک ”بشریٰ انصاری“ ہے
دونوں باہم بھائی بہن منہ بولے ہےں
اور ان پر قربان کراچی ساری ہے
اک دوجے کی تعریفیں کمپیرنگ مےں
چھری معین اختر کی بھی دو دھاری ہے
”تھری ان ون“ کا کھیل کراچی مرکز پر
ہر اک شو اس ٹیم کی ذمہ داری ہے
ان تینوں کی اپنی اپنی خوبی ہے
”سیلف پریزنگ“ تینوں کی بیماری ہے
سہ رکنی یہ ”کونسل آف کمپیئرز“ ہے
چوتھے کی رکنیت مےں دشواری ہے
پی ٹی وی ایوارڈ تو یہ سالانہ ہے
آئندہ اکتوبر اس پر بھاری ہے
اس مےں شامل نہیں کلاسیکل میوزک
”پوپ“ سے یاری، اس کی خاطر داری ہے
”ایمن“ کی آنکھوں مےں غم کے آنسو ہےں
اور سکتے کے عالم مےں ”درباری“ ہے
پوچھے کوئی حال ”میاں کی ٹودی“ کا
ساغر ”بھیروں“ پر تو رقت طاری ہے
ریاض الرحمن ساغر
قومی زباں کی بات
یادش بخیر! پھر چلی، قومی زباں کی بات
صد شکر! طاق نسیاں کو اُٹھا کسی کا ہاتھ
آزاد ہےں تو فکر و نظر کیوں رہیں غلام؟
اُردو زباں کو کیوں نہ ملے دفتری مقام
اس جاں بلب کو پھر کسی ”وائیں“ کی ہے تلاش
بننے سے جو بچائے اسے ایک سرد لاش
”پی ٹی وی“ پر دست تلفظ نہیں رہا
مدت سے ریڈیو نے نہیں مستند کہا
اُردو مےں لفظ و لہجہ¿ انگریزی عام ہے
قومی زباں کی آن و انا ریزی عام ہے
سیکرٹری ثقافت صوبہ ہےں، اشک خیز
حس لطیف رکھتے ہےں اُردو ادب مےں تیز
سنتے ہےں اہلیہ ہےں گورنر کی شاعرہ
ہو زیر اہتمام جو ان کے مشاعرہ
اردو کا حال زار گورنر سے ہم کہیں
اس کو حرم مےں اپنے رکھیں جب تلک رہیں
اک بار جو یہ ”قصر گورنر“ مےں آئے گی
ایوان صدر مےں کبھی راہ پائے گی
تحریک اب چلی ہے تو ”شوکت“ سے یہ چلے
بہتر ہے اب عنان حکومت سے یہ چلے
اس کے لئے جو تم نے بھری آہ ”شاہ جی“
کچھ کیجئے! کہ لوگ کہیں واہ شاہ جی
ریاض الرحمن ساغر
مہنگائی نے چھکے چھڑا دیئے
پٹرولیم کے نرخ فلک پر چڑھا دیئے
اوپر سے ویگنوں کے کرائے بڑھا دیئے
دشوار کر دیں اور غریبوں کی منزلیں
مہنگائی نے کچھ اور ستم ان پہ ڈھا دیئے
بجلی کے نرخ پہلے ہی جاں لیوا کم نہ تھے
جھٹکے نے سوئی گیس کے چھکے چھڑا دیئے
غربت مےں ایک دن ذرا جی کر دکھائیں تو
کہتے ہےں جو عوام کے شکوے مٹا دیئے
بنوا لئے لٹیروں نے اپنے لئے محل
ٹوٹے ہوئے گھروندوں کے چولہے بجھا دیئے
اس ملک مےں رئیسوں نے پالے ہوئے ہےں سگ
اور ”صائمہ“ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیئے
مرنے کے بعد کرنا نہ ”نصر اللہ“ سے سوال
کیوں تم نے ”پارساﺅں“ کے چہرے دکھا دیئے
سب کر رہے ہےں ”میرا“ سے شکوہ کہ جانِ من
کیوں تم نے بزم غیر مےں جلوے دکھا دیئے
نکلیں جو تام جھام سے شاپنگ کو بیگمات
رشوت کے نوٹ ایک ہی دن مےں لٹا دیئے
ایماندار لوگوں کی روتی ہےں بیویاں
بچوں کے جیب خرچ جنہوں نے گھٹا دیئے
”لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ¿ امید“
خوش فہمیوں کے سارے دیئے ہی بجھا دیئے
ریاض الرحمن ساغر
اے جھوٹے بش
اے بش! تجھ کو پہچان نہیں
جھکنا مومن کی شان نہیں
نعرہ یہ پاکستان کا ہے
کشمیر نہیں یا جان نہیں
تو جذب جہاد کو کیا سمجھے
تو نے تو پڑھا قرآن نہیں
محبوبہ، موت مجاہد کی
یونہی تو اونچی شان نہیں
بھارت تیرا پروردہ ہے
تجھے پیارا پاکستان نہیں
منظور کریں امریکی حل
اتنے بھی ہم نادان نہیں
آئیں گے نہ تیرے جھانسے مےں
تو اک عادل انسان نہیں
تو چاہتا ہے ”نیو ورلڈ آرڈر“
یہ اتنا بھی آسان نہیں
تری چوکھٹ پر جو جھک جائے
کمزور اتنا ایمان نہیں
ہوگا بھگوان تو بھارت کا
تو دنیا کا بھگوان نہیں
ریاض الرحمن ساغر
تھیٹر فحاشی۔ آرٹس کونسل
لو نہ بڑھے اگر دل کے دیئے کی دُور اندھیرا کیسے ہو
چیریں نہ کرنیں رات کا سینہ یار سویرا کیسے ہو
کم ہو فحاشی کیا تھیٹر مےں جب نہ جلیں کچھ نئے دیئے
لوگ بلائے، اک میٹنگ کی، اور پھر بستے باندھ لئے
ہوتا کیا ہے آرٹ اور کلچر کچھ بھی جنہیں معلوم نہیں
خوش ہوتے ہےں پاس بٹھا کر شام کو چہرے چار حسیں
دیتی ہے سرکار گرانٹیں ایسے چند اداروں کو
دیتے ہےں ترجیح جو اہل فن پر اپنے پیاروں کو
بامقصد اور معیاری اسٹیج سجے بھی تو کیسے؟
خانہ پری مےں ہو جاتے ہےں خرچ گرانٹوں کے پیسے
ہو کر جب تبدیل کوئی باذوق افسر آجاتا ہے
محنت اور دیانت سے ہر الجھن کو سلجھاتا ہے
مکھیاں مارنے والا عملہ اس کے آڑے آتا ہے
وہ بیچارہ سکریٹریٹ مےں دل کو تڑپاتا ہے
سوچتا ہے تتر بتر گرگوں کا گھیرا کیسے ہو
ختم فحاشی کا ہر اک تھیٹر سے ڈیرہ کیسے ہو
میز پہ اس کی، کئی مسائل اور بھی ہوں حل کرنے کے
کیا کر سکتا ہے پھر وہ سوائے بیٹھ کے آہیں بھرنے کے
یا رب سچے افسر کو اچھا اور سچا عملہ دے
یا پھر بڑے عملے کو، کوئی افسر بگڑا، کملا دے
ریاض الرحمن ساغر
گورنر۔ بھیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
کچھ بھیڑیئے بیٹھے ہےں جہاں فیس بدل کر
اس نگری مےں رشوت بنا پتہ نہیں ہلتا
انصاف نہیں عدل کے ایوان مےں ملتا
ہو عام اہل کار کہ ہو وہ کوئی ریڈر
فائل کو اڑاتا ہے جو نوٹوں کو لگیں پر
سائل کوئی مفلس ہو تو سنتا نہیں فریاد
پھرتے ہےں مصیبت زدہ ہر موڑ پہ ناشاد
بکتی ہے سرعام جہاں جھوٹی گواہی
منشی یہ وکیلوں کے عدالت کے سپاہی
ہر قاعدے قانون کو اک کھیل بنا کر
لے آتے ہےں مظلوم پہ کچھ ایسی تباہی
ہوتی نہیں ملزم کی کئی ہفتے ضمانت
رکھ دیتے ہےں بیچارے کا یہ کیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
پھر دیکھئے حالات کبھی جیل مےں جا کر
قیدی سے کریں بات کسی جیل مےں جا کر
رہ جائیں گے سر تھام کے پھر آپ گورنر!
