Ad

Ad

Tuesday, 31 July 2012

Bangladesh


بنگلہ دیش
Bangladesh
محل وقوع
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق اور مغرب مےں بھارت، جنوب مےں خلیج بنگال اور برما ہےں۔ یہ دنیا کا سب سے گنجان آبادی والا ملک ہے۔ اس کی آب و ہوا گرم و مرطوب ہے۔ بارش موسمی یعنی مون سون سے ہوتی ہے۔ بارش کی سالانہ اوسط 80انچ سے زیادہ ہے۔
لوگ 
بنگلہ دیش دنیا کا آبادی کے لحاظ سے گنجان ترین ملک ہے۔ 2917افراد یہاں ایک مربع میل مےں بستے ہےں۔ 24فیصد لوگ شہروں مےں باقی دیہاتوں مےں رہتے ہےں۔ ملک مےں بنگالی 98فیصد ہےں جبکہ بہاری النسل 2فیصد ہےں۔ مسلمان بنگلہ دیش کی کل آبادی کا 88فی صد ہےں۔ 11فی صد ہندو اور صرف ایک فی صد عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے افراد رہتے ہےں۔ بنگلہ دیش مےں خواندگی کی شرح اتنی اچھی نہیں۔ خواندگی کا تناسب تقریباً 41فیصد ہے 24فیصد بچے پرائمری سکول مےںاور 4فیصد سیکنڈری سکولوں مےں پڑھنے جاتے ہےں حالانکہ سکولوں، کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کی یہاں کمی نہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر 54برس ہے۔ سالانہ شرح پیدائش 2.3فیصد ہے، 3233افراد کے حصے مےں ہسپتال کا ایک بستر آتا ہے جبکہ 6166کے لئے صرف ایک ڈاکٹر۔ بنگلہ دیش کے مسلمان کٹر اسلامی ذہنیت رکھتے ہےں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈھاکہ کو مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔
وسائل
بنگلہ دیش بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ ملک کی آبادی کا 80 فی صد حصہ اسی پر انحصار کرتا ہے۔ چاول، پٹ سن، چائے، تمباکو، گنا، آلو، ناریل، ساگوان، دالیں، بانس، روغنی بیج، پھل اور سبزیاں اہم زرعی اجناس ہےں۔ دنیا مےں سب سے زیادہ پٹ سن اسی ملک سے حاصل ہوتی ہےں، اس لئے اسے سنہرے ریشے کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ لکڑی اور ماہی گیری زراعت کے بعد دو بڑے ذریعہ معاش ہےں۔ مچھلی کل برآمدات کا 77فی صد ہے۔
خلیج بنگال سے تیل دریافت ہوا ہے مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اس سلسلہ مےں کام نہیں ہو رہا۔ دوسری معدنیات مےں سوئی گیس کے ذخائر تیتاس اور دوسرے مقامات پر پائے جاتے ہےں۔ چند بڑے شہروں کو گیس بھی مہیا ہے۔ کوئلہ، پتھر، چونا، سفید چکنی مٹی، شیشہ اور ریت اہم معدنیات ہےں۔
اس ملک کی صنعت کا زیادہ انحصار خام مال پر ہے۔ سیمنٹ، نیوز پرنٹ، کھاد کی فیکٹریاں، ٹیکسٹائل کی ملیں اور ماچس کی فیکٹری جابجا قائم ہےں۔ پٹ سن کے کارخانے بے انتہا موجود ہےں۔ ملک کے 7 یا 8 فی صد مزدور صرف پٹ سن کے کارخانوں مےں کام کرتے ہےں۔
ملک کی اپنی فضائی کمپنی بنگلہ دیش ایرویز ہے۔ تجارت کا انحصار آبی راستوں پر ہے۔ چٹاگانگ اور کھلنا اہم بندرگاہیں ہےں۔ ریلیں، موٹر گاڑیاں، ہوائی جہاز اور بحری جہاز مواصلات کا اہم ذریعہ ہےں۔ 4500 میل لمبی سڑکیں ہےں۔ ریلوے لائن کی لمبائی 2892کلومیٹر ہے۔ اہم درآمدات اشیائے خوردنی، کپاس، کھاد اور اشیائے صرف ہےں جبکہ اہم برآمدات چمڑا، چائے اور پٹ سن ہےں۔
تاریخ
1947ءسے پہلے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش ایک ہی ملک تھا جسے متحدہ ہندوستان کہتے تھے۔ اس علاقے مےں سے پہلے قطب الدین ایبک نے 1199ءمےں اسلامی حکومت قائم کی جو اس کے سپہ سالار اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی نے فتح کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے پہلے 1651ءمےں یہاں قدم جمائے۔ 1757ءمےں یہاں نواب سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان جنگ پلاسی لڑی گئی جس مےں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی۔ اسی جنگ کے نتیجے کے طور پر ہندوستان مےں انگریزوں کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔ 1764ءمےں شاہ عالم ثانی نے بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اسی ملک کے دارالحکومت مےں 1905ءمےں مسلم لیگ کی بنیاد پڑی۔
