پاکستان
Pakistan
محل وقوع
پاکستان جنوبی ایشیا مےں واقع ہے۔ اس کے جنوب مےں بحریہ عرب، مغرب مےں افغانستان اور ایران واقع ہےں۔ چین مشرق اور جنوب مشرق مےں بھارت ہے۔ پاکستان کی آب و ہوا زیادہ تر خشک ہے۔ جولائی اگست بارش کے مہینے ہےں۔ گرمیوں مےں درجہ حرارت 120درجے فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے۔
لوگ
یہاں کے لوگوں کی اکثریت (97فیصد) مسلمان ہے۔ عیسائی، ہندو، احمدی، پارسی اور بدھ مت مذاہب کے لوگ بھی یہاں رہتے ہےں۔ غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہےں۔ یہاں کے تقریباً تمام لوگ اردو بول اور سمجھ لیتے ہےں۔ انگریزی دفتری زبان ہے۔ دیگر بڑی زبانوں مےں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، براہوی اور سرائیکی شامل ہےں۔ کل آبادی مےں 44فیصد پنجابی، 15.4فیصد پشتو، 14.1فیصد سندھی، 10.5 فیصد سرائیکی، 7.5فیصد اردو، 3.5فیصد بلوچی اور 4.6فیصد دیگر زبانیں بولنے والے شامل ہےں۔
یہاں لوگوں کی تعلیم کے لئے 28یونیورسٹیاں ہےں۔ 675کالج ہےں جن مےں 245خواتین کے لئے ہےں۔ 99کالج پیشہ ورانہ ہےں جن مےں 8صرف خواتین کےلئے ہےں۔ سرکاری اعداد و شمار پاکستان مےں خواندگی کی مجموعی شرح 56.2فیصد ہے۔ مردوں مےں یہ شرح 68.2فیصد اور خواتین مےں 43.6فیصد ہے۔
2111افراد کے حصے مےں ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ 51789افراد کے حصے مےں ایک دندان ساز اور 1535افراد کے لئے ایک بستر۔ ملک بھر مےں لوگوں کے لئے 778ہسپتال قائم ہےں۔ نوزائیدہ بچوں مےں اموات کی شرح 1000 مےں 104.4 ہے۔
وسائل
پاکستان مےں 68 فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ دریائے سندھ سب سے بڑا دریا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان مےں موجود ہے جو اس ملک کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور بجلی پیدا کرنے مےں معاون ہے۔ چاول، گندم، کپاس، تیل نکالنے والے بیج، تمباکو، گنا، اون، مچھلی، پٹ سن، جو، جوار، باجرہ، مکئی اور دالیں اہم زرعی پیداواروں مےں شامل ہےں۔ کاشتکاری کے جدید اصولوں اور مشینی اوزاروں کا استعمال شروع ہونے کے بعد پاکستان کی زرعی پیداوار مےں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان مےں نمک اعلیٰ پائے کا ہوتا ہے۔ دنیا کا بہترین نمک اسی ملک کا ہے۔ گندھک، جپسم، نمک، کرومائیٹ، یورنیم، سیمنٹ، پٹرولیم، گیس، کوئلہ، تانبا، اسبسٹاس، میگناٹائیٹ، سلیکا، سنگ مر مر، سوپ سٹون اور زمرد معدنیات مےں شامل ہےں۔ دریائے سندھ کے بالائی حصہ مےں سونا بھی ملا ہے۔ یہاں کے کچھ حصوں مےں یورینیم کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہےں۔ کالاباغ کے علاقے مےں لوہا، تانبا اور سونے کے ذخائر پائے جاتے ہےں۔
صنعتوں مےں اس ملک نے کافی ترقی کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں کارخانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ آج چند اشیاءکو چھوڑ کر ہر قسم کی چیز پاکستان خود تیار کرتا ہے۔ بحری جہاز، کھاد، اسلحہ، ریلوے، انجن، پنکھے، برقی آلات، کپڑا، سگریٹ، ادویات، پلاسٹک، چمڑے کی مصنوعات، جراحی کے آلات اور سپورٹس کی مصنوعات عالمی معیار کی ہوتی ہےں۔
ملک بھر مےں سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ تقریباً چالیس مقامات پر ہوائی سروس موجود ہے۔ ملک مےں 179752کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئی ہےں جن مےں 87767کلومیٹر پکی اور 91985 کلومیٹر کچی سڑکیں ہےں۔ پاکستان نیشنل ہائی وے، انڈس ہائی وے اور شاہراہ ریشم مشہور شاہراہیں ہےں جن کے ذریعے تمام شہروں کا آپس مےں رابطہ قائم ہے۔ ریلوے لائنوں کی لمبائی 8775 کلومیٹر ہے۔ لاہور سے خانیوال تک بجلی سے ریلوے گاڑیاں چلائی جاتی ہےں۔ کراچی ایکسپریس سب سے تیز رفتار گاڑی ہے۔ پاکستان کی قومی ائر لائن پی آئی اے دنیا کی بڑی ائر لائنز مےں شمار کی جاتی ہے۔ کراچی اور گوادر اہم بندرگاہیں ہےں۔ افغانستان کی تمام تجارتی ضروریات بھی یہی بندرگاہیں پوری کرتی ہےں۔
