پروفیسر محمد نوید ازہر
استاذ شعبہ اردو، گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور
اسلامی آداب تعلیم
زیر نظر تحریر امام زرنوجیؒ کی عربی تصنیف ”تعلیم المتعلم طریق التعلم“ کا اردو ترجمہ ہے۔ امام زرنوجیؒ فقہ حنفی کی معروف کتاب ”الھدایة“ کے مصنف برہان الدین ابوالحسن ( وفات: 593ھ) کے شاگرد رشید ہیں۔ طالب علم علم اور اہل علم کے ادب اور استاد کی تعظیم و توقیر کے بغیر علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ارشاد ہے ترجمہ:
”جس کسی نے جو کچھ بھی پایا ادب سے پایا اور جو بھی جس چیز سے محروم رہا بے ادبی کی وجہ سے رہا“۔اس بارے میں وضاحت ہے: ”ادب اطاعت سے بہتر ہے‘ کیا تو دیکھتا نہیں کہ انسان معصیت سے کافر نہیں ہوتا بلکہ استخفافِ معصیت اور ترک ادب کی وجہ سے کافر ہوتا ہے“۔تعظیمِ استاد علم کی تعظیم میں سے ہے۔ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے:
”جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ ڈالے، چاہے تو آزاد کر دے، اور چاہے تو غلام ہی رکھے“۔
استاذ گرامی سدید الدین شیرازی فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ نے فرمایا ہے: جو شخص چاہے کہ اس کا بیٹا عالم بنے، اسے چاہیے کہ سفید پوش فقہاءکا خیال رکھے، ان کی تکریم کرے، ان کی تعظیم کرے۔
استاد کی تعظیم میں سے ہے کہ اس کے آگے نہ چلے، اس کی جگہ پر نہ بیٹھے، اس کی اجازت کے بغیر بات شروع نہ کرے، اس کے پاس بغیر اجازت کے زیادہ باتیں نہ کرے، اس کے اضطراب کے وقت اس سے کوئی سوال نہ پوچھے، وقت کا خیال رکھے اور دروازہ نہ کھٹکھٹائے بلکہ صبر کرے حتیٰ کہ استاد خود ہی تشریف لائے۔ حضور نے فرمایا:
”لوگوں میں سے بدترین وہ ہے جو کسی کی دنیا کی خاطر اپنا دین ضائع کر دے“۔
استاد کی اولاد اور اس کے متعلقین کا ادب بھی استاد کے ادب کا حصہ ہے۔”الھدایة“ میں حکایت ہے کہ بخارا کے ائمہ کبار میں سے ایک امام سبق پڑھاتے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے لیکن اس دوران میں کبھی کبھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ جب لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میرے استاذ گرامی کا بیٹا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مسجد کے دروازے کے سامنے آ جاتا ہے۔ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو استاد محترم کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں۔
حکایت ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو اصمعی کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ اسے تعلیم بھی دے اور ادب بھی سکھائے۔ ایک روز خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اصمعی وضو کر رہے تھے اور اپنا پاﺅں دھو رہے تھے جبکہ خلیفہ کا بیٹا ان کے پاﺅں پر پانی ڈال رہا تھا۔ خلیفہ نے اس بات پر اصمعی کو ڈانٹا اور کہا: آپ نے اسے یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے سے پاﺅں دھوئے۔
کتاب کی تعظیم بھی استاد کی تعظیم کا حصہ ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ کتاب کو بغیر طہارت کے ہاتھ نہ لگائے۔ ایک حکایت ہے کہ شیخ امام شمس الائمہ السرخسی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا تھے اور ایک رات وہ دہرائی کر رہے تھے۔ انہوں نے اس رات سترہ مرتبہ وضو کیا۔ ہمارے استاذ گرامی شیخ الاسلام برہان الدین (المرغینانی)حکایت بیان کرتے ہیں کہ کسی فقیہ نے کتاب پر دوات رکھ دی، تو شیخ نے فارسی میں فرمایا: ”برنیابی“۔ تو ثمر بار نہیں ہو گا۔ آداب ضروریہ میں سے ہے کہ کتاب کو جلّی حروف میں کتابت کرے اور باریک باریک نہ لکھے۔ امام ابوحنیفہؒ نے ایک کاتب کو باریک کتابت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیوں خط کو باریک کرتا ہے۔ اگر زندہ رہا تو شرمندگی اٹھائے گا اور اگر مر گیا تو اسے پڑھنے میں دقت کی وجہ سے لوگ تجھے برا بھلا کہیں گے۔ کتاب کی تقطیع مربع شکل ہونی چاہیے کیوںکہ یہ ابو حنیفہ کی تقطیع ہے اور اس سے اٹھانے، رکھنے اور مطالعہ کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ہمارے مشائخ میں سے ایسے بھی تھے جو سرخ روشنائی سے کراہت محسوس کرتے تھے۔ہم درس، ہم مکتب اور جن حضرات سے علم سیکھا ان کی تعظیم بھی علم کی تعظیم کا حصہ ہے۔ خوشامد سوائے طلب علم کے مذموم ہے۔ طالب علم کے لئے مناسب ہے کہ نوع علم کا انتخاب خود نہ کرے بلکہ اس کا اختیار استاد کو دے۔ کیونکہ استاد نے اس بارے میں کئی تجربات حاصل کئے ہیں۔ وہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر ایک کے لئے کیا بہتر ہے یا کسی کی طبیعت کو کیا موافق ہے۔
شیخ امام اجل فرمایا کرتے تھے: دورِ اوّل کے طلبہ اپنے تعلم کے امور اپنے استاد کو سونپ دیتے تھے، تبھی وہ اپنے مقاصد اور مراد کو پہنچتے تھے اور اب خود انتخاب کرتے ہیں، اسی لیے علم و فقہ میں انہیں گوہر مقصود حاصل نہیں ہوتا۔حکایت ہے کہ محمد بن اسماعیل بخاری (امام بخاری) نے اپنے استاذ گرامی محمد بن حسن (شیطانی) سے ”کتاب الصلوٰة“ شروع کی۔ ان سے امام محمد بن حسن نے فرمایا: ”جا اور علم حدیث پڑھ“۔ کیونکہ آپ نے دیکھ لیا کہ یہ علم ان کی طبیعت سے زیادہ موافقت رکھتا ہے۔ پس انہوں نے علم حدیث کی تحصیل کی اور اس میں جمیع الائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔
No comments:
Post a Comment