Ad

Ad

Tuesday, 31 July 2012

Bosnia Herzegovina


بوسنیا اینڈ ہرزگووینا
Bosnia Herzegovina
محل وقوع
جنوب مشرقی یورپ کے اس ملک کے شمال مغرب مےں جمہوریہ کروشیا سربیا، مانٹی نیگرو مشرق مےں اور بحیرہ ایڈریاٹک جنوب مےں واقع ہےں۔ اس کا 50فی صد رقبہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ چند ایک پہاڑ بھی ہےں۔
لوگ
یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ دیگر مذاہب مےں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے عیسائی شامل ہےں۔ آبادی مےں مسلمانوں کا تناسب 45فیصد ہے۔ دیگر مذاہب مےں سرب آرتھوڈاکس 36فیصد، رومن کیتھولک 15فیصد اور یہودی اور پروٹسٹنٹ 4فیصد ہےں۔
بوسنیا کی آبادی تین بڑے نسلی گروہوں، بوسنیائی، سرب اور کروٹس، پر مشتمل ہے۔ ان مےں سے 48فیصد بوسنیائی، 37فیصد سرب اور 14فیصد کروٹ ہےں۔
بوسنیا مےں لوگ تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دیتے ہےں۔ وہاں کی یونیورسٹیاں، کالج اور سکول عوام کی بھرپور خدمت مےں مصروف ہےں۔ یہی وجہ کہ وہاں خواندگی کا تناسب 90 فی صد سے زائد ہے۔
بوسنیا مےں 55000ڈاکٹر ہےں۔ اس اعتبار سے 80افراد کے حصے مےں ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں مےں بستروں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ تقریباً 30افراد کےلئے ایک بستر دستیاب ہے۔ زچہ و بچہ کی طرف بھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ شرح پیدائش 0.8فیصد سالانہ ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
وسائل
بوسنیا کی اہم زرعی پیداواروں مےں پھل، تمباکو، گندم، چنے اور لائیو سٹاک شامل ہےں۔ اہم صنعتوں مےں کپڑا، غالیجے، تجارتی لکڑی، انجینئرنگ کا سامان اور کیمیائی مادے شامل ہےں۔
معدنی اعتبار سے بھی یہ علاقہ اتنا پسماندہ نہیں ہے۔ یہاں سے بھورا کوئلہ، لگنائیٹ، باکسائٹ، ایسبٹاس، زنک، سیسہ وغیرہ نکالا جاتا ہے۔ ان سے اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
تاریخ
پہلے یہ ملک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ غازی عثمان خان نے اس کی بنیاد رکھی۔ 1463ءمےں جنگ کوسوو ہوئی جس مےں عثمانی ترکوں نے ہنگری اور آسٹریا کو شکست سے دوچار کر کے کوسوو اور بوسنیا پر قبضہ کر لیا۔ ازاں بعد بلغراد بھی عثمانی ترکوں کے قبضے مےں آگیا۔ 1878ءتک یہ ترکوں کے قبضے مےں رہا۔
1914ءمےں جنگ عظیم اول کے اختتام پر ہنگری، سربیا اور یوگوسلاویہ معرض وجود مےں آئے۔ آسٹریا کے ٹکڑے ہونے کے بعد سربیا، کروشیا، سلووینیا، مانٹی نیگرو اور بوسنیاہرزگووینا کا وفاق یوگوسلاویہ کی صورت مےں تکمیل پایا۔ جب تک مارشل ٹیٹو زندہ رہا، یوگوسلاویہ مےں مستحکم حکومت رہی۔ اس کی وفات کے بعد یوگوسلاویہ کے کمیونسٹ نظام مےں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ مشرقی یورپ سے کمیونسٹ حکومتوں کا بتدریج خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ جون 1991ءمےں کروشیا اور سلووینیا نے بغاوت کر کے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 15اکتوبر 1991ءکو بوسنیا کی پارلیمنٹ نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ سربوں نے ریفرنڈم کی مخالفت کی اور ہنگامے شروع کر دیئے لیکن پروگرام کے مطابق صدر عالی جاہ عزت بیگووچ نے ریفرنڈم کروایا جس کے نتیجے مےں 65 فی صد عوام نے آزادی کے حق مےں ووٹ دیا۔ 21مئی 1992ءکو اسے اقوام متحدہ کی رکنیت مل گئی اور کئی ممالک نے اس کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کر لیا۔ فوجی ہتھیار اور اور اڈے چونکہ سربیا کے متعصب عیسائیوں کے کنٹرول مےں تھے۔ اس لئے انہوں نے بوسنیا پر یلغار کر دی۔ ادھر بوسنیا مےں مقیم سربوں نے خانہ جنگی شروع کر دی جس کے نتیجے مےں متعدد علاقوں پر سربوں کا قبضہ ہوگیا۔ جبکہ سرائیوو، تزلہ، سربری نیکا اور موستر تک بوسنیا کی حکومت محدود ہوگئی۔ اس دوران اپریل 1992ءمےں امریکہ اور یورپی مشترکہ منڈی کے رکن ممالک نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔
1993ءبھی اس ملک پر منحوس سایہ بکھیرتا رہا۔ ہر طرف تباہی بربادی پھیل گئی۔ سال بھر اقوام متحدہ کے فوجی دستے، خوراک اور علاج کی سہولتیں فراہم کرتے رہے۔ ادھر سرب بیگار کیمپوں مےں بوسنیائی باشندوں کو بند کر دیا گیا اور مسلم خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کو ہر روز کا معمول بنا لیا گیا حالانکہ متعدد بار جنگ بندی کا معاملہ طے پایا تھا۔
بالآخر نیٹو کی مداخلت شروع ہوئی۔ 1995ءکے وسط مےں سرب ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے گئے۔ اس دوران سربوں اور کروشیا کے مابین جنگ چھڑ گئی۔ کروشیا نے مسلمانوں کی حمایت شروع کر دی تاہم اس وقت تک سرب ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کر چکے تھے۔ بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیا کی فوجوں نے بھی سربوں پر حملے کئے اور یوں سربوں سے بیشتر علاقہ واپس چھین لیا گیا۔ امریکہ کے زیر اثر فریقین کے مابین مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے مےں ”مسلم کروشیائی فیڈریشن“ وجود مےں آئی اور بوسنیا کی حدود مےں سربوں کو بطور اقلیت تسلیم کر لیا گیا۔
ستمبر 1996ءمےں باضابطہ انتخابات ہوئے۔ عالی جاہ عزت بیگووچ کو صدر منتخب کیا گیا، لیکن سربوں نے معاہدہ امن کو صدق دل سے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے نئی حکومت کے خلاف اپنی جارحانہ اور مسلح سرگرمیاں جاری رکھیں۔ نیٹو کی پچاس ہزار نگران فوج بھی انہیں جارحیت سے نہ روک سکی تاہم جنگ کے ”مجرمین“ کی حیثیت سے سربوں کے لیڈروںکے فرار کے بعد کچھ سکون ہوا۔ صدر عزت بیگووچ کی قیادت مےں بوسنیا کی حکومت چھ ارب ڈالر بیرونی امداد کے سہارے ملک مےں اقتصادی بحالی مےں مصروف ہوگئی۔
بوسنیا کی حکومت نے سربیا کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف مےں نسل کشی کے الزام کے تحت مقدمہ دائر کیا۔ 26فروری 2007ءکے روز بین الاقوامی عدالت انصاف نے رولنگ دی جس سے طے پا گیا کہ اس جنگ کی نوعیت بین الاقوامی تھی تاہم سربیا کونسل کشی کی براہ راست ذمہ داری سے بری کر دیا گیا۔ تاہم عدالت نے یہ ضرور کہا کہ سربیا اپنی افواج کونسل کشی سے روکنے اور اس قتل عام کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے مےں لانے مےں ناکام رہا ہے۔ سربیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو عمومی طور پر نسل کشی (Genocide) قرار دینے کے بجائے بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ مئی 2006ءمےں مانٹی نیگرو کے اعلان آزادی کے بعد سربیا، ان جرائم کی واحد جوابدہ ریاست ہے تاہم ماضی کے واقعات کی ذمہ داری مانٹی نیگرو اور سربیا کی مشترکہ ریاست پر ہی عائد رہے گی۔

No comments:

Post a Comment