ہر طرح کے ہوتے ہےں وہاں پاپ گورنر!
اک تھانے مےں جانے سے کہاں بات بنے گی
یہ رات کسی سچے سویرے سے ڈھلے گی
کیا جھانکو گے تم تنہا ہر ایک اندھے کنویں مےں
بے چہرہ نظر آئے گا ہر ظلم دھوئیں مےں
درویش ہو تھک جاﺅ گے تم بھیس بدل کر
ریاض الرحمن ساغر
مزید سات سال........؟
لو جی، انہوں نے مانگ لئے اور سات سال
کہتے ہےں ملک و قوم کو کر دیں کے وہ نہال
شامل جو پچھلے تین کریں اگلے سات سال
ہم اپنی ڈھلتی عمر سے دیں دس برس نکال
آئندہ سامنے جو نئے چہرے آئیں گے
کیا آج ان کے بارے مےں ظاہر کریں خیال
ہر راہ بر کے پیچھے چلیں اور دُکھ سہیں
منزل کہاں ہے؟ پوچھیں کسی سے ہے کیا مجال
ستر برس جو چاہئیں، لے لیجئے حضور
لیکن ہر اک برس مےں کوئی کیجئے کمال
اکسٹھ برس کی عمر مےں اب ہم سے جو بھی ہو
ہم کو تو نسل نو کی تباہی کا ہے ملال
لِللّٰہ اس کو رخت سفر کچھ تو دیجئے
مر جائیں ہم پہ ان کو تو جینا نہ ہو محال
قائدؒ کے بعد ہم کو تو رہبر نہیں ملا
جو آیا اس نے خود کو کہا مرد بے مثال
ڈرتے ہےں اب تو سانس بھی لیتے ہوئے کہ لب
کرتے ہےں ورد اے خدا، آئی بلا کو ٹال
ساغر کسی کے نیک ارادوں پر شک نہیں
اس ملک پر کرم کرے وہ رب ذوالجلال
ریاض الرحمن ساغر
پی ٹی وی کا پاپ میوزک؟
ناچتے ہےں بے سرے پن کو چھپانے کےلئے
بے ریاض آتے ہےں جو محفل مےں گانے کےلئے
اک مداری کی طرح بجواتے ہےں وہ تالیاں
یار بلواتے ہےں کچھ تالی بجانے کےلئے
ہر اناڑی کا کھلونا پاپ میوزک ہوگیا
ہر کوئی بیتاب ہے البم بنانے کےلئے
کوئی دے نہ دے وہ خود لے لیتے ہےں کوئی خطاب
رعب اپنا اپنے جیسوں پر جمانے کےلئے
اپنے منہ سے سُر کی رانی اور سُر کا بادشاہ
ہےں یہ اعزازات بس ہنسنے ہنسانے کےلئے
اُٹھ چکا ہے اب تو پی ٹی وی سے لے سُر کا بھرم
یہ ادارہ وقف ہے اندھوں مےں کانے کےلئے
کر دیا معیار فن کو دفن اس نے خاک مےں
کوئی کیا جائے وہاں جوہر دکھانے کےلئے
جانے کب ان بے ہنر لوگوں کا بستر گول ہو
بیٹھے ہےں جو سانپ بن کر جی جلانے کےلئے
بات اُردو مےں کریں کیسے کہ جلتی ہے زباں
کون ہے قومی زباں ان کو سکھانے کےلئے
ریڈیو ٹی وی سے اہل علم سب رخصت ہوئے
آگئے جاہل ہمارا منہ چڑانے کےلئے
بھینس کے آگے بجانا بین ساغر ہے فضول
سر ہلائے جو فقط چارہ چبانے کےلئے
ریاض الرحمن ساغر
وفاقی وزیر ثقافت۔ توجہ
ذرا دیکھئے کام ”پی این سی اے“ کا
ادارہ ہے ناکام پی این سی اے کا
ثقافت کی ترویج کی ذمہ داری
ہے نازک بہت اور کافی ہے بھاری
یہ طے ہو نہ پایا برسہا برس مےں
ہو ترجیح کیا آرٹ کے پیش و پس مےں؟
درون وطن قوم کو کیا سکھائیں
برون وطن طائفے کیسے جائیں
ثقافت کی تصویر کے رنگ کیا ہوں
فنون ہمہ گیر کے رنگ کیا ہوں
ہمارا ہے دراصل کیا ”لوک ورثہ“
ہے صدیوں پہ پھیلا ہوا لوک ورثہ
ذرا دیکھئے جا کے ”سندھالوجی“ مےں
انہوں نے ہے جھانکا ہوا ہر صدی مےں
بہت بیش قیمت عجائب ہےں ان کے
نتائج و تحقیق صائب ہےں ان کے
ادارے ثقافت کے یکجہت کیجئے
ہدایت انہیں فکر فردا کی دیجئے
دکھا کے فقط پتلیوں کے تماشے
ڈکاریں نہ لیں قوم کے فنڈ کھا کے
ریاض الرحمن ساغر
کیسے مذاکرات
ایڈوانی! کان کھول کر سن لیجئے یہ بات
کرنے نہیں اب آپ سے ہم کو مذاکرات
نخرے سدا جو ہم کو دکھاتے ہےں واچپائی
صدق و صفا کی ان مےں دکھائی نہ دیں صفات
کشمیریوں پہ رکھتے ہےں جور و ستم روا
دیکھے نہیں انہوں نے ابھی مومنوں کے ہاتھ
وہ گرگ پیر سالہ ہے معلوم ہےں ہمیں
کب تک جئیں گے وہ انہیں مکاریوں کے ساتھ
کشمیریوں کو رائے شماری کا حق نہ دیں
اک روز ہر محاذ پہ کھائیں گے ان سے مات
رکھیں گے ان پہ ظلم و ستم کب تلک روا
ہر روز اپنی پشت پہ کھاتے ہےں ان سے لات
کرگل سا زخم پیٹھ پہ پھر سے وہ کھائیں گے
ہر گز نہ ہوگی میز پہ اب ان سے ملاقات
اس کا نتیجہ جلد ہی بھگتے گا اسرائیل
بھارت سے مل کے سوچی ہے اس نے جو واردات
کشمر کا ہو یا ہو فلسطیں کا مسئلہ
امریکہ نے بگاڑے ہےں یہ سب معاملات
دنیا مےں شمس، عدل کا ہونے لگا طلوع
ہے تار تار ہونے کو ساغر غموں کی رات
ریاض الرحمن ساغر
سیاسی بہن بھائی
تازہ اور گرم تر خبر یہ آئی ہے
بےنظیر ہے بہن، نواز بھائی ہے
کیش ہوگا اب یہ ”ووٹ کارڈ“ سندھ مےں
اور اسی مےں اب تو ملک کی بھلائی ہے
”بی بی“ نے سراہا ہے”میاں“ کا یہ خلوص
شکر، سیدھے راستے پہ وہ بھی آئی ہے
