Ad

Ad

Tuesday, 31 July 2012

Burkina Faso


برکینا فاسو
Burkina Faso
محل وقوع
برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے جو چاروں طرف سے خشکی مےں گھرا ہوا ہے۔ اگست 1984ءسے پہلے اسے بالائی وولٹا (Upper Volta) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کی سرحدیں چھ ممالک سے ملتی ہےں۔ اس کے شمال مےں مالی، مشرق مےں نائیجر، جنوب مشرق مےں بینن، جنوب مےں ٹوگو اور گھانا اور جنوب مغرب مےں کوت دیوور واقع ہےں۔
لوگ
برکینو فاسو کی زیادہ تر آبادی کا تعلق مغربی افریقہ کے دو بڑے ثقافتی گروہوں، وولٹک اور مانڈے، سے ہے۔ آبادی کا تقریباً نصف حصہ وولٹک موسی لوگوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا زیادہ تر ارتکاز ملک کے جنوبی اور وسطی حصوں مےں دیکھنے مےں آتا ہے جہاں بعض جگہوں پر آبادی 48افراد فی مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ موسموں کے حساب سے زرعی مزدوری حاصل کرنے کے لئے برکینا فاسو کے باشندہ اکثر گھانا اور کوت دیوور کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہےں۔ آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے جن مےں اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ آبادی کا بیس فیصد حصہ عیسائی ہے جبکہ بقیہ مختلف مقامی عقائد پر ایمان رکھتے ہےں۔ تاہم اپنے طرز فکر کے حساب سے برکینافاسو کے رہنے والے نہایت روادار اور دیگر مذاہب کا احترام کرنے والے ہےں۔ افریقہ کی ایک مشہور کہاوت کے مطابق برکینافاسو کے رہنے والے ”پچاس فیصد مسلمان، پچاس فیصد عیسائی اور سو فیصد فطرت پر ایمان رکھنے والے ہےں“۔
یہاں اوسط عمر 52سال ہے اور آبادی مےںاضافے کی شرح 3.1فیصد ہے۔
وسائل
برکینا کی فی کس آمدنی دنیا کی کم ترین مےں سے ایک ہے۔ اس کے جی ڈی پی کا 32فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے اور 80فیصد افرادی قوت کی کھپت بھی اس شعبے مےں ہے۔ زیادہ تر افراد غلہ بانی کا کام کرتے ہےںمگر جنوب اور جنوب مغرب مےں باجرہ، مکئی، مونگ پھلی، چاول اور کپاس جیسی فصلیں اگانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
بے روزگاری بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر، برکینافاسو کے تیس لاکھ باشندے کوت دیوور مےں رہتے اور کام کرتے ہےں۔ ان باشندوں کی بھجوائی ہوئی رقوم ملکی معیشت کےلئے گرانقدر اہمیت رکھتی ہےں تاہم، ملک کی معاشی سرگرمیوں کا بڑا انحصار بین الاقوامی امداد پر رہتا ہے۔ تانبا، لوہا، مینگانیز اور سونے جیسی معدنیات کے لئے یہاں کان کنی کی جاتی ہے۔
تاریخ
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، برکینافاسو کا پرانا نام اپروولٹا ہے۔ نام کی تبدیلی 4اگست 1984ءکے روز سابقہ صدر کیپٹن تھامس سنکارا کی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہوئی۔ اپروولٹا کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ دریائے وولٹا کے دو خاص معاون دریاﺅں کے منبع اس ملک مےں ہےں۔
چودھویں صدی عیسوی مےں یہ ملک مالی کی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا۔ اس سے پہلے کے حالات دستیاب نہیں ہےں۔ مالی کے بعد یہ صنغائی کی اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ زمانہ قدیم مےں اس علاقے پر موسیٰ قبیلے کی حکومت تھی۔ آج بھی یہ برکینا فاسو کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ یہ سترھویں صدی مےں مشرقی افریقہ سے نقل مکانی کر کے یہاں وارد ہوا۔ انہوں نے اس علاقے مےں تین آزاد سلطنتوں کی بنیاد رکھی جن مےں سے ایک گیمباگا مےں تھی جس کا موجودہ نام گھانا ہے۔ اوگاڈوگو (موجودہ دارالحکومت) کی سلطنت سب سے زیادہ طاقتور تھی۔ جب پورے مغربی افریقہ مےں اسلام پھیل چکا تھا تب بھی موسی قبائل اسلام نہ لائے اور اسلامی سلطنت مےں لامذہب رہے۔ ان کا بادشاہ ”مورونابا“ کہلاتا تھا جس کا مطلب ہے ہماری زمین کا آفتاب۔ پہلے اس کا دارالحکومت ٹنکوڈوگو تھا اور اس کے بعد اوگاڈوگو۔
اٹھارہویں صدی مےں موسی قبائل نے پڑوسی اسلامی سلطنتوں یعنی مالی اور صنغائی سے مسلسل جنگیں جاری رکھیں۔ مسلمانوں سے پے در پے شکستیں کھانے کے بعد یہ قبائل سکڑتے گئے اور ہوتے ہوتے ان کی عملداری محض اوگاڈوگو کے شہر تک رہ گئی۔
انیسویں صدی مےں برطانوی اور فرانسیسی آبادکار یہاں آپہنچے۔ 1896ءمےں انہوں نے اوگاڈوگو پر قبضہ کر لیا۔ 1919ءمےں کوت دیوور کے بعض صوبوں کو انہوں نے فرنچ اپروولٹا مےں شامل کر کے فرنچ ویسٹ افریقہ کی فیڈریشن قائم کر دی۔ 1932ءمےں اس نوآبادی کو ختم کر دیا گیا مگر 1937ءمےں اسے ”اپرکوسٹ“ کے نام سے پھر تشکیل دے دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد موسی قبائل نے اپنے علاقے کو نوآبادی سے الگ کرانے کےلئے فرانسیسی حکومت پر دباﺅ ڈالا اور 4ستمبر 1947ءکے روز فرنچ اپروولٹا کی سابقہ الگ حیثیت بحال کر دی گئی۔
بعدازاں فرانسیسی حکومت کے چند اقدامات مثلاً 1956ءکا بنیادی قوانین کا ایکٹ اور 1957ءمےں علاقوں کی ازسرنو تنظیم نے بہت سے علاقوں کے لئے حکومت خود اختیاری کو ممکن بنا دیا۔ 11دسمبر 1958ءکے روز برکینافاسو کو فرانسیسی سلطنت مےں ایک خوداختیار جمہوریہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
اس جمہوریہ کو مکمل آزادی 5اگست 1960ءکے روز نصیب ہوئی۔ پہلا صدر ہونے کا اعزاز ماریس یامیوگو کو حاصل ہوا جس نے اقتدار مےں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی جماعت (وولٹک ڈیموکریٹک یونین) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ اس کی حکومت 1966ءتک قائم رہی اور بالآخر عوامی بے چینی، ہنگاموں، شورشوں اور ہڑتالوں نے فوج کو مداخلت کرنے پر مجبور کر دیا۔
فوجی بغاوت نے یامیوگو کو معزول کیا، آئین کو معطل کیا، قومی اسمبلی کو تحلیل کیا اور لیفٹیننٹ کرنل سنگولے لامیزانا کو سینئر فوجی افسروں پر مشتمل ایک حکومت کا سربراہ بنا دیا۔ فوج 4سال تک برسر اقتدار رہی۔ 4جون 1970ءکے روز ایک نیا آئین منظور کیا گیا اور مکمل سویلین حکومت کے قیام کے لئے 4سال کی عبوری مدت کا تعینکیا گیا۔ 1970ءکا پورا عشرہ اقتدار لامیزانا کے قبضہ مےںرہا اور وہ مختلف حکومتوں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ 1970ءکے آئین پر اختلافات ہونے کے بعد 1977ءمےں ایک نیا آئین تحریر کیا گیا اور 1978ءکے عام انتخابات مےں لامیزانا کو ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا گیا۔
تاہم یہ حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ملک کی ٹریڈ یونینز مےں بے چینی پھیلنے کے بعد، 25نومبر 1980ءکے روز کرنل سائے زربو نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فوجی افسران پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی کو مقتدر اعلیٰ کا منصب دے کر 1977ءکے آئین کو تحلیل کر دیا۔
سائے زربو کو بھی ٹریڈ یونینزکی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور دو سال بعد اس کی حکومت کا انجام بھی گذشتہ حکومت جیسا ہوا۔ ایک اور فوجی میجر ژاں بیپتست اوڈریگو نے 7نومبر 1982ءکو اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی برقرار رہی لیکن نئے سربراہ حکومت نے وعدہ کیا کہ ایک نیا آئین اور نئی سویلین حکومت کا قیام جلد ہی ممکن بنایا جائے گا۔ جنوری 1983ءمےں کیپٹن تھامس سنکارا نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ ملک کے سیاسی عدم استحکام اور سنکارا کے بائیں بازو کی طرف رجحان کا نتیجہ اس کی گرفتاری کی صورت مےں نکلا۔ اس گرفتاری سے پیدا ہونے والی لہر نے ایک اور انقلاب کو جنم دیا اور 4اگست 1983ءکے روز ایک نئی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا جس کی سربراہی تھامس سنکارا کے حصے مےں آئی۔ اپنے اقتدار کی پہلی سالگرہ کے روز سنکارا نے اپروولٹا کا نام تبدیلی کیا اور اس کا نیا نام برکینا فاسو رکھا گیا جس کا مطلب ہے ”قابل احترام لوگوں کی سرزمین“
25 دسمبر 1985ءکے روز برکینا فاسو اور مالی کے درمیان ایک ایسی سرحدی پٹی کی ملکیت کے تنازعے پر جنگ چھڑ گئی جسے معدنیات سے بھرپور خیال کیا جاتا تھا۔ یہ جنگ پانچ روز جاری رہی اور بالآخر کوت دیوور کے صدر کی مداخلت کے بعد ختم ہوئی۔ برکینافاسو مےں اس جنگ کو ”کرسمس وار“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس دوران تھامس سنکارا کے بعض اقدامات کی وجہ سے اس کی مقبولیت مےں خاصی کمی آچکی تھی۔ 15اکتوبر 1987ءکے روز اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور سنکارا کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کیپٹن بلیس کمپاﺅرے نے اس کی جگہ عنان اقتدار سنبھال لی۔ تب سے آج تک اس منصب پروہی براجمان ہےں۔ ان کے بعض اقدامات کو اگرچہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی مگر بہ حیثیت مجموعی ان کی کامیابی کا اندازہ برکینافاسو کی معیشت پر ایک نگاہ ڈالنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2جون 1991ءکے روز انہوں نے ایک نیا آئین منظور کیا جس کے تحت سربراہ حکومت کی حیثیت صدر کو حاصل رہی۔

Bangladesh


بنگلہ دیش
Bangladesh
محل وقوع
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق اور مغرب مےں بھارت، جنوب مےں خلیج بنگال اور برما ہےں۔ یہ دنیا کا سب سے گنجان آبادی والا ملک ہے۔ اس کی آب و ہوا گرم و مرطوب ہے۔ بارش موسمی یعنی مون سون سے ہوتی ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط 80انچ سے زیادہ ہے۔
لوگ 
بنگلہ دیش دنیا کا آبادی کے لحاظ سے گنجان ترین ملک ہے۔ 2917افراد یہاں ایک مربع میل مےں بستے ہےں۔ 24فیصد لوگ شہروں مےں باقی دیہاتوں مےں رہتے ہےں۔ ملک مےں بنگالی 98فیصد ہےں جبکہ بہاری النسل 2فیصد ہےں۔ مسلمان بنگلہ دیش کی کل آبادی کا 88فی صد ہےں۔ 11فی صد ہندو اور صرف ایک فی صد عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے افراد رہتے ہےں۔ بنگلہ دیش مےں خواندگی کی شرح اتنی اچھی نہیں۔ خواندگی کا تناسب تقریباً 41فیصد ہے 24فیصد بچے پرائمری سکول مےںاور 4فیصد سیکنڈری سکولوں مےں پڑھنے جاتے ہےں حالانکہ سکولوں، کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کی یہاں کمی نہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر 54برس ہے۔ سالانہ شرح پیدائش 2.3فیصد ہے، 3233افراد کے حصے مےں ہسپتال کا ایک بستر آتا ہے جبکہ 6166کے لئے صرف ایک ڈاکٹر۔ بنگلہ دیش کے مسلمان کٹر اسلامی ذہنیت رکھتے ہےں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈھاکہ کو مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔
وسائل
بنگلہ دیش بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ ملک کی آبادی کا 80 فی صد حصہ اسی پر انحصار کرتا ہے۔ چاول، پٹ سن، چائے، تمباکو، گنا، آلو، ناریل، ساگوان، دالیں، بانس، روغنی بیج، پھل اور سبزیاں اہم زرعی اجناس ہےں۔ دنیا مےں سب سے زیادہ پٹ سن اسی ملک سے حاصل ہوتی ہےں، اس لئے اسے سنہرے ریشے کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ لکڑی اور ماہی گیری زراعت کے بعد دو بڑے ذریعہ معاش ہےں۔ مچھلی کل برآمدات کا 77فی صد ہے۔
خلیج بنگال سے تیل دریافت ہوا ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اس سلسلہ مےں کام نہیں ہو رہا۔ دوسری معدنیات مےں سوئی گیس کے ذخائر تیتاس اور دوسرے مقامات پر پائے جاتے ہےں۔ چند بڑے شہروں کو گیس بھی مہیا ہے۔ کوئلہ، پتھر، چونا، سفید چکنی مٹی، شیشہ اور ریت اہم معدنیات ہےں۔
اس ملک کی صنعت کا زیادہ انحصار خام مال پر ہے۔ سیمنٹ، نیوز پرنٹ، کھاد کی فیکٹریاں، ٹیکسٹائل کی ملیں اور ماچس کی فیکٹری جابجا قائم ہےں۔ پٹ سن کے کارخانے بے انتہا موجود ہےں۔ ملک کے 7 یا 8 فی صد مزدور صرف پٹ سن کے کارخانوں مےں کام کرتے ہےں۔
ملک کی اپنی فضائی کمپنی بنگلہ دیش ایرویز ہے۔ تجارت کا انحصار آبی راستوں پر ہے۔ چٹاگانگ اور کھلنا اہم بندرگاہیں ہےں۔ ریلیں، موٹر گاڑیاں، ہوائی جہاز اور بحری جہاز مواصلات کا اہم ذریعہ ہےں۔ 4500 میل لمبی سڑکیں ہےں۔ ریلوے لائن کی لمبائی 2892کلومیٹر ہے۔ اہم درآمدات اشیائے خوردنی، کپاس، کھاد اور اشیائے صرف ہےں جبکہ اہم برآمدات چمڑا، چائے اور پٹ سن ہےں۔
تاریخ
1947ءسے پہلے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش ایک ہی ملک تھا جسے متحدہ ہندوستان کہتے تھے۔ اس علاقے مےں سے پہلے قطب الدین ایبک نے 1199ءمےں اسلامی حکومت قائم کی جو اس کے سپہ سالار اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی نے فتح کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے 1651ءمےں یہاں قدم جمائے۔ 1757ءمےں یہاں نواب سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان جنگ پلاسی لڑی گئی جس مےں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی۔ اسی جنگ کے نتیجے کے طور پر ہندوستان مےں انگریزوں کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔ 1764ءمےں شاہ عالم ثانی نے بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اسی ملک کے دارالحکومت مےں 1905ءمےں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی۔
14 اگست 1947ءکو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت مےں بے شمار قربانیوں کے بعد ایک اسلامی مملکت پاکستان کا قیام عمل آیا۔ آج کا بنگلہ دیش اس اسلامی مملکت کا مشرقی حصہ قرار پایا جس مےں برطانوی ہند کا سابقہ صوبہ مشرقی بنگال اور آسام کا ضلع سلہٹ شامل ہےں۔ یہاں کے لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لئے بے شمار جانی و مالی قربانیاں دیں لیکن قیام پاکستان کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا مشرقی پاکستان کے لوگوں مےں محرومیت اور ملکی امور مےں غیر موثر ہونے کا احساس بڑھتا گیا۔ آبادی مےں تیزی سے اضافہ اور معاشی عدم توازن نے لوگوں کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا جس کے سبب علیحدگی کے رجحانات نے جنم لیا۔
1954ءمےں شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے زیر قیادت پہلی دفعہ سیاسی خودمختاری کے لئے تحریک چلی۔ 1970ءمےں یہ تحریک زور پکڑ گئی جب مشرقی پاکستان مےں پانچ لاکھ افراد سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار ہوگئے۔ 1971ءمےں یہ تحریک سول نافرمانی اور پھر انارکی کی صورت اختیار کر گئی۔ انتظامی مشینری مفلوج ہوگئی۔ پورے صوبے مےں ہیضہ اور قحط پھیل گئے۔ ان حالات مےں ہندوستان کی مداخلت کے سبب حالات مزید بگڑ گئے۔ بالآخر 1971ءمےں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ کے بعد جمہوریہ بنگلہ دیش وجود مےں آیا جسے 1972ءمےں بین الاقوامی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن اس کے پہلے وزیراعظم بنے۔
15اگست 1975ءکو ایک زبردست انقلاب برپا ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کے تمام افراد اور سیاسی حلیفوں کو قتل کر دیا گیا۔ خوند کر مشتاق صدر بنے۔ نومبر 75ءمےں جنرل ضیاءالرحمن نے مارشل لاءلگا دیا۔ 30مئی 1981ءکو انہیں بھی چٹا گانگ مےں قتل کر دیا گیا۔ نائب صدر عبدالستار نے چھ ماہ کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا مگر چیف آف آرمی سٹاف جنرل ارشاد نے مئی 1982ءمےں اس اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1988ءمےں بنگلہ دیش کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ 88ءاور 89ءمےں قدرتی آفات سے چر ہزار آدمی مارے گئے اور تیس لاکھ بے گھر ہوگئے۔ 
دسمبر 1990ءمےں جنرل ارشاد کو کرپشن کے الزامات کا شکار ہو کر عوامی دباﺅ کی بدولت استعفیٰ دینا اور جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ فروری 1991ءمےں پارلیمانی انتخابات ہوئے جن مےں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔ مرحوم جنرل ضیاءالرحمن کی بیوہ اور پارٹی کی رہنما خالدہ ضیاءوزیراعظم بن گئیں۔ 1992ءمےں میانمر سے مہاجرین کی آمد سے بنگلہ دیش کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا۔
بنگلہ دیش کا سیاسی کلچر پاکستان کے سیاسی کلچر سے چنداں مختلف نہیں۔ بیگم خالدہ ضیاءکو بھی چین سے حکومت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ حزب اختلاف مسلسل ان کے خلاف تحریک چلاتی رہی۔ 1995ءمےں یہ تحریک اتنی قوت پکڑ گئی کہ نومبر مےں پارلیمان کو ہی تحلیل کر دیا گیا۔
فروری 1996ءکو عوامی دباﺅ کے نتیجے مےں وزیراعظم خالدہ ضیاءنے انتخابات کروائے۔ اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نتائج یہ رہے کہ حکمران پارٹی بی این پی دوتہائی اکثریت سے جیت گئی۔ اس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے زبردست احتجاج کیا اور تحریک چلائی۔ وزیراعظم خالدہ ضیاءکو مجبوراً آئین مےں ترمیم کر کے ایک نگران حکومت تشکیل دینا پڑی۔ نگران حکومت کے منعقد کردہ جون 96ءانتخابات کے نتیجے مےں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی اور چند دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر شیخ مجیب الرحمن مرحوم کی بیٹی شیخ حسینہ واجد وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔
جون 1999ءمےں بی این پی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر دیا اور پورے ملک مےں ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کروا دیا۔ حزب اختلاف کی چار جماعتوں کے ایک اتحاد نے اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخابات کے علاوہ مقامی بلدیاتی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔
یکم اکتوبر 2001ءکو عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات بی این پی کے بنائے ہوئے چار جماعتوں کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔ بیگم خالدہ ضیاءتیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ ان کا یہ دور اقتدار بھی حزب اختلاف کی مخالفتوں اور شورشوں سے بھرا رہا لیکن بہرحال وہ اپنی مدت مکمل کرنے مےں کامیاب رہیں۔ فروری 2006ءمےں عوامی لیگ نے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل مےں تبدیلیاں کی جائیں اور انتخابات سے پہلے نگران حکومت قائم کی جائے تاکہ موجودہ حکومت انتخابات مےں دھاندلی نہ کر سکے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کوئی نتیجہ برآمد کرنے مےں ناکام رہے۔
3جنوری 2007ءکو عوامی لیگ نے اعلان کیا کہ وہ 22جنوری کے روز منعقد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی 11جنوری کے روز صدر لج الدین احمد نے ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے چیف ایڈوائزر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا۔ایمرجنسی کے قوانین کے تحت بعض بنیادی آئینی آزادیاں معطل کر دی گئیں اور انگنت سیاستدانوں کو کرپشن اور دیگر جرائم کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے اعلان کیاکہ نئے انتخابات کا انعقاد 2008ءکے اواخر مےں ہوگا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد حکومت نے شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاءکو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔ بہرحال دونوں رہنماﺅں پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 
29نومبر 2008ءکو منعقد ہونے والے عام انتخابات مےں شیخ حسینہ واجد کی عوام لیگ اور اس کے ساتھ اتحاد بنانے والی دیگر جماعتوں نے کامیابی حاصل کی اور 6جنوری 2009ءکے روز شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر بنگلہ دیش کی وزیراعظم بن گئیں۔ بیگم خالدہ ضیاءنے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور الزام لگایا کہ چیف الیکشن کمشنر نے ان انتخابات کو ”stage-manage“ کیا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی ناکامی مےں ان کے اتحاد مےں شامل کرپشن کے لئے بدنام رہنماﺅں اور ان کے بیٹے طارق رحمان کے متعلق پھیلتی ہوئی باتوں نے اہم کردار ادا کیا۔
25سے 27فروری 2009ءتک بنگلہ دیش سرحدی گارڈز کی بغاوت کی زد مےں رہا۔ بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک ہزار سے زائد جوانوں نے فورس کے ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا اور کئی افسروں کو یرغمال بنائے رکھا۔ دوسرے دن تک یہ جنگ 12مزید قصبوں اور شہروں تک پھیل چکی تھی۔ تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ اس واقعے کا غالباً سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ یرغمال بنائے جانے والے 181افسران مےں سے صرف 33زندہ بچ سکے۔
آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی، اقوام متحدہ کا ممبر ملک، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور سارک کا رکن ملک ہے۔

Brunei Darussalam


برونائی دارالسلام
Brunei Darussalam
محل وقوع
جنوب مشرقی ایشیا مےں دنیا کے تیسرے بڑے جزیرے بورنیو کے شمالی ساحل پر واقع یہ سلطنت برونائی دارالسلام کہلاتی ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ جنوبی چین ہے اور یہ باقی جانب سے ملائیشیا کی ریاست سراوک سے گھرا ہوا ہے۔ مشرق سے شمال تک اس کا پھیلاﺅ 71 میل ہے، شمال سے جنوب مغرب تک 56میل تک پھیلا ہوا ہے۔ سراوک کی ایک تنگ پٹی اس کے درمیان سے گزرتی ہوئی اسے دو حصوں مےں تقسیم کرتی ہے تاہم مغربی حصہ کچھ بڑا ہے۔ دریائے برونائی اہم دریا ہے آب و ہوا گرم ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط 2400 تا 2900ملی میٹر ہے۔
لوگ 
برونائی دارالسلام کے 60فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا تناسب 14 فیصد اور 10 فیصد عیسائی بستے ہےں۔ 178 افراد فی مربع میل مےں بستے ہےں۔ شرح پیدائش 2.5 فی صد ہے۔ عوام خوشحال ہےں۔ برونائی دارالسلام کے 65 فیصد باشندے ملائی ہےں۔ 20 فی صد چینی اور باقی دیگر اقوام سے تعلق رکھتے ہےں۔ یہاں کے لوگ ملائی زبان بولتے ہےں۔ انگریزی زبان رابطے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔یہاں دینی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ لوگوں مےں شرح خواندگی بہت بلند ہے۔ 95فی صد لوگ خواندہ ہےں۔ حکومت اس شرح کو بھی مزید بہتر یعنی سو فیصد کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ عوام کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ برونائی یونیورسٹی کا قیام 1985ءمےں عمل مےں آیا تھا۔ مرد افراد کی اوسط عمر 74سال اور خواتین کی 77برس ہے۔ لوگ بہت خوشحال ہےں۔ ہسپتالوں کی بھرمار ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین صحت عامہ کا ادارہ ہے اور ملیریا، ہیضہ اور چیچک جیسی مہلک بیماریوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ یہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا بھر مےں سب سے کم ہے یعنی 1000مےں سے دس بچے وفات پاتے ہےں۔
وسائل
تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال برونائی دارالسلام بہت خوشحال ہے۔ تیل اور گیس اس کی کل آمدنی کا 90فی صد ہے۔ جنوبی ایشیا مےں تیل اور گیس پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مائع گیس کی پیداوار مےں جنوب مشرقی ایشیا مےں اس کا چوتھا نمبر ہے۔ موآراجرڈونگ ملک کی مشہور شاہراہ ہے۔ شہاں سڑکوں کی لمبائی 1000میل سے زائد ہے۔ ریلوے لائن بھی تعمیر کی گئی ہے۔ تاہم اس لمبائی بہت کم ہے، صرف بارہ میل۔ بحری جہاز رانی کے ذریعے بھی آمدورفت ہوتی ہے۔ مارا اور کوالانسیلت اس کی دو بڑی بندرگاہیں ہےں۔ بیرونی تجارت انہی دو بندرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہےں۔
برونائی کی اپنی ایئر سروس ہے جو برونائی رائل ایئر لائنز کے نام سے مشہور ہے۔ سنگاپور، فلپائن، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ تک یہ سروس اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ صنعتی اعتبار سے یہ ملک قابل ذکر نہیں ہے۔ تاہم اس سلسلہ مےں متعدد اقدامات ہو رہے ہےں یہ ملک جاپان کو گیس فراہم کرتا ہے۔ یہاں تجارتی بنیادوں پر قدرتی گیس کو مائع گیس مےں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہاں کا زرعی رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 3فیصد کے لگ بھگ لوگ اس پیشہ سے وابستہ ہےں، چاول، ربڑ، مرچ، سبزیاں، کساد اور کیلا اہم پیداواریں ہےں۔ سبزیاں بھی پیدا کی جاتی ہےں جو ملکی ضروریات کو پوری کرتی ہےں۔ حکومت زراعت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاہم ملکی ضروریات کو غذا کے معاملہ مےں پورا کیا جائے۔
برونائی کی اہم درآمدات مےں مشینری اور ٹرانسپورٹ، اشیائے خوردنی، اشیائے صرف اور کیمیکلز شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں قدرتی گیس اور تیل کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
14ویں صدی کے شروع کی بات ہے کہ برونائی دارالسلام مےں ایک اللہ کا برگزیدہ بندہ برکت اسلام کی تبلیغ کے لئے یہاں آیا۔ اس نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ ادا پسند آئی۔ لوگ جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ 1425ءمےں ایک شاہ نے اسلام قبول کر کے اپنا نام محمد رکھا جس نے اس تحریک کو اور تقویت بخشی۔ شاہ بولقیہ پنجم کے زمانے مےں اس ملک کی سرحدیں جزائر بورنیو، سولو اور فلپائن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کی جنگ کے نتیجے مےں ملک تقسیم ہوگیا۔ سترھویں صدی کے آغاز مےں ولندیزی جنوبی بورنیو کی کئی بستیوں مےں آباد ہو چکے تھے۔ 1841ءمےں سلطنت برونائی کے خلاف بغاوت ہوئی جسے ایک انگریز جیمز روک نے کچل دیا، 1841ءکی بغاوت کے نتیجے مےں انگریزوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1888ءمےں برونائی کے سلطان اور برطانیہ مےں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت برونائی کی حفاظت کا ذمہ دار برطانیہ تھا۔ 1906ءمےں یہاں انگریز حکمران بن گئے۔ شاہ محض کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتا تھا۔ 1942ءتا 1945ءجاپان کی حکمرانی رہی۔ آسٹریلیا کی مداخلت پر جاپانی اس ملک سے نکل گئے۔ جنگ عظیم کے بعد سراوک بھی برطانیہ کے زیر اثر آیا۔ یکم جنوری 1984ءکو طویل مذاکرات کے بعد اسے آزاد اور خودمختار مملکت قرار دیا گیا۔ 43سالہ شاہ حسن البولقیہ سلطان بنے۔
برونائی دارالسلام کا موجودہ آئین 29ستمبر 1959ءمےں سلطان کی طرف سے نافذ کیا گیا۔ 6فروری 1965ءکو اس مےں ترمیم ہوئی جس کے تحت اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ اسمبلی اکیس ارکان پر مشتمل ہے جن مےں سے دس منتخب اور پانچ نامزد ہوتے ہےں۔ کابینہ کا سربراہ سلطان ہوتا ہے۔
2004ءمےں بیس سال کے تعطل کے بعد سلطان بولقیہ نے اکیس رکنی لیجسلیسو کونسل بحال کر دی۔ مزید برآں ایک اور آئینی ترمیم منظور کی گئی جس کے بعد جزوی طور پر منتخب کونسل کی راہ ہموار ہوگئی۔
آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کے اصولوں پر قائم برونائی دارالسلام اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم، غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور آسین کارکن ہے۔

Bosnia Herzegovina


بوسنیا اینڈ ہرزگووینا
Bosnia Herzegovina
محل وقوع
جنوب مشرقی یورپ کے اس ملک کے شمال مغرب مےں جمہوریہ کروشیا سربیا، مانٹی نیگرو مشرق مےں اور بحیرہ ایڈریاٹک جنوب مےں واقع ہےں۔ اس کا 50فی صد رقبہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ چند ایک پہاڑ بھی ہےں۔
لوگ
یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ دیگر مذاہب مےں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے عیسائی شامل ہےں۔ آبادی مےں مسلمانوں کا تناسب 45فیصد ہے۔ دیگر مذاہب مےں سرب آرتھوڈاکس 36فیصد، رومن کیتھولک 15فیصد اور یہودی اور پروٹسٹنٹ 4فیصد ہےں۔
بوسنیا کی آبادی تین بڑے نسلی گروہوں، بوسنیائی، سرب اور کروٹس، پر مشتمل ہے۔ ان مےں سے 48فیصد بوسنیائی، 37فیصد سرب اور 14فیصد کروٹ ہےں۔
بوسنیا مےں لوگ تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دیتے ہےں۔ وہاں کی یونیورسٹیاں، کالج اور سکول عوام کی بھرپور خدمت مےں مصروف ہےں۔ یہی وجہ کہ وہاں خواندگی کا تناسب 90 فی صد سے زائد ہے۔
بوسنیا مےں 55000ڈاکٹر ہےں۔ اس اعتبار سے 80افراد کے حصے مےں ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں مےں بستروں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ تقریباً 30افراد کےلئے ایک بستر دستیاب ہے۔ زچہ و بچہ کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ شرح پیدائش 0.8فیصد سالانہ ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
وسائل
بوسنیا کی اہم زرعی پیداواروں مےں پھل، تمباکو، گندم، چنے اور لائیو سٹاک شامل ہےں۔ اہم صنعتوں مےں کپڑا، غالیجے، تجارتی لکڑی، انجینئرنگ کا سامان اور کیمیائی مادے شامل ہےں۔
معدنی اعتبار سے بھی یہ علاقہ اتنا پسماندہ نہیں ہے۔ یہاں سے بھورا کوئلہ، لگنائیٹ، باکسائٹ، ایسبٹاس، زنک، سیسہ وغیرہ نکالا جاتا ہے۔ ان سے اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
تاریخ
پہلے یہ ملک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ غازی عثمان خان نے اس کی بنیاد رکھی۔ 1463ءمےں جنگ کوسوو ہوئی جس مےں عثمانی ترکوں نے ہنگری اور آسٹریا کو شکست سے دوچار کر کے کوسوو اور بوسنیا پر قبضہ کر لیا۔ ازاں بعد بلغراد بھی عثمانی ترکوں کے قبضے مےں آگیا۔ 1878ءتک یہ ترکوں کے قبضے مےں رہا۔
1914ءمےں جنگ عظیم اول کے اختتام پر ہنگری، سربیا اور یوگوسلاویہ معرض وجود مےں آئے۔ آسٹریا کے ٹکڑے ہونے کے بعد سربیا، کروشیا، سلووینیا، مانٹی نیگرو اور بوسنیاہرزگووینا کا وفاق یوگوسلاویہ کی صورت مےں تکمیل پایا۔ جب تک مارشل ٹیٹو زندہ رہا، یوگوسلاویہ مےں مستحکم حکومت رہی۔ اس کی وفات کے بعد یوگوسلاویہ کے کمیونسٹ نظام مےں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ مشرقی یورپ سے کمیونسٹ حکومتوں کا بتدریج خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ جون 1991ءمےں کروشیا اور سلووینیا نے بغاوت کر کے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 15اکتوبر 1991ءکو بوسنیا کی پارلیمنٹ نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ سربوں نے ریفرنڈم کی مخالفت کی اور ہنگامے شروع کر دیئے لیکن پروگرام کے مطابق صدر عالی جاہ عزت بیگووچ نے ریفرنڈم کروایا جس کے نتیجے مےں 65 فی صد عوام نے آزادی کے حق مےں ووٹ دیا۔ 21مئی 1992ءکو اسے اقوام متحدہ کی رکنیت مل گئی اور کئی ممالک نے اس کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ فوجی ہتھیار اور اور اڈے چونکہ سربیا کے متعصب عیسائیوں کے کنٹرول مےں تھے۔ اس لئے انہوں نے بوسنیا پر یلغار کر دی۔ ادھر بوسنیا مےں مقیم سربوں نے خانہ جنگی شروع کر دی جس کے نتیجے مےں متعدد علاقوں پر سربوں کا قبضہ ہوگیا۔ جبکہ سرائیوو، تزلہ، سربری نیکا اور موستر تک بوسنیا کی حکومت محدود ہوگئی۔ اس دوران اپریل 1992ءمےں امریکہ اور یورپی مشترکہ منڈی کے رکن ممالک نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔
1993ءبھی اس ملک پر منحوس سایہ بکھیرتا رہا۔ ہر طرف تباہی بربادی پھیل گئی۔ سال بھر اقوام متحدہ کے فوجی دستے، خوراک اور علاج کی سہولتیں فراہم کرتے رہے۔ ادھر سرب بیگار کیمپوں مےں بوسنیائی باشندوں کو بند کر دیا گیا اور مسلم خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کو ہر روز کا معمول بنا لیا گیا حالانکہ متعدد بار جنگ بندی کا معاملہ طے پایا تھا۔
بالآخر نیٹو کی مداخلت شروع ہوئی۔ 1995ءکے وسط مےں سرب ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے گئے۔ اس دوران سربوں اور کروشیا کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ کروشیا نے مسلمانوں کی حمایت شروع کر دی تاہم اس وقت تک سرب ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کر چکے تھے۔ بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیا کی فوجوں نے بھی سربوں پر حملے کئے اور یوں سربوں سے بیشتر علاقہ واپس چھین لیا گیا۔ امریکہ کے زیر اثر فریقین کے مابین مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے مےں ”مسلم کروشیائی فیڈریشن“ وجود مےں آئی اور بوسنیا کی حدود مےں سربوں کو بطور اقلیت تسلیم کر لیا گیا۔
ستمبر 1996ءمےں باضابطہ انتخابات ہوئے۔ عالی جاہ عزت بیگووچ کو صدر منتخب کیا گیا، لیکن سربوں نے معاہدہ امن کو صدق دل سے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے نئی حکومت کے خلاف اپنی جارحانہ اور مسلح سرگرمیاں جاری رکھیں۔ نیٹو کی پچاس ہزار نگران فوج بھی انہیں جارحیت سے نہ روک سکی تاہم جنگ کے ”مجرمین“ کی حیثیت سے سربوں کے لیڈروںکے فرار کے بعد کچھ سکون ہوا۔ صدر عزت بیگووچ کی قیادت مےں بوسنیا کی حکومت چھ ارب ڈالر بیرونی امداد کے سہارے ملک مےں اقتصادی بحالی مےں مصروف ہوگئی۔
بوسنیا کی حکومت نے سربیا کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف مےں نسل کشی کے الزام کے تحت مقدمہ دائر کیا۔ 26فروری 2007ءکے روز بین الاقوامی عدالت انصاف نے رولنگ دی جس سے طے پا گیا کہ اس جنگ کی نوعیت بین الاقوامی تھی تاہم سربیا کونسل کشی کی براہ راست ذمہ داری سے بری کر دیا گیا۔ تاہم عدالت نے یہ ضرور کہا کہ سربیا اپنی افواج کونسل کشی سے روکنے اور اس قتل عام کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے مےں لانے مےں ناکام رہا ہے۔ سربیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو عمومی طور پر نسل کشی (Genocide) قرار دینے کے بجائے بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ مئی 2006ءمےں مانٹی نیگرو کے اعلان آزادی کے بعد سربیا، ان جرائم کی واحد جوابدہ ریاست ہے تاہم ماضی کے واقعات کی ذمہ داری مانٹی نیگرو اور سربیا کی مشترکہ ریاست پر ہی عائد رہے گی۔

Benin

بینن
Benin
محل وقوع
بینن مغربی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں ٹوگو، مشرق مےں نائیجریا اور برکینو فاسو اور شمال مےں نائیجر واقع ہےں۔ اس کے جنوب مےں مختصر سا سمندری ساحل بھی موجود ہے۔
لوگ 
بینن کی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوانوں اور کمسنوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اوسط عمر 59سال ہے۔ اس ملک مےں کم و بیش 42مختلف نسلی گروہ آباد ہےں جو مختلف مواقع پر یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔ بڑے نسلی گروہوں مےں یوروبا، ڈینڈی، بریبا اور فلبے شامل ہےں۔
مذہبی اعتبار سے یہاں سب سے بڑا گروہ لامذہبوں کا ہے۔ ملک کی 70فیصد کے لگ بھگ آبادی لامذہبیت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ جو کسی مذہب کو مانتے ہےں، ان مےں سے 20فیصد اسلام کے پیروکار ہےں۔ مسلمانوں کے علاوہ یہاں عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے۔
وسائل
بینن کی معیشت ابھی تک پسماندہ ہے۔ یہ زیادہ تر زراعت خصوصاً کپاس کی پیداوار اور علاقائی تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ جی ڈی پی کا چالیس فیصد کپاس سے حاصل ہوتا ہے۔ افریقہ کے کئی دیگر پسماندہ ممالک کی طرف بینن بھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دیئے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے لیکن ان قرضوں سے اپنے لئے فلاح کی کوئی صورت حاصل نہیں کر پایا۔
تاریخ
قبل از اسلام بینن مےں رہنے والے قبائل کی تاریخ کے بارے مےں کچھ معلوم نہیں۔ آثار قدیمہ کی کھدائی سے جو ظروف وغیرہ دریافت ہوئے ہےں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قدیم زمانے مےں بھی انسانی معاشرت اور تہذیب موجود تھی۔ یہاں اسلام کا ظہور ابتدائی ہجری ہی مےں ہوگیا تھا۔ شمالی علاقوں مےں مسلمانوں کی معاشرت کے آثار، مساجد وغیرہ آج تک موجود ہےں۔ اس ملک پر فرانسیسی قبضے کے بعد اسلام تیزی سے پھیلا تاہم بینن مےں کوئی اسلامی سلطنت قائم نہیں ہو سکی۔
یہاں کے قبائل کی تاریخ کا مستند اور صحیح ریکارڈ سترہویں صدی سے ملنا شروع ہوتا ہے جب سلطنت ”دہومی“ قائم ہوئی۔ بینن دہومی کا نیا نام ہے۔ یہ سلطنت 1818ءتک اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت بادشاہ گیزوسلطنت پر حکمران تھا۔ اس نے مسلسل چالیس سال تک حکومت کی۔ 1851ءمےں شاہ گیزو نے فرانس سے ایک تجارتی معاہدہ کیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شاہ گلے گل تخت نشین ہوا تو اس نے یہ معاہدہ برقرار رکھا جس طرح ہندوستان مےں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے بہانے رفتہ رفتہ اپنے سیاسی قدم جمائے تھے، اسی طرح فرانسیسیوں نے بھی سیاسی چالیں چلیں اور 1863ءمےں پورٹ نوو کا الحاق کر لیا۔ جب نائیجریا مےں برطانیہ نے لاگوس پر قبضہ جما لیا تو پھر فرانس اور برطانیہ کے مابین سرحدوں کے تعین کے بارے مےں ایک معاہدہ ہوا کہ برطانیہ کی حکمرانی یہاں تک ہے اور فرانس کی حکومت یہاں تک۔ ادھر قریب ہی مغرب مےں جرمنی ٹوگو مےں آپہنچا تھا۔انہوں بینن کی طرف بڑھنا چاہا لیکن فرانس نے تدبر سے کام لیتے ہوئے ان سے معاہدہ کر لیا اور 1885ءمیں طے پا گیا کہ جرمنی صرف گنی اور ٹوگو تک محدود رہے گا۔
1889ءمےں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے درمیان سہ فریقی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق سرحدوں کی حد بندی مستقل ہوگئی۔ اسی سال بینن کے بادشاہ اور فرانس کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی۔ باضابطہ جنگ ہوئی جس مےں بینن کی ایمزن خواتین نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ 1890ءمےں صلح نامہ ہوا جس کی رو سے طے پایا کہ فرانس بینن کا ”محافظ“ ہوگا اور بادشاہ کو سالانہ آٹھ سو پونڈ پنشن ملے گی۔
شاہ گلے گل کے بعد اس کا بیٹا بہازین تخت پر بیٹھا جس نے 1892ءمےں فرانس کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ قبائل کو شکست ہونے لگی تو شاہ بہازین نے دارالحکومت کو آگ لگوا دی اور خود فرار ہوگیا۔ آخر 1894ءمےں اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔
اب فرانس نے ملک کو دو حصوں مےں تقسیم کر دیا، ابومی اور ایلوڈا۔ ابومی کے تخت پر بہازین کے بڑے بیٹے کو بٹھا دیا اور باقی ملک پر خود قابض ہوگیا۔ 1900ءمےں فرانسیسیوں نے شاہ ابومی کو بھی معزول کر کے کانگو روانہ کر دیا۔
1898ءمےں برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک اور معاہدہ طے پایا جس کی رو سے مشرقی سرحدوں کا تعین ہوا۔ پھر 1912ءمےں فرانس نے جرمنی سے معاہدہ کیا، جس کے مطابق ٹوگو اور بینن کی مغربی سرحدوں کا تعین ہوا اور یوں جغرافیائی طور پر موجود بینن وجودمےں آیا۔
1904ءمےں یہ علاقہ فرانسیسی مغربی افریقہ مےں شامل کر لیا گیا۔ فرانس نے یہاں ریلوے اور سڑکیں تعمیر کیں اور کافی کی پیداوار مےں اضافہ کیا۔ ترقیاتی کاموں کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ بھی زور شور سے جاری رہی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر سے تبلیغ کے کاموں مےں آسانیاں اور ترغیبات پیدا ہو رہی تھیں۔ چنانچہ بیس سال کے اندر اندر عیسائیوں کی تعداد پونے تین لاکھ تک پہنچ گئی۔
اسلام کے ابتدائی دور مےں ہی بینن کے شمالی علاقوں کے قبائل نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نائیجریا اور مالی کے مسلمان بھی ہجرت کر کے یہاں آباد ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے قدیم قبائل کے مرد و زن بھی رفتہ رفتہ اسلام کی سادگی اور حقانیت کو تسلیم کرنے لگے۔ یہاں کسی بھی بڑے اسلامی ملک کی طرف سے مبلغین کی کوئی جماعت نہیں پہنچی۔ محض یہاں کے مسلمانوں کی ذاتی تبلیغی کوششوں کا ثمر ہے کہ آج بینن کی آبادی کا بیشتر حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں پہلی نیم خودمختار حکومت فرانس کے زیر سایہ قائم ہوگئی۔ 1957ءمےں اسے داخلی خودمختاری دے دی گئی اور بالآخر یکم اگست 1960ءکو مکمل آزادی حاصل ہوگئی۔
آزادی کے فوراً بعد کا دور بینن کے لئے شورش سے بھرپور تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر 1969ءتک اس ملک نے پانچ فوجی انقلابوں کا سامنا کیا۔ مئی 1970ءمےں فوج نے تین لیڈروں ماگا، احمدگبی اور اپتھی پر مشتمل ایک کمیشن چھ سال کی مدت کے لئے قائم کیا۔ اصول طے پایا کہ اس کا ہر رکن دو سال تک بینن کی صدارت کے فرانئض انجام دے گا۔ چنانچہ ماگا اس کے پہلے صدر بنے۔
1972ءمےں پھر فوجی انقلاب آیا۔ احمدگبی کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور میجر کریکو نے بہ حیثیت صدر اور وزیراعظم اقتدار سنبھال لیا۔ 1975ءمےں صدر کریکو کے حکم پر باضابطہ پردہومی کا نام تبدیل کر کے بینن رکھ دیا گیا۔ ان کی جماعت 1990ءکی دہائی تک اقتدار پر قابض رہی۔ فرانس اور دیگر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی پا کر کریکو نے ایک نیشنل کانفرنس بلائی، نیا جمہوری آئین متعارف کرایا اور صدارتی اور قانون ساز مجلس کے انتخابات منعقد کرائے۔ صدارتی انتخابات مےں کریکو کے بڑا مخالف وزیراعظم نسے فورسوگو تھا جو جیتنے مےں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی اس کے حامیوں کو اکثریت حاصل ہوئی۔ یوں بینن پہلا افریقی ملک بنا جو آمریت سے جمہوریت کا سفر کامیابی سے طے کرنے مےں سرخرو ہوا۔ مارچ 1995ءمےں قومی اسمبلی کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوا اور سوگلو کی پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں، تاہم اسے حتمی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ تاہم سابق صدر کریکو کے حامیوں کی ایک جماعت خاصی کامیاب رہی اور اس کامیابی کے بدولت کریکو 1996ءاور 2001ءکے صدارتی انتخابات مےں کامیاب ہو پایا۔
تاہم 2001ءکے انتخابات دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات کی زد مےں آکر مشکوک قرار پا گئے۔ دو بڑے صدارتی امیدواروں نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور کریکو ایک طرح سے بلامقابلہ صدر مملکت بن گیا۔ دسمبر 2002ءمےں بینن مےں پہلی مرتبہ میونسپل انتخابات کا انعقاد ہوا اور یہ مرحلہ بخیر و عافیت تکمیل تک پہنچا۔
مارچ 2006ءکے صدارتی انتخابات مےں ویسٹ افریقن ڈیولپمنٹ بینک کے ایک سابق صدر بونی یائی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بین الاقوامی ماہرین نے ان انتخابات کو آزاد، منصفانہ اور شفاف قرار دیا۔ صدر کریکو کو عمر اور متعدد بار منتخب ہونے کی وجہ سے آئینی طور پر انتخابات مےں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔

Thursday, 19 July 2012

Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks: فیشن ٹرینڈز آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں آج کل پاکستان میں انٹرنیشنل فیشن کا رجحان پایا جا رہا ہے ٹراﺅزرز کے ساتھ لائنز اور ڈاٹس والی قمیضیں...

Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks

Urdumediamela: Fashion and Cooking Tricks: فیشن ٹرینڈز آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں آج کل پاکستان میں انٹرنیشنل فیشن کا رجحان پایا جا رہا ہے ٹراﺅزرز کے ساتھ لائنز اور ڈاٹس والی قمیضیں...

شبِ برا


شبِ برا ت کا خاص تحفہ
ڈاکٹر منیر احمد لاہور 
اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقانِ حمید مےں ارشاد فرمایا :
”مےں نے جن و انس کو اس لئے پیدا 
کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں“ 
معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے جن و انس کو محض و محض اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ رب العزت نے جن و انس کو اپنی عبادت کےلئے ہی پیدا کیا ہے تو پھر انسان کو اس دنیائے بشری مےں بھیجنے کا مقصد کیا تھا۔ کیا اس کی عبادت بحیثیت روح ہی نہیں کی جا سکتی تھی جبکہ وہ پاک تھی نہ نفس تھا نہ شیطان تھا۔ 
خدا نے جواب دیا یقیناً میری عبادت بحیثیت روح کی جا سکتی تھی لیکن مےں مجبور تھا۔ مےں نے جب تمام روحوں سے کہا تھا ”کیا مےں تمہارا رب نہیں ہوں“ تو سبھی نے اقرار کیا تھا ”ہاں تو ہمارا رب ہے“ لیکن حیف کہ کسی روح نے یہ اقرار دل سے کیا اور کسی نے محض خانہ پُری کی۔ مجھے اچھا نہ لگا مےں نے اسی وقت دل سے اقرار ربو بیت کرنے والی ارواح کو جنتی لباس پہنا کر جنت مےں بھیجنا چاہا اور کافر روحوں کو جہنمی لباس پہنا کر جہنم مےں دھکیلنے کا فیصلہ کیا تو جہنمی بڑبڑانے لگے واہ ویلا کرنے لگے کہ اے خدا تیرے پاس کیا ثبوت ہے کہ ہم نے تیری ربوبیت کا اقرار دل سے نہیں کیا اور جنتیوں نے دل سے کیا۔ 
خدا سوچنے لگا میری ذات تو ایسی ہے کہ جس پر کوئی آنچ نہیں پھر مےں ان کافروں کی تنی ہوئی انگلیوں کو اپنی طرف کرنے کا موقع کیوں دوںبس اسی سوچ نے خدا کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ ایک دنیا بنائی جائے پھر اس کو طرح طرح کی لذتوں اور خاہشوں سے سجایا جائے پھر تمام ارواح کو اس فریب دہ جہاں مےں ایک مقررہ وقت تک بھیجا جائے پھر ان کو مختلف آزمائشوں سے گزارا جائے تاکہ سچی روحوں کی سچائی اور جھوٹی روحوں کا جھوٹ منظر عام پر آ سکے پھر ان کے سچے اور جھوٹے نتائج کو بطور ثبوت اکٹھا کر کے انسانی شانوں پر بیٹھے نیکی بدی کے فرشتوں کے خالی رجسٹروں مےں درج کر دیا جائے تاکہ جب بروز قیامت خدا سچوں کو جنت مےں اور جھوٹوں کو جہنم مےں لے جانے لگے تو ان ثبوتوں کی روشنی مےں کوئی بھی انسان خدا پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ 
رحمتِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بحیثیت روح اپنی مرضی سے اپنی تقدیر بنانے والوں کو اس دنیائے ناپائیدار مےں وقتِ موت تک پھر ان گنت بخشش کے مواقع فراہم کرتی ہے اور انہی مواقع مےں ایک موقع شبِ برا ¿ت کا بھی ہے۔ 
شبِ برا ¿ت وہ شب ہے جو کفار و مشرکین، منافقین اور گنہگاروں کو پھر موقع دیتی ہے کہ آﺅ اور مجھے پا کر اپنی بری تقدیر کو اچھی تقدیر مےں بدل ڈالو اور لکھوا لو جو جو کچھ اچھا فال لکھوانا ہے۔ 
خدا کہتا ہے نہ پہلے مےں نے اپنی مرضی سے انسانوں کی تقدیر لکھی اور نہ ہی مےں اب اپنی مرضی سے ان کی تقدیر لکھوں گا۔ خدا کہتا ہے اے کفار و مشرکین، منافقین اور آصیو اگر تم شبِ برا ¿ت سے بھی فائدہ نہ اٹھاﺅ گے اور ہمہ وقت اس سے بھی بے نیاز رہو گے اور اس شب بھی اسلام قبول نہ کرو گے یا توبہ استغفار نہ کرو گے تو مےں تم ہی سے لکھوائی ہوئی تمہاری تقدیر کو تبدیل نہ کرونگا مےں وہی تقدیر پھر لکھ دونگا، آﺅ آج بھی تمہارے پاس ایک موقع ہے آج شب میری ربوبیت کا اقرار کر لو آج شب میری طرف رجوع کر لو آج شب میری بندگی چاہ لو اور آج شب میرا قرب بھی چاہ لو مےں تم کو بخش دونگا اور تمہاری اچھی تقدیر تمہاری ہی اچھی نیت سے لکھ دونگا۔ 
”خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے“ 

Musalman Qazi


مسلمان قاضی کا بے لاگ عدل
محمد بن ابوعامر المصور حکومت اندلس کے قاضی تھے ایک بار ان کے چھوٹے بیٹے نے حاکم شہر کا بیٹا ہونے کے غرور مےں سرشار ہوکر ایک غریب بچے کو (جو ایک یہودی کا بچہ تھا) مارا وہ فریاد لے کر محمد بن ابوعامر کے پاس آیا، قاضی نے فوراً اپنے بیٹے کو اپنے دربار مےں طلب کیا اور فریادی کو حکم دیا کہ اس کے پیٹ پر اتنے ہی زور سے بیدکی چوٹ لگا کر حکم کی تعمیل کرو، چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی، وہ نازوں پلا بچہ بھلا اس کی مار کی تاب کہاں لاتا؟ چنانچہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس نے وہیں عدالت مےں جان دے دی۔ لوگوں نے یہ صورتحال دیکھی تو کانپ گئے، ظالم تو اپنی جگہ لرز اٹھے اور قسم کھائی کہ آئندہ ظلم نہیں کریں گے۔ قاضی محمد بن ابوعامر المصور گھر آئے اور بچے کی لاش سے لپٹ کر خوب روئے اور اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ وہ اس قصور کو معاف کرے۔ 

Dil Ki Bemarian


امراض قلب مےں سرفہرست دل کا دورہ ہے جو دنیا بھر مےں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل امراض قلب خصوصاً دل کے دورے کو امراءاور رﺅسا کا مرض سمجھا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ جوانی مےں عیش و آرام کرتے ہےں، جس کی وجہ سے بڑھاپے مےں امراض قلب کا شکار ہو جاتے ہےں، لیکن آج کے دور مےں اگر، اردگرد نظر دوڑائی جائے تو یہ مرض آبادی کے تمام طبقوں مےں پھیلا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان بھی اس کی لپیٹ مےں آرہے ہےں۔ عالمی یوم قلب، پوری دنیا مےں ہر سال ستمبر کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کو، دل کے امراض سے متعلق آگہی دی جائے تاکہ وہ دل کے دورے اور بلڈ پریشر پر قابو پانے مےں کامیاب ہو سکیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہ بیماری زور پکڑ رہی ہے اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک (جیسے پاکستان) مےں امراض قلب کی سرح دیگر ممالک کے مقابلے مےں کئی گنا زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور عالمی انجمن قلب کے مطابق اس خطے (پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت وغیرہ) مےں امراض قلب نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے اور ماہرین کے مطابق آئندہ برسوں مےں ان کی شرح اور شدت مےں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان مےں امراض قلب کا ایک اور نہایت افسوس ناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان اس مرض کا شکار ہو رہے ہےں اگر مغربی ممالک کے ساتھ اس شرح کا مقابلہ کیا جائے، تو پاکستان مےں حملہ قلب کی اوسط عمر باقی ممالک سے دس سال کم ہے۔ ایک طرف تو یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور کم عمر لوگوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے، تو دوسری طرف ہمارے وسائل، ان سے خاطر خواہ طور پر نمٹنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بات سب کے علم مےں ہے کہ دل کے امراض کا علاج ارزاں اور آسان نہیں اور جس طرح کی مشینری اور دیگر لوازمات کا، اس شعبے مےں آئے دن، اضافہ ہو رہا ہے ان عوام سے امراض قلب کا علاج بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں مریض مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قیمتی زندگیوں سے محروم ہو رہے ہےں یا پھر دوسری طرف ایک نہایت ہی کم تر زندگی گزارنے پر مجبور ہےں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک مےں امراض کا حل کیا ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ایسے عوامل سے خود کو دور کیا جائے، جو امراض قلب کا باعث بن سکتے ہےں یعنی خوراک مےں مناسب ردوبدل کے ساتھ زندگی مےں مناسب تبدیلیاں، تاکہ ان امراض کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ مناسب تبدیلیوں سے مراد یہ ہے کہ ورزش کی جائے، تمباکو نوشی اور پان چھالیا سے جان چھڑائی جائے اور آرام کی زندگی کو چھوڑ کر مشقت کے کام کیے جائیں۔ 
امراض قلب کی پہلی قسم بچوں مےں ماں کے پیٹ مےں واقع ہوتی ہے اور یہ دل کے پیدائشی نقائص کی صورت مےں سامنے آتی ہے۔ اس کے سدباب کے لئے حاملہ خواتین کو دوران حمل، خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا چاہئے بالخصوص دوران حمل، بلاوجہ ادویہ کے استعمال سے احتراز کیا جائے اور ایکسرے وغیرہ سے بھی دور رہا جائے۔ ایسے امراض، جنہیں پیشگی طور پر روکا جاسکتا ہے جیسے جرمن خسرہ وغیرہ ان سے بچاﺅ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ دوسری قسم مےں لڑکپن یا نوجوانی کے دور مےں ہونے والا گٹھیائی بخار ہے، یہ عموماً گنجان آباد علاقوں کے رہائش پذیر افراد کو اپنا نشانہ بناتا ہے، جہاں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان مےں اس مرض کے تقریباً دس سے بارہ لاکھ مریض موجود ہےں۔ اس مرض مےں علاج معالجے کے بعد جوڑ تو صحیح ہو جاتے ہےں لیکن دل کے خانے خراب ہو جاتے ہےں۔ مرض کے سدباب کے لئے بہتر رہائشی سہولتیں اور بہتر غذائی سہولتوں کا میسر ہونا ضروری ہے۔ تیسرا اور سب سے عام رگ و دل کا عارضہ بلند فشار خون ہے، جس مےں ہر چار مےں سے ایک فرد مبتلا ہے۔ اس عارضے کا اگر مناسب علاج معالجہ نہ کرایا جائے اور ضروری احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائے تو حملہ قلب، انجائنا، نابینا پن، دل کا فیل ہونا، گردوں کا فیل ہونا اور قبل از وقت موت کا واقع ہو جانا سرفہرست ہے۔ اس عارضے کے سدباب کے لئے مناسب علاج کے ساتھ ساتھ اپنی خوراک مےں نمک کو یک سر کم کر دینا اور خوراک مےں چینی، چکنائی اور گوشت سے بنی اشیاءسے مستقل پرہیز شامل ہےں۔ چوتھا اور اس زمانے کا سب سے مہلک مرض دل کی نارسائی خون کا ہے، جس کے نتیجے مےں انجائنا اور ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ کسی زمانے مےں یہ مرض ادھیڑ عمر کا مرض سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کل 40سال کی عمر سے قبل ہی افراد اس مرض کا شکار ہو رہے ہےں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عارضے مےں مبتلا مریضوں مےں سے 30فی صد کی عمر 40سال سے کم جب کہ اسی فیصد ناگہانی اموات کا سبب یہی مرض ہے۔ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ خوراک مےں سے چکنائی خصوصاً جمی ہوئی چکنائی یعنی چربی، گوشت، چینی اور نمک، کم کر دیا جائے، اس کے علاوہ تمباکو نوشی سے اجتناب برتا جائے اور روزانہ ورزش کو معمول بنایا جائے۔ 
انجائنا اور دل کا دورہ ایک ہی بیماری کے دو نام نہیں۔ دل کو خون کی مطلوبہ فراہمی مےں عارضی کمی واقع ہونے سے دل کے پٹھوں کو آکسیجن کی سپلائی معطل ہو جاتی ہے، چناں چہ درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ درد انجائنا کا درد کہلاتا ہے اور عموماً ورزش کے دوران یا ذہنی تناﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے ورزش روکنے یا سکون سے بیٹھ جانے یا لیٹ جانے یا انجائنا ٹیبلٹ چوسنے سے کم ہو جاتا ہے، جب کہ ہارٹ اٹیک انجائنا کی ہی ایک شدید اور خطرناک قسم ہے۔ اس کا درد نہایت شدید اور مسلسل ہوتا ہے اور آرام کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتا۔ مریض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہےں۔ بار بار متلی اور الٹی کی کیفیت طاری ہوتی ہے چہرہ زرد ہو جاتا ہے اور نبض تیز اور بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔ انجائنا کی طرح ہارٹ اٹیک کا درد چند منٹوں مےں ختم نہیں ہوتا کہ اس مےں دل کے عضلات کو خون اور آکسیجن ضرورت کے مطابق زیادہ عرصے تک نہیں ملتی یا مستقل منقطع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دل کے اس حصے کی موت واقع ہونے لگتی ہے، چناں چہ اسی حالت کو ہارٹ اٹیک کہا جاتا ہے۔ 
دل اور دل کی کارکردگی پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر اگر نظر ڈالی جائے تو عموماً ہائی بلڈپریشر، کولیسٹرول کا بڑھنا، گٹھیا کا مرض، موٹاپا، ذیابیطس، تمباکو نوشی، طرز زندگی یا شخصیت کا عمل دخل، ذہنی تناﺅ و دباﺅ، پستی (ڈیپریشن) فکر (انگزائٹ)، غصہ، منفی انداز فکر، تن آسانی و کاہلی اور موروثی، رجحان قابل ذکر ہےں۔ اسی طرح دل اور دل کی کارکردگی کے دشمن عوامل مےں سفید چینی، نمک، سرخ گوشت، اشتعال انگیز عناصر و مشروبات، قبض اور ہاضمے کے مسائل اور چکنائیوں کا بکثرت استعمال سرفہرست ہےں۔ 
درج بالا عوامل کی روشنی مےں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ دل کی صحت مندی کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملات پر گہری نظر رکھی جائے اور ساتھ ہی سستی و کاہلی سے دور رہا جائے۔ روزمرہ خوراک مےں درج ذیل لوازمات انسانی صحت کے لئے بالعموم اور دل کی صحت کے لئے بالخصوص انتہائی معاون ہےں: 
تازہ پھل، خام سبزیاں، مچھلی، ریشہ، آرگینک فوڈ، یعنی نامیاتی خوراک کو ادل بدل کر استعمال کرنا، اسی طرح صاف پانی کا استعمال۔ 
روزمرہ خوراک مےں ان اشیاءکی مقدار کم کر دیں 
ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ، نمک، سیرشدہ چکنائیاں، کولیسٹرول، چائے و کافی، الکوحل اور کیلوریز سے پُر غذائیں۔ 
ان ہدایات پر بھی ضرور عمل کریں 
چھوٹے چھوٹے نوالے کھائیں اور اچھے طریقے سے چبائیں، کھانے کے دوران پریشان کن خیالات یا مایوس کن گفتگو سے گریز کریں، خراب غذائی عادات کو فوری طور پر ترک کر دیں، کھانوں کو بہت زیادہ پکانے سے گریز کریں، کچا پکا کھائیں، چربی مےں حل پذیر حیاتین ضرور کھائیں، اسی طرح پانی مےں حل پذیر حیاتین کو ضرور کھائیں۔ 

رسالت Risalath


رسالت
شہید حکیم محمد سعیدؒ
ہم دیکھتے ہےں کہ ہمیں زندگی بخشنے والے رحیم و کریم اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت کے ہر تقاضے کی تکمیل کا سامان مہیا کر رکھا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس نے ہمارے وجود مےں دخیل اور ہمارے شعور و جدان مےں پیوست اس تقاضے، کہ ہمارا مقصد وجود کیا ہے، کی تکمیل کا سامان نہ کیا ہو۔ اس نے یقیناً اس امر کا انتظام کیا ہے اور یہ انتظام اس طرح کیا کہ اس نے ہم ہی مےں سے بعض ہستیوں کا انتخاب کر کے انہیں اس سوال کا جواب سکھایا اور انہیں اس بات کا پابند کیا کہ وہ اپنے اس علم کے ذریعہ سے کہ جو انہیں وحی سے حاصل ہوا ان امور کے سلسلے مےں انسانوں کی راہنمائی کریں۔ خالق کائنات نے اپنے ان منتخب بندوں کو رسول اور نبی کا نام دیا اور ان کے ذمے یہ خدمت کی کہ وہ اللہ کے دوسرے بندوں کوآگاہ کر دیں کہ ایمان رکھنے والے اس دنیا مےں اور اس کے بعد ابدالآباد تک امن و سکون کے ساتھ باعزت زندگی گزار سکیں گے۔ نیز یہ کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اعمال کو اس فکر کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا کہ وہ لوگوں کو پوری وضاحت کے ساتھ یہ سمجھا دیں کہ اس دنیا کو اور اس مےں آباد انسانوں کو اس نے ایک خاص مقصد سے پیدا کیا ہے اور اس نے یہ بھی طے کر دیا ہے کہاس مقصد کی تکمیل کے لئے انہیں یہاں کس طرح زندگی گزارنی ہے اور اس دنیا اور اس مےں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ انہیں کیا اور کس قسم کا تعلق رکھنا ہے، یعنی یہ کہ اس کارگہ ¿ حیات مےں خیر و اصلاح اور سعادت و فلاح کے راستے کون سے ہےں، نیز یہ کہ اس روشنشاہراہ کو چھوڑ کر خودساختہ طریقوں پر چلنے کا انجام کیا ہوگا۔ اسی بنا پر اللہ نے اپنے پیغمبروں، کو بشیر و نذیر کہا ہے، یعنی راہ مستقیم پر چلنے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دینے والے اور کج روی اختیار کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈرانے والے کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم مےں رسالت کی ضرورت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
ترجمہ: ”ابتدا مےں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے پھر آگے چل کر جب یہ حالت نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے انجام سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق بھیجی تاکہ لوگوں مےں جو اختلافات پیدا ہوئے ہےں ان کا فیصلہ کریں۔ ان اختلافات کی وجہ (یہ نہ تھی کہ لوگوں کو حق معلوم نہیں تھا بلکہ) یہ تھی کہ لوگ حق سے واقفیت اور آگاہی کے باوجود آپس مےں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔“ (البقرة: 213) اس آیت کریمہ کا مضمون کسی تشریح اور توضیح کا نہ متلاشی ہے نہ محتاج۔ جس بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس آیت مبارکہ کے مفہوم کو اپنے اوپر منطبق کریں تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا حال اس وقت بعینہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مابق ان افراد اور اقوام کا تھا جنہوں نے ہم سے پہلے ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لئے ربانی ہدایات سے واقف ہونے اور ان پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں پس پشت ڈال دیا تھا اور آپس مےں اختلافات پیدا کر لئے تھے۔ سابقہ امتوں کے لئے تو یہ موقع تھا کہ جب وہ اس طرح حق کو بھلا دیتی تھیں تو ان کی اصلاح کے لئے اور انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لئے دوسرے نبی آتے تھے لیکن خاتم النبینﷺ کی امت کے لئے یہ راستہ تاقیامت بند ہے۔ اسی لئے امت کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اپنے نبیﷺ کی تعلیمات کو یاد رکھنا ان پر فرض ہو جاتا ہے۔ اس آیت مےں اللہ تعالیٰ نے جس خرابی کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ ہے ذاتی اور گروہی مقاصد کی بنا پر اختلاف۔ مےں سمجھتا ہوں کہ ان تمام خرابیوں اور بیماریوں کی جڑ، جن مےں ہم مبتلاہےں، یہی اختلاف باہمی ہے۔ غور کیجئے کہ جو امت تمام انسانوں کے اختلاف و انتشار کا شکار ہے اور اس بدنہاد اختلاف کا اثر ہے کہ آج ہم اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو امت کے مفادات پر ترجیح دینے لگے ہےں اور ساری دنیا مےں حق سے اس بغاوت کے نتائج بھگت رہے ہےں۔ ہمارا عقیدہ رسالت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور آپ کی انہدایات، جن پر ہم ایمان کے مدعی ہےں، دل و جان سے عمل کرنے پر کمر بستہ ہو جاتیں۔ آپﷺ نے امت کو جو آخری نصیحت فرمائی تھی، اس مےں ارشاد فرمایا تھا کہ ”مےں تم مےں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں اگر تم ان پر سختی سے پابند رہے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے اور یہ دو چیزیں ہےں اللہ کی کتاب اور میرا طریقہ، یعنی میری سنت۔“ ہم رسول اللہﷺ سے محبت کے دعوے دار ہےں اور آپ کا یہ فرمان ہمیں وہ راہ دکھاتا ہے جس کی پیروی کر کے آج ہم گمراہی سے بچ سکتے ہےں اور دین کے ان ہی دونوں ستونوں کو اپنا معیار قرار دے کر اپنے اختلافات ختم کر سکتے ہےں۔ 

موٹاپا Motapah

موٹاپا
تحریر: ڈاکٹر عبدالحنان
ڈین فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن ہمدرد یونیورسٹی، کراچی
فاقہ کشی موٹاپے کا علاج نہیں ہے
وزن بڑھنے کے بہت سے اسباب ہےں جن مےں سب سے اہم سبب غذا کی زیادتی یا اس کا صحیح انتخاب یا پھر ورزش کی کمی ہے۔ دراصل موٹاپے کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کی تدابیر اپنانے سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ غذا کیا ہے؟ جسم کے لئے کون کون سے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے کیا کام ہےں اور دراصل متوازن غذا کسے کہا جائے گا؟
غذا کا پہلا اہم جز لحمیات یا پروٹین ہے، جو جسم کے بنانے، بڑھانے اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کی ضرورت ہر عمر مےںہوتی ہے، مگر خاص طور پر بچوں کو زیادہ مقدار مےں درکار ہوتا ہے کیونکہ ان کا جسم بن رہا ہوتاہے اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ضعیفوں کو ہوا کرتی ہے۔ ان کا جسم بڑھ تو نہیں رہا ہوتا مگر ٹوٹ پھوٹ کی زیادتی کی وجہ سے جسم کی تعمیر کے لئے پروٹین زیادہ درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمیں گوشت، انڈا، مچھلی، دودھ، دالوں، خشک میوے اور سویابین سے وافر مقدار مےں مل جاتی ہے۔ دوسرا اہم غذائی جز نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹس ہے۔ اس سے جسم مےں حرارت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔اس کی ضرورت بھی ہر عمر مےں ہوتی ہے مگر خصوصاً بچوں اور جوانوں کو زیادہ درکار ہوتا ہے۔ بچوں کو اس لیے کہ دوڑ بھاگ، کھیل کود مےں ان کی توانائی اور حرارت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جوان چونکہ اپنی عمر کے اس دور سے گزر رہے ہوتےہےں جس مےںانہیں انتہائی محنت مشقت کرنی ہوتی ہے خواہ وہ دماغی ہو یا جسمانی۔ جسمانی محنتکرنے والوں کو نشاستہ نسبتاً زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔ دماغی محنت کرنے والوں کو نشاستے کے ساتھ ساتھ لحمیات بھی درکارہوتا ہے۔ یہ اناج، چاول، زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں، شکر اور شکر سے بنی ہوئی چیزوں سے فراہم ہو جاتے ہےں۔ غذا کا تیسرا جز چکنائی یا فیٹس ہےں، یہ بھی جسم مےں حرارت و توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہےں۔ ساتھ ہی یہ بطور ذخیرہ جسم مےں جمع ہونے کی خصوصیت رکھتے ہےں۔ اگر ضرورت سے زیادہ غذا مےں موجود ہوںتو زیر جلد، پیٹ کی جھلیوں اور دیگر اعضا کے اردگرد چربی کی شکل مےں جمع ہوجاتے ہےںتاکہ ایسے وقت پر کام آسکیںجب کسی وجہ سے جسم کو غذا کم مل رہی ہو یا نہ مل رہی ہو۔ مثلاً فاقہ کشی، طویل بیماریاں، معمول سے زیادہ محنت مشقت وغیرہ۔ عورتوں مےں قدرتی طور پر چربی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور یہ ان کی فطری ضرورت ہے۔ چونکہ دوران حمل اور بچے کو دودھ پلانے کے زمانے مےں، جب توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہی جمع شدہ چربی ساتھ دیتی ہے۔ اس کے حاصل ہونے کے ذرائع روغنیات، بالائی، مکھن، پنیر، گھی، انڈا، روغن والے بیج، خشک میوے وغیرہ ہےں۔ اس کے علاوہ نشاستے دار چیزیں بھی چربی بناتی ہےں، وہ اس طرح کہ اگر نشاستہ ضرورت سے زیادہ مقدار مےں استعمال کیا جائے تو وہ کیمیاوی انہضام کے بعد چربی مےں تبدیل ہو کر ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اور جمع شدہ چربی جسم کو بدوضع بناتی رہتی ہے۔ مذکورہ غذائی اجزاءکے علاوہ غذا کو متوازن رکھنے کے لئے چند مزید چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حیاتین، معدنیات، نمکیات اور پانی وغیرہ۔ یہ بھی سبزیوں، پھلوں، دودھ، انڈے، گوشت، اناجوں کے چھلکوں وغیرہ سے فراہم ہو جاتے ہےں، لیکن معدنیات و نمکیات کنوﺅں اور چشموں کے پانی سے بھی جسم کو ملتے ہےں مگر ان کا تعلق چونکہ براہ راست وزن بڑھانے سے نہیں ہے، اس لئے ان کی تفصیل مےں ہم نہیں جائیں گے۔ 
اسباب: 
غذائی اجزا کا بغور جائزہ لینے پر ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وزن بڑھانے مےں دو چیزیں اہم کردار ادا کر رہی ہےں، ایک نشاستہ اور دوسرے چکنائی۔ موٹاپے کی بنیادی وجہ غذا کا غیر متوازن ہونا ہے۔ چونکہ غذا کے انتخاب مےں بنیادی چیز، جس کا لحاظ رکھنا چاہئے وہ عمر اور کام کی نوعیت ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کی غذا ہمیں ان کی جسمانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کے مقابلے مےں بالکل الگ منتخب کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح ضعیف العمر حضرات کی غذا جوانوں کے مقابلے مےں مختلف ہونی چاہئے۔ جوانوں مےں بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کام زیادہ جسمانی محنت کا کیا جا رہا ہے یا بیٹھ کر دماغی محنت کرتے ہوئے وقت گزرتا ہے۔ اسی طرح ایک خانہ دار خاتون کو اپنی دن بھر کی دوڑ بھاگ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا غذائی نقشہ بنانا چاہئے۔ 
موٹاپا دراصل سیدھا سا آمدنی و خرچ کا حساب ہے، کسی شخص کی روزانہ آمدنی جس قدر ہے اگر اتنا ہی خرچ بھی کر دیا جائے تو بچے گا کچھ نہیں، اس کے برخلاف آمدنی زیادہ ہو اور خرچ کم ہو تو رقم جمع ہونا شروع ہو جائے گی۔ بالکل یہی معاملہ، کھائی جانے والی غذا اور جسمانی خرچ کا ہے جو بھی غذا چوبیس گھنٹے مےں استعمال ہو رہی ہے اگر وہ خرچ بھی کر دی جاتی ہے تو جسم پر موٹاپا طاری نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف صورت مےں بدن کا بے ڈول ہونا لازمی ہے۔ غذا کی مقدار سے مراد یہاں غذائی اجزا کی مقدار ہے جس کا تناسب عمر اور محنتو مشقت کے لحاظ سے رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر ہم برصغیر کے لوگوں کی غذائی عادات کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں وزن بڑھنے کا سبب چکنائی اس قدر نہیں ہے جتنا نشاستہ ہے، کیونکہ ہماری غذا کا بڑا حصہ نشاستہ پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً روٹی، چاول، زمین کے اندر سے پیدا ہونے والی ترکاریاں اور میٹھا چکنائی عام طور پر بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔ دیہاتوں مےں گھی و مکھن کھانے کا زیادہ رواج ہے مگر وہاں اسی اعتبار سے زندگی بھی سخت گزاری جاتی ہے۔ سفید اقوام مےں وزن بڑھنے کا سبب چکنائی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی غذا مےں کریم، مکھن، پنیر، دودھ، کیک، پیسٹری، چاکلیٹ، آئس کریم اور بہت چکنے گوشت شامل ہوتے ہےں لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر چکنائی سالن پکانے یا چیزوں کو تلنے مےں استعمال کی جاتی ہے جو بہت مقدار مےں نہیں ہوتی۔ روٹی یا چاول، شوربے دار سالنوں سے کھائے جاتے ہےں جن مےں سالن کی مقدار کم اور روٹی چاول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یا پھر میٹھا، مٹھائیوں و دیگر مشروبات کی شکل مےں نوش کیا جاتا ہے۔ روٹی استعمال کرنے والے لوگوں کی غذا مےں زیادہ مقدار آٹے کی ہوتی ہے اور آٹا بھی عموماً باریک چھان کر اس کی بھوسی الگ کر دی جاتی ہے جن مےں نشاستے کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اندازہ ہم کر چکے ہےں کہ ہر قسم کا نشاستہ جو جسمانی ضروریات سے زیادہ ہو، چربی مےں تبدیل ہو کر جسم مےں جمع ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے وزن کم کرنے کا پروگرام بناتے وقت نشاستے کو نہیں بھولنا چاہئے۔ دوسری غلطی جو وزن کم کرنے والے افراد کرتے ہےں، وہ فاقہ کشی ہے۔ یعنی غذا کو چھوڑ دینا یا ضرورت سے بہت کم کر دینا۔ یہ بڑی سنگین غلطی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں مےں، نو عمر لڑکیاں اس عمل سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہےں۔ غذا جسم کے لئے ایک لازمی جز ہے اور اگر یہ متوازن اور صحیح مقدار مےں نہ ملے تو کسی بھی شخص کا تندرست رہنا اور اس کے جسم کی صحیح نشوونما ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ غذا کو اپنی جسمانی ضروریات کے لحاظ سے تبدیل توکیا جاسکتا ہے یا کسی حد تک کمی کی جا سکتی ہے مگر کھانے کے ناغے کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ایک بات اور ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ دبلا ہونا ایک الگ چیز ہے اور کمزور ہونا الگ بات ہے۔ بڑھے ہوئے وزن کے لوگوں کو دبلا ہونے کی جدوجہد کرنی چاہئے نہ کمزور ہونے کی۔ چونکہ دبلا ہونے مےں جسم کا تناسب اور چہرے کی رونق باقی رہے گی لیکن کمزور ہو جانے والے چہرے اور حلیے سے بیمار نظر آنے لگتے ہےں۔ ان کی جلد اور ہونٹوں کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اور آنکھوں کی چمک زائل ہو کر ان کے اردگرد سیاہ حلقے نمودار ہو جاتے ہےں۔ بعض تو معدے کو خالی رکھ رکھ کر اس مےں تیزابیت بڑھا لیتے ہےں اور نوبت معدے کے زخموں تک پہنچتی ہے یا یہ لوگ غذائی اجزاءکی کمی سے پیدا ہونے والے امراض مےں گھر جاتے ہےں۔ ہمیشہ ہر معاملے مےں فتح و کامرانی انہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو تندرست و صحت مند ہوں اور وہی لوگ اچھے بھی لگتے ہےں جو تندرست و صحت مند ہوں۔ جو چیزیں کسی شخص کو جاذب نظر بناتی ہےں ان مےں جسم کے متناسب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت بھی ہے اور صحت نام ہے جلد کے پیچھے سے نظر آنے والے خون کا، پھرتی و چستی کا، ہمت و حوصلے اور ہر مشکل کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کا۔ 
علاج اور احتیاط
اب اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جسم، خصوصاً پیٹ و کولہوں پر چربی جمع ہوگئی ہے تو اسے دو کام کرنے چاہئیں۔ پہلا یہ کہ غذا مےں چربی پیدا کرنے والی چیز یعنی نشاستہ کم کر دیا جائے دوسرے جسم مےں ان کا خرچ بڑھا دیا جائے۔ خرچ، محنت و مشقت زیادہ کر کے یا ورزش کر کے بڑھایا جاسکتا ہے اور آمد نشاستے والی اشیاءسے گریز کر کے کم کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ لحاظ رکھنا ہوگا کہ ہم نشاستے والی چیزوں مےں جو کمی کر رہے ہےں، مثال کے طور پر روٹی یا چاول یا شکر مےںاگر کمیکی جا رہی ہے تو اس کمی کو ایسی چیزوں سے بھی پورا کر لیا جائے جن مےں نشاستہ نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ ان مےں بھی زمین کے اندر پیدا ہونے والی ترکاریوں سے پرہیز کیا جائے۔ سلاد کے پتے، ٹماٹر، کھیرا، بند گوبھی اور ککڑی بہت مناسب رہیں گی۔ اگر ان سے طبیعت سیر ہو جانے کا خدشہ ہو تو کسی وقت یہ سبزیاں، ترکاریاں اور کسی وقت ابلا ہوا یا روسٹ کیاہوا گوشت، مچھلی یا دلیہ لیا جاسکتا ہے۔ دالیں چھلکے کے ساتھ پکائی جائیں اور شکر بھی کم کر دی جائے۔ اس طرح وزن مےں جو کمی ہوگی وہ یقیناً آہستہ آہست ہوگی مگر نہ تو فاقے کی مشقت برداشت کرنی ہوگی اور نہ ہی معدے مےں تیزابیت اور اس سے پیدا ہونے والے امراض پیدا ہوں گے۔ ساتھ ہی خون کی کمی اور کمزوری کی علامات چہرے پر نمودار ہو کر اچھی خاصی شخصیت کو مدقوق نہیں بنا سکیں گی۔


Wednesday, 18 July 2012

Riaz ul rehman shagir poetry

درد کی دوا 
یثرب کے مسیحا سے جب تک نہ دوا لو گے
رستے ہوئے زخموں کو ناسور بنا لو گے
امریکہ نے دنیا کو او یار دیا کیا ہے
اک روگ نیا دے گا، کیا اس کے سوا لو گے
یہ جان تو آخر کو، اللہ کو دینی ہے 
شیطاں کی بیعت کر کے کیا جان بچا لو گے
گھس بیٹھیا اس گھر مےں گھر اپنا بنا لے گا
یہ پھر نہیں نکلے گا گر اب نہ نکالو گے
جس طرح بھی ہو ممکن اب قرض سے جان چھوٹے
اس رہن سے آئندہ نسلوں کوچھڑا لو گے
شاداب زمینیں پھر سونا ہی تو اُگلیں گی
قربانیاں کچھ دے کر، گر ڈیم بنا لو گے
دو اولیں اہمیت گھمبیر مسائل کو 
دفتر کو تو ”فیصل جی“ تم پھر بھی سجا لو گے
بہتر ہے جمالی کو کچھ کر کے دکھانے دو
کیا موقع نہ دینے کا الزام اٹھا لو گے؟
ملت نے تو اب تم کو مینڈیٹ دیا ایسا
مل جل کے سبھی آدھا یہ ملک سنبھالو گے
اب کام کرو سارے آپس مےں نہ دو طعنے
کشمیر سے بھارت کو تم کیسے نکالو گے؟
”یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے“
ریاض الرحمن ساغر

سچا قائد؟
کسی بھی تن پر لگ جائے سَر سچے قائدؒ کا
میرے دل مےں پھر سے بنے گھر سچے قائدؒ کا
زندہ راہ نما کے پیچھے مےں دن رات چلوں
خاموشی سے آنکھیں میچے اس کے ساتھ چلوں
کیا نہیں جو ابھی کسی نے کرے وہ ایسا کام
جو میری دھڑکن کو چھو لے دے ایسا پیغام
نصف صدی کی کھوج مےں ہم کو ملا نہیں وہ یار
لے دے کر ہے دل کا سہارا قائد تیرا مزار
ہر ٹھوکر پر یاد آتے ہےں ہم کو ترے اصول
روئیں اور چڑھائیں تیرے مرقد پر ہم پھول
لالچ کو ٹھکرا دینے کی ہمت کہاں سے لائیں
تیرا چہرہ نوٹ پہ دیکھیں اور صدقے ہو جائیں
کس برتے پر ڈالیں تیری آنکھوں مےں آنکھیں 
دولت کی رم جھم مےں دل کے اندر کیا جھانکیں
پورا ملک انگریز سے لڑ کر ہم کو دے گیا تُو
دیکھ سکے تو دیکھ ہمارا کٹا ہوا بازو
دل کہتا ہے جاگ کسی دن مرقد مےں سے بول
تھام ذرا میزان ہمارے آدھے دھڑ کو تول
کہیں پہ ”نون“ کہیں پر ”پی پی“ کہیں پہ قائد لیگ
مسلم لیگ دھڑوں مےں بٹ کر بن گئی ”شائد لیگ“
ریاض الرحمن ساغر

آئی لَو یُو! پاکستان!
ہے تجھ سے میرے پہچان
تُو میری خودی مری آن
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
نہیں تجھ سا کوئی حسیں
یونہی تو پیار نہیں
مےں تیرا نام سُنوں
دنیا مےں جاﺅں کہیں
تری سب سے الگ ہے شان
تُو میرا بھرم، مرا مان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
جب مہکیں تیرے گلاب
نظروں کو کریں شاداب
سانسوں مےں بھریں خوشبو
اور لائے رنگ شباب
دل مےں جاگیں ارمان
تُو اونچی بھر لے آڑان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
یہ دھرتی جنت سی
یونہی تو نہیں ملی
اللہ کی رحمت سے
قائد کی نے ہمیں بخشی
میرے سر پر ہے قرآن
تیرا پیار مرا ایمان
تینوں جند آکھاں کہ جان
آئی لَو یُو! پاکستان!
ریاض الرحمن ساغر

دیدار
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
جب سامنے صورت یار کی تھی
آنکھوں مےں خواب سویرے تھے
اور سانسوں مےں سُر تیرے تھے
لے مدھم دل کے تار کی تھی
پلکوں پہ نمی کے ڈیرے تھے
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
کیا نور تھا چہرے پر آیا
اُتری جو تھکن اسفار کی تھی
جو غیروں مےں چھوڑ آئے تھے
کچھ فکر نہ اُس گھر بار کی تھی
جو بچھڑ گیا تھا رستے مےں
ڈھرکن مےں کسک اس یار کی تھی
پیچھے پیچھے سرخ آندھی تھی
اور آگے سبز پھریرے تھے
جب تیری خاک پہ دھری جبیں
رحمت کے سائے گھنیرے تھے
ہر سُو اپنوں کے چہرے تھے
اپنی باہوں کے گھیرے تھے
آزادی کی سرشاری تھی
جذبات مےں گرمی پیار کی تھی
کیا خوب گھڑی دیدار کی تھی
ریاض الرحمن ساغر

یا رب تیرا شکر ہے!
انا لُٹاتے تو بس اک قدم پہ راحت تھی
ضمر بیچنے جاتے تو کیا قباحت تھی
رہی حقیر سی شے آبروئے نفس عزیز
کہ سر جھکانے کی بچپن ہی سے نہ عادے تھی
جو لوگ پوچھتے ہےں عمر مےں بنایا کیا؟
انہی کے جوتوں سے آباد اپنی چوکھٹ تھی
ہوں جس کی جیسی مرادیں خدا سے پاتا ہے
وہ ہم نے پائی جو درکار ہم کو عزت تھی
بہت سکون سے سوتا ہوں بھوک لگتی ہے
ہمیشہ اتنا ہی کھایا کہ جو ضرورت تھی
نہ در بڑا ہے، نہ دربان ہی کبھی رکھا
نہ کوئی لوٹنے آیا نہ گھر مےں دولت تھی
وہ آج پوچھتے ہےں ہم سے تم کہاں گم ہو 
کبھی ہمارے حوالے سے جن کی شہرت تھی
ہلال رزق سے اولاد کو جو تھا پالا
تو اس کی نظروں مےں پاتا ہوں جو عقیدت تھی
خوشی کے اور تشکر کے اشک موتی ہےں
نظر مےں آج نہ پہلے کبھی ندامت تھی
کسی کی حد مےں جاﺅ نہ اپنی حد چھوڑو
ہے یاد آج بھی ماں کی یہی ہدایت تھی
خدا کا شکر ہوئیں ساری حسرتیں پوری
مےں دل سے پوچھتا رہتا ہوں کوئی حسرت تھی؟
ریاض الرحمن ساغر

اب سب ایک ہوں!
اٹھے ہےں آج ہاتھ میرے آج اک دُعا کےلئے
خدا کی راہ مےں سب ایک ہوں خدا کےلئے
فضول آدھی صدی تک بھٹک کے دیکھ لیا
ہے صاف سمت محمد کے نقش پا کےلئے
بڑھاﺅ ربط و اخوت کہ کوئی شرط نہیں
وفا ہی شرط ہے ہر فرد باوفا کےلئے
کریں پرہیز تو سب روگ کیسے دور نہ ہوں
دوا کے ساتھ ہدایت پڑھو شفا کےلئے
درست قبلہ کرو خود ہی فلم و ٹی وی کا 
ضمیر کافی ہے ہر صاحب حیا کےلئے
ہر احتساب کا آغاز دل سے ہوتا ہے
سزا بھی خود کرو تجویز ہر خطا کےلئے
ہمارے ملک کا جو بھی وزیر اعظم ہو
ہے پُل صراط بڑا اس کی ابتدا کےلئے
گھڑی یہ سخت ہے ہم سب کی آزمائش کی
ہو احتیاط سے آغاز انتہا کےلئے
عدو کی آنکھ مےں کانٹے کی طرح کھٹکے گا
ملا ہے دین کو جو مرتبہ سدا کےلئے
خدا نے موقع فراہم کیا ہے جس جس کو
وہ ہوش گنوا دے نہ پھر خدا کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

چاچے اور دیپاچے
شعر و ادب کے ”چاچے“
لکھتے ہےں جو دیباچے
کم فہم نسل نو کو
اُلو بنا رہے ہےں
بونو کا قد بڑھا کر
پیسے کما رہے ہےں
تعریف کے پلوں پر
لنگڑے چلا رہے ہےں
بے پر کبوتروں کو
اونچا اُڑا رہے ہےں
کچھ شاعرات ایسی 
اور ایسے چند شاعر
پڑھئے کلام جن کا
اک پل بہ نظر غائر
محسوس ہوگا کس کی
چکی کا کھا رہے ہےں
چہرہ ہو خوبصورت 
محنت کی کیا ضرورت
پوچھے گا کون ان سے
کس سے لکھا رہے ہےں
کچھ بھی ہو وہ ادب کی
محفل سجا رہے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

حلف اُٹھاتا ہوں
نہ ہر گز حلف توڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
وفا سے منہ نہ موڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ لاﺅں گا کوئی ترمیم وعدوں اور قسموں کی
نہ لفظوں کو مروڑوں گا، مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بدلوں کا بیاں اپنا کسی بھی سخت مشکل مےں
نہ سچ کا ساتھ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ڈروں گا اور نہ ہر گز ہار مانوں گا رقیبوں سے
کوئی رشتہ نہ جوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
سدا بیٹھا رہوں گا مےں تری زلفوں کی چھاﺅں مےں
ترا آنچل مےں اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
نہ بیچوں کا ترا زیور نہ لوں گا قرض غیروں سے
نہ تیرا خون نچوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مےں خود لالہ اُگاﺅں گا ترا جوڑا سجانے کو
مےں سر سے سنگ پھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
جو تجھ پر جان وارے تجھ کو ایسی نسل نو دوں گا
جوانوں کو جھنجوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
دغا تجھ سے کریں گے جو نہ مانیں گے تری حرمت
انہیں زندہ نہ چھوڑوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
مری جاں سوہنی دھرتی تو فضل و رحمت ربی
مےں تیری خاک اوڑھوں گا مری جاں حلف اُٹھاتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر

سخت مرحلہ
یہ جنوں کی ابتدا ہے
یہی سخت مرحلہ ہے
وہیں تند خو ہےں موجیں
جہاں پل لرز رہا ہے
یہی وقت ہے سفر کا
یہی ایک راستہ ہے
کسی سوچ مےں ہے منصف
یہ مقام فیصلہ ہے
کہو! صاحبان دانش
یہاں سب کی رائے کیا ہے
کسی خوش قدم کی خاطر
در اقتدار وا ہے
وہاں جانے کون پہنچے
جہاں دشت کربلا ہے
کوئی سن سکے تو سن لے
یہ جو وقت کی نوا ہے
وہی پھر سے ہو نہ جائے
کئی بار جو ہوا ہے
تو مزے سے لوٹ ساغر
یہ جو فقر مےں مزہ ہے
ریاض الرحمن ساغر

میریا ڈھول سپاہیا!
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں ساری قوم دیاں اکھاں
ہن پالے شیروانی تیری بڑی مہربانی
جدوں ویکھے واجپائی اوہدی مر جائے نانی
جیہڑی گل اے ضروری ہن کر دے توں پوری
انہوں چھڈ نہ اودھوری کہ ایہہ وے ریت جمہوری
تیرے نال نیں وچوں سارے چودھری قصوری 
جنے چاہویں گا توں تینوں اونے ووٹ ملن کے
تینوں وچ ریفریڈم ووٹ پائے اسی لکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں گورے بش دیاں اکھاں
تیرے نال نیں وڈیرے تیرے نال اے جمالی
توں ای صدر ہویں گا ہور کئی سال ہالی
تیرے در تے کھلوتے سارے رہن گے سوالی
اہ وی ووے گی سیاسی تیری رسم مثالی
تیری لمی حیاتی لئی مےں منتاں سکھاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ہن وردی توں لا ہکے، سوہنا سوٹ بوٹ پا کے
کوئی چھڈ خوشخبری یارا ٹی وی اتے آکے
بنا وردی وی توں تے سدا رہویں گا کمانڈو
اک دن ویریاں دے کڈ دیویں کا کڑاکے
تکاں تینوں بنا وردی تے مےں تکداں نہ تھکاں
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
ریاض الرحمن ساغر

بال ٹھاکرے خبردار
بہتر یہ ہے نہ حد سے بڑھے بال ٹھاکرے
بھارت کے مسلمانوں کی تلوار سے
ہندوستان صدیوں تھا مغلوں کی سلطنت
اکبر نے جودھا بھائی کو دی شان زوجیت
وارث سلیم ”شیخو“ ہوا تخت و تاج کا
حق مسلمانوں کو آج بھی ہے اس پہ راج کا
راجہ و مہاراجہ تھے انگریز کے غلام
کرتے رہے نواب بھی انگریز کو سلام
قائد کو اور نہرو و گاندھی کو دو دُعا
ہندوستان آخرش آزاد ہوگیا
انگریز جاتے جاتے بھی اک ہاتھ کر گیا
مجروح مسلمانوں کے جذبات کر گیا
بھارت کو مسلمانوں کے کچھ شہر دے گیا
اور تم سے شیش ناگ کو بھی زہر دے گیا
وہ زہر پھن بھلا اُگلتے ہو تم سدا
ایسا نہ کچل دے مسلمان یہ گلا
تم شر پسند ہندو کے ماتھے کا ہو کلنک
کرتے ہو نشر منہ سے تعصب کا صرف ”چنگ“
بھارت مےں جتنے ہندو بھی ہےں سیکولر مزاج
تم انتہا پسندوں کو دیتے نہیں خراج
مےں ان سے کہہ رہا ہوں کہ تم کو لگام دیں
غنڈے سے بڑھ کے تم کو نہ کوئی مقام دیں
ورنہ تمہاری وجہ سے وہ مارے جائیں گے
دنیا مےں ہر جگہ سے وہ دھتکارے جائیں گے
ریاض الرحمن ساغر

صبح کا تارا کیوں لوں
ڈوبتے ڈوبتے تنکے کا سہارا کیوں لوں
چاند پاﺅں نہ، تو مےں صبح کا تارا کیوں لوں
جگمگاتی ہوئی شب تابہ سحر چاہتا ہوں
چنددم توڑتی کرنوں کا اشارہ کیوں لوں
راستہ چاہئے اب کاہکشاں سا مجھ کو
ڈھلتے خورشید کا احسان دوبارہ کیوں لوں
مجھ کو سیدھا سمندر کی طرف ہے جانا
گھومتی گھامتی ندیا کا کنارا کیوں لوں
بعد مدت کے سنی موسم گل کی آہٹ
ہاتھ مےں پھر سے کوئی شوخ شرارہ کیوں لوں
اپنے حصے کا تو دکھ درد ہے سب مےں سے سہا
غیر کے زخم کا یہ زہر مےں سارا کیوں لوں
اب تو اپنوں کا ہی بس پیار مجھے کافی ہے
اپنی باہوں مےں کسی اور کا پیارا کیوں لوں
یا تو لگنا ہے کنارے سے یا بہہ جانا ہے
کسی تالاب مےں گرتا ہوا دھارا کیوں لوں
چاند پر جانے کو اک عمر خلا مےں گزری
ٹوٹ کے گرنا ہے جس کو وہ ستارہ کیوں لوں
پہلے بے چارہ تھا اس وقت نہیں بے چارہ
نفع کیوں چھوڑوں ساغر مےں خسارہ کیوں لوں
ریاض الرحمن ساغر

ماتحتوں کے ساتھ سلوک
ماتحتوں کے ساتھ نہ رکھ ناروا سلوک
رب دیکھتا ہے بندے سے بندے! یترا سلوک
مت بھول رب کے سامنے جانا ہے اک دن
اعمال نیک و بد کو فرشتے رہے ہےں گن
ٹوٹے ہوئے دلوں سے نکلتی ہے جو بھی آہ
وہ تو ہلا کے عرش کو لے لیتی ہے پناہ
میزان عدل عرش کبھی ڈولتا نہیں
انسان کی طرح تو وہ کم تولتا نہیں
ظالم اسی جہاں مےں پا لیتا ہے سزا
ہو جاتی ہے عذاب الٰہی کی ابتدا
مظلوم خود معاف کرے تو ہے بات اور
کرتا ہے صرف اس کی دعا پر خدا بھی غور
جو ظلم تو نے جانے یا انجانے مےں کیا
مظلوم سے معافی کی کر جائے التجا
قبل اس کے بند توبہ کا در کرے وہ خدا
لے اس کی بارگاہ مےں مظلوم کی دعا
مایوس ہو کے رب سے جو کرتے ہےں خودکشی
کیوں بھولتے ہےں رب کی امانت ہے زندگی
رب کریم! سب کی خطائیں معاف کر
کہتا ہے تجھ سے سجدے مےں ساغر جھکائے سر
ریاض الرحمن ساغر

طوائف کا معیار! شیخ جی!!
گئے دن جب طوائف کا بھی اک معیار ہوتا تھا
کبھی امراﺅجاں جیسا بھی اک کردار ہوتا تھا
وہ آداب محافل بھی سکھاتی تھیں نوابوں کو
تو پھر موج تعیش مےں بہاتی تھیں نوابوں کو
تب ان کے رقص و نغمہ سے عیاں ہوتی تھی فنکاری
جھلکتی تھی ادائے دلربانی مےں وضع داری
کبھی وہ چھوڑ کر کوٹھا حویلی مےں جو بستی تھیں
تو پھر ناگنکی طرح اہل خانہ کو نہ ڈستی تھیں
نہیں انکار، ہوتی تھیں لجھیائیاں تب بھی
شریفوں کے گلے پڑ جاتی تھیں رسوائیاں تب بھی
مگر اے ”شیخ جی“ جو آج کی گندی طوائف ہے
شریف اور نیک و سادہ ہر گھرانہ اس سے خائف ہے
لہٰذا پی ٹی وی سے دور رکھئے اس طوائف کو
کہ اس کے شر سے ہے خطرہ بیچاری ہاﺅس وائف کو
یہ مانا عالمی ابلاغ کے بھی کچھ تقاضے ہےں
مگر ملک مےں دلدادہ ¿ مشرق بھی رہتے ہےں
ہمارے شعر و موسیقی کا اپنا حسن ہے پیارے
دکھاتے ہےں کئی چینل بہت مغرب کے نظارے
ہمارے پی ٹی وی مےں رنگ ہو اپنی ثقافت کا
چنانچہ ختم کیجئے ناچ اس پر مست وحشت کا
وگرنہ دیجئے ہر چوک مےں مجرے کی آزادی
کہ نسل نو کی ہو اس سرزمیں پر کھل کے بربادی
سر شب ہر جھروکے مےں بدیسی ناچ گانا ہو
تو پھر اس پاک دھرتی کا ہر اک منظر سہانا ہو
ریاض الرحمن ساغر

ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں تو چلتے رہنا تھا
ہمیں تو دور جانا تھا
ہمیں کچھ کرتے رہنا تھا
ہمیںکچھ کر دکھانا تھا
مگر ہم نے کیا کیا ہے؟
نتیجے مےں لیا کیا ہے؟
ہمیں لہروں سے لڑنا تھا
ہمیں تو پار جانا تھا
ہم اپنے خود محافظ ہےں
زمانے کو بتانا تھا
مگر ہم نے تو بھنور مےںہےں
اگرچہ اپنے گھر مےں ہےں
یہ کس ویراں ڈگر مےں ہےں
کہ لگتا ہے کھنڈر مےں ہےں
ہمیں تو کھیت بونا تھا
ہمیں سبزہ اگانا تھا
ہمیں نان و نمک اپنا
پڑوسی کو کھلانا تھا
ہمیں کیوں قرض لینا تھا
لیا تھا تو چکانا تھا
مگر ہم مست موسم مےں
فقط گڈی اڑاتے ہےں
تو پھر کیوں چیختے ہےں جب
جہاں والے ڈراتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

شاہینوں کا سفر شہادت
آسماں سے چمکتے ستارے گئے
کتنے انمول شاہیں ہمارے گئے
کہکشاں کے مسافر زمیں کھا گئی
ہائے اڑتے پرندوں کو موت آگئی
مان ہم کو تمہاری اڑانوں پہ تھا
وہ جو پہرہ پہاڑوں چٹانوں پر تھا
کہساروں کو وہ سرخرو کر گیا
قوم کی آنکھوں مےں وہ لہو بھر گیا
گرم خوں تھا تمہارا بھی جوش مےں
لو گئے برف کی ٹھنڈی آغوش مےں
پھول تابوت پر پُوت تابوت مےں
لو چلے کتنے یاقوت تابوت مےں
ماﺅں بہنوں کی آنکھوں مےں اشک رواں
لے چلے ہو ہمارا اثاثہ کہاں
ننھے بچوں کی آہیں ہواﺅں مےں ہےں
سسکیاں دوستوں کی فضاﺅں مےں ہےں
وہ جبینوں پر مہر شہادت لیے
جا رہے ہےں جو داد شہادت لیے
پہنچے اس ملک و ملت کا ان کو سلام
ان کو جنت مےں حاصل ہو اعلیٰ مقام
اب لواحق کو انکے خدا صبر دے
جذب ایثار کا قیمتی اجر دے
ریاض الرحمن ساغر

حمید نظامی، مینار صحافت
مینار صحافت کوئی تجھ سا نہیں آیا
معیار صحافت کہیں تجھ سا نہیں پایا
تسلیم تری جرا ¿ت اظہار نظامی
آگے کسی آمر کے کبھی سر نہ جھکایا
دائم ہے حمید اور مجید آج بھی قائم
سچائی کے رستے پہ جو قائدؒ نے دکھایا
اخبار کے پردے مےں تجارت نہ کبھی کی
دولت کے لئے آن کو بیچا نہ گنوایا
جو ہونٹوں پہ لاتے ہوئے کتراتے رہے ہےں
سلطان کے ایوان وہ نعرہ لگایا
سچ کہنے پہ طوفان کئی راہ مےں اٹھے
ٹھٹھکانہ رکا، تو نے قدم آگے بڑھایا
اقبالؒ ترے دل مےں دھڑکتا تھا نظامی
قائدؒ کا ہمیشہ ترے سر پر رہا سایہ
آزادی کی تحریک مےں اعلیٰ تری خدمات
سونپا گیا جو تجھ کو وہ کردار نبھایا
تو عالم اسلام کی یکجہتی کا داعی
قرآن کا پیغام صدا تو نے سنایا
جو سوچتا اور لکھتا ہے اخبار مےں ساغر
یہ تیرا قرینہ تھا یہ تو نے ہی سکھایا
کچھ لوگوں پہ تو خاص کرم کرنا ہے یا رب
ہو لحد نظامی پہ کرم خاص خدایا
ریاض الرحمن ساغر

”بش“........ خدا سے ڈر!
خدا کو چاہے تو سب پوری خواہشیں کر دے
وہ اپنے بندوں کی کم آزمائشیں کر دے
بنائے بے کس و کمزور کو جواں قوت 
وہ شہ زور کی کمزور طاقتیں کر دے
ملائے خاک مےں سر پھروں کا سارا غرور
رگوں مےں خون کی مفلوج گردشیں کر دے
وہ بھر دے ذہن مےں بے کار اور بری سوچیں
پھر ایسے شخص پہ دنیا کی لعنتیں کر دے
کرے وہ پیدا جو فرعون کے لئے موسیٰ
تو کوہ طور کی روشن وہ رفعتیں کر دے
زمین اس کی ہے، ہےں ساتوں آسماں اسکے
وہ خوش جو ہو تو زمانے پہ رحمتیں کر دے
مجھے یقین ہے ”بش“ سے وہ خوش نہیں ہوگا
جو اس زمین پہ پیدا مصیبتیں کر دے
وہ عزم و حوصلہ بخشے جو ناتوانوں کو
تو سرفروشوں کی بیدار ہمتیں کر دے
وہ مرد فقر خمینی سا جو کرے پیدا
تو بادشاہوں کی غارت حکومتیں کر دے
چنانچہ مشورہ میرا یہی ہے، بش کے لئے
بھلا کے جنگ کو تازہ محبتیں کر دے
وگرنہ عرش سے آفت نہ ایسی آ جائے
جو اس کی نیست و نابود قوتیں کردے
ریاض الرحمن ساغر

خود کلامی
کبھی اکیلے مےں خود سے کلام کرتا ہوں
تو اپنے نام یہ جاری پیام کرتا ہوں
یہ ملک تجھ کو خدا نے نہ گر دیا ہوتا
تو ایک سانس سکھ کا کبھی لیا ہوتا؟
تو سوچتا ہے کہ کیا اس زمیں پہ تیرا ہے
طرح طرح کے مسائل نے تجھ کو گھیرا ہے
چمکتا تیرے گھروندے مےں کوئی چاند نہیں
ہے ملک تیرا تو آنگن مےں کیوں اندھیرا ہے
جو تیرا خون پسینہ ہے کھیتوں مےں رچا
تو آب و دانہ کا مختار کیوں وڈیرہ ہے
یہ آبشار سر کہسار تیرے ہےں
طلوع ہوتا ہوا آبشار تیرا ہے
تری ہی نسل کی جاگیر ہے یہ ہریالی
تیرے لئے ہی مہکتی ہے ہر جواں ڈالی
یہ پیڑ تیرے ہےں تو بیٹھ ان کی چھاﺅں مےں
چلے گا تیرا ہی قانون تیرے گاﺅں مےں
یہ نہر تیری ہے دریا کا پاٹ تیرا ہے
تو محو رقص ہو لہریں پہن کے پاﺅں مےں
تو اپنی رائے کو اپنی یقیں کی طاقت دے
تو اپنی خواہش و جذبے کو بھی صداقت دے
مےں تیرا فردا فقط تیرے نام کرتا ہوں
تو بادشاہ ہے، تجھ کو سلام کرتا ہوں
ریاض الرحمن ساغر

میرٹ پر روزگار؟
ہمارے ملک مےں میرٹ پہ کام کیسے ہو
کسی کے حق کا یہاں احترام کیسے ہو
اُداس نوجوان پھرتے ہےں ڈگریاں لے کر
نوازشیں ہےں وزیروں کی صرف اپنوں پر
وہ بے نوازوں کی دانش نہ اہلیت دیکھیں
نہ تجربے کی سند اور نہ تربیت دیکھیں
وہ بے ہنر کو سفارش سے آگے لاتے ہےں
ذہین لوگوں سے ہر پل نظر چراتے ہےں
جو کام اچھے بھی ہوں سابقہ حکومت کے
انہیں وہ کرتے ہےں رد بے رحم سیاست سے
ملازمین کی بھرتی گریڈ سولہ تک
کمشن کرتا تو کم ہوتا ہر کسی کو شک
یہ اختیار کمشن سے لیا واپس
کریں گے بھرتی سفارش سے ہر کس و ناکس
یہ ایک بحکم نہیں ہے تو اور پھر کیا ہے
کھلا ہوا یہ میری نسل نو سے دھوکہ ہے
جو روزگار کی تقسیم خام کر دیں گے
وہ خاک ملک مےں تعلیم عام کر دیں گے
خدایا ملک، بے ایمان لیڈروں سے بچا
جو تیرے نیک ہےں بندے انہیں اب آگے لا
عطا ہو عدل کی توفیق حکمرانوں کو
کہ آگے بڑھنے کا رستہ ملے جوانوں کو
ہے دل مےں جو تھوڑی سی آس مر نہ جائے کہیں
ترے بھی ہونے کا احساس مر نہ جائے کہیں
ریاض الرحمن ساغر

مےں تیار ہوں
اپنی باہوں مےں لے لوں مےں سات آسماں
پیار کے پر ملیں تو اڑوں!
سارے صحراﺅں مےں کھل اٹھیں گلستاں
ساتھ دریا چلے تو چلوں
خوب جوشِ جنون اب امنگوں مےں ہے
اک جوں ولولہ اب ترنگوں مےں ہے
مےں تو تسخیر کر لوں سی سارا جہاں
کوئی آگے بڑھے تو بڑھوں!
عزم و ہمت ہے پختہ، ارادے بھی ہےں
کیا کروں ساتھ کچھ شہزادے بھی ہےں
قرض کی مے جو پی پی کے ہےں شادماں
صرف خون جگر مےں پیو ¿ں!
دوستو! نسل نو کی مےں آواز ہوں
تازہ ہوں دم بہ دم مےں مےں دمساز ہوں
ہر طرف رہنماﺅں کا ”شور بیاں“
کوئی میری سنے تو کہوں!
شکر کرتا ہوں مےں اپنے اجداد کا
مشورہ ہے مجھے میرے ہمزاد کا
آگے بڑھ اور لکھ اک نئی داستاں
کیا کروں مےں پڑھوں تو لکھوں
ہے کوئی رحم دل جو قلم دے مجھے
میرے جذبے سراہے قلم دے مجھے
شمع بن کر مےں روشن کروں بستیاں
کوئی شعلہ ملے تو جلوں!
ریاض الرحمن ساغر

عذاب و ثواب کا دن
جو ایک دن کا ہو تو سہہ لیں عذاب کا ایک دن
وفور مستی، مست شباب کا ایک دن
ہمارے ملک مےں ہر دن بسنت رہتی ہے
کریں وہ کاش معین عتاب کا ایک دن
ہر اک محلے مےں دوچار سر پھرے ہر دن
پتنگ اپنی چھتوں پر اڑاتے رہتے ہےں
جو ان کو منع کرے کوئی تو بجا کے بگل
وہ اہل خانہ کو اس کے چڑاتے رہتے ہےں
شدید موسم گرما مےں بھی یہ دیکھا ہے
ذرا جو ابر جو چھائے تو پتنگ لہرائے
جو دھاتی تار گرے تار برق پر تو رو
یوں منقطع ہو کہ گھنٹوں نہ لوٹ کر آئے
نہائے طفل پسینے مےں رو کے کہتے ہےں
ہے کوئی لعنت خانہ خراب کا اک دن
گلی مےں کھیلتا بچہ شہید ڈور ہوا
تو تھوڑی دیر کو ہنگامہ اور شور ہوا
پھری یہ تیغ جو دھاگے کی تو کٹی شاہ رگ
جوان جوڑے کی اموات پر نہ شور ہوا
بہت سے بجلی کے تاروں مےں مر گئے پھنس کر
ہے ایسی موتوں کا کوئی حساب کا اک دن
خوشی مناﺅ بہاروں کی گھر مےں آمد پر
مگر نہ بھولو عذاب و ثواب کا اک دن
ریاض الرحمن ساغر

چودہ کروڑ انسانو!
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
بچو اب ان سے جو اپنا ضمیر بیچتے ہےں
اب ان کو ڈھونڈو جو خوں سے زمیں سینچتے ہےں
بڑھاﺅ آگے محب الوطن جوانوں کو
گلے لگائیں جو مزدور اور کسانوں کو
کریں خرابوں مےں تازہ کھیتیاں آباد
جو ان وڈیروں سے خود کو کرا سکیں آزاد
جو عدل دے سکیں بیواﺅں اور یتیموں کو
جو بیچ کھائیں نہ امداد کی سکیموں کو
جو روح قائد و اقبال کو مسرت دیں
جو اپنی قوم کے دل کو خودی کی دولت دیں
وہ جن کے پیش نظر بس مفاد ذات نہ ہو
گروہ کا کوئی گرفتار ذات پات نہ ہو
جھکیں نہ غیر کے آگے جو راحتوں کے لئے
فراغ دل ہوں جو انسان کی چاہتوں کے لئے
اب اپنی رائے کی طاقت بڑھاﺅ، آگے برحو
خود اپنا سویا مقدر جگاﺅ آگے بڑھو
نہ بھولیں وہ جو لٹیرے ہےں اور ڈاکو ہےں
وہ سب نظر مےں ہےں آنکھیں ہماری جگنو ہےں
غریب ملک کے چودہ کروڑ انسانو!
خدا کے واسطے اچھے برے کو پہچانو!
ریاض الرحمن ساغر

بسنت کیا ہے
وہ پوچھتے ہےں بسنت کیا ہے
یہ بے حیائی کا انت کیا ہے
یہ ایک تہوار ہندوﺅں کا
لہو پیا جس نے مسلموں کا
بپا چھتوں پہ بسنت دیکھو
سروں سے آنچل ”اڑنت“ دیکھو
چلو یہ مانا بہار آئی
وہ پھول چہروں پہ رنگ لائی
چمن کو اس نے نکھار بخشا
کلی کلی کو سنگھار بخشا
تو ہوش کیا اب تمام کر دیں؟
کلی کو کیا نقش بام کر دیں؟
گلی گلی غل مچائیں بھنورے؟
یہ ہو تو ہنگامہ عام ہوگا
ہمارا پھر کیا مقام ہوگا
یہ وقت و زر کا زیاں ہے پیارو
یہ جان لیوا سماں ہے پیارو
ہماری غیرت کی موت ہے یہ
وقار ملت کی موت ہے یہ
یہ جشن مرگ وقار کب تک؟
یہ شور و غل دل فگار کب تک؟
ریاض الرحمن ساغر

واجپائی.... شادی؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی
اور کوئی بیٹی بھی ہوتی
ہوتے آپ اگر کشمیری
وہ کشمیر مےں جلتی ہوتی
آپ کے سینے مےںدل ہوتا
جو انصاف کا قائل ہوتا
وادی کو برباد نہ کرتے
اس کی رد فریاد نہ کرتے
دیتے وادی کو آزادی
اور کرتے بیٹی کی شادی
بھیگی آنکھیں دل تڑپاتیں
انسانی جذبے سمجھاتیں
آپ نے گر شادی کی ہوتی
آپ کی بھی کوئی بیوی ہوتی
بھارتی فوجی کی گولی سے
وہ بیوی بیوہ ہو جاتی
بیٹے کو بندوق تھماتی
قطرہ لے کر خون جگر کا
اس کے ماتھے تلک لگاتی
وہ بیٹا پھر جو کچھ کرتا
بھارت کیا خمیازہ بھرتا؟
آپ نے گر شادی کی ہوتی!
بولی پیار کی سمجھی ہوتی!!
ریاض الرحمن ساغر

لوٹا لوٹی
جو باہم لڑ رہے ہےں ”لوٹا لوٹی“
کہیں وہ ہو نہ جائیں سوٹا سوٹی
خیال خاطر احبابرکھیں!
وہ جن کا منہ بڑا ہے بات چھوٹی
جب ان کی مانگ ہی ہے جان لیوا
تو کیوں پیچھے پڑی ہے پھر یہ چوٹی
کہاں گوجرانوالہ کے بٹیرے
یہاں ملتی نہیں ہے دال روٹی
مفاد ذات پہلے دیکھتے ہےں
یہی ہے لیڈروں کی اک کسوٹی
جو بھاگیں گے چرا کر قومی دولت
نہ ان کی ہاتھ آئے گی لنگوٹی
نہ جانے ہو گا کیا انجام ان کا
ابھی سے نیتیں ہےں جن کی کھوٹی
ہمارا کی انہیں احساس ہوگا
کہ ان کے دل ہےں بے حس توند موٹی
حسینہ وہ کہ جس دل کا حسیں ہو
بلا سے شکل ہو کالی کلوٹی
ہےں جن چار بچے ایک روٹی
نصیبوں مےں کہاں ہے ان کے بوٹی
یہی ہر وقت ساغر سوچتا ہے
برے ہےں رہنما یا قوم کھوٹی؟
ریاض الرحمن ساغر

عمران تک رہیئے
بھابی جمائما کو نہ الزام دیجئے!
عمران خان کا ان سے تو بدلہ نہ لیجئے
مانا کہ لب و لہجہ سیاست کا ہے یہی
جھوٹے لبوں پہ بات اچھلتی ہے ان کہی
عمران کی کہی کا دو عمران کو جواب
اس کی جمائما کو سزا کیوں ملے جناب
ہیرو وہ اپنے شعبے کا جان عوام ہے
محبوب اک جہان مےں اس کا بھی نام ہے
خاتون اب جو اس کی شریک حیات ہے
اس رو سے احترام کے لائق وہ ذات ہے
اس نے کسی کی ”سیتا“ پہ انگلی نہیں دھری
بینکوں سے قرض لے کے تجوری نہیں بھری
چندہ لیا تو صرف کیا کار نیک پر
کینسر کا ہسپتال ہے ظاہر ہر ایک پر
اس کا قصور ہے کہ سیاست مےں آگیا
شفاف قلب لے کے غلاظت مےں آگیا
اب آگیا تو ڈٹ کے لڑے جنگ انتخاب
اس کی ریاضتوں کا ملے گا اسے ثواب
ریاض الرحمن ساغر

زبردست۔ ذہنیت پست
کہتے ہےں اپنے منہ سے، ہے امریکہ زبردست
دعویٰ بلند و بانگ سہی، ذہنیت ہے پست
دنیا کے جاہ و حشم پر اترا رہا ہے بش
ہوتا نہیں خدا کبھی ایسے بیاں سے خوش
لے ڈوبتا ہے قوم کو لیڈر کا بڑا بول
نکلے جو اس زبان سے پہلے وہ لفظ تول
طاقت کے بل پہ دنیا کو دو گے اذیتیں؟
مانے گا کونامن کی جھوٹی نصیحتیں؟
امریکہ سے ہے دنیا کی نفرت کا یہ سبب
انسان کے حقوق کا کرتا نہیں ادب
ہاتھی کی سونڈ ہی مےںگھس جائے اب عراق
پاگل بھی ہو چلا ہے جو پہلے تھا صرف مست
ہوگا وہ حشر برپا کہ بدلے گا یہ نظام
قبل اس کے بند توبہ کے در ہو چکیں تمام
اے بش معافی اپنے خدا سے تو مانگ لے
ایسا نہ ہو گناہوں کی ہر حد تو پھلانگ ہے
دنیا مےں بانٹ مہر و وفا اور محبتیں
امریکہ کو ملیں گی نہ بدلے مےں نفرتیں
کر دے غریب ملکوں سے غربت کا خاتمہ
گر تو ہے زبردست تو پھر کیوں ہے تنگ دست؟
ریاض الرحمن ساغر

پی ٹی وی سالانہ ایوارڈ
پی ٹی وی ایوارڈ کی محفل جاری ہے
اک انور ہے ایک ”بشریٰ انصاری“ ہے
دونوں باہم بھائی بہن منہ بولے ہےں
اور ان پر قربان کراچی ساری ہے
اک دوجے کی تعریفیں کمپیرنگ مےں
چھری معین اختر کی بھی دو دھاری ہے
”تھری ان ون“ کا کھیل کراچی مرکز پر
ہر اک شو اس ٹیم کی ذمہ داری ہے
ان تینوں کی اپنی اپنی خوبی ہے
”سیلف پریزنگ“ تینوں کی بیماری ہے
سہ رکنی یہ ”کونسل آف کمپیئرز“ ہے
چوتھے کی رکنیت مےں دشواری ہے
پی ٹی وی ایوارڈ تو یہ سالانہ ہے
آئندہ اکتوبر اس پر بھاری ہے
اس مےں شامل نہیں کلاسیکل میوزک
”پوپ“ سے یاری، اس کی خاطر داری ہے
”ایمن“ کی آنکھوں مےں غم کے آنسو ہےں
اور سکتے کے عالم مےں ”درباری“ ہے
پوچھے کوئی حال ”میاں کی ٹودی“ کا
ساغر ”بھیروں“ پر تو رقت طاری ہے
ریاض الرحمن ساغر












قومی زباں کی بات
یادش بخیر! پھر چلی، قومی زباں کی بات
صد شکر! طاق نسیاں کو اُٹھا کسی کا ہاتھ
آزاد ہےں تو فکر و نظر کیوں رہیں غلام؟
اُردو زباں کو کیوں نہ ملے دفتری مقام
اس جاں بلب کو پھر کسی ”وائیں“ کی ہے تلاش
بننے سے جو بچائے اسے ایک سرد لاش
”پی ٹی وی“ پر دست تلفظ نہیں رہا
مدت سے ریڈیو نے نہیں مستند کہا
اُردو مےں لفظ و لہجہ ¿ انگریزی عام ہے
قومی زباں کی آن و انا ریزی عام ہے
سیکرٹری ثقافت صوبہ ہےں، اشک خیز
حس لطیف رکھتے ہےں اُردو ادب مےں تیز
سنتے ہےں اہلیہ ہےں گورنر کی شاعرہ
ہو زیر اہتمام جو ان کے مشاعرہ
اردو کا حال زار گورنر سے ہم کہیں
اس کو حرم مےں اپنے رکھیں جب تلک رہیں
اک بار جو یہ ”قصر گورنر“ مےں آئے گی
ایوان صدر مےں کبھی راہ پائے گی
تحریک اب چلی ہے تو ”شوکت“ سے یہ چلے
بہتر ہے اب عنان حکومت سے یہ چلے
اس کے لئے جو تم نے بھری آہ ”شاہ جی“
کچھ کیجئے! کہ لوگ کہیں واہ شاہ جی
ریاض الرحمن ساغر

مہنگائی نے چھکے چھڑا دیئے
پٹرولیم کے نرخ فلک پر چڑھا دیئے
اوپر سے ویگنوں کے کرائے بڑھا دیئے
دشوار کر دیں اور غریبوں کی منزلیں
مہنگائی نے کچھ اور ستم ان پہ ڈھا دیئے
بجلی کے نرخ پہلے ہی جاں لیوا کم نہ تھے
جھٹکے نے سوئی گیس کے چھکے چھڑا دیئے
غربت مےں ایک دن ذرا جی کر دکھائیں تو
کہتے ہےں جو عوام کے شکوے مٹا دیئے
بنوا لئے لٹیروں نے اپنے لئے محل
ٹوٹے ہوئے گھروندوں کے چولہے بجھا دیئے
اس ملک مےں رئیسوں نے پالے ہوئے ہےں سگ
اور ”صائمہ“ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیئے
مرنے کے بعد کرنا نہ ”نصر اللہ“ سے سوال
کیوں تم نے ”پارساﺅں“ کے چہرے دکھا دیئے
سب کر رہے ہےں ”میرا“ سے شکوہ کہ جانِ من
کیوں تم نے بزم غیر مےں جلوے دکھا دیئے
نکلیں جو تام جھام سے شاپنگ کو بیگمات
رشوت کے نوٹ ایک ہی دن مےں لٹا دیئے
ایماندار لوگوں کی روتی ہےں بیویاں
بچوں کے جیب خرچ جنہوں نے گھٹا دیئے
”لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ ¿ امید“
خوش فہمیوں کے سارے دیئے ہی بجھا دیئے
ریاض الرحمن ساغر

اے جھوٹے بش
اے بش! تجھ کو پہچان نہیں
جھکنا مومن کی شان نہیں
نعرہ یہ پاکستان کا ہے
کشمیر نہیں یا جان نہیں
تو جذب جہاد کو کیا سمجھے
تو نے تو پڑھا قرآن نہیں
محبوبہ، موت مجاہد کی
یونہی تو اونچی شان نہیں
بھارت تیرا پروردہ ہے
تجھے پیارا پاکستان نہیں
منظور کریں امریکی حل
اتنے بھی ہم نادان نہیں
آئیں گے نہ تیرے جھانسے مےں
تو اک عادل انسان نہیں
تو چاہتا ہے ”نیو ورلڈ آرڈر“
یہ اتنا بھی آسان نہیں
تری چوکھٹ پر جو جھک جائے
کمزور اتنا ایمان نہیں
ہوگا بھگوان تو بھارت کا
تو دنیا کا بھگوان نہیں
ریاض الرحمن ساغر

تھیٹر فحاشی۔ آرٹس کونسل
لو نہ بڑھے اگر دل کے دیئے کی دُور اندھیرا کیسے ہو
چیریں نہ کرنیں رات کا سینہ یار سویرا کیسے ہو
کم ہو فحاشی کیا تھیٹر مےں جب نہ جلیں کچھ نئے دیئے
لوگ بلائے، اک میٹنگ کی، اور پھر بستے باندھ لئے
ہوتا کیا ہے آرٹ اور کلچر کچھ بھی جنہیں معلوم نہیں
خوش ہوتے ہےں پاس بٹھا کر شام کو چہرے چار حسیں
دیتی ہے سرکار گرانٹیں ایسے چند اداروں کو
دیتے ہےں ترجیح جو اہل فن پر اپنے پیاروں کو
بامقصد اور معیاری اسٹیج سجے بھی تو کیسے؟
خانہ پری مےں ہو جاتے ہےں خرچ گرانٹوں کے پیسے
ہو کر جب تبدیل کوئی باذوق افسر آجاتا ہے
محنت اور دیانت سے ہر الجھن کو سلجھاتا ہے
مکھیاں مارنے والا عملہ اس کے آڑے آتا ہے
وہ بیچارہ سکریٹریٹ مےں دل کو تڑپاتا ہے
سوچتا ہے تتر بتر گرگوں کا گھیرا کیسے ہو
ختم فحاشی کا ہر اک تھیٹر سے ڈیرہ کیسے ہو
میز پہ اس کی، کئی مسائل اور بھی ہوں حل کرنے کے
کیا کر سکتا ہے پھر وہ سوائے بیٹھ کے آہیں بھرنے کے
یا رب سچے افسر کو اچھا اور سچا عملہ دے
یا پھر بڑے عملے کو، کوئی افسر بگڑا، کملا دے
ریاض الرحمن ساغر

گورنر۔ بھیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
کچھ بھیڑیئے بیٹھے ہےں جہاں فیس بدل کر
اس نگری مےں رشوت بنا پتہ نہیں ہلتا
انصاف نہیں عدل کے ایوان مےں ملتا
ہو عام اہل کار کہ ہو وہ کوئی ریڈر
فائل کو اڑاتا ہے جو نوٹوں کو لگیں پر
سائل کوئی مفلس ہو تو سنتا نہیں فریاد
پھرتے ہےں مصیبت زدہ ہر موڑ پہ ناشاد
بکتی ہے سرعام جہاں جھوٹی گواہی
منشی یہ وکیلوں کے عدالت کے سپاہی
ہر قاعدے قانون کو اک کھیل بنا کر
لے آتے ہےں مظلوم پہ کچھ ایسی تباہی
ہوتی نہیں ملزم کی کئی ہفتے ضمانت
رکھ دیتے ہےں بیچارے کا یہ کیس بدل کر
آجاﺅ کچہری مےں کبھی بھیس بدل کر
پھر دیکھئے حالات کبھی جیل مےں جا کر 
قیدی سے کریں بات کسی جیل مےں جا کر
رہ جائیں گے سر تھام کے پھر آپ گورنر!
ہر طرح کے ہوتے ہےں وہاں پاپ گورنر!
اک تھانے مےں جانے سے کہاں بات بنے گی
یہ رات کسی سچے سویرے سے ڈھلے گی
کیا جھانکو گے تم تنہا ہر ایک اندھے کنویں مےں
بے چہرہ نظر آئے گا ہر ظلم دھوئیں مےں
درویش ہو تھک جاﺅ گے تم بھیس بدل کر
ریاض الرحمن ساغر

مزید سات سال........؟
لو جی، انہوں نے مانگ لئے اور سات سال
کہتے ہےں ملک و قوم کو کر دیں کے وہ نہال
شامل جو پچھلے تین کریں اگلے سات سال
ہم اپنی ڈھلتی عمر سے دیں دس برس نکال
آئندہ سامنے جو نئے چہرے آئیں گے
کیا آج ان کے بارے مےں ظاہر کریں خیال
ہر راہ بر کے پیچھے چلیں اور دُکھ سہیں
منزل کہاں ہے؟ پوچھیں کسی سے ہے کیا مجال
ستر برس جو چاہئیں، لے لیجئے حضور
لیکن ہر اک برس مےں کوئی کیجئے کمال
اکسٹھ برس کی عمر مےں اب ہم سے جو بھی ہو
ہم کو تو نسل نو کی تباہی کا ہے ملال
لِللّٰہ اس کو رخت سفر کچھ تو دیجئے
مر جائیں ہم پہ ان کو تو جینا نہ ہو محال
قائدؒ کے بعد ہم کو تو رہبر نہیں ملا
جو آیا اس نے خود کو کہا مرد بے مثال
ڈرتے ہےں اب تو سانس بھی لیتے ہوئے کہ لب
کرتے ہےں ورد اے خدا، آئی بلا کو ٹال
ساغر کسی کے نیک ارادوں پر شک نہیں
اس ملک پر کرم کرے وہ رب ذوالجلال
ریاض الرحمن ساغر

پی ٹی وی کا پاپ میوزک؟
ناچتے ہےں بے سرے پن کو چھپانے کےلئے
بے ریاض آتے ہےں جو محفل مےں گانے کےلئے
اک مداری کی طرح بجواتے ہےں وہ تالیاں
یار بلواتے ہےں کچھ تالی بجانے کےلئے
ہر اناڑی کا کھلونا پاپ میوزک ہوگیا
ہر کوئی بیتاب ہے البم بنانے کےلئے
کوئی دے نہ دے وہ خود لے لیتے ہےں کوئی خطاب
رعب اپنا اپنے جیسوں پر جمانے کےلئے
اپنے منہ سے سُر کی رانی اور سُر کا بادشاہ
ہےں یہ اعزازات بس ہنسنے ہنسانے کےلئے
اُٹھ چکا ہے اب تو پی ٹی وی سے لے سُر کا بھرم
یہ ادارہ وقف ہے اندھوں مےں کانے کےلئے
کر دیا معیار فن کو دفن اس نے خاک مےں
کوئی کیا جائے وہاں جوہر دکھانے کےلئے
جانے کب ان بے ہنر لوگوں کا بستر گول ہو
بیٹھے ہےں جو سانپ بن کر جی جلانے کےلئے
بات اُردو مےں کریں کیسے کہ جلتی ہے زباں
کون ہے قومی زباں ان کو سکھانے کےلئے
ریڈیو ٹی وی سے اہل علم سب رخصت ہوئے
آگئے جاہل ہمارا منہ چڑانے کےلئے
بھینس کے آگے بجانا بین ساغر ہے فضول
سر ہلائے جو فقط چارہ چبانے کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

وفاقی وزیر ثقافت۔ توجہ
ذرا دیکھئے کام ”پی این سی اے“ کا
ادارہ ہے ناکام پی این سی اے کا
ثقافت کی ترویج کی ذمہ داری
ہے نازک بہت اور کافی ہے بھاری
یہ طے ہو نہ پایا برسہا برس مےں
ہو ترجیح کیا آرٹ کے پیش و پس مےں؟
درون وطن قوم کو کیا سکھائیں
برون وطن طائفے کیسے جائیں
ثقافت کی تصویر کے رنگ کیا ہوں
فنون ہمہ گیر کے رنگ کیا ہوں
ہمارا ہے دراصل کیا ”لوک ورثہ“
ہے صدیوں پہ پھیلا ہوا لوک ورثہ
ذرا دیکھئے جا کے ”سندھالوجی“ مےں
انہوں نے ہے جھانکا ہوا ہر صدی مےں
بہت بیش قیمت عجائب ہےں ان کے
نتائج و تحقیق صائب ہےں ان کے
ادارے ثقافت کے یکجہت کیجئے
ہدایت انہیں فکر فردا کی دیجئے
دکھا کے فقط پتلیوں کے تماشے
ڈکاریں نہ لیں قوم کے فنڈ کھا کے
ریاض الرحمن ساغر

کیسے مذاکرات
ایڈوانی! کان کھول کر سن لیجئے یہ بات
کرنے نہیں اب آپ سے ہم کو مذاکرات
نخرے سدا جو ہم کو دکھاتے ہےں واچپائی
صدق و صفا کی ان مےں دکھائی نہ دیں صفات
کشمیریوں پہ رکھتے ہےں جور و ستم روا
دیکھے نہیں انہوں نے ابھی مومنوں کے ہاتھ
وہ گرگ پیر سالہ ہے معلوم ہےں ہمیں
کب تک جئیں گے وہ انہیں مکاریوں کے ساتھ
کشمیریوں کو رائے شماری کا حق نہ دیں
اک روز ہر محاذ پہ کھائیں گے ان سے مات
رکھیں گے ان پہ ظلم و ستم کب تلک روا
ہر روز اپنی پشت پہ کھاتے ہےں ان سے لات
کرگل سا زخم پیٹھ پہ پھر سے وہ کھائیں گے
ہر گز نہ ہوگی میز پہ اب ان سے ملاقات
اس کا نتیجہ جلد ہی بھگتے گا اسرائیل
بھارت سے مل کے سوچی ہے اس نے جو واردات
کشمر کا ہو یا ہو فلسطیں کا مسئلہ
امریکہ نے بگاڑے ہےں یہ سب معاملات
دنیا مےں شمس، عدل کا ہونے لگا طلوع
ہے تار تار ہونے کو ساغر غموں کی رات
ریاض الرحمن ساغر

سیاسی بہن بھائی
تازہ اور گرم تر خبر یہ آئی ہے
بےنظیر ہے بہن، نواز بھائی ہے
کیش ہوگا اب یہ ”ووٹ کارڈ“ سندھ مےں
اور اسی مےں اب تو ملک کی بھلائی ہے
”بی بی“ نے سراہا ہے”میاں“ کا یہ خلوص
شکر، سیدھے راستے پہ وہ بھی آئی ہے
پوری گر نہ مل سکے تو آدھی بانٹ لے
بات یہ بزرگوں نے ہمیں سکھائی ہے
دونوں ایک، نیک ہو کے اب اسے لڑیں
قوم کی فلاح کی جو یہ لڑائی ہے
دونوں ہی کی جان پر ہے قرض ملک کا
دونوں ہی نے کھائی دودھ اور ملائی ہے
ایک دوسرے کے خیر خواہ ہم رہیں
دشمنوں کی صف مےں آگے واچپائی ہے
جدہ اور دوبئی مےں ہے کتنا فاصلہ
درمیاں کنواں ہے اور نہ کوئی کھائی ہے
لیگ (ن) اور ”پی پی“ دونوں ایک ہوں
رُت یہ انتخاب کی پیام لائی ہے
اس کو بھی بحال اب کریں عوام مےں
دونوں ہی نے ساکھ اپنی جو گنوائی ہے
ساغر اب ضروری ہے کہ یکجہت ہوں سب
پاک سرزمین اصل مےں اکائی ہے
ریاض الرحمن ساغر

بی بی! یاد ہے؟
ہم کو پہلی بار تیرا جیل جانا یاد ہے
تجھ کو بھی کیا آج وہ منظر سہانا یاد ہے
اور پھر دیکھی ان آنکھوں نے سلاخیں ٹوٹتی
یک بیک قسمت کا تارہ جگمگانا یاد ہے
”بی بی سی“ پر یاد ہے بیباک انٹرویو ترا
ساری دنیا کو وہ تیرا چھب دکھانا یاد ہے
حلف لینا تجھ سے وہ بابے غلام اسحق کا
تیرا پریوں کی طرح وہ مسکرانا یاد ہے
اوڑھنا وہ سر پر آنچل چاند بی بی کی طرح
اور پھر تسبیح کو ہر دم گھمانا یاد ہے
ملک مےں سارے سماں وہ شادمانی کا حسیں
سات رنگوں مےں نہایا لاڑکانہ یاد ہے
مرد اول کا وہ چلنا سایہ بن کر تیرے ساتھ
عورتوں کا اپنے مردوں کو چڑانا یاد ہے
اور پھر آصف کی وہ من مانیاں کرنے کی رُت
میٹھے میٹھے سیب گھوڑوں کو کھلانا یاد ہے
جمگھٹے اور رت جگے ہر شب سوئمنگ پول پر
اور ”ٹین پرسینٹ“ کا ہر شاخسانہ یاد ہے
دفعتاً پھر تجھ کو لگنا ”آئی پی پی“ کا کرنٹ
اور تیری نیتوں کا ڈگمگانا یاد ہے
دوسراموقع بھی تجھ کو پھر سنبھلنے کا ملا
پھر لغاری جی کا تیرے آڑے آنا یاد ہے
موقع دینے کو تجھے حاضر ہےں پھر ووٹر ترے
لوٹ آ، گر جان کا داﺅ لگانا یاد ہے
ریاض الرحمن ساغر

تھوڑی سی لفٹ کرا دے
تیری اونچی شان مشرف
صدر پاکستان مشرف
میری عرضی مان مشرف
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
قومی یا صوبائی دے دے
مےں توں ہوں ہرجائی دے دے
”نون“ کا بڑے ”ق“ کا ہو
چاہے وہ ”انصاف“ کا ہو
چودھری کا پی اے ہوں مےں
وہ ہے ان پڑھ بی اے ہوں
جو کہے گا مان لوں گا
ہر اشارہ جان لوں گا
گرچہ سکہ کھوٹا ہوں مےں
پھر بھی تیرے کام آﺅں گا
اک پرانا لوٹا ہوں مےں
جب کہو گے پھر جاﺅں گا
میرا ہے ایمان مشرف
پہلے پاکستان مشرف
مجھ کو تو پہچان مشرف
میری عرضی مان مشرف
مجھ کو بھی تو لفٹ کرا دے
تھوڑی سی تو لفٹ کرا دے
مجھ کو بھی تو ٹکٹ دلا دے
ریاض الرحمن ساغر

راہی ملک عدم
”راہی“ اک اور راہی ملک عدم ہوا
شامل غم حیات مےں ایک اور غم ہوا
صف بچھ گئی ہے آج ”ترنجن“ مےں سوگ کی
نقش خیال یار جو نقش قدم ہوا
خود اس نے اوڑھ لی ہے دوپٹوں کی چھاﺅں اب
جب زندگی کی دھوپ سے رشتہ قلم ہوا
جب دل کے ”سنجے بوہے“ بھی وہ کر چکا تھا بند
”تاروں“ کی لو مےں چاند“ کو رستہ بہم ہوا
پچھتایا عزرائیل بھی سن کر ”نکئی جئی ہاں“
”احمد کی موت کا اسے صدمہ نہ کم ہوا“
بعداز ”قتیل“ راہی کو للچا رہی تھی موت
اس کی بلا سے برپا الم در الم ہوا
کیا چھپ سکیں گی خاک مےں یہ ساری صورتیں
دیکھیں گے ان کو لالہ و گل مےں، جو دم ہوا
سوچا ہے اب نہ اس کی پرستش کریں گے ہم
کعبے مےں دل کے پیدا جو کوئی صنم ہوا
یاروں کی چاہتوں کے بھی سب بھید کھل گئے
رسوا قدم قدم پہ جو میرا بھرم ہوا
ساغر یہ میری آنکھ ہی پتھرا نہ گئی ہو
دل رویا اور پلکوں کا پردہ نہ نم ہوا
ریاض الرحمن ساغر


قیامت؟
اعزاز مےں ڈھل گئی رسوائی
نیکی کی شہرت گہنائی
ماتھے کا جھومر جھوٹ بنا
سولی پہ چڑھ گئی سچائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
جو جتنا بھی بدنام ہوا
اتنا ہی اس کو نام ملا
جو صبح کو قاتل کہلایا
معصوم صفت وہ شام ملا
انصاف سے دنیا بھر پائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ہر جا دوہرے معیار ہوئے
اک چہرے والے خوار ہوئے
جینے کا درس جو دیتے تھے
مر جانے کو تیار ہوئے
اس حد تک بڑھ گئی مہنگائی
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
سب چور لٹیرے باعزت
بے رحم وڈیرے باعزت
ہر سمت اندھیرے باعزت
یہ روشنیوں کی پسائی؟
”پر اجے قیامت نئیں آئی“
ریاض الرحمن ساغر

بچگانہ سوال
بولو بچو! صدر کی مٹھی مےں کیا ہے؟
آنے والے کل کے نصیب کا لکھا ہے!
کل کا نصیب تمہیں کیسا لگتا ہے؟
آنے والی گھڑیوں کا کس کو پتہ ہے!
سیکھا نہیں تم نے کیا گر کے سنبھلنا؟
ہم نے تو ابھی تک سیکھا نہیں چلنا!
ہم کو دکھاﺅ ذرا کھڑے ہو کے پاﺅں پر؟
دیکھ تو رہے ہو ہم پاﺅں پہ کھڑے ہےں!
پھر بھی کمر تک گڑھے مےں گڑے ہےں!
ہم کو سہارا دے کر گڑھے سے نکالو!
اپنی خطا کا بوجھ ہم پہ نہ ڈالو!
ایسے مےں کرے گا کون مدد ہماری؟
جن کی غلامی مےں یہ عمر گزاری!
ہم نے تو باندھی تھیں تم سے امیدیں
بکا ہوا مال ہم کیسے خریدیں؟
اپنا بنا لو ہمیں دے کے بڑی بولی!
گھر مےں تو خالی ہے اناج کی گھڑولی!
ہم نہ رہے تو تم پھر کہاں جاﺅ گے؟
ہم تو سمجھتے تھے تم ہی بتاﺅ گے؟
کرتے ہو تم ہمیں کیوںشرمندہ؟
ہم کو اُٹھا سر، رہنا ہے زندہ
ریاض الرحمن ساغر

عالمی ریکارڈ!
سانپوں اور بچھوﺅں مےں رہتے ہےں
الوﺅں اور بجوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
شہر کے جنگلوں مےں رہتے ہےں
چوروں اور ڈاکوﺅں مےں رہتے ہےں
کرگسوں کے پروں مےں رہتے ہےں
ہے ہمارا بھی عالمی ریکارڈ
ہم بھی دبکے، گھروں مےں رہتے ہےں
حوروں اور گلرخوں مےں رہتے ہےں
رند ہےں میکدوں مےں رہتے ہےں
ہے وڈیروں کا عالمی ریکارڈ
خون پی کر نشوں مےں رہتے ہےں
کھٹملوں، پسوﺅں مےں رہتے ہےں
موٹی موٹی جوﺅں مےں رہتے ہےں
ہے غریبی کا عالمی ریکارڈ
قید اندھے کنوﺅں مےں رہتے ہےں
جاہلوں احمقوں مےں رہتے ہےں
خواب کی جنتوں مےں رہتے ہےں
ووٹروں کا ہے عالمی ریکارڈ
بے وفا لیڈروں مےں رہتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

ہم آزاد یا غلام؟
کیوں تہہ دام پر ہمارے ہےں؟
پہرہ غیروں کا گھر ہمارے ہےں
توڑنے چاہئیںہمیں جو صنم
ان کی چوکھٹ پہ سر ہمارے ہےں
جن پہ قابض ہےں اب ہنود و یہود
ملک وہ بیشتر ہمارے ہےں
غور سے دیکھ کارواں سالار
راہزن، ہمسفر ہمارے ہےں
نیک و بد کا انہیں نہیں ادراک
ہائے، کیا دیدہ ور ہمارے ہےں
لٹ گئے اپنی محنتوں کے ثمر
باغبانو! شجر ہمارے ہےں
جب یہ طے ہے وہ چور ڈاکو تھے
کیوں کھلے ان پہ در ہمارے ہےں
بولو آزاد ہےں کہ ہم ہےں غلام
پوچھتے کرکٹر ہمارے ہےں
کیوں کھلے پھر رہے ہےں دہشت گرد
قید مےں ”ڈاکٹر“ ہمارے ہےں
کیوں نہیں اس زمیں پہ اپنا راج
جبکہ شمس و قمر ہمارے ہےں
ہم سے ناراض ہے خدا ساغر
نالے بھی بے اثر ہمارے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

لوگ تشہیر کو ترستے ہےں
وہ جو اخبار مےں تصویر کو ترستے ہےں
اپنی ہی ذات کی تشہیر کو ترستے ہےں
سامنے جاتے ہےں جب کیمرے کے بھاگ کے وہ
اپنی پرکاری تقدیر کو ترستے ہےں
ایسے لمحوں مےں مجھے اپنے پہ پیار آتا ہے
لوگ جب مجھ سے بغلگیر کو ترستے ہےں
شوق سے ہوتے ہےں کچھ لوگ اسیر محفل
ہم مگر زلف کی زنجیر کو ترستے ہےں
لوگ دہراتے ہےں جب عادت چمچہ گیری
ہم تو اس بزم مےں کفگیر کو ترستے ہےں
ہم تو کہتے ہےں اے کاش جگر مےں اترے
صدق و سچائی کے ہر تیر کو ترستے ہےں
ملتے رہتے ہےں ہمیں پیر جواں سال مگر
ہم تو دیدار بت پیر کو ترستے ہےں
حسن مےں کم تو نہیں وادی کاغان و سوات
پھر بھی ہم وادی کشمیر کو ترستے ہےں
قاسمی فیض جگر جوش سبھی سے پڑھ کر
لوگ کیوں میر تقی میر کو ترستے ہےں
جانے کیا جادو اثر ترا سخن ہے غالب
ہم تری شوخی تحریر کو ترستے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

سستی بجلی مہنگے سانس
دوستو! دو ہزار پانچ کے بعد
ہونگی جو بستیاں نئی آباد
ان مےں ہم ایک گھر بنائیں گے
سستی بجلی وہاں لگائیں گے
آﺅ تب تک رہیں اندھیرے مےں
انہی مہنگائیوں کے گھیرے مےں
تین برسوں کی رات ہے باقی
تھوڑی سی دیر ہے سویرے مےں 
نرخ ہر روز بڑھتے جائیں گے
آسمانوں پہ چڑھتے جائیں گے
کیا خبر دو ہزار پانچ تلک
ہم سے بدحال جی بھی پائیں گے
طے ہے یہ جو بھی ہم کمائیں گے
پہلے یوٹیلٹی بل چکائیں گے
سانس لیں گے ادھار کے پھر ہم
آخرش خود کو بیچ کھائیں گے
جینے کو نت نئے دلاسے ہےں
بس کہ مایوس بھی نہیں ہم لوگ
اپنے شاہانہ خرچ کم کر دیں
اتنے کنجوس بھی نہیں ہم لوگ
قرض چڑھتا ہے چڑھتا جائے گا
حوصلہ پھر بھی بڑھتا جائے گا
ریاض الرحمن ساغر

تیرے نثار اے جانانہ!
جو تم ہو سنگ تو دیوانہ مجھ کو ہونا ہے
کہ قیس و لیلیٰ کا افسانہ مجھ کو ہونا ہے
جو شمع جلتی ہے ہر شب مزار قائد پر
اسی کے عشق مےں پروانہ مجھ کو ہونا ہے
اس آرزو مےں کہہ کہ مہکے یہ گل زمیں میری
پلا کے خوں اسے نذرانہ مجھ کو ہونا ہے
تو اپنے ہاتھوں مےں چمکا کے رکھ مجھے ساقی
کہ نسل نو کا بھی پیمانہ مجھ کو ہونا ہے
تجھے مےں کیوں نہ سنواروں اے سوہنی دھرتی
تیرے نثار اے جانانہ! مجھ کو ہونا ہے
شراب حب وطن پر نہیں ہے پابندی
تو آﺅ میکشو! میخانہ مجھ کو ہونا ہے
مری منڈیر پہ بھی فقر کا چراغ جلے
فقیر شہر کا کاشنہ مجھ کو ہونا ہے
رچاﺅ کانوں مےں میرے سحر کو بانگ در
خودی کا نعرہ مستانہ مجھ کو ہونا ہے
وہ جن کے نام سے بدنام سبز پرچم ہو
اب ایسے لوگوں سے بیگانہ مجھ کو ہونا ہے
اب آگیا ہے جو ساغر مری انا کا سوال
ہر ایک خوف سے انجانا مجھ کو ہونا ہے
ریاض الرحمن ساغر

کوئی محرم راز؟
مےں حال سناتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
کچھ دیتا پتہ منزل کا 
مجھ کو دم ساز جو ملتا
وہ میرے درد بٹاتا
مجھے سیدھی راہ دکھاتا
کوئی پیر فرید جو ہوتا
مےں اس کے واری جاتا
ہر زخم دکھاتا دل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
وہ بادل بن کر میرے
دل ٹوبے پر چھا جاتا
اور اتنا مینہ برساتا
جینے کا مزہ آ جاتا
حل سمجھاتا مشکل کا
کوئی محرم راز جو ملتا
دلہن بن جاتی روہی
گر دُلہا ملتا کوئی
جی اٹھتی سسی تھل کی
باہوں مےں یار پنل کی
پھر اس کا چہرہ کھلتا
کوئی محرم راز جو ملتا
کنوں حال سناواں دل دا؟
کوئی محرم راز نہ ملدا؟
ریاض الرحمن ساغر

شیروانی مےں!
سیل جمہور کی روانی مےں
آگئی نئی لہر پانی مےں
اب تو ملاح بھی ہو کشتی کا
صرف اور صرف شیروانی مےں
پوری سرحد یہ فوجی طاقت ہو
جو نظر صاف آئے، بھارت کو
اور اس کی کماں ہمہ وقتی
مستحق ہاتھ کو عنایت ہو
اب یہی وقت کا تقاضا ہے
نیا کردار ہو کہانی مےں
صدر کی عسکری صلاحیت
قوم کے یوں بھی کام آئے گی
مستعدی سے سرحدوں پر جب
فوج اپنا مقام پائے گی
اک نئی کھلبلی مچے گی پھر
واجپائی کی راج دھانی مےں
اور اب جو وزیراعظم ہو
لیس ہو اختیار کامل سے
راہ کے موڑ کو سمجھتا ہو
اور آگاہ اپنی منزل سے
دشت ناکام سے جو لے جائے
ہم کو فردوس کامرانی مےں
ریاض الرحمن ساغر

انتخانی نتائج
پل مےں خربوزے پپیتے ہوگئے
ہار کر کچھ لوگ ”جیتے“ ہو گئے
ہوگئیں ان پر کرم کی بارشیں
سر بسجدہ جو مسیتے ہوگئے
معجزوں جیسی ہوئیں تبدیلیاں
رات بھر مےں شیر چیتے ہوگئے
کل بھی دیکھا ہم نے، کل دیکھیں گے پھر
بھوکے ننگے کھاتے پیتے ہوگئے
آنکھوں آنکھوں مےں ہوئے قول و قرار
دل کے سودے چُپ چپیتے ہوگئے
دل مےں تھی اچھے دنوں کی جن کے آس
ان کے اچھے دن تو بیتے ہوگئے
ہےں غریبوں کے مسائل جوں کے توں
عام جب سے سرخ فیتے ہوگئے
اک برہنہ تیغ ”قانون ہتک“
ہونٹ سچائی کے سیتے ہوگئے
مسئلے اللہ والوں کے بھی حل
دو نفل شکرانہ نیتے، ہوگئے
آج تک ساغر تمہارے سارے کام
نیک نیت سے جو ”کیتے“ ہوگئے
ریاض الرحمن ساغر

وقت کی بے درد آندھی
زندگی کو درد دیتی
راستوں کو گرد دیتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
سوکھے پتوں کو اُڑاتی
شہہ بطوطوںکو گراتی
ثبت کرتی بے ثباتی
حوصلوں کو آزماتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
محل امیدوں کے ڈھاتی
خاک مےں ارماں ملاتی
آنکھ سے سپنے چراتی
ہر طرف طوفاں اٹھاتی
چل رہی ہے! شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
تھام لو جذبوں کی باہیں
لے لو رشتوں کی پناہیں
اشک بن جائیں گے موتی
گیت بن جائیں گی آہیں
تب رُکے گی شہر دل مےں
وقت کی بے درد آندھی
ریاض الرحمن ساغر

توں لنگھ جا
کی کریئے بگانہ شہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر گھڑی بریک تے پیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ہر کسے نوں کتنی جلدی اے
جیویں گھر وچ اگ پئی بلدی اے
مل کجھ دی ایتھے صبر دا نئیں
بس قیمت اک اک پل دی اے
رکشے ویگن دا بیر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
اسیں گلیاں وچ چلا لاں گے
تھوڑا پٹرول بچا لیں گے
چھڈ رکشا ویگن پا لیں گے
فیر اسیں وی آڈا لاں گے
ہالی غربت دی لہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
دل کردا اے سگنل توڑ دیاں
کیوں اک سواری چھوڑ دیاں
میرا غصہ رب دا قہر اے
توں لنگھ جا ساڈی خیر اے
ریاض الرحمن ساغر

بے ثبات زندگی
دَور جاتا ہے دَور آتا ہے
اور کے بعد اور آتا ہے
گردشِ وقت کو ثبات نہیں
لمحہ لمحہ ہمیں بتاتا ہے
ہوگا وہ جو خدا کو ہے منظور
ہونی، انہونی، وہ بناتا ہے
کوہساروں کے دل لرزتے ہےں
جب کبھی وہ زمیں ہلاتا ہے
آدمی زندگی کا شیدائی
زندگی سے فریب کھاتا ہے
لے کے خورشید اپنی تابانی
شام ڈھلتے ہی ڈوب جاتا ہے
چڑھتا دریا کناروں سے باہر
کیسی خرمستیاں دکھاتا ہے
اور پھر دیکھ اس کی پسپائی
اپنی ہی تہہ مےں جا سماتا ہے
پتھروں کے محل بنا کر بھی!
آدمی ریت اوڑھ پاتا ہے
صرف دو گز زمین ہے اپنی
اور یہ آسمان چھاتہ ہے
ریاض الرحمن ساغر

قانون ہتک
چاند کا داغ چھپائیں تو صداقت کیا ہے؟
چور کو چور نہ لکھیں تو صحافت کیا ہے؟
خود ہی ملحوظ نہ رکھے جو قلم کی حرمت
اس قلم کار کی خود اپنی بھی عزت کیا ہے
اثر تحریر مےں ہوتا ہے جو روشن ہو ضمیر
ورنہ اس پیشے مےں رہنے کی ضرورت کیا ہے
اپنے جذبوں کی عدالت مےں جو خود پیش رہے
اس پہ دنیا اس کی تعزیر و عدالت کیا ہے
کسی قانون مےں سچ بولنا ہے جرم کہاں
ایسے قانون کی در پردہ حقیقت کیا ہے
آج معیار صحافت کا ہے منصف قاری
اسے معلوم ہے پیمانہ ذلت کیا ہے
ظلم کا چہرہ دکھانے پہ جو پابندی ہو
حق مظلوم دلانے کی ضمانت کیا ہے
ہوں نہ شائع جو کرپشن کی، ستم کی خبریں
پھر کسی شعبے مےں اصلاح کی صورت کیا ہے
بدمعاشوں کی، بُرے لوگوں کی عزت کیسی؟
ان کو قانون کی رو سے یہ رعایت کیا ہے
بارہا کہہ چکے ”جنرل“ کہ پریس ہے آزاد
پھر یہ ”قانون ہتک“ اور یہ حجت کیا ہے؟
ریاض الرحمن ساغر

رُوحِ بے ضمیر
مےں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں
محدود میری ذات کے محور مےں میری سوچ
بیدار و ہوشیار، بقید حواس ہوں!
مےں نے فصیلِ جاہ پہ ڈالی سدا کمند
ہر پُرکشش مقام کے مےں آس پاس ہوں
سچ ہے کہ مجھ کو سچی مسرت نہیں ملی
ہر لمحہ سوچتا ہوں کہ مےں کیوں اُداس ہوں
یہ کیا کہ مال و زر کا لہو منہ کو آ لگا
پروردہ، ہوس ہوں مےں دوزخ کی پیاس ہوں
رومال رکھ کے ناک پر آتے ہےں لوگ پاس
مےں ایک زندہ لاش کے مدفن کی باس ہوں
مجھ پر وفا کا بوجھ نہ ڈال اے مرے وطن
مےں سنگ بے حسی کا بت بے اساس ہوں
ماضی کا کوئی فخر نہ فردا کا عزم خاص
مےں نسل نو کی ناقص و بیکار آس ہوں
مجھ کو کسی غریب گھرانے کی فکر کیا
مےں صرف اپنے گھر کے لئے خوش قیاس ہوں
ہمسر ہے کوئی میرا نہ ہے ہموطن کوئی
مےں ایک خاندان ہوں اور اک کلاس ہوں
ساغر مجھے خدا کا کوئی واسطہ نہ دے
مےں کفر کا اسیر ہوں بھگوان داس ہوں
ریاض الرحمن ساغر

نئے وفاقی وزیر اطلاعات
سچا قلم نجات کا ساماں ہے شیخ جی
جھوٹے کی عمر، عمر پریشاں ہے شیخ جی
جینا بہت محال ہے سچائیوں کے ساتھ
پر عاقبت سنوارنا آساں ہے شیخ جی
سونپا ہے آپ کو جو قلمدان اطلاع
ثابت کریں کہ آپکے شایاں ہے شیخ جی
پہلی خبر تو ریڈیو، ٹی وی کی لیجئے
مغرب زدوں کا حلقہ یاراں ہے شیخ جی
”پی ٹی وی“ بھرے ہے جو ”زی ٹی وی“ کا سوانگ
”ناچوں“ کا رنگ اس مےں فراواں ہے شیخ جی
اب اس کو پاک کیجئے خواجہ سراﺅں سے
یہ قوم ننگ و ناچ سے نالاں ہے شیخ جی
قابض ہےں اس پہ بے سرے فنکار و گلوکار
عریانی اشتہاروں کا عنواں ہے شیخ جی
ہوتے ہےں نجی شعبے سے سودے کمشن پر
اس دھاندلی پہ ہر کوئی حیراں ہے شیخ جی
اب لایئے یہاں بھی کوئی ایسا سربراہ
ابلاغ مےں جو فرد نمایاں ہے شیخ جی
جھاڑو سے گند کیجئے اس میڈیا کا صاف
ہم بھی کہیں کہ آپ کا احساں ہے شیخ جی
ریاض الرحمن ساغر

مادرِ ملت کے گارڈ!
میر ظفر اللہ جمالی مادرِ ملت کے گارڈ!
ہو مبارک آپ نے پایا ہے خدمت ایوارڈ
”ہر کہ خدمت کرد اور مخدوم شد“ ثابت ہوا
قائد ایوان کا جو مرتبہ اونچا ملا
قوم کی اب آپ سے وابستہ امیدیں ہےں خاص
اس برس جو آئیں گی وہ دونوں ہی عیدیں ہےں خاص
راستہ جمہوریت کا صاف و سیدھا کیجئے
حلف اب جو بھی لیا ہے اس کو پورا کیجئے
ہر سدا ایوان کی اب غور سے سینئے جناب
آکے خود ایوان مےں دیجئے سوالوں کا جواب
ملک کو اب قرض سے آزاد ہونا چاہئے
مفلسوں اور بے کسوں کو شاد ہونا چاہئے
قائدؒ و اقبالؒ کے اقوال ہوں پیش نظر
آپ میر کارواں ہےں قوم ہے محو سفر
ہو کے اب یکجہت کھوئی منزلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر بھنور کو چیر کر اب ساحلوں کو ڈھونڈ لیں
ہر کس و ناکس کے اب جھوٹے قصیدے مت سنیں
ساتھ اپنے جن وزیروں اور سفیروں کو چنیں
ان مےں سے ہر ایک کا اعلیٰ بہت معیار ہو
صاحب ایمان ہو اور صاحب کردار ہو
آپ کو ملت نے کرسی کی امانت سونپ دی
سوہنی دھرتی کی تعمیر و حفاظت سونپ دی
ریاض الرحمن ساغر

سرکار ہے رقصاں
قلم کی آبرو یارو تہہ تلوار ہے رقصاں
کہ جیسے قطرہ ¿ شبنم بنوکِ خام ہے رقصاں
کوئی اس شوخ حرافہ کے گھنگرو چھین لے یا رب
قیامت کی جو مہنگائی سر بازار ہے رقصاں
طوائف آگئی کوٹھی مےں، اپنا چھوڑ کر کوٹھا
مےں سجدے مےں گرا ہوں، وہ پس دیوار ہے رقصاں
کوئی تو پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹے
کلی سہمی ہوئی، بھنورا سر گلزار ہے رقصاں
یہاں پر عدل اور قانون بالا دست کیا ہونگے
کہ ملزم رقص بسمل مےں ہے، تھانیدار ہے رقصاں
حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے چونکہ ”متحدہ“
تو اب اس کو رجھانے کےلئے سرکار ہے رقصاں
اتر آئے کسی شیشے مےں آزادی صحافت کی
قلم کاروں کی محفل مےں ”ہمارا یار“ ہے رقصاں
صدائیں سارے ایوانوں مےں ہےں ”قومی ترانوں“ کی
سجی ہے دُلہن جمہوریت، دلدار ہے رقصاں
نہ چھوڑے ساتھ متحدہ، پگارا جی یہ کہتے ہےں
کہ اس منزل کے آگے منزل دشوار ہے رقصاں
کوئی اچھی خبر راﺅ سکندر سے سنی ہوگی
کہ ”بی بی“ پھر کسی امید مےں سرشار ہے رقصاں
حکومت لاکھ بدلے خو نہ بدلے گی تری ساغر
جمالی کی وضع داری پہ تو بے کار ہے رقصاں
ریاض الرحمن ساغر

بہت مارتے ہےں
آئینہ ان کو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
پردہ چہرے سے ہٹائیں تو بہت مارتے ہےں
یہی بہتر ہے کہ لکھتے رہو سب اچھا ہے
اور کچھ لکھیں لکھائیں تو بہت مارتے ہےں
میری جاں قوم کے خادم نہیں آقا ہےں وہ
ان کو ہم راس نہ آئیں تو بہت مارتے ہےں
غصہ مےں آکے کرا لیتے ہےں اغوا فوراً
راہ مےں شور مچائیں تو بہت مارتے ہےں
داستاں دکھ کی سناتے ہےں ”صدیق الفاروق“
انکے کرتوت بتائیں تو بہت مارتے ہےں
اپنا قانون ہے اپنی ہے عدالت انکی
کیا کریں تھانے مےں جائیں تو بہت مارتے ہےں
کوئی بے چارہ جو آجاتا ہے قابو ان کے
بن کے ہمدرد چھڑائیں تو بہت مارتے ہےں
سچے انسان کا ہے ملک مےں جینا دوبھر
سچ کو چہرے پہ سجائیں تو بہت مارتے ہےں
رقص کرتے ہوئے محفل مےں رقاصہ بولی
ان کے ہم گیت نہ گائیں تو بہت مارتے ہےں
کچے دھاگے سے بندھی جاتی ہےں ہم تو ساغر
ناز نخرہ جو دکھائیں تو بہت مارتے ہےں
ریاض الرحمن ساغر

حسن فطرت
پھول منہ پر نہیں دھڑکن مےں کھلاﺅ لڑکی!
حسن فطرت کی جھلک چہرے پر لاﺅ لڑکی
بھلی لگتی نہیں مصنوعی سی مینا کاری
رُخ زیبا کو نہ گلدان بناﺅ لڑکی
اہل مغرب کی لچر نسلوں کے یہ کھیل ہےں سب
ان کی تقلید مےں مت وقت گنواﺅ لڑکی
اپنے رخساروں کو رنگوں سے نہ پوتو بچی
دل کے آئینے کو رنگین بناﺅ لڑکی
زیور علم سے تن من کو سجاﺅ اپنے
کبھی گرتا نہیں اس سونے کا بھاﺅ لڑکی
کاغذی پھولوں کو کمرے مےں نہ رکھو ہر گز
گھر کے آنگن مےں کوئی بیل چڑھاﺅ لڑکی
ہم مسلماں ہےں ثقافت بھی جدا ہے اپنی
اپنے اعضاءکی نمائش نہ لگاﺅ لڑکی
لوگ پاکیزہ نگاہوں سے کریں تم کو سلام
ایسے انداز سے ہر بزم مےں جاﺅ لڑکی
پردہ نظروں کو جھکا لینے سے بھی ہوتا ہے
ہم کو اصرار نہیں چہرہ چھپاﺅ لڑکی
سرخ رخساروں کو کرتا ہے حیا کا غازہ
حسن فطرت پہ مزید آتا ہے تاﺅ لڑکی
ریاض الرحمن ساغر

خواتین اسمبلی مےں
سرگرم خواتین سیاست مےں ہوئی ہےں
کچھ ان مےں نئی ہےں تو پرانی بھی کئی ہےں
انگریز کے لہجے مےں ہےں کچھ بولتی اردو
سر چڑھ کے مگر بولتا ہے حسن کا جادو
ان مےں ہے کوئی عائلہ اور کوئی سمیرا
مردوں سے بہرحال ہے خوب ان کا وطیرہ
لگتی ہے بہت نیک مجھے حوروں کی نیت
سچ پوچھو تو ہے عائلہ کی سادی طبیعت
اک ٹی وی کے چینل پہ جو فرحت نے یہ پوچھا
اب تک تو دیا لیڈروں نے قوم کو دھوکا
وہ بولیں کہ نیت کا تو ہمراز خدا ہے
ہر ایک کا کردار الگ اور جدا ہے
اس ملک کو ہم نے ہے سری لنکا بنانا
تعلیم کے زیور سے ہے عورت کو سجانا
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ
پورا ہو خواتین کا یہ نیک ارادہ
خاتون ہےں مشہد کی جو ریحانہ ہماری
پھر حاجرہ طارق بھی تو اک بھابھی ہےں پیاری
ہم باندھ چکے ہےں بہت ان سے بھی امیدیں
یہ چاہیں تو اتریں کی گھروندوں مےں بھی عیدیں
اک بشریٰ ہےں مہناز ہےں، ہے تجربہ ان کو
ماضی مےں پڑا گرگوں سے ہے واسطہ ان کو
یہ چاہیں تو ایوان کو آنچل سے اڑا دیں
سچ بولیں تو سب جھوٹوں کے یہ چھکے چھڑا دیں
ریاض الرحمن ساغر

وہ میرا قتیل (یاد رفتگاں)
بجا کہ یاروں کا بھی یار تھا وہ میرا قتیل
مگر سوا، میرا غمخوار تھا وہ میرا قتیل
کچھ ایسا مجھ سے تعلق رہا سدا اس کا
کہ جیسے صرف مرا یار تھا وہ میرا قتیل
مےں مانتا ہوں، بہت تھے میرے علاوہ بھی
کہ جن کا دل سے طرف دار تھا وہ میرا قتیل
عدو کی شہہ پہ وہ بدظن بھی مجھ سے ہوتا تھا
کہ اس ادا کا بھی حقدار تھا وہ میرا قتیل
منافقوں کو معافی کبھی نہ دیتا تھا
وہ جانتے ہےں کہ تلوار تھا وہ میرا قتیل
سخی تھا دل کا تو ایثار کا بھی پیکر تھا
اک اعلیٰ ظرف کا مے خوار تھا وہ میرا قتیل
زبان گنگ سے بھی اس نے نعت گوئی کی
کچھ ایسا عاشق سرکار تھا وہ میرا قتیل
لڑا وہ شیر کی مانند اس علالت سے
اگرچہ ضعف سے لاچار تھا وہ میرا قتیل
امیر شہر کو خاطر مےں کب وہ لاتا تھا
انا پرست تھا خوددار تھا وہ میرا قتیل
کیا جو عشق تو ساغر اے نبھایا بھی
نڈر تھا اور وفادار تھا وہ میرا قتیل
ریاض الرحمن ساغر

مہندی
لیڈی پولیس جو تھانے مےں لگائے مہندی
کیوں کسی نک چڑھے شہری کو نہ بھائے مہندی
یہ تو آسان سا نسخہ ہے، جو پہنچے سائل
ساتھ ہوں چوڑیاں تحفے مےں جو لائے مہندی
کبھی چھترول جو ہو مہندی لگے ہاتھوں سے
رنگ کچھ اور ہتھیلی پہ کھلائے مہندی
لیڈی پولیس کے سینے مےں بھی ہوتا ہے دل
کیوں نہ پھر تھانے مےں بھی حشر اٹھائے مہندی
اور پھر ڈھلتی ہوئی عمر کی جو افسر ہو
اس کی زلفوں مےں بھی چاندی کو چھپائے مہندی
فرض ہے ”تھانے زنانے“ کے ہر اک منشی کا
”بی بی افسر“ کے لئے خاص منگائے مہندی
اور پھر ملزمہ تھانے مےں جو لائی جائے
اس کو ہو حکم، حوالات مےں گائے مہندی
شہر مےں امن و اماں کو جو ہو ابتر صورت
اپنے ایس پی کو وہ پاﺅں کو دکھائے مہندی
بلکہ بہتر تو یہی ہے کہ ہر اک تھانے مےں
ایک تعطیل ہو ہر ماہ برائے مہندی
لیڈی پولیس آفیسر کی اگر شادی ہو
اس کو دعوت ہے وہ ساغر سے لکھائے مہندی
ریاض الرحمن ساغر

دُعا.... ”کھر“ کےلئے
یہی مری تو دُعا ہے جناب ”کھر“ کےلئے
کہ بیوی آخری کافی ہو عمر بھر کےلئے
”عیونیا“ جو سجی ہے وفا کے زیور سے
تو زاد راہ بہت ہے یہ اب سفر کےلئے
جو خواب آپ نے دیکھا تھا ایک بیوی کا
تو کیوں یہ ”حادثے“ دیکھے تھے رہگذر کےلئے؟
نہ تم نے ہونے دیا پیدارشتہ سوتن کا
تو گیارہ بچے ہےں انعام اس ہنر کےلئے
جو مرد سابقہ بیوی کو دے کوئی الزام
تو سنگ ہاتھ مےں رکھے وہ اپنے سر کےلئے
”عیونیا“ نے سخاوت کی تم کو دی ہے سند
پسر سنوارے ہےں تہمینہ نے پدر کےلئے
ہمیشہ مرد کو عورت معاف کرتی ہے
اسے سلام کرو اس حسیں نظر کےلئے
نہیں یہ چاہتی عورت کہ اس کا گھر ٹوٹے
وہ جان کرتی ہے قربان اپنے گھر کےلئے
جو وہ جہیز کی خاطر جلائی جاتی ہے
تو کوئی اشک نہیں بہتا اس شرر کےلئے
جو مرد کرتا ہے پامال آن عورت کی
تو کچھ سزا نہیں اس مرد فتنہ گر کےلئے
جو بیوی ایک ہے ساغر تو گھر یہ جنت ہے
یہ بیٹی حوا کی رحمت ہے بام و در کےلئے
ریاض الرحمن ساغر

بوڑھی طوائف
وہ دن کہ مےں جوان تھی
جواں دلوں کی جان تھی
وہ جان لیوا حسن تھا
کسی کو کب امان تھی
نگاہ مثل تیر، مےں
تنی ہوئی کمان تھی
سفیر تھے وزیر تھے
جو زلف کے اسیر تھے
شباب امنگ خیز تھا
بدن یہ عطر بیز تھا
نثار مجھ پہ چاہتیں
زمانے بھر کی راحتیں
تھیں ڈھیر مرے پاﺅں مےں
کشش وہ تھی اداﺅں مےں
جو مسکرا کے دیکھتی
کسی پہ جال پھینکتی
وہ جان و دل کو ہار کے
مری نظر اتار کے
جو وارتا تھا مال و زر
تھے ان مےں لعل اور گہر
وہ دیکھنے کی شان تھی
کمال آن بان تھی
پلٹ کدھر دھیان ہے
یہ پان کی دکان ہے
یہ میرا روزگار ہے
یہی مرا مکان ہے
ریاض الرحمن ساغر

سلمیٰ آغا و شاہدہ منی!
دونوں آپس مےں لڑ رہی ہےں کیوں
ایک دوجی کو تہمتیں دے کر
حد سے غصے مےں بڑھ رہی ہےں کیوں
میرا دونوں کو مشورہ یہ ہے
اس لڑائی سے اجتناب کریں
عاقبت کو سنوارنے کے لئے
نیکیاں واسطے ثواب کریں
سلمیٰ آغا بھی نرم دل ہے بہت
شاہدہ منی بھی نہیں بے درد
جو بھی اکسا رہے ہےں دونوں کو
لوگ دونوں کے وہ نہیں ہمدرد
دونوں سُر سے ہی پیار کرتی ہےں
جان لے پہ نثار کرتی ہےں
گیت دونوں نے میرے گائے ہےں
اپنی آواز سے سجائے ہےں
مجھ کو دونوں پہ پیار آتا ہے
خوش رہیں تو قرار آتا ہے
دل کی دھڑکن مےں چاہتیں بھر لیں
گیت دونوں کو مےں نئے دوں گا
اور اک پیسہ بھی نہیں لوں گا
ریاض الرحمن ساغر

تقریب پذیرائی
اپنی بھی بپا ہوتی تقریب پذیرائی
ترکیب مگر اس کی ہم کو نہ کبھی آئی
گو، کاٹھ کی اڑی سے ہوتا نہیں قد اونچا
ملتی ہے دکھانے کو دو انچ کی اونچائی
چھپتی ہے کتاب عمدہ کچھ بھی ہو مواد اس مےں
موہ لیتی ہے نظروں کو سرورق کی رعنائی
ہو شاعرہ کیسی بھی رکھتی ہو نقوش اچھے
ہو جاتے ہےں سب اس کے اشعار کے شیدائی
لہجہ ہو جواں اس کا کچھ بحث نہیں سن کی
ظاہر نہ کرے لیکن وہ عمر کی پسپائی
حاجت نہیں پھر اس کو اصلاح بھی لینے کی
رکھ سکتی ہو گر پوری دو فقروں کی لمبائی
اک نظم لکھے نثری اور پڑھ دے اداﺅں سے
ہو جائے گی سب ادبی حلقوں مےں شناسائی
ہر شہر مےں، گاﺅں مےں ایسے بھی سخنور ہےں
جس قدر کے لائق ہےں وہ قدر نہیں پائی
کہتے ہےں زباں اردو مشکل ہی سے آتی ہے
ہم نے بھی بہت سیکھی اب تک تو نہیں آئی
احباب مغنی کو مجموعے تھماتے ہےں
اور کہتے ہےں کیوں تم نے میری نہ غزل گائی
مجموعے کی فرمائش مجھ سے بھی ہوئی لیکن
بک جاتی ہے لکھتے ہی پھر کیوں بھروں چھپوائی
غالب ہے ابھی زندہ اور میر نہیں مردہ
ہے میری غزل ساغر ان دونوں سے شرمائی
ریاض الرحمن ساغر

مائیں کیوں مر جاتی ہےں؟
آل اولاد کے جیتے جی یہ مائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیون کی اس دھوپ مےں ٹھنڈی چھائیں کیوں مر جاتی ہےں
تھکا مسافر ماں کی گود مےں سر رکھ کر سستاتا ہے
ممتا کے آنچل کی سرد ہوائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کا سایہ ابر کرم ہے آقا کملی والے کا
اس کے اٹھتے ہی گھنگھور گھٹائیں کیوں مر جاتی ہےں
ماں کی دعائیں رکھتی ہےں محفوظ دکھوں کی دنیا سے
اس کی ایک دعا سے لاکھ بلائیں کیوں مر جاتی ہےں
زندہ ہےں جن لوگوں کی مائیں وہ رب کا شکر کریں
مر کر بھی جو خوابوں مےں آجائیں کیوں مر جاتی ہےں
سہہ نہیں سکتا یار خدا بھی ماں کی آنکھوں مےں آنسو
ماں کی آہیں اس کا عرش ہلائیں کیوں مر جاتی ہےں
جیتے جی جو رہ نہیں سکتیں مائیں اک پل بچوں بن
جب دنیا سے جائیں پھر نہ آئیں، کیوںمر جاتی ہےں
جب بھی کسی کی ماں مرتی ہے مےں روتا اور سوچتا ہوں
لوٹ آئیں یہ مائیں اور بتائیں کیوں مر جاتی ہےں
بھید یہ رب کے رب ہی جانے بندہ کیا جانے ساغر
کیسے اپنے دل کو ہم سمجھائیں کیوں مر جاتی ہےں
ریاض الرحمن ساغر