ہیلتھ نیوز
مچھلی کا استعمال شوگر کے خطرے کو کم کرتا ہے
تحقیق کے مطابق مچھلی کا گوشت استعمال کرنے سے انسانی جسم مےں گلوکوز کا لیول کم ہو جاتا ہے جس وجہ سے شوگر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ویلنسیا سپین کے طبی ماہر مرسڈیڈ سوٹوز جوکہ اس تحقیق کے مصنف بھی ہےں، انہوں نے ایک سٹڈی کی جن مےں 945 افراد شامل تھے (340 مرد اور 605 عورتیں) جن کی عمریں 55 سے 86 سال کے درمیان تھیں انہیں دل کی بیماری کا خطرہ بھی زیادہ تھا، سٹڈی مےں یہ دیکھا گیا یہ افراد کونسا گوشت زیادہ استعمال کرتے ہےں، سرخ گوشت یا سفید گوشت خاص طور پر مچھلی کا گوشت۔ مچھلی کا گوشت گلوکوز کا لیول کم کر کے شوگر کو کم کرتا ہے اور گائے کا گوشت یا سرخ گوشت موٹاپا پیدا کرتا ہے، سٹڈی کے مطالعے سے پتہ چلا کہ تمام افراد سرخ گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہےں اور خوراک مےں ان چیزوں کا استعمال کم کرتے ہےں جو وزن کو متناسب رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
سرخ گوشت کا بہت زیادہ استعمال دل کی بیماریاں ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور موٹاپا پیدا کرتا ہے جبکہ مچھلی کا گوشت دل کے لئے بہت اچھا ہے اور شوگر کے خطرے کو بھی کم کرتا ہے کیونکہ مچھلی کے گوشت مےں موجود اومیگا 3 خلیوں مےں جا کر انسولین کی حساسیت کو زیادہ کرتا ہے اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ مرد سرخ گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہےں اور عورتیں سفید گوشت کا۔
شوگر کی دوائی Metformin بریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ میکیگن سٹیٹ یونیورسٹی کے طبی ماہرین کے مطابق ایک سستی دوائی میٹ فارمن جو کہ ٹائپ 2 شوگر کےلئے استعمال کی جاتی ہے اس پر تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ ایسے قدرتی اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکل جو کہ بریسٹ کینسر کو بڑھانے کا سبب بنتے ہےں ان کے اثر سے انسان کو بچاتی ہے۔
شوگر کے علاج کے لئے زیادہ عرصے سے استعمال ہونے والی یہ دوائی Metformin ذیابیطس اسوسٹیٹ کینسر Diabetes Associated Cancers جیسا کہ بریسٹ کینسر ہے، کے خطرے کو کم کرتی ہے، ٹائپ 2 شوگر کے مریض بریسٹ کینسر، جگر کے کینسر اور لبلبے کے کینسر کے خطرے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہےں۔ کالج آف ہیومن میڈیسن ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ڈویلپمنٹ کے پروفیسر ٹروسکا کہتے ہےں، یہ دوائی ان کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ بہت سے قدرتی اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکلز بریسٹ کینسر کے پھیلنے مےں مدد کرتے ہےں۔ اس تحقیق کے لئے طبی ماہرین نے لیبارٹری مےں کلچر ڈشز مےں انسانی بریسٹ کینسر والے خلیوں کو ڈالا اور ان مےں قدرتی ایسٹروجن اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکلز جوکہ بریسٹ کینسر کو بڑھاتے ہےں کلچر ڈشنر مےں شامل کئے۔
ٹیم نے دیکھا کہ ایسٹروجن اور کیمیکلز جوکہ بریسٹ ٹیومر کے سائز اور مقدار کو بڑھاتے ہےں ان کے ساتھ جب ڈشنر مےں دوائی Metformin کو شامل کیا گیا تو بریسٹ کینسر کے خلیوں مےں واضح کمی واقع ہوئی، Metformin نے ان کیمیکلز کے اثر کو روک دیا جوکہ ٹیومر کے بڑھنے مےں مدد کرتے ہےں، البتہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس مےں واضح ہو کہ یہ دوائی کس لائحہ عمل کے ذریعے کینسر کے روکنے کا عمل کرتی ہے اور مزید تحقیق مےں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ دوائی لبلبے اور جگر کے کینسر کو بھی کم کر سکتی ہے یا نہیں۔
تابکار شعاعوں کے مضر اثرات سے بچاﺅ کا جدید علاج
ڈینا فاربر سینٹر انسٹیٹیوٹ اینڈ چلڈرن ہاسپٹل بوسٹن کے طبی ماہرین نے تابکار شعاعوں کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے ایک ایسا علاج ایجاد کیا ہے جو دو دوائیوں کو ملا کر بنایا گیا ہے جس کا فائدہ تابکار شعاعوں کے زیر اثر آنے کے ایک دن بعد دینے سے بھی ہوگا، اس سے پہلے جو دوائیاں استعمال کی جاتی ہےں ان کا فائدہ صرف اس صورت مےں ہو سکتا ہے کہ اگر وہ فوری طور پر دی جاتیں جو کہ ناممکن بات ہے۔ اس علاج مےں دو دوائیاں استعمال کی گئی جن مےں فلوروکینسولون اینٹی باﺅئیٹک جوکہ انسانوں کے لئے عام طور پر استعمال ہونے والی اینٹی بائیٹک Ciprofloxacin کی متبادل ہے اور ایک پروٹین BP1 شامل ہے ان دونوں کے ملاپ سے ایک دوائی بنائی گئی اور اس کو چوہوں پر استعمال کروایا گیا۔
اس تجربے کے لئے چوہوں کو تابکار شعاعوں کے زیر اثر رکھنے کے ایک دن بعد کچھ چوہوں کو یہ دوائی استعمال کروائی گئی، کچھ چوہوں کو دوائی کا صرف ایک ایک جزو استعمال کروایا گیا جس کے نتیجے سے ثابت ہوا کہ جن چوہوں کو یہ پوری دوائی استعمال کروائی گئی ان مےں دوسرے چوہوں کی نسبت تابکار شعاعوں کے مضر اثرات کا زیادہ خاتمہ ہوا اور ان مےں زندہ رہنے کے امکان زیادہ دیکھے گئے۔
اس تحقیق کے مصنف ڈاکٹر لیوی کہتے ہےں اس دوائی کا چوہوں مےں کامیابی کا مطلب ہے کہ یہ علاج انسانوں مےں بھی کامیاب ہوگا اور محفوظ ہوگا اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ تابکاری سے فوراً بعد دینے کی بجائے 24گھنٹوں کے اندر بھی دی جا سکتی ہے اور اس کے فائدہ مند اثرات ختم نہیں ہونگے۔
شوگر کے طریقہ علاج کے لئے ایک نئے آلہ کی ایجاد
یونیورسٹی آف میسوری کے طبی ماہرین نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو شوگر کے مریضوں کے چیک اپ کے لئے استعمال کیا جائے گا جو کہ بہت کم وقت مےں بغیر کوئی غلطی کیے مریض کی صحت کے بارے مےں مکمل تفصیل سے آگاہ کرے گا، اس آلے کا نام ڈایابیٹیز ڈیش بورڈ ہے جس کے ذریعے ایک کمپیوٹر کی سکرین پر ڈاکٹر مریض کے شوگر کی تمام تفصیل دیکھ سکتا ہے۔یہ ڈیش بورڈ مریض کی تمام تر تفصیل مثلاً مریض کی صحت، شوگر کے لئے استعمال ہونے والی ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ ایک ایک مکمل رپورٹ بتا دے گا کہ مریض کو کس ٹیسٹ کی ضرورت ہے اور کونسا ٹیسٹ مریض کے لئے ضروری نہیں۔ اس طرح مریض ان مہنگے ٹیسٹ کروانے سے بچ جائے گا جس کی اس کو ضرورت نہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن ڈاکٹروں نے اس کو استعمال کیا ہے انہوں نے اس کو 100 فیصد درست پایا ہے اور پرانے الیکٹریکل میڈیکل ریکارڈ کے طریقے سے زیادہ موزوں پایا ہے۔اس ڈیش بورڈ کا مقصد یہ ہے کہ شوگر کے مریضوں کی حالت جاننے کے لئے آسانی پیدا ہو اور ڈاکٹر اس کے ذریعے آسانی اور جلدی فیصلہ کر سکے کہ مریض کو کونسی ادویات یا ٹیسٹ کروانے چاہئے اور ڈاکٹروں نے اس کو بہت پسند کیا ہے کیونکہ یہ فزیشن کی ضرورت کے مطابق بنایا گیا ہے۔
میٹابولک سنڈروم گردے کی بیماریاں پیدا کر سکتا
میٹابولک سنڈروم Metabolic Syndrume مختلف بیماریوں کا گروپ ہے مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شوگر، ہائی کولیسٹرول اور موٹاپا اور فیٹی ایسڈ (Fatty acids) کی مقدار کا بڑھنا وغیرہ اس تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو میٹابولک سنڈروم کا شکار ہوتے ہےں ان مےں گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
