Ad

Ad

Monday, 17 December 2012

ٹیلی ویژن (Television)


عنبرین فاطمہ
ٹیلی ویژن ایک ایسا میڈیم ہے جو ہمیشہ سے ہی دیکھنے والوں کی اصلاح کا ذریعہ رہا ہے جب تک پرائیویٹ چینلز کا آغاز نہیںہوا تھالوگ مخصوص قسم کے پروگرام دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اورچوائس ہی نہیں ہوتی تھی۔گزشتہ ایک دہائی سے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار نے جہاںلوگوں کو تفریح فراہم کی ہے وہاں ایسے پروگرام بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کاکوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔جیسے آج کل کے بعض ”مارننگ شوز“ کا انداز اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ان شوز کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ میزبانی صرف بے مقصد بولنے کا نام ہے۔دو ،دوگھنٹے کے ان پروگراموں میں زیادہ تر ناچ گانا،بے ہودہ گفتگو اور سکرپٹ کے بغیر میزبان آپ کو شو کے سیٹ پر مہمانوں کے ہمراہ ڈانس کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کو دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے جیسے ہم کوئی سٹیج شو دیکھ رہے ہیں جہاں کوئی جگتیں لگا رہا ہے تو کوئی ڈانس کر رہا ہے کہیںکوئی گانا گا رہا ہے تو کوئی تالیاں بجا رہا ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو زیادہ تر مارننگ شوز میں کوئی مفید بات کی ہی نہیں جاتی اور دو یا تین گھنٹے گھٹیا قسم کی گفتگو اور مزاح کر کے شو ختم ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود بعض پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں میزبان خواتین سلجھے ہوئے انداز اور تہذیب سے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ایسی میزبان خواتین نے میزبانی کے انداز کو بالکل ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ایسی میزبان خواتین کے شوز تو کسی سٹیج شو کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیںآخر یہ خواتین لوگوں کو کیا دکھانا چاہتی ہیںاگر بے ہودہ مذاق ، بے مقصد باتیں کرنا اورناچ گانا ہی دکھانا ہے تو پھر تھیٹرز میں چلنے والے سٹیج شوز بند کر دیئے جائیں اور انہی ٹی وی شوز سے کام چلا لیا جائے۔اگر ہم یہ کہیں کہٹی وی پروگراموںکا لیول گھٹیا قسم کے سٹیج شوز سے بھی آگے چلا گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ناظرین ہمیشہ وہ دیکھتے ہیں جو آپ ان کو دکھاتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ٹرینڈز تبدیل ہونے چاہیں پروگراموں کے انداز بھی تبدیل ہونے چاہیں لیکن ان میں تبدیلی ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کرے ۔ملازمت پیشہ لوگ اور سکول ،کالج جانے والے بچے جب گھر سے چلے جاتے ہیں تو گھروں میں موجود چھوٹے بچے وہ اپنی ماﺅں کے ساتھ ایسے شوز کو دیکھتے ہیں تو دن بھر وہ بھی وہی سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوتا ہے۔آج کل کسی ایک چینل نے اگر کوئی پروگرام شروع کیا اور وہ عوام کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تو اس کی طرز پر مزید دس چینلز پروگرام شروع کر دیتے ہیں اور چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ہر حد سے گزرنا پڑے تو گزر جاتے ہیں۔پروگراموں کا معیار دن بہ دن نیچے آرہا ہے۔ کہیں دو یا دو سے زیادہ کامیڈین کے درمیان ایکمیزبان بیٹھ کر سطحی طنزو مزاح کرتے ہوئے نظر آتا ہے جس پر خود ہی قہقے لگا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب کچھ کیا ہے میزبان کی تو تعریف ہی تبدیل ہو گئی ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحیہ پرواگرام ٹی وی پر چلائے جائیں مارننگ شوز بھی کئے جائیں لیکن میزبانوں کے لئے کچھ حدود مقرر کی جائیں جن کے دائرے میں رہ کر پروگرام پیش کیا جائے تاکہ دیکھنے والے کو اصلاحی اور بامقصد پروگرام دیکھنے کا موقع ملے کیا ناچ گانا ، بے ہودہ اور بے معنی باتوں کے بغیر پروگرام چل نہیں سکتے ؟۔