بینن
Benin
محل وقوع
بینن مغربی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں ٹوگو، مشرق مےں نائیجریا اور برکینو فاسو اور شمال مےں نائیجر واقع ہےں۔ اس کے جنوب مےں مختصر سا سمندری ساحل بھی موجود ہے۔
لوگ
بینن کی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوانوں اور کمسنوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اوسط عمر 59سال ہے۔ اس ملک مےں کم و بیش 42مختلف نسلی گروہ آباد ہےں جو مختلف مواقع پر یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔ بڑے نسلی گروہوں مےں یوروبا، ڈینڈی، بریبا اور فلبے شامل ہےں۔
مذہبی اعتبار سے یہاں سب سے بڑا گروہ لامذہبوں کا ہے۔ ملک کی 70فیصد کے لگ بھگ آبادی لامذہبیت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ جو کسی مذہب کو مانتے ہےں، ان مےں سے 20فیصد اسلام کے پیروکار ہےں۔ مسلمانوں کے علاوہ یہاں عیسائیوں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے۔
وسائل
بینن کی معیشت ابھی تک پسماندہ ہے۔ یہ زیادہ تر زراعت خصوصاً کپاس کی پیداوار اور علاقائی تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ جی ڈی پی کا چالیس فیصد کپاس سے حاصل ہوتا ہے۔ افریقہ کے کئی دیگر پسماندہ ممالک کی طرف بینن بھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دیئے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے لیکن ان قرضوں سے اپنے لئے فلاح کی کوئی صورت حاصل نہیں کر پایا۔
تاریخ
قبل از اسلام بینن مےں رہنے والے قبائل کی تاریخ کے بارے مےں کچھ معلوم نہیں۔ آثار قدیمہ کی کھدائی سے جو ظروف وغیرہ دریافت ہوئے ہےں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قدیم زمانے مےں بھی انسانی معاشرت اور تہذیب موجود تھی۔ یہاں اسلام کا ظہور ابتدائی ہجری ہی مےں ہوگیا تھا۔ شمالی علاقوں مےں مسلمانوں کی معاشرت کے آثار، مساجد وغیرہ آج تک موجود ہےں۔ اس ملک پر فرانسیسی قبضے کے بعد اسلام تیزی سے پھیلا تاہم بینن مےں کوئی اسلامی سلطنت قائم نہیں ہو سکی۔
یہاں کے قبائل کی تاریخ کا مستند اور صحیح ریکارڈ سترہویں صدی سے ملنا شروع ہوتا ہے جب سلطنت ”دہومی“ قائم ہوئی۔ بینن دہومی کا نیا نام ہے۔ یہ سلطنت 1818ءتک اپنے عروج پر تھی۔ اس وقت بادشاہ گیزوسلطنت پر حکمران تھا۔ اس نے مسلسل چالیس سال تک حکومت کی۔ 1851ءمےں شاہ گیزو نے فرانس سے ایک تجارتی معاہدہ کیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شاہ گلے گل تخت نشین ہوا تو اس نے یہ معاہدہ برقرار رکھا جس طرح ہندوستان مےں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے بہانے رفتہ رفتہ اپنے سیاسی قدم جمائے تھے، اسی طرح فرانسیسیوں نے بھی سیاسی چالیں چلیں اور 1863ءمےں پورٹ نوو کا الحاق کر لیا۔ جب نائیجریا مےں برطانیہ نے لاگوس پر قبضہ جما لیا تو پھر فرانس اور برطانیہ کے مابین سرحدوں کے تعین کے بارے مےں ایک معاہدہ ہوا کہ برطانیہ کی حکمرانی یہاں تک ہے اور فرانس کی حکومت یہاں تک۔ ادھر قریب ہی مغرب مےں جرمنی ٹوگو مےں آپہنچا تھا۔انہوں بینن کی طرف بڑھنا چاہا لیکن فرانس نے تدبر سے کام لیتے ہوئے ان سے معاہدہ کر لیا اور 1885ءمیں طے پا گیا کہ جرمنی صرف گنی اور ٹوگو تک محدود رہے گا۔
1889ءمےں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے درمیان سہ فریقی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق سرحدوں کی حد بندی مستقل ہوگئی۔ اسی سال بینن کے بادشاہ اور فرانس کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی۔ باضابطہ جنگ ہوئی جس مےں بینن کی ایمزن خواتین نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ 1890ءمےں صلح نامہ ہوا جس کی رو سے طے پایا کہ فرانس بینن کا ”محافظ“ ہوگا اور بادشاہ کو سالانہ آٹھ سو پونڈ پنشن ملے گی۔
شاہ گلے گل کے بعد اس کا بیٹا بہازین تخت پر بیٹھا جس نے 1892ءمےں فرانس کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ قبائل کو شکست ہونے لگی تو شاہ بہازین نے دارالحکومت کو آگ لگوا دی اور خود فرار ہوگیا۔ آخر 1894ءمےں اس نے ہتھیار ڈال دیئے۔
اب فرانس نے ملک کو دو حصوں مےں تقسیم کر دیا، ابومی اور ایلوڈا۔ ابومی کے تخت پر بہازین کے بڑے بیٹے کو بٹھا دیا اور باقی ملک پر خود قابض ہوگیا۔ 1900ءمےں فرانسیسیوں نے شاہ ابومی کو بھی معزول کر کے کانگو روانہ کر دیا۔
1898ءمےں برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک اور معاہدہ طے پایا جس کی رو سے مشرقی سرحدوں کا تعین ہوا۔ پھر 1912ءمےں فرانس نے جرمنی سے معاہدہ کیا، جس کے مطابق ٹوگو اور بینن کی مغربی سرحدوں کا تعین ہوا اور یوں جغرافیائی طور پر موجود بینن وجودمےں آیا۔
1904ءمےں یہ علاقہ فرانسیسی مغربی افریقہ مےں شامل کر لیا گیا۔ فرانس نے یہاں ریلوے اور سڑکیں تعمیر کیں اور کافی کی پیداوار مےں اضافہ کیا۔ ترقیاتی کاموں کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ بھی زور شور سے جاری رہی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر سے تبلیغ کے کاموں مےں آسانیاں اور ترغیبات پیدا ہو رہی تھیں۔ چنانچہ بیس سال کے اندر اندر عیسائیوں کی تعداد پونے تین لاکھ تک پہنچ گئی۔
اسلام کے ابتدائی دور مےں ہی بینن کے شمالی علاقوں کے قبائل نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ نائیجریا اور مالی کے مسلمان بھی ہجرت کر کے یہاں آباد ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے قدیم قبائل کے مرد و زن بھی رفتہ رفتہ اسلام کی سادگی اور حقانیت کو تسلیم کرنے لگے۔ یہاں کسی بھی بڑے اسلامی ملک کی طرف سے مبلغین کی کوئی جماعت نہیں پہنچی۔ محض یہاں کے مسلمانوں کی ذاتی تبلیغی کوششوں کا ثمر ہے کہ آج بینن کی آبادی کا بیشتر حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں پہلی نیم خودمختار حکومت فرانس کے زیر سایہ قائم ہوگئی۔ 1957ءمےں اسے داخلی خودمختاری دے دی گئی اور بالآخر یکم اگست 1960ءکو مکمل آزادی حاصل ہوگئی۔
آزادی کے فوراً بعد کا دور بینن کے لئے شورش سے بھرپور تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر 1969ءتک اس ملک نے پانچ فوجی انقلابوں کا سامنا کیا۔ مئی 1970ءمےں فوج نے تین لیڈروں ماگا، احمدگبی اور اپتھی پر مشتمل ایک کمیشن چھ سال کی مدت کے لئے قائم کیا۔ اصول طے پایا کہ اس کا ہر رکن دو سال تک بینن کی صدارت کے فرانئض انجام دے گا۔ چنانچہ ماگا اس کے پہلے صدر بنے۔
1972ءمےں پھر فوجی انقلاب آیا۔ احمدگبی کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا اور میجر کریکو نے بہ حیثیت صدر اور وزیراعظم اقتدار سنبھال لیا۔ 1975ءمےں صدر کریکو کے حکم پر باضابطہ پردہومی کا نام تبدیل کر کے بینن رکھ دیا گیا۔ ان کی جماعت 1990ءکی دہائی تک اقتدار پر قابض رہی۔ فرانس اور دیگر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی پا کر کریکو نے ایک نیشنل کانفرنس بلائی، نیا جمہوری آئین متعارف کرایا اور صدارتی اور قانون ساز مجلس کے انتخابات منعقد کرائے۔ صدارتی انتخابات مےں کریکو کے بڑا مخالف وزیراعظم نسے فورسوگو تھا جو جیتنے مےں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی اس کے حامیوں کو اکثریت حاصل ہوئی۔ یوں بینن پہلا افریقی ملک بنا جو آمریت سے جمہوریت کا سفر کامیابی سے طے کرنے مےں سرخرو ہوا۔ مارچ 1995ءمےں قومی اسمبلی کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوا اور سوگلو کی پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں، تاہم اسے حتمی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ تاہم سابق صدر کریکو کے حامیوں کی ایک جماعت خاصی کامیاب رہی اور اس کامیابی کے بدولت کریکو 1996ءاور 2001ءکے صدارتی انتخابات مےں کامیاب ہو پایا۔
تاہم 2001ءکے انتخابات دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات کی زد مےں آکر مشکوک قرار پا گئے۔ دو بڑے صدارتی امیدواروں نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور کریکو ایک طرح سے بلامقابلہ صدر مملکت بن گیا۔ دسمبر 2002ءمےں بینن مےں پہلی مرتبہ میونسپل انتخابات کا انعقاد ہوا اور یہ مرحلہ بخیر و عافیت تکمیل تک پہنچا۔
مارچ 2006ءکے صدارتی انتخابات مےں ویسٹ افریقن ڈیولپمنٹ بینک کے ایک سابق صدر بونی یائی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بین الاقوامی ماہرین نے ان انتخابات کو آزاد، منصفانہ اور شفاف قرار دیا۔ صدر کریکو کو عمر اور متعدد بار منتخب ہونے کی وجہ سے آئینی طور پر انتخابات مےں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment