بکھرے موتی
پریشانیوں سے نجات اور رزق میں برکت کیلئے آسان نبوی نسخہ:
”مَاشآئَ اللہُ لاحَو ±لَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ، اَش ±ھَدُ اَنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ± ئٍ قَدی ±ر µ“
”وہی ہو گا جو اللہ چاہے نہ کوئی طاقت ہے نہ قوت سوائے اللہ کے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے“۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ” جو شخص صبح یہ دعا پڑھ لے تو اس دن بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو اس رات بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا۔
(ابن السنی، کنز العمال: 106/2، الدعاءالمسنون: ص 254)
بسم اللہ کے خواص:
-1 مجربات دیر بی مطبوعہ مصر ص4 پر شیخ احمد دیربی کبیر فرماتے ہیں کہ بسم اللہ کے بعض خواص میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی محرم کی یکم تاریخ کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک ورق (کاغذ) پر ایک سو تیرہ (113) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے تو پوری زندگی اس کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
-2 بعض صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کو بارہ ہزار بار پڑھے اور ہر ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور نبی کریم پر درود بھیجے، اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ سے اپنی حاجت کا سوال کرے، پھر دوبارہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھے اور ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز اور درود شریف پڑھ کر طلب حاجت کرے، اسی طرح پڑھتا رہے یہاں تک کہ بارہ ہزار عدد مذکور پورے ہو جائیں۔ پس جو کوئی اس پر عمل کرے گا، حاجت اس کی جس طرح کی ہو گی باذن اللہ پوری ہو گی۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-3 جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م سات سو چھیاسی (786) بار متواتر سات دن جس کام کے واسطے پڑھے گا خواہ نفع حاصل کرنے کے واسطے ہو یا مصیبت کو ہٹانے کے واسطے ہو یاکاروبار کے واسطے ہو۔ انشاءاللہ وہ مقصد پورا ہو گا۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-4 خزینة الاسرار للنازلی میں لکھا ہے کہ جو شخص رات کو سوتے وقت اکیس 21 دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر سوئے وہ تمام رات انسانی، شیطانی شرارتوں اور جن، بھوت اور آگ سے محفوظ رہے گا۔
-5 مرگی والے کے کان میں اکتالیس (41) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر دم کرنے سے وہ ہوش میں آ جاتا ہے۔
-6 درد یا جادو وغیرہ متواتر (لگاتار) سات دن سو (100) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھنے سے درد اور جادو دُور ہو جاتا ہے۔
-7 اتوار کی صبح سورج نکلتے ہی تین سو تیرہ (313) دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اور سو(100) دفعہ درود شریف پڑھنے سے غیبی رزق کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
-8 اکیس (21) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈالنے سے بچہ تمام آفات و بلیات سے مامون رہتا ہے۔
-9 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اکسٹھ (61) بار کسی کاغذ پر لکھی جائے اور جس عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی ہو اور اس کو اپنے پاس بطور تعویز رکھے۔ انشاءاللہ اس کی اولاد زندہ رہے گی، یہ امر مجرب اور آزمودہ ہے۔ (مجربات دیربی)
-10 اگر کوئی شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک سو ایک (101) بار لکھ کر اپنے کھیت میں دفن کرے تو موجب سر سبزی ءکھیت و فراوانی ءغلہ و حفاظت از جملہ آفات و باعث حصول برکت ہو گا۔ (مجربات دیربی: صفحہ6)
-11 ایک مرد صالح نے کہا کہ جو کوئی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م چھ سو پچیس (625) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہیبت عظیم دے گا۔ کوئی شخص اس کو ستا نہ سکے گا۔ باذن اللہ۔ (کتاب الداءوالدواءللنواب صدیق حسن خان: ص17)
-12 امام رازی تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 168 پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرعون نے دعویِٰ الوہیت کرنے سے پہلے ایک مکان بنایا تھا اور اس کے بیرونی دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی تھی۔ جب اس نے خدائی دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰؑ نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے قبول نہ کی تو حضرت موسیٰؑ نے اس کے حق میں بددعا کی ”خداوندا! تو نے اس خبیث کو کس لئے مہلت دے رکھی ہے؟“ وحی آئی اے موسیٰ! یہ ہے تو اس قابل کہ اس کو ہلاک کر دیا جائے لیکن اس کے دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب سے بچا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے فرعون پر گھر میں عذاب نہیں آیا، بلکہ وہاں سے نکال کر دریا میں غرق کر دیا گیا۔ سبحان اللہ! جب ایک کافر کا گھر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی وجہ سے عذاب سے بچ گیا تو اگر کوئی مسلمان اس کو اپنے دل و دماغ اور زبان پر لکھ لے تو کیوں نہ وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہے۔
-13 حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ مفسرین نے کہا ہے کہ جب طوفان نوحؑ نے اس دنیا کو اپنے خوفناک عذاب کے چنگل میں گھیر لیا اور حضرت نوحؑ اپنی کشتی میں سوار ہوئے تو وہ بھی خوف غرق سے بہت ہراساں و لرزاں تھے۔ انہوں نے غرق سے نجات پانے اور اسی عذاب خداوندی سے محفوظ رہنے کے لئے بِس ±مِ اللہِ مَج ±رھَا وَمُر ±سٰھَاکہا اس کلمہ کی برکت سے ان کی کشتی غرقابی سے محفوظ و سالم رہی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ جب اس آدھے کلمے کی وجہ سے اتنے ہیبت ناک طوفان سے نجات حاصل ہوئی تو جو شخص اپنی پوری زندگی اس پورے کلمے یعنی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اسے اپنے ہر کام کی ابتداءکرنے کا التزام کر لے وہ نجات سے کیونکر محروم رہ سکتا ہے؟ (تفسیر عزیزی: صفحہ6 و تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ169)
-14 حضرت سلیمانؑ نے جب بلقیس ملکہ یمن کو پہلا خط لکھا تو لکھا اِنَّہ ¾ مِن ± سُلَی ±مَانَ وَالَّہ بِِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م تو اس کی برکت سے بلقیس ان کے نکاح میں آئیں اور اس کا پورا ملک حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں آیا۔
(تفسیر کبیر: جلد1صفحہ 169)
-15 حضرت عیسیٰؑ کا ایک دفعہ قبرستان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک شخص کو نہایت شدت کے ساتھ عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰؑ چند قدم آگے تشریف لے گئے اور وضو اور نہا کر واپس ہوئے۔ اب واپسی پر جو اس قبر کے پاس سے گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ اس قبر میں نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ آپ بہت حیران ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ مجھے اس کا راز بتایا جائے۔ ارشاد ہوا کہ روح اللہ! یہ شخص سخت گنہگار و بدکار تھا، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا لیکن اس نے اپنی بیوی حاملہ چھوڑی تھی اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا، جہاں اس کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھائی گئی ۔ مجھے حیا آئی کہ زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں کہ جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ172)
-16 حضرت خالد بن ولیدؓکے پاس کوئی شخص زہر ہلا ہل (مہلک) کا لبریز پیالہ لایا اور کہا کہ اگر آپ اس زہر کو پی کی صحیح سلامت زندہ رہیں تو ہم جان لیں گے کہ آپ کا مذہب اسلام سچا مذہب ہے۔ آپ نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر وہ زہر پی لیا اور خدا کے فضل سے کچھ بھی اثر نہ ہوا۔
-17 قیصر روم کو بڑی شدت سے درد سر ہوا۔ علاج معالجہ سے مایوسی کے بعد اس نے حضرت فاروق اعظمؓ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے درد سر کی شکایت ہے، کچھ علاج کیجئے۔ آپ نے اس کے پاس ایک ٹوپی بھیج دی۔ جب بادشاہ ٹوپی اوڑھتا تھا تو درد کافور ہو جاتا اور جب اتار دیتا تھا تو دردِ سر دوبارہ شروع ہو جاتا، اس کو سخت تعجب ہوا۔ اس نے ٹوپی کو کھلوا کر دیکھا تو اس میں ایک پرچہ رکھاہوا تھا جس میں بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھا ہواتھا۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ171)
