Ad

Ad

Friday, 7 December 2012

برکات دعا Barkaat e Dua


برکات دعا
دعا سے فارغ ہو کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہے
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم جب اپنے دونوں ہاتھ دعا میں اٹھاتے تھے تو جب ان ہاتھوں کو اپنے چہرہ انور پر نہ پھیر لیتے وہاں تک نیچے نہ رکھتے تھے۔ (ترمذی، مشکوة)
حضرت سائبؓ اپنے والد ماجدؓ سے نقل فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں دست مبارک اٹھاتے اور دعا سے فارغ ہوتے تو ان دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے۔ (مشکوة)
حدیث پاک میں ہے: حضرت نبی کریم کا دستور تھا (یعنی عادت مبارکہ تھی) کہ جب اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھاتے تھے تو دعا سے فارغ ہونے پر اپنے دست مبارکہ کو اپنے چہرہ انور پر پھیر لیا کرتے تھے۔ (ترمذی، حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم نے فرمایا: جو کوئی مسلمان یہاں تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرے کہ اس کی بغلیں ظاہر ہوں (یہ طریقہ انتہائی پریشانی کے وقت کیلئے ہے) اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری فرما دیتے ہئیں، جب تک جلدی نہ کرے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ: جلدی نہ کرے اس کے کیا معنی؟ حضور نے فرمایا کہ: یوں کہنے لگے کہ میں نے سوال کیا اور سوال کیا، (یعنی بار بار دعائیں منگیں مگر) مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔ (رواہ، ترمذی)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: حضرت نبی کریم نے فرمایا: اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں کے پشت سے نہ کرو، بس جب دعا سے فارغ ہو جاﺅ تو ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو۔ (مشکوٰة)
حضرت ابو نعیم ذہبؓ نے فرمایا: میں نے خود حضرت ابن عمرؓ اور ابن زبیرؓ کو دیکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات دعا کرتے تھے اور دعا سے فارغ ہو کر اپنی ہتھیلیوں (یعنی ہاتھوں) کو اپنے چہروں پر پھیر لیتے تھے۔
دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے سے قبولیت اور نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے
حضرت عمرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو جب تک ہاتھوں کو چہرے پر نہ پھیر لیتے تھے، نیچے نہیں گراتے تھے۔ 
(ترمذی، مشکوٰة صفحہ 195فضائل دعا صفحہ 96 حضرت مولانا عاشق الہی صاحب بلند شہری)
دعا سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ پر پھیر لینا یہ بھی نبی کریم کی سنت اور مسنون طریقہ ہے جس میں دعا کی قبولیت اور رحمت خداوندی نازل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت امام مالک اور علامہ ابن حجر کا قول
حضرت امام مالک نے فرمایا کہ: ہاتھوں کو دعا میں بہت زیادہ (اوپر) نہ اٹھائیں، اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت و دل جمعی کے وقت ہاتھ (سینہ تک) اٹھانا یہ اظہار عاجزی کے طور پر محمود و مسستحسن ہے، اس کے علاوہ علامہ ابن حجر نے شرح لباب میں اس (دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنے) کو آداب دعا میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ حلیمی فرماتے ہیں کہ: راز اس فعل کے مستحب و مستحسن ہونے میں نیک فال لینا ہے، گویا اس کے ہاتھ خیر و عافیت سے بھر گئے ہیں، اس کو اپنے چہرے پر ڈالتا ہے۔
گناہوں کی مغفرت طلب کرتے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کا مخصوص انداز
گناہوں کی بخشش و مغفرت چاہنے کا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا حلقہ بنا کر انگشت شہادت اٹھا کر اشارہ کرے کہ: یا بار الہا! بجز تیری ایک ذات کے اور کوئی بھی غفار الذنوب نہیں ہے۔
استغفار، کا ادب (طریقہ)یہ ہے کہ استغفار اور توبة اللہ کرتے وقت کلمہ شہادت والی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرکے مغفرت چاہی جائے جیسا کہ اوپر گزرا۔
ابتہال، (عاجزی) کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو دراز (لمبا)کرو اور اونچا اٹھاﺅ اس طرح کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے اور ہاتھوں کی پشت اپنے منہ کی طرف رکھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعاﺅں پر مختلف حالات و اوقات میں ہاتھ اٹھانے کے بھی الگ الگ طریقے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک شخص اپنی دونوں انگلیوں سے (اشارہ کرکے) دعا مانگ رہا تھا یہ منظر دیکھ کر حضرت نبی کریم نے فرمایا: ایک ایک، یعنی صرف ایک انگلی اٹھاﺅ۔ (ترمذی، نسائی)
حضرت امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اگر انگلیوں سے اشارہ کرے تو ایسے وقت کلمہ شہادت والی صرف ایک انگلی کھڑی کر کے اس سے اشارہ کرے، یہ اس لئے کہ خدا کی یکتائی کا مفہوم اسی سے پورا ہوا گا۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے کا عمومی مسنون طریقہ
حضرت سہل ابن سعدؓ حضور سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں، حضور اپنی دونوں انگلیوں یعنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے تھے اور پھر دعا مانگتے تھے۔
اس حدیث پاک میں دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کی جو مقدار بیان کی گئی ہے، ہاتھوں کو اٹھانے کا یہی عمومی اور اوسط درجہ ہے، حضور دعا کے وقت اکثر اپنے ہاتھوں کو اتنا ہی اٹھاتے تھے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں:خود میں نے حضرت نبی کریم کو اس طرح دعا مانگتے دیکھا ہے کہ اندرون ہتھیلی سے بھی اور اس کی پشت سے بھی۔ 
(رواہ ابو داﺅد)
حضرت خلاد ابن سائب انصاریؓ سے روایت ہے: حضرت نبی کریم جب (اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا) سوال کیا کرتے تو اس وقت (عموماً)اپنی ہتھیلیاں منہ کی طرف کیا کرتے تھے اور جب (کسی چیز سے) پناہ مانگتے تو ہاتھوں کی پشت کو اپنے منہ کی طرف رکھا کرتے تھے۔
دعاﺅں کا عمومی اور مسنون طریقہ تو یہی ہے کہ جس طرح دونوں ہاتھ پھیلا کر کسی سے کچھ مانگا جاتا ہے ھتو اسی طرح ہتھیلی کو منہ کی جانب کرکے اپنے مولیٰ سے سوال کیا جائے اور ختم دعا پر انہیں منہ پر پھیر دیا جائے۔ (ارواہ مسلم شریف)
کہیں زیادہ اضطرار و بے چینی ہو جیسے قحط سالی کے وقت نماز استسقاءکے بعد بارش کے لئے دعا مانگنا ہو تو ایسے اوقات میں ہاتھوں کو اونچا اٹھائے اور ہتھیلی کی پشت کا حصہ منہ کے سامنے کر لے، اس میں قال کے علاوہ حال (ہیئت) سے بھی درخواست کی جاتی ہے کہ یاغفور الرحیم اپنے غضب و غصہ کو رحمت سے بتدل دیجئے اور قحط سالی، امساکِ باراں کو خیر و عافیت والی بارشوں سے مبدل فرما دیجئے۔
پریشانیوں کے وقت ہاتھ اٹھانے کا مسنون طریقہ:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم (کبھی) دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
(مشکوٰة)
اس حدیث پاک سے ہاتھوں کو زیادہ اوپر اٹھانا معلوم ہوتا ہے تو یہ صورت بعض مخصوص اوقات پر محمول ہے۔
یعنی جب دعا میں بہت زیادہ استغراق، مبالغہ اور محویت منظور ہوتی تھی مثلاً استسقاءیا سخت آفات و مصائب اور پریشانی کے اوقات وغیرہ تو ایسے اوقات میں حضرت نبی کریم اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
(مشکوٰة)
ایک روایت میں ہے: حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: انتہائی عاجزی کا اظہار اس طرح ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان کی پشت کو اپنے منہ کے قریب کیا۔ (رواہ ابوداﺅد)
حضرت ابن عباسؓ نے دعا میں انتہائی عاجزی کے اظہار کا طریقہ عملی طور پر ویسا کرکے بتلا دیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا زیادہ اٹھایا کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی اور ہاتھ سر کے برابر (مقابل)پہنچ گئے۔
ہمیشہ اس طرح ہاتھ اٹھاتے رہنا یہ بدعت ہے:
حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں مروی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ تمہارا اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ اوپر اٹھاتے رہنا یہ بدعت ہے حضرت رسول کریم اکثر اس سے (یعنی سینے سے) زیادہ اوپر نہیں اٹھاتے تھے۔ (رواہ احمد، مشکوٰة)
حضرت نبی کریم کے دست مبارک اٹھانے کی مقدار کا فرق حالات و مواقع کے اختلاف پر مبنی تھا۔ حضور اکثر اپنے دست مبارک کو سینہ تک ہی اٹھاتے تھے مگر بعض مواقع پر مونڈھوں تک اور کسی خاص موقع پر مونڈھوں سے اوپر بھی اٹھاتے تھے۔ لیکن حضرت ابن عمرؓ نے جن لوگوں کو یہ تشبیہہ کی تھی کہ مواقع اور حالات کے اختلاف کو مد نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر موقع پر اور ہر دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بہت ہی زیادہ اوپر اٹھانے لگ گئے تھے اس لئے حضرت ابن عمرؓ نے ان کے اس طرز عمل سے بیزاری کا اظہار کیا اور اسے سنت کے خلاف قرار دیا۔
اسباب کے تحت ہر کام کے لئے کوشش کرنا انسان کے فرائض میں سے ہے:
پیران پیر سیدنا عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں: بیٹے تجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا اور تیرے کیے بغیر چارہ بھی نہیں بس تو کوشش کر، مدد کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس سمندر (یعنی دنیا) میں جس کے اندر تو ہے اپنے ہاتھ پاﺅں کو ضرور ہلا، موجیں (حوادثات زمانہ) تجھ کو اٹھا کر اور پلٹے دلا کر کنارہ تک لے بھی آئے گی۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے اور قبول کرنا اس کا کام، تیرا کام سعی کرنا ہے اور توفیق دینا اس کا کام، تیرا کام ہمت سے مصیبتوں (گناہوں) کو چھوڑنا ہے اور بچائے رکھنااس کا کام ہے تو اس کی طلب میں سچا بن جا، یقینا وہ تجھ کو اپنے قرب کا دروازہ دکھلا دے گا، تو دیکھے گا کہ اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف دراز ہو گیا۔
دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ اور عمل نہیں
حکیم الامت حضرت تھانوی نے فرمایا کہ دعا بڑی چیز ہے۔ تمام عبادات کا مغز ہے اور سب سے زیادہ آج کل اسی سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ: دعا ایسی چیز ہے کہ دنیا کے کاموں کے واسطے بھی دعا مانگنا عبادت ہے بشرطیکہ وہ کام شرعاً جائز ہو، بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ دین ہی کے کاموں کے واسطے اور آخرت ہی کی فلاح و بہبود کے لئے دعا کرنا عبادت ہے۔ بعض لوگ بجائے درخواست دعا کے لکھتے ہیں کہ: فلاں کام کے لئے کوئی مجرب عمل اور اوئی مجرب وظیفہ بتلا دیجئے، میں لکھ دیتا ہوں کہ: اس قید کے ساتھ مجھ کو عمل معمول نہیں اور دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ اور عمل نہیں۔
چھوٹی سی چیونٹی نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی
حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ اسلام کے زمانہ میں قحط سالی ہو گئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے بارش کی دعا کے لئے عرض کیا، حضرت سلیمانؑ دعا کے لئے باہر تشریف لے جا رہے تھے کہ اثنائے راہ یہ منظر دیکھا کہ ایک چھوٹی سی چیونٹی اپنے دونوں پیروں پر کھڑی ہے اور آگے کے دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ مناجات کر رہی ہے کہ: اے پروردگار! آپ کی مخلوقات میں سے میں بھی ایک مخلوق ہوں اور اے پروردگار: آپ کے فضل و کرم کی میں بھی محتاج ہوں، تو اپنے فضل و کرم سے بارش برسا دے، حضرت سلیمانؑ (چونکہ ان کی زبان جانتے تھے) ان کی دعا سن کر فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بے بس چیونٹی کی دعا قبول فرما لی اور بارش برسنا شروع ہو گئی اور میں وہاں سے واپس لوٹ آیا۔
دعا شروع کرنے سے پہلے اور بعد میں
وہ چیز اور وہ عمل جن کے کیے بغیر دعا کرنے والوں کی دعائیں زمین و آسمان کے درمیان معلق (لٹکتی) رہتی ہیں یا پھر ٹھکرا دی جاتی ہے، اسے قرآن مجید کی زبان میں صلوة و سلام کہا جاتا ہے، اس مقدس فصل کو قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ سے شروع کیا جا رہا ہے۔
یہ اس لئے کہ متعدد احادیث نبویہ میں یہ ارشاد وارد ہے کہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے اس کے بعد درود پاک سے دعا شروع کرکے درود شریف ہی پر دعا ختم کی جائے۔
پارہ 22۔رکوع4 سورہ احزاب
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں، ان پیغمبر پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو (تاکہ آپ کا حق عظمت جو تمہارے ذمہ ہے وہ ادا ہو)۔
فائدہ: اللہ تعالیٰ کا رحمت بھیجنا تو رحمت فرمانا ہے اور مراد اس سے رحمت خاصہ ہے جو آپ کی شان عالی کے مناسب ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا اور اسی طرح جس رحمت بھیجنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد اس رحمت خاصہ کی دعا کرنا ہے اور اسی طرح جس رحمت بھیجنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد اس رحمت خاصہ کی دعا کرنا ہے اور اسی کو ہمارے محاورے میں درود شریف کہتے ہیں۔
صلوة و سلام کے معنی