تاریخ
پاکستان مےں دنیا کی تریپن تہذیبوں کے آثار ملے ہےں۔ 326 ق م مےں سکندر اعظم نے اسے فتح کیا۔ 711ءمےں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور مےں محمد بن قاسم برصغیر (موجود پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے جس کا دارالحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیاءکی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔
1947ءسے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونی تھے اور برصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود مےں آیا۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14اگست 1947ءکو پاکستان وجود مےں آیا۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند مےں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1948ءاور 1965ءمےں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔ اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب مےں بہنے والے تمام دریا انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر سے ہو کر آتے تھے لہٰذا پاکستان کو 1960ءمےں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاﺅں ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔
1947ءسے لے کر 1948ءتک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ مےں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے مےں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ءمےں قائداعظم محمد علی جناح کی اچانک وفات ہوگئی۔ ان کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ مےں آئی۔ 1951ءمےں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ءسے 1958ءتک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہوگئیں۔ 1956ءمےں پاکستان مےں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ءمےں پاکستان مےں مارشل لاءلگ گیا۔
27 اکتوبر 1958ءکے روز جنرل محمد ایوب خان نے صدر کے اختیارات سنبھال لئے اور صدر سکندر مرزا کو جلاوطن کر دیا۔ جون 1962ءکو جنرل محمد ایوب خان نے ملک کو نیا آئین دیا۔ جنوری 1965ءکو ایوب خان پھر صدر منتخب ہوئے۔ ستمبر 1965ءمےں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ جسے پاکستان کی بہادر افواج نے پسپا کردیا۔ دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا اور ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
پاکستان مےں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت مےں بنائے گئے۔ ایوب دور مےں پاکستان مےں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ مشرقی اور مغربی صوبے مےں ترقی کی رفتار مےں ہم آہنگی نہیں تھی جس کے سبب مشرقی پاکستان کے لوگوں مےں محرومیت اور ملکی معاملات مےں غیر موثر ہونے کا احساس بڑھتا گیا جس کے نتیجے مےں ملک کے مشرقی حصے مےں بے اطمینانی بڑھتی گئی۔ آخر 1969ءمےں مشرقی پاکستان مےں مسلسل ہڑتالوں، اقتصادی تعطل اور مغربی پاکستان مےں سیاسی تحریکوں کے سبب ایوب خان نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان (جو اس وقت افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف تھے) نے ملک مےں مارشل لاءلگا دیا اور صدارت کے فرائض بھی سنبھال لئے۔
1970ءمےں ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر ملک مےں عام انتخابات ہوئے جن مےں مشرقی پاکستان مےں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان مےں پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی لیکن انتخابات کے باوجود ملک مےں سول حکومت بحال نہیں ہو سکی۔ مشرقی پاکستان مےں حالات مزید بگڑتے گئے بالآخر 1971ءمےں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ کے بعد بنگلہ دیش وجود مےں آگیا اور شیخ مجیب الرحمن اس کے پہلے وزیراعظم بنے۔ مغربی پاکستان (جو اب پاکستان کہلاتا ہے) مےں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی صدارت کے فرائض سنبھال لئے۔
1972ءسے لے کر 1977ءتک پاکستان مےں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعدازاں وزیراعظم رہے۔ اس دور مےں وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور مےں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اس دور مےں پاکستان مےں نیشنلائزیشن ہوئی اور زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں۔
نئے آئین کے تحت 1977ءمےں پھر عام انتخابات ہوئے جن مےں پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی۔ حزب اختلاف کو صرف 36نشستیں ملیں۔ حزب اختلاف نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا اور نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بھٹو نے متنازعہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کی کوشش کی لیکن سیاسی ابتری بڑھتی گئی اور مسلسل ہڑتالوں اور صنعتی تعطل کے سبب ملک ایک بار پھر ”انارکی“ کا شکار ہوگیا۔ آخرکار 1977ءمےں ملکی افواج نے ایک بار پھر مارشل لاءلگا کر اقتدار سنبھال لیا اور جنرل محمد ضیاءالحق مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور ملک کے صدر بن گئے۔
فروری 1985ءمےں جنرل ضیاءالحق نے غیر سیاسی بنیادوں پر انتخابات کروائے جن کا بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ تاہم انتخابات کے نتیجے مےں محمد خان جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ اس دوران آٹھویں ترمیم منظور ہوگئی جس کے تحت تمام اختیارات صدر کے پاس چلے گئے۔ 1988ءمےں صدر نے وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزام مےں برطرف کر کے نئے انتخابات کا اعلان کیا۔ 17اگست 1988ءکو وہ طیارے کے حادثے مےں جاںبحق ہوگئے۔ ان کے مرنے کے بعد سینٹ کے چیئرمین اسحاق خان صدر بن گئے۔ انتخابات کے نتیجے مےں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی مگر وہ دو سال بھی مکمل نہ کر سکی اور بدعنوانی کے الزام مےں برطرف کر دی گئی۔ نئے انتخابات ہوئے۔ میاں نواز شریف صدر اسلامی جمہوری اتحادان انتخابات کے نتیجے مےں وزیراعظم بن گئے مگر 18اپریل 1993ءکو وزیراعظم نواز شریف کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ ان پر بھی بدعنوانی کے الزامات تھے مگر 16اپریل کو سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کر دی۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان شدید قسم کی سرد جنگ کے بعد اکتوبر 1993ءمےں صدر اور وزیراعظم کو رخصت کر کے نئے انتخابات کا اعلان کیا اور ایک بار پھر بےنظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ 14نومبر کو سردار فاروق احمد خاں لغاری صدر مملکت منتخب ہوئے۔
5نومبر 1996ءکے روز صدر فاروق لغاری نے آٹھویں ترمیم کے تحت بے نظیر بھٹو، ان کی حکومت اور قومی اسمبلی کو برطرف کر دیا اور ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا۔
3فروری 1997ءکو عام انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ اور اس کی حلیف جماعتوں کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ صدر فاروق لغاری نے میاں نواز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا۔ میاں صاحب نے صدر مملکت سے صلاح مشورے کے بعد آٹھویں ترمیم کو باقاعدہ اسمبلی مےں پیش کر کے ختم کرا دیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے عدلیہ کے اختیارات کے ضمن مےں وزیراعظم سے اختلافات پیدا ہونے کے باعث صدر فاروق لغاری عہدہ ¿ صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ ان کی جگہ رفیق تارڑ صدر مملکت کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ 1998ءمےں بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب مےں پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کئے اور پہلی اسلامی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا اگرچہ اس اعزاز کے نتیجے مےں انہیں بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں بھگتنا پڑیں۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے اپریل 1999ءمےں پاکستان نے بھارت کے پرتھوی میزائل کے جواب مےں غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔
مئی 1999ءمےں کشمیر مےں کارگل کی پہاڑیوں پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا۔ بھارت نے مجاہدین پر فضائی حملے کئے اور الزام عائد کیا کہ مجاہدین کے بھیس مےں دراصل پاکستانی فوج قابض ہے۔ امریکہ نے بھی بھارت کی ہمنوائی کی اور پاکستان پر دباﺅ ڈالا کہ کارگل سے مجاہدین کو واپس بلوانے کے لئے اقدامات کرے۔
جب 12اکتوبر 1999ءمےں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیا الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کرنا چاہا تو اس وقت جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر ایک سرکاری دورے پر گئے ہوئے تھے اور ملک واپس آنے کے لئے ایک کمرشل طیارے پر سوار تھے۔ تب فوج کے اعلیٰ افسران نے ان کی برطرفی کو مسترد کر دیا اور جنرل پرویز مشرف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی اور فوج کے ساتھ اپنے حلف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ان کو معزول کر دیا اور جنرل پرویز مشرف ملک کے نئے چیف ایگزیکٹو بن کر مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ تین سالوں کے اندر اندر ملک مےں نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس تیار کیا گیا اور شاید تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہراتی مگر برادر مسلم ممالک کے دباﺅ پر انہیں ”معاف“ کر کے محض ”جلاوطن“ کر دیا گیا۔
9 ستمبر 2001ءکے روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد 13ستمبر 2001ءکو پاکستان مےں امریکی سفیر وینڈی چیمبر لین کے ذریعے پرویز مشرف کے سامنے واشنگٹن نے سات مطالبات رکھے جنہیں پرویز مشرف نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور یوں امریکی جنگ مےں پاکستان باقاعدہ طور پر شامل ہوگیا۔ راتوں رات تین دہائیوں پر مشتمل افغان پالیسی تبدیل کر دی گئی اور کل کے دوست آج کے دشمن بن گئے۔
اس جنگ کے دوران پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر 689افراد کو گرفتار کیا جن مےں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”In the Line of Fire“ مےں اعتراف کرتے ہےں کہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکہ سے کئی ملین ڈالرز کا انعام وصول کئے۔ یہ جملہ انہوں نے بعدازاں اردو ترجمہ سے حذف کر دیا۔
پرویز مشرف کے گرفتار اور امریکہ کے حوالے کئے جانے والے افراد مےں اکثریت ان عام افراد کی تھی جو افغانستان مےں تعلیمی و فلاحی یا نجی کاموں سے گئے تھے اور جن کو امریکہ نے گوانتا ناموبے مےں کئی برس تک بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بالآخر رہا کر دیا۔
20مئی 2000ءکے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ اکتوبر 2002ءتک جنرل الیکشن کروائیں۔ اپنے اقتدار کو طول دینے اور محفوظ کرنے کی غرض سے انہوں نے 30اپریل 2002ءمےں ایک صدارتی ریفرنڈم کروایا جس کے مطابق 98 فیصد عوام نے انہیں آئندہ 5سالوںکے لئے صدر منتخب کر لیا۔ البتہ اس ریفرنڈم کو سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے مسترد کر دیا اور اس کا بائیکاٹ کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے راستے مےں آنےوالے بہت سے عہدیداروں کو بھی ہٹایا جن مےں سپریم کورٹ کے جج حضرات اور بلوچستان پوسٹ کے ایڈیٹر بھی شامل ہےں۔
اکتوبر 2002ءمےں ہونے والے عام انتخابات مےں جنرل پرویز مشرف کے حامیوں پر مشتمل جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے قومی اسمبلی کی اکثریتی سیٹیں جیت لیں۔ میر ظفر اللہ خان جمالی ملک کے نئے وزیراعظم بنے۔ دسمبر 2003ءمےں جنرل پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ دسمبر 2004ءتک وردی اتار دیں گے لیکن وہ پوری قوم کے سامنے کئے گئے اپنے اس وعدے سے پھر گئے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنی حامی اکثریت سے قومی اسمبلی مےں سترھویں ترمیم منظور کروا لی جس کی روح سے انہیں باوردی صدر رہنے کا قانونی جواز مل گیا۔
