Ad

Ad

Saturday, 22 September 2012

Baba Bulleh Shah (History)


بابا بلّھے شاہ
عمرانہ پروین بلوچ
صوفی روایت ہماری تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے۔ برصغیر کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں صوفیا کے ذکر کے بغیر کوئی مورخ بھی معتبر تاریخ رقم نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے حوالے سے جتنی بھی مستند تورایخ اس وقت موجود ہیں ان میں صوفیا کا تذکرہ قابل لحاظ مقدار میں موجود ہے۔ تاریخ دان چاہے کوئی مسلمان تھا یا غیر مسلم اس نے صوفیا کے برصغیر کی سیاسی وسماجی تشکیل میں کردار کے ذکر سے احتراز نہیں برتا اور برتا بھی نہیں جا سکتا کہ اسکے ذکر کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ برصغیر میں بے شمار علمائے دین پیدا ہوئے مگر ہر دلعزیزی اور احترام جو صوفیا کے حصے میں آیا وہ ان عالموں کو نصیب نہ ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صوفی اپنی زندگی میں صلح کل اور احترام آدمیت جیسے اعلیٰ انسانی تصورات کو اہمیت دیتے ہوئے مسلکی امتیاز اور مذہبی منافرت کو جگہ نہیں دیتا۔ بلکہ مذہبی عالم کا فکر سرچشمہ کتابیں اور نظریات تشکیل دیتے ہیں جبکہ صوفی استقرائی طریقے کو اولیت دیتے ہوئے انسانوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عالم ، علمی بحثوں کےلئے عالموں کے درکھٹکھٹاتا ہے جبکہ صوفی انسان کے ذریعے خدا کو سمجھنے کےلئے انسانوں کے مختلف طبقات سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔ عالم گوشہ نشینی میں بیٹھ کر شرعی امور کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سماج میں ابھرتے نئے معاشرتی تقاضوں اور نفسیاتی حقیقتوں کے بدلتے رنگوں سے اغماض برتتا ہے جبکہ صوفی انسانی سماج کی نفسیات تک براہ راست رسائی کےلئے قلندرانہ لباس پہن کر سفر اختیار کرتا ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے جو ان دومتوازی فکر دھاروں کو ایک دوسرے ممیز کرتا ہے۔ علما کی کتابیں مابعد الطبیعات جیسے مباحث میں الجھ کررہ جاتی ہیں جبکہ صوفی افکار لوگ شاعری میں اس طرح اظہار پاتے ہیں کہ عام آدمی انہیں خود سے قریب محسوس کرتا ہے۔ غالباً انہیں وجوہ کی بنا پر برصغیر میں صوفیا کو زیادہ پذیرائی اور ہر دلعزیزی ملی۔
صوفیا کے تذکرے کے سلسلے میں آج ہم جس بطل رشید کا تذکرہ کریں گے ان کا نام حضرت سید محمد عبداللہ شاہ قادری شطاریؒ ہے جو بلّھے شاہ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ بلھے شاہ کو پنجابی شاعری اور کافی کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ گردش زمانہ کا انقلاب دیکھئے کہ جس شخص کو روایتی مولویوں نے بعد از وفات مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا اور ان پر گمراہ ہونے کا الزام لگایا وہ آج بھی اپنی تابانی قائم رکھے ہوئے ہے اور پوری دنیا انہیں احترام دیتی ہے۔ اس کے برعکس جن مولویوں نے ان پر فتویٰ جات صادر کئے آج گمنامیوں کی دھند میں لپٹ کر غائب ہو چکے ہیں۔
ابتدائی عمر سے ہی بلّھے شاہ نے راہ سلوک کی منزلیں طے کرنی شروع کر دی۔ یوں تو آپ نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق کی مروجہ تعلیم میں رسوخ بھی حاصل کیا اور ایک مدرسے میں کچھ دن تک مدرسی بھی کی مگر آپ کی راہ علما سے مختلف تھی۔ ایک عالم وجد آپ پر طاری رہنے لگا اور آپ نے کہا:
”علموں بس کریں او یار“