-18 علماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ پانچ گھنٹوں کے لئے تو پانچ وقت نمازیں مقرر ہیں اور انیس 19 گھنٹوں کے لئے یہ انیس حروف عطا فرمائے گئے تاکہ انیس گھنٹوں میں ہر نشست و برخاست ہر حرکت و سکون اور ہر کام کے وقت ان انیس حروف کے ذریعے برکت و عبادت حاصل ہو۔ یعنی ان حروف بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکت سے یہ انیس گھنٹے بھی عبادت میں لکھے جائیں۔ (تفسیر عزیر :16/1)
-19 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات میںسے ایک یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جب کوئی شخص بیت الخلاءجانا چاہے تو چاہیئے کہ وہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کہہ کر جائے تاکہ (اس کی وجہ سے) اس کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ واقع ہو جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کہہ کر بیت الخلاءجاتا ہے تو اس کا خاصہ یہ ہے کہ جنات کی نظر اس کی شرمگاہ کی طرف نہیں جاتی۔ لہٰذا جب اس کی تاثیر یہ ہے کہ یہ آیت انسان اور اس کے دشمن (جنات) کے درمیان پردہ بن جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ ایک مسلمان اور عذاب عقبیٰ کے درمیان بھی یقینا پردہ بن کر حائل ہو گی۔
(تفسیر عزیزی)
-20 حضرت بشر حافی نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پرچہ پر لکھی ہوئی زمین پر پائی، اس کو اٹھا لیا۔ ان کے پاس سوائے دو درہم کے اور کچھ نہ تھا۔ خوشبو خرید کر اس پرچہ کو آپ نے خوشبو لگائی، اس کے صلہ میں خواب کے اندر حق سبحانہ و تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی اور فرمایا: اے بشر! تو نے میرے نام کو خوشبو دار بنایا، میں تیرے نام کو دنیا اور آخرت میں خوشبو دار بناﺅں گا۔
(کتاب الداءو الدواءاللنواب صدیق حسن، تفسیر کبیر: صفحہ171)
ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ:
وہ خوش نصیب صحابی جن کی قبر میں خود حضور اترے اور فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا“ ۔
ایک یتیم بچہ تھا، اس کا نام عبداللہ تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ بکریاں غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی تھی۔ عبداللہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کر سکا۔ جب نبی کریم فتح مکہ سے واپس گئے تو عبداللہ نے چچا سے کہا: ”پیارے چچا! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں؟ لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا، مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاﺅں“۔ چچا نے جواب دیا: ”دیکھ اگر تو محمد کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا، تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا“۔ عبداللہ نے جواب دیا: ”چچا جان! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد کا اتباع قبول کروں گا، شرک اور بُت پرستی سے میں بیزار ہو چکا ہوں، اب جو آپ کا منشاءہے کیجئے اور جو کچھ میرے قبضہ میں زر و مال وغیرہ ہے، سب کچھ سنبھال لیجئے، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، اس لئے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا“۔ عبداللہ نے یہ کہہ کر کپڑے اتار دینے کا فیصلہ کیا اور ماں کے سامنے گئے۔ ماں حیران ہوئی کہ کیا ہوا! عبداللہ نے کہا: ”میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی کریم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں، ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے، مہربانی کرکے دے دیجئے‘:‘۔ ماں نے ایک کمبل دے دیا، عبداللہ نے کمبل پھاڑا، آدھے کا تہبند بنا لیا، آدھا اوپر اوڑھ لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گئے۔ علیٰ الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے تکیہ لگا کر آنحضرت کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ نبی کریم جب مسجد مبارک میں آئے، اسے دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو؟ کہا میرا نام عبدالعزیٰ ہے، فقیر و مسافر ہوں، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہو کر درِ دولت آ پہنچا ہوں۔
نبی کریم نے فرمایا: ”تمہارا نام عبداللہ ہے، ذُوالبجَادَی ±ن لقب ہے، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو“۔ عبداللہ اصحابِ صفہ میں شامل ہو گیا، نبی کریم سے قرآن سیکھتا اور دن بھر عجب ذوق و شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتا۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ لوگ تو نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کر رہا ہے کہ دوسروں کی قرات میں مزاحمت ہوتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ”عمر! اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے“۔
عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ میں بھی راہ خدا میں شہید ہو جاﺅں۔ نبی کریم نے فرمایا: جاﺅ کسی درخت کا چھلکا اتار لاﺅ۔ عبداللہ لے آئے تو نبی کریم نے وہ چھلکا ان کے بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا: ”الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں“۔ عبداللہ نے کہا: ”یارسول اللہ ! میں تو شہادت کا طالب ہوں“۔ نبی کریم نے فرمایا: ”جب اللہ کے راستے پر نکلو اور پھر بخار آئے اور مر جاﺅ تب بھی تم شہید ہی ہو گے“۔
تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کر گئے۔ بلال بن حارث مزنی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہؓ کے دفن کی کیفیت دیکھی۔ رات کا وقت تھا، حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں چراغ تھا، حضرت ابوبکر و عمرؓ ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے ۔ نبی کریم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے فرما رہے تھے: اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو، آنحضرت نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا: ”اے اللہ! میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا“۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ کاش اس قبر میں، میں دفن کیا جاتا۔
(مدارج النبوة مترجم: 90/2،91، ابن ہشام:528,527/2)
فنش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کے دن صلہ رحمی کی رانیں ہرن کی رانوں کی طرح ہوں گی:
مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی، اس کی رانیں ہوں گی مثل ہرن کی رانوں کے، وہ بہت صاف اور تیز ربان سے بولے گی، پس وہ (رحمت سے) کاٹ دیا جائے گا جو اسے کٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملانا تھا۔ صلہ رحمی کے معنی ہیں: قرابت داروں کے ساتھ بات چیت میں، کام کاج میں سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم (رشتہ داری) کھڑی ہوئی اور رحمن سے چمٹ گئی، اس سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا یہ مقام ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا۔ اس پر اللہ عز و جل نے فرمایا: کیا تو اس سے راضی نہیں کہ تیرے ملانے والے کاو میں (اپنی رحمت سے) ملاﺅں اور تیرے کاٹنے والے کو میں (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں؟ اس نے کہا ہاں! اس پر میں بہت خوش ہوں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص کشادہ روزی اور عمر دراز چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، مسلم) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد نے کہا: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں ان کے ساتھ میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ بُرا برتاﺅ کرتے ہیں، میں ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ جاہلانہ برتاﺅ کرتے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہہ رہا ہے تو گویا تو ان کے منہ پر گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ (یعنی تو ان کو ذلیل و رسوا کر رہا ہے) اور جب تک تیری یہی حالت رہے گی تیرے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک مدد گار (فرشتہ) رہے گا۔
(مسلم شریف)
حضرت جبرائیلؑ نے حضور کو پریشانیوں سے نجات کی دعا سکھائی:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک نے فرمایا: جب بھی ہمیں کوئی مصیبت پیش آئی، حضرت جبرائیلؑ تشریف لاتے اور فرماتے: یہ دعا پڑھو:
”تَوَکَّل ±تُ عَلَی ال ±حَیِّ الَّذِی لَا یَمُو ±تُ لَم ± یَتَّخِذ ± وَلَداً وَّلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ شَری ±ک µ فِی ± ال ±مُل ±کِ وَلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ وَلِیّ µ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّر ±ہُ تَک ±بِی ±راً“۔
”بھروسہ کیا میں نے اس ذات پر جو زندہ ہے مرے گی نہیں جس نے نہیں بنایا بیٹا نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے نہ کوئی ذلت میں مدد گار ہے۔ اس کی بڑائی بیان کیجئے“۔
(کنز العمال: 72/2، الدعاءالمسنون: ص419,418)
oo
No comments:
Post a Comment