Ad

Ad

Tuesday, 25 December 2012

Urdumediamela: Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Urdumediamela: Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Monday, 17 December 2012

ٹیلی ویژن (Television)


عنبرین فاطمہ
ٹیلی ویژن ایک ایسا میڈیم ہے جو ہمیشہ سے ہی دیکھنے والوں کی اصلاح کا ذریعہ رہا ہے جب تک پرائیویٹ چینلز کا آغاز نہیںہوا تھالوگ مخصوص قسم کے پروگرام دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اورچوائس ہی نہیں ہوتی تھی۔گزشتہ ایک دہائی سے پرائیویٹ چینلز کی بھرمار نے جہاںلوگوں کو تفریح فراہم کی ہے وہاں ایسے پروگرام بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کاکوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔جیسے آج کل کے بعض ”مارننگ شوز“ کا انداز اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ان شوز کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ میزبانی صرف بے مقصد بولنے کا نام ہے۔دو ،دوگھنٹے کے ان پروگراموں میں زیادہ تر ناچ گانا،بے ہودہ گفتگو اور سکرپٹ کے بغیر میزبان آپ کو شو کے سیٹ پر مہمانوں کے ہمراہ ڈانس کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کو دیکھ کر یوں گماں ہوتا ہے جیسے ہم کوئی سٹیج شو دیکھ رہے ہیں جہاں کوئی جگتیں لگا رہا ہے تو کوئی ڈانس کر رہا ہے کہیںکوئی گانا گا رہا ہے تو کوئی تالیاں بجا رہا ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو زیادہ تر مارننگ شوز میں کوئی مفید بات کی ہی نہیں جاتی اور دو یا تین گھنٹے گھٹیا قسم کی گفتگو اور مزاح کر کے شو ختم ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود بعض پروگرام ایسے بھی ہیں جن میں میزبان خواتین سلجھے ہوئے انداز اور تہذیب سے لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ایسی میزبان خواتین نے میزبانی کے انداز کو بالکل ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ایسی میزبان خواتین کے شوز تو کسی سٹیج شو کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیںآخر یہ خواتین لوگوں کو کیا دکھانا چاہتی ہیںاگر بے ہودہ مذاق ، بے مقصد باتیں کرنا اورناچ گانا ہی دکھانا ہے تو پھر تھیٹرز میں چلنے والے سٹیج شوز بند کر دیئے جائیں اور انہی ٹی وی شوز سے کام چلا لیا جائے۔اگر ہم یہ کہیں کہٹی وی پروگراموںکا لیول گھٹیا قسم کے سٹیج شوز سے بھی آگے چلا گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ناظرین ہمیشہ وہ دیکھتے ہیں جو آپ ان کو دکھاتے ہیں ۔وقت کے ساتھ ٹرینڈز تبدیل ہونے چاہیں پروگراموں کے انداز بھی تبدیل ہونے چاہیں لیکن ان میں تبدیلی ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح بھی کرے ۔ملازمت پیشہ لوگ اور سکول ،کالج جانے والے بچے جب گھر سے چلے جاتے ہیں تو گھروں میں موجود چھوٹے بچے وہ اپنی ماﺅں کے ساتھ ایسے شوز کو دیکھتے ہیں تو دن بھر وہ بھی وہی سب کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوتا ہے۔آج کل کسی ایک چینل نے اگر کوئی پروگرام شروع کیا اور وہ عوام کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تو اس کی طرز پر مزید دس چینلز پروگرام شروع کر دیتے ہیں اور چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں ہر حد سے گزرنا پڑے تو گزر جاتے ہیں۔پروگراموں کا معیار دن بہ دن نیچے آرہا ہے۔ کہیں دو یا دو سے زیادہ کامیڈین کے درمیان ایکمیزبان بیٹھ کر سطحی طنزو مزاح کرتے ہوئے نظر آتا ہے جس پر خود ہی قہقے لگا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سب کچھ کیا ہے میزبان کی تو تعریف ہی تبدیل ہو گئی ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحیہ پرواگرام ٹی وی پر چلائے جائیں مارننگ شوز بھی کئے جائیں لیکن میزبانوں کے لئے کچھ حدود مقرر کی جائیں جن کے دائرے میں رہ کر پروگرام پیش کیا جائے تاکہ دیکھنے والے کو اصلاحی اور بامقصد پروگرام دیکھنے کا موقع ملے کیا ناچ گانا ، بے ہودہ اور بے معنی باتوں کے بغیر پروگرام چل نہیں سکتے ؟۔مارننگ شوز کے چند ایک میزبان بلاشبہ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے ان پروگراموںکی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔تاہم کچھ ایسے میزبان ہیں جو اپنے پروگرام کے پلیٹ فارم سے ناظرین کی ملاقات ایسے لوگوں سے کرواتے ہیں جن کی سماجی شعبے میں خدمات ہیں اور جنہوں نے واقع ہی سوسائٹی کے لئے کام کیا ہے ان کے انٹرویوز کا سلسلہ ایک اچھی روش ہے یہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ ایسی شخصیات اور انٹرویوز لوگوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار کرتے ہیں لیکن خدارا مارننگ شوز کے سیٹ کو تھرڈ کلاس سٹیج مت بنائیں۔جن فنکاروں کے پاس کام نہیں ہے اور جومیزبانی کی” الف ب“ سے بھی واقفیت نہیں رکھتے وہ بھی مختلف چینلز پر مارننگ شوز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صرف معروف چہرہ ہی کسی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بہت ہی جلد ناظرین ایسے لوگوں سے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ مارننگ شوز کرنے والوں سے تولوگ واقعی اب تنگ آچکے ہیں۔ آج سے چند برس قبل ٹی وی کی ایک معروف فنکارہ نے مقامی چینل پر مارننگ شو کا آغاز کیا اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پروگرام کو ایک نئی سمت دی ان انٹرویوز میں بے تکلفی سے گفتگو بھی کی گئی لیکن اس گفتگو میں کہیں بھی بے مقصد بھرتی کے جملوں کا استعمال نہیں کرتی تھیں۔ان کی میزبانی کے انداز کو بعد میں ہر دوسرے چینل پر خواتین نے کاپی کیا لیکن افسوس کے ان کے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کو بے مقصد باتوںمیں تبدیل کر دیا گیا اور مارننگ شو کی شکل اس قدر بگاڑ دی کہ اب مارننگ شو کم اور سٹیج شو زیادہ لگتے ہیں۔اس حوالے ہم نے ثریا بجیاجو کسی تعارف کی محتاج نہیںہیں سے بات کی انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی ۔فاطمہ ثریا بجیا نے کہا کہ آج کل کے مارننگ شوز کو جو خواتین پیش کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر واحیاتی ہے ان کے لباس اس قسم کے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں خواتین پہن ہی نہیں سکتیں۔ہر کوئی قوم کو بے راہ روی پر چلا رہا ہے اگر سیاستدان ملک کو لوٹ کھا رہے ہیں ،ہرشعبے میں بے ایمانی ہو رہی ہے تو ٹیلی ویژن کے بہت سارے پروگرام بھی قوم کو بے راہ روی کا شکار کر رہے ہیں نوجوان ٹی وی پر جو دیکھتے ہیں اس کو عملی زندگی میں آزمانے کی کوشش میں بعض اوقات اپنا بہت سارا وقت اور پیسہ ضائع کر بیٹھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔اس طرح کے پروگرام دیکھ کر یہ لگتاہی نہیں ہے کہ ہمارا ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے۔یہ بات بھی ساتھ ہے کہ چند ایک میزبان خواتین بامقصد اور اصلاحی پروگرام پیش کر کے لوگوں اور خصوصی طور پر خواتین کی اصلاح کر رہی ہیں لیکنکچھتو واقع ہی ایسی ہیں جنہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اصلاحی پہلوﺅں کو زیر بحث لائیں گی ہی نہیںجوکہ غلط روش ہے ۔پروگرام تشکیل دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں لوگوں کو مت الجھائیں اور برائی کو فروغ نہ دیں۔مستنسر حسین تارڈ جن کو پاکستان ٹیلی ویژن سے پہلا لائیو مارننگ شو کرنے کا اعزاز حاصل ہے ان سے ہم نے سے خصوصی انٹرویو کیا ۔انہوں نے کہا کہ آج بہت کم میزبان لڑکیاں اچھا کام کر رہی ہیں لیکن زیادہ تر تو بس دو گھنٹے صرف کرنے کےلئے الٹی سیدھی باتیں کی جاتی ہیں ۔سیدھی سی بات ہے ان کے پاس وقت زیادہ ہوتا ہے بولنے کے لئے کچھ ڈھنگ کا تو ہوتا نہیں اس لئے دو گھنٹے ختم کرنے کے لئے جو منہ آئے بولتی چلی جاتی ہیں۔میںان کو مارننگ نہیں ورائٹی شوز کہوں گا کیونکہ ان شوز کے ذریعے دیکھنے والوںکو حماقت،کامیڈی،ناچ گانا ہر چیز دیکھنے کا موقع ملا جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ فن کی خدمت کے جذبے سے آتے ہیں ان میں آداب اور لحاظ پایا جاتا ہے اس کے بر عکس محض نمود و نمائش کے لئے آنے والے اپنے رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔ایک چینل لگاﺅ تو وہاں مارننگ شو میں ناچ گانا/رقص ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی انڈین گانوں پر ،دوسرا چینل لگاﺅ تو وہاںبھی یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے ۔یہ چیزیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس طرح کے شوز لوگوں تک پہنچانے کا مقصد کیا ہے۔ہم نے جب پاکستان ٹیلی ویژن سے 1986ءمیں مارننگ شو کا آغاز کیا تواس شو کا مقصد صرف لوگوں کی اصلاح تھا مجھے جب مارننگ شو کرنے کی پیشکش ہوئی تو میں نے یہ پروگرام کرنے سے قبل پورا ہوم ورک کیا باہر کے ممالک میں جو مارننگ شوز ہوتے تھے ان کی سی ڈیز منگوا کر دیکھیں ان کے شوز کا انداز مختلف تھا ہم ویسا شو تو نہیں کر سکتے تھے لیکن میں نے ان شوز سے رہنمائی لی اور اپنے مارننگ شو کو پاکستانی مارننگ شو بنایا۔ہم نے اس میں ہیلتھ سیکشن رکھا،ڈرامہ رکھا،داتنوں کی حفاظت کیسے کی جائے وہ بھی پہلو رکھا ،میوزک حتی کہ کھانے پکانے کی ترکیبیں بھی بتایا کرتے تھے اور دیکھنے والوں کے ساتھ روزمرہ کی باتیں کی جاتی تھیں بچوں کی دلچسپی کو بھی مد نظر رکھا جاتا تھا۔ اس شو کے آخر میں ”چھوٹی سی بات“ بھی کیا کرتا تھا جو کہ اس زمانے میں بہت مشہور ہوئی اس پروگرام سے ہٹ کر مجھے کوئی بھی ملتا تھا تو چھوٹی سی بات کی بے حد تعریف کرتا تھا آج بھی کرتے ہیں۔ہمیں پورے پاکستان سے پروگرام کو پسندیدگی کے حوالے سے بے حد خط موصول ہوا کرتے تھے اتنے خطوط موصول ہوتے تھے کہ ان سے ایک کمرہ بھر گیا تھا اور ڈاکیے نے اپنی ٹرانسفر صرف اس لئے کروالی تھی اس کا کہنا تھا کہ میں پوسٹ مین ہوں مزدور نہیں جو ہر روز مزدوروں کی طرح اتنے خطوط لاد کر لیکر آﺅں۔ اب تو زمانہ بہت آگے جا چکا ہے ہم مانتے ہیں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے اورچلنا چاہیے بھی لیکن اخلاقیات کا دامن تو کسی بھی صورت میں چھوڑ دینے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔آج تو گلیمر پرموٹ ہورہا ہے پروگرام میں کیا دکھایا جارہا ہے اور لوگ اس سے کیا سیکھ رہے ہیں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں بے ہودہ قسم کی کالز پروگرام میں شامل کی جاتی ہیں آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں،آپ کا سوٹ بہت اچھا ہے،آپ نے بال بہت اچھے بنائے ہیں،آپ کی بالیاں بہت اچھی ہیں۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا پروگرام سے کیا تعلق ہے ؟؟؟ میں آج کل کی میزبان خواتین کو میزبانیاں کہتا ہوں انہیں جن موضوعات پر کمانڈ بھی حاصل نہیں ہوتی ان پر بھی خود کو افلاطون سمجھ کر گفتگو فرما رہی ہوتی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جس مہمان کو بلا کر بٹھایا ہوتا ہے اس پر کم اور میزبان پر کیمرہ زیادہ رکھاجاتا ہے۔ ہر موضوع پر بے تکا بولنا ہر میزبان اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی باتوں کے ذریعے حکمت کے اتنے موتی بکھیرتی ہیں کہ شو کا سیٹ ان موتیوں سے بھر جاتا ہے مہمان جب اٹھ کر جانے لگتا ہے تو ان موتیوں سے اس کا پاﺅں پھسل ہوجاتا ہے اور ارسطو،فیض احمد فیض کے علاوہ دیگر بڑی شخصات سیٹ کے کونے میںشرمندگی سے رو رہی ہوتی ہیںمیں بہت متاثر ہوںحکمت کے ان موتی بکھیرنے والوںسے۔کبھی کبھی تو ایسی شخصیات بطور مہمان دیکھنے کو ملتی ہیں جن کو ہم نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔میں پینٹ کوٹ پہننے کا عادی تھا لیکن جب شو شروع کیاگیا تو خود کو پاکستان اور اس کے کلچر کا نمائندہ تصور کرتے ہوئے قومی لباس شلوار قمیض پہنی تاکہ دیکھنے والے کو احساس ہوکہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔موجودہ صورتحال میں جس طرح کے لوگ پروگراموںکی میزبانی کر رہے ہیں اور کامیابی کا معیار شور مچانا اچھل کود کرنا ،پرکشش لگنا ،مقرر کر دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے کامیابی کےلئے اپنی وضع قطع کے ساتھ مرد حضرات عورتیں بن کر پروگرام کرنے میں عار محسوس کرنے کی بجائے اس پر فخر محسوس کرتے ہیں میزبان لڑکی کے روپ میں اپنے مہمانوں کے ساتھ فلرٹ کر رہا ہوتا ہے یہ کیا ہے سب کچھ؟کچھ میزبان جن کے گلے میں سرنام کی کوئی چیز نہیں وہ بھی گانا گا رہے ہوتے ہیں چاہے ڈانس نہیں بھی آتا پھر بھی ڈانس کر کے،ڈانس کرنے والوں کے اس ہنر کو شرمندہ کیا جارہا ہوتا ہے میرے لئے تو یہ سب کچھ مایوس کن ہے۔اگرہم ڈراموں کی بات کریں توواقع ہی ایسے ایسے فنکار ہیںجن کی اداکاری دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہمیں جہاں اور جس کا اچھا کام نظر آئے گا یا آتا ہے تو ہم ضرور تعریف کرتے ہیں ۔ماضی کی معروف کمپئرخوش بخت شجاعت نے کہا کہ میں ایک عوامی نمائندہ ہوں میرا پبلک کے ساتھ بہت زیادہ میل ملاپ ہے میں نے اس کلاس کو مارننگ شوز پر تنقید کرتے ہوئے سنا ہے جس نے دنیا دیکھ رکھی ہے ۔اس طبقے کی خواتین باقاعدہ ڈسکس کرتی ہیں کہ ہمارے مارننگ شوز آخر عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں لہذا اس کلاس میں تو اس قسم کے پروگرام بالکل بھی مقبول نہیں ہیں۔جو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کے لئے تو اس قسم کے پروگرام اور ان کا گلیمر بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ ان شوز کو شوق سے دیکھتے ہیں اور اس جادوئی دنیا کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں ان کے لئے میزبان کا جوڑا ،ان کی بے ربط باتیںاوربالوں کا سٹائل ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس قسم کا طبقہ پاکستان میں بہت زیادہ ہے جو خط غربت کی لکیر تلے زندگی گزار رہا ہے وہ لوگ تصوراتی دنیا میں لیجانے والے ان پروگراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں اس لئے ان شوز کی ریٹنگ بھی زیادہ ہے۔ہماری میزبان لڑکیاں آج دوپٹہ اتار کر کس پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے دوپٹہ اتارنا،زرق برق لباس پہننا،اور باتیں اس طرح کرنا کہ ہم خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔شام شات بجے سے رات بارہ بجے کے اگر ہم اپنے ٹی وی پروگرام دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ صبح پاکستان کا پتہ نہیں کیا بنے گا یوں ایک عام آدمی ان پروگراموں میں ہونے والی گفتگو سے مایوس ہو کر سوتا ہے اور صبح اٹھتے ہی چینلز پر جس قسم کے شوزدیکھنے کو ملتے ہیں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ پاکستان مسائل میں گھرا ہے اور ان پروگراموں کی میزبانوں کو دیکھ کر یہ بھی نہیں لگتا ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ہندو کلچر کی خواتین چاہے کسی بھی لباس میں ہوں ،ساڑھی یا جینز میں وہ بھی اپنے ماتھے پر تلک لگا لیتی ہیں اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرکے اپنے ہندو کلچر کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو میزبانوں کے رنگ ڈھنگ ہی پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نہیں لگتے۔ایک پروگرام عوام میں مقبول ہوتا ہے تو اس کی طرز پرمزید دس پروگرام اور مارکیٹ میں آجاتے ہیں ریٹنگ اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں ۔پروگرام بنانے اور اس کو پیش کرنے والوں کو خیال ہی نہیں آتا ہے کہ ہم عوام کو کیا دکھا رہے ہیں ان کو کیا پیغام دے رہے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے اس طرح سے پروگراموں کوکامیاب بنانے کے لئے ہر حد سے گزرنا ہماری ثقافت ،ہماری اقدار کو زبردست دھچکہ ہے۔انسان کا کام اور اس کام کے اچھے پہلو ہی کسی بھی فنکار کی پہچان ہوتے ہیں ہم نے جو کام کیا وہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے بلکہ جہاں بھی پرستار ملتے ہیں وہ باقاعدہ ہمارے پروگرام اور ان میں کی گئی باتوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔پروگرام بنانے والے اور اس کو پیش کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنا تشخص برقرار رکھ کر پروگرام پیش کریں۔