مارننگ شوز کے چند ایک میزبان بلاشبہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے ان پروگراموںکی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔تاہم کچھ ایسے میزبان ہیں جو اپنے پروگرام کے پلیٹ فارم سے ناظرین کی ملاقات ایسے لوگوں سے کرواتے ہیں جن کی سماجی شعبے میں خدمات ہیں اور جنہوں نے واقع ہی سوسائٹی کے لئے کام کیا ہے ان کے انٹرویوز کا سلسلہ ایک اچھی روش ہے یہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایسی شخصیات اور انٹرویوز لوگوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار کرتے ہیں لیکن خدارا مارننگ شوز کے سیٹ کو تھرڈ کلاس سٹیج مت بنائیں۔جن فنکاروں کے پاس کام نہیں ہے اور جومیزبانی کی” الف ب“ سے بھی واقفیت نہیں رکھتے وہ بھی مختلف چینلز پر مارننگ شوز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صرف معروف چہرہ ہی کسی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بہت ہی جلد ناظرین ایسے لوگوں سے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ مارننگ شوز کرنے والوں سے تولوگ واقعی اب تنگ آچکے ہیں۔ آج سے چند برس قبل ٹی وی کی ایک معروف فنکارہ نے مقامی چینل پر مارننگ شو کا آغاز کیا اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پروگرام کو ایک نئی سمت دی ان انٹرویوز میں بے تکلفی سے گفتگو بھی کی گئی لیکن اس گفتگو میں کہیں بھی بے مقصد بھرتی کے جملوں کا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ان کی میزبانی کے انداز کو بعد میں ہر دوسرے چینل پر خواتین نے کاپی کیا لیکن افسوس کے ان کے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کو بے مقصد باتوںمیں تبدیل کر دیا گیا اور مارننگ شو کی شکل اس قدر بگاڑ دی کہ اب مارننگ شو کم اور سٹیج شو زیادہ لگتے ہیں۔اس حوالے ہم نے ثریا بجیاجو کسی تعارف کی محتاج نہیںہیں سے بات کی انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی ۔فاطمہ ثریا بجیا نے کہا کہ آج کل کے مارننگ شوز کو جو خواتین پیش کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر واحیاتی ہے ان کے لباس اس قسم کے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں خواتین پہن ہی نہیں سکتیں۔ہر کوئی قوم کو بے راہ روی پر چلا رہا ہے اگر سیاستدان ملک کو لوٹ کھا رہے ہیں ،ہرشعبے میں بے ایمانی ہو رہی ہے تو ٹیلی ویژن کے بہت سارے پروگرام بھی قوم کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں نوجوان ٹی وی پر جو دیکھتے ہیں اس کو عملی زندگی میں آزمانے کی کوشش میں بعض اوقات اپنا بہت سارا وقت اور پیسہ ضائع کر بیٹھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔اس طرح کے پروگرام دیکھ کر یہ لگتاہی نہیں ہے کہ ہمارا ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے۔یہ بات بھی ساتھ ہے کہ چند ایک میزبان خواتین بامقصد اور اصلاحی پروگرام پیش کر کے لوگوں اور خصوصی طور پر خواتین کی اصلاح کر رہی ہیں لیکنکچھتو واقع ہی ایسی ہیں جنہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اصلاحی پہلوﺅں کو زیر بحث لائیں گی ہی نہیںجوکہ غلط روش ہے ۔پروگرام تشکیل دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لوگوں کو مت الجھائیں اور برائی کو فروغ نہ دیں۔مستنسر حسین تارڈ جن کو پاکستان ٹیلی ویژن سے پہلا لائیو مارننگ شو کرنے کا اعزاز حاصل ہے ان سے ہم نے سے خصوصی انٹرویو کیا ۔انہوں نے کہا کہ آج بہت کم میزبان لڑکیاں اچھا کام کر رہی ہیں لیکن زیادہ تر تو بس دو گھنٹے صرف کرنے کےلئے الٹی سیدھی باتیں کی جاتی ہیں ۔سیدھی سی بات ہے ان کے پاس وقت زیادہ ہوتا ہے بولنے کے لئے کچھ ڈھنگ کا تو ہوتا نہیں اس لئے دو گھنٹے ختم کرنے کے لئے جو منہ آئے بولتی چلی جاتی ہیں۔میںان کو مارننگ نہیں ورائٹی شوز کہوں گا کیونکہ ان شوز کے ذریعے دیکھنے والوںکو حماقت،کامیڈی،ناچ گانا ہر چیز دیکھنے کا موقع ملا جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ فن کی خدمت کے جذبے سے آتے ہیں ان میں آداب اور لحاظ پایا جاتا ہے اس کے بر عکس محض نمود و نمائش کے لئے آنے والے اپنے رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔ایک چینل لگاﺅ تو وہاں مارننگ شو میں ناچ گانا/رقص ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی انڈین گانوں پر ،دوسرا چینل لگاﺅ تو وہاںبھی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے ۔یہ چیزیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس طرح کے شوز لوگوں تک پہنچانے کا مقصد کیا ہے۔ہم نے جب پاکستان ٹیلی ویژن سے 1986ءمیں مارننگ شو کا آغاز کیا تواس شو کا مقصد صرف لوگوں کی اصلاح تھا مجھے جب مارننگ شو کرنے کی پیشکش ہوئی تو میں نے یہ پروگرام کرنے سے قبل پورا ہوم ورک کیا باہر کے ممالک میں جو مارننگ شوز ہوتے تھے ان کی سی ڈیز منگوا کر دیکھیں ان کے شوز کا انداز مختلف تھا ہم ویسا شو تو نہیں کر سکتے تھے لیکن میں نے ان شوز سے رہنمائی لی اور اپنے مارننگ شو کو پاکستانی مارننگ شو بنایا۔ہم نے اس میں ہیلتھ سیکشن رکھا،ڈرامہ رکھا،داتنوں کی حفاظت کیسے کی جائے وہ بھی پہلو رکھا ،میوزک حتی کہ کھانے پکانے کی ترکیبیں بھی بتایا کرتے تھے اور دیکھنے والوں کے ساتھ روزمرہ کی باتیں کی جاتی تھیں بچوں کی دلچسپی کو بھی مد نظر رکھا جاتا تھا۔ اس شو کے آخر میں ”چھوٹی سی بات“ بھی کیا کرتا تھا جو کہ اس زمانے میں بہت مشہور ہوئی اس پروگرام سے ہٹ کر مجھے کوئی بھی ملتا تھا تو چھوٹی سی بات کی بے حد تعریف کرتا تھا آج بھی کرتے ہیں۔ہمیں پورے پاکستان سے پروگرام کو پسندیدگی کے حوالے سے بے حد خط موصول ہوا کرتے تھے اتنے خطوط موصول ہوتے تھے کہ ان سے ایک کمرہ بھر گیا تھا اور ڈاکیے نے اپنی ٹرانسفر صرف اس لئے کروالی تھی اس کا کہنا تھا کہ میں پوسٹ مین ہوں مزدور نہیں جو ہر روز مزدوروں کی طرح اتنے خطوط لاد کر لیکر آﺅں۔ اب تو زمانہ بہت آگے جا چکا ہے ہم مانتے ہیں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے اورچلنا چاہیے بھی لیکن اخلاقیات کا دامن تو کسی بھی صورت میں چھوڑ دینے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔آج تو گلیمر پرموٹ ہورہا ہے پروگرام میں کیا دکھایا جارہا ہے اور لوگ اس سے کیا سیکھ رہے ہیں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں بے ہودہ قسم کی کالز پروگرام میں شامل کی جاتی ہیں آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں،آپ کا سوٹ بہت اچھا ہے،آپ نے بال بہت اچھے بنائے ہیں،آپ کی بالیاں بہت اچھی ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا پروگرام سے کیا تعلق ہے ؟؟؟ میں آج کل کی میزبان خواتین کو میزبانیاں کہتا ہوں انہیں جن موضوعات پر کمانڈ بھی حاصل نہیں ہوتی ان پر بھی خود کو افلاطون سمجھ کر گفتگو فرما رہی ہوتی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جس مہمان کو بلا کر بٹھایا ہوتا ہے اس پر کم اور میزبان پر کیمرہ زیادہ رکھاجاتا ہے۔ ہر موضوع پر بے تکا بولنا ہر میزبان اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی باتوں کے ذریعے حکمت کے اتنے موتی بکھیرتی ہیں کہ شو کا سیٹ ان موتیوں سے بھر جاتا ہے مہمان جب اٹھ کر جانے لگتا ہے تو ان موتیوں سے اس کا پاﺅں پھسل ہوجاتا ہے اور ارسطو،فیض احمد فیض کے علاوہ دیگر بڑی شخصات سیٹ کے کونے میںشرمندگی سے رو رہی ہوتی ہیںمیں بہت متاثر ہوںحکمت کے ان موتی بکھیرنے والوںسے۔کبھی کبھی تو ایسی شخصیات بطور مہمان دیکھنے کو ملتی ہیں جن کو ہم نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔میں پینٹ کوٹ پہننے کا عادی تھا لیکن جب شو شروع کیاگیا تو خود کو پاکستان اور اس کے کلچر کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے قومی لباس شلوار قمیض پہنی تاکہ دیکھنے والے کو احساس ہوکہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔موجودہ صورتحال میں جس طرح کے لوگ پروگراموںکی میزبانی کر رہے ہیں اور کامیابی کا معیار شور مچانا اچھل کود کرنا ،پرکشش لگنا ،مقرر کر دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے کامیابی کےلئے اپنی وضع قطع کے ساتھ مرد حضرات عورتیں بن کر پروگرام کرنے میں عار محسوس کرنے کی بجائے اس پر فخر محسوس کرتے ہیں میزبان لڑکی کے روپ میں اپنے مہمانوں کے ساتھ فلرٹ کر رہا ہوتا ہے یہ کیا ہے سب کچھ؟کچھ میزبان جن کے گلے میں سرنام کی کوئی چیز نہیں وہ بھی گانا گا رہے ہوتے ہیں چاہے ڈانس نہیں بھی آتا پھر بھی ڈانس کر کے،ڈانس کرنے والوں کے اس ہنر کو شرمندہ کیا جارہا ہوتا ہے میرے لئے تو یہ سب کچھ مایوس کن ہے۔اگرہم ڈراموں کی بات کریں توواقع ہی ایسے ایسے فنکار ہیںجن کی اداکاری دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہمیں جہاں اور جس کا اچھا کام نظر آئے گا یا آتا ہے تو ہم ضرور تعریف کرتے ہیں ۔ماضی کی معروف کمپئرخوش بخت شجاعت نے کہا کہ میں ایک عوامی نمائندہ ہوں میرا پبلک کے ساتھ بہت زیادہ میل ملاپ ہے میں نے اس کلاس کو مارننگ شوز پر تنقید کرتے ہوئے سنا ہے جس نے دنیا دیکھ رکھی ہے ۔اس طبقے کی خواتین باقاعدہ ڈسکس کرتی ہیں کہ ہمارے مارننگ شوز آخر عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں لہذا اس کلاس میں تو اس قسم کے پروگرام بالکل بھی مقبول نہیں ہیں۔جو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کے لئے تو اس قسم کے پروگرام اور ان کا گلیمر بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ ان شوز کو شوق سے دیکھتے ہیں اور اس جادوئی دنیا کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں ان کے لئے میزبان کا جوڑا ،ان کی بے ربط باتیںاوربالوں کا سٹائل ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس قسم کا طبقہ پاکستان میں بہت زیادہ ہے جو خط غربت کی لکیر تلے زندگی گزار رہا ہے وہ لوگ تصوراتی دنیا میں لیجانے والے ان پروگراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں اس لئے ان شوز کی ریٹنگ بھی زیادہ ہے۔ہماری میزبان لڑکیاں آج دوپٹہ اتار کر کس پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے دوپٹہ اتارنا،زرق برق لباس پہننا،اور باتیں اس طرح کرنا کہ ہم خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔شام شات بجے سے رات بارہ بجے کے اگر ہم اپنے ٹی وی پروگرام دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ صبح پاکستان کا پتہ نہیں کیا بنے گا یوں ایک عام آدمی ان پروگراموں میں ہونے والی گفتگو سے مایوس ہو کر سوتا ہے اور صبح اٹھتے ہی چینلز پر جس قسم کے شوزدیکھنے کو ملتے ہیں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان مسائل میں گھرا ہے اور ان پروگراموں کی میزبانوں کو دیکھ کر یہ بھی نہیں لگتا ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ہندو کلچر کی خواتین چاہے کسی بھی لباس میں ہوں ،ساڑھی یا جینز میں وہ بھی اپنے ماتھے پر تلک لگا لیتی ہیں اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرکے اپنے ہندو کلچر کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو میزبانوں کے رنگ ڈھنگ ہی پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نہیں لگتے۔ایک پروگرام عوام میں مقبول ہوتا ہے تو اس کی طرز پرمزید دس پروگرام اور مارکیٹ میں آجاتے ہیں ریٹنگ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں ۔پروگرام بنانے اور اس کو پیش کرنے والوں کو خیال ہی نہیں آتا ہے کہ ہم عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کیا پیغام دے رہے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے اس طرح سے پروگراموں کوکامیاب بنانے کے لئے ہر حد سے گزرنا ہماری ثقافت ،ہماری اقدار کو زبردست دھچکہ ہے۔انسان کا کام اور اس کام کے اچھے پہلو ہی کسی بھی فنکار کی پہچان ہوتے ہیں ہم نے جو کام کیا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے بلکہ جہاں بھی پرستار ملتے ہیں وہ باقاعدہ ہمارے پروگرام اور ان میں کی گئی باتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔پروگرام بنانے والے اور اس کو پیش کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنا تشخص برقرار رکھ کر پروگرام پیش کریں۔

No comments:

Post a Comment