Ad

Ad

Tuesday, 25 December 2012

Urdumediamela: Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Urdumediamela: Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Monday, 17 December 2012

ٹیلی ویژن (Television)


عنبرین فاطمہ
ٹیلی ویژن ایک ایسا میڈیم ہے جو ہمیشہ سے ہی دیکھنے والوں کی اصلاح کا ذریعہ رہا ہے جب تک پرائیویٹ چینلز کا آغاز نہیںہوا تھالوگ مخصوص قسم کے پروگرام دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اورچوائس ہی نہیں ہوتی تھی۔گزشتہ ایک دہائی سے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار نے جہاںلوگوں کو تفریح فراہم کی ہے وہاں ایسے پروگرام بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کاکوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔جیسے آج کل کے بعض ”مارننگ شوز“ کا انداز اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ان شوز کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ میزبانی صرف بے مقصد بولنے کا نام ہے۔دو ،دوگھنٹے کے ان پروگراموں میں زیادہ تر ناچ گانا،بے ہودہ گفتگو اور سکرپٹ کے بغیر میزبان آپ کو شو کے سیٹ پر مہمانوں کے ہمراہ ڈانس کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کو دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے جیسے ہم کوئی سٹیج شو دیکھ رہے ہیں جہاں کوئی جگتیں لگا رہا ہے تو کوئی ڈانس کر رہا ہے کہیںکوئی گانا گا رہا ہے تو کوئی تالیاں بجا رہا ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو زیادہ تر مارننگ شوز میں کوئی مفید بات کی ہی نہیں جاتی اور دو یا تین گھنٹے گھٹیا قسم کی گفتگو اور مزاح کر کے شو ختم ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود بعض پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں میزبان خواتین سلجھے ہوئے انداز اور تہذیب سے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ایسی میزبان خواتین نے میزبانی کے انداز کو بالکل ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ایسی میزبان خواتین کے شوز تو کسی سٹیج شو کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیںآخر یہ خواتین لوگوں کو کیا دکھانا چاہتی ہیںاگر بے ہودہ مذاق ، بے مقصد باتیں کرنا اورناچ گانا ہی دکھانا ہے تو پھر تھیٹرز میں چلنے والے سٹیج شوز بند کر دیئے جائیں اور انہی ٹی وی شوز سے کام چلا لیا جائے۔اگر ہم یہ کہیں کہٹی وی پروگراموںکا لیول گھٹیا قسم کے سٹیج شوز سے بھی آگے چلا گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ناظرین ہمیشہ وہ دیکھتے ہیں جو آپ ان کو دکھاتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ٹرینڈز تبدیل ہونے چاہیں پروگراموں کے انداز بھی تبدیل ہونے چاہیں لیکن ان میں تبدیلی ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کرے ۔ملازمت پیشہ لوگ اور سکول ،کالج جانے والے بچے جب گھر سے چلے جاتے ہیں تو گھروں میں موجود چھوٹے بچے وہ اپنی ماﺅں کے ساتھ ایسے شوز کو دیکھتے ہیں تو دن بھر وہ بھی وہی سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوتا ہے۔آج کل کسی ایک چینل نے اگر کوئی پروگرام شروع کیا اور وہ عوام کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تو اس کی طرز پر مزید دس چینلز پروگرام شروع کر دیتے ہیں اور چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ہر حد سے گزرنا پڑے تو گزر جاتے ہیں۔پروگراموں کا معیار دن بہ دن نیچے آرہا ہے۔ کہیں دو یا دو سے زیادہ کامیڈین کے درمیان ایکمیزبان بیٹھ کر سطحی طنزو مزاح کرتے ہوئے نظر آتا ہے جس پر خود ہی قہقے لگا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب کچھ کیا ہے میزبان کی تو تعریف ہی تبدیل ہو گئی ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحیہ پرواگرام ٹی وی پر چلائے جائیں مارننگ شوز بھی کئے جائیں لیکن میزبانوں کے لئے کچھ حدود مقرر کی جائیں جن کے دائرے میں رہ کر پروگرام پیش کیا جائے تاکہ دیکھنے والے کو اصلاحی اور بامقصد پروگرام دیکھنے کا موقع ملے کیا ناچ گانا ، بے ہودہ اور بے معنی باتوں کے بغیر پروگرام چل نہیں سکتے ؟۔مارننگ شوز کے چند ایک میزبان بلاشبہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے ان پروگراموںکی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔تاہم کچھ ایسے میزبان ہیں جو اپنے پروگرام کے پلیٹ فارم سے ناظرین کی ملاقات ایسے لوگوں سے کرواتے ہیں جن کی سماجی شعبے میں خدمات ہیں اور جنہوں نے واقع ہی سوسائٹی کے لئے کام کیا ہے ان کے انٹرویوز کا سلسلہ ایک اچھی روش ہے یہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایسی شخصیات اور انٹرویوز لوگوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار کرتے ہیں لیکن خدارا مارننگ شوز کے سیٹ کو تھرڈ کلاس سٹیج مت بنائیں۔جن فنکاروں کے پاس کام نہیں ہے اور جومیزبانی کی” الف ب“ سے بھی واقفیت نہیں رکھتے وہ بھی مختلف چینلز پر مارننگ شوز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صرف معروف چہرہ ہی کسی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بہت ہی جلد ناظرین ایسے لوگوں سے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ مارننگ شوز کرنے والوں سے تولوگ واقعی اب تنگ آچکے ہیں۔ آج سے چند برس قبل ٹی وی کی ایک معروف فنکارہ نے مقامی چینل پر مارننگ شو کا آغاز کیا اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پروگرام کو ایک نئی سمت دی ان انٹرویوز میں بے تکلفی سے گفتگو بھی کی گئی لیکن اس گفتگو میں کہیں بھی بے مقصد بھرتی کے جملوں کا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ان کی میزبانی کے انداز کو بعد میں ہر دوسرے چینل پر خواتین نے کاپی کیا لیکن افسوس کے ان کے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کو بے مقصد باتوںمیں تبدیل کر دیا گیا اور مارننگ شو کی شکل اس قدر بگاڑ دی کہ اب مارننگ شو کم اور سٹیج شو زیادہ لگتے ہیں۔اس حوالے ہم نے ثریا بجیاجو کسی تعارف کی محتاج نہیںہیں سے بات کی انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی ۔فاطمہ ثریا بجیا نے کہا کہ آج کل کے مارننگ شوز کو جو خواتین پیش کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر واحیاتی ہے ان کے لباس اس قسم کے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں خواتین پہن ہی نہیں سکتیں۔ہر کوئی قوم کو بے راہ روی پر چلا رہا ہے اگر سیاستدان ملک کو لوٹ کھا رہے ہیں ،ہرشعبے میں بے ایمانی ہو رہی ہے تو ٹیلی ویژن کے بہت سارے پروگرام بھی قوم کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں نوجوان ٹی وی پر جو دیکھتے ہیں اس کو عملی زندگی میں آزمانے کی کوشش میں بعض اوقات اپنا بہت سارا وقت اور پیسہ ضائع کر بیٹھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔اس طرح کے پروگرام دیکھ کر یہ لگتاہی نہیں ہے کہ ہمارا ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے۔یہ بات بھی ساتھ ہے کہ چند ایک میزبان خواتین بامقصد اور اصلاحی پروگرام پیش کر کے لوگوں اور خصوصی طور پر خواتین کی اصلاح کر رہی ہیں لیکنکچھتو واقع ہی ایسی ہیں جنہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اصلاحی پہلوﺅں کو زیر بحث لائیں گی ہی نہیںجوکہ غلط روش ہے ۔پروگرام تشکیل دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لوگوں کو مت الجھائیں اور برائی کو فروغ نہ دیں۔مستنسر حسین تارڈ جن کو پاکستان ٹیلی ویژن سے پہلا لائیو مارننگ شو کرنے کا اعزاز حاصل ہے ان سے ہم نے سے خصوصی انٹرویو کیا ۔انہوں نے کہا کہ آج بہت کم میزبان لڑکیاں اچھا کام کر رہی ہیں لیکن زیادہ تر تو بس دو گھنٹے صرف کرنے کےلئے الٹی سیدھی باتیں کی جاتی ہیں ۔سیدھی سی بات ہے ان کے پاس وقت زیادہ ہوتا ہے بولنے کے لئے کچھ ڈھنگ کا تو ہوتا نہیں اس لئے دو گھنٹے ختم کرنے کے لئے جو منہ آئے بولتی چلی جاتی ہیں۔میںان کو مارننگ نہیں ورائٹی شوز کہوں گا کیونکہ ان شوز کے ذریعے دیکھنے والوںکو حماقت،کامیڈی،ناچ گانا ہر چیز دیکھنے کا موقع ملا جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ فن کی خدمت کے جذبے سے آتے ہیں ان میں آداب اور لحاظ پایا جاتا ہے اس کے بر عکس محض نمود و نمائش کے لئے آنے والے اپنے رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔ایک چینل لگاﺅ تو وہاں مارننگ شو میں ناچ گانا/رقص ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی انڈین گانوں پر ،دوسرا چینل لگاﺅ تو وہاںبھی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے ۔یہ چیزیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس طرح کے شوز لوگوں تک پہنچانے کا مقصد کیا ہے۔ہم نے جب پاکستان ٹیلی ویژن سے 1986ءمیں مارننگ شو کا آغاز کیا تواس شو کا مقصد صرف لوگوں کی اصلاح تھا مجھے جب مارننگ شو کرنے کی پیشکش ہوئی تو میں نے یہ پروگرام کرنے سے قبل پورا ہوم ورک کیا باہر کے ممالک میں جو مارننگ شوز ہوتے تھے ان کی سی ڈیز منگوا کر دیکھیں ان کے شوز کا انداز مختلف تھا ہم ویسا شو تو نہیں کر سکتے تھے لیکن میں نے ان شوز سے رہنمائی لی اور اپنے مارننگ شو کو پاکستانی مارننگ شو بنایا۔ہم نے اس میں ہیلتھ سیکشن رکھا،ڈرامہ رکھا،داتنوں کی حفاظت کیسے کی جائے وہ بھی پہلو رکھا ،میوزک حتی کہ کھانے پکانے کی ترکیبیں بھی بتایا کرتے تھے اور دیکھنے والوں کے ساتھ روزمرہ کی باتیں کی جاتی تھیں بچوں کی دلچسپی کو بھی مد نظر رکھا جاتا تھا۔ اس شو کے آخر میں ”چھوٹی سی بات“ بھی کیا کرتا تھا جو کہ اس زمانے میں بہت مشہور ہوئی اس پروگرام سے ہٹ کر مجھے کوئی بھی ملتا تھا تو چھوٹی سی بات کی بے حد تعریف کرتا تھا آج بھی کرتے ہیں۔ہمیں پورے پاکستان سے پروگرام کو پسندیدگی کے حوالے سے بے حد خط موصول ہوا کرتے تھے اتنے خطوط موصول ہوتے تھے کہ ان سے ایک کمرہ بھر گیا تھا اور ڈاکیے نے اپنی ٹرانسفر صرف اس لئے کروالی تھی اس کا کہنا تھا کہ میں پوسٹ مین ہوں مزدور نہیں جو ہر روز مزدوروں کی طرح اتنے خطوط لاد کر لیکر آﺅں۔ اب تو زمانہ بہت آگے جا چکا ہے ہم مانتے ہیں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے اورچلنا چاہیے بھی لیکن اخلاقیات کا دامن تو کسی بھی صورت میں چھوڑ دینے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔آج تو گلیمر پرموٹ ہورہا ہے پروگرام میں کیا دکھایا جارہا ہے اور لوگ اس سے کیا سیکھ رہے ہیں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں بے ہودہ قسم کی کالز پروگرام میں شامل کی جاتی ہیں آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں،آپ کا سوٹ بہت اچھا ہے،آپ نے بال بہت اچھے بنائے ہیں،آپ کی بالیاں بہت اچھی ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا پروگرام سے کیا تعلق ہے ؟؟؟ میں آج کل کی میزبان خواتین کو میزبانیاں کہتا ہوں انہیں جن موضوعات پر کمانڈ بھی حاصل نہیں ہوتی ان پر بھی خود کو افلاطون سمجھ کر گفتگو فرما رہی ہوتی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جس مہمان کو بلا کر بٹھایا ہوتا ہے اس پر کم اور میزبان پر کیمرہ زیادہ رکھاجاتا ہے۔ ہر موضوع پر بے تکا بولنا ہر میزبان اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی باتوں کے ذریعے حکمت کے اتنے موتی بکھیرتی ہیں کہ شو کا سیٹ ان موتیوں سے بھر جاتا ہے مہمان جب اٹھ کر جانے لگتا ہے تو ان موتیوں سے اس کا پاﺅں پھسل ہوجاتا ہے اور ارسطو،فیض احمد فیض کے علاوہ دیگر بڑی شخصات سیٹ کے کونے میںشرمندگی سے رو رہی ہوتی ہیںمیں بہت متاثر ہوںحکمت کے ان موتی بکھیرنے والوںسے۔کبھی کبھی تو ایسی شخصیات بطور مہمان دیکھنے کو ملتی ہیں جن کو ہم نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔میں پینٹ کوٹ پہننے کا عادی تھا لیکن جب شو شروع کیاگیا تو خود کو پاکستان اور اس کے کلچر کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے قومی لباس شلوار قمیض پہنی تاکہ دیکھنے والے کو احساس ہوکہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔موجودہ صورتحال میں جس طرح کے لوگ پروگراموںکی میزبانی کر رہے ہیں اور کامیابی کا معیار شور مچانا اچھل کود کرنا ،پرکشش لگنا ،مقرر کر دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے کامیابی کےلئے اپنی وضع قطع کے ساتھ مرد حضرات عورتیں بن کر پروگرام کرنے میں عار محسوس کرنے کی بجائے اس پر فخر محسوس کرتے ہیں میزبان لڑکی کے روپ میں اپنے مہمانوں کے ساتھ فلرٹ کر رہا ہوتا ہے یہ کیا ہے سب کچھ؟کچھ میزبان جن کے گلے میں سرنام کی کوئی چیز نہیں وہ بھی گانا گا رہے ہوتے ہیں چاہے ڈانس نہیں بھی آتا پھر بھی ڈانس کر کے،ڈانس کرنے والوں کے اس ہنر کو شرمندہ کیا جارہا ہوتا ہے میرے لئے تو یہ سب کچھ مایوس کن ہے۔اگرہم ڈراموں کی بات کریں توواقع ہی ایسے ایسے فنکار ہیںجن کی اداکاری دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہمیں جہاں اور جس کا اچھا کام نظر آئے گا یا آتا ہے تو ہم ضرور تعریف کرتے ہیں ۔ماضی کی معروف کمپئرخوش بخت شجاعت نے کہا کہ میں ایک عوامی نمائندہ ہوں میرا پبلک کے ساتھ بہت زیادہ میل ملاپ ہے میں نے اس کلاس کو مارننگ شوز پر تنقید کرتے ہوئے سنا ہے جس نے دنیا دیکھ رکھی ہے ۔اس طبقے کی خواتین باقاعدہ ڈسکس کرتی ہیں کہ ہمارے مارننگ شوز آخر عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں لہذا اس کلاس میں تو اس قسم کے پروگرام بالکل بھی مقبول نہیں ہیں۔جو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کے لئے تو اس قسم کے پروگرام اور ان کا گلیمر بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ ان شوز کو شوق سے دیکھتے ہیں اور اس جادوئی دنیا کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں ان کے لئے میزبان کا جوڑا ،ان کی بے ربط باتیںاوربالوں کا سٹائل ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس قسم کا طبقہ پاکستان میں بہت زیادہ ہے جو خط غربت کی لکیر تلے زندگی گزار رہا ہے وہ لوگ تصوراتی دنیا میں لیجانے والے ان پروگراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں اس لئے ان شوز کی ریٹنگ بھی زیادہ ہے۔ہماری میزبان لڑکیاں آج دوپٹہ اتار کر کس پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے دوپٹہ اتارنا،زرق برق لباس پہننا،اور باتیں اس طرح کرنا کہ ہم خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔شام شات بجے سے رات بارہ بجے کے اگر ہم اپنے ٹی وی پروگرام دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ صبح پاکستان کا پتہ نہیں کیا بنے گا یوں ایک عام آدمی ان پروگراموں میں ہونے والی گفتگو سے مایوس ہو کر سوتا ہے اور صبح اٹھتے ہی چینلز پر جس قسم کے شوزدیکھنے کو ملتے ہیں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان مسائل میں گھرا ہے اور ان پروگراموں کی میزبانوں کو دیکھ کر یہ بھی نہیں لگتا ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ہندو کلچر کی خواتین چاہے کسی بھی لباس میں ہوں ،ساڑھی یا جینز میں وہ بھی اپنے ماتھے پر تلک لگا لیتی ہیں اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرکے اپنے ہندو کلچر کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو میزبانوں کے رنگ ڈھنگ ہی پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نہیں لگتے۔ایک پروگرام عوام میں مقبول ہوتا ہے تو اس کی طرز پرمزید دس پروگرام اور مارکیٹ میں آجاتے ہیں ریٹنگ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں ۔پروگرام بنانے اور اس کو پیش کرنے والوں کو خیال ہی نہیں آتا ہے کہ ہم عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کیا پیغام دے رہے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے اس طرح سے پروگراموں کوکامیاب بنانے کے لئے ہر حد سے گزرنا ہماری ثقافت ،ہماری اقدار کو زبردست دھچکہ ہے۔انسان کا کام اور اس کام کے اچھے پہلو ہی کسی بھی فنکار کی پہچان ہوتے ہیں ہم نے جو کام کیا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے بلکہ جہاں بھی پرستار ملتے ہیں وہ باقاعدہ ہمارے پروگرام اور ان میں کی گئی باتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔پروگرام بنانے والے اور اس کو پیش کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنا تشخص برقرار رکھ کر پروگرام پیش کریں۔

Friday, 7 December 2012

بکھرے موتی Bikhry Moti


بکھرے موتی
پریشانیوں سے نجات اور رزق میں برکت کیلئے آسان نبوی نسخہ:
”مَاشآئَ اللہُ لاحَو ±لَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ، اَش ±ھَدُ اَنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ± ئٍ قَدی ±ر µ“
”وہی ہو گا جو اللہ چاہے نہ کوئی طاقت ہے نہ قوت سوائے اللہ کے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے“۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ” جو شخص صبح یہ دعا پڑھ لے تو اس دن بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو اس رات بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا۔
(ابن السنی، کنز العمال: 106/2، الدعاءالمسنون: ص 254)
بسم اللہ کے خواص:
-1 مجربات دیر بی مطبوعہ مصر ص4 پر شیخ احمد دیربی کبیر فرماتے ہیں کہ بسم اللہ کے بعض خواص میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی محرم کی یکم تاریخ کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک ورق (کاغذ) پر ایک سو تیرہ (113) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے تو پوری زندگی اس کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
-2 بعض صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کو بارہ ہزار بار پڑھے اور ہر ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور نبی کریم پر درود بھیجے، اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ سے اپنی حاجت کا سوال کرے، پھر دوبارہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھے اور ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز اور درود شریف پڑھ کر طلب حاجت کرے، اسی طرح پڑھتا رہے یہاں تک کہ بارہ ہزار عدد مذکور پورے ہو جائیں۔ پس جو کوئی اس پر عمل کرے گا، حاجت اس کی جس طرح کی ہو گی باذن اللہ پوری ہو گی۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-3 جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م سات سو چھیاسی (786) بار متواتر سات دن جس کام کے واسطے پڑھے گا خواہ نفع حاصل کرنے کے واسطے ہو یا مصیبت کو ہٹانے کے واسطے ہو یاکاروبار کے واسطے ہو۔ انشاءاللہ وہ مقصد پورا ہو گا۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-4 خزینة الاسرار للنازلی میں لکھا ہے کہ جو شخص رات کو سوتے وقت اکیس 21 دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر سوئے وہ تمام رات انسانی، شیطانی شرارتوں اور جن، بھوت اور آگ سے محفوظ رہے گا۔
-5 مرگی والے کے کان میں اکتالیس (41) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر دم کرنے سے وہ ہوش میں آ جاتا ہے۔
-6 درد یا جادو وغیرہ متواتر (لگاتار) سات دن سو (100) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھنے سے درد اور جادو دُور ہو جاتا ہے۔
-7 اتوار کی صبح سورج نکلتے ہی تین سو تیرہ (313) دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اور سو(100) دفعہ درود شریف پڑھنے سے غیبی رزق کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
-8 اکیس (21) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈالنے سے بچہ تمام آفات و بلیات سے مامون رہتا ہے۔
-9 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اکسٹھ (61) بار کسی کاغذ پر لکھی جائے اور جس عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی ہو اور اس کو اپنے پاس بطور تعویز رکھے۔ انشاءاللہ اس کی اولاد زندہ رہے گی، یہ امر مجرب اور آزمودہ ہے۔ (مجربات دیربی)
-10 اگر کوئی شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک سو ایک (101) بار لکھ کر اپنے کھیت میں دفن کرے تو موجب سر سبزی ءکھیت و فراوانی ءغلہ و حفاظت از جملہ آفات و باعث حصول برکت ہو گا۔ (مجربات دیربی: صفحہ6)
-11 ایک مرد صالح نے کہا کہ جو کوئی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م چھ سو پچیس (625) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہیبت عظیم دے گا۔ کوئی شخص اس کو ستا نہ سکے گا۔ باذن اللہ۔ (کتاب الداءوالدواءللنواب صدیق حسن خان: ص17)
-12 امام رازی تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 168 پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرعون نے دعویِٰ الوہیت کرنے سے پہلے ایک مکان بنایا تھا اور اس کے بیرونی دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی تھی۔ جب اس نے خدائی دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰؑ نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے قبول نہ کی تو حضرت موسیٰؑ نے اس کے حق میں بددعا کی ”خداوندا! تو نے اس خبیث کو کس لئے مہلت دے رکھی ہے؟“ وحی آئی اے موسیٰ! یہ ہے تو اس قابل کہ اس کو ہلاک کر دیا جائے لیکن اس کے دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب سے بچا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے فرعون پر گھر میں عذاب نہیں آیا، بلکہ وہاں سے نکال کر دریا میں غرق کر دیا گیا۔ سبحان اللہ! جب ایک کافر کا گھر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی وجہ سے عذاب سے بچ گیا تو اگر کوئی مسلمان اس کو اپنے دل و دماغ اور زبان پر لکھ لے تو کیوں نہ وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہے۔
-13 حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ مفسرین نے کہا ہے کہ جب طوفان نوحؑ نے اس دنیا کو اپنے خوفناک عذاب کے چنگل میں گھیر لیا اور حضرت نوحؑ اپنی کشتی میں سوار ہوئے تو وہ بھی خوف غرق سے بہت ہراساں و لرزاں تھے۔ انہوں نے غرق سے نجات پانے اور اسی عذاب خداوندی سے محفوظ رہنے کے لئے بِس ±مِ اللہِ مَج ±رھَا وَمُر ±سٰھَاکہا اس کلمہ کی برکت سے ان کی کشتی غرقابی سے محفوظ و سالم رہی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ جب اس آدھے کلمے کی وجہ سے اتنے ہیبت ناک طوفان سے نجات حاصل ہوئی تو جو شخص اپنی پوری زندگی اس پورے کلمے یعنی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اسے اپنے ہر کام کی ابتداءکرنے کا التزام کر لے وہ نجات سے کیونکر محروم رہ سکتا ہے؟ (تفسیر عزیزی: صفحہ6 و تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ169)
-14 حضرت سلیمانؑ نے جب بلقیس ملکہ یمن کو پہلا خط لکھا تو لکھا اِنَّہ ¾ مِن ± سُلَی ±مَانَ وَالَّہ بِِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م تو اس کی برکت سے بلقیس ان کے نکاح میں آئیں اور اس کا پورا ملک حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں آیا۔ 
(تفسیر کبیر: جلد1صفحہ 169)
-15 حضرت عیسیٰؑ کا ایک دفعہ قبرستان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک شخص کو نہایت شدت کے ساتھ عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰؑ چند قدم آگے تشریف لے گئے اور وضو اور نہا کر واپس ہوئے۔ اب واپسی پر جو اس قبر کے پاس سے گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ اس قبر میں نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ آپ بہت حیران ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ مجھے اس کا راز بتایا جائے۔ ارشاد ہوا کہ روح اللہ! یہ شخص سخت گنہگار و بدکار تھا، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا لیکن اس نے اپنی بیوی حاملہ چھوڑی تھی اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا، جہاں اس کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھائی گئی ۔ مجھے حیا آئی کہ زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں کہ جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ172)
-16 حضرت خالد بن ولیدؓکے پاس کوئی شخص زہر ہلا ہل (مہلک) کا لبریز پیالہ لایا اور کہا کہ اگر آپ اس زہر کو پی کی صحیح سلامت زندہ رہیں تو ہم جان لیں گے کہ آپ کا مذہب اسلام سچا مذہب ہے۔ آپ نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر وہ زہر پی لیا اور خدا کے فضل سے کچھ بھی اثر نہ ہوا۔
-17 قیصر روم کو بڑی شدت سے درد سر ہوا۔ علاج معالجہ سے مایوسی کے بعد اس نے حضرت فاروق اعظمؓ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے درد سر کی شکایت ہے، کچھ علاج کیجئے۔ آپ نے اس کے پاس ایک ٹوپی بھیج دی۔ جب بادشاہ ٹوپی اوڑھتا تھا تو درد کافور ہو جاتا اور جب اتار دیتا تھا تو دردِ سر دوبارہ شروع ہو جاتا، اس کو سخت تعجب ہوا۔ اس نے ٹوپی کو کھلوا کر دیکھا تو اس میں ایک پرچہ رکھاہوا تھا جس میں بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھا ہواتھا۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ171)
-18 علماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ پانچ گھنٹوں کے لئے تو پانچ وقت نمازیں مقرر ہیں اور انیس 19 گھنٹوں کے لئے یہ انیس حروف عطا فرمائے گئے تاکہ انیس گھنٹوں میں ہر نشست و برخاست ہر حرکت و سکون اور ہر کام کے وقت ان انیس حروف کے ذریعے برکت و عبادت حاصل ہو۔ یعنی ان حروف بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکت سے یہ انیس گھنٹے بھی عبادت میں لکھے جائیں۔ (تفسیر عزیر :16/1) 
-19 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات میںسے ایک یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جب کوئی شخص بیت الخلاءجانا چاہے تو چاہیئے کہ وہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کہہ کر جائے تاکہ (اس کی وجہ سے) اس کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ واقع ہو جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کہہ کر بیت الخلاءجاتا ہے تو اس کا خاصہ یہ ہے کہ جنات کی نظر اس کی شرمگاہ کی طرف نہیں جاتی۔ لہٰذا جب اس کی تاثیر یہ ہے کہ یہ آیت انسان اور اس کے دشمن (جنات) کے درمیان پردہ بن جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ ایک مسلمان اور عذاب عقبیٰ کے درمیان بھی یقینا پردہ بن کر حائل ہو گی۔
(تفسیر عزیزی)
-20 حضرت بشر حافی نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پرچہ پر لکھی ہوئی زمین پر پائی، اس کو اٹھا لیا۔ ان کے پاس سوائے دو درہم کے اور کچھ نہ تھا۔ خوشبو خرید کر اس پرچہ کو آپ نے خوشبو لگائی، اس کے صلہ میں خواب کے اندر حق سبحانہ و تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی اور فرمایا: اے بشر! تو نے میرے نام کو خوشبو دار بنایا، میں تیرے نام کو دنیا اور آخرت میں خوشبو دار بناﺅں گا۔
(کتاب الداءو الدواءاللنواب صدیق حسن، تفسیر کبیر: صفحہ171)
ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ:
وہ خوش نصیب صحابی جن کی قبر میں خود حضور اترے اور فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا“ ۔
ایک یتیم بچہ تھا، اس کا نام عبداللہ تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ بکریاں غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی تھی۔ عبداللہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کر سکا۔ جب نبی کریم فتح مکہ سے واپس گئے تو عبداللہ نے چچا سے کہا: ”پیارے چچا! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں؟ لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا، مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاﺅں“۔ چچا نے جواب دیا: ”دیکھ اگر تو محمد کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا، تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا“۔ عبداللہ نے جواب دیا: ”چچا جان! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد کا اتباع قبول کروں گا، شرک اور بُت پرستی سے میں بیزار ہو چکا ہوں، اب جو آپ کا منشاءہے کیجئے اور جو کچھ میرے قبضہ میں زر و مال وغیرہ ہے، سب کچھ سنبھال لیجئے، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، اس لئے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا“۔ عبداللہ نے یہ کہہ کر کپڑے اتار دینے کا فیصلہ کیا اور ماں کے سامنے گئے۔ ماں حیران ہوئی کہ کیا ہوا! عبداللہ نے کہا: ”میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی کریم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں، ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے، مہربانی کرکے دے دیجئے‘:‘۔ ماں نے ایک کمبل دے دیا، عبداللہ نے کمبل پھاڑا، آدھے کا تہبند بنا لیا، آدھا اوپر اوڑھ لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گئے۔ علیٰ الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے تکیہ لگا کر آنحضرت کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ نبی کریم جب مسجد مبارک میں آئے، اسے دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو؟ کہا میرا نام عبدالعزیٰ ہے، فقیر و مسافر ہوں، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہو کر درِ دولت آ پہنچا ہوں۔
نبی کریم نے فرمایا: ”تمہارا نام عبداللہ ہے، ذُوالبجَادَی ±ن لقب ہے، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو“۔ عبداللہ اصحابِ صفہ میں شامل ہو گیا، نبی کریم سے قرآن سیکھتا اور دن بھر عجب ذوق و شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتا۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ لوگ تو نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کر رہا ہے کہ دوسروں کی قرات میں مزاحمت ہوتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ”عمر! اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے“۔
عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ میں بھی راہ خدا میں شہید ہو جاﺅں۔ نبی کریم نے فرمایا: جاﺅ کسی درخت کا چھلکا اتار لاﺅ۔ عبداللہ لے آئے تو نبی کریم نے وہ چھلکا ان کے بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا: ”الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں“۔ عبداللہ نے کہا: ”یارسول اللہ ! میں تو شہادت کا طالب ہوں“۔ نبی کریم نے فرمایا: ”جب اللہ کے راستے پر نکلو اور پھر بخار آئے اور مر جاﺅ تب بھی تم شہید ہی ہو گے“۔
تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کر گئے۔ بلال بن حارث مزنی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہؓ کے دفن کی کیفیت دیکھی۔ رات کا وقت تھا، حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں چراغ تھا، حضرت ابوبکر و عمرؓ ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے ۔ نبی کریم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے فرما رہے تھے: اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو، آنحضرت نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا: ”اے اللہ! میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا“۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ کاش اس قبر میں، میں دفن کیا جاتا۔ 
(مدارج النبوة مترجم: 90/2،91، ابن ہشام:528,527/2)
فنش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کے دن صلہ رحمی کی رانیں ہرن کی رانوں کی طرح ہوں گی:
مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی، اس کی رانیں ہوں گی مثل ہرن کی رانوں کے، وہ بہت صاف اور تیز ربان سے بولے گی، پس وہ (رحمت سے) کاٹ دیا جائے گا جو اسے کٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملانا تھا۔ صلہ رحمی کے معنی ہیں: قرابت داروں کے ساتھ بات چیت میں، کام کاج میں سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم (رشتہ داری) کھڑی ہوئی اور رحمن سے چمٹ گئی، اس سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا یہ مقام ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا۔ اس پر اللہ عز و جل نے فرمایا: کیا تو اس سے راضی نہیں کہ تیرے ملانے والے کاو میں (اپنی رحمت سے) ملاﺅں اور تیرے کاٹنے والے کو میں (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں؟ اس نے کہا ہاں! اس پر میں بہت خوش ہوں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص کشادہ روزی اور عمر دراز چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، مسلم) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد نے کہا: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں ان کے ساتھ میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ بُرا برتاﺅ کرتے ہیں، میں ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ جاہلانہ برتاﺅ کرتے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہہ رہا ہے تو گویا تو ان کے منہ پر گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ (یعنی تو ان کو ذلیل و رسوا کر رہا ہے) اور جب تک تیری یہی حالت رہے گی تیرے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک مدد گار (فرشتہ) رہے گا۔ 
(مسلم شریف)
حضرت جبرائیلؑ نے حضور کو پریشانیوں سے نجات کی دعا سکھائی:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک نے فرمایا: جب بھی ہمیں کوئی مصیبت پیش آئی، حضرت جبرائیلؑ تشریف لاتے اور فرماتے: یہ دعا پڑھو:
”تَوَکَّل ±تُ عَلَی ال ±حَیِّ الَّذِی لَا یَمُو ±تُ لَم ± یَتَّخِذ ± وَلَداً وَّلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ شَری ±ک µ فِی ± ال ±مُل ±کِ وَلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ وَلِیّ µ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّر ±ہُ تَک ±بِی ±راً“۔
”بھروسہ کیا میں نے اس ذات پر جو زندہ ہے مرے گی نہیں جس نے نہیں بنایا بیٹا نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے نہ کوئی ذلت میں مدد گار ہے۔ اس کی بڑائی بیان کیجئے“۔ 
(کنز العمال: 72/2، الدعاءالمسنون: ص419,418)
oo