موٹاپا
تحریر: ڈاکٹر عبدالحنان
ڈین فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن ہمدرد یونیورسٹی، کراچی
فاقہ کشی موٹاپے کا علاج نہیں ہے
وزن بڑھنے کے بہت سے اسباب ہےں جن مےں سب سے اہم سبب غذا کی زیادتی یا اس کا صحیح انتخاب یا پھر ورزش کی کمی ہے۔ دراصل موٹاپے کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کی تدابیر اپنانے سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ غذا کیا ہے؟ جسم کے لئے کون کون سے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے کیا کام ہےں اور دراصل متوازن غذا کسے کہا جائے گا؟
غذا کا پہلا اہم جز لحمیات یا پروٹین ہے، جو جسم کے بنانے، بڑھانے اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کی ضرورت ہر عمر مےںہوتی ہے، مگر خاص طور پر بچوں کو زیادہ مقدار مےں درکار ہوتا ہے کیونکہ ان کا جسم بن رہا ہوتاہے اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ بھی رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ضعیفوں کو ہوا کرتی ہے۔ ان کا جسم بڑھ تو نہیں رہا ہوتا مگر ٹوٹ پھوٹ کی زیادتی کی وجہ سے جسم کی تعمیر کے لئے پروٹین زیادہ درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمیں گوشت، انڈا، مچھلی، دودھ، دالوں، خشک میوے اور سویابین سے وافر مقدار مےں مل جاتی ہے۔ دوسرا اہم غذائی جز نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹس ہے۔ اس سے جسم مےں حرارت اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔اس کی ضرورت بھی ہر عمر مےں ہوتی ہے مگر خصوصاً بچوں اور جوانوں کو زیادہ درکار ہوتا ہے۔ بچوں کو اس لیے کہ دوڑ بھاگ، کھیل کود مےں ان کی توانائی اور حرارت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جوان چونکہ اپنی عمر کے اس دور سے گزر رہے ہوتےہےں جس مےںانہیں انتہائی محنت مشقت کرنی ہوتی ہے خواہ وہ دماغی ہو یا جسمانی۔ جسمانی محنتکرنے والوں کو نشاستہ نسبتاً زیادہ چاہیے ہوتا ہے۔ دماغی محنت کرنے والوں کو نشاستے کے ساتھ ساتھ لحمیات بھی درکارہوتا ہے۔ یہ اناج، چاول، زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیوں، شکر اور شکر سے بنی ہوئی چیزوں سے فراہم ہو جاتے ہےں۔ غذا کا تیسرا جز چکنائی یا فیٹس ہےں، یہ بھی جسم مےں حرارت و توانائی پیدا کرنے کا ذریعہ ہےں۔ ساتھ ہی یہ بطور ذخیرہ جسم مےں جمع ہونے کی خصوصیت رکھتے ہےں۔ اگر ضرورت سے زیادہ غذا مےں موجود ہوںتو زیر جلد، پیٹ کی جھلیوں اور دیگر اعضا کے اردگرد چربی کی شکل مےں جمع ہوجاتے ہےںتاکہ ایسے وقت پر کام آسکیںجب کسی وجہ سے جسم کو غذا کم مل رہی ہو یا نہ مل رہی ہو۔ مثلاً فاقہ کشی، طویل بیماریاں، معمول سے زیادہ محنت مشقت وغیرہ۔ عورتوں مےں قدرتی طور پر چربی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے اور یہ ان کی فطری ضرورت ہے۔ چونکہ دوران حمل اور بچے کو دودھ پلانے کے زمانے مےں، جب توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہی جمع شدہ چربی ساتھ دیتی ہے۔ اس کے حاصل ہونے کے ذرائع روغنیات، بالائی، مکھن، پنیر، گھی، انڈا، روغن والے بیج، خشک میوے وغیرہ ہےں۔ اس کے علاوہ نشاستے دار چیزیں بھی چربی بناتی ہےں، وہ اس طرح کہ اگر نشاستہ ضرورت سے زیادہ مقدار مےں استعمال کیا جائے تو وہ کیمیاوی انہضام کے بعد چربی مےں تبدیل ہو کر ذخیرہ ہوتا رہتا ہے اور جمع شدہ چربی جسم کو بدوضع بناتی رہتی ہے۔ مذکورہ غذائی اجزاءکے علاوہ غذا کو متوازن رکھنے کے لئے چند مزید چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حیاتین، معدنیات، نمکیات اور پانی وغیرہ۔ یہ بھی سبزیوں، پھلوں، دودھ، انڈے، گوشت، اناجوں کے چھلکوں وغیرہ سے فراہم ہو جاتے ہےں، لیکن معدنیات و نمکیات کنوﺅں اور چشموں کے پانی سے بھی جسم کو ملتے ہےں مگر ان کا تعلق چونکہ براہ راست وزن بڑھانے سے نہیں ہے، اس لئے ان کی تفصیل مےں ہم نہیں جائیں گے۔
اسباب:
غذائی اجزا کا بغور جائزہ لینے پر ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وزن بڑھانے مےں دو چیزیں اہم کردار ادا کر رہی ہےں، ایک نشاستہ اور دوسرے چکنائی۔ موٹاپے کی بنیادی وجہ غذا کا غیر متوازن ہونا ہے۔ چونکہ غذا کے انتخاب مےں بنیادی چیز، جس کا لحاظ رکھنا چاہئے وہ عمر اور کام کی نوعیت ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کی غذا ہمیں ان کی جسمانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کے مقابلے مےں بالکل الگ منتخب کرنی ہوتی ہے۔ اسی طرح ضعیف العمر حضرات کی غذا جوانوں کے مقابلے مےں مختلف ہونی چاہئے۔ جوانوں مےں بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ کام زیادہ جسمانی محنت کا کیا جا رہا ہے یا بیٹھ کر دماغی محنت کرتے ہوئے وقت گزرتا ہے۔ اسی طرح ایک خانہ دار خاتون کو اپنی دن بھر کی دوڑ بھاگ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا غذائی نقشہ بنانا چاہئے۔
موٹاپا دراصل سیدھا سا آمدنی و خرچ کا حساب ہے، کسی شخص کی روزانہ آمدنی جس قدر ہے اگر اتنا ہی خرچ بھی کر دیا جائے تو بچے گا کچھ نہیں، اس کے برخلاف آمدنی زیادہ ہو اور خرچ کم ہو تو رقم جمع ہونا شروع ہو جائے گی۔ بالکل یہی معاملہ، کھائی جانے والی غذا اور جسمانی خرچ کا ہے جو بھی غذا چوبیس گھنٹے مےں استعمال ہو رہی ہے اگر وہ خرچ بھی کر دی جاتی ہے تو جسم پر موٹاپا طاری نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف صورت مےں بدن کا بے ڈول ہونا لازمی ہے۔ غذا کی مقدار سے مراد یہاں غذائی اجزا کی مقدار ہے جس کا تناسب عمر اور محنتو مشقت کے لحاظ سے رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر ہم برصغیر کے لوگوں کی غذائی عادات کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ یہاں وزن بڑھنے کا سبب چکنائی اس قدر نہیں ہے جتنا نشاستہ ہے، کیونکہ ہماری غذا کا بڑا حصہ نشاستہ پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً روٹی، چاول، زمین کے اندر سے پیدا ہونے والی ترکاریاں اور میٹھا چکنائی عام طور پر بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔ دیہاتوں مےں گھی و مکھن کھانے کا زیادہ رواج ہے مگر وہاں اسی اعتبار سے زندگی بھی سخت گزاری جاتی ہے۔ سفید اقوام مےں وزن بڑھنے کا سبب چکنائی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی غذا مےں کریم، مکھن، پنیر، دودھ، کیک، پیسٹری، چاکلیٹ، آئس کریم اور بہت چکنے گوشت شامل ہوتے ہےں لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر چکنائی سالن پکانے یا چیزوں کو تلنے مےں استعمال کی جاتی ہے جو بہت مقدار مےں نہیں ہوتی۔ روٹی یا چاول، شوربے دار سالنوں سے کھائے جاتے ہےں جن مےں سالن کی مقدار کم اور روٹی چاول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یا پھر میٹھا، مٹھائیوں و دیگر مشروبات کی شکل مےں نوش کیا جاتا ہے۔ روٹی استعمال کرنے والے لوگوں کی غذا مےں زیادہ مقدار آٹے کی ہوتی ہے اور آٹا بھی عموماً باریک چھان کر اس کی بھوسی الگ کر دی جاتی ہے جن مےں نشاستے کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ اندازہ ہم کر چکے ہےں کہ ہر قسم کا نشاستہ جو جسمانی ضروریات سے زیادہ ہو، چربی مےں تبدیل ہو کر جسم مےں جمع ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے وزن کم کرنے کا پروگرام بناتے وقت نشاستے کو نہیں بھولنا چاہئے۔ دوسری غلطی جو وزن کم کرنے والے افراد کرتے ہےں، وہ فاقہ کشی ہے۔ یعنی غذا کو چھوڑ دینا یا ضرورت سے بہت کم کر دینا۔ یہ بڑی سنگین غلطی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں مےں، نو عمر لڑکیاں اس عمل سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہےں۔ غذا جسم کے لئے ایک لازمی جز ہے اور اگر یہ متوازن اور صحیح مقدار مےں نہ ملے تو کسی بھی شخص کا تندرست رہنا اور اس کے جسم کی صحیح نشوونما ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ غذا کو اپنی جسمانی ضروریات کے لحاظ سے تبدیل توکیا جاسکتا ہے یا کسی حد تک کمی کی جا سکتی ہے مگر کھانے کے ناغے کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ایک بات اور ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ دبلا ہونا ایک الگ چیز ہے اور کمزور ہونا الگ بات ہے۔ بڑھے ہوئے وزن کے لوگوں کو دبلا ہونے کی جدوجہد کرنی چاہئے نہ کمزور ہونے کی۔ چونکہ دبلا ہونے مےں جسم کا تناسب اور چہرے کی رونق باقی رہے گی لیکن کمزور ہو جانے والے چہرے اور حلیے سے بیمار نظر آنے لگتے ہےں۔ ان کی جلد اور ہونٹوں کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اور آنکھوں کی چمک زائل ہو کر ان کے اردگرد سیاہ حلقے نمودار ہو جاتے ہےں۔ بعض تو معدے کو خالی رکھ رکھ کر اس مےں تیزابیت بڑھا لیتے ہےں اور نوبت معدے کے زخموں تک پہنچتی ہے یا یہ لوگ غذائی اجزاءکی کمی سے پیدا ہونے والے امراض مےں گھر جاتے ہےں۔ ہمیشہ ہر معاملے مےں فتح و کامرانی انہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو تندرست و صحت مند ہوں اور وہی لوگ اچھے بھی لگتے ہےں جو تندرست و صحت مند ہوں۔ جو چیزیں کسی شخص کو جاذب نظر بناتی ہےں ان مےں جسم کے متناسب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت بھی ہے اور صحت نام ہے جلد کے پیچھے سے نظر آنے والے خون کا، پھرتی و چستی کا، ہمت و حوصلے اور ہر مشکل کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کا۔
علاج اور احتیاط
اب اگر کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جسم، خصوصاً پیٹ و کولہوں پر چربی جمع ہوگئی ہے تو اسے دو کام کرنے چاہئیں۔ پہلا یہ کہ غذا مےں چربی پیدا کرنے والی چیز یعنی نشاستہ کم کر دیا جائے دوسرے جسم مےں ان کا خرچ بڑھا دیا جائے۔ خرچ، محنت و مشقت زیادہ کر کے یا ورزش کر کے بڑھایا جاسکتا ہے اور آمد نشاستے والی اشیاءسے گریز کر کے کم کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ لحاظ رکھنا ہوگا کہ ہم نشاستے والی چیزوں مےں جو کمی کر رہے ہےں، مثال کے طور پر روٹی یا چاول یا شکر مےںاگر کمیکی جا رہی ہے تو اس کمی کو ایسی چیزوں سے بھی پورا کر لیا جائے جن مےں نشاستہ نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ ان مےں بھی زمین کے اندر پیدا ہونے والی ترکاریوں سے پرہیز کیا جائے۔ سلاد کے پتے، ٹماٹر، کھیرا، بند گوبھی اور ککڑی بہت مناسب رہیں گی۔ اگر ان سے طبیعت سیر ہو جانے کا خدشہ ہو تو کسی وقت یہ سبزیاں، ترکاریاں اور کسی وقت ابلا ہوا یا روسٹ کیاہوا گوشت، مچھلی یا دلیہ لیا جاسکتا ہے۔ دالیں چھلکے کے ساتھ پکائی جائیں اور شکر بھی کم کر دی جائے۔ اس طرح وزن مےں جو کمی ہوگی وہ یقیناً آہستہ آہست ہوگی مگر نہ تو فاقے کی مشقت برداشت کرنی ہوگی اور نہ ہی معدے مےں تیزابیت اور اس سے پیدا ہونے والے امراض پیدا ہوں گے۔ ساتھ ہی خون کی کمی اور کمزوری کی علامات چہرے پر نمودار ہو کر اچھی خاصی شخصیت کو مدقوق نہیں بنا سکیں گی۔
No comments:
Post a Comment