لفظ صلوٰة عربی زبان میں چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے: -1 رحمت-2دعا-3مدح و ثنائ۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت صلوٰة کی ہے اس سے مراد رحمت نازل کرنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة کے معنی ان کا حضور کے لئے ھدعا کرنا ہے اور عام ومومنین کی طرف سے صلوٰة نام ہے دعا اور مدح و ثناءکے مجموعہ کا، عام مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔
استاذ المحدثین حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے تحریر فرمایا، علماءنے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوة کے معنی رحمت بھیجنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة کے معنی استغفار کرنا ہے اور مومنین کی جانب سے صلوٰة کے معنی دعا کرنا ہے۔
آیت کریمہ کا ماحصل اور مقصد
صاحب معارف القرآن اس طرح فرما رہے ہیں: آیت کریمہ کا اصل مقصود، مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ حضور نبی کریم پر صلوٰة و سلام بھیجا کریں مگر اس کی تعبیر و بیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا حضور کے لئے عمل صلوٰة کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مومنین کو اس کا حکم دیا۔ جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرما دیا کہ آپ کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جا رہا ہے، وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں، تو عام مومنین جن پر رسول کے احسانات بے شمار ہیں، ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہیے اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود و سلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مقدس عمل میںشریک فرما لیا جو کام خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے کرتے ہیں۔
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں: مقصود ھاس آیت کریمہ سے یہ ہے کہ حضرت نبی کریم کی قدر و منزلت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے۔ جہ جان لے کہ جب خود اللہ تعالیٰ آپ کا مداح اور ثناءخواں ہے ھاور اس کے فرشتے حضور پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ ملاءاعلیٰ کی مذکورہ خبر کلام ربانی کے ذریعہ دے کر اب زمین والوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانوں تم بھی اپنے نبی کریم پر درود و سلام بھمیجا کرو تاکہ عالم علوی (آسمانوں) اور عالم سفلی (زمین والوں) کا اس پر اجماع ہو جائے۔
یہ اعزاز صرف نبی کریم ہی کو حاصل ہے
ایک عمل اتنا بڑا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ فرشتوں اور مسلمانوں کو بھی شریک فرما لیا۔ شیخ بلند شہری تحریر فرماتے ہیں: دراصل بات یہ ہے کہ حضور پر صلوٰة بھیجنا یہ وہ عمل ہے جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں خود اس عمل کو کرتا ہوں تم بھی کرو۔ یہ اعزاز صرف حضور ہی کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰة کی نسبت اوّلاً اپنی طرف پھر ثانیا اپنے فرشتوں کی طرف کی، پھر مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم بھی درود بھیجو۔ یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس عمل میں اللہ اور اس کے فرشتے بھی مومنین کے ساتھ شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے صلوٰة بھیجنے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کی فرشتوں کے سامنے تعریف و توصیف بیان فرماتے ہیں اور فرشتوں کا صلوٰة بھیجنا اس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے حضور کے لئے مزید اعزاز و اکرام کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور مومنین کا صلوٰة بھیجنا بھی نبی کریم کے لئے دعا کرنا ہے۔ یا اللہ امام الانبیاء کو اور زیادہبلند مرتبہ عطا فرما۔
درود شریف کے ذریعہ حضور کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرنے میں دعا مانگنے والے کے لئے بارگاہ الٰہی کی مقبولیت اور محبوبیت بھی ہے اور فرشتہ کی دعا کا استحقاق بھی ہے جو باعث رحمت ہے پس جو بندہ جس قدر زیادہ درود شریف پڑھے گا وہ محبوب بار گاہ ایزدی ہو گا اور مستحق رحمت ہو گا۔ ساتھ ہی اس کے درجات بلند ہوں گے اور گناہ معاف ہوں گے۔
اسیر مالٹا حضرت شیخ الھند فرماتے ہیں: حضرت شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور آپ کے گھرانے والوں پر یہ بڑی قبولیت کا مقام رکھتی ہے۔
oo

No comments:

Post a Comment