آپ کی راہ تو منصور کی راہ تھی۔ ایک بار عالم جذب میں آپ کے منہ سے منصور کا نعرہ ”انالحق“ نکل گیا۔ اس وقت آپ بٹالہ کے ضلع گورداس پور میں قیام پذیر تھے۔ جب لوگوں نے آپ کے منہ سے یہ نعرہ سنا تو آپ کو پکڑ کر قاضی شہر فاضل الدین کے پاس لے گئے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا جا سکے۔ شیخ فاضل الدین جو ظاہری علوم کے زیور سے آراستہ ہی نہ تھے بلکہ تصوف کی چاشنی سے بھی لبریزتھے انہوں نے مجذوب کی حالت دیکھی تو کہا:
”ایہہ سچ کہندا اے ، ایہہ حالے الھا (کچا ۔ الھڑ) ہی اے۔ ایہنوں آکھوشاہ عنایت کول جا کے پک آدے“
بلّھے شاہ کے منہ سے نکلنے والہ کلمہ معمولی نہ تھا اور اس پر انہیں موت کی سزا بھی دی جا سکتی تھی مگر شیخ فاضل الدین نے پنجابی زبان کے لفظوں کی رعایت دیتے ہوئے اگلے پڑاﺅ کی طرف بھیج دیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے صوفی شاعر اور آپ کے ہمعصر سچل سرمست نے کہا تھا:
بلّھے شاہ دے سراتے تیغ اجل دی تولی
شاہ عنایت کی راہبری نے راہ سلوک کے اس مسافر کی خوب مدد کی۔ بلّھے شاہ بھی فنافی المرشد کے مقام پر پہنچے تو شاہ عنایت کے حوالے سے لکھا:
جیہڑا سانوں سید آکھے دوزخ ملن سزائیاں
جیہڑا سانوں رائیں آکھے بہشتیں پینگھاں پائیاں
آپ نے شاہ عنایت کی بیعت کی تو آپ کے خاندان والوں اور دیگر لوگوں نے آپ کو طعنہ دیا کہ سید ہو کر ایک آرائیں کے مرید ہو گئے ہو مگر آپ جس مقام پر پہنچ چکے تھے اور مرشد کے دریائے محبت میں غرق ہو چکے تھے اس کا تقاضا کچھ اور تھا بلّھے شاہ نے کہا:
تسیں وچ اُچ دے اچے ہو ، اسیں وچ قصور قصوری ہاں
شاہ عنایت دی باغ بہاراں ، اسیں اوہدے وچ لسوہڑی ہاں
بابا بلّھے شاہ فارسی اور عربی کے بے بدل عالم تھے۔ ان کی شاعری میں اسلامی تصورات اور صوفیانہ ادب سے گہری شناسائی کا احساس ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب آپ کا رجحان اسلام کی متصوفانہ پہلو کی طرف ہوا تو آپ کا علم آپ کی رہنمائی کرتا گیا۔
بلّھے شاہ کی روحانی ترفع کےلئے سخت ریاضت کے مراحل سے گزرنا پڑا جیسا کہ راہ سلوک کے ہر شخص کو گزرنا پڑتا ہے۔ ان ریاضتوں کو باقاعدہ سمت آپ کے پیرو مرشد عنایت شاہ قادری نے دی بلّھے شاہ نے مقدس کتابوں اور مذہبی تصورات سے جو روشنی حاصل کی اس کے ذریعے وہ حقیقت کا براہ راست مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ اور ایسا تب ممکن ہوا جب آپ کی ملاقات شاہ عنایت قادری سے ہوئی۔
حضرت شاہ عنایت قادری اپنے دور کے معروف صوفی بزرگ تھے۔ شاہ عنایت کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے مستند شواہد تو دستیاب نہیں ہیں، مگر آپ کی وفات 1728 ءمیں ہوئی۔ ان کا تعلق قادری سلسلے سے تھا۔ برصغیر میں آنے والے اکثر صوفیا کا سلسلہ بھی قادری ہی تھا۔ شاہ عنایت قادری نا صرف روحانی علم سے کما حقہ آگاہ تھے بلکہ دنیا وی علوم پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ تصوف کے حوالے سے ان کے رسالے اس حقیقت پر دال ہیں۔ عنایت شاہ نے عمِر عزیز کا زیادہ تر حصہ لاہور میں گزارا اسی وجہ سے آپ کو عنایت شاہ لاہوری بھی کہا جاتا ہے۔
بلّھے شاہ نے عنایت شاہ لاہوری سے ملاقات سے قبل ہی صوفیانہ مجاہدے اور ریاضت کو اختیار کرلیا تھا۔ جب پہلی بار مرید صادق اور پیر کامل آمنا سامنا ہوا تو عنایت شاہ قادری کو محسوس ہو اکہ بلّھے شاہ میں تصوف کا صحیح ذوق موجود ہے۔ پہلی ملاقات میں شاہ عنایت نے بلّھے شاہ سے پوچھا:
”یہاں کیا کرنے آئے ہو“
بلّھے شاہ نے جواب دیا:
”میرا نام بلّھا ہے اور میں رب کو پانا چاہتا ہوں“
عنایت شاہ نے طالب حق کو پیار سے دیکھا اور پیاز کے ایک پودے کو زمین سے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا یا اور کہا:
”خدا کو پانا کونسا مشکل کام ہے بس یہ پودا یہاں سے اکھاڑ کر یہاں لگانا ہے“