14 اگست 1947ءکو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت مےں بے شمار قربانیوں کے بعد ایک اسلامی مملکت پاکستان کا قیام عمل آیا۔ آج کا بنگلہ دیش اس اسلامی مملکت کا مشرقی حصہ قرار پایا جس مےں برطانوی ہند کا سابقہ صوبہ مشرقی بنگال اور آسام کا ضلع سلہٹ شامل ہےں۔ یہاں کے لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لئے بے شمار جانی و مالی قربانیاں دیں لیکن قیام پاکستان کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا مشرقی پاکستان کے لوگوں مےں محرومیت اور ملکی امور مےں غیر موثر ہونے کا احساس بڑھتا گیا۔ آبادی مےں تیزی سے اضافہ اور معاشی عدم توازن نے لوگوں کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا جس کے سبب علیحدگی کے رجحانات نے جنم لیا۔
1954ءمےں شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے زیر قیادت پہلی دفعہ سیاسی خودمختاری کے لئے تحریک چلی۔ 1970ءمےں یہ تحریک زور پکڑ گئی جب مشرقی پاکستان مےں پانچ لاکھ افراد سیلاب کی تباہ کاریوں کے شکار ہوگئے۔ 1971ءمےں یہ تحریک سول نافرمانی اور پھر انارکی کی صورت اختیار کر گئی۔ انتظامی مشینری مفلوج ہوگئی۔ پورے صوبے مےں ہیضہ اور قحط پھیل گئے۔ ان حالات مےں ہندوستان کی مداخلت کے سبب حالات مزید بگڑ گئے۔ بالآخر 1971ءمےں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ کے بعد جمہوریہ بنگلہ دیش وجود مےں آیا جسے 1972ءمےں بین الاقوامی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن اس کے پہلے وزیراعظم بنے۔
15اگست 1975ءکو ایک زبردست انقلاب برپا ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کے تمام افراد اور سیاسی حلیفوں کو قتل کر دیا گیا۔ خوند کر مشتاق صدر بنے۔ نومبر 75ءمےں جنرل ضیاءالرحمن نے مارشل لاءلگا دیا۔ 30مئی 1981ءکو انہیں بھی چٹا گانگ مےں قتل کر دیا گیا۔ نائب صدر عبدالستار نے چھ ماہ کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا مگر چیف آف آرمی سٹاف جنرل ارشاد نے مئی 1982ءمےں اس اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1988ءمےں بنگلہ دیش کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ 88ءاور 89ءمےں قدرتی آفات سے چر ہزار آدمی مارے گئے اور تیس لاکھ بے گھر ہوگئے۔ 
دسمبر 1990ءمےں جنرل ارشاد کو کرپشن کے الزامات کا شکار ہو کر عوامی دباﺅ کی بدولت استعفیٰ دینا اور جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ فروری 1991ءمےں پارلیمانی انتخابات ہوئے جن مےں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی۔ مرحوم جنرل ضیاءالرحمن کی بیوہ اور پارٹی کی رہنما خالدہ ضیاءوزیراعظم بن گئیں۔ 1992ءمےں میانمر سے مہاجرین کی آمد سے بنگلہ دیش کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا۔
بنگلہ دیش کا سیاسی کلچر پاکستان کے سیاسی کلچر سے چنداں مختلف نہیں۔ بیگم خالدہ ضیاءکو بھی چین سے حکومت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ حزب اختلاف مسلسل ان کے خلاف تحریک چلاتی رہی۔ 1995ءمےں یہ تحریک اتنی قوت پکڑ گئی کہ نومبر مےں پارلیمان کو ہی تحلیل کر دیا گیا۔
فروری 1996ءکو عوامی دباﺅ کے نتیجے مےں وزیراعظم خالدہ ضیاءنے انتخابات کروائے۔ اپوزیشن نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نتائج یہ رہے کہ حکمران پارٹی بی این پی دوتہائی اکثریت سے جیت گئی۔ اس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے زبردست احتجاج کیا اور تحریک چلائی۔ وزیراعظم خالدہ ضیاءکو مجبوراً آئین مےں ترمیم کر کے ایک نگران حکومت تشکیل دینا پڑی۔ نگران حکومت کے منعقد کردہ جون 96ءانتخابات کے نتیجے مےں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی اور چند دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر شیخ مجیب الرحمن مرحوم کی بیٹی شیخ حسینہ واجد وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔
جون 1999ءمےں بی این پی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر دیا اور پورے ملک مےں ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کروا دیا۔ حزب اختلاف کی چار جماعتوں کے ایک اتحاد نے اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخابات کے علاوہ مقامی بلدیاتی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔
یکم اکتوبر 2001ءکو عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات بی این پی کے بنائے ہوئے چار جماعتوں کے اتحاد نے کامیابی حاصل کی۔ بیگم خالدہ ضیاءتیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ ان کا یہ دور اقتدار بھی حزب اختلاف کی مخالفتوں اور شورشوں سے بھرا رہا لیکن بہرحال وہ اپنی مدت مکمل کرنے مےں کامیاب رہیں۔ فروری 2006ءمےں عوامی لیگ نے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل مےں تبدیلیاں کی جائیں اور انتخابات سے پہلے نگران حکومت قائم کی جائے تاکہ موجودہ حکومت انتخابات مےں دھاندلی نہ کر سکے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کوئی نتیجہ برآمد کرنے مےں ناکام رہے۔
3جنوری 2007ءکو عوامی لیگ نے اعلان کیا کہ وہ 22جنوری کے روز منعقد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی 11جنوری کے روز صدر لج الدین احمد نے ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے چیف ایڈوائزر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کر دیا۔ایمرجنسی کے قوانین کے تحت بعض بنیادی آئینی آزادیاں معطل کر دی گئیں اور انگنت سیاستدانوں کو کرپشن اور دیگر جرائم کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ حکومت نے اعلان کیاکہ نئے انتخابات کا انعقاد 2008ءکے اواخر مےں ہوگا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد حکومت نے شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاءکو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔ بہرحال دونوں رہنماﺅں پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ 
29نومبر 2008ءکو منعقد ہونے والے عام انتخابات مےں شیخ حسینہ واجد کی عوام لیگ اور اس کے ساتھ اتحاد بنانے والی دیگر جماعتوں نے کامیابی حاصل کی اور 6جنوری 2009ءکے روز شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر بنگلہ دیش کی وزیراعظم بن گئیں۔ بیگم خالدہ ضیاءنے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور الزام لگایا کہ چیف الیکشن کمشنر نے ان انتخابات کو ”stage-manage“ کیا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی ناکامی مےں ان کے اتحاد مےں شامل کرپشن کے لئے بدنام رہنماﺅں اور ان کے بیٹے طارق رحمان کے متعلق پھیلتی ہوئی باتوں نے اہم کردار ادا کیا۔
25سے 27فروری 2009ءتک بنگلہ دیش سرحدی گارڈز کی بغاوت کی زد مےں رہا۔ بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک ہزار سے زائد جوانوں نے فورس کے ہیڈ کوارٹرز پر قبضہ کر لیا اور کئی افسروں کو یرغمال بنائے رکھا۔ دوسرے دن تک یہ جنگ 12مزید قصبوں اور شہروں تک پھیل چکی تھی۔ تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ اس واقعے کا غالباً سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ یرغمال بنائے جانے والے 181افسران مےں سے صرف 33زندہ بچ سکے۔
آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی، اقوام متحدہ کا ممبر ملک، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور سارک کا رکن ملک ہے۔

No comments:

Post a Comment