برکینا فاسو
Burkina Faso
محل وقوع
برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے جو چاروں طرف سے خشکی مےں گھرا ہوا ہے۔ اگست 1984ءسے پہلے اسے بالائی وولٹا (Upper Volta) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کی سرحدیں چھ ممالک سے ملتی ہےں۔ اس کے شمال مےں مالی، مشرق مےں نائیجر، جنوب مشرق مےں بینن، جنوب مےں ٹوگو اور گھانا اور جنوب مغرب مےں کوت دیوور واقع ہےں۔
لوگ
برکینو فاسو کی زیادہ تر آبادی کا تعلق مغربی افریقہ کے دو بڑے ثقافتی گروہوں، وولٹک اور مانڈے، سے ہے۔ آبادی کا تقریباً نصف حصہ وولٹک موسی لوگوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا زیادہ تر ارتکاز ملک کے جنوبی اور وسطی حصوں مےں دیکھنے مےں آتا ہے جہاں بعض جگہوں پر آبادی 48افراد فی مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ موسموں کے حساب سے زرعی مزدوری حاصل کرنے کے لئے برکینا فاسو کے باشندہ اکثر گھانا اور کوت دیوور کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہےں۔ آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے جن مےں اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ آبادی کا بیس فیصد حصہ عیسائی ہے جبکہ بقیہ مختلف مقامی عقائد پر ایمان رکھتے ہےں۔ تاہم اپنے طرز فکر کے حساب سے برکینافاسو کے رہنے والے نہایت روادار اور دیگر مذاہب کا احترام کرنے والے ہےں۔ افریقہ کی ایک مشہور کہاوت کے مطابق برکینافاسو کے رہنے والے ”پچاس فیصد مسلمان، پچاس فیصد عیسائی اور سو فیصد فطرت پر ایمان رکھنے والے ہےں“۔
یہاں اوسط عمر 52سال ہے اور آبادی مےںاضافے کی شرح 3.1فیصد ہے۔
وسائل
برکینا کی فی کس آمدنی دنیا کی کم ترین مےں سے ایک ہے۔ اس کے جی ڈی پی کا 32فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے اور 80فیصد افرادی قوت کی کھپت بھی اس شعبے مےں ہے۔ زیادہ تر افراد غلہ بانی کا کام کرتے ہےںمگر جنوب اور جنوب مغرب مےں باجرہ، مکئی، مونگ پھلی، چاول اور کپاس جیسی فصلیں اگانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
بے روزگاری بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر، برکینافاسو کے تیس لاکھ باشندے کوت دیوور مےں رہتے اور کام کرتے ہےں۔ ان باشندوں کی بھجوائی ہوئی رقوم ملکی معیشت کےلئے گرانقدر اہمیت رکھتی ہےں تاہم، ملک کی معاشی سرگرمیوں کا بڑا انحصار بین الاقوامی امداد پر رہتا ہے۔ تانبا، لوہا، مینگانیز اور سونے جیسی معدنیات کے لئے یہاں کان کنی کی جاتی ہے۔
تاریخ
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، برکینافاسو کا پرانا نام اپروولٹا ہے۔ نام کی تبدیلی 4اگست 1984ءکے روز سابقہ صدر کیپٹن تھامس سنکارا کی حکومت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہوئی۔ اپروولٹا کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ دریائے وولٹا کے دو خاص معاون دریاﺅں کے منبع اس ملک مےں ہےں۔
چودھویں صدی عیسوی مےں یہ ملک مالی کی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا۔ اس سے پہلے کے حالات دستیاب نہیں ہےں۔ مالی کے بعد یہ صنغائی کی اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ زمانہ قدیم مےں اس علاقے پر موسیٰ قبیلے کی حکومت تھی۔ آج بھی یہ برکینا فاسو کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ یہ سترھویں صدی مےں مشرقی افریقہ سے نقل مکانی کر کے یہاں وارد ہوا۔ انہوں نے اس علاقے مےں تین آزاد سلطنتوں کی بنیاد رکھی جن مےں سے ایک گیمباگا مےں تھی جس کا موجودہ نام گھانا ہے۔ اوگاڈوگو (موجودہ دارالحکومت) کی سلطنت سب سے زیادہ طاقتور تھی۔ جب پورے مغربی افریقہ مےں اسلام پھیل چکا تھا تب بھی موسی قبائل اسلام نہ لائے اور اسلامی سلطنت مےں لامذہب رہے۔ ان کا بادشاہ ”مورونابا“ کہلاتا تھا جس کا مطلب ہے ہماری زمین کا آفتاب۔ پہلے اس کا دارالحکومت ٹنکوڈوگو تھا اور اس کے بعد اوگاڈوگو۔
اٹھارہویں صدی مےں موسی قبائل نے پڑوسی اسلامی سلطنتوں یعنی مالی اور صنغائی سے مسلسل جنگیں جاری رکھیں۔ مسلمانوں سے پے در پے شکستیں کھانے کے بعد یہ قبائل سکڑتے گئے اور ہوتے ہوتے ان کی عملداری محض اوگاڈوگو کے شہر تک رہ گئی۔