بلّھے شاہ نے اس استعاراتی زبان کو سمجھ لیا کہ دل کو دنیا سے ہٹا کر خالق دنیا کی طرف لے جانا ہے۔ ایک معروف سکالر نے پیر ومرید کی اس ملاقات کا احوال یوں لکھا ہے:
”بلّھے شاہ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جو ایک لائق شاگرد میں ہونی چاہئیں۔ شاہ عنایت نے روحانی اسرار کے تمام راز کھول کر ان کے سامنے رکھ دئیے۔ بلّھے شاہ نے ان کا نظارہ کیا اور پھر دنیا سے بے خبر ہو گئے۔“
یہ انقلاب کیوں آیا؟ سادہ سی وجہ ہے کہ لوگ بلّھے شاہ کی زندگی اور ان کی تعلیمات کی ہمہ گیری سے متاثر ہوئے۔ لوگوں یر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ راہ سلوک کا یہ راہی ان کی عام زندگیوں سے مولویوں کی یہ نسبت کہیں زیادہ قرب تھا۔
بلّھے شاہ کی پیدائش اور وفات کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ 1680 ءسے 1758ءکے دوران صفحہ ہستی پر موجود رہے۔ ان کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی ابھی تک محققین کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے ہیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ بہاولپور ریاست کے قصبے اُچ میں پیدا ہو ئے تھے اور بعد ازاں جب آپ عمرِ عزیز کے چھٹے مہینے میں تھے آپ کے والد محترم ملک وال ہجرت کرگئے۔ وہ کافی عرصے تک ملک وال میں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک گاﺅں پانڈو کی کے والی نے آپ کے والد شاہ محمد درویش کو استدعا کی کہ وہ گاﺅں کی مسجد میں امامت کے فرائض ادا کریں اور بچوں کو دینی تعلیم دیا کریں۔ اگرچہ محققین کی اکثریت اس روایت کی حامی ہے مگر بعض محققین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلّھے شاہ کی پیدائش گاﺅں پانڈو کی میں ہوئی۔ آج کل اس گاﺅں کا نام پانڈو کے بھٹیاں ہے۔ یہ گاﺅں قصور سے 14 کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بلّھے شاہ کے آباﺅ اجداد میں سے سید جلال الدین بخاری آپ کی پیدائش سے 300 سال قبل بخارا سے ملتان تشریف لائے تھے۔ بلّھے شاہ کے والد شاہ محمد درویش عربی اور فارسی کے معتبر عالم تھے۔ وہ نہ صرف دنیاوی علوم سے کما حقہ آگاہ تھے۔ بلکہ ان میں تصوف اور روحانیت کی چاشنی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی قلندرانہ زندگی اور راہبانہ طرز معاشرت کے باعث انہیں درویش کا لقب ملا۔ بلّھے شاہ اپنے والد کی زاہدانہ زندگی سے بہت متاثر ہوئے۔ صرف بلھے شاہ ہی نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان شاہ محمد درویش کی پاک طینت حیات سے شدید متاثر تھا۔ بلّھے شاہ کی بہن بھی تصوف کی چاشنی سے لبریز تھیں۔ انہوں نے شادی نہ کی اور تجروکی زندگی گزاری۔
بلّھے شاہ کا بچپن اپنے باپ کی زیر نگرانی پانڈو کی گاﺅں میں گزارا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق آپ نے اپنی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کےلئے انہیں قصور شہر بھیج دیا گیا جو ان دنوں معروف علمی مرکز تھا۔ قصور میں اس وقت حضرت مولانا غلام مرتضیٰ اور مولانا محی الدین کے تبحرعلمی کا شہرہ تھا۔ بلّھے شاہ نے مولانا محی الدین کے سامنے زانوئے تلمندتہ کیا۔ اپنی خداداد ذہنی صلاحیتوں اور روحانی وسعتوں کی وجہ سے بلّھے شاہ نے اپنے استاد سے خوب استفادہ کیا۔
