Ad

Ad

Thursday, 19 July 2012

Dil Ki Bemarian


امراض قلب مےں سرفہرست دل کا دورہ ہے جو دنیا بھر مےں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل امراض قلب خصوصاً دل کے دورے کو امراءاور رﺅسا کا مرض سمجھا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ جوانی مےں عیش و آرام کرتے ہےں، جس کی وجہ سے بڑھاپے مےں امراض قلب کا شکار ہو جاتے ہےں، لیکن آج کے دور مےں اگر، اردگرد نظر دوڑائی جائے تو یہ مرض آبادی کے تمام طبقوں مےں پھیلا نظر آتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان بھی اس کی لپیٹ مےں آرہے ہےں۔ عالمی یوم قلب، پوری دنیا مےں ہر سال ستمبر کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کو، دل کے امراض سے متعلق آگہی دی جائے تاکہ وہ دل کے دورے اور بلڈ پریشر پر قابو پانے مےں کامیاب ہو سکیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کے ذریعے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہ بیماری زور پکڑ رہی ہے اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک (جیسے پاکستان) مےں امراض قلب کی سرح دیگر ممالک کے مقابلے مےں کئی گنا زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور عالمی انجمن قلب کے مطابق اس خطے (پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت وغیرہ) مےں امراض قلب نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے اور ماہرین کے مطابق آئندہ برسوں مےں ان کی شرح اور شدت مےں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان مےں امراض قلب کا ایک اور نہایت افسوس ناک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان اس مرض کا شکار ہو رہے ہےں اگر مغربی ممالک کے ساتھ اس شرح کا مقابلہ کیا جائے، تو پاکستان مےں حملہ قلب کی اوسط عمر باقی ممالک سے دس سال کم ہے۔ ایک طرف تو یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور کم عمر لوگوں کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے، تو دوسری طرف ہمارے وسائل، ان سے خاطر خواہ طور پر نمٹنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ بات سب کے علم مےں ہے کہ دل کے امراض کا علاج ارزاں اور آسان نہیں اور جس طرح کی مشینری اور دیگر لوازمات کا، اس شعبے مےں آئے دن، اضافہ ہو رہا ہے ان عوام سے امراض قلب کا علاج بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں مریض مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قیمتی زندگیوں سے محروم ہو رہے ہےں یا پھر دوسری طرف ایک نہایت ہی کم تر زندگی گزارنے پر مجبور ہےں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک مےں امراض کا حل کیا ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ایسے عوامل سے خود کو دور کیا جائے، جو امراض قلب کا باعث بن سکتے ہےں یعنی خوراک مےں مناسب ردوبدل کے ساتھ زندگی مےں مناسب تبدیلیاں، تاکہ ان امراض کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ مناسب تبدیلیوں سے مراد یہ ہے کہ ورزش کی جائے، تمباکو نوشی اور پان چھالیا سے جان چھڑائی جائے اور آرام کی زندگی کو چھوڑ کر مشقت کے کام کیے جائیں۔ 
امراض قلب کی پہلی قسم بچوں مےں ماں کے پیٹ مےں واقع ہوتی ہے اور یہ دل کے پیدائشی نقائص کی صورت مےں سامنے آتی ہے۔ اس کے سدباب کے لئے حاملہ خواتین کو دوران حمل، خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا چاہئے بالخصوص دوران حمل، بلاوجہ ادویہ کے استعمال سے احتراز کیا جائے اور ایکسرے وغیرہ سے بھی دور رہا جائے۔ ایسے امراض، جنہیں پیشگی طور پر روکا جاسکتا ہے جیسے جرمن خسرہ وغیرہ ان سے بچاﺅ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ دوسری قسم مےں لڑکپن یا نوجوانی کے دور مےں ہونے والا گٹھیائی بخار ہے، یہ عموماً گنجان آباد علاقوں کے رہائش پذیر افراد کو اپنا نشانہ بناتا ہے، جہاں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان مےں اس مرض کے تقریباً دس سے بارہ لاکھ مریض موجود ہےں۔ اس مرض مےں علاج معالجے کے بعد جوڑ تو صحیح ہو جاتے ہےں لیکن دل کے خانے خراب ہو جاتے ہےں۔ مرض کے سدباب کے لئے بہتر رہائشی سہولتیں اور بہتر غذائی سہولتوں کا میسر ہونا ضروری ہے۔ تیسرا اور سب سے عام رگ و دل کا عارضہ بلند فشار خون ہے، جس مےں ہر چار مےں سے ایک فرد مبتلا ہے۔ اس عارضے کا اگر مناسب علاج معالجہ نہ کرایا جائے اور ضروری احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائے تو حملہ قلب، انجائنا، نابینا پن، دل کا فیل ہونا، گردوں کا فیل ہونا اور قبل از وقت موت کا واقع ہو جانا سرفہرست ہے۔ اس عارضے کے سدباب کے لئے مناسب علاج کے ساتھ ساتھ اپنی خوراک مےں نمک کو یک سر کم کر دینا اور خوراک مےں چینی، چکنائی اور گوشت سے بنی اشیاءسے مستقل پرہیز شامل ہےں۔ چوتھا اور اس زمانے کا سب سے مہلک مرض دل کی نارسائی خون کا ہے، جس کے نتیجے مےں انجائنا اور ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ کسی زمانے مےں یہ مرض ادھیڑ عمر کا مرض سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کل 40سال کی عمر سے قبل ہی افراد اس مرض کا شکار ہو رہے ہےں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عارضے مےں مبتلا مریضوں مےں سے 30فی صد کی عمر 40سال سے کم جب کہ اسی فیصد ناگہانی اموات کا سبب یہی مرض ہے۔ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ خوراک مےں سے چکنائی خصوصاً جمی ہوئی چکنائی یعنی چربی، گوشت، چینی اور نمک، کم کر دیا جائے، اس کے علاوہ تمباکو نوشی سے اجتناب برتا جائے اور روزانہ ورزش کو معمول بنایا جائے۔ 
انجائنا اور دل کا دورہ ایک ہی بیماری کے دو نام نہیں۔ دل کو خون کی مطلوبہ فراہمی مےں عارضی کمی واقع ہونے سے دل کے پٹھوں کو آکسیجن کی سپلائی معطل ہو جاتی ہے، چناں چہ درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ درد انجائنا کا درد کہلاتا ہے اور عموماً ورزش کے دوران یا ذہنی تناﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے ورزش روکنے یا سکون سے بیٹھ جانے یا لیٹ جانے یا انجائنا ٹیبلٹ چوسنے سے کم ہو جاتا ہے، جب کہ ہارٹ اٹیک انجائنا کی ہی ایک شدید اور خطرناک قسم ہے۔ اس کا درد نہایت شدید اور مسلسل ہوتا ہے اور آرام کرنے سے بھی ختم نہیں ہوتا۔ مریض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہےں۔ بار بار متلی اور الٹی کی کیفیت طاری ہوتی ہے چہرہ زرد ہو جاتا ہے اور نبض تیز اور بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔ انجائنا کی طرح ہارٹ اٹیک کا درد چند منٹوں مےں ختم نہیں ہوتا کہ اس مےں دل کے عضلات کو خون اور آکسیجن ضرورت کے مطابق زیادہ عرصے تک نہیں ملتی یا مستقل منقطع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دل کے اس حصے کی موت واقع ہونے لگتی ہے، چناں چہ اسی حالت کو ہارٹ اٹیک کہا جاتا ہے۔ 
دل اور دل کی کارکردگی پر اثرانداز ہونے والے عوامل پر اگر نظر ڈالی جائے تو عموماً ہائی بلڈپریشر، کولیسٹرول کا بڑھنا، گٹھیا کا مرض، موٹاپا، ذیابیطس، تمباکو نوشی، طرز زندگی یا شخصیت کا عمل دخل، ذہنی تناﺅ و دباﺅ، پستی (ڈیپریشن) فکر (انگزائٹ)، غصہ، منفی انداز فکر، تن آسانی و کاہلی اور موروثی، رجحان قابل ذکر ہےں۔ اسی طرح دل اور دل کی کارکردگی کے دشمن عوامل مےں سفید چینی، نمک، سرخ گوشت، اشتعال انگیز عناصر و مشروبات، قبض اور ہاضمے کے مسائل اور چکنائیوں کا بکثرت استعمال سرفہرست ہےں۔ 
درج بالا عوامل کی روشنی مےں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ دل کی صحت مندی کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے کے معاملات پر گہری نظر رکھی جائے اور ساتھ ہی سستی و کاہلی سے دور رہا جائے۔ روزمرہ خوراک مےں درج ذیل لوازمات انسانی صحت کے لئے بالعموم اور دل کی صحت کے لئے بالخصوص انتہائی معاون ہےں: 
تازہ پھل، خام سبزیاں، مچھلی، ریشہ، آرگینک فوڈ، یعنی نامیاتی خوراک کو ادل بدل کر استعمال کرنا، اسی طرح صاف پانی کا استعمال۔ 
روزمرہ خوراک مےں ان اشیاءکی مقدار کم کر دیں 
ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ، نمک، سیرشدہ چکنائیاں، کولیسٹرول، چائے و کافی، الکوحل اور کیلوریز سے پُر غذائیں۔ 
ان ہدایات پر بھی ضرور عمل کریں 
چھوٹے چھوٹے نوالے کھائیں اور اچھے طریقے سے چبائیں، کھانے کے دوران پریشان کن خیالات یا مایوس کن گفتگو سے گریز کریں، خراب غذائی عادات کو فوری طور پر ترک کر دیں، کھانوں کو بہت زیادہ پکانے سے گریز کریں، کچا پکا کھائیں، چربی مےں حل پذیر حیاتین ضرور کھائیں، اسی طرح پانی مےں حل پذیر حیاتین کو ضرور کھائیں۔ 

No comments:

Post a Comment