Friday, 7 December 2012

بکھرے موتی Bikhry Moti


بکھرے موتی
پریشانیوں سے نجات اور رزق میں برکت کیلئے آسان نبوی نسخہ:
”مَاشآئَ اللہُ لاحَو ±لَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ، اَش ±ھَدُ اَنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ± ئٍ قَدی ±ر µ“
”وہی ہو گا جو اللہ چاہے نہ کوئی طاقت ہے نہ قوت سوائے اللہ کے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے“۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ” جو شخص صبح یہ دعا پڑھ لے تو اس دن بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے تو اس رات بہترین رزق سے نوازا جائے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا۔
(ابن السنی، کنز العمال: 106/2، الدعاءالمسنون: ص 254)
بسم اللہ کے خواص:
-1 مجربات دیر بی مطبوعہ مصر ص4 پر شیخ احمد دیربی کبیر فرماتے ہیں کہ بسم اللہ کے بعض خواص میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی محرم کی یکم تاریخ کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک ورق (کاغذ) پر ایک سو تیرہ (113) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے تو پوری زندگی اس کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
-2 بعض صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کو بارہ ہزار بار پڑھے اور ہر ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور نبی کریم پر درود بھیجے، اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ سے اپنی حاجت کا سوال کرے، پھر دوبارہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھے اور ایک ہزار کے بعد دو رکعت نماز اور درود شریف پڑھ کر طلب حاجت کرے، اسی طرح پڑھتا رہے یہاں تک کہ بارہ ہزار عدد مذکور پورے ہو جائیں۔ پس جو کوئی اس پر عمل کرے گا، حاجت اس کی جس طرح کی ہو گی باذن اللہ پوری ہو گی۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-3 جو شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م سات سو چھیاسی (786) بار متواتر سات دن جس کام کے واسطے پڑھے گا خواہ نفع حاصل کرنے کے واسطے ہو یا مصیبت کو ہٹانے کے واسطے ہو یاکاروبار کے واسطے ہو۔ انشاءاللہ وہ مقصد پورا ہو گا۔ (مجربات دیر بی: ص4)
-4 خزینة الاسرار للنازلی میں لکھا ہے کہ جو شخص رات کو سوتے وقت اکیس 21 دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر سوئے وہ تمام رات انسانی، شیطانی شرارتوں اور جن، بھوت اور آگ سے محفوظ رہے گا۔
-5 مرگی والے کے کان میں اکتالیس (41) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر دم کرنے سے وہ ہوش میں آ جاتا ہے۔
-6 درد یا جادو وغیرہ متواتر (لگاتار) سات دن سو (100) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھنے سے درد اور جادو دُور ہو جاتا ہے۔
-7 اتوار کی صبح سورج نکلتے ہی تین سو تیرہ (313) دفعہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اور سو(100) دفعہ درود شریف پڑھنے سے غیبی رزق کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
-8 اکیس (21) مرتبہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈالنے سے بچہ تمام آفات و بلیات سے مامون رہتا ہے۔
-9 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اکسٹھ (61) بار کسی کاغذ پر لکھی جائے اور جس عورت کی اولاد زندہ نہ رہتی ہو اور اس کو اپنے پاس بطور تعویز رکھے۔ انشاءاللہ اس کی اولاد زندہ رہے گی، یہ امر مجرب اور آزمودہ ہے۔ (مجربات دیربی)
-10 اگر کوئی شخص بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م ایک سو ایک (101) بار لکھ کر اپنے کھیت میں دفن کرے تو موجب سر سبزی ءکھیت و فراوانی ءغلہ و حفاظت از جملہ آفات و باعث حصول برکت ہو گا۔ (مجربات دیربی: صفحہ6)
-11 ایک مرد صالح نے کہا کہ جو کوئی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م چھ سو پچیس (625) بار لکھ کر اپنے پاس رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہیبت عظیم دے گا۔ کوئی شخص اس کو ستا نہ سکے گا۔ باذن اللہ۔ (کتاب الداءوالدواءللنواب صدیق حسن خان: ص17)
-12 امام رازی تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 168 پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فرعون نے دعویِٰ الوہیت کرنے سے پہلے ایک مکان بنایا تھا اور اس کے بیرونی دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی تھی۔ جب اس نے خدائی دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰؑ نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے قبول نہ کی تو حضرت موسیٰؑ نے اس کے حق میں بددعا کی ”خداوندا! تو نے اس خبیث کو کس لئے مہلت دے رکھی ہے؟“ وحی آئی اے موسیٰ! یہ ہے تو اس قابل کہ اس کو ہلاک کر دیا جائے لیکن اس کے دروازے پر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب سے بچا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے فرعون پر گھر میں عذاب نہیں آیا، بلکہ وہاں سے نکال کر دریا میں غرق کر دیا گیا۔ سبحان اللہ! جب ایک کافر کا گھر بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی وجہ سے عذاب سے بچ گیا تو اگر کوئی مسلمان اس کو اپنے دل و دماغ اور زبان پر لکھ لے تو کیوں نہ وہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہے۔
-13 حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں کہ مفسرین نے کہا ہے کہ جب طوفان نوحؑ نے اس دنیا کو اپنے خوفناک عذاب کے چنگل میں گھیر لیا اور حضرت نوحؑ اپنی کشتی میں سوار ہوئے تو وہ بھی خوف غرق سے بہت ہراساں و لرزاں تھے۔ انہوں نے غرق سے نجات پانے اور اسی عذاب خداوندی سے محفوظ رہنے کے لئے بِس ±مِ اللہِ مَج ±رھَا وَمُر ±سٰھَاکہا اس کلمہ کی برکت سے ان کی کشتی غرقابی سے محفوظ و سالم رہی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ جب اس آدھے کلمے کی وجہ سے اتنے ہیبت ناک طوفان سے نجات حاصل ہوئی تو جو شخص اپنی پوری زندگی اس پورے کلمے یعنی بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م اسے اپنے ہر کام کی ابتداءکرنے کا التزام کر لے وہ نجات سے کیونکر محروم رہ سکتا ہے؟ (تفسیر عزیزی: صفحہ6 و تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ169)
-14 حضرت سلیمانؑ نے جب بلقیس ملکہ یمن کو پہلا خط لکھا تو لکھا اِنَّہ ¾ مِن ± سُلَی ±مَانَ وَالَّہ بِِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م تو اس کی برکت سے بلقیس ان کے نکاح میں آئیں اور اس کا پورا ملک حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں آیا۔ 
(تفسیر کبیر: جلد1صفحہ 169)
-15 حضرت عیسیٰؑ کا ایک دفعہ قبرستان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک شخص کو نہایت شدت کے ساتھ عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰؑ چند قدم آگے تشریف لے گئے اور وضو اور نہا کر واپس ہوئے۔ اب واپسی پر جو اس قبر کے پاس سے گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ اس قبر میں نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ آپ بہت حیران ہوئے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ مجھے اس کا راز بتایا جائے۔ ارشاد ہوا کہ روح اللہ! یہ شخص سخت گنہگار و بدکار تھا، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا لیکن اس نے اپنی بیوی حاملہ چھوڑی تھی اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا، جہاں اس کو بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھائی گئی ۔ مجھے حیا آئی کہ زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں کہ جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ172)
-16 حضرت خالد بن ولیدؓکے پاس کوئی شخص زہر ہلا ہل (مہلک) کا لبریز پیالہ لایا اور کہا کہ اگر آپ اس زہر کو پی کی صحیح سلامت زندہ رہیں تو ہم جان لیں گے کہ آپ کا مذہب اسلام سچا مذہب ہے۔ آپ نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پڑھ کر وہ زہر پی لیا اور خدا کے فضل سے کچھ بھی اثر نہ ہوا۔
-17 قیصر روم کو بڑی شدت سے درد سر ہوا۔ علاج معالجہ سے مایوسی کے بعد اس نے حضرت فاروق اعظمؓ کی خدمت میں لکھا کہ مجھے درد سر کی شکایت ہے، کچھ علاج کیجئے۔ آپ نے اس کے پاس ایک ٹوپی بھیج دی۔ جب بادشاہ ٹوپی اوڑھتا تھا تو درد کافور ہو جاتا اور جب اتار دیتا تھا تو دردِ سر دوبارہ شروع ہو جاتا، اس کو سخت تعجب ہوا۔ اس نے ٹوپی کو کھلوا کر دیکھا تو اس میں ایک پرچہ رکھاہوا تھا جس میں بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م لکھا ہواتھا۔ (تفسیر کبیر: جلد 1صفحہ171)
-18 علماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ پانچ گھنٹوں کے لئے تو پانچ وقت نمازیں مقرر ہیں اور انیس 19 گھنٹوں کے لئے یہ انیس حروف عطا فرمائے گئے تاکہ انیس گھنٹوں میں ہر نشست و برخاست ہر حرکت و سکون اور ہر کام کے وقت ان انیس حروف کے ذریعے برکت و عبادت حاصل ہو۔ یعنی ان حروف بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکت سے یہ انیس گھنٹے بھی عبادت میں لکھے جائیں۔ (تفسیر عزیر :16/1) 
-19 بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کی برکات میںسے ایک یہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جب کوئی شخص بیت الخلاءجانا چاہے تو چاہیئے کہ وہ بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م کہہ کر جائے تاکہ (اس کی وجہ سے) اس کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ واقع ہو جائے۔ یعنی جب کوئی شخص کہہ کر بیت الخلاءجاتا ہے تو اس کا خاصہ یہ ہے کہ جنات کی نظر اس کی شرمگاہ کی طرف نہیں جاتی۔ لہٰذا جب اس کی تاثیر یہ ہے کہ یہ آیت انسان اور اس کے دشمن (جنات) کے درمیان پردہ بن جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ ایک مسلمان اور عذاب عقبیٰ کے درمیان بھی یقینا پردہ بن کر حائل ہو گی۔
(تفسیر عزیزی)
-20 حضرت بشر حافی نے بِس ±مِ اللہِ الرَّح ±مٰنِ الَّرحِی ±م پرچہ پر لکھی ہوئی زمین پر پائی، اس کو اٹھا لیا۔ ان کے پاس سوائے دو درہم کے اور کچھ نہ تھا۔ خوشبو خرید کر اس پرچہ کو آپ نے خوشبو لگائی، اس کے صلہ میں خواب کے اندر حق سبحانہ و تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوئی اور فرمایا: اے بشر! تو نے میرے نام کو خوشبو دار بنایا، میں تیرے نام کو دنیا اور آخرت میں خوشبو دار بناﺅں گا۔
(کتاب الداءو الدواءاللنواب صدیق حسن، تفسیر کبیر: صفحہ171)
ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ:
وہ خوش نصیب صحابی جن کی قبر میں خود حضور اترے اور فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا“ ۔
ایک یتیم بچہ تھا، اس کا نام عبداللہ تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ بکریاں غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی تھی۔ عبداللہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کر سکا۔ جب نبی کریم فتح مکہ سے واپس گئے تو عبداللہ نے چچا سے کہا: ”پیارے چچا! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں؟ لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا، مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاﺅں“۔ چچا نے جواب دیا: ”دیکھ اگر تو محمد کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا، تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا“۔ عبداللہ نے جواب دیا: ”چچا جان! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد کا اتباع قبول کروں گا، شرک اور بُت پرستی سے میں بیزار ہو چکا ہوں، اب جو آپ کا منشاءہے کیجئے اور جو کچھ میرے قبضہ میں زر و مال وغیرہ ہے، سب کچھ سنبھال لیجئے، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، اس لئے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا“۔ عبداللہ نے یہ کہہ کر کپڑے اتار دینے کا فیصلہ کیا اور ماں کے سامنے گئے۔ ماں حیران ہوئی کہ کیا ہوا! عبداللہ نے کہا: ”میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی کریم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں، ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے، مہربانی کرکے دے دیجئے‘:‘۔ ماں نے ایک کمبل دے دیا، عبداللہ نے کمبل پھاڑا، آدھے کا تہبند بنا لیا، آدھا اوپر اوڑھ لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گئے۔ علیٰ الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے تکیہ لگا کر آنحضرت کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ نبی کریم جب مسجد مبارک میں آئے، اسے دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو؟ کہا میرا نام عبدالعزیٰ ہے، فقیر و مسافر ہوں، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہو کر درِ دولت آ پہنچا ہوں۔
نبی کریم نے فرمایا: ”تمہارا نام عبداللہ ہے، ذُوالبجَادَی ±ن لقب ہے، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو“۔ عبداللہ اصحابِ صفہ میں شامل ہو گیا، نبی کریم سے قرآن سیکھتا اور دن بھر عجب ذوق و شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتا۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ لوگ تو نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کر رہا ہے کہ دوسروں کی قرات میں مزاحمت ہوتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ”عمر! اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے“۔
عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ میں بھی راہ خدا میں شہید ہو جاﺅں۔ نبی کریم نے فرمایا: جاﺅ کسی درخت کا چھلکا اتار لاﺅ۔ عبداللہ لے آئے تو نبی کریم نے وہ چھلکا ان کے بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا: ”الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں“۔ عبداللہ نے کہا: ”یارسول اللہ ! میں تو شہادت کا طالب ہوں“۔ نبی کریم نے فرمایا: ”جب اللہ کے راستے پر نکلو اور پھر بخار آئے اور مر جاﺅ تب بھی تم شہید ہی ہو گے“۔
تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کر گئے۔ بلال بن حارث مزنی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہؓ کے دفن کی کیفیت دیکھی۔ رات کا وقت تھا، حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں چراغ تھا، حضرت ابوبکر و عمرؓ ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے ۔ نبی کریم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے فرما رہے تھے: اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو، آنحضرت نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا: ”اے اللہ! میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا“۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ کاش اس قبر میں، میں دفن کیا جاتا۔ 
(مدارج النبوة مترجم: 90/2،91، ابن ہشام:528,527/2)
فنش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کے دن صلہ رحمی کی رانیں ہرن کی رانوں کی طرح ہوں گی:
مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی، اس کی رانیں ہوں گی مثل ہرن کی رانوں کے، وہ بہت صاف اور تیز ربان سے بولے گی، پس وہ (رحمت سے) کاٹ دیا جائے گا جو اسے کٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملانا تھا۔ صلہ رحمی کے معنی ہیں: قرابت داروں کے ساتھ بات چیت میں، کام کاج میں سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم (رشتہ داری) کھڑی ہوئی اور رحمن سے چمٹ گئی، اس سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا یہ مقام ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا۔ اس پر اللہ عز و جل نے فرمایا: کیا تو اس سے راضی نہیں کہ تیرے ملانے والے کاو میں (اپنی رحمت سے) ملاﺅں اور تیرے کاٹنے والے کو میں (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں؟ اس نے کہا ہاں! اس پر میں بہت خوش ہوں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص کشادہ روزی اور عمر دراز چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، مسلم) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد نے کہا: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں ان کے ساتھ میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ بُرا برتاﺅ کرتے ہیں، میں ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ جاہلانہ برتاﺅ کرتے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہہ رہا ہے تو گویا تو ان کے منہ پر گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ (یعنی تو ان کو ذلیل و رسوا کر رہا ہے) اور جب تک تیری یہی حالت رہے گی تیرے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک مدد گار (فرشتہ) رہے گا۔ 
(مسلم شریف)
حضرت جبرائیلؑ نے حضور کو پریشانیوں سے نجات کی دعا سکھائی:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک نے فرمایا: جب بھی ہمیں کوئی مصیبت پیش آئی، حضرت جبرائیلؑ تشریف لاتے اور فرماتے: یہ دعا پڑھو:
”تَوَکَّل ±تُ عَلَی ال ±حَیِّ الَّذِی لَا یَمُو ±تُ لَم ± یَتَّخِذ ± وَلَداً وَّلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ شَری ±ک µ فِی ± ال ±مُل ±کِ وَلَم ± یَکُن ± لَّہ ¾ وَلِیّ µ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّر ±ہُ تَک ±بِی ±راً“۔
”بھروسہ کیا میں نے اس ذات پر جو زندہ ہے مرے گی نہیں جس نے نہیں بنایا بیٹا نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے نہ کوئی ذلت میں مدد گار ہے۔ اس کی بڑائی بیان کیجئے“۔ 
(کنز العمال: 72/2، الدعاءالمسنون: ص419,418)
oo