2004ءمےں پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو اس الزام مےں نظر بند کر دیا گیا کہ انہوں نے ایٹمی معلومات دوسرے ممالک کو منتقل کی ہےں۔ اسی سال مارچ مےں حکومت نے وزیرستان مےں چھپے غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ مقامی لوگ انہیں مجاہدین جبکہ حکومت انہیں دہشت گرد سمجھتی تھی۔ اپریل مےں صدر جنرل پرویز مشرف نے نیشنل سکیورٹی کونسل بنائی۔ جون مےں جمالی حکومت کو ختم کر دیا گیا اور چودھری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنا کر وزیر خزانہ شوکت عزیز کو انتخاب لڑوایا گیا۔ کامیابی کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ انہیں مل گیا۔
10ستمبر 2007ءکو جلاوطن مسلم لیگی رہنما میاں محمد نواز شریف سعودی عرب سے پاکستان آئے۔ مشرف حکومت نے ان کو کتنی ہی دیر جہاز مےں روکے رکھا اور مبینہ طور پر دھوکے سے ایک دفعہ پھر جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا۔ سیاسی لوٹوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یورپین یونین نے بھی نواز شریف کے دفاع کے حق کے متعلق بیان دیا۔
مشرف کے چند دیگر ”یادگار“ اقدامات مےں خونریز بسنت میلوں کا انعقاد، مخلوط میراتھن ریسوں کا انعقاد، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر آگ و آہن کی بارش، بدنام زمانہ این آر او، بلوچستان آپریشن اور 12مئی کے روز کراچی مےں کھیلی گئی خون کی ہولی شامل ہےں۔
پرویز مشرف کے زوال کا آغاز حقیقی معنوں مےں اس وقت ہوا جب انہوں نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز کیا۔
3نومبر 2007ءکو پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے آئین کو معطل کر دیا۔ یہ اعلان رئیس عسکریہ کی جانب سے ”عبوری آئینی حکم“ کے عنوان سے جاری کیا گیا (نہ کہ صدر پاکستان کے دفتر سے)۔ اس وجہ سے مبصرین نے اس ہنگامی حالت کو دراصل مارشل لاءقرار دیا۔ اگرچہ مشرف صدر کے عہدے پر بھی قابض تھے اور وفاقی اور صوبائی وزرا پہلے ہی مشرف کے تابع اور حمایتی تھے۔ البتہ اکتوبر 2007ءمےں مشرف کے صدارتی انتخاب پر عدالت عظمیٰ چند روز مےں فیصلہ سنانے والی تھی جس کے تحت مشرف کو صدارتی عہدہ 15نومبر 2007ءکے بعد خالی کرنا پڑ سکتا تھا۔ چنانچہ مشرف نے 3نومبر کو دوسری بار ملک پر شبخون مارا۔ اس روز پولیس اور فوج کی بڑی تعداد نے عدالت عظمیٰ کی عمارت کو گھیرے مےں لے لیا۔ اسی دوران جناب افتخار چودھری کی سربراہی مےں عدالت عظمیٰٰ کے ساتھ رکنی بنچ نے عبوری حکم مےں ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا اور فوج اور انتظامیہ کو حکم دیاکہ آمر کے غیر قانونی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ ردعمل مےں عدلیہ کو توڑ دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کر کے نظربند کر دیا گیا۔
4نومبر کو اتوار کا دن گزرنے کے بعد پیر کے دن یعنی 5نومبر کو ملک مےں وکلاءکی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ لاہور، کراچی ہائی کورٹ مےں پولیس کے ساتھ تصادم مےں کئی وکلا زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ میڈیا پر پابندی بدستور برقرار رہی اور تمام پرائیویٹ چینلز کی نشریات کو اس دن بھی روک دیا گیا۔ اس دن مشرف کی نظربندی کی افواہ نے بھی زور پکڑا اور میڈیا پر بندش کی وجہ سے اس افواہ نے چند گھنٹوں مےں پورے پاکستان کو لپیٹ مےں لے لیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اس معاملے مےں عوام کو سڑکوں پر لانے مےں ناکام رہی۔ پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے ججوں کو اپنے گھروں مےں نظربند کر دیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر ایمرجنسی کی شدید مذمت کی گئی۔ پاکستان کا کراچی سٹاک ایکسچینج ریکارڈ مندی کا شکار رہا اور مارکیٹ چھ سو پینتیس پوائنٹ کی کمی کے ساتھ بند ہوئی۔
وکلا کا ملک گیر احتجاج جاری رہا۔
جامعات کے طلباءنے بھی مظاہروں مےں حصہ لیا۔ بےنظیر بھٹو نے راولپنڈی مےں احتجاجی جلسہ کیا اور لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ اس سے پہلے بےنظیر نے اسلام آباد مےں امریکی سفیر سے ملاقات کی۔ ایمرجنسی کی آڑ لیتے ہوئے ”آرمی ایکٹ“ مےں ترمیم کی گئی جس کے تحت عوام پر بھی فوجی عدالت مےں مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکے گی۔
11نومبر کو پرویز مشرف نے اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے عدلیہ اور چیف جسٹس پر الزامات لگائے اور اگلے انتخابات ایمرجنسی کے زیر سایہ کرانے کا عندیہ دیا۔ جناب افتخار چودھری نے مشرف کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے خلاف کارروائی کا ایک مقصد انتخابات مےں دھاندلی کے ذریعے اپنے من پسند امیدواروں کا کامیاب کروانا ہے۔
14نومبر کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جامعہ پنجاب پہنچے جہاں انہوں نے فوجی آمر کی حرکات کے خلاف طلبا کے جلوس کی قیادت کرنے کے بعد کھلے عام گرفتاری دینا تھی۔ ایک مذہبی جماعت کے طلباءونگ کے ارکان نے جامعہ مےں عمران سے بدتمیزی کی اور انہیں حبس بیجا مےں رکھا اور بعدازاں پولیس نے عمران خان کو گرفتار کر لیا۔
15نومبر کو قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے تحلیل ہوگئی۔ اس ادارے کی سیاہ کاریوں مےں متحدہ مجلس عمل کے تعاون سے سترھویں ترمیم منظوری اور اپنے آخری دنوں مےں مسلم لیگ ق کی اکثریت سے آمر کی کارروائیوں کی تائید شامل تھے۔
19نومبر کو فوجی آمر کی ہاتھ سے چنے ہوئے منصفین نے عدالت عظمیٰ کی عمارت مےں بیٹھ کر پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات پر اعتراضات باہر پھینک دیئے۔ جید وکلا جیل مےں ہونے اور عدالت کو تسلیم نہ کرنے کے باعث پیش نہ ہوئے۔ مخالف وکلا کو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے برا بھلا کہا اور جیل مےں ڈال دینے کی دھمکی دی۔
20نومبر 2007ءکو مولانا فضل الرحمان نے امریکی سفیر سے ملاقات کے دوران اپنی ”اعتدال پسندی“ کا یقین دلایا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ موقع ملنے پر وہ دوسروں سے بہتر نتائج پیدا کر سکتے ہےں۔
پرویز مشرف 26نومبر 2007ءکو عوامی دباﺅ کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور بطور صدر اعلان کیا کہ 16دسمبر 2007ءکو ایمرجنسی ختم کر دی جائے گی۔ ملک کی بہت سی جماعتوں نے عدلیہ کی بحالی نہ ہونے کی صورت مےں جنوری 2008ءمےں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔ 14دسمبر 2007ءکو مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے منصفین کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے 14دسمبر 2007ءکو حکم جاری کر کے آئین مےں متعدد ترامیم کر دیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ترامیم غیر قانونی تھیں کیونکہ آئین مےں ترمیم صرف قومی اسمبلی کر سکتی ہے اور وہ بھی دوتہائی اکثریت کی صورت مےں۔ مشرف کی ان حرکتوں سے اس کے خوف زدہ ہونے کی نشان دہی ہو رہی تھی۔
17دسمبر کو اسلام آباد پولیس نے طلبہ، وکلاءاور سرگرم ارکان کو چیف جسٹس افتخار چودھری کی رہائش گاہ (جہاں وہ نظربند تھے) کی طرف جانے سے روکنے کے لئے تشدد کا استعمال کیا جس مےں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
ان شورشوں کے دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے حالات کا رخ یکسر بدل دیا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ مےں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس پلٹتی ہوئی بے نظیر بھٹو کو ایک خودکش حملے مےں شہید کر دیا گیا۔ اس شہادت کے بعد جو عوامی لہر پیدا ہوئی اس نے نہ صرف پرویز مشرف کے قدم ہمیشہ کے لئے اکھیڑ دیئے بلکہ پیپلز پارٹی کو اپنے کندھوں پر سوار کر کے ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں مےں پہنچا دیا۔ یوسف رضا گیلانی نئے وزیراعظم منتخب ہوئے اور ملکی تاریخ مےں جمہوریت کا نیا دور شروع ہوگیا۔ پرویز مشرف 18اگست 2008ءکے روز عہدہ ¿ صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ ملک کے اگلے صدر بننے کا اعزاز آصف علی زرداری کو حاصل ہوا۔
عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت اعلان مری کے بعد بنی جس مےں دونوں فریقوں نے ججز کو 30دن کے اندر بحال کرنے کا وعدہ کیا لیکن پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری وعدہ نبھانے پر راضی نہ ہوئے جس کے بعد مسلم لیگ ن نے 12مئی 2008ءکو اپنے وزراءکا حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ وکلاءکی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ گئی اور رفتہ رفتہ اس مےں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ بالآخر 6مارچ 2009ءکو وزیراعظم گیلانی نے علی الصبح 6بجے اعلان کیا کہ افتخار چودھری 21مارچ سے چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ دوسرے ججز بھی حال ہوں گے۔ یہ اعلان وکلاءاور حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کرنے کے بعد کیا گیا۔ یوں آخر تقریباً 18ماہ طویل جدوجہد کے بعد عدلیہ پر کیا جانے والا یہ جملہ جمہوریت و انصاف کے مخالفوں کی رسوا کن شکست پر انجام پذیر ہوا۔
مگر ملک مےں سب اچھا نہیں تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ مےں امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کے اقدام کے نتائج پاکستان کے شمالی علاقوں کے دہشت گردی کی لپیٹ مےں آجانے کی صورت مےں نکلے۔ عسکریت پسندی کی جو لہر سرحد پار سے اٹھی تھی، اس کا سب سے گہرا وزیرستان اور سوات پر پڑا۔ عسکریت پسندوں کے قدم یہاں اتنے مضبوط ہوگئے کہ ایک موقعے پر حکومت پاکستان بھی سوات کے عسکریت پسندوں سے معاہدہ کر کے نظام عدل کے نفاذ کے حوالے سے ان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہوگئی۔ مگر عسکریت پسندوں نے یہیں پر بس نہ کی۔ ان کے قدم بڑھتے گئے، ان کی کارروائیوں مےں شدت آتی گئی۔ انہوں نے پورے علاقے مےں لاقانونیت اور دہشت گردی کا بازار گرم کر دیا۔ ایک موقعے پر تو یوں نظر آنے لگا جیسے ان کے ہاتھوں پاکستان کی سالمیت خطرے مےں پڑ جائے گی مگر بالآخر پاکستانی فوج میدان مےں اتر آئی۔
مئی 2009ءمےں سوات کے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن راہ حق کا آغاز کر دیا گیا۔ پاکستانی فوج نے آغاز سے ہی اس آپریشن مےں کامیابیاں حاصل کرنا شروع کیںاور آہستہ آہستہ پیش قدمی کرتے ہوئے پورے علاقے کو شدت پسندوں سے خالی کرا لیا۔ شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی اور وادی سوات مےں ایک بار پھر حکومت کی عملداری قائم ہوگئی۔
اس آپریشن کے نتیجے مےں تیس لاکھ کے قریب لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا اور پاکستان کی تاریخ کے دوسرے بڑے ”پناہ گزین بحران“ نے جنم لیا۔ حکومت نے ان پناہ گزینوں کی امداد اور بحالی کے لئے اپنے طور پر جو کوششں کیں سو کیں مگر حکومت سے کہیں آگے بڑھ کر عوام نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لئے دل اور باہیں وا کر دیں۔ پوری کوشش کی گئی کہ انہیں کسی طرح کی تکلیف اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگرچہ یہ کوششیں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں اور کئی جگہوں پر ناگوار واقعات رونما ہوئے لیکن پھر بھی عوام کی کشادہ دلی کی بدولت صورت حال بگڑنے سے محفوظ رہی۔ آپریشن کی کامیابی کے بعد سوات کے عوام کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور پاکستانی فوج وزیرستان مےں بیٹھے شدت پسندوں کے قدم اکھاڑنے کے لئے پر تول رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment