Ad

Ad

Thursday, 19 July 2012

رسالت Risalath


رسالت
شہید حکیم محمد سعیدؒ
ہم دیکھتے ہےں کہ ہمیں زندگی بخشنے والے رحیم و کریم اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت کے ہر تقاضے کی تکمیل کا سامان مہیا کر رکھا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس نے ہمارے وجود مےں دخیل اور ہمارے شعور و جدان مےں پیوست اس تقاضے، کہ ہمارا مقصد وجود کیا ہے، کی تکمیل کا سامان نہ کیا ہو۔ اس نے یقیناً اس امر کا انتظام کیا ہے اور یہ انتظام اس طرح کیا کہ اس نے ہم ہی مےں سے بعض ہستیوں کا انتخاب کر کے انہیں اس سوال کا جواب سکھایا اور انہیں اس بات کا پابند کیا کہ وہ اپنے اس علم کے ذریعہ سے کہ جو انہیں وحی سے حاصل ہوا ان امور کے سلسلے مےں انسانوں کی راہنمائی کریں۔ خالق کائنات نے اپنے ان منتخب بندوں کو رسول اور نبی کا نام دیا اور ان کے ذمے یہ خدمت کی کہ وہ اللہ کے دوسرے بندوں کوآگاہ کر دیں کہ ایمان رکھنے والے اس دنیا مےں اور اس کے بعد ابدالآباد تک امن و سکون کے ساتھ باعزت زندگی گزار سکیں گے۔ نیز یہ کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اعمال کو اس فکر کے مطابق بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا کہ وہ لوگوں کو پوری وضاحت کے ساتھ یہ سمجھا دیں کہ اس دنیا کو اور اس مےں آباد انسانوں کو اس نے ایک خاص مقصد سے پیدا کیا ہے اور اس نے یہ بھی طے کر دیا ہے کہاس مقصد کی تکمیل کے لئے انہیں یہاں کس طرح زندگی گزارنی ہے اور اس دنیا اور اس مےں بسنے والی دوسری مخلوقات کے ساتھ انہیں کیا اور کس قسم کا تعلق رکھنا ہے، یعنی یہ کہ اس کارگہ ¿ حیات مےں خیر و اصلاح اور سعادت و فلاح کے راستے کون سے ہےں، نیز یہ کہ اس روشنشاہراہ کو چھوڑ کر خودساختہ طریقوں پر چلنے کا انجام کیا ہوگا۔ اسی بنا پر اللہ نے اپنے پیغمبروں، کو بشیر و نذیر کہا ہے، یعنی راہ مستقیم پر چلنے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دینے والے اور کج روی اختیار کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈرانے والے کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم مےں رسالت کی ضرورت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
ترجمہ: ”ابتدا مےں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے پھر آگے چل کر جب یہ حالت نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے انجام سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق بھیجی تاکہ لوگوں مےں جو اختلافات پیدا ہوئے ہےں ان کا فیصلہ کریں۔ ان اختلافات کی وجہ (یہ نہ تھی کہ لوگوں کو حق معلوم نہیں تھا بلکہ) یہ تھی کہ لوگ حق سے واقفیت اور آگاہی کے باوجود آپس مےں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔“ (البقرة: 213) اس آیت کریمہ کا مضمون کسی تشریح اور توضیح کا نہ متلاشی ہے نہ محتاج۔ جس بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم اس آیت مبارکہ کے مفہوم کو اپنے اوپر منطبق کریں تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا حال اس وقت بعینہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مابق ان افراد اور اقوام کا تھا جنہوں نے ہم سے پہلے ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لئے ربانی ہدایات سے واقف ہونے اور ان پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں پس پشت ڈال دیا تھا اور آپس مےں اختلافات پیدا کر لئے تھے۔ سابقہ امتوں کے لئے تو یہ موقع تھا کہ جب وہ اس طرح حق کو بھلا دیتی تھیں تو ان کی اصلاح کے لئے اور انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لئے دوسرے نبی آتے تھے لیکن خاتم النبینﷺ کی امت کے لئے یہ راستہ تاقیامت بند ہے۔ اسی لئے امت کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اپنے نبیﷺ کی تعلیمات کو یاد رکھنا ان پر فرض ہو جاتا ہے۔ اس آیت مےں اللہ تعالیٰ نے جس خرابی کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے وہ ہے ذاتی اور گروہی مقاصد کی بنا پر اختلاف۔ مےں سمجھتا ہوں کہ ان تمام خرابیوں اور بیماریوں کی جڑ، جن مےں ہم مبتلاہےں، یہی اختلاف باہمی ہے۔ غور کیجئے کہ جو امت تمام انسانوں کے اختلاف و انتشار کا شکار ہے اور اس بدنہاد اختلاف کا اثر ہے کہ آج ہم اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو امت کے مفادات پر ترجیح دینے لگے ہےں اور ساری دنیا مےں حق سے اس بغاوت کے نتائج بھگت رہے ہےں۔ ہمارا عقیدہ رسالت ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور آپ کی انہدایات، جن پر ہم ایمان کے مدعی ہےں، دل و جان سے عمل کرنے پر کمر بستہ ہو جاتیں۔ آپﷺ نے امت کو جو آخری نصیحت فرمائی تھی، اس مےں ارشاد فرمایا تھا کہ ”مےں تم مےں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں اگر تم ان پر سختی سے پابند رہے تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے اور یہ دو چیزیں ہےں اللہ کی کتاب اور میرا طریقہ، یعنی میری سنت۔“ ہم رسول اللہﷺ سے محبت کے دعوے دار ہےں اور آپ کا یہ فرمان ہمیں وہ راہ دکھاتا ہے جس کی پیروی کر کے آج ہم گمراہی سے بچ سکتے ہےں اور دین کے ان ہی دونوں ستونوں کو اپنا معیار قرار دے کر اپنے اختلافات ختم کر سکتے ہےں۔ 

No comments:

Post a Comment