ہیلتھ نیوز Health News


ہیلتھ نیوز
مچھلی کا استعمال شوگر کے خطرے کو کم کرتا ہے
تحقیق کے مطابق مچھلی کا گوشت استعمال کرنے سے انسانی جسم مےں گلوکوز کا لیول کم ہو جاتا ہے جس وجہ سے شوگر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ویلنسیا سپین کے طبی ماہر مرسڈیڈ سوٹوز جوکہ اس تحقیق کے مصنف بھی ہےں، انہوں نے ایک سٹڈی کی جن مےں 945 افراد شامل تھے (340 مرد اور 605 عورتیں) جن کی عمریں 55 سے 86 سال کے درمیان تھیں انہیں دل کی بیماری کا خطرہ بھی زیادہ تھا، سٹڈی مےں یہ دیکھا گیا یہ افراد کونسا گوشت زیادہ استعمال کرتے ہےں، سرخ گوشت یا سفید گوشت خاص طور پر مچھلی کا گوشت۔ مچھلی کا گوشت گلوکوز کا لیول کم کر کے شوگر کو کم کرتا ہے اور گائے کا گوشت یا سرخ گوشت موٹاپا پیدا کرتا ہے، سٹڈی کے مطالعے سے پتہ چلا کہ تمام افراد سرخ گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہےں اور خوراک مےں ان چیزوں کا استعمال کم کرتے ہےں جو وزن کو متناسب رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ 
سرخ گوشت کا بہت زیادہ استعمال دل کی بیماریاں ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور موٹاپا پیدا کرتا ہے جبکہ مچھلی کا گوشت دل کے لئے بہت اچھا ہے اور شوگر کے خطرے کو بھی کم کرتا ہے کیونکہ مچھلی کے گوشت مےں موجود اومیگا 3 خلیوں مےں جا کر انسولین کی حساسیت کو زیادہ کرتا ہے اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ مرد سرخ گوشت کا استعمال زیادہ کرتے ہےں اور عورتیں سفید گوشت کا۔ 
 شوگر کی دوائی Metformin بریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ میکیگن سٹیٹ یونیورسٹی کے طبی ماہرین کے مطابق ایک سستی دوائی میٹ فارمن جو کہ ٹائپ 2 شوگر کےلئے استعمال کی جاتی ہے اس پر تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ ایسے قدرتی اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکل جو کہ بریسٹ کینسر کو بڑھانے کا سبب بنتے ہےں ان کے اثر سے انسان کو بچاتی ہے۔ 
شوگر کے علاج کے لئے زیادہ عرصے سے استعمال ہونے والی یہ دوائی Metformin ذیابیطس اسوسٹیٹ کینسر Diabetes Associated Cancers جیسا کہ بریسٹ کینسر ہے، کے خطرے کو کم کرتی ہے، ٹائپ 2 شوگر کے مریض بریسٹ کینسر، جگر کے کینسر اور لبلبے کے کینسر کے خطرے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہےں۔ کالج آف ہیومن میڈیسن ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ڈویلپمنٹ کے پروفیسر ٹروسکا کہتے ہےں، یہ دوائی ان کینسر کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ بہت سے قدرتی اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکلز بریسٹ کینسر کے پھیلنے مےں مدد کرتے ہےں۔ اس تحقیق کے لئے طبی ماہرین نے لیبارٹری مےں کلچر ڈشز مےں انسانی بریسٹ کینسر والے خلیوں کو ڈالا اور ان مےں قدرتی ایسٹروجن اور انسان کے بنائے ہوئے کیمیکلز جوکہ بریسٹ کینسر کو بڑھاتے ہےں کلچر ڈشنر مےں شامل کئے۔ 
ٹیم نے دیکھا کہ ایسٹروجن اور کیمیکلز جوکہ بریسٹ ٹیومر کے سائز اور مقدار کو بڑھاتے ہےں ان کے ساتھ جب ڈشنر مےں دوائی Metformin کو شامل کیا گیا تو بریسٹ کینسر کے خلیوں مےں واضح کمی واقع ہوئی، Metformin نے ان کیمیکلز کے اثر کو روک دیا جوکہ ٹیومر کے بڑھنے مےں مدد کرتے ہےں، البتہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس مےں واضح ہو کہ یہ دوائی کس لائحہ عمل کے ذریعے کینسر کے روکنے کا عمل کرتی ہے اور مزید تحقیق مےں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ دوائی لبلبے اور جگر کے کینسر کو بھی کم کر سکتی ہے یا نہیں۔ 
تابکار شعاعوں کے مضر اثرات سے بچاﺅ کا جدید علاج
 ڈینا فاربر سینٹر انسٹیٹیوٹ اینڈ چلڈرن ہاسپٹل بوسٹن کے طبی ماہرین نے تابکار شعاعوں کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے ایک ایسا علاج ایجاد کیا ہے جو دو دوائیوں کو ملا کر بنایا گیا ہے جس کا فائدہ تابکار شعاعوں کے زیر اثر آنے کے ایک دن بعد دینے سے بھی ہوگا، اس سے پہلے جو دوائیاں استعمال کی جاتی ہےں ان کا فائدہ صرف اس صورت مےں ہو سکتا ہے کہ اگر وہ فوری طور پر دی جاتیں جو کہ ناممکن بات ہے۔ اس علاج مےں دو دوائیاں استعمال کی گئی جن مےں فلوروکینسولون اینٹی باﺅئیٹک جوکہ انسانوں کے لئے عام طور پر استعمال ہونے والی اینٹی بائیٹک Ciprofloxacin کی متبادل ہے اور ایک پروٹین BP1 شامل ہے ان دونوں کے ملاپ سے ایک دوائی بنائی گئی اور اس کو چوہوں پر استعمال کروایا گیا۔ 
اس تجربے کے لئے چوہوں کو تابکار شعاعوں کے زیر اثر رکھنے کے ایک دن بعد کچھ چوہوں کو یہ دوائی استعمال کروائی گئی، کچھ چوہوں کو دوائی کا صرف ایک ایک جزو استعمال کروایا گیا جس کے نتیجے سے ثابت ہوا کہ جن چوہوں کو یہ پوری دوائی استعمال کروائی گئی ان مےں دوسرے چوہوں کی نسبت تابکار شعاعوں کے مضر اثرات کا زیادہ خاتمہ ہوا اور ان مےں زندہ رہنے کے امکان زیادہ دیکھے گئے۔
اس تحقیق کے مصنف ڈاکٹر لیوی کہتے ہےں اس دوائی کا چوہوں مےں کامیابی کا مطلب ہے کہ یہ علاج انسانوں مےں بھی کامیاب ہوگا اور محفوظ ہوگا اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ تابکاری سے فوراً بعد دینے کی بجائے 24گھنٹوں کے اندر بھی دی جا سکتی ہے اور اس کے فائدہ مند اثرات ختم نہیں ہونگے۔ 
شوگر کے طریقہ علاج کے لئے ایک نئے آلہ کی ایجاد 
 یونیورسٹی آف میسوری کے طبی ماہرین نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو شوگر کے مریضوں کے چیک اپ کے لئے استعمال کیا جائے گا جو کہ بہت کم وقت مےں بغیر کوئی غلطی کیے مریض کی صحت کے بارے مےں مکمل تفصیل سے آگاہ کرے گا، اس آلے کا نام ڈایابیٹیز ڈیش بورڈ ہے جس کے ذریعے ایک کمپیوٹر کی سکرین پر ڈاکٹر مریض کے شوگر کی تمام تفصیل دیکھ سکتا ہے۔یہ ڈیش بورڈ مریض کی تمام تر تفصیل مثلاً مریض کی صحت، شوگر کے لئے استعمال ہونے والی ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ ایک ایک مکمل رپورٹ بتا دے گا کہ مریض کو کس ٹیسٹ کی ضرورت ہے اور کونسا ٹیسٹ مریض کے لئے ضروری نہیں۔ اس طرح مریض ان مہنگے ٹیسٹ کروانے سے بچ جائے گا جس کی اس کو ضرورت نہیں۔ 
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن ڈاکٹروں نے اس کو استعمال کیا ہے انہوں نے اس کو 100 فیصد درست پایا ہے اور پرانے الیکٹریکل میڈیکل ریکارڈ کے طریقے سے زیادہ موزوں پایا ہے۔اس ڈیش بورڈ کا مقصد یہ ہے کہ شوگر کے مریضوں کی حالت جاننے کے لئے آسانی پیدا ہو اور ڈاکٹر اس کے ذریعے آسانی اور جلدی فیصلہ کر سکے کہ مریض کو کونسی ادویات یا ٹیسٹ کروانے چاہئے اور ڈاکٹروں نے اس کو بہت پسند کیا ہے کیونکہ یہ فزیشن کی ضرورت کے مطابق بنایا گیا ہے۔ 
میٹابولک سنڈروم گردے کی بیماریاں پیدا کر سکتا 
 میٹابولک سنڈروم Metabolic Syndrume مختلف بیماریوں کا گروپ ہے مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شوگر، ہائی کولیسٹرول اور موٹاپا اور فیٹی ایسڈ (Fatty acids) کی مقدار کا بڑھنا وغیرہ اس تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو میٹابولک سنڈروم کا شکار ہوتے ہےں ان مےں گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ 
امریکہ کے ڈاکٹر سینکرنیونتھن Dr. Sanlar Navaneethan اور اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے میٹابولک سنڈروم اور گردے کی بیماریوں کے درمیان رشتہ کو مطالعہ کرنے کےلئے ریسرچ کی جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ وہ مریض جو میٹابولک سنڈروم کا شکار ہوتے ہےں ان مےں گردے کے مسائل 55 فیصد زیادہ ہوتے ہےں خاص طور پر گردے کا ٹھیک طریقے سے عمل نہ کرنا جوکہ گردے کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ میٹابولک سنڈروم مےں بیماریاں جتنی زیادہ ہونگی گردے مےں پیدا ہونے والے مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہونگے چنانچہ میٹابولک سنڈروم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مریض کو گردے کی بیماری کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ 
صحت مند غذا کا استعمال، ورزش، وزن کو کم کرنا، کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے لیول کو ٹھیک رکھنے کے ذریعے میٹابولک سنڈروم کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے جس وجہ سے گردے کی بیماریاں بھی کم ہونگی۔ 
ڈپریشن نوجوانوں مےں دل کی بیماریوں سے فوت ہونے کی شرح مےں اضافہ کرتا ہے
ڈپریشن کے بُرے اثرات نوجوانوں مےں دل کی بیماریاں پیدا کرتے ہےں۔ حالیہ دور مےں ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کی کوششیں یا ہارٹ اٹیک نوجوانوں مےں خصوصاً عورتوں مےں زیادہ دیکھنے مےں آ رہی ہےں۔ 40 سال سے کم افراد مےں ڈپریشن کی وجہ سے دل کی بیماریوں سے فوت ہونے کی شرح مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تحقیق نومبر 2011ءمےں Archives of General Psychiatry کے میگزین مےں شائع ہوئی ہے۔ 
ایم ڈی PHD ڈاکٹر Viola Vaccarino جو کہ ایمورز رولن سکول آف پبلک ہیلتھ مےں ایپی ڈیمالوجی کے چیئرپرسن ہےں اور اس تحقیق کے مصنف ہےں، کہتے ہےں ڈپریشن نوجوانوں مےں دل کی بیماری پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اموات مےں اضافہ ہو رہا ہے اورخودکشی کی کوششیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہےں۔ خاص طور پر نوجوان عورتوں مےں اس کی وجہ سے دل کی بیماریاں یا ہارٹ اٹیک مےں اضافہ ہو رہا ہے، اس تحقیق کے لئے 7,641 افراد کا ڈیٹا چیک کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ جو افراد ڈپریشن کا شکار تھے ان مےں دل کی بیماریاں بھی زیادہ تھیں،اموات کی شرح مےں تین گنا زیادہ اضافہ دیکھا گیا اور ہارٹ اٹیک سے مرنے کی شرح 14 گنا زیادہ تھی۔طبی ماہرین کے مطابق ان افراد کو اس بات کی طرف اہمیت دلانے کی ضرورت ہے کہ ڈپریشن ان کے دل پر کتنے بُرے اثرات ڈالتا ہے اور اس سے بچاﺅ کے طریقے استعمال کرکے وہ اپنی زندگی بہتر کر سکتے ہےں۔ 
بیکٹیریا کی طرز کے روبوٹ
ٹیل ایوو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بیکٹیریا کا تکنیکی مشاہدہ کرتے ہوئے ایک انقلابی دریافت کی ہے، اب بیکٹیریا کی خاصیتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے روبوٹ بنائے جائیں گے۔ سائنسدانوں نے بیکٹیریا کی بحیثیت مجموعی گروہ کی شکل مےں نقل و حرکت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی کے عمل کو زیر مشاہدہ رکھتے ہوئے اس بات کا پتہ چلایا کہ بیکٹیریا دوسرے بڑے جانداروں کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے مجموعی نقل و حرکت کرنے کی خاصیت رکھتے ہےں۔ان کی اسی خاصیت کو نمونہ بناتے ہوئے ایسے ننھے روبوٹ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے جو انسانی جسم کے اندر جا کر امراض کی تشخیص اور ان کے علاج، کمپیوٹر مےں پیغام رسانی، مصنوعی ذہانت اور بہت سے دیگر میدانوں مےں کارآمد ثابت ہو سکیں گے۔ 
اچھی نیند
ایک تحقیق کے مطابق ورزش کا اچھی نیند سے بہت گہرا تعلق ہے، وہ لوگ جو نیند کی کمی کا شکار ہےں اگر وہ باقاعدگی سے روزانہ ورزش کریں تو نیند کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ورزش کی بدولت نیند کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے اور اچھی نیند حاصل ہوتی ہے۔ مزید تحقیق کے مطابق روزانہ مستقل وقت پر سونا اور جاگنا، سونے سے پہلے کیلشیم والی غذا مثلاً دودھ کا استعمال کرنا، بستر کو صاف کر کے سونا، سونے سے پہلے چائے اور کافی وغیرہ سے پرہیز کرنا اور ٹھنڈے کمرے مےں سونا ایسی چیزیں ہےں جو نیند کو مزید بہتر کر سکتی ہےں۔ اچھی نیند کے حصول کے ان اصولوں کو سائنسدانوں اور ماہرنفسیات نے سلیپ ہائجیں (Sleep Hygiene) کا نام دیا ہے۔ بے خوابی مےں مبتلا بہت سے لوگ ان اصولوں کو اپناتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس گئے بغیر اپنی نیند کا مسئلہ حل کر سکتے ہےں۔ 
پھیپھڑوں کے کینسر کا جدید علاج
گلاسگو کی سٹریتھکلائیڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کا جدید طریقہ کار دریافت کیا ہے۔ حالیہ طریقہ علاج مےں کینسر کو تلف کرنے والی ادویات کو خون کے ذریعے جسم مےں داخل کیا جاتا ہے جس وجہ سے وہ کینسر کے ساتھ ساتھ جسم کے صحت مند خلیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہےں اور ان پر بھی مضر اثرات ڈالتی ہےں۔جدید طریقے کی مدد سے پھیپھڑوں کے کینسر کے لئے کارآمد دوائی سپلاٹن (Ciplatin) کو بخارات کی شکل مےں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں مےں داخل کیا جائے گا، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دوا صرف اس جگہ اثرانداز ہوگی جہاں اس کی ضرورت ہوگی اور زیادہ موثر طریقے سے کام بھی کر سکے گی۔ اس نئے طریقے کی مدد سے دوسرے جسم پر دوا کے مضر اثرات سے بچا جاسکے گا۔ 
گلوکوز کی کمی پر دماغ کا ردعمل
یونیورسٹی آف پیل اور کچھ دیگر یونیورسٹیوں کے سائنسدانوں نے حال ہی مےں انسانی دماغ پر تجربات کر کے اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ جسم مےں گلوکوز کی کم مقدار کے وقت دماغ مےں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہےں کہ زیادہ توانائی والی خوراک کھانے کو دل چاہتا ہے۔ عام طور پر انسانی دماغ کا اگلا حصہ (Prefrontal Cortex) سب سے زیادہ گلوکوز استعمال کرتا ہے۔ دماغ مےں موجود ایک اور حصہ ہائپوتھیلمس (Hypothalamus) گلوکوز کی کم مقدار کو محسوس کر کے کچھ دوسرے حصوں کو پیغام دیتا ہے، اس پیغام کے نتیجے مےں دماغ کے اندر کچھ ایسی تبدیلیاں ہوتی ہےں کہ زیادہ سے زیادہ توانائی والی خوراک کھانے کو دل چاہتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ دماغ کا یہ سب سے اگلا حصہ (Prefrontal Cortes) گلوکوز کی کمی مےں زیادہ توانائی والی چیزیں کھانے کی خواہش کرنے پر قابو نہیں رکھ سکتا جبکہ دوسرے حصے قابو پا لیتے ہےں۔مزید اس ریسرچ سے ثابت ہوا کہ موٹے لوگوں کے دماغ ایسی حالت مےں زیادہ توانائی والی خوراک کی خواہش پر قابو رکھنے سے زیادہ قاصر ہوتے ہےں۔ پریشانی یا (Stress) کی حالت مےں بھی دماغ کے اس حصے کی بدولت زیادہ خوراک کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ 
قدرتی الارم کلاک
میک گل یونیورسٹی اور البرٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے حال ہی مےں نیند سے روزانہ مخصوص وقت پر خودبخود بیدار ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا ہے اس عمل کو جسم مےں موجود جینز جن کا نام الارم کلاک (Alarm Clock) جینز رکھا گیا ہے، مخصوص پروٹینز پیدا کر کے سرانجام دیتے ہےں۔ بیدار ہونے کے مخصوص وقت پر یہ جینز خودبخود یہ پروٹیز پیدا کرتے ہےں جو کہ جسم کے مختلف حصوں مثلاً دل کی دھڑکن اور دوسرے عوامل پر اثرانداز ہوکر انہیں نیند کی حالت سے بیداری کی حالت مےں لے کر آتی ہےں اور انسان نیند سے جاگ جاتا ہے۔یہ عمل فطرتی طور پر مخصوص وقت پر ہوتا رہتا ہے۔ سائنسدانوں کے خیال کے مطابق اسی قسم کے جینیاتی عوامل بڑھاپے مےں پائی جانے والی بیماریوں، کینسر اور ذیابیطس مےں پائے جاتے ہےں اور ان تجربات کی روشنی مےں ان بیماریوں کو سمجھنے اور ان کے علاج پر بھی غور کیا جائے گا۔ 

برکات دعا Barkaat e Dua


برکات دعا
دعا سے فارغ ہو کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہے
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم جب اپنے دونوں ہاتھ دعا میں اٹھاتے تھے تو جب ان ہاتھوں کو اپنے چہرہ انور پر نہ پھیر لیتے وہاں تک نیچے نہ رکھتے تھے۔ (ترمذی، مشکوة)
حضرت سائبؓ اپنے والد ماجدؓ سے نقل فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں دست مبارک اٹھاتے اور دعا سے فارغ ہوتے تو ان دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے۔ (مشکوة)
حدیث پاک میں ہے: حضرت نبی کریم کا دستور تھا (یعنی عادت مبارکہ تھی) کہ جب اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھاتے تھے تو دعا سے فارغ ہونے پر اپنے دست مبارکہ کو اپنے چہرہ انور پر پھیر لیا کرتے تھے۔ (ترمذی، حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم نے فرمایا: جو کوئی مسلمان یہاں تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرے کہ اس کی بغلیں ظاہر ہوں (یہ طریقہ انتہائی پریشانی کے وقت کیلئے ہے) اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری فرما دیتے ہئیں، جب تک جلدی نہ کرے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ: جلدی نہ کرے اس کے کیا معنی؟ حضور نے فرمایا کہ: یوں کہنے لگے کہ میں نے سوال کیا اور سوال کیا، (یعنی بار بار دعائیں منگیں مگر) مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔ (رواہ، ترمذی)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: حضرت نبی کریم نے فرمایا: اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں کے پشت سے نہ کرو، بس جب دعا سے فارغ ہو جاﺅ تو ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیر لو۔ (مشکوٰة)
حضرت ابو نعیم ذہبؓ نے فرمایا: میں نے خود حضرت ابن عمرؓ اور ابن زبیرؓ کو دیکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات دعا کرتے تھے اور دعا سے فارغ ہو کر اپنی ہتھیلیوں (یعنی ہاتھوں) کو اپنے چہروں پر پھیر لیتے تھے۔
دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے سے قبولیت اور نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے
حضرت عمرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو جب تک ہاتھوں کو چہرے پر نہ پھیر لیتے تھے، نیچے نہیں گراتے تھے۔ 
(ترمذی، مشکوٰة صفحہ 195فضائل دعا صفحہ 96 حضرت مولانا عاشق الہی صاحب بلند شہری)
دعا سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ پر پھیر لینا یہ بھی نبی کریم کی سنت اور مسنون طریقہ ہے جس میں دعا کی قبولیت اور رحمت خداوندی نازل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت امام مالک اور علامہ ابن حجر کا قول
حضرت امام مالک نے فرمایا کہ: ہاتھوں کو دعا میں بہت زیادہ (اوپر) نہ اٹھائیں، اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت و دل جمعی کے وقت ہاتھ (سینہ تک) اٹھانا یہ اظہار عاجزی کے طور پر محمود و مسستحسن ہے، اس کے علاوہ علامہ ابن حجر نے شرح لباب میں اس (دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنے) کو آداب دعا میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ حلیمی فرماتے ہیں کہ: راز اس فعل کے مستحب و مستحسن ہونے میں نیک فال لینا ہے، گویا اس کے ہاتھ خیر و عافیت سے بھر گئے ہیں، اس کو اپنے چہرے پر ڈالتا ہے۔
گناہوں کی مغفرت طلب کرتے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کا مخصوص انداز
گناہوں کی بخشش و مغفرت چاہنے کا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا حلقہ بنا کر انگشت شہادت اٹھا کر اشارہ کرے کہ: یا بار الہا! بجز تیری ایک ذات کے اور کوئی بھی غفار الذنوب نہیں ہے۔
استغفار، کا ادب (طریقہ)یہ ہے کہ استغفار اور توبة اللہ کرتے وقت کلمہ شہادت والی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرکے مغفرت چاہی جائے جیسا کہ اوپر گزرا۔
ابتہال، (عاجزی) کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو دراز (لمبا)کرو اور اونچا اٹھاﺅ اس طرح کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے اور ہاتھوں کی پشت اپنے منہ کی طرف رکھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعاﺅں پر مختلف حالات و اوقات میں ہاتھ اٹھانے کے بھی الگ الگ طریقے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک شخص اپنی دونوں انگلیوں سے (اشارہ کرکے) دعا مانگ رہا تھا یہ منظر دیکھ کر حضرت نبی کریم نے فرمایا: ایک ایک، یعنی صرف ایک انگلی اٹھاﺅ۔ (ترمذی، نسائی)
حضرت امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت اگر انگلیوں سے اشارہ کرے تو ایسے وقت کلمہ شہادت والی صرف ایک انگلی کھڑی کر کے اس سے اشارہ کرے، یہ اس لئے کہ خدا کی یکتائی کا مفہوم اسی سے پورا ہوا گا۔
دعا میں ہاتھ اٹھانے کا عمومی مسنون طریقہ
حضرت سہل ابن سعدؓ حضور سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں، حضور اپنی دونوں انگلیوں یعنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے تھے اور پھر دعا مانگتے تھے۔
اس حدیث پاک میں دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کی جو مقدار بیان کی گئی ہے، ہاتھوں کو اٹھانے کا یہی عمومی اور اوسط درجہ ہے، حضور دعا کے وقت اکثر اپنے ہاتھوں کو اتنا ہی اٹھاتے تھے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں:خود میں نے حضرت نبی کریم کو اس طرح دعا مانگتے دیکھا ہے کہ اندرون ہتھیلی سے بھی اور اس کی پشت سے بھی۔ 
(رواہ ابو داﺅد)
حضرت خلاد ابن سائب انصاریؓ سے روایت ہے: حضرت نبی کریم جب (اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا) سوال کیا کرتے تو اس وقت (عموماً)اپنی ہتھیلیاں منہ کی طرف کیا کرتے تھے اور جب (کسی چیز سے) پناہ مانگتے تو ہاتھوں کی پشت کو اپنے منہ کی طرف رکھا کرتے تھے۔
دعاﺅں کا عمومی اور مسنون طریقہ تو یہی ہے کہ جس طرح دونوں ہاتھ پھیلا کر کسی سے کچھ مانگا جاتا ہے ھتو اسی طرح ہتھیلی کو منہ کی جانب کرکے اپنے مولیٰ سے سوال کیا جائے اور ختم دعا پر انہیں منہ پر پھیر دیا جائے۔ (ارواہ مسلم شریف)
کہیں زیادہ اضطرار و بے چینی ہو جیسے قحط سالی کے وقت نماز استسقاءکے بعد بارش کے لئے دعا مانگنا ہو تو ایسے اوقات میں ہاتھوں کو اونچا اٹھائے اور ہتھیلی کی پشت کا حصہ منہ کے سامنے کر لے، اس میں قال کے علاوہ حال (ہیئت) سے بھی درخواست کی جاتی ہے کہ یاغفور الرحیم اپنے غضب و غصہ کو رحمت سے بتدل دیجئے اور قحط سالی، امساکِ باراں کو خیر و عافیت والی بارشوں سے مبدل فرما دیجئے۔
پریشانیوں کے وقت ہاتھ اٹھانے کا مسنون طریقہ:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: حضرت نبی کریم (کبھی) دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
(مشکوٰة)
اس حدیث پاک سے ہاتھوں کو زیادہ اوپر اٹھانا معلوم ہوتا ہے تو یہ صورت بعض مخصوص اوقات پر محمول ہے۔
یعنی جب دعا میں بہت زیادہ استغراق، مبالغہ اور محویت منظور ہوتی تھی مثلاً استسقاءیا سخت آفات و مصائب اور پریشانی کے اوقات وغیرہ تو ایسے اوقات میں حضرت نبی کریم اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
(مشکوٰة)
ایک روایت میں ہے: حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: انتہائی عاجزی کا اظہار اس طرح ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان کی پشت کو اپنے منہ کے قریب کیا۔ (رواہ ابوداﺅد)
حضرت ابن عباسؓ نے دعا میں انتہائی عاجزی کے اظہار کا طریقہ عملی طور پر ویسا کرکے بتلا دیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا زیادہ اٹھایا کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی اور ہاتھ سر کے برابر (مقابل)پہنچ گئے۔
ہمیشہ اس طرح ہاتھ اٹھاتے رہنا یہ بدعت ہے:
حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں مروی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ تمہارا اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ اوپر اٹھاتے رہنا یہ بدعت ہے حضرت رسول کریم اکثر اس سے (یعنی سینے سے) زیادہ اوپر نہیں اٹھاتے تھے۔ (رواہ احمد، مشکوٰة)
حضرت نبی کریم کے دست مبارک اٹھانے کی مقدار کا فرق حالات و مواقع کے اختلاف پر مبنی تھا۔ حضور اکثر اپنے دست مبارک کو سینہ تک ہی اٹھاتے تھے مگر بعض مواقع پر مونڈھوں تک اور کسی خاص موقع پر مونڈھوں سے اوپر بھی اٹھاتے تھے۔ لیکن حضرت ابن عمرؓ نے جن لوگوں کو یہ تشبیہہ کی تھی کہ مواقع اور حالات کے اختلاف کو مد نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر موقع پر اور ہر دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بہت ہی زیادہ اوپر اٹھانے لگ گئے تھے اس لئے حضرت ابن عمرؓ نے ان کے اس طرز عمل سے بیزاری کا اظہار کیا اور اسے سنت کے خلاف قرار دیا۔
اسباب کے تحت ہر کام کے لئے کوشش کرنا انسان کے فرائض میں سے ہے:
پیران پیر سیدنا عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں: بیٹے تجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا اور تیرے کیے بغیر چارہ بھی نہیں بس تو کوشش کر، مدد کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس سمندر (یعنی دنیا) میں جس کے اندر تو ہے اپنے ہاتھ پاﺅں کو ضرور ہلا، موجیں (حوادثات زمانہ) تجھ کو اٹھا کر اور پلٹے دلا کر کنارہ تک لے بھی آئے گی۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے اور قبول کرنا اس کا کام، تیرا کام سعی کرنا ہے اور توفیق دینا اس کا کام، تیرا کام ہمت سے مصیبتوں (گناہوں) کو چھوڑنا ہے اور بچائے رکھنااس کا کام ہے تو اس کی طلب میں سچا بن جا، یقینا وہ تجھ کو اپنے قرب کا دروازہ دکھلا دے گا، تو دیکھے گا کہ اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف دراز ہو گیا۔
دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ اور عمل نہیں
حکیم الامت حضرت تھانوی نے فرمایا کہ دعا بڑی چیز ہے۔ تمام عبادات کا مغز ہے اور سب سے زیادہ آج کل اسی سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ: دعا ایسی چیز ہے کہ دنیا کے کاموں کے واسطے بھی دعا مانگنا عبادت ہے بشرطیکہ وہ کام شرعاً جائز ہو، بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ دین ہی کے کاموں کے واسطے اور آخرت ہی کی فلاح و بہبود کے لئے دعا کرنا عبادت ہے۔ بعض لوگ بجائے درخواست دعا کے لکھتے ہیں کہ: فلاں کام کے لئے کوئی مجرب عمل اور اوئی مجرب وظیفہ بتلا دیجئے، میں لکھ دیتا ہوں کہ: اس قید کے ساتھ مجھ کو عمل معمول نہیں اور دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ اور عمل نہیں۔
چھوٹی سی چیونٹی نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی
حضرت سعدی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ اسلام کے زمانہ میں قحط سالی ہو گئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے بارش کی دعا کے لئے عرض کیا، حضرت سلیمانؑ دعا کے لئے باہر تشریف لے جا رہے تھے کہ اثنائے راہ یہ منظر دیکھا کہ ایک چھوٹی سی چیونٹی اپنے دونوں پیروں پر کھڑی ہے اور آگے کے دونوں ہاتھ پھیلا کر یہ مناجات کر رہی ہے کہ: اے پروردگار! آپ کی مخلوقات میں سے میں بھی ایک مخلوق ہوں اور اے پروردگار: آپ کے فضل و کرم کی میں بھی محتاج ہوں، تو اپنے فضل و کرم سے بارش برسا دے، حضرت سلیمانؑ (چونکہ ان کی زبان جانتے تھے) ان کی دعا سن کر فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بے بس چیونٹی کی دعا قبول فرما لی اور بارش برسنا شروع ہو گئی اور میں وہاں سے واپس لوٹ آیا۔
دعا شروع کرنے سے پہلے اور بعد میں
وہ چیز اور وہ عمل جن کے کیے بغیر دعا کرنے والوں کی دعائیں زمین و آسمان کے درمیان معلق (لٹکتی) رہتی ہیں یا پھر ٹھکرا دی جاتی ہے، اسے قرآن مجید کی زبان میں صلوة و سلام کہا جاتا ہے، اس مقدس فصل کو قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ سے شروع کیا جا رہا ہے۔
یہ اس لئے کہ متعدد احادیث نبویہ میں یہ ارشاد وارد ہے کہ دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے اس کے بعد درود پاک سے دعا شروع کرکے درود شریف ہی پر دعا ختم کی جائے۔
پارہ 22۔رکوع4 سورہ احزاب
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں، ان پیغمبر پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو (تاکہ آپ کا حق عظمت جو تمہارے ذمہ ہے وہ ادا ہو)۔
فائدہ: اللہ تعالیٰ کا رحمت بھیجنا تو رحمت فرمانا ہے اور مراد اس سے رحمت خاصہ ہے جو آپ کی شان عالی کے مناسب ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا اور اسی طرح جس رحمت بھیجنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد اس رحمت خاصہ کی دعا کرنا ہے اور اسی طرح جس رحمت بھیجنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد اس رحمت خاصہ کی دعا کرنا ہے اور اسی کو ہمارے محاورے میں درود شریف کہتے ہیں۔
صلوة و سلام کے معنی
لفظ صلوٰة عربی زبان میں چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے: -1 رحمت-2دعا-3مدح و ثنائ۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت صلوٰة کی ہے اس سے مراد رحمت نازل کرنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة کے معنی ان کا حضور کے لئے ھدعا کرنا ہے اور عام ومومنین کی طرف سے صلوٰة نام ہے دعا اور مدح و ثناءکے مجموعہ کا، عام مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔
استاذ المحدثین حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے تحریر فرمایا، علماءنے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوة کے معنی رحمت بھیجنا ہے اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة کے معنی استغفار کرنا ہے اور مومنین کی جانب سے صلوٰة کے معنی دعا کرنا ہے۔
آیت کریمہ کا ماحصل اور مقصد
صاحب معارف القرآن اس طرح فرما رہے ہیں: آیت کریمہ کا اصل مقصود، مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ حضور نبی کریم پر صلوٰة و سلام بھیجا کریں مگر اس کی تعبیر و بیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا حضور کے لئے عمل صلوٰة کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مومنین کو اس کا حکم دیا۔ جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرما دیا کہ آپ کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جا رہا ہے، وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں، تو عام مومنین جن پر رسول کے احسانات بے شمار ہیں، ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہیے اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود و سلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس مقدس عمل میںشریک فرما لیا جو کام خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے کرتے ہیں۔
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں: مقصود ھاس آیت کریمہ سے یہ ہے کہ حضرت نبی کریم کی قدر و منزلت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے۔ جہ جان لے کہ جب خود اللہ تعالیٰ آپ کا مداح اور ثناءخواں ہے ھاور اس کے فرشتے حضور پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ ملاءاعلیٰ کی مذکورہ خبر کلام ربانی کے ذریعہ دے کر اب زمین والوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اے مسلمانوں تم بھی اپنے نبی کریم پر درود و سلام بھمیجا کرو تاکہ عالم علوی (آسمانوں) اور عالم سفلی (زمین والوں) کا اس پر اجماع ہو جائے۔
یہ اعزاز صرف نبی کریم ہی کو حاصل ہے
ایک عمل اتنا بڑا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ فرشتوں اور مسلمانوں کو بھی شریک فرما لیا۔ شیخ بلند شہری تحریر فرماتے ہیں: دراصل بات یہ ہے کہ حضور پر صلوٰة بھیجنا یہ وہ عمل ہے جس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں خود اس عمل کو کرتا ہوں تم بھی کرو۔ یہ اعزاز صرف حضور ہی کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰة کی نسبت اوّلاً اپنی طرف پھر ثانیا اپنے فرشتوں کی طرف کی، پھر مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم بھی درود بھیجو۔ یہ کتنی بڑی فضیلت ہے کہ اس عمل میں اللہ اور اس کے فرشتے بھی مومنین کے ساتھ شریک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے صلوٰة بھیجنے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک کی فرشتوں کے سامنے تعریف و توصیف بیان فرماتے ہیں اور فرشتوں کا صلوٰة بھیجنا اس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے حضور کے لئے مزید اعزاز و اکرام کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور مومنین کا صلوٰة بھیجنا بھی نبی کریم کے لئے دعا کرنا ہے۔ یا اللہ امام الانبیاء کو اور زیادہبلند مرتبہ عطا فرما۔
درود شریف کے ذریعہ حضور کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرنے میں دعا مانگنے والے کے لئے بارگاہ الٰہی کی مقبولیت اور محبوبیت بھی ہے اور فرشتہ کی دعا کا استحقاق بھی ہے جو باعث رحمت ہے پس جو بندہ جس قدر زیادہ درود شریف پڑھے گا وہ محبوب بار گاہ ایزدی ہو گا اور مستحق رحمت ہو گا۔ ساتھ ہی اس کے درجات بلند ہوں گے اور گناہ معاف ہوں گے۔
اسیر مالٹا حضرت شیخ الھند فرماتے ہیں: حضرت شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور آپ کے گھرانے والوں پر یہ بڑی قبولیت کا مقام رکھتی ہے۔
oo

اسلامی آداب تعلیم Islamic Aadab e taleem


پروفیسر محمد نوید ازہر
استاذ شعبہ اردو، گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور
اسلامی آداب تعلیم
زیر نظر تحریر امام زرنوجیؒ کی عربی تصنیف ”تعلیم المتعلم طریق التعلم“ کا اردو ترجمہ ہے۔ امام زرنوجیؒ فقہ حنفی کی معروف کتاب ”الھدایة“ کے مصنف برہان الدین ابوالحسن ( وفات: 593ھ) کے شاگرد رشید ہیں۔ طالب علم علم اور اہل علم کے ادب اور استاد کی تعظیم و توقیر کے بغیر علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ارشاد ہے ترجمہ:
  ”جس کسی نے جو کچھ بھی پایا ادب سے پایا اور جو بھی جس چیز سے محروم رہا بے ادبی کی وجہ سے رہا“۔اس بارے میں وضاحت ہے: ”ادب اطاعت سے بہتر ہے‘ کیا تو دیکھتا نہیں کہ انسان معصیت سے کافر نہیں ہوتا بلکہ استخفافِ معصیت اور ترک ادب کی وجہ سے کافر ہوتا ہے“۔تعظیمِ استاد علم کی تعظیم میں سے ہے۔ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے:
”جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ ڈالے، چاہے تو آزاد کر دے، اور چاہے تو غلام ہی رکھے“۔
استاذ گرامی سدید الدین شیرازی فرمایا کرتے تھے کہ مشائخ نے فرمایا ہے: جو شخص چاہے کہ اس کا بیٹا عالم بنے، اسے چاہیے کہ سفید پوش فقہاءکا خیال رکھے، ان کی تکریم کرے، ان کی تعظیم کرے۔
استاد کی تعظیم میں سے ہے کہ اس کے آگے نہ چلے، اس کی جگہ پر نہ بیٹھے، اس کی اجازت کے بغیر بات شروع نہ کرے، اس کے پاس بغیر اجازت کے زیادہ باتیں نہ کرے، اس کے اضطراب کے وقت اس سے کوئی سوال نہ پوچھے، وقت کا خیال رکھے اور دروازہ نہ کھٹکھٹائے بلکہ صبر کرے حتیٰ کہ استاد خود ہی تشریف لائے۔ حضور نے فرمایا:
”لوگوں میں سے بدترین وہ ہے جو کسی کی دنیا کی خاطر اپنا دین ضائع کر دے“۔
استاد کی اولاد اور اس کے متعلقین کا ادب بھی استاد کے ادب کا حصہ ہے۔”الھدایة“ میں حکایت ہے کہ بخارا کے ائمہ کبار میں سے ایک امام سبق پڑھاتے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے لیکن اس دوران میں کبھی کبھی کھڑے ہو جاتے تھے۔ جب لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میرے استاذ گرامی کا بیٹا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مسجد کے دروازے کے سامنے آ جاتا ہے۔ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو استاد محترم کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں۔
حکایت ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو اصمعی کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ اسے تعلیم بھی دے اور ادب بھی سکھائے۔ ایک روز خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اصمعی وضو کر رہے تھے اور اپنا پاﺅں دھو رہے تھے جبکہ خلیفہ کا بیٹا ان کے پاﺅں پر پانی ڈال رہا تھا۔ خلیفہ نے اس بات پر اصمعی کو ڈانٹا اور کہا: آپ نے اسے یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ وہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے سے پاﺅں دھوئے۔
کتاب کی تعظیم بھی استاد کی تعظیم کا حصہ ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ کتاب کو بغیر طہارت کے ہاتھ نہ لگائے۔ ایک حکایت ہے کہ شیخ امام شمس الائمہ السرخسی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا تھے اور ایک رات وہ دہرائی کر رہے تھے۔ انہوں نے اس رات سترہ مرتبہ وضو کیا۔ ہمارے استاذ گرامی شیخ الاسلام برہان الدین (المرغینانی)حکایت بیان کرتے ہیں کہ کسی فقیہ نے کتاب پر دوات رکھ دی، تو شیخ نے فارسی میں فرمایا: ”برنیابی“۔ تو ثمر بار نہیں ہو گا۔ آداب ضروریہ میں سے ہے کہ کتاب کو جلّی حروف میں کتابت کرے اور باریک باریک نہ لکھے۔ امام ابوحنیفہؒ نے ایک کاتب کو باریک کتابت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیوں خط کو باریک کرتا ہے۔ اگر زندہ رہا تو شرمندگی اٹھائے گا اور اگر مر گیا تو اسے پڑھنے میں دقت کی وجہ سے لوگ تجھے برا بھلا کہیں گے۔ کتاب کی تقطیع مربع شکل ہونی چاہیے کیوںکہ یہ ابو حنیفہ کی تقطیع ہے اور اس سے اٹھانے، رکھنے اور مطالعہ کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ہمارے مشائخ میں سے ایسے بھی تھے جو سرخ روشنائی سے کراہت محسوس کرتے تھے۔ہم درس، ہم مکتب اور جن حضرات سے علم سیکھا ان کی تعظیم بھی علم کی تعظیم کا حصہ ہے۔ خوشامد سوائے طلب علم کے مذموم ہے۔ طالب علم کے لئے مناسب ہے کہ نوع علم کا انتخاب خود نہ کرے بلکہ اس کا اختیار استاد کو دے۔ کیونکہ استاد نے اس بارے میں کئی تجربات حاصل کئے ہیں۔ وہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر ایک کے لئے کیا بہتر ہے یا کسی کی طبیعت کو کیا موافق ہے۔
شیخ امام اجل فرمایا کرتے تھے: دورِ اوّل کے طلبہ اپنے تعلم کے امور اپنے استاد کو سونپ دیتے تھے، تبھی وہ اپنے مقاصد اور مراد کو پہنچتے تھے اور اب خود انتخاب کرتے ہیں، اسی لیے علم و فقہ میں انہیں گوہر مقصود حاصل نہیں ہوتا۔حکایت ہے کہ محمد بن اسماعیل بخاری (امام بخاری) نے اپنے استاذ گرامی محمد بن حسن (شیطانی) سے ”کتاب الصلوٰة“ شروع کی۔ ان سے امام محمد بن حسن نے فرمایا: ”جا اور علم حدیث پڑھ“۔ کیونکہ آپ نے دیکھ لیا کہ یہ علم ان کی طبیعت سے زیادہ موافقت رکھتا ہے۔ پس انہوں نے علم حدیث کی تحصیل کی اور اس میں جمیع الائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔

Thursday, 15 November 2012

Harz Kia Hai (Poetry, Shayari)


درد کی دوا 
یثرب کے مسیحا سے جب تک نہ دوا لو گے
رستے ہوئے زخموں کو ناسور بنا لو گے
امریکہ نے دنیا کو او یار دیا کیا ہے
اک روگ نیا دے گا، کیا اس کے سوا لو گے
یہ جان تو آخر کو، اللہ کو دینی ہے 
شیطاں کی بیعت کر کے کیا جان بچا لو گے
گھس بیٹھیا اس گھر مےں گھر اپنا بنا لے گا
یہ پھر نہیں نکلے گا گر اب نہ نکالو گے
جس طرح بھی ہو ممکن اب قرض سے جان چھوٹے
اس رہن سے آئندہ نسلوں کوچھڑا لو گے
شاداب زمینیں پھر سونا ہی تو اُگلیں گی
قربانیاں کچھ دے کر، گر ڈیم بنا لو گے
دو اولیں اہمیت گھمبیر مسائل کو 
دفتر کو تو ”فیصل جی“ تم پھر بھی سجا لو گے
بہتر ہے جمالی کو کچھ کر کے دکھانے دو
کیا موقع نہ دینے کا الزام اٹھا لو گے؟
ملت نے تو اب تم کو مینڈیٹ دیا ایسا
مل جل کے سبھی آدھا یہ ملک سنبھالو گے
اب کام کرو سارے آپس مےں نہ دو طعنے
کشمیر سے بھارت کو تم کیسے نکالو گے؟
”یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے“
ریاض الرحمن ساغر

سچا قائد؟
کسی بھی تن پر لگ جائے سَر سچے قائدؒ کا
میرے دل مےں پھر سے بنے گھر سچے قائدؒ کا
زندہ راہ نما کے پیچھے مےں دن رات چلوں
خاموشی سے آنکھیں میچے اس کے ساتھ چلوں
کیا نہیں جو ابھی کسی نے کرے وہ ایسا کام
جو میری دھڑکن کو چھو لے دے ایسا پیغام
نصف صدی کی کھوج مےں ہم کو ملا نہیں وہ یار
لے دے کر ہے دل کا سہارا قائد تیرا مزار
ہر ٹھوکر پر یاد آتے ہےں ہم کو ترے اصول
روئیں اور چڑھائیں تیرے مرقد پر ہم پھول
لالچ کو ٹھکرا دینے کی ہمت کہاں سے لائیں
تیرا چہرہ نوٹ پہ دیکھیں اور صدقے ہو جائیں
کس برتے پر ڈالیں تیری آنکھوں مےں آنکھیں 
دولت کی رم جھم مےں دل کے اندر کیا جھانکیں
پورا ملک انگریز سے لڑ کر ہم کو دے گیا تُو
دیکھ سکے تو دیکھ ہمارا کٹا ہوا بازو
دل کہتا ہے جاگ کسی دن مرقد مےں سے بول
تھام ذرا میزان ہمارے آدھے دھڑ کو تول
کہیں پہ ”نون“ کہیں پر ”پی پی“ کہیں پہ قائد لیگ
مسلم لیگ دھڑوں مےں بٹ کر بن گئی ”شائد لیگ“
ریاض الرحمن ساغر

آئی لَو یُو! پاکستان!
ہے تجھ سے میرے پہچان
تُو میری خودی مری آن
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
نہیں تجھ سا کوئی حسیں
یونہی تو پیار نہیں
مےں تیرا نام سُنوں
دنیا مےں جاﺅں کہیں
تری سب سے الگ ہے شان
تُو میرا بھرم، مرا مان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
جب مہکیں تیرے گلاب
نظروں کو کریں شاداب
سانسوں مےں بھریں خوشبو
اور لائے رنگ شباب
دل مےں جاگیں ارمان
تُو اونچی بھر لے آڑان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
یہ دھرتی جنت سی
یونہی تو نہیں ملی
اللہ کی رحمت سے
قائد کی نے ہمیں بخشی
میرے سر پر ہے قرآن
تیرا پیار مرا ایمان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
ریاض الرحمن ساغر

دیدار
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
جب سامنے صورت یار کی تھی
آنکھوں مےں خواب سویرے تھے
اور سانسوں مےں سُر تیرے تھے
لے مدھم دل کے تار کی تھی
پلکوں پہ نمی کے ڈیرے تھے
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
کیا نور تھا چہرے پر آیا
اُتری جو تھکن اسفار کی تھی
جو غیروں مےں چھوڑ آئے تھے
کچھ فکر نہ اُس گھر بار کی تھی
جو بچھڑ گیا تھا رستے مےں
ڈھرکن مےں کسک اس یار کی تھی
پیچھے پیچھے سرخ آندھی تھی
اور آگے سبز پھریرے تھے
جب تیری خاک پہ دھری جبیں
رحمت کے سائے گھنیرے تھے
ہر سُو اپنوں کے چہرے تھے
اپنی باہوں کے گھیرے تھے
آزادی کی سرشاری تھی
جذبات مےں گرمی پیار کی تھی
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
ریاض الرحمن ساغر

یا رب تیرا شکر ہے!
انا لُٹاتے تو بس اک قدم پہ راحت تھی
ضمر بیچنے جاتے تو کیا قباحت تھی
رہی حقیر سی شے آبروئے نفس عزیز
کہ سر جھکانے کی بچپن ہی سے نہ عادے تھی
جو لوگ پوچھتے ہےں عمر مےں بنایا کیا؟
انہی کے جوتوں سے آباد اپنی چوکھٹ تھی
ہوں جس کی جیسی مرادیں خدا سے پاتا ہے
وہ ہم نے پائی جو درکار ہم کو عزت تھی
بہت سکون سے سوتا ہوں بھوک لگتی ہے
ہمیشہ اتنا ہی کھایا کہ جو ضرورت تھی
نہ در بڑا ہے، نہ دربان ہی کبھی رکھا
نہ کوئی لوٹنے آیا نہ گھر مےں دولت تھی
وہ آج پوچھتے ہےں ہم سے تم کہاں گم ہو 
کبھی ہمارے حوالے سے جن کی شہرت تھی
ہلال رزق سے اولاد کو جو تھا پالا
تو اس کی نظروں مےں پاتا ہوں جو عقیدت تھی
خوشی کے اور تشکر کے اشک موتی ہےں
نظر مےں آج نہ پہلے کبھی ندامت تھی
کسی کی حد مےں جاﺅ نہ اپنی حد چھوڑو
ہے یاد آج بھی ماں کی یہی ہدایت تھی
خدا کا شکر ہوئیں ساری حسرتیں پوری
مےں دل سے پوچھتا رہتا ہوں کوئی حسرت تھی؟
ریاض الرحمن ساغر

اب سب ایک ہوں!
اٹھے ہےں آج ہاتھ میرے آج اک دُعا کےلئے
خدا کی راہ مےں سب ایک ہوں خدا کےلئے
فضول آدھی صدی تک بھٹک کے دیکھ لیا
ہے صاف سمت محمد کے نقش پا کےلئے
بڑھاﺅ ربط و اخوت کہ کوئی شرط نہیں
وفا ہی شرط ہے ہر فرد باوفا کےلئے
کریں پرہیز تو سب روگ کیسے دور نہ ہوں
دوا کے ساتھ ہدایت پڑھو شفا کےلئے
درست قبلہ کرو خود ہی فلم و ٹی وی کا 
ضمیر کافی ہے ہر صاحب حیا کےلئے
ہر احتساب کا آغاز دل سے ہوتا ہے
سزا بھی خود کرو تجویز ہر خطا کےلئے
ہمارے ملک کا جو بھی وزیر اعظم ہو
ہے پُل صراط بڑا اس کی ابتدا کےلئے
گھڑی یہ سخت ہے ہم سب کی آزمائش کی
ہو احتیاط سے آغاز انتہا کےلئے
عدو کی آنکھ مےں کانٹے کی طرح کھٹکے گا
ملا ہے دین کو جو مرتبہ سدا کےلئے
خدا نے موقع فراہم کیا ہے جس جس کو
وہ ہوش گنوا دے نہ پھر خدا کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

چاچے اور دیپاچے
شعر و ادب کے ”چاچے“
لکھتے ہےں جو دیباچے
کم فہم نسل نو کو
اُلو بنا رہے ہےں
بونو کا قد بڑھا کر
پیسے کما رہے ہےں
تعریف کے پلوں پر
لنگڑے چلا رہے ہےں
بے پر کبوتروں کو
اونچا اُڑا رہے ہےں
کچھ شاعرات ایسی 
اور ایسے چند شاعر
پڑھئے کلام جن کا
اک پل بہ نظر غائر
محسوس ہوگا کس کی
چکی کا کھا رہے ہےں
چہرہ ہو خوبصورت 
محنت کی کیا ضرورت
پوچھے گا کون ان سے
کس سے لکھا رہے ہےں
کچھ بھی ہو وہ ادب کی
محفل سجا رہے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

نہ ہر گز حلف توڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
وفا سے منہ نہ موڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ لاﺅں گا کوئی ترمیم وعدوں اور قسموں کی
نہ لفظوں کو مروڑوں گا، مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بدلوں کا بیاں اپنا کسی بھی سخت مشکل مےں
نہ سچ کا ساتھ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ڈروں گا اور نہ ہر گز ہار مانوں گا رقیبوں سے
کوئی رشتہ نہ جوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
سدا بیٹھا رہوں گا مےں تری زلفوں کی چھاﺅں مےں
ترا آنچل مےں اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بیچوں کا ترا زیور نہ لوں گا قرض غیروں سے
نہ تیرا خون نچوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مےں خود لالہ اُگاﺅں گا ترا جوڑا سجانے کو
مےں سر سے سنگ پھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
جو تجھ پر جان وارے تجھ کو ایسی نسل نو دوں گا
جوانوں کو جھنجوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
دغا تجھ سے کریں گے جو نہ مانیں گے تری حرمت
انہیں زندہ نہ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مری جاں سوہنی دھرتی تو فضل و رحمت ربی
مےں تیری خاک اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر

سخت مرحلہ
یہ جنوں کی ابتدا ہے
یہی سخت مرحلہ ہے
وہیں تند خو ہےں موجیں
جہاں پل لرز رہا ہے
یہی وقت ہے سفر کا
یہی ایک راستہ ہے
کسی سوچ مےں ہے منصف
یہ مقام فیصلہ ہے
کہو! صاحبان دانش
یہاں سب کی رائے کیا ہے
کسی خوش قدم کی خاطر
در اقتدار وا ہے
وہاں جانے کون پہنچے
جہاں دشت کربلا ہے
کوئی سن سکے تو سن لے
یہ جو وقت کی نوا ہے
وہی پھر سے ہو نہ جائے
کئی بار جو ہوا ہے
تو مزے سے لوٹ ساغر
یہ جو فقر مےں مزہ ہے
ریاض الرحمن ساغر

میریا ڈھول سپاہیا!
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں ساری قوم دیاں اکھاں
ہن پالے شیروانی تیری بڑی مہربانی
جدوں ویکھے واجپائی اوہدی مر جائے نانی
جیہڑی گل اے ضروری ہن کر دے توں پوری
انہوں چھڈ نہ اودھوری کہ ایہہ وے ریت جمہوری
تیرے نال نیں وچوں سارے چودھری قصوری 
جنے چاہویں گا توں تینوں اونے ووٹ ملن کے
تینوں وچ ریفریڈم ووٹ پائے اسی لکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں گورے بش دیاں اکھاں
تیرے نال نیں وڈیرے تیرے نال اے جمالی
توں ای صدر ہویں گا ہور کئی سال ہالی
تیرے در تے کھلوتے سارے رہن گے سوالی
اہ وی ووے گی سیاسی تیری رسم مثالی
تیری لمی حیاتی لئی مےں منتاں سکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ہن وردی توں لا ہکے، سوہنا سوٹ بوٹ پا کے
کوئی چھڈ خوشخبری یارا ٹی وی اتے آکے
بنا وردی وی توں تے سدا رہویں گا کمانڈو
اک دن ویریاں دے کڈ دیویں کا کڑاکے
تکاں تینوں بنا وردی تے مےں تکداں نہ تھکاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ریاض الرحمن ساغر

بال ٹھاکرے خبردار
بہتر یہ ہے نہ حد سے بڑھے بال ٹھاکرے
بھارت کے مسلمانوں کی تلوار سے
ہندوستان صدیوں تھا مغلوں کی سلطنت
اکبر نے جودھا بھائی کو دی شان زوجیت
وارث سلیم ”شیخو“ ہوا تخت و تاج کا
حق مسلمانوں کو آج بھی ہے اس پہ راج کا
راجہ و مہاراجہ تھے انگریز کے غلام
کرتے رہے نواب بھی انگریز کو سلام
قائد کو اور نہرو و گاندھی کو دو دُعا
ہندوستان آخرش آزاد ہوگیا
انگریز جاتے جاتے بھی اک ہاتھ کر گیا
مجروح مسلمانوں کے جذبات کر گیا
بھارت کو مسلمانوں کے کچھ شہر دے گیا
اور تم سے شیش ناگ کو بھی زہر دے گیا
وہ زہر پھن بھلا اُگلتے ہو تم سدا
ایسا نہ کچل دے مسلمان یہ گلا
تم شر پسند ہندو کے ماتھے کا ہو کلنک
کرتے ہو نشر منہ سے تعصب کا صرف ”چنگ“
بھارت مےں جتنے ہندو بھی ہےں سیکولر مزاج
تم انتہا پسندوں کو دیتے نہیں خراج
مےں ان سے کہہ رہا ہوں کہ تم کو لگام دیں
غنڈے سے بڑھ کے تم کو نہ کوئی مقام دیں
ورنہ تمہاری وجہ سے وہ مارے جائیں گے
دنیا مےں ہر جگہ سے وہ دھتکارے جائیں گے
ریاض الرحمن ساغر

صبح کا تارا کیوں لوں
ڈوبتے ڈوبتے تنکے کا سہارا کیوں لوں
چاند پاﺅں نہ، تو مےں صبح کا تارا کیوں لوں
جگمگاتی ہوئی شب تابہ سحر چاہتا ہوں
چنددم توڑتی کرنوں کا اشارہ کیوں لوں
راستہ چاہئے اب کاہکشاں سا مجھ کو
ڈھلتے خورشید کا احسان دوبارہ کیوں لوں
مجھ کو سیدھا سمندر کی طرف ہے جانا
گھومتی گھامتی ندیا کا کنارا کیوں لوں
بعد مدت کے سنی موسم گل کی آہٹ
ہاتھ مےں پھر سے کوئی شوخ شرارہ کیوں لوں
اپنے حصے کا تو دکھ درد ہے سب مےں سے سہا
غیر کے زخم کا یہ زہر مےں سارا کیوں لوں
اب تو اپنوں کا ہی بس پیار مجھے کافی ہے
اپنی باہوں مےں کسی اور کا پیارا کیوں لوں
یا تو لگنا ہے کنارے سے یا بہہ جانا ہے
کسی تالاب مےں گرتا ہوا دھارا کیوں لوں
چاند پر جانے کو اک عمر خلا مےں گزری
ٹوٹ کے گرنا ہے جس کو وہ ستارہ کیوں لوں
پہلے بے چارہ تھا اس وقت نہیں بے چارہ
نفع کیوں چھوڑوں ساغر مےں خسارہ کیوں لوں
ریاض الرحمن ساغر

ماتحتوں کے ساتھ سلوک
ماتحتوں کے ساتھ نہ رکھ ناروا سلوک
رب دیکھتا ہے بندے سے بندے! یترا سلوک
مت بھول رب کے سامنے جانا ہے اک دن
اعمال نیک و بد کو فرشتے رہے ہےں گن
ٹوٹے ہوئے دلوں سے نکلتی ہے جو بھی آہ
وہ تو ہلا کے عرش کو لے لیتی ہے پناہ
میزان عدل عرش کبھی ڈولتا نہیں
انسان کی طرح تو وہ کم تولتا نہیں
ظالم اسی جہاں مےں پا لیتا ہے سزا
ہو جاتی ہے عذاب الٰہی کی ابتدا
مظلوم خود معاف کرے تو ہے بات اور
کرتا ہے صرف اس کی دعا پر خدا بھی غور
جو ظلم تو نے جانے یا انجانے مےں کیا
مظلوم سے معافی کی کر جائے التجا
قبل اس کے بند توبہ کا در کرے وہ خدا
لے اس کی بارگاہ مےں مظلوم کی دعا
مایوس ہو کے رب سے جو کرتے ہےں خودکشی
کیوں بھولتے ہےں رب کی امانت ہے زندگی
رب کریم! سب کی خطائیں معاف کر
کہتا ہے تجھ سے سجدے مےں ساغر جھکائے سر
ریاض الرحمن ساغر

طوائف کا معیار! شیخ جی!!
گئے دن جب طوائف کا بھی اک معیار ہوتا تھا
کبھی امراﺅجاں جیسا بھی اک کردار ہوتا تھا
وہ آداب محافل بھی سکھاتی تھیں نوابوں کو
تو پھر موج تعیش مےں بہاتی تھیں نوابوں کو
تب ان کے رقص و نغمہ سے عیاں ہوتی تھی فنکاری
جھلکتی تھی ادائے دلربانی مےں وضع داری
کبھی وہ چھوڑ کر کوٹھا حویلی مےں جو بستی تھیں
تو پھر ناگنکی طرح اہل خانہ کو نہ ڈستی تھیں
نہیں انکار، ہوتی تھیں لجھیائیاں تب بھی
شریفوں کے گلے پڑ جاتی تھیں رسوائیاں تب بھی
مگر اے ”شیخ جی“ جو آج کی گندی طوائف ہے
شریف اور نیک و سادہ ہر گھرانہ اس سے خائف ہے
لہٰذا پی ٹی وی سے دور رکھئے اس طوائف کو
کہ اس کے شر سے ہے خطرہ بیچاری ہاﺅس وائف کو
یہ مانا عالمی ابلاغ کے بھی کچھ تقاضے ہےں
مگر ملک مےں دلدادہ¿ مشرق بھی رہتے ہےں
ہمارے شعر و موسیقی کا اپنا حسن ہے پیارے
دکھاتے ہےں کئی چینل بہت مغرب کے نظارے
ہمارے پی ٹی وی مےں رنگ ہو اپنی ثقافت کا
چنانچہ ختم کیجئے ناچ اس پر مست وحشت کا
وگرنہ دیجئے ہر چوک مےں مجرے کی آزادی
کہ نسل نو کی ہو اس سرزمیں پر کھل کے بربادی
سر شب ہر جھروکے مےں بدیسی ناچ گانا ہو
تو پھر اس پاک دھرتی کا ہر اک منظر سہانا ہو
ریاض الرحمن ساغر

ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں تو چلتے رہنا تھا
ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں کچھ کرتے رہنا تھا
ہمیںکچھ کر دکھانا تھا
مگر ہم نے کیا کیا ہے؟
نتیجے مےں لیا کیا ہے؟
ہمیں لہروں سے لڑنا تھا
ہمیں تو پار جانا تھا
ہم اپنے خود محافظ ہےں
زمانے کو بتانا تھا
مگر ہم نے تو بھنور مےںہےں
اگرچہ اپنے گھر مےں ہےں
یہ کس ویراں ڈگر مےں ہےں
کہ لگتا ہے کھنڈر مےں ہےں
ہمیں تو کھیت بونا تھا
ہمیں سبزہ اگانا تھا
ہمیں نان و نمک اپنا
پڑوسی کو کھلانا تھا
ہمیں کیوں قرض لینا تھا
لیا تھا تو چکانا تھا
مگر ہم مست موسم مےں
فقط گڈی اڑاتے ہےں
تو پھر کیوں چیختے ہےں جب
جہاں والے ڈراتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

شاہینوں کا سفر شہادت
آسماں سے چمکتے ستارے گئے
کتنے انمول شاہیں ہمارے گئے
کہکشاں کے مسافر زمیں کھا گئی
ہائے اڑتے پرندوں کو موت آگئی
مان ہم کو تمہاری اڑانوں پہ تھا
وہ جو پہرہ پہاڑوں چٹانوں پر تھا
کہساروں کو وہ سرخرو کر گیا
قوم کی آنکھوں مےں وہ لہو بھر گیا
گرم خوں تھا تمہارا بھی جوش مےں
لو گئے برف کی ٹھنڈی آغوش مےں
پھول تابوت پر پُوت تابوت مےں
لو چلے کتنے یاقوت تابوت مےں
ماﺅں بہنوں کی آنکھوں مےں اشک رواں
لے چلے ہو ہمارا اثاثہ کہاں
ننھے بچوں کی آہیں ہواﺅں مےں ہےں
سسکیاں دوستوں کی فضاﺅں مےں ہےں
وہ جبینوں پر مہر شہادت لیے
جا رہے ہےں جو داد شہادت لیے
پہنچے اس ملک و ملت کا ان کو سلام
ان کو جنت مےں حاصل ہو اعلیٰ مقام
اب لواحق کو انکے خدا صبر دے
جذب ایثار کا قیمتی اجر دے
ریاض الرحمن ساغر

حمید نظامی، مینار صحافت
مینار صحافت کوئی تجھ سا نہیں آیا
معیار صحافت کہیں تجھ سا نہیں پایا
تسلیم تری جرا¿ت اظہار نظامی
آگے کسی آمر کے کبھی سر نہ جھکایا
دائم ہے حمید اور مجید آج بھی قائم
سچائی کے رستے پہ جو قائدؒ نے دکھایا
اخبار کے پردے مےں تجارت نہ کبھی کی
دولت کے لئے آن کو بیچا نہ گنوایا
جو ہونٹوں پہ لاتے ہوئے کتراتے رہے ہےں
سلطان کے ایوان وہ نعرہ لگایا
سچ کہنے پہ طوفان کئی راہ مےں اٹھے
ٹھٹھکانہ رکا، تو نے قدم آگے بڑھایا
اقبالؒ ترے دل مےں دھڑکتا تھا نظامی
قائدؒ کا ہمیشہ ترے سر پر رہا سایہ
آزادی کی تحریک مےں اعلیٰ تری خدمات
سونپا گیا جو تجھ کو وہ کردار نبھایا
تو عالم اسلام کی یکجہتی کا داعی
قرآن کا پیغام صدا تو نے سنایا
جو سوچتا اور لکھتا ہے اخبار مےں ساغر
یہ تیرا قرینہ تھا یہ تو نے ہی سکھایا
کچھ لوگوں پہ تو خاص کرم کرنا ہے یا رب
ہو لحد نظامی پہ کرم خاص خدایا
ریاض الرحمن ساغر

”بش“........ خدا سے ڈر!
خدا کو چاہے تو سب پوری خواہشیں کر دے
وہ اپنے بندوں کی کم آزمائشیں کر دے
بنائے بے کس و کمزور کو جواں قوت 
وہ شہ زور کی کمزور طاقتیں کر دے
ملائے خاک مےں سر پھروں کا سارا غرور
رگوں مےں خون کی مفلوج گردشیں کر دے
وہ بھر دے ذہن مےں بے کار اور بری سوچیں
پھر ایسے شخص پہ دنیا کی لعنتیں کر دے
کرے وہ پیدا جو فرعون کے لئے موسیٰ
تو کوہ طور کی روشن وہ رفعتیں کر دے
زمین اس کی ہے، ہےں ساتوں آسماں اسکے
وہ خوش جو ہو تو زمانے پہ رحمتیں کر دے
مجھے یقین ہے ”بش“ سے وہ خوش نہیں ہوگا
جو اس زمین پہ پیدا مصیبتیں کر دے
وہ عزم و حوصلہ بخشے جو ناتوانوں کو
تو سرفروشوں کی بیدار ہمتیں کر دے
وہ مرد فقر خمینی سا جو کرے پیدا
تو بادشاہوں کی غارت حکومتیں کر دے
چنانچہ مشورہ میرا یہی ہے، بش کے لئے
بھلا کے جنگ کو تازہ محبتیں کر دے
وگرنہ عرش سے آفت نہ ایسی آ جائے
جو اس کی نیست و نابود قوتیں کردے
ریاض الرحمن ساغر

خود کلامی
کبھی اکیلے مےں خود سے کلام کرتا ہوں
تو اپنے نام یہ جاری پیام کرتا ہوں
یہ ملک تجھ کو خدا نے نہ گر دیا ہوتا
تو ایک سانس سکھ کا کبھی لیا ہوتا؟
تو سوچتا ہے کہ کیا اس زمیں پہ تیرا ہے
طرح طرح کے مسائل نے تجھ کو گھیرا ہے
چمکتا تیرے گھروندے مےں کوئی چاند نہیں
ہے ملک تیرا تو آنگن مےں کیوں اندھیرا ہے
جو تیرا خون پسینہ ہے کھیتوں مےں رچا
تو آب و دانہ کا مختار کیوں وڈیرہ ہے
یہ آبشار سر کہسار تیرے ہےں
طلوع ہوتا ہوا آبشار تیرا ہے
تری ہی نسل کی جاگیر ہے یہ ہریالی
تیرے لئے ہی مہکتی ہے ہر جواں ڈالی
یہ پیڑ تیرے ہےں تو بیٹھ ان کی چھاﺅں مےں
چلے گا تیرا ہی قانون تیرے گاﺅں مےں
یہ نہر تیری ہے دریا کا پاٹ تیرا ہے
تو محو رقص ہو لہریں پہن کے پاﺅں مےں
تو اپنی رائے کو اپنی یقیں کی طاقت دے
تو اپنی خواہش و جذبے کو بھی صداقت دے
مےں تیرا فردا فقط تیرے نام کرتا ہوں
تو بادشاہ ہے، تجھ کو سلام کرتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر

میرٹ پر روزگار؟
ہمارے ملک مےں میرٹ پہ کام کیسے ہو
کسی کے حق کا یہاں احترام کیسے ہو
اُداس نوجوان پھرتے ہےں ڈگریاں لے کر
نوازشیں ہےں وزیروں کی صرف اپنوں پر
وہ بے نوازوں کی دانش نہ اہلیت دیکھیں
نہ تجربے کی سند اور نہ تربیت دیکھیں
وہ بے ہنر کو سفارش سے آگے لاتے ہےں
ذہین لوگوں سے ہر پل نظر چراتے ہےں
جو کام اچھے بھی ہوں سابقہ حکومت کے
انہیں وہ کرتے ہےں رد بے رحم سیاست سے
ملازمین کی بھرتی گریڈ سولہ تک
کمشن کرتا تو کم ہوتا ہر کسی کو شک
یہ اختیار کمشن سے لیا واپس
کریں گے بھرتی سفارش سے ہر کس و ناکس
یہ ایک بحکم نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
کھلا ہوا یہ میری نسل نو سے دھوکہ ہے
جو روزگار کی تقسیم خام کر دیں گے
وہ خاک ملک مےں تعلیم عام کر دیں گے
خدایا ملک، بے ایمان لیڈروں سے بچا
جو تیرے نیک ہےں بندے انہیں اب آگے لا
عطا ہو عدل کی توفیق حکمرانوں کو
کہ آگے بڑھنے کا رستہ ملے جوانوں کو
ہے دل مےں جو تھوڑی سی آس مر نہ جائے کہیں
ترے بھی ہونے کا احساس مر نہ جائے کہیں
ریاض الرحمن ساغر

مےں تیار ہوں
اپنی باہوں مےں لے لوں مےں سات آسماں
پیار کے پر ملیں تو اڑوں!
سارے صحراﺅں مےں کھل اٹھیں گلستاں
ساتھ دریا چلے تو چلوں
خوب جوشِ جنون اب امنگوں مےں ہے
اک جوں ولولہ اب ترنگوں مےں ہے
مےں تو تسخیر کر لوں سی سارا جہاں
کوئی آگے بڑھے تو بڑھوں!
عزم و ہمت ہے پختہ، ارادے بھی ہےں
کیا کروں ساتھ کچھ شہزادے بھی ہےں
قرض کی مے جو پی پی کے ہےں شادماں
صرف خون جگر مےں پیو¿ں!
دوستو! نسل نو کی مےں آواز ہوں
تازہ ہوں دم بہ دم مےں مےں دمساز ہوں
ہر طرف رہنماﺅں کا ”شور بیاں“
کوئی میری سنے تو کہوں!
شکر کرتا ہوں مےں اپنے اجداد کا
مشورہ ہے مجھے میرے ہمزاد کا
آگے بڑھ اور لکھ اک نئی داستاں
کیا کروں مےں پڑھوں تو لکھوں
ہے کوئی رحم دل جو قلم دے مجھے
میرے جذبے سراہے قلم دے مجھے
شمع بن کر مےں روشن کروں بستیاں
کوئی شعلہ ملے تو جلوں!
ریاض الرحمن ساغر

عذاب و ثواب کا دن
جو ایک دن کا ہو تو سہہ لیں عذاب کا ایک دن
وفور مستی، مست شباب کا ایک دن
ہمارے ملک مےں ہر دن بسنت رہتی ہے
کریں وہ کاش معین عتاب کا ایک دن
ہر اک محلے مےں دوچار سر پھرے ہر دن
پتنگ اپنی چھتوں پر اڑاتے رہتے ہےں
جو ان کو منع کرے کوئی تو بجا کے بگل
وہ اہل خانہ کو اس کے چڑاتے رہتے ہےں
شدید موسم گرما مےں بھی یہ دیکھا ہے
ذرا جو ابر جو چھائے تو پتنگ لہرائے
جو دھاتی تار گرے تار برق پر تو رو
یوں منقطع ہو کہ گھنٹوں نہ لوٹ کر آئے
نہائے طفل پسینے مےں رو کے کہتے ہےں
ہے کوئی لعنت خانہ خراب کا اک دن
گلی مےں کھیلتا بچہ شہید ڈور ہوا
تو تھوڑی دیر کو ہنگامہ اور شور ہوا
پھری یہ تیغ جو دھاگے کی تو کٹی شاہ رگ
جوان جوڑے کی اموات پر نہ شور ہوا
بہت سے بجلی کے تاروں مےں مر گئے پھنس کر
ہے ایسی موتوں کا کوئی حساب کا اک دن
خوشی مناﺅ بہاروں کی گھر مےں آمد پر
مگر نہ بھولو عذاب و ثواب کا اک دن
ریاض الرحمن ساغر