پوری گر نہ مل سکے تو آدھی بانٹ لے
بات یہ بزرگوں نے ہمیں سکھائی ہے
دونوں ایک، نیک ہو کے اب اسے لڑیں
قوم کی فلاح کی جو یہ لڑائی ہے
دونوں ہی کی جان پر ہے قرض ملک کا
دونوں ہی نے کھائی دودھ اور ملائی ہے
ایک دوسرے کے خیر خواہ ہم رہیں
دشمنوں کی صف مےں آگے واچپائی ہے
جدہ اور دوبئی مےں ہے کتنا فاصلہ
درمیاں کنواں ہے اور نہ کوئی کھائی ہے
لیگ (ن) اور ”پی پی“ دونوں ایک ہوں
رُت یہ انتخاب کی پیام لائی ہے
اس کو بھی بحال اب کریں عوام مےں
دونوں ہی نے ساکھ اپنی جو گنوائی ہے
ساغر اب ضروری ہے کہ یکجہت ہوں سب
پاک سرزمین اصل مےں اکائی ہے
ریاض الرحمن ساغر
بی بی! یاد ہے؟
ہم کو پہلی بار تیرا جیل جانا یاد ہے
تجھ کو بھی کیا آج وہ منظر سہانا یاد ہے
اور پھر دیکھی ان آنکھوں نے سلاخیں ٹوٹتی
یک بیک قسمت کا تارہ جگمگانا یاد ہے
”بی بی سی“ پر یاد ہے بیباک انٹرویو ترا
ساری دنیا کو وہ تیرا چھب دکھانا یاد ہے
حلف لینا تجھ سے وہ بابے غلام اسحق کا
تیرا پریوں کی طرح وہ مسکرانا یاد ہے
اوڑھنا وہ سر پر آنچل چاند بی بی کی طرح
اور پھر تسبیح کو ہر دم گھمانا یاد ہے
ملک مےں سارے سماں وہ شادمانی کا حسیں
سات رنگوں مےں نہایا لاڑکانہ یاد ہے
مرد اول کا وہ چلنا سایہ بن کر تیرے ساتھ
عورتوں کا اپنے مردوں کو چڑانا یاد ہے
اور پھر آصف کی وہ من مانیاں کرنے کی رُت
میٹھے میٹھے سیب گھوڑوں کو کھلانا یاد ہے
جمگھٹے اور رت جگے ہر شب سوئمنگ پول پر
اور ”ٹین پرسینٹ“ کا ہر شاخسانہ یاد ہے
دفعتاً پھر تجھ کو لگنا ”آئی پی پی“ کا کرنٹ
اور تیری نیتوں کا ڈگمگانا یاد ہے
دوسراموقع بھی تجھ کو پھر سنبھلنے کا ملا
پھر لغاری جی کا تیرے آڑے آنا یاد ہے
موقع دینے کو تجھے حاضر ہےں پھر ووٹر ترے
لوٹ آ، گر جان کا داﺅ لگانا یاد ہے
ریاض الرحمن ساغر
تھوڑی سی لفٹ کرا دے
تیری اونچی شان مشرف
صدر پاکستان مشرف
میری عرضی مان مشرف
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
قومی یا صوبائی دے دے
مےں توں ہوں ہرجائی دے دے
”نون“ کا بڑے ”ق“ کا ہو
چاہے وہ ”انصاف“ کا ہو
چودھری کا پی اے ہوں مےں
وہ ہے ان پڑھ بی اے ہوں
جو کہے گا مان لوں گا
ہر اشارہ جان لوں گا
گرچہ سکہ کھوٹا ہوں مےں
پھر بھی تیرے کام آﺅں گا
اک پرانا لوٹا ہوں مےں
جب کہو گے پھر جاﺅں گا
میرا ہے ایمان مشرف
پہلے پاکستان مشرف
مجھ کو تو پہچان مشرف
میری عرضی مان مشرف
مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
ریاض الرحمن ساغر
راہی ملک عدم
”راہی“ اک اور راہی ملک عدم ہوا
شامل غم حیات مےں ایک اور غم ہوا
صف بچھ گئی ہے آج ”ترنجن“ مےں سوگ کی
نقش خیال یار جو نقش قدم ہوا
خود اس نے اوڑھ لی ہے دوپٹوں کی چھاﺅں اب
جب زندگی کی دھوپ سے رشتہ قلم ہوا
جب دل کے ”سنجے بوہے“ بھی وہ کر چکا تھا بند
”تاروں“ کی لو مےں چاند“ کو رستہ بہم ہوا
پچھتایا عزرائیل بھی سن کر ”نکئی جئی ہاں“
”احمد کی موت کا اسے صدمہ نہ کم ہوا“
بعداز ”قتیل“ راہی کو للچا رہی تھی موت
اس کی بلا سے برپا الم در الم ہوا
کیا چھپ سکیں گی خاک مےں یہ ساری صورتیں
دیکھیں گے ان کو لالہ و گل مےں، جو دم ہوا
سوچا ہے اب نہ اس کی پرستش کریں گے ہم
کعبے مےں دل کے پیدا جو کوئی صنم ہوا
یاروں کی چاہتوں کے بھی سب بھید کھل گئے
رسوا قدم قدم پہ جو میرا بھرم ہوا
ساغر یہ میری آنکھ ہی پتھرا نہ گئی ہو
دل رویا اور پلکوں کا پردہ نہ نم ہوا
ریاض الرحمن ساغر
قیامت؟
اعزاز مےں ڈھل گئی رسوائی
نیکی کی شہرت گہنائی
ماتھے کا جھومر جھوٹ بنا
سولی پہ چڑھ گئی سچائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
جو جتنا بھی بدنام ہوا
اتنا ہی اس کو نام ملا
جو صبح کو قاتل کہلایا
معصوم صفت وہ شام ملا
انصاف سے دنیا بھر پائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ہر جا دوہرے معیار ہوئے
اک چہرے والے خوار ہوئے
جینے کا درس جو دیتے تھے
مر جانے کو تیار ہوئے
اس حد تک بڑھ گئی مہنگائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
سب چور لٹیرے باعزت
بے رحم وڈیرے باعزت
ہر سمت اندھیرے باعزت
یہ روشنیوں کی پسائی؟
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ریاض الرحمن ساغر
بچگانہ سوال
بولو بچو! صدر کی مٹھی مےں کیا ہے؟
آنے والے کل کے نصیب کا لکھا ہے!
کل کا نصیب تمہیں کیسا لگتا ہے؟
آنے والی گھڑیوں کا کس کو پتہ ہے!
سیکھا نہیں تم نے کیا گر کے سنبھلنا؟
ہم نے تو ابھی تک سیکھا نہیں چلنا!
ہم کو دکھاﺅ ذرا کھڑے ہو کے پاﺅں پر؟
دیکھ تو رہے ہو ہم پاﺅں پہ کھڑے ہےں!
پھر بھی کمر تک گڑھے مےں گڑے ہےں!
ہم کو سہارا دے کر گڑھے سے نکالو!
اپنی خطا کا بوجھ ہم پہ نہ ڈالو!
ایسے مےں کرے گا کون مدد ہماری؟
جن کی غلامی مےں یہ عمر گزاری!
ہم نے تو باندھی تھیں تم سے امیدیں
بکا ہوا مال ہم کیسے خریدیں؟
اپنا بنا لو ہمیں دے کے بڑی بولی!
گھر مےں تو خالی ہے اناج کی گھڑولی!
ہم نہ رہے تو تم پھر کہاں جاﺅ گے؟
ہم تو سمجھتے تھے تم ہی بتاﺅ گے؟
کرتے ہو تم ہمیں کیوںشرمندہ؟
ہم کو اُٹھا سر، رہنا ہے زندہ
ریاض الرحمن ساغر
عالمی ریکارڈ!
سانپوں اور بچھوﺅں مےں رہتے ہےں
الوﺅں اور بجوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
شہر کے جنگلوں مےں رہتے ہےں
چوروں اور ڈاکوﺅں مےں رہتے ہےں
کرگسوں کے پروں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
ہم بھی دبکے، گھروں مےں رہتے ہےں
حوروں اور گلرخوں مےں رہتے ہےں
رند ہےں میکدوں مےں رہتے ہےں
ہے وڈیروں کا عالمی ریکارڈ
خون پی کر نشوں مےں رہتے ہےں
کھٹملوں، پسوﺅں مےں رہتے ہےں
موٹی موٹی جوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے غریبی کا عالمی ریکارڈ
قید اندھے کنوﺅں مےں رہتے ہےں
جاہلوں احمقوں مےں رہتے ہےں
خواب کی جنتوں مےں رہتے ہےں
ووٹروں کا ہے عالمی ریکارڈ
بے وفا لیڈروں مےں رہتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
ہم آزاد یا غلام؟
کیوں تہہ دام پر ہمارے ہےں؟
پہرہ غیروں کا گھر ہمارے ہےں
توڑنے چاہئیںہمیں جو صنم
ان کی چوکھٹ پہ سر ہمارے ہےں
جن پہ قابض ہےں اب ہنود و یہود
ملک وہ بیشتر ہمارے ہےں
غور سے دیکھ کارواں سالار
راہزن، ہمسفر ہمارے ہےں
نیک و بد کا انہیں نہیں ادراک
ہائے، کیا دیدہ ور ہمارے ہےں
لٹ گئے اپنی محنتوں کے ثمر
باغبانو! شجر ہمارے ہےں
جب یہ طے ہے وہ چور ڈاکو تھے
کیوں کھلے ان پہ در ہمارے ہےں
بولو آزاد ہےں کہ ہم ہےں غلام
پوچھتے کرکٹر ہمارے ہےں
کیوں کھلے پھر رہے ہےں دہشت گرد
قید مےں ”ڈاکٹر“ ہمارے ہےں
کیوں نہیں اس زمیں پہ اپنا راج
جبکہ شمس و قمر ہمارے ہےں
ہم سے ناراض ہے خدا ساغر
نالے بھی بے اثر ہمارے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
لوگ تشہیر کو ترستے ہےں
وہ جو اخبار مےں تصویر کو ترستے ہےں
اپنی ہی ذات کی تشہیر کو ترستے ہےں
سامنے جاتے ہےں جب کیمرے کے بھاگ کے وہ
اپنی پرکاری تقدیر کو ترستے ہےں
ایسے لمحوں مےں مجھے اپنے پہ پیار آتا ہے
لوگ جب مجھ سے بغلگیر کو ترستے ہےں
شوق سے ہوتے ہےں کچھ لوگ اسیر محفل
ہم مگر زلف کی زنجیر کو ترستے ہےں
لوگ دہراتے ہےں جب عادت چمچہ گیری
ہم تو اس بزم مےں کفگیر کو ترستے ہےں
ہم تو کہتے ہےں اے کاش جگر مےں اترے
صدق و سچائی کے ہر تیر کو ترستے ہےں
ملتے رہتے ہےں ہمیں پیر جواں سال مگر
ہم تو دیدار بت پیر کو ترستے ہےں
حسن مےں کم تو نہیں وادی کاغان و سوات
پھر بھی ہم وادی کشمیر کو ترستے ہےں
قاسمی فیض جگر جوش سبھی سے پڑھ کر
لوگ کیوں میر تقی میر کو ترستے ہےں
جانے کیا جادو اثر ترا سخن ہے غالب
ہم تری شوخی تحریر کو ترستے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
سستی بجلی مہنگے سانس
دوستو! دو ہزار پانچ کے بعد
ہونگی جو بستیاں نئی آباد
ان مےں ہم ایک گھر بنائیں گے
سستی بجلی وہاں لگائیں گے
آﺅ تب تک رہیں اندھیرے مےں
انہی مہنگائیوں کے گھیرے مےں
تین برسوں کی رات ہے باقی
تھوڑی سی دیر ہے سویرے مےں
نرخ ہر روز بڑھتے جائیں گے
آسمانوں پہ چڑھتے جائیں گے
کیا خبر دو ہزار پانچ تلک
ہم سے بدحال جی بھی پائیں گے
طے ہے یہ جو بھی ہم کمائیں گے
پہلے یوٹیلٹی بل چکائیں گے
سانس لیں گے ادھار کے پھر ہم
آخرش خود کو بیچ کھائیں گے
جینے کو نت نئے دلاسے ہےں
بس کہ مایوس بھی نہیں ہم لوگ
اپنے شاہانہ خرچ کم کر دیں
اتنے کنجوس بھی نہیں ہم لوگ
قرض چڑھتا ہے چڑھتا جائے گا
حوصلہ پھر بھی بڑھتا جائے گا
ریاض الرحمن ساغر
تیرے نثار اے جانانہ!
جو تم ہو سنگ تو دیوانہ مجھ کو ہونا ہے
کہ قیس و لیلیٰ کا افسانہ مجھ کو ہونا ہے
جو شمع جلتی ہے ہر شب مزار قائد پر
اسی کے عشق مےں پروانہ مجھ کو ہونا ہے
اس آرزو مےں کہہ کہ مہکے یہ گل زمیں میری
پلا کے خوں اسے نذرانہ مجھ کو ہونا ہے
تو اپنے ہاتھوں مےں چمکا کے رکھ مجھے ساقی
کہ نسل نو کا بھی پیمانہ مجھ کو ہونا ہے
تجھے مےں کیوں نہ سنواروں اے سوہنی دھرتی
تیرے نثار اے جانانہ! مجھ کو ہونا ہے
شراب حب وطن پر نہیں ہے پابندی
تو آﺅ میکشو! میخانہ مجھ کو ہونا ہے
مری منڈیر پہ بھی فقر کا چراغ جلے
فقیر شہر کا کاشنہ مجھ کو ہونا ہے
رچاﺅ کانوں مےں میرے سحر کو بانگ در
خودی کا نعرہ مستانہ مجھ کو ہونا ہے
وہ جن کے نام سے بدنام سبز پرچم ہو
اب ایسے لوگوں سے بیگانہ مجھ کو ہونا ہے
اب آگیا ہے جو ساغر مری انا کا سوال
ہر ایک خوف سے انجانا مجھ کو ہونا ہے
ریاض الرحمن ساغر
کوئی محرم راز؟
مےں حال سناتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
کچھ دیتا پتہ منزل کا
مجھ کو دم ساز جو ملتا
وہ میرے درد بٹاتا
مجھے سیدھی راہ دکھاتا
کوئی پیر فرید جو ہوتا
مےں اس کے واری جاتا
ہر زخم دکھاتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
وہ بادل بن کر میرے
دل ٹوبے پر چھا جاتا
اور اتنا مینہ برساتا
جینے کا مزہ آ جاتا
حل سمجھاتا مشکل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
دلہن بن جاتی روہی
گر دُلہا ملتا کوئی
جی اٹھتی سسی تھل کی
باہوں مےں یار پنل کی
پھر اس کا چہرہ کھلتا
کوئی محرم راز جو ملتا
کنوں حال سناواں دل دا؟
کوئی محرم راز نہ ملدا؟
ریاض الرحمن ساغر
شیروانی مےں!
سیل جمہور کی روانی مےں
آگئی نئی لہر پانی مےں
اب تو ملاح بھی ہو کشتی کا
صرف اور صرف شیروانی مےں
پوری سرحد یہ فوجی طاقت ہو
جو نظر صاف آئے، بھارت کو
اور اس کی کماں ہمہ وقتی
مستحق ہاتھ کو عنایت ہو
اب یہی وقت کا تقاضا ہے
نیا کردار ہو کہانی مےں
صدر کی عسکری صلاحیت
قوم کے یوں بھی کام آئے گی
مستعدی سے سرحدوں پر جب
فوج اپنا مقام پائے گی
اک نئی کھلبلی مچے گی پھر
واجپائی کی راج دھانی مےں
اور اب جو وزیراعظم ہو
لیس ہو اختیار کامل سے
راہ کے موڑ کو سمجھتا ہو
اور آگاہ اپنی منزل سے
دشت ناکام سے جو لے جائے
ہم کو فردوس کامرانی مےں
ریاض الرحمن ساغر
انتخانی نتائج
پل مےں خربوزے پپیتے ہوگئے
ہار کر کچھ لوگ ”جیتے“ ہو گئے
ہوگئیں ان پر کرم کی بارشیں
سر بسجدہ جو مسیتے ہوگئے
معجزوں جیسی ہوئیں تبدیلیاں
رات بھر مےں شیر چیتے ہوگئے
کل بھی دیکھا ہم نے، کل دیکھیں گے پھر
بھوکے ننگے کھاتے پیتے ہوگئے
آنکھوں آنکھوں مےں ہوئے قول و قرار
دل کے سودے چُپ چپیتے ہوگئے
دل مےں تھی اچھے دنوں کی جن کے آس
ان کے اچھے دن تو بیتے ہوگئے
ہےں غریبوں کے مسائل جوں کے توں
عام جب سے سرخ فیتے ہوگئے
اک برہنہ تیغ ”قانون ہتک“
ہونٹ سچائی کے سیتے ہوگئے
مسئلے اللہ والوں کے بھی حل
دو نفل شکرانہ نیتے، ہوگئے
آج تک ساغر تمہارے سارے کام
نیک نیت سے جو ”کیتے“ ہوگئے
ریاض الرحمن ساغر
وقت کی بے درد آندھی
زندگی کو درد دیتی
راستوں کو گرد دیتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
سوکھے پتوں کو اُڑاتی
شہہ بطوطوںکو گراتی
ثبت کرتی بے ثباتی
حوصلوں کو آزماتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
محل امیدوں کے ڈھاتی
خاک مےں ارماں ملاتی
آنکھ سے سپنے چراتی
ہر طرف طوفاں اٹھاتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
تھام لو جذبوں کی باہیں
لے لو رشتوں کی پناہیں
اشک بن جائیں گے موتی
گیت بن جائیں گی آہیں
تب رُکے گی شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
ریاض الرحمن ساغر
توں لنگھ جا
کی کریئے بگانہ شہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر گھڑی بریک تے پیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر کسے نوں کتنی جلدی اے
جیویں گھر وچ اگ پئی بلدی اے
مل کجھ دی ایتھے صبر دا نئیں
بس قیمت اک اک پل دی اے
رکشے ویگن دا بیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
اسیں گلیاں وچ چلا لاں گے
تھوڑا پٹرول بچا لیں گے
چھڈ رکشا ویگن پا لیں گے
فیر اسیں وی آڈا لاں گے
ہالی غربت دی لہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
دل کردا اے سگنل توڑ دیاں
کیوں اک سواری چھوڑ دیاں
میرا غصہ رب دا قہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ریاض الرحمن ساغر
بے ثبات زندگی
دَور جاتا ہے دَور آتا ہے
اور کے بعد اور آتا ہے
گردشِ وقت کو ثبات نہیں
لمحہ لمحہ ہمیں بتاتا ہے
ہوگا وہ جو خدا کو ہے منظور
ہونی، انہونی، وہ بناتا ہے
کوہساروں کے دل لرزتے ہےں
جب کبھی وہ زمیں ہلاتا ہے
آدمی زندگی کا شیدائی
زندگی سے فریب کھاتا ہے
لے کے خورشید اپنی تابانی
شام ڈھلتے ہی ڈوب جاتا ہے
چڑھتا دریا کناروں سے باہر
کیسی خرمستیاں دکھاتا ہے
اور پھر دیکھ اس کی پسپائی
اپنی ہی تہہ مےں جا سماتا ہے
پتھروں کے محل بنا کر بھی!
آدمی ریت اوڑھ پاتا ہے
صرف دو گز زمین ہے اپنی
اور یہ آسمان چھاتہ ہے
ریاض الرحمن ساغر
قانون ہتک
چاند کا داغ چھپائیں تو صداقت کیا ہے؟
چور کو چور نہ لکھیں تو صحافت کیا ہے؟
خود ہی ملحوظ نہ رکھے جو قلم کی حرمت
اس قلم کار کی خود اپنی بھی عزت کیا ہے
اثر تحریر مےں ہوتا ہے جو روشن ہو ضمیر
ورنہ اس پیشے مےں رہنے کی ضرورت کیا ہے
اپنے جذبوں کی عدالت مےں جو خود پیش رہے
اس پہ دنیا اس کی تعزیر و عدالت کیا ہے
کسی قانون مےں سچ بولنا ہے جرم کہاں
ایسے قانون کی در پردہ حقیقت کیا ہے
آج معیار صحافت کا ہے منصف قاری
اسے معلوم ہے پیمانہ ذلت کیا ہے
ظلم کا چہرہ دکھانے پہ جو پابندی ہو
حق مظلوم دلانے کی ضمانت کیا ہے
ہوں نہ شائع جو کرپشن کی، ستم کی خبریں
پھر کسی شعبے مےں اصلاح کی صورت کیا ہے
بدمعاشوں کی، بُرے لوگوں کی عزت کیسی؟
ان کو قانون کی رو سے یہ رعایت کیا ہے
بارہا کہہ چکے ”جنرل“ کہ پریس ہے آزاد
پھر یہ ”قانون ہتک“ اور یہ حجت کیا ہے؟
ریاض الرحمن ساغر
رُوحِ بے ضمیر
مےں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں
محدود میری ذات کے محور مےں میری سوچ
بیدار و ہوشیار، بقید حواس ہوں!
مےں نے فصیلِ جاہ پہ ڈالی سدا کمند
ہر پُرکشش مقام کے مےں آس پاس ہوں
سچ ہے کہ مجھ کو سچی مسرت نہیں ملی
ہر لمحہ سوچتا ہوں کہ مےں کیوں اُداس ہوں
یہ کیا کہ مال و زر کا لہو منہ کو آ لگا
پروردہ، ہوس ہوں مےں دوزخ کی پیاس ہوں
رومال رکھ کے ناک پر آتے ہےں لوگ پاس
مےں ایک زندہ لاش کے مدفن کی باس ہوں
مجھ پر وفا کا بوجھ نہ ڈال اے مرے وطن
مےں سنگ بے حسی کا بت بے اساس ہوں
ماضی کا کوئی فخر نہ فردا کا عزم خاص
مےں نسل نو کی ناقص و بیکار آس ہوں
مجھ کو کسی غریب گھرانے کی فکر کیا
مےں صرف اپنے گھر کے لئے خوش قیاس ہوں
ہمسر ہے کوئی میرا نہ ہے ہموطن کوئی
مےں ایک خاندان ہوں اور اک کلاس ہوں
ساغر مجھے خدا کا کوئی واسطہ نہ دے
مےں کفر کا اسیر ہوں بھگوان داس ہوں
ریاض الرحمن ساغر
نئے وفاقی وزیر اطلاعات
سچا قلم نجات کا ساماں ہے شیخ جی
جھوٹے کی عمر، عمر پریشاں ہے شیخ جی
جینا بہت محال ہے سچائیوں کے ساتھ
پر عاقبت سنوارنا آساں ہے شیخ جی
سونپا ہے آپ کو جو قلمدان اطلاع
ثابت کریں کہ آپکے شایاں ہے شیخ جی
پہلی خبر تو ریڈیو، ٹی وی کی لیجئے
مغرب زدوں کا حلقہ یاراں ہے شیخ جی
”پی ٹی وی“ بھرے ہے جو ”زی ٹی وی“ کا سوانگ
”ناچوں“ کا رنگ اس مےں فراواں ہے شیخ جی
اب اس کو پاک کیجئے خواجہ سراﺅں سے
یہ قوم ننگ و ناچ سے نالاں ہے شیخ جی
قابض ہےں اس پہ بے سرے فنکار و گلوکار
عریانی اشتہاروں کا عنواں ہے شیخ جی
ہوتے ہےں نجی شعبے سے سودے کمشن پر
اس دھاندلی پہ ہر کوئی حیراں ہے شیخ جی
اب لایئے یہاں بھی کوئی ایسا سربراہ
ابلاغ مےں جو فرد نمایاں ہے شیخ جی
جھاڑو سے گند کیجئے اس میڈیا کا صاف
ہم بھی کہیں کہ آپ کا احساں ہے شیخ جی
ریاض الرحمن ساغر
مادرِ ملت کے گارڈ!
میر ظفر اللہ جمالی مادرِ ملت کے گارڈ!
ہو مبارک آپ نے پایا ہے خدمت ایوارڈ
”ہر کہ خدمت کرد اور مخدوم شد“ ثابت ہوا
قائد ایوان کا جو مرتبہ اونچا ملا
قوم کی اب آپ سے وابستہ امیدیں ہےں خاص
اس برس جو آئیں گی وہ دونوں ہی عیدیں ہےں خاص
راستہ جمہوریت کا صاف و سیدھا کیجئے
حلف اب جو بھی لیا ہے اس کو پورا کیجئے
ہر سدا ایوان کی اب غور سے سینئے جناب
آکے خود ایوان مےں دیجئے سوالوں کا جواب
ملک کو اب قرض سے آزاد ہونا چاہئے
مفلسوں اور بے کسوں کو شاد ہونا چاہئے
قائدؒ و اقبالؒ کے اقوال ہوں پیش نظر
آپ میر کارواں ہےں قوم ہے محو سفر
ہو کے اب یکجہت کھوئی منزلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر بھنور کو چیر کر اب ساحلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر کس و ناکس کے اب جھوٹے قصیدے مت سنیں
ساتھ اپنے جن وزیروں اور سفیروں کو چنیں
ان مےں سے ہر ایک کا اعلیٰ بہت معیار ہو
صاحب ایمان ہو اور صاحب کردار ہو
آپ کو ملت نے کرسی کی امانت سونپ دی
سوہنی دھرتی کی تعمیر و حفاظت سونپ دی
ریاض الرحمن ساغر
سرکار ہے رقصاں
قلم کی آبرو یارو تہہ تلوار ہے رقصاں
کہ جیسے قطرہ¿ شبنم بنوکِ خام ہے رقصاں
کوئی اس شوخ حرافہ کے گھنگرو چھین لے یا رب
قیامت کی جو مہنگائی سر بازار ہے رقصاں
طوائف آگئی کوٹھی مےں، اپنا چھوڑ کر کوٹھا
مےں سجدے مےں گرا ہوں، وہ پس دیوار ہے رقصاں
کوئی تو پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹے
کلی سہمی ہوئی، بھنورا سر گلزار ہے رقصاں
یہاں پر عدل اور قانون بالا دست کیا ہونگے
کہ ملزم رقص بسمل مےں ہے، تھانیدار ہے رقصاں
حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے چونکہ ”متحدہ“
تو اب اس کو رجھانے کےلئے سرکار ہے رقصاں
اتر آئے کسی شیشے مےں آزادی صحافت کی
قلم کاروں کی محفل مےں ”ہمارا یار“ ہے رقصاں
صدائیں سارے ایوانوں مےں ہےں ”قومی ترانوں“ کی
سجی ہے دُلہن جمہوریت، دلدار ہے رقصاں
نہ چھوڑے ساتھ متحدہ، پگارا جی یہ کہتے ہےں
کہ اس منزل کے آگے منزل دشوار ہے رقصاں
کوئی اچھی خبر راﺅ سکندر سے سنی ہوگی
کہ ”بی بی“ پھر کسی امید مےں سرشار ہے رقصاں
حکومت لاکھ بدلے خو نہ بدلے گی تری ساغر
جمالی کی وضع داری پہ تو بے کار ہے رقصاں
ریاض الرحمن ساغر
بہت مارتے ہےں
آئینہ ان کو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
پردہ چہرے سے ہٹائیں تو بہت مارتے ہےں
یہی بہتر ہے کہ لکھتے رہو سب اچھا ہے
اور کچھ لکھیں لکھائیں تو بہت مارتے ہےں
میری جاں قوم کے خادم نہیں آقا ہےں وہ
ان کو ہم راس نہ آئیں تو بہت مارتے ہےں
غصہ مےں آکے کرا لیتے ہےں اغوا فوراً
راہ مےں شور مچائیں تو بہت مارتے ہےں
داستاں دکھ کی سناتے ہےں ”صدیق الفاروق“
انکے کرتوت بتائیں تو بہت مارتے ہےں
اپنا قانون ہے اپنی ہے عدالت انکی
کیا کریں تھانے مےں جائیں تو بہت مارتے ہےں
کوئی بے چارہ جو آجاتا ہے قابو ان کے
بن کے ہمدرد چھڑائیں تو بہت مارتے ہےں
سچے انسان کا ہے ملک مےں جینا دوبھر
سچ کو چہرے پہ سجائیں تو بہت مارتے ہےں
رقص کرتے ہوئے محفل مےں رقاصہ بولی
ان کے ہم گیت نہ گائیں تو بہت مارتے ہےں
کچے دھاگے سے بندھی جاتی ہےں ہم تو ساغر
ناز نخرہ جو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر
حسن فطرت
پھول منہ پر نہیں دھڑکن مےں کھلاﺅ لڑکی!
حسن فطرت کی جھلک چہرے پر لاﺅ لڑکی
بھلی لگتی نہیں مصنوعی سی مینا کاری
رُخ زیبا کو نہ گلدان بناﺅ لڑکی
اہل مغرب کی لچر نسلوں کے یہ کھیل ہےں سب
ان کی تقلید مےں مت وقت گنواﺅ لڑکی
اپنے رخساروں کو رنگوں سے نہ پوتو بچی
دل کے آئینے کو رنگین بناﺅ لڑکی
زیور علم سے تن من کو سجاﺅ اپنے
کبھی گرتا نہیں اس سونے کا بھاﺅ لڑکی
کاغذی پھولوں کو کمرے مےں نہ رکھو ہر گز
گھر کے آنگن مےں کوئی بیل چڑھاﺅ لڑکی
ہم مسلماں ہےں ثقافت بھی جدا ہے اپنی
اپنے اعضاءکی نمائش نہ لگاﺅ لڑکی
لوگ پاکیزہ نگاہوں سے کریں تم کو سلام
ایسے انداز سے ہر بزم مےں جاﺅ لڑکی
پردہ نظروں کو جھکا لینے سے بھی ہوتا ہے
ہم کو اصرار نہیں چہرہ چھپاﺅ لڑکی
سرخ رخساروں کو کرتا ہے حیا کا غازہ
حسن فطرت پہ مزید آتا ہے تاﺅ لڑکی
ریاض الرحمن ساغر
خواتین اسمبلی مےں
سرگرم خواتین سیاست مےں ہوئی ہےں
کچھ ان مےں نئی ہےں تو پرانی بھی کئی ہےں
انگریز کے لہجے مےں ہےں کچھ بولتی اردو
سر چڑھ کے مگر بولتا ہے حسن کا جادو
ان مےں ہے کوئی عائلہ اور کوئی سمیرا
مردوں سے بہرحال ہے خوب ان کا وطیرہ
لگتی ہے بہت نیک مجھے حوروں کی نیت
سچ پوچھو تو ہے عائلہ کی سادی طبیعت
اک ٹی وی کے چینل پہ جو فرحت نے یہ پوچھا
اب تک تو دیا لیڈروں نے قوم کو دھوکا
وہ بولیں کہ نیت کا تو ہمراز خدا ہے
ہر ایک کا کردار الگ اور جدا ہے
اس ملک کو ہم نے ہے سری لنکا بنانا
تعلیم کے زیور سے ہے عورت کو سجانا
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ
پورا ہو خواتین کا یہ نیک ارادہ
خاتون ہےں مشہد کی جو ریحانہ ہماری
پھر حاجرہ طارق بھی تو اک بھابھی ہےں پیاری
ہم باندھ چکے ہےں بہت ان سے بھی امیدیں
یہ چاہیں تو اتریں کی گھروندوں مےں بھی عیدیں
اک بشریٰ ہےں مہناز ہےں، ہے تجربہ ان کو
ماضی مےں پڑا گرگوں سے ہے واسطہ ان کو
یہ چاہیں تو ایوان کو آنچل سے اڑا دیں
سچ بولیں تو سب جھوٹوں کے یہ چھکے چھڑا دیں
ریاض الرحمن ساغر
وہ میرا قتیل (یاد رفتگاں)
بجا کہ یاروں کا بھی یار تھا وہ میرا قتیل
مگر سوا، میرا غمخوار تھا وہ میرا قتیل
کچھ ایسا مجھ سے تعلق رہا سدا اس کا
کہ جیسے صرف مرا یار تھا وہ میرا قتیل
مےں مانتا ہوں، بہت تھے میرے علاوہ بھی
کہ جن کا دل سے طرف دار تھا وہ میرا قتیل
عدو کی شہہ پہ وہ بدظن بھی مجھ سے ہوتا تھا
کہ اس ادا کا بھی حقدار تھا وہ میرا قتیل
منافقوں کو معافی کبھی نہ دیتا تھا
وہ جانتے ہےں کہ تلوار تھا وہ میرا قتیل
سخی تھا دل کا تو ایثار کا بھی پیکر تھا
اک اعلیٰ ظرف کا مے خوار تھا وہ میرا قتیل
زبان گنگ سے بھی اس نے نعت گوئی کی
کچھ ایسا عاشق سرکار تھا وہ میرا قتیل
لڑا وہ شیر کی مانند اس علالت سے
اگرچہ ضعف سے لاچار تھا وہ میرا قتیل
امیر شہر کو خاطر مےں کب وہ لاتا تھا
انا پرست تھا خوددار تھا وہ میرا قتیل
کیا جو عشق تو ساغر اے نبھایا بھی
نڈر تھا اور وفادار تھا وہ میرا قتیل
ریاض الرحمن ساغر
مہندی
لیڈی پولیس جو تھانے مےں لگائے مہندی
کیوں کسی نک چڑھے شہری کو نہ بھائے مہندی
یہ تو آسان سا نسخہ ہے، جو پہنچے سائل
ساتھ ہوں چوڑیاں تحفے مےں جو لائے مہندی
کبھی چھترول جو ہو مہندی لگے ہاتھوں سے
رنگ کچھ اور ہتھیلی پہ کھلائے مہندی
لیڈی پولیس کے سینے مےں بھی ہوتا ہے دل
کیوں نہ پھر تھانے مےں بھی حشر اٹھائے مہندی
اور پھر ڈھلتی ہوئی عمر کی جو افسر ہو
اس کی زلفوں مےں بھی چاندی کو چھپائے مہندی
فرض ہے ”تھانے زنانے“ کے ہر اک منشی کا
”بی بی افسر“ کے لئے خاص منگائے مہندی
اور پھر ملزمہ تھانے مےں جو لائی جائے
اس کو ہو حکم، حوالات مےں گائے مہندی
شہر مےں امن و اماں کو جو ہو ابتر صورت
اپنے ایس پی کو وہ پاﺅں کو دکھائے مہندی
بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ ہر اک تھانے مےں
ایک تعطیل ہو ہر ماہ برائے مہندی
لیڈی پولیس آفیسر کی اگر شادی ہو
اس کو دعوت ہے وہ ساغر سے لکھائے مہندی
ریاض الرحمن ساغر
دُعا.... ”کھر“ کےلئے
یہی مری تو دُعا ہے جناب ”کھر“ کےلئے
کہ بیوی آخری کافی ہو عمر بھر کےلئے
”عیونیا“ جو سجی ہے وفا کے زیور سے
تو زاد راہ بہت ہے یہ اب سفر کےلئے
جو خواب آپ نے دیکھا تھا ایک بیوی کا
تو کیوں یہ ”حادثے“ دیکھے تھے رہگذر کےلئے؟
نہ تم نے ہونے دیا پیدارشتہ سوتن کا
تو گیارہ بچے ہےں انعام اس ہنر کےلئے
جو مرد سابقہ بیوی کو دے کوئی الزام
تو سنگ ہاتھ مےں رکھے وہ اپنے سر کےلئے
”عیونیا“ نے سخاوت کی تم کو دی ہے سند
پسر سنوارے ہےں تہمینہ نے پدر کےلئے
ہمیشہ مرد کو عورت معاف کرتی ہے
اسے سلام کرو اس حسیں نظر کےلئے
نہیں یہ چاہتی عورت کہ اس کا گھر ٹوٹے
وہ جان کرتی ہے قربان اپنے گھر کےلئے
جو وہ جہیز کی خاطر جلائی جاتی ہے
تو کوئی اشک نہیں بہتا اس شرر کےلئے
جو مرد کرتا ہے پامال آن عورت کی
تو کچھ سزا نہیں اس مرد فتنہ گر کےلئے
جو بیوی ایک ہے ساغر تو گھر یہ جنت ہے
یہ بیٹی حوا کی رحمت ہے بام و در کےلئے
ریاض الرحمن ساغر
بوڑھی طوائف
وہ دن کہ مےں جوان تھی
جواں دلوں کی جان تھی
وہ جان لیوا حسن تھا
کسی کو کب امان تھی
نگاہ مثل تیر، مےں
تنی ہوئی کمان تھی
سفیر تھے وزیر تھے
جو زلف کے اسیر تھے
شباب امنگ خیز تھا
بدن یہ عطر بیز تھا
نثار مجھ پہ چاہتیں
زمانے بھر کی راحتیں
تھیں ڈھیر مرے پاﺅں مےں
کشش وہ تھی اداﺅں مےں
جو مسکرا کے دیکھتی
کسی پہ جال پھینکتی
وہ جان و دل کو ہار کے
مری نظر اتار کے
جو وارتا تھا مال و زر
تھے ان مےں لعل اور گہر
وہ دیکھنے کی شان تھی
کمال آن بان تھی
پلٹ کدھر دھیان ہے
یہ پان کی دکان ہے
یہ میرا روزگار ہے
یہی مرا مکان ہے
ریاض الرحمن ساغر
سلمیٰ آغا و شاہدہ منی!
دونوں آپس مےں لڑ رہی ہےں کیوں
ایک دوجی کو تہمتیں دے کر
حد سے غصے مےں بڑھ رہی ہےں کیوں
میرا دونوں کو مشورہ یہ ہے
اس لڑائی سے اجتناب کریں
عاقبت کو سنوارنے کے لئے
نیکیاں واسطے ثواب کریں
سلمیٰ آغا بھی نرم دل ہے بہت
شاہدہ منی بھی نہیں بے درد
جو بھی اکسا رہے ہےں دونوں کو
لوگ دونوں کے وہ نہیں ہمدرد
دونوں سُر سے ہی پیار کرتی ہےں
جان لے پہ نثار کرتی ہےں
گیت دونوں نے میرے گائے ہےں
اپنی آواز سے سجائے ہےں
مجھ کو دونوں پہ پیار آتا ہے
خوش رہیں تو قرار آتا ہے
دل کی دھڑکن مےں چاہتیں بھر لیں
گیت دونوں کو مےں نئے دوں گا
اور اک پیسہ بھی نہیں لوں گا
ریاض الرحمن ساغر
تقریب پذیرائی
اپنی بھی بپا ہوتی تقریب پذیرائی
ترکیب مگر اس کی ہم کو نہ کبھی آئی
گو، کاٹھ کی اڑی سے ہوتا نہیں قد اونچا
ملتی ہے دکھانے کو دو انچ کی اونچائی
چھپتی ہے کتاب عمدہ کچھ بھی ہو مواد اس مےں
موہ لیتی ہے نظروں کو سرورق کی رعنائی
ہو شاعرہ کیسی بھی رکھتی ہو نقوش اچھے
ہو جاتے ہےں سب اس کے اشعار کے شیدائی
لہجہ ہو جواں اس کا کچھ بحث نہیں سن کی
ظاہر نہ کرے لیکن وہ عمر کی پسپائی
حاجت نہیں پھر اس کو اصلاح بھی لینے کی
رکھ سکتی ہو گر پوری دو فقروں کی لمبائی
اک نظم لکھے نثری اور پڑھ دے اداﺅں سے
ہو جائے گی سب ادبی حلقوں مےں شناسائی
ہر شہر مےں، گاﺅں مےں ایسے بھی سخنور ہےں
جس قدر کے لائق ہےں وہ قدر نہیں پائی
کہتے ہےں زباں اردو مشکل ہی سے آتی ہے
ہم نے بھی بہت سیکھی اب تک تو نہیں آئی
احباب مغنی کو مجموعے تھماتے ہےں
اور کہتے ہےں کیوں تم نے میری نہ غزل گائی
مجموعے کی فرمائش مجھ سے بھی ہوئی لیکن
بک جاتی ہے لکھتے ہی پھر کیوں بھروں چھپوائی
غالب ہے ابھی زندہ اور میر نہیں مردہ
ہے میری غزل ساغر ان دونوں سے شرمائی
ریاض الرحمن ساغر
مائیں کیوں مر جاتی ہےں؟
آل اولاد کے جیتے جی یہ مائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیون کی اس دھوپ مےں ٹھنڈی چھائیں کیوں مر جاتی ہےں
تھکا مسافر ماں کی گود مےں سر رکھ کر سستاتا ہے
ممتا کے آنچل کی سرد ہوائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کا سایہ ابر کرم ہے آقا کملی والے کا
اس کے اٹھتے ہی گھنگھور گھٹائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کی دعائیں رکھتی ہےں محفوظ دکھوں کی دنیا سے
اس کی ایک دعا سے لاکھ بلائیں کیوں مر جاتی ہےں
زندہ ہےں جن لوگوں کی مائیں وہ رب کا شکر کریں
مر کر بھی جو خوابوں مےں آجائیں کیوں مر جاتی ہےں
سہہ نہیں سکتا یار خدا بھی ماں کی آنکھوں مےں آنسو
ماں کی آہیں اس کا عرش ہلائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیتے جی جو رہ نہیں سکتیں مائیں اک پل بچوں بن
جب دنیا سے جائیں پھر نہ آئیں، کیوںمر جاتی ہےں
جب بھی کسی کی ماں مرتی ہے مےں روتا اور سوچتا ہوں
لوٹ آئیں یہ مائیں اور بتائیں کیوں مر جاتی ہےں
بھید یہ رب کے رب ہی جانے بندہ کیا جانے ساغر
کیسے اپنے دل کو ہم سمجھائیں کیوں مر جاتی ہےں
ریاض الرحمن ساغر
No comments:
Post a Comment