امریکہ کے ڈاکٹر سینکرنیونتھن Dr. Sanlar Navaneethan اور اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے میٹابولک سنڈروم اور گردے کی بیماریوں کے درمیان رشتہ کو مطالعہ کرنے کےلئے ریسرچ کی جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ وہ مریض جو میٹابولک سنڈروم کا شکار ہوتے ہےں ان مےں گردے کے مسائل 55 فیصد زیادہ ہوتے ہےں خاص طور پر گردے کا ٹھیک طریقے سے عمل نہ کرنا جوکہ گردے کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ میٹابولک سنڈروم مےں بیماریاں جتنی زیادہ ہونگی گردے مےں پیدا ہونے والے مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہونگے چنانچہ میٹابولک سنڈروم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مریض کو گردے کی بیماری کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
صحت مند غذا کا استعمال، ورزش، وزن کو کم کرنا، کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے لیول کو ٹھیک رکھنے کے ذریعے میٹابولک سنڈروم کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے جس وجہ سے گردے کی بیماریاں بھی کم ہونگی۔
ڈپریشن نوجوانوں مےں دل کی بیماریوں سے فوت ہونے کی شرح مےں اضافہ کرتا ہے
ڈپریشن کے بُرے اثرات نوجوانوں مےں دل کی بیماریاں پیدا کرتے ہےں۔ حالیہ دور مےں ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کی کوششیں یا ہارٹ اٹیک نوجوانوں مےں خصوصاً عورتوں مےں زیادہ دیکھنے مےں آ رہی ہےں۔ 40 سال سے کم افراد مےں ڈپریشن کی وجہ سے دل کی بیماریوں سے فوت ہونے کی شرح مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تحقیق نومبر 2011ءمےں Archives of General Psychiatry کے میگزین مےں شائع ہوئی ہے۔
ایم ڈی PHD ڈاکٹر Viola Vaccarino جو کہ ایمورز رولن سکول آف پبلک ہیلتھ مےں ایپی ڈیمالوجی کے چیئرپرسن ہےں اور اس تحقیق کے مصنف ہےں، کہتے ہےں ڈپریشن نوجوانوں مےں دل کی بیماری پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اموات مےں اضافہ ہو رہا ہے اورخودکشی کی کوششیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہےں۔ خاص طور پر نوجوان عورتوں مےں اس کی وجہ سے دل کی بیماریاں یا ہارٹ اٹیک مےں اضافہ ہو رہا ہے، اس تحقیق کے لئے 7,641 افراد کا ڈیٹا چیک کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ جو افراد ڈپریشن کا شکار تھے ان مےں دل کی بیماریاں بھی زیادہ تھیں،اموات کی شرح مےں تین گنا زیادہ اضافہ دیکھا گیا اور ہارٹ اٹیک سے مرنے کی شرح 14 گنا زیادہ تھی۔طبی ماہرین کے مطابق ان افراد کو اس بات کی طرف اہمیت دلانے کی ضرورت ہے کہ ڈپریشن ان کے دل پر کتنے بُرے اثرات ڈالتا ہے اور اس سے بچاﺅ کے طریقے استعمال کرکے وہ اپنی زندگی بہتر کر سکتے ہےں۔
بیکٹیریا کی طرز کے روبوٹ
ٹیل ایوو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بیکٹیریا کا تکنیکی مشاہدہ کرتے ہوئے ایک انقلابی دریافت کی ہے، اب بیکٹیریا کی خاصیتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے روبوٹ بنائے جائیں گے۔ سائنسدانوں نے بیکٹیریا کی بحیثیت مجموعی گروہ کی شکل مےں نقل و حرکت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی کے عمل کو زیر مشاہدہ رکھتے ہوئے اس بات کا پتہ چلایا کہ بیکٹیریا دوسرے بڑے جانداروں کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے مجموعی نقل و حرکت کرنے کی خاصیت رکھتے ہےں۔ان کی اسی خاصیت کو نمونہ بناتے ہوئے ایسے ننھے روبوٹ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے جو انسانی جسم کے اندر جا کر امراض کی تشخیص اور ان کے علاج، کمپیوٹر مےں پیغام رسانی، مصنوعی ذہانت اور بہت سے دیگر میدانوں مےں کارآمد ثابت ہو سکیں گے۔
اچھی نیند