انیسویں صدی مےں برطانوی اور فرانسیسی آبادکار یہاں آپہنچے۔ 1896ءمےں انہوں نے اوگاڈوگو پر قبضہ کر لیا۔ 1919ءمےں کوت دیوور کے بعض صوبوں کو انہوں نے فرنچ اپروولٹا مےں شامل کر کے فرنچ ویسٹ افریقہ کی فیڈریشن قائم کر دی۔ 1932ءمےں اس نوآبادی کو ختم کر دیا گیا مگر 1937ءمےں اسے ”اپرکوسٹ“ کے نام سے پھر تشکیل دے دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد موسی قبائل نے اپنے علاقے کو نوآبادی سے الگ کرانے کےلئے فرانسیسی حکومت پر دباﺅ ڈالا اور 4ستمبر 1947ءکے روز فرنچ اپروولٹا کی سابقہ الگ حیثیت بحال کر دی گئی۔
بعدازاں فرانسیسی حکومت کے چند اقدامات مثلاً 1956ءکا بنیادی قوانین کا ایکٹ اور 1957ءمےں علاقوں کی ازسرنو تنظیم نے بہت سے علاقوں کے لئے حکومت خود اختیاری کو ممکن بنا دیا۔ 11دسمبر 1958ءکے روز برکینافاسو کو فرانسیسی سلطنت مےں ایک خوداختیار جمہوریہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
اس جمہوریہ کو مکمل آزادی 5اگست 1960ءکے روز نصیب ہوئی۔ پہلا صدر ہونے کا اعزاز ماریس یامیوگو کو حاصل ہوا جس نے اقتدار مےں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی جماعت (وولٹک ڈیموکریٹک یونین) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ اس کی حکومت 1966ءتک قائم رہی اور بالآخر عوامی بے چینی، ہنگاموں، شورشوں اور ہڑتالوں نے فوج کو مداخلت کرنے پر مجبور کر دیا۔
فوجی بغاوت نے یامیوگو کو معزول کیا، آئین کو معطل کیا، قومی اسمبلی کو تحلیل کیا اور لیفٹیننٹ کرنل سنگولے لامیزانا کو سینئر فوجی افسروں پر مشتمل ایک حکومت کا سربراہ بنا دیا۔ فوج 4سال تک برسر اقتدار رہی۔ 4جون 1970ءکے روز ایک نیا آئین منظور کیا گیا اور مکمل سویلین حکومت کے قیام کے لئے 4سال کی عبوری مدت کا تعینکیا گیا۔ 1970ءکا پورا عشرہ اقتدار لامیزانا کے قبضہ مےںرہا اور وہ مختلف حکومتوں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ 1970ءکے آئین پر اختلافات ہونے کے بعد 1977ءمےں ایک نیا آئین تحریر کیا گیا اور 1978ءکے عام انتخابات مےں لامیزانا کو ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا گیا۔
تاہم یہ حکومت زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ملک کی ٹریڈ یونینز مےں بے چینی پھیلنے کے بعد، 25نومبر 1980ءکے روز کرنل سائے زربو نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فوجی افسران پر مشتمل ایک انتظامی کمیٹی کو مقتدر اعلیٰ کا منصب دے کر 1977ءکے آئین کو تحلیل کر دیا۔
سائے زربو کو بھی ٹریڈ یونینزکی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور دو سال بعد اس کی حکومت کا انجام بھی گذشتہ حکومت جیسا ہوا۔ ایک اور فوجی میجر ژاں بیپتست اوڈریگو نے 7نومبر 1982ءکو اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی برقرار رہی لیکن نئے سربراہ حکومت نے وعدہ کیا کہ ایک نیا آئین اور نئی سویلین حکومت کا قیام جلد ہی ممکن بنایا جائے گا۔ جنوری 1983ءمےں کیپٹن تھامس سنکارا نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ ملک کے سیاسی عدم استحکام اور سنکارا کے بائیں بازو کی طرف رجحان کا نتیجہ اس کی گرفتاری کی صورت مےں نکلا۔ اس گرفتاری سے پیدا ہونے والی لہر نے ایک اور انقلاب کو جنم دیا اور 4اگست 1983ءکے روز ایک نئی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا جس کی سربراہی تھامس سنکارا کے حصے مےں آئی۔ اپنے اقتدار کی پہلی سالگرہ کے روز سنکارا نے اپروولٹا کا نام تبدیلی کیا اور اس کا نیا نام برکینا فاسو رکھا گیا جس کا مطلب ہے ”قابل احترام لوگوں کی سرزمین“
25 دسمبر 1985ءکے روز برکینا فاسو اور مالی کے درمیان ایک ایسی سرحدی پٹی کی ملکیت کے تنازعے پر جنگ چھڑ گئی جسے معدنیات سے بھرپور خیال کیا جاتا تھا۔ یہ جنگ پانچ روز جاری رہی اور بالآخر کوت دیوور کے صدر کی مداخلت کے بعد ختم ہوئی۔ برکینافاسو مےں اس جنگ کو ”کرسمس وار“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس دوران تھامس سنکارا کے بعض اقدامات کی وجہ سے اس کی مقبولیت مےں خاصی کمی آچکی تھی۔ 15اکتوبر 1987ءکے روز اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور سنکارا کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کیپٹن بلیس کمپاﺅرے نے اس کی جگہ عنان اقتدار سنبھال لی۔ تب سے آج تک اس منصب پروہی براجمان ہےں۔ ان کے بعض اقدامات کو اگرچہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی مگر بہ حیثیت مجموعی ان کی کامیابی کا اندازہ برکینافاسو کی معیشت پر ایک نگاہ ڈالنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2جون 1991ءکے روز انہوں نے ایک نیا آئین منظور کیا جس کے تحت سربراہ حکومت کی حیثیت صدر کو حاصل رہی۔
No comments:
Post a Comment