چودہ کروڑ انسانو!
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
بچو اب ان سے جو اپنا ضمیر بیچتے ہےں
اب ان کو ڈھونڈو جو خوں سے زمیں سینچتے ہےں
بڑھاﺅ آگے محب الوطن جوانوں کو
گلے لگائیں جو مزدور اور کسانوں کو
کریں خرابوں مےں تازہ کھیتیاں آباد
جو ان وڈیروں سے خود کو کرا سکیں آزاد
جو عدل دے سکیں بیواﺅں اور یتیموں کو
جو بیچ کھائیں نہ امداد کی سکیموں کو
جو روح قائد و اقبال کو مسرت دیں
جو اپنی قوم کے دل کو خودی کی دولت دیں
وہ جن کے پیش نظر بس مفاد ذات نہ ہو
گروہ کا کوئی گرفتار ذات پات نہ ہو
جھکیں نہ غیر کے آگے جو راحتوں کے لئے
فراغ دل ہوں جو انسان کی چاہتوں کے لئے
اب اپنی رائے کی طاقت بڑھاﺅ، آگے برحو
خود اپنا سویا مقدر جگاﺅ آگے بڑھو
نہ بھولیں وہ جو لٹیرے ہےں اور ڈاکو ہےں
وہ سب نظر مےں ہےں آنکھیں ہماری جگنو ہےں
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
ریاض الرحمن ساغر

بسنت کیا ہے
وہ پوچھتے ہےں بسنت کیا ہے
یہ بے حیائی کا انت کیا ہے
یہ ایک تہوار ہندوﺅں کا
لہو پیا جس نے مسلموں کا
بپا چھتوں پہ بسنت دیکھو
سروں سے آنچل ”اڑنت“ دیکھو
چلو یہ مانا بہار آئی
وہ پھول چہروں پہ رنگ لائی
چمن کو اس نے نکھار بخشا
کلی کلی کو سنگھار بخشا
تو ہوش کیا اب تمام کر دیں؟
کلی کو کیا نقش بام کر دیں؟
گلی گلی غل مچائیں بھنورے؟
یہ ہو تو ہنگامہ عام ہوگا
ہمارا پھر کیا مقام ہوگا
یہ وقت و زر کا زیاں ہے پیارو
یہ جان لیوا سماں ہے پیارو
ہماری غیرت کی موت ہے یہ
وقار ملت کی موت ہے یہ
یہ جشن مرگ وقار کب تک؟
یہ شور و غل دل فگار کب تک؟
ریاض الرحمن ساغر

واجپائی.... شادی؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی
اور کوئی بیٹی بھی ہوتی
ہوتے آپ اگر کشمیری
وہ کشمیر مےں جلتی ہوتی
آپ کے سینے مےںدل ہوتا
جو انصاف کا قائل ہوتا
وادی کو برباد نہ کرتے
اس کی رد فریاد نہ کرتے
دیتے وادی کو آزادی
اور کرتے بیٹی کی شادی
بھیگی آنکھیں دل تڑپاتیں
انسانی جذبے سمجھاتیں
آپ نے گر شادی کی ہوتی
آپ کی بھی کوئی بیوی ہوتی
بھارتی فوجی کی گولی سے
وہ بیوی بیوہ ہو جاتی
بیٹے کو بندوق تھماتی
قطرہ لے کر خون جگر کا
اس کے ماتھے تلک لگاتی
وہ بیٹا پھر جو کچھ کرتا
بھارت کیا خمیازہ بھرتا؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی!
بولی پیار کی سمجھی ہوتی!!
ریاض الرحمن ساغر

لوٹا لوٹی
جو باہم لڑ رہے ہےں ”لوٹا لوٹی“
کہیں وہ ہو نہ جائیں سوٹا سوٹی
خیال خاطر احبابرکھیں!
وہ جن کا منہ بڑا ہے بات چھوٹی
جب ان کی مانگ ہی ہے جان لیوا
تو کیوں پیچھے پڑی ہے پھر یہ چوٹی
کہاں گوجرانوالہ کے بٹیرے
یہاں ملتی نہیں ہے دال روٹی
مفاد ذات پہلے دیکھتے ہےں
یہی ہے لیڈروں کی اک کسوٹی
جو بھاگیں گے چرا کر قومی دولت
نہ ان کی ہاتھ آئے گی لنگوٹی
نہ جانے ہو گا کیا انجام ان کا
ابھی سے نیتیں ہےں جن کی کھوٹی
ہمارا کی انہیں احساس ہوگا
کہ ان کے دل ہےں بے حس توند موٹی
حسینہ وہ کہ جس دل کا حسیں ہو
بلا سے شکل ہو کالی کلوٹی
ہےں جن چار بچے ایک روٹی
نصیبوں مےں کہاں ہے ان کے بوٹی
یہی ہر وقت ساغر سوچتا ہے
برے ہےں رہنما یا قوم کھوٹی؟
ریاض الرحمن ساغر

عمران تک رہیئے
بھابی جمائما کو نہ الزام دیجئے!
عمران خان کا ان سے تو بدلہ نہ لیجئے
مانا کہ لب و لہجہ سیاست کا ہے یہی
جھوٹے لبوں پہ بات اچھلتی ہے ان کہی
عمران کی کہی کا دو عمران کو جواب
اس کی جمائما کو سزا کیوں ملے جناب
ہیرو وہ اپنے شعبے کا جان عوام ہے
محبوب اک جہان مےں اس کا بھی نام ہے
خاتون اب جو اس کی شریک حیات ہے
اس رو سے احترام کے لائق وہ ذات ہے
اس نے کسی کی ”سیتا“ پہ انگلی نہیں دھری
بینکوں سے قرض لے کے تجوری نہیں بھری
چندہ لیا تو صرف کیا کار نیک پر
کینسر کا ہسپتال ہے ظاہر ہر ایک پر
اس کا قصور ہے کہ سیاست مےں آگیا
شفاف قلب لے کے غلاظت مےں آگیا
اب آگیا تو ڈٹ کے لڑے جنگ انتخاب
اس کی ریاضتوں کا ملے گا اسے ثواب
ریاض الرحمن ساغر

زبردست۔ ذہنیت پست
کہتے ہےں اپنے منہ سے، ہے امریکہ زبردست
دعویٰ بلند و بانگ سہی، ذہنیت ہے پست
دنیا کے جاہ و حشم پر اترا رہا ہے بش
ہوتا نہیں خدا کبھی ایسے بیاں سے خوش
لے ڈوبتا ہے قوم کو لیڈر کا بڑا بول
نکلے جو اس زبان سے پہلے وہ لفظ تول
طاقت کے بل پہ دنیا کو دو گے اذیتیں؟
مانے گا کونامن کی جھوٹی نصیحتیں؟
امریکہ سے ہے دنیا کی نفرت کا یہ سبب
انسان کے حقوق کا کرتا نہیں ادب
ہاتھی کی سونڈ ہی مےںگھس جائے اب عراق
پاگل بھی ہو چلا ہے جو پہلے تھا صرف مست
ہوگا وہ حشر برپا کہ بدلے گا یہ نظام
قبل اس کے بند توبہ کے در ہو چکیں تمام
اے بش معافی اپنے خدا سے تو مانگ لے
ایسا نہ ہو گناہوں کی ہر حد تو پھلانگ ہے
دنیا مےں بانٹ مہر و وفا اور محبتیں
امریکہ کو ملیں گی نہ بدلے مےں نفرتیں
کر دے غریب ملکوں سے غربت کا خاتمہ
گر تو ہے زبردست تو پھر کیوں ہے تنگ دست؟
ریاض الرحمن ساغر

پی ٹی وی سالانہ ایوارڈ
پی ٹی وی ایوارڈ کی محفل جاری ہے
اک انور ہے ایک ”بشریٰ انصاری“ ہے
دونوں باہم بھائی بہن منہ بولے ہےں
اور ان پر قربان کراچی ساری ہے
اک دوجے کی تعریفیں کمپیرنگ مےں
چھری معین اختر کی بھی دو دھاری ہے
”تھری ان ون“ کا کھیل کراچی مرکز پر
ہر اک شو اس ٹیم کی ذمہ داری ہے
ان تینوں کی اپنی اپنی خوبی ہے
”سیلف پریزنگ“ تینوں کی بیماری ہے
سہ رکنی یہ ”کونسل آف کمپیئرز“ ہے
چوتھے کی رکنیت مےں دشواری ہے
پی ٹی وی ایوارڈ تو یہ سالانہ ہے
آئندہ اکتوبر اس پر بھاری ہے
اس مےں شامل نہیں کلاسیکل میوزک
”پوپ“ سے یاری، اس کی خاطر داری ہے
”ایمن“ کی آنکھوں مےں غم کے آنسو ہےں
اور سکتے کے عالم مےں ”درباری“ ہے
پوچھے کوئی حال ”میاں کی ٹودی“ کا
ساغر ”بھیروں“ پر تو رقت طاری ہے
ریاض الرحمن ساغر

قومی زباں کی بات
یادش بخیر! پھر چلی، قومی زباں کی بات
صد شکر! طاق نسیاں کو اُٹھا کسی کا ہاتھ
آزاد ہےں تو فکر و نظر کیوں رہیں غلام؟
اُردو زباں کو کیوں نہ ملے دفتری مقام
اس جاں بلب کو پھر کسی ”وائیں“ کی ہے تلاش
بننے سے جو بچائے اسے ایک سرد لاش
”پی ٹی وی“ پر دست تلفظ نہیں رہا
مدت سے ریڈیو نے نہیں مستند کہا
اُردو مےں لفظ و لہجہ¿ انگریزی عام ہے
قومی زباں کی آن و انا ریزی عام ہے
سیکرٹری ثقافت صوبہ ہےں، اشک خیز
حس لطیف رکھتے ہےں اُردو ادب مےں تیز
سنتے ہےں اہلیہ ہےں گورنر کی شاعرہ
ہو زیر اہتمام جو ان کے مشاعرہ
اردو کا حال زار گورنر سے ہم کہیں
اس کو حرم مےں اپنے رکھیں جب تلک رہیں
اک بار جو یہ ”قصر گورنر“ مےں آئے گی
ایوان صدر مےں کبھی راہ پائے گی
تحریک اب چلی ہے تو ”شوکت“ سے یہ چلے
بہتر ہے اب عنان حکومت سے یہ چلے
اس کے لئے جو تم نے بھری آہ ”شاہ جی“
کچھ کیجئے! کہ لوگ کہیں واہ شاہ جی
ریاض الرحمن ساغر

مہنگائی نے چھکے چھڑا دیئے
پٹرولیم کے نرخ فلک پر چڑھا دیئے
اوپر سے ویگنوں کے کرائے بڑھا دیئے
دشوار کر دیں اور غریبوں کی منزلیں
مہنگائی نے کچھ اور ستم ان پہ ڈھا دیئے
بجلی کے نرخ پہلے ہی جاں لیوا کم نہ تھے
جھٹکے نے سوئی گیس کے چھکے چھڑا دیئے
غربت مےں ایک دن ذرا جی کر دکھائیں تو
کہتے ہےں جو عوام کے شکوے مٹا دیئے
بنوا لئے لٹیروں نے اپنے لئے محل
ٹوٹے ہوئے گھروندوں کے چولہے بجھا دیئے
اس ملک مےں رئیسوں نے پالے ہوئے ہےں سگ
اور ”صائمہ“ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیئے
مرنے کے بعد کرنا نہ ”نصر اللہ“ سے سوال
کیوں تم نے ”پارساﺅں“ کے چہرے دکھا دیئے
سب کر رہے ہےں ”میرا“ سے شکوہ کہ جانِ من
کیوں تم نے بزم غیر مےں جلوے دکھا دیئے
نکلیں جو تام جھام سے شاپنگ کو بیگمات
رشوت کے نوٹ ایک ہی دن مےں لٹا دیئے
ایماندار لوگوں کی روتی ہےں بیویاں
بچوں کے جیب خرچ جنہوں نے گھٹا دیئے
”لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ¿ امید“
خوش فہمیوں کے سارے دیئے ہی بجھا دیئے
ریاض الرحمن ساغر

اے جھوٹے بش
اے بش! تجھ کو پہچان نہیں
جھکنا مومن کی شان نہیں
نعرہ یہ پاکستان کا ہے
کشمیر نہیں یا جان نہیں
تو جذب جہاد کو کیا سمجھے
تو نے تو پڑھا قرآن نہیں
محبوبہ، موت مجاہد کی
یونہی تو اونچی شان نہیں
بھارت تیرا پروردہ ہے
تجھے پیارا پاکستان نہیں
منظور کریں امریکی حل
اتنے بھی ہم نادان نہیں
آئیں گے نہ تیرے جھانسے مےں
تو اک عادل انسان نہیں
تو چاہتا ہے ”نیو ورلڈ آرڈر“
یہ اتنا بھی آسان نہیں
تری چوکھٹ پر جو جھک جائے
کمزور اتنا ایمان نہیں
ہوگا بھگوان تو بھارت کا
تو دنیا کا بھگوان نہیں
ریاض الرحمن ساغر

تھیٹر فحاشی۔ آرٹس کونسل
لو نہ بڑھے اگر دل کے دیئے کی دُور اندھیرا کیسے ہو
چیریں نہ کرنیں رات کا سینہ یار سویرا کیسے ہو
کم ہو فحاشی کیا تھیٹر مےں جب نہ جلیں کچھ نئے دیئے
لوگ بلائے، اک میٹنگ کی، اور پھر بستے باندھ لئے
ہوتا کیا ہے آرٹ اور کلچر کچھ بھی جنہیں معلوم نہیں
خوش ہوتے ہےں پاس بٹھا کر شام کو چہرے چار حسیں
دیتی ہے سرکار گرانٹیں ایسے چند اداروں کو
دیتے ہےں ترجیح جو اہل فن پر اپنے پیاروں کو
بامقصد اور معیاری اسٹیج سجے بھی تو کیسے؟
خانہ پری مےں ہو جاتے ہےں خرچ گرانٹوں کے پیسے
ہو کر جب تبدیل کوئی باذوق افسر آجاتا ہے
محنت اور دیانت سے ہر الجھن کو سلجھاتا ہے
مکھیاں مارنے والا عملہ اس کے آڑے آتا ہے
وہ بیچارہ سکریٹریٹ مےں دل کو تڑپاتا ہے
سوچتا ہے تتر بتر گرگوں کا گھیرا کیسے ہو
ختم فحاشی کا ہر اک تھیٹر سے ڈیرہ کیسے ہو
میز پہ اس کی، کئی مسائل اور بھی ہوں حل کرنے کے
کیا کر سکتا ہے پھر وہ سوائے بیٹھ کے آہیں بھرنے کے
یا رب سچے افسر کو اچھا اور سچا عملہ دے
یا پھر بڑے عملے کو، کوئی افسر بگڑا، کملا دے
ریاض الرحمن ساغر

گورنر۔ بھیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
کچھ بھیڑیئے بیٹھے ہےں جہاں فیس بدل کر
اس نگری مےں رشوت بنا پتہ نہیں ہلتا
انصاف نہیں عدل کے ایوان مےں ملتا
ہو عام اہل کار کہ ہو وہ کوئی ریڈر
فائل کو اڑاتا ہے جو نوٹوں کو لگیں پر
سائل کوئی مفلس ہو تو سنتا نہیں فریاد
پھرتے ہےں مصیبت زدہ ہر موڑ پہ ناشاد
بکتی ہے سرعام جہاں جھوٹی گواہی
منشی یہ وکیلوں کے عدالت کے سپاہی
ہر قاعدے قانون کو اک کھیل بنا کر
لے آتے ہےں مظلوم پہ کچھ ایسی تباہی
ہوتی نہیں ملزم کی کئی ہفتے ضمانت
رکھ دیتے ہےں بیچارے کا یہ کیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
پھر دیکھئے حالات کبھی جیل مےں جا کر 
قیدی سے کریں بات کسی جیل مےں جا کر
رہ جائیں گے سر تھام کے پھر آپ گورنر!
ہر طرح کے ہوتے ہےں وہاں پاپ گورنر!
اک تھانے مےں جانے سے کہاں بات بنے گی
یہ رات کسی سچے سویرے سے ڈھلے گی
کیا جھانکو گے تم تنہا ہر ایک اندھے کنویں مےں
بے چہرہ نظر آئے گا ہر ظلم دھوئیں مےں
درویش ہو تھک جاﺅ گے تم بھیس بدل کر
ریاض الرحمن ساغر

مزید سات سال........؟
لو جی، انہوں نے مانگ لئے اور سات سال
کہتے ہےں ملک و قوم کو کر دیں کے وہ نہال
شامل جو پچھلے تین کریں اگلے سات سال
ہم اپنی ڈھلتی عمر سے دیں دس برس نکال
آئندہ سامنے جو نئے چہرے آئیں گے
کیا آج ان کے بارے مےں ظاہر کریں خیال
ہر راہ بر کے پیچھے چلیں اور دُکھ سہیں
منزل کہاں ہے؟ پوچھیں کسی سے ہے کیا مجال
ستر برس جو چاہئیں، لے لیجئے حضور
لیکن ہر اک برس مےں کوئی کیجئے کمال
اکسٹھ برس کی عمر مےں اب ہم سے جو بھی ہو
ہم کو تو نسل نو کی تباہی کا ہے ملال
لِللّٰہ اس کو رخت سفر کچھ تو دیجئے
مر جائیں ہم پہ ان کو تو جینا نہ ہو محال
قائدؒ کے بعد ہم کو تو رہبر نہیں ملا
جو آیا اس نے خود کو کہا مرد بے مثال
ڈرتے ہےں اب تو سانس بھی لیتے ہوئے کہ لب
کرتے ہےں ورد اے خدا، آئی بلا کو ٹال
ساغر کسی کے نیک ارادوں پر شک نہیں
اس ملک پر کرم کرے وہ رب ذوالجلال
ریاض الرحمن ساغر

پی ٹی وی کا پاپ میوزک؟
ناچتے ہےں بے سرے پن کو چھپانے کےلئے
بے ریاض آتے ہےں جو محفل مےں گانے کےلئے
اک مداری کی طرح بجواتے ہےں وہ تالیاں
یار بلواتے ہےں کچھ تالی بجانے کےلئے
ہر اناڑی کا کھلونا پاپ میوزک ہوگیا
ہر کوئی بیتاب ہے البم بنانے کےلئے
کوئی دے نہ دے وہ خود لے لیتے ہےں کوئی خطاب
رعب اپنا اپنے جیسوں پر جمانے کےلئے
اپنے منہ سے سُر کی رانی اور سُر کا بادشاہ
ہےں یہ اعزازات بس ہنسنے ہنسانے کےلئے
اُٹھ چکا ہے اب تو پی ٹی وی سے لے سُر کا بھرم
یہ ادارہ وقف ہے اندھوں مےں کانے کےلئے
کر دیا معیار فن کو دفن اس نے خاک مےں
کوئی کیا جائے وہاں جوہر دکھانے کےلئے
جانے کب ان بے ہنر لوگوں کا بستر گول ہو
بیٹھے ہےں جو سانپ بن کر جی جلانے کےلئے
بات اُردو مےں کریں کیسے کہ جلتی ہے زباں
کون ہے قومی زباں ان کو سکھانے کےلئے
ریڈیو ٹی وی سے اہل علم سب رخصت ہوئے
آگئے جاہل ہمارا منہ چڑانے کےلئے
بھینس کے آگے بجانا بین ساغر ہے فضول
سر ہلائے جو فقط چارہ چبانے کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

وفاقی وزیر ثقافت۔ توجہ
ذرا دیکھئے کام ”پی این سی اے“ کا
ادارہ ہے ناکام پی این سی اے کا
ثقافت کی ترویج کی ذمہ داری
ہے نازک بہت اور کافی ہے بھاری
یہ طے ہو نہ پایا برسہا برس مےں
ہو ترجیح کیا آرٹ کے پیش و پس مےں؟
درون وطن قوم کو کیا سکھائیں
برون وطن طائفے کیسے جائیں
ثقافت کی تصویر کے رنگ کیا ہوں
فنون ہمہ گیر کے رنگ کیا ہوں
ہمارا ہے دراصل کیا ”لوک ورثہ“
ہے صدیوں پہ پھیلا ہوا لوک ورثہ
ذرا دیکھئے جا کے ”سندھالوجی“ مےں
انہوں نے ہے جھانکا ہوا ہر صدی مےں
بہت بیش قیمت عجائب ہےں ان کے
نتائج و تحقیق صائب ہےں ان کے
ادارے ثقافت کے یکجہت کیجئے
ہدایت انہیں فکر فردا کی دیجئے
دکھا کے فقط پتلیوں کے تماشے
ڈکاریں نہ لیں قوم کے فنڈ کھا کے
ریاض الرحمن ساغر

کیسے مذاکرات
ایڈوانی! کان کھول کر سن لیجئے یہ بات
کرنے نہیں اب آپ سے ہم کو مذاکرات
نخرے سدا جو ہم کو دکھاتے ہےں واچپائی
صدق و صفا کی ان مےں دکھائی نہ دیں صفات
کشمیریوں پہ رکھتے ہےں جور و ستم روا
دیکھے نہیں انہوں نے ابھی مومنوں کے ہاتھ
وہ گرگ پیر سالہ ہے معلوم ہےں ہمیں
کب تک جئیں گے وہ انہیں مکاریوں کے ساتھ
کشمیریوں کو رائے شماری کا حق نہ دیں
اک روز ہر محاذ پہ کھائیں گے ان سے مات
رکھیں گے ان پہ ظلم و ستم کب تلک روا
ہر روز اپنی پشت پہ کھاتے ہےں ان سے لات
کرگل سا زخم پیٹھ پہ پھر سے وہ کھائیں گے
ہر گز نہ ہوگی میز پہ اب ان سے ملاقات
اس کا نتیجہ جلد ہی بھگتے گا اسرائیل
بھارت سے مل کے سوچی ہے اس نے جو واردات
کشمر کا ہو یا ہو فلسطیں کا مسئلہ
امریکہ نے بگاڑے ہےں یہ سب معاملات
دنیا مےں شمس، عدل کا ہونے لگا طلوع
ہے تار تار ہونے کو ساغر غموں کی رات
ریاض الرحمن ساغر

سیاسی بہن بھائی
تازہ اور گرم تر خبر یہ آئی ہے
بےنظیر ہے بہن، نواز بھائی ہے
کیش ہوگا اب یہ ”ووٹ کارڈ“ سندھ مےں
اور اسی مےں اب تو ملک کی بھلائی ہے
”بی بی“ نے سراہا ہے”میاں“ کا یہ خلوص
شکر، سیدھے راستے پہ وہ بھی آئی ہے
پوری گر نہ مل سکے تو آدھی بانٹ لے
بات یہ بزرگوں نے ہمیں سکھائی ہے
دونوں ایک، نیک ہو کے اب اسے لڑیں
قوم کی فلاح کی جو یہ لڑائی ہے
دونوں ہی کی جان پر ہے قرض ملک کا
دونوں ہی نے کھائی دودھ اور ملائی ہے
ایک دوسرے کے خیر خواہ ہم رہیں
دشمنوں کی صف مےں آگے واچپائی ہے
جدہ اور دوبئی مےں ہے کتنا فاصلہ
درمیاں کنواں ہے اور نہ کوئی کھائی ہے
لیگ (ن) اور ”پی پی“ دونوں ایک ہوں
رُت یہ انتخاب کی پیام لائی ہے
اس کو بھی بحال اب کریں عوام مےں
دونوں ہی نے ساکھ اپنی جو گنوائی ہے
ساغر اب ضروری ہے کہ یکجہت ہوں سب
پاک سرزمین اصل مےں اکائی ہے
ریاض الرحمن ساغر

بی بی! یاد ہے؟
ہم کو پہلی بار تیرا جیل جانا یاد ہے
تجھ کو بھی کیا آج وہ منظر سہانا یاد ہے
اور پھر دیکھی ان آنکھوں نے سلاخیں ٹوٹتی
یک بیک قسمت کا تارہ جگمگانا یاد ہے
”بی بی سی“ پر یاد ہے بیباک انٹرویو ترا
ساری دنیا کو وہ تیرا چھب دکھانا یاد ہے
حلف لینا تجھ سے وہ بابے غلام اسحق کا
تیرا پریوں کی طرح وہ مسکرانا یاد ہے
اوڑھنا وہ سر پر آنچل چاند بی بی کی طرح
اور پھر تسبیح کو ہر دم گھمانا یاد ہے
ملک مےں سارے سماں وہ شادمانی کا حسیں
سات رنگوں مےں نہایا لاڑکانہ یاد ہے
مرد اول کا وہ چلنا سایہ بن کر تیرے ساتھ
عورتوں کا اپنے مردوں کو چڑانا یاد ہے
اور پھر آصف کی وہ من مانیاں کرنے کی رُت
میٹھے میٹھے سیب گھوڑوں کو کھلانا یاد ہے
جمگھٹے اور رت جگے ہر شب سوئمنگ پول پر
اور ”ٹین پرسینٹ“ کا ہر شاخسانہ یاد ہے
دفعتاً پھر تجھ کو لگنا ”آئی پی پی“ کا کرنٹ
اور تیری نیتوں کا ڈگمگانا یاد ہے
دوسراموقع بھی تجھ کو پھر سنبھلنے کا ملا
پھر لغاری جی کا تیرے آڑے آنا یاد ہے
موقع دینے کو تجھے حاضر ہےں پھر ووٹر ترے
لوٹ آ، گر جان کا داﺅ لگانا یاد ہے
ریاض الرحمن ساغر

تھوڑی سی لفٹ کرا دے
تیری اونچی شان مشرف
صدر پاکستان مشرف
میری عرضی مان مشرف
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
قومی یا صوبائی دے دے
مےں توں ہوں ہرجائی دے دے
”نون“ کا بڑے ”ق“ کا ہو
چاہے وہ ”انصاف“ کا ہو
چودھری کا پی اے ہوں مےں
وہ ہے ان پڑھ بی اے ہوں
جو کہے گا مان لوں گا
ہر اشارہ جان لوں گا
گرچہ سکہ کھوٹا ہوں مےں
پھر بھی تیرے کام آﺅں گا
اک پرانا لوٹا ہوں مےں
جب کہو گے پھر جاﺅں گا
میرا ہے ایمان مشرف
پہلے پاکستان مشرف
مجھ کو تو پہچان مشرف
میری عرضی مان مشرف
مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
ریاض الرحمن ساغر

راہی ملک عدم
”راہی“ اک اور راہی ملک عدم ہوا
شامل غم حیات مےں ایک اور غم ہوا
صف بچھ گئی ہے آج ”ترنجن“ مےں سوگ کی
نقش خیال یار جو نقش قدم ہوا
خود اس نے اوڑھ لی ہے دوپٹوں کی چھاﺅں اب
جب زندگی کی دھوپ سے رشتہ قلم ہوا
جب دل کے ”سنجے بوہے“ بھی وہ کر چکا تھا بند
”تاروں“ کی لو مےں چاند“ کو رستہ بہم ہوا
پچھتایا عزرائیل بھی سن کر ”نکئی جئی ہاں“
”احمد کی موت کا اسے صدمہ نہ کم ہوا“
بعداز ”قتیل“ راہی کو للچا رہی تھی موت
اس کی بلا سے برپا الم در الم ہوا
کیا چھپ سکیں گی خاک مےں یہ ساری صورتیں
دیکھیں گے ان کو لالہ و گل مےں، جو دم ہوا
سوچا ہے اب نہ اس کی پرستش کریں گے ہم
کعبے مےں دل کے پیدا جو کوئی صنم ہوا
یاروں کی چاہتوں کے بھی سب بھید کھل گئے
رسوا قدم قدم پہ جو میرا بھرم ہوا
ساغر یہ میری آنکھ ہی پتھرا نہ گئی ہو
دل رویا اور پلکوں کا پردہ نہ نم ہوا
ریاض الرحمن ساغر

قیامت؟
اعزاز مےں ڈھل گئی رسوائی
نیکی کی شہرت گہنائی
ماتھے کا جھومر جھوٹ بنا
سولی پہ چڑھ گئی سچائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
جو جتنا بھی بدنام ہوا
اتنا ہی اس کو نام ملا
جو صبح کو قاتل کہلایا
معصوم صفت وہ شام ملا
انصاف سے دنیا بھر پائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ہر جا دوہرے معیار ہوئے
اک چہرے والے خوار ہوئے
جینے کا درس جو دیتے تھے
مر جانے کو تیار ہوئے
اس حد تک بڑھ گئی مہنگائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
سب چور لٹیرے باعزت
بے رحم وڈیرے باعزت
ہر سمت اندھیرے باعزت
یہ روشنیوں کی پسائی؟
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ریاض الرحمن ساغر

بچگانہ سوال
بولو بچو! صدر کی مٹھی مےں کیا ہے؟
آنے والے کل کے نصیب کا لکھا ہے!
کل کا نصیب تمہیں کیسا لگتا ہے؟
آنے والی گھڑیوں کا کس کو پتہ ہے!
سیکھا نہیں تم نے کیا گر کے سنبھلنا؟
ہم نے تو ابھی تک سیکھا نہیں چلنا!
ہم کو دکھاﺅ ذرا کھڑے ہو کے پاﺅں پر؟
دیکھ تو رہے ہو ہم پاﺅں پہ کھڑے ہےں!
پھر بھی کمر تک گڑھے مےں گڑے ہےں!
ہم کو سہارا دے کر گڑھے سے نکالو!
اپنی خطا کا بوجھ ہم پہ نہ ڈالو!
ایسے مےں کرے گا کون مدد ہماری؟
جن کی غلامی مےں یہ عمر گزاری!
ہم نے تو باندھی تھیں تم سے امیدیں
بکا ہوا مال ہم کیسے خریدیں؟
اپنا بنا لو ہمیں دے کے بڑی بولی!
گھر مےں تو خالی ہے اناج کی گھڑولی!
ہم نہ رہے تو تم پھر کہاں جاﺅ گے؟
ہم تو سمجھتے تھے تم ہی بتاﺅ گے؟
کرتے ہو تم ہمیں کیوںشرمندہ؟
ہم کو اُٹھا سر، رہنا ہے زندہ
ریاض الرحمن ساغر

عالمی ریکارڈ!
سانپوں اور بچھوﺅں مےں رہتے ہےں
الوﺅں اور بجوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
شہر کے جنگلوں مےں رہتے ہےں
چوروں اور ڈاکوﺅں مےں رہتے ہےں
کرگسوں کے پروں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
ہم بھی دبکے، گھروں مےں رہتے ہےں
حوروں اور گلرخوں مےں رہتے ہےں
رند ہےں میکدوں مےں رہتے ہےں
ہے وڈیروں کا عالمی ریکارڈ
خون پی کر نشوں مےں رہتے ہےں
کھٹملوں، پسوﺅں مےں رہتے ہےں
موٹی موٹی جوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے غریبی کا عالمی ریکارڈ
قید اندھے کنوﺅں مےں رہتے ہےں
جاہلوں احمقوں مےں رہتے ہےں
خواب کی جنتوں مےں رہتے ہےں
ووٹروں کا ہے عالمی ریکارڈ
بے وفا لیڈروں مےں رہتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

ہم آزاد یا غلام؟
کیوں تہہ دام پر ہمارے ہےں؟
پہرہ غیروں کا گھر ہمارے ہےں
توڑنے چاہئیںہمیں جو صنم
ان کی چوکھٹ پہ سر ہمارے ہےں
جن پہ قابض ہےں اب ہنود و یہود
ملک وہ بیشتر ہمارے ہےں
غور سے دیکھ کارواں سالار
راہزن، ہمسفر ہمارے ہےں
نیک و بد کا انہیں نہیں ادراک
ہائے، کیا دیدہ ور ہمارے ہےں
لٹ گئے اپنی محنتوں کے ثمر
باغبانو! شجر ہمارے ہےں
جب یہ طے ہے وہ چور ڈاکو تھے
کیوں کھلے ان پہ در ہمارے ہےں
بولو آزاد ہےں کہ ہم ہےں غلام
پوچھتے کرکٹر ہمارے ہےں
کیوں کھلے پھر رہے ہےں دہشت گرد
قید مےں ”ڈاکٹر“ ہمارے ہےں
کیوں نہیں اس زمیں پہ اپنا راج
جبکہ شمس و قمر ہمارے ہےں
ہم سے ناراض ہے خدا ساغر
نالے بھی بے اثر ہمارے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

لوگ تشہیر کو ترستے ہےں
وہ جو اخبار مےں تصویر کو ترستے ہےں
اپنی ہی ذات کی تشہیر کو ترستے ہےں
سامنے جاتے ہےں جب کیمرے کے بھاگ کے وہ
اپنی پرکاری تقدیر کو ترستے ہےں
ایسے لمحوں مےں مجھے اپنے پہ پیار آتا ہے
لوگ جب مجھ سے بغلگیر کو ترستے ہےں
شوق سے ہوتے ہےں کچھ لوگ اسیر محفل
ہم مگر زلف کی زنجیر کو ترستے ہےں
لوگ دہراتے ہےں جب عادت چمچہ گیری
ہم تو اس بزم مےں کفگیر کو ترستے ہےں
ہم تو کہتے ہےں اے کاش جگر مےں اترے
صدق و سچائی کے ہر تیر کو ترستے ہےں
ملتے رہتے ہےں ہمیں پیر جواں سال مگر
ہم تو دیدار بت پیر کو ترستے ہےں
حسن مےں کم تو نہیں وادی کاغان و سوات
پھر بھی ہم وادی کشمیر کو ترستے ہےں
قاسمی فیض جگر جوش سبھی سے پڑھ کر
لوگ کیوں میر تقی میر کو ترستے ہےں
جانے کیا جادو اثر ترا سخن ہے غالب
ہم تری شوخی تحریر کو ترستے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

سستی بجلی مہنگے سانس
دوستو! دو ہزار پانچ کے بعد
ہونگی جو بستیاں نئی آباد
ان مےں ہم ایک گھر بنائیں گے
سستی بجلی وہاں لگائیں گے
آﺅ تب تک رہیں اندھیرے مےں
انہی مہنگائیوں کے گھیرے مےں
تین برسوں کی رات ہے باقی
تھوڑی سی دیر ہے سویرے مےں 
نرخ ہر روز بڑھتے جائیں گے
آسمانوں پہ چڑھتے جائیں گے
کیا خبر دو ہزار پانچ تلک
ہم سے بدحال جی بھی پائیں گے
طے ہے یہ جو بھی ہم کمائیں گے
پہلے یوٹیلٹی بل چکائیں گے
سانس لیں گے ادھار کے پھر ہم
آخرش خود کو بیچ کھائیں گے
جینے کو نت نئے دلاسے ہےں
بس کہ مایوس بھی نہیں ہم لوگ
اپنے شاہانہ خرچ کم کر دیں
اتنے کنجوس بھی نہیں ہم لوگ
قرض چڑھتا ہے چڑھتا جائے گا
حوصلہ پھر بھی بڑھتا جائے گا
ریاض الرحمن ساغر

تیرے نثار اے جانانہ!
جو تم ہو سنگ تو دیوانہ مجھ کو ہونا ہے
کہ قیس و لیلیٰ کا افسانہ مجھ کو ہونا ہے
جو شمع جلتی ہے ہر شب مزار قائد پر
اسی کے عشق مےں پروانہ مجھ کو ہونا ہے
اس آرزو مےں کہہ کہ مہکے یہ گل زمیں میری
پلا کے خوں اسے نذرانہ مجھ کو ہونا ہے
تو اپنے ہاتھوں مےں چمکا کے رکھ مجھے ساقی
کہ نسل نو کا بھی پیمانہ مجھ کو ہونا ہے
تجھے مےں کیوں نہ سنواروں اے سوہنی دھرتی
تیرے نثار اے جانانہ! مجھ کو ہونا ہے
شراب حب وطن پر نہیں ہے پابندی
تو آﺅ میکشو! میخانہ مجھ کو ہونا ہے
مری منڈیر پہ بھی فقر کا چراغ جلے
فقیر شہر کا کاشنہ مجھ کو ہونا ہے
رچاﺅ کانوں مےں میرے سحر کو بانگ در
خودی کا نعرہ مستانہ مجھ کو ہونا ہے
وہ جن کے نام سے بدنام سبز پرچم ہو
اب ایسے لوگوں سے بیگانہ مجھ کو ہونا ہے
اب آگیا ہے جو ساغر مری انا کا سوال
ہر ایک خوف سے انجانا مجھ کو ہونا ہے
ریاض الرحمن ساغر

کوئی محرم راز؟
مےں حال سناتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
کچھ دیتا پتہ منزل کا 
مجھ کو دم ساز جو ملتا
وہ میرے درد بٹاتا
مجھے سیدھی راہ دکھاتا
کوئی پیر فرید جو ہوتا
مےں اس کے واری جاتا
ہر زخم دکھاتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
وہ بادل بن کر میرے
دل ٹوبے پر چھا جاتا
اور اتنا مینہ برساتا
جینے کا مزہ آ جاتا
حل سمجھاتا مشکل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
دلہن بن جاتی روہی
گر دُلہا ملتا کوئی
جی اٹھتی سسی تھل کی
باہوں مےں یار پنل کی
پھر اس کا چہرہ کھلتا
کوئی محرم راز جو ملتا
کنوں حال سناواں دل دا؟
کوئی محرم راز نہ ملدا؟
ریاض الرحمن ساغر

شیروانی مےں!
سیل جمہور کی روانی مےں
آگئی نئی لہر پانی مےں
اب تو ملاح بھی ہو کشتی کا
صرف اور صرف شیروانی مےں
پوری سرحد یہ فوجی طاقت ہو
جو نظر صاف آئے، بھارت کو
اور اس کی کماں ہمہ وقتی
مستحق ہاتھ کو عنایت ہو
اب یہی وقت کا تقاضا ہے
نیا کردار ہو کہانی مےں
صدر کی عسکری صلاحیت
قوم کے یوں بھی کام آئے گی
مستعدی سے سرحدوں پر جب
فوج اپنا مقام پائے گی
اک نئی کھلبلی مچے گی پھر
واجپائی کی راج دھانی مےں
اور اب جو وزیراعظم ہو
لیس ہو اختیار کامل سے
راہ کے موڑ کو سمجھتا ہو
اور آگاہ اپنی منزل سے
دشت ناکام سے جو لے جائے
ہم کو فردوس کامرانی مےں
ریاض الرحمن ساغر

انتخانی نتائج
پل مےں خربوزے پپیتے ہوگئے
ہار کر کچھ لوگ ”جیتے“ ہو گئے
ہوگئیں ان پر کرم کی بارشیں
سر بسجدہ جو مسیتے ہوگئے
معجزوں جیسی ہوئیں تبدیلیاں
رات بھر مےں شیر چیتے ہوگئے
کل بھی دیکھا ہم نے، کل دیکھیں گے پھر
بھوکے ننگے کھاتے پیتے ہوگئے
آنکھوں آنکھوں مےں ہوئے قول و قرار
دل کے سودے چُپ چپیتے ہوگئے
دل مےں تھی اچھے دنوں کی جن کے آس
ان کے اچھے دن تو بیتے ہوگئے
ہےں غریبوں کے مسائل جوں کے توں
عام جب سے سرخ فیتے ہوگئے
اک برہنہ تیغ ”قانون ہتک“
ہونٹ سچائی کے سیتے ہوگئے
مسئلے اللہ والوں کے بھی حل
دو نفل شکرانہ نیتے، ہوگئے
آج تک ساغر تمہارے سارے کام
نیک نیت سے جو ”کیتے“ ہوگئے
ریاض الرحمن ساغر

وقت کی بے درد آندھی
زندگی کو درد دیتی
راستوں کو گرد دیتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
سوکھے پتوں کو اُڑاتی
شہہ بطوطوںکو گراتی
ثبت کرتی بے ثباتی
حوصلوں کو آزماتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
محل امیدوں کے ڈھاتی
خاک مےں ارماں ملاتی
آنکھ سے سپنے چراتی
ہر طرف طوفاں اٹھاتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
تھام لو جذبوں کی باہیں
لے لو رشتوں کی پناہیں
اشک بن جائیں گے موتی
گیت بن جائیں گی آہیں
تب رُکے گی شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
ریاض الرحمن ساغر

توں لنگھ جا
کی کریئے بگانہ شہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر گھڑی بریک تے پیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر کسے نوں کتنی جلدی اے
جیویں گھر وچ اگ پئی بلدی اے
مل کجھ دی ایتھے صبر دا نئیں
بس قیمت اک اک پل دی اے
رکشے ویگن دا بیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
اسیں گلیاں وچ چلا لاں گے
تھوڑا پٹرول بچا لیں گے
چھڈ رکشا ویگن پا لیں گے
فیر اسیں وی آڈا لاں گے
ہالی غربت دی لہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
دل کردا اے سگنل توڑ دیاں
کیوں اک سواری چھوڑ دیاں
میرا غصہ رب دا قہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ریاض الرحمن ساغر

بے ثبات زندگی
دَور جاتا ہے دَور آتا ہے
اور کے بعد اور آتا ہے
گردشِ وقت کو ثبات نہیں
لمحہ لمحہ ہمیں بتاتا ہے
ہوگا وہ جو خدا کو ہے منظور
ہونی، انہونی، وہ بناتا ہے
کوہساروں کے دل لرزتے ہےں
جب کبھی وہ زمیں ہلاتا ہے
آدمی زندگی کا شیدائی
زندگی سے فریب کھاتا ہے
لے کے خورشید اپنی تابانی
شام ڈھلتے ہی ڈوب جاتا ہے
چڑھتا دریا کناروں سے باہر
کیسی خرمستیاں دکھاتا ہے
اور پھر دیکھ اس کی پسپائی
اپنی ہی تہہ مےں جا سماتا ہے
پتھروں کے محل بنا کر بھی!
آدمی ریت اوڑھ پاتا ہے
صرف دو گز زمین ہے اپنی
اور یہ آسمان چھاتہ ہے
ریاض الرحمن ساغر

قانون ہتک
چاند کا داغ چھپائیں تو صداقت کیا ہے؟
چور کو چور نہ لکھیں تو صحافت کیا ہے؟
خود ہی ملحوظ نہ رکھے جو قلم کی حرمت
اس قلم کار کی خود اپنی بھی عزت کیا ہے
اثر تحریر مےں ہوتا ہے جو روشن ہو ضمیر
ورنہ اس پیشے مےں رہنے کی ضرورت کیا ہے
اپنے جذبوں کی عدالت مےں جو خود پیش رہے
اس پہ دنیا اس کی تعزیر و عدالت کیا ہے
کسی قانون مےں سچ بولنا ہے جرم کہاں
ایسے قانون کی در پردہ حقیقت کیا ہے
آج معیار صحافت کا ہے منصف قاری
اسے معلوم ہے پیمانہ ذلت کیا ہے
ظلم کا چہرہ دکھانے پہ جو پابندی ہو
حق مظلوم دلانے کی ضمانت کیا ہے
ہوں نہ شائع جو کرپشن کی، ستم کی خبریں
پھر کسی شعبے مےں اصلاح کی صورت کیا ہے
بدمعاشوں کی، بُرے لوگوں کی عزت کیسی؟
ان کو قانون کی رو سے یہ رعایت کیا ہے
بارہا کہہ چکے ”جنرل“ کہ پریس ہے آزاد
پھر یہ ”قانون ہتک“ اور یہ حجت کیا ہے؟
ریاض الرحمن ساغر

رُوحِ بے ضمیر
مےں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں
محدود میری ذات کے محور مےں میری سوچ
بیدار و ہوشیار، بقید حواس ہوں!
مےں نے فصیلِ جاہ پہ ڈالی سدا کمند
ہر پُرکشش مقام کے مےں آس پاس ہوں
سچ ہے کہ مجھ کو سچی مسرت نہیں ملی
ہر لمحہ سوچتا ہوں کہ مےں کیوں اُداس ہوں
یہ کیا کہ مال و زر کا لہو منہ کو آ لگا
پروردہ، ہوس ہوں مےں دوزخ کی پیاس ہوں
رومال رکھ کے ناک پر آتے ہےں لوگ پاس
مےں ایک زندہ لاش کے مدفن کی باس ہوں
مجھ پر وفا کا بوجھ نہ ڈال اے مرے وطن
مےں سنگ بے حسی کا بت بے اساس ہوں
ماضی کا کوئی فخر نہ فردا کا عزم خاص
مےں نسل نو کی ناقص و بیکار آس ہوں
مجھ کو کسی غریب گھرانے کی فکر کیا
مےں صرف اپنے گھر کے لئے خوش قیاس ہوں
ہمسر ہے کوئی میرا نہ ہے ہموطن کوئی
مےں ایک خاندان ہوں اور اک کلاس ہوں
ساغر مجھے خدا کا کوئی واسطہ نہ دے
مےں کفر کا اسیر ہوں بھگوان داس ہوں
ریاض الرحمن ساغر

نئے وفاقی وزیر اطلاعات
سچا قلم نجات کا ساماں ہے شیخ جی
جھوٹے کی عمر، عمر پریشاں ہے شیخ جی
جینا بہت محال ہے سچائیوں کے ساتھ
پر عاقبت سنوارنا آساں ہے شیخ جی
سونپا ہے آپ کو جو قلمدان اطلاع
ثابت کریں کہ آپکے شایاں ہے شیخ جی
پہلی خبر تو ریڈیو، ٹی وی کی لیجئے
مغرب زدوں کا حلقہ یاراں ہے شیخ جی
”پی ٹی وی“ بھرے ہے جو ”زی ٹی وی“ کا سوانگ
”ناچوں“ کا رنگ اس مےں فراواں ہے شیخ جی
اب اس کو پاک کیجئے خواجہ سراﺅں سے
یہ قوم ننگ و ناچ سے نالاں ہے شیخ جی
قابض ہےں اس پہ بے سرے فنکار و گلوکار
عریانی اشتہاروں کا عنواں ہے شیخ جی
ہوتے ہےں نجی شعبے سے سودے کمشن پر
اس دھاندلی پہ ہر کوئی حیراں ہے شیخ جی
اب لایئے یہاں بھی کوئی ایسا سربراہ
ابلاغ مےں جو فرد نمایاں ہے شیخ جی
جھاڑو سے گند کیجئے اس میڈیا کا صاف
ہم بھی کہیں کہ آپ کا احساں ہے شیخ جی
ریاض الرحمن ساغر

مادرِ ملت کے گارڈ!
میر ظفر اللہ جمالی مادرِ ملت کے گارڈ!
ہو مبارک آپ نے پایا ہے خدمت ایوارڈ
”ہر کہ خدمت کرد اور مخدوم شد“ ثابت ہوا
قائد ایوان کا جو مرتبہ اونچا ملا
قوم کی اب آپ سے وابستہ امیدیں ہےں خاص
اس برس جو آئیں گی وہ دونوں ہی عیدیں ہےں خاص
راستہ جمہوریت کا صاف و سیدھا کیجئے
حلف اب جو بھی لیا ہے اس کو پورا کیجئے
ہر سدا ایوان کی اب غور سے سینئے جناب
آکے خود ایوان مےں دیجئے سوالوں کا جواب
ملک کو اب قرض سے آزاد ہونا چاہئے
مفلسوں اور بے کسوں کو شاد ہونا چاہئے
قائدؒ و اقبالؒ کے اقوال ہوں پیش نظر
آپ میر کارواں ہےں قوم ہے محو سفر
ہو کے اب یکجہت کھوئی منزلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر بھنور کو چیر کر اب ساحلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر کس و ناکس کے اب جھوٹے قصیدے مت سنیں
ساتھ اپنے جن وزیروں اور سفیروں کو چنیں
ان مےں سے ہر ایک کا اعلیٰ بہت معیار ہو
صاحب ایمان ہو اور صاحب کردار ہو
آپ کو ملت نے کرسی کی امانت سونپ دی
سوہنی دھرتی کی تعمیر و حفاظت سونپ دی
ریاض الرحمن ساغر

سرکار ہے رقصاں
قلم کی آبرو یارو تہہ تلوار ہے رقصاں
کہ جیسے قطرہ¿ شبنم بنوکِ خام ہے رقصاں
کوئی اس شوخ حرافہ کے گھنگرو چھین لے یا رب
قیامت کی جو مہنگائی سر بازار ہے رقصاں
طوائف آگئی کوٹھی مےں، اپنا چھوڑ کر کوٹھا
مےں سجدے مےں گرا ہوں، وہ پس دیوار ہے رقصاں
کوئی تو پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹے
کلی سہمی ہوئی، بھنورا سر گلزار ہے رقصاں
یہاں پر عدل اور قانون بالا دست کیا ہونگے
کہ ملزم رقص بسمل مےں ہے، تھانیدار ہے رقصاں
حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے چونکہ ”متحدہ“
تو اب اس کو رجھانے کےلئے سرکار ہے رقصاں
اتر آئے کسی شیشے مےں آزادی صحافت کی
قلم کاروں کی محفل مےں ”ہمارا یار“ ہے رقصاں
صدائیں سارے ایوانوں مےں ہےں ”قومی ترانوں“ کی
سجی ہے دُلہن جمہوریت، دلدار ہے رقصاں
نہ چھوڑے ساتھ متحدہ، پگارا جی یہ کہتے ہےں
کہ اس منزل کے آگے منزل دشوار ہے رقصاں
کوئی اچھی خبر راﺅ سکندر سے سنی ہوگی
کہ ”بی بی“ پھر کسی امید مےں سرشار ہے رقصاں
حکومت لاکھ بدلے خو نہ بدلے گی تری ساغر
جمالی کی وضع داری پہ تو بے کار ہے رقصاں
ریاض الرحمن ساغر

بہت مارتے ہےں
آئینہ ان کو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
پردہ چہرے سے ہٹائیں تو بہت مارتے ہےں
یہی بہتر ہے کہ لکھتے رہو سب اچھا ہے
اور کچھ لکھیں لکھائیں تو بہت مارتے ہےں
میری جاں قوم کے خادم نہیں آقا ہےں وہ
ان کو ہم راس نہ آئیں تو بہت مارتے ہےں
غصہ مےں آکے کرا لیتے ہےں اغوا فوراً
راہ مےں شور مچائیں تو بہت مارتے ہےں
داستاں دکھ کی سناتے ہےں ”صدیق الفاروق“
انکے کرتوت بتائیں تو بہت مارتے ہےں
اپنا قانون ہے اپنی ہے عدالت انکی
کیا کریں تھانے مےں جائیں تو بہت مارتے ہےں
کوئی بے چارہ جو آجاتا ہے قابو ان کے
بن کے ہمدرد چھڑائیں تو بہت مارتے ہےں
سچے انسان کا ہے ملک مےں جینا دوبھر
سچ کو چہرے پہ سجائیں تو بہت مارتے ہےں
رقص کرتے ہوئے محفل مےں رقاصہ بولی
ان کے ہم گیت نہ گائیں تو بہت مارتے ہےں
کچے دھاگے سے بندھی جاتی ہےں ہم تو ساغر
ناز نخرہ جو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

حسن فطرت
پھول منہ پر نہیں دھڑکن مےں کھلاﺅ لڑکی!
حسن فطرت کی جھلک چہرے پر لاﺅ لڑکی
بھلی لگتی نہیں مصنوعی سی مینا کاری
رُخ زیبا کو نہ گلدان بناﺅ لڑکی
اہل مغرب کی لچر نسلوں کے یہ کھیل ہےں سب
ان کی تقلید مےں مت وقت گنواﺅ لڑکی
اپنے رخساروں کو رنگوں سے نہ پوتو بچی
دل کے آئینے کو رنگین بناﺅ لڑکی
زیور علم سے تن من کو سجاﺅ اپنے
کبھی گرتا نہیں اس سونے کا بھاﺅ لڑکی
کاغذی پھولوں کو کمرے مےں نہ رکھو ہر گز
گھر کے آنگن مےں کوئی بیل چڑھاﺅ لڑکی
ہم مسلماں ہےں ثقافت بھی جدا ہے اپنی
اپنے اعضاءکی نمائش نہ لگاﺅ لڑکی
لوگ پاکیزہ نگاہوں سے کریں تم کو سلام
ایسے انداز سے ہر بزم مےں جاﺅ لڑکی
پردہ نظروں کو جھکا لینے سے بھی ہوتا ہے
ہم کو اصرار نہیں چہرہ چھپاﺅ لڑکی
سرخ رخساروں کو کرتا ہے حیا کا غازہ
حسن فطرت پہ مزید آتا ہے تاﺅ لڑکی
ریاض الرحمن ساغر

خواتین اسمبلی مےں
سرگرم خواتین سیاست مےں ہوئی ہےں
کچھ ان مےں نئی ہےں تو پرانی بھی کئی ہےں
انگریز کے لہجے مےں ہےں کچھ بولتی اردو
سر چڑھ کے مگر بولتا ہے حسن کا جادو
ان مےں ہے کوئی عائلہ اور کوئی سمیرا
مردوں سے بہرحال ہے خوب ان کا وطیرہ
لگتی ہے بہت نیک مجھے حوروں کی نیت
سچ پوچھو تو ہے عائلہ کی سادی طبیعت
اک ٹی وی کے چینل پہ جو فرحت نے یہ پوچھا
اب تک تو دیا لیڈروں نے قوم کو دھوکا
وہ بولیں کہ نیت کا تو ہمراز خدا ہے
ہر ایک کا کردار الگ اور جدا ہے
اس ملک کو ہم نے ہے سری لنکا بنانا
تعلیم کے زیور سے ہے عورت کو سجانا
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ
پورا ہو خواتین کا یہ نیک ارادہ
خاتون ہےں مشہد کی جو ریحانہ ہماری
پھر حاجرہ طارق بھی تو اک بھابھی ہےں پیاری
ہم باندھ چکے ہےں بہت ان سے بھی امیدیں
یہ چاہیں تو اتریں کی گھروندوں مےں بھی عیدیں
اک بشریٰ ہےں مہناز ہےں، ہے تجربہ ان کو
ماضی مےں پڑا گرگوں سے ہے واسطہ ان کو
یہ چاہیں تو ایوان کو آنچل سے اڑا دیں
سچ بولیں تو سب جھوٹوں کے یہ چھکے چھڑا دیں
ریاض الرحمن ساغر

وہ میرا قتیل (یاد رفتگاں)
بجا کہ یاروں کا بھی یار تھا وہ میرا قتیل
مگر سوا، میرا غمخوار تھا وہ میرا قتیل
کچھ ایسا مجھ سے تعلق رہا سدا اس کا
کہ جیسے صرف مرا یار تھا وہ میرا قتیل
مےں مانتا ہوں، بہت تھے میرے علاوہ بھی
کہ جن کا دل سے طرف دار تھا وہ میرا قتیل
عدو کی شہہ پہ وہ بدظن بھی مجھ سے ہوتا تھا
کہ اس ادا کا بھی حقدار تھا وہ میرا قتیل
منافقوں کو معافی کبھی نہ دیتا تھا
وہ جانتے ہےں کہ تلوار تھا وہ میرا قتیل
سخی تھا دل کا تو ایثار کا بھی پیکر تھا
اک اعلیٰ ظرف کا مے خوار تھا وہ میرا قتیل
زبان گنگ سے بھی اس نے نعت گوئی کی
کچھ ایسا عاشق سرکار تھا وہ میرا قتیل
لڑا وہ شیر کی مانند اس علالت سے
اگرچہ ضعف سے لاچار تھا وہ میرا قتیل
امیر شہر کو خاطر مےں کب وہ لاتا تھا
انا پرست تھا خوددار تھا وہ میرا قتیل
کیا جو عشق تو ساغر اے نبھایا بھی
نڈر تھا اور وفادار تھا وہ میرا قتیل
ریاض الرحمن ساغر

مہندی
لیڈی پولیس جو تھانے مےں لگائے مہندی
کیوں کسی نک چڑھے شہری کو نہ بھائے مہندی
یہ تو آسان سا نسخہ ہے، جو پہنچے سائل
ساتھ ہوں چوڑیاں تحفے مےں جو لائے مہندی
کبھی چھترول جو ہو مہندی لگے ہاتھوں سے
رنگ کچھ اور ہتھیلی پہ کھلائے مہندی
لیڈی پولیس کے سینے مےں بھی ہوتا ہے دل
کیوں نہ پھر تھانے مےں بھی حشر اٹھائے مہندی
اور پھر ڈھلتی ہوئی عمر کی جو افسر ہو
اس کی زلفوں مےں بھی چاندی کو چھپائے مہندی
فرض ہے ”تھانے زنانے“ کے ہر اک منشی کا
”بی بی افسر“ کے لئے خاص منگائے مہندی
اور پھر ملزمہ تھانے مےں جو لائی جائے
اس کو ہو حکم، حوالات مےں گائے مہندی
شہر مےں امن و اماں کو جو ہو ابتر صورت
اپنے ایس پی کو وہ پاﺅں کو دکھائے مہندی
بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ ہر اک تھانے مےں
ایک تعطیل ہو ہر ماہ برائے مہندی
لیڈی پولیس آفیسر کی اگر شادی ہو
اس کو دعوت ہے وہ ساغر سے لکھائے مہندی
ریاض الرحمن ساغر

دُعا.... ”کھر“ کےلئے
یہی مری تو دُعا ہے جناب ”کھر“ کےلئے
کہ بیوی آخری کافی ہو عمر بھر کےلئے
”عیونیا“ جو سجی ہے وفا کے زیور سے
تو زاد راہ بہت ہے یہ اب سفر کےلئے
جو خواب آپ نے دیکھا تھا ایک بیوی کا
تو کیوں یہ ”حادثے“ دیکھے تھے رہگذر کےلئے؟
نہ تم نے ہونے دیا پیدارشتہ سوتن کا
تو گیارہ بچے ہےں انعام اس ہنر کےلئے
جو مرد سابقہ بیوی کو دے کوئی الزام
تو سنگ ہاتھ مےں رکھے وہ اپنے سر کےلئے
”عیونیا“ نے سخاوت کی تم کو دی ہے سند
پسر سنوارے ہےں تہمینہ نے پدر کےلئے
ہمیشہ مرد کو عورت معاف کرتی ہے
اسے سلام کرو اس حسیں نظر کےلئے
نہیں یہ چاہتی عورت کہ اس کا گھر ٹوٹے
وہ جان کرتی ہے قربان اپنے گھر کےلئے
جو وہ جہیز کی خاطر جلائی جاتی ہے
تو کوئی اشک نہیں بہتا اس شرر کےلئے
جو مرد کرتا ہے پامال آن عورت کی
تو کچھ سزا نہیں اس مرد فتنہ گر کےلئے
جو بیوی ایک ہے ساغر تو گھر یہ جنت ہے
یہ بیٹی حوا کی رحمت ہے بام و در کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

بوڑھی طوائف
وہ دن کہ مےں جوان تھی
جواں دلوں کی جان تھی
وہ جان لیوا حسن تھا
کسی کو کب امان تھی
نگاہ مثل تیر، مےں
تنی ہوئی کمان تھی
سفیر تھے وزیر تھے
جو زلف کے اسیر تھے
شباب امنگ خیز تھا
بدن یہ عطر بیز تھا
نثار مجھ پہ چاہتیں
زمانے بھر کی راحتیں
تھیں ڈھیر مرے پاﺅں مےں
کشش وہ تھی اداﺅں مےں
جو مسکرا کے دیکھتی
کسی پہ جال پھینکتی
وہ جان و دل کو ہار کے
مری نظر اتار کے
جو وارتا تھا مال و زر
تھے ان مےں لعل اور گہر
وہ دیکھنے کی شان تھی
کمال آن بان تھی
پلٹ کدھر دھیان ہے
یہ پان کی دکان ہے
یہ میرا روزگار ہے
یہی مرا مکان ہے
ریاض الرحمن ساغر

سلمیٰ آغا و شاہدہ منی!
دونوں آپس مےں لڑ رہی ہےں کیوں
ایک دوجی کو تہمتیں دے کر
حد سے غصے مےں بڑھ رہی ہےں کیوں
میرا دونوں کو مشورہ یہ ہے
اس لڑائی سے اجتناب کریں
عاقبت کو سنوارنے کے لئے
نیکیاں واسطے ثواب کریں
سلمیٰ آغا بھی نرم دل ہے بہت
شاہدہ منی بھی نہیں بے درد
جو بھی اکسا رہے ہےں دونوں کو
لوگ دونوں کے وہ نہیں ہمدرد
دونوں سُر سے ہی پیار کرتی ہےں
جان لے پہ نثار کرتی ہےں
گیت دونوں نے میرے گائے ہےں
اپنی آواز سے سجائے ہےں
مجھ کو دونوں پہ پیار آتا ہے
خوش رہیں تو قرار آتا ہے
دل کی دھڑکن مےں چاہتیں بھر لیں
گیت دونوں کو مےں نئے دوں گا
اور اک پیسہ بھی نہیں لوں گا
ریاض الرحمن ساغر

تقریب پذیرائی
اپنی بھی بپا ہوتی تقریب پذیرائی
ترکیب مگر اس کی ہم کو نہ کبھی آئی
گو، کاٹھ کی اڑی سے ہوتا نہیں قد اونچا
ملتی ہے دکھانے کو دو انچ کی اونچائی
چھپتی ہے کتاب عمدہ کچھ بھی ہو مواد اس مےں
موہ لیتی ہے نظروں کو سرورق کی رعنائی
ہو شاعرہ کیسی بھی رکھتی ہو نقوش اچھے
ہو جاتے ہےں سب اس کے اشعار کے شیدائی
لہجہ ہو جواں اس کا کچھ بحث نہیں سن کی
ظاہر نہ کرے لیکن وہ عمر کی پسپائی
حاجت نہیں پھر اس کو اصلاح بھی لینے کی
رکھ سکتی ہو گر پوری دو فقروں کی لمبائی
اک نظم لکھے نثری اور پڑھ دے اداﺅں سے
ہو جائے گی سب ادبی حلقوں مےں شناسائی
ہر شہر مےں، گاﺅں مےں ایسے بھی سخنور ہےں
جس قدر کے لائق ہےں وہ قدر نہیں پائی
کہتے ہےں زباں اردو مشکل ہی سے آتی ہے
ہم نے بھی بہت سیکھی اب تک تو نہیں آئی
احباب مغنی کو مجموعے تھماتے ہےں
اور کہتے ہےں کیوں تم نے میری نہ غزل گائی
مجموعے کی فرمائش مجھ سے بھی ہوئی لیکن
بک جاتی ہے لکھتے ہی پھر کیوں بھروں چھپوائی
غالب ہے ابھی زندہ اور میر نہیں مردہ
ہے میری غزل ساغر ان دونوں سے شرمائی
ریاض الرحمن ساغر

مائیں کیوں مر جاتی ہےں؟
آل اولاد کے جیتے جی یہ مائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیون کی اس دھوپ مےں ٹھنڈی چھائیں کیوں مر جاتی ہےں
تھکا مسافر ماں کی گود مےں سر رکھ کر سستاتا ہے
ممتا کے آنچل کی سرد ہوائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کا سایہ ابر کرم ہے آقا کملی والے کا
اس کے اٹھتے ہی گھنگھور گھٹائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کی دعائیں رکھتی ہےں محفوظ دکھوں کی دنیا سے
اس کی ایک دعا سے لاکھ بلائیں کیوں مر جاتی ہےں
زندہ ہےں جن لوگوں کی مائیں وہ رب کا شکر کریں
مر کر بھی جو خوابوں مےں آجائیں کیوں مر جاتی ہےں
سہہ نہیں سکتا یار خدا بھی ماں کی آنکھوں مےں آنسو
ماں کی آہیں اس کا عرش ہلائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیتے جی جو رہ نہیں سکتیں مائیں اک پل بچوں بن
جب دنیا سے جائیں پھر نہ آئیں، کیوںمر جاتی ہےں
جب بھی کسی کی ماں مرتی ہے مےں روتا اور سوچتا ہوں
لوٹ آئیں یہ مائیں اور بتائیں کیوں مر جاتی ہےں
بھید یہ رب کے رب ہی جانے بندہ کیا جانے ساغر
کیسے اپنے دل کو ہم سمجھائیں کیوں مر جاتی ہےں
ریاض الرحمن ساغر