ایک تحقیق کے مطابق ورزش کا اچھی نیند سے بہت گہرا تعلق ہے، وہ لوگ جو نیند کی کمی کا شکار ہےں اگر وہ باقاعدگی سے روزانہ ورزش کریں تو نیند کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ورزش کی بدولت نیند کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے اور اچھی نیند حاصل ہوتی ہے۔ مزید تحقیق کے مطابق روزانہ مستقل وقت پر سونا اور جاگنا، سونے سے پہلے کیلشیم والی غذا مثلاً دودھ کا استعمال کرنا، بستر کو صاف کر کے سونا، سونے سے پہلے چائے اور کافی وغیرہ سے پرہیز کرنا اور ٹھنڈے کمرے مےں سونا ایسی چیزیں ہےں جو نیند کو مزید بہتر کر سکتی ہےں۔ اچھی نیند کے حصول کے ان اصولوں کو سائنسدانوں اور ماہرنفسیات نے سلیپ ہائجیں (Sleep Hygiene) کا نام دیا ہے۔ بے خوابی مےں مبتلا بہت سے لوگ ان اصولوں کو اپناتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس گئے بغیر اپنی نیند کا مسئلہ حل کر سکتے ہےں۔
پھیپھڑوں کے کینسر کا جدید علاج
گلاسگو کی سٹریتھکلائیڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کا جدید طریقہ کار دریافت کیا ہے۔ حالیہ طریقہ علاج مےں کینسر کو تلف کرنے والی ادویات کو خون کے ذریعے جسم مےں داخل کیا جاتا ہے جس وجہ سے وہ کینسر کے ساتھ ساتھ جسم کے صحت مند خلیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہےں اور ان پر بھی مضر اثرات ڈالتی ہےں۔جدید طریقے کی مدد سے پھیپھڑوں کے کینسر کے لئے کارآمد دوائی سپلاٹن (Ciplatin) کو بخارات کی شکل مےں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں مےں داخل کیا جائے گا، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دوا صرف اس جگہ اثرانداز ہوگی جہاں اس کی ضرورت ہوگی اور زیادہ موثر طریقے سے کام بھی کر سکے گی۔ اس نئے طریقے کی مدد سے دوسرے جسم پر دوا کے مضر اثرات سے بچا جاسکے گا۔
گلوکوز کی کمی پر دماغ کا ردعمل
یونیورسٹی آف پیل اور کچھ دیگر یونیورسٹیوں کے سائنسدانوں نے حال ہی مےں انسانی دماغ پر تجربات کر کے اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ جسم مےں گلوکوز کی کم مقدار کے وقت دماغ مےں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہےں کہ زیادہ توانائی والی خوراک کھانے کو دل چاہتا ہے۔ عام طور پر انسانی دماغ کا اگلا حصہ (Prefrontal Cortex) سب سے زیادہ گلوکوز استعمال کرتا ہے۔ دماغ مےں موجود ایک اور حصہ ہائپوتھیلمس (Hypothalamus) گلوکوز کی کم مقدار کو محسوس کر کے کچھ دوسرے حصوں کو پیغام دیتا ہے، اس پیغام کے نتیجے مےں دماغ کے اندر کچھ ایسی تبدیلیاں ہوتی ہےں کہ زیادہ سے زیادہ توانائی والی خوراک کھانے کو دل چاہتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ دماغ کا یہ سب سے اگلا حصہ (Prefrontal Cortes) گلوکوز کی کمی مےں زیادہ توانائی والی چیزیں کھانے کی خواہش کرنے پر قابو نہیں رکھ سکتا جبکہ دوسرے حصے قابو پا لیتے ہےں۔مزید اس ریسرچ سے ثابت ہوا کہ موٹے لوگوں کے دماغ ایسی حالت مےں زیادہ توانائی والی خوراک کی خواہش پر قابو رکھنے سے زیادہ قاصر ہوتے ہےں۔ پریشانی یا (Stress) کی حالت مےں بھی دماغ کے اس حصے کی بدولت زیادہ خوراک کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
قدرتی الارم کلاک
میک گل یونیورسٹی اور البرٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے حال ہی مےں نیند سے روزانہ مخصوص وقت پر خودبخود بیدار ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا ہے اس عمل کو جسم مےں موجود جینز جن کا نام الارم کلاک (Alarm Clock) جینز رکھا گیا ہے، مخصوص پروٹینز پیدا کر کے سرانجام دیتے ہےں۔ بیدار ہونے کے مخصوص وقت پر یہ جینز خودبخود یہ پروٹیز پیدا کرتے ہےں جو کہ جسم کے مختلف حصوں مثلاً دل کی دھڑکن اور دوسرے عوامل پر اثرانداز ہوکر انہیں نیند کی حالت سے بیداری کی حالت مےں لے کر آتی ہےں اور انسان نیند سے جاگ جاتا ہے۔یہ عمل فطرتی طور پر مخصوص وقت پر ہوتا رہتا ہے۔ سائنسدانوں کے خیال کے مطابق اسی قسم کے جینیاتی عوامل بڑھاپے مےں پائی جانے والی بیماریوں، کینسر اور ذیابیطس مےں پائے جاتے ہےں اور ان تجربات کی روشنی مےں ان بیماریوں کو سمجھنے اور ان کے علاج پر بھی غور کیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment