Ad

Ad

Tuesday, 31 July 2012

Brunei Darussalam


برونائی دارالسلام
Brunei Darussalam
محل وقوع
جنوب مشرقی ایشیا مےں دنیا کے تیسرے بڑے جزیرے بورنیو کے شمالی ساحل پر واقع یہ سلطنت برونائی دارالسلام کہلاتی ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ جنوبی چین ہے اور یہ باقی جانب سے ملائیشیا کی ریاست سراوک سے گھرا ہوا ہے۔ مشرق سے شمال تک اس کا پھیلاﺅ 71 میل ہے، شمال سے جنوب مغرب تک 56میل تک پھیلا ہوا ہے۔ سراوک کی ایک تنگ پٹی اس کے درمیان سے گزرتی ہوئی اسے دو حصوں مےں تقسیم کرتی ہے تاہم مغربی حصہ کچھ بڑا ہے۔ دریائے برونائی اہم دریا ہے آب و ہوا گرم ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط 2400 تا 2900ملی میٹر ہے۔
لوگ 
برونائی دارالسلام کے 60فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا تناسب 14 فیصد اور 10 فیصد عیسائی بستے ہےں۔ 178 افراد فی مربع میل مےں بستے ہےں۔ شرح پیدائش 2.5 فی صد ہے۔ عوام خوشحال ہےں۔ برونائی دارالسلام کے 65 فیصد باشندے ملائی ہےں۔ 20 فی صد چینی اور باقی دیگر اقوام سے تعلق رکھتے ہےں۔ یہاں کے لوگ ملائی زبان بولتے ہےں۔ انگریزی زبان رابطے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔یہاں دینی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ لوگوں مےں شرح خواندگی بہت بلند ہے۔ 95فی صد لوگ خواندہ ہےں۔ حکومت اس شرح کو بھی مزید بہتر یعنی سو فیصد کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔ عوام کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ برونائی یونیورسٹی کا قیام 1985ءمےں عمل مےں آیا تھا۔ مرد افراد کی اوسط عمر 74سال اور خواتین کی 77برس ہے۔ لوگ بہت خوشحال ہےں۔ ہسپتالوں کی بھرمار ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین صحت عامہ کا ادارہ ہے اور ملیریا، ہیضہ اور چیچک جیسی مہلک بیماریوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ یہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا بھر مےں سب سے کم ہے یعنی 1000مےں سے دس بچے وفات پاتے ہےں۔
وسائل
تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال برونائی دارالسلام بہت خوشحال ہے۔ تیل اور گیس اس کی کل آمدنی کا 90فی صد ہے۔ جنوبی ایشیا مےں تیل اور گیس پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مائع گیس کی پیداوار مےں جنوب مشرقی ایشیا مےں اس کا چوتھا نمبر ہے۔ موآراجرڈونگ ملک کی مشہور شاہراہ ہے۔ شہاں سڑکوں کی لمبائی 1000میل سے زائد ہے۔ ریلوے لائن بھی تعمیر کی گئی ہے۔ تاہم اس لمبائی بہت کم ہے، صرف بارہ میل۔ بحری جہاز رانی کے ذریعے بھی آمدورفت ہوتی ہے۔ مارا اور کوالانسیلت اس کی دو بڑی بندرگاہیں ہےں۔ بیرونی تجارت انہی دو بندرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہےں۔
برونائی کی اپنی ایئر سروس ہے جو برونائی رائل ایئر لائنز کے نام سے مشہور ہے۔ سنگاپور، فلپائن، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ تک یہ سروس اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ صنعتی اعتبار سے یہ ملک قابل ذکر نہیں ہے۔ تاہم اس سلسلہ مےں متعدد اقدامات ہو رہے ہےں یہ ملک جاپان کو گیس فراہم کرتا ہے۔ یہاں تجارتی بنیادوں پر قدرتی گیس کو مائع گیس مےں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہاں کا زرعی رقبہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 3فیصد کے لگ بھگ لوگ اس پیشہ سے وابستہ ہےں، چاول، ربڑ، مرچ، سبزیاں، کساد اور کیلا اہم پیداواریں ہےں۔ سبزیاں بھی پیدا کی جاتی ہےں جو ملکی ضروریات کو پوری کرتی ہےں۔ حکومت زراعت پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاہم ملکی ضروریات کو غذا کے معاملہ مےں پورا کیا جائے۔
برونائی کی اہم درآمدات مےں مشینری اور ٹرانسپورٹ، اشیائے خوردنی، اشیائے صرف اور کیمیکلز شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں قدرتی گیس اور تیل کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
14ویں صدی کے شروع کی بات ہے کہ برونائی دارالسلام مےں ایک اللہ کا برگزیدہ بندہ برکت اسلام کی تبلیغ کے لئے یہاں آیا۔ اس نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ ادا پسند آئی۔ لوگ جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ 1425ءمےں ایک شاہ نے اسلام قبول کر کے اپنا نام محمد رکھا جس نے اس تحریک کو اور تقویت بخشی۔ شاہ بولقیہ پنجم کے زمانے مےں اس ملک کی سرحدیں جزائر بورنیو، سولو اور فلپائن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کی جنگ کے نتیجے مےں ملک تقسیم ہوگیا۔ سترھویں صدی کے آغاز مےں ولندیزی جنوبی بورنیو کی کئی بستیوں مےں آباد ہو چکے تھے۔ 1841ءمےں سلطنت برونائی کے خلاف بغاوت ہوئی جسے ایک انگریز جیمز روک نے کچل دیا، 1841ءکی بغاوت کے نتیجے مےں انگریزوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1888ءمےں برونائی کے سلطان اور برطانیہ مےں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت برونائی کی حفاظت کا ذمہ دار برطانیہ تھا۔ 1906ءمےں یہاں انگریز حکمران بن گئے۔ شاہ محض کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتا تھا۔ 1942ءتا 1945ءجاپان کی حکمرانی رہی۔ آسٹریلیا کی مداخلت پر جاپانی اس ملک سے نکل گئے۔ جنگ عظیم کے بعد سراوک بھی برطانیہ کے زیر اثر آیا۔ یکم جنوری 1984ءکو طویل مذاکرات کے بعد اسے آزاد اور خودمختار مملکت قرار دیا گیا۔ 43سالہ شاہ حسن البولقیہ سلطان بنے۔
برونائی دارالسلام کا موجودہ آئین 29ستمبر 1959ءمےں سلطان کی طرف سے نافذ کیا گیا۔ 6فروری 1965ءکو اس مےں ترمیم ہوئی جس کے تحت اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ اسمبلی اکیس ارکان پر مشتمل ہے جن مےں سے دس منتخب اور پانچ نامزد ہوتے ہےں۔ کابینہ کا سربراہ سلطان ہوتا ہے۔
2004ءمےں بیس سال کے تعطل کے بعد سلطان بولقیہ نے اکیس رکنی لیجسلیسو کونسل بحال کر دی۔ مزید برآں ایک اور آئینی ترمیم منظور کی گئی جس کے بعد جزوی طور پر منتخب کونسل کی راہ ہموار ہوگئی۔
آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی کے اصولوں پر قائم برونائی دارالسلام اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم، غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور آسین کارکن ہے۔

No comments:

Post a Comment