بابا بلّھے شاہ کا دور حیات برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا۔ 1680ءسے 1758ءکا دور بر صغیرمیں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقطہ عروج تھا۔ کئی صدیوں تک برصغیر پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنےوالے مغل زیر نقاب بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ ایک ہزار سال سے ہندوﺅں ، مسلمانوں اور دیگر مذہب کے لوگوں کے مابین موجود ہم آہنگی ختم وہ چکی تھی، بابا بلّھے شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے نا صرف باہمی نفرتوں او مسلکی عداوتوں کو مٹانے کی کوشش کی بلکہ اپنی شاعری میں ان سماجی حقائق کو بھی سمویا جو بعد کی نسلوں کےلئے تحقیق میں معاون ثابت ہوں گے۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں پنجاب کی کلاسیکی شاعری کے تمام عکس موجود ہیں۔ پنجاب جو ہمیشہ زندہ دلوں کی سرزمین رہا ہے، بابا بلّھے شاہ کے دور میں اپنے زوال کی انتہاﺅں پر تھا۔ یہ زوال فقط سیاسی اور سماجی نہ تھا بلکہ اخلاقی اور روحانی بھی تھا۔ پرانی رسمیں جنہوں نے خاندانوں کو جوڑا ہوا تھا اور سماج می محبت اور الفت کی چاشنی گھلی ہوئی تھی، اس دور میں وہ عنقا ہو گئی۔ ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی جو صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چلے تھے۔ روایتیں دم توڑ رہی تھیں اور جدید استعماری طاقتیں اپنے پنجے نا صرف حکومت کے ایوانوں میں گاڑ رہی تھیں بلکہ مقامی سماج کے تارو پود بھی بکھر رہے تھے۔ مسلمانوں کا طویل سیاسی عروج بالآخر اپنے زوال پر پہنچ چکا تھا۔ ہندو خود مسلمانوں کے بعد اقتدار اعلیٰ پر قابض نہ ہو سکے ۔ سو اس صورت میں سیاسی خلا پر کرنے کی طاقتیں سات سمندر پار سے وارد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کے بالاخانوں پر اُن کا قبضہ ہو گیا۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں اس وقت کی تہذیب و ثقافت ، پنجاب کا سماج ، سیاسی زوال، مغلوں کا نوحہ اور ہند، مسلم ، سکھ فساد کا مرثیہ باسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
جدوں اپنی اپنی پے گئی دھی ماں نو لُٹ کے لے گئی
مونہہ بارہویں صدی پساریا سانوں آ مل یار پیاریا
در کھلا حشر عذاب دا برا حال ہویا پنجاب دا
ڈر ہا وے دوزخ ماریا سانوں آ مل یار پیاریا
اور مغلوں کے زوال کی داستان بابا بلّھے شاہ نے ان الفاظ میں بیان کی۔
مغلاں زہر پیالے پیتے بھوریاں والے راجےے کیتے
سب اشراف پھرن چپ کیتے بھلا اوہنانوں جھاڑیا ای
جیہڑے سن ویساں دے راجے نال جنہاں دے وجدے واجے
گئے ہو کے بے تختے تاجے کوئی دنیا دا اعتبار نہیں
اُٹھ جا گھراڑے ماہ نہیں ایہہ سون تیرے درکار نہیں
بابا بلّھے شاہ کا دور پنجابی شاعری کے عروج کا دور کہا جاسکتا ہے بلکہ یہ دور برصغیر کی شاعری کا سنہری دور تھا۔ آپ کے دور میں جہاں ایک طرف شاہ عبدالطیف بھٹائی ایسے معروف سندھی اور سرائیکی صوفی بزرگ شاعر حیات تھے وہاں دوسری طرف پنجاب کی روایتی تاریخی رومانوی داستان ہیر رانجھا کے مصنف وارث شاہ بھی زندہ تھے۔ معروف سندھی صوفی شاعر عبدالواحد جو سچل سرمست کے نام سے جانے جاتے ہیں، کا دور حیات بھی وہی ہے۔ میر تقی میر جیسا اردو کا لازوال شاعر بھی اسی دور میں حیات رہا۔
بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں تصوف کے روایتی مضامین اور وحدت اور الوجود کا فلسفہ مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ مقامی ماحول ان کی شاعری میں بولتا محسوس ہوتا ہے۔ آپ چونکہ عام لوگوں سے قریب تھے اس لئے عام لوگوں کی زندگی سے اخذ کی گئی علامتیں آپ کی شاعری میں جگہ پاتی ہیں۔
صوفی اپنی زندگی میں جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ یہ اظہار بعد ازاں انہیں ملامتی فرقے میں شامل کرا دیتا ہے۔ درج ذیل شعر کسی ایسی ہی کیفیت کا بے ساختہ اظہار ہے جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتی۔
بلھیا عاشق ہویوں رب دا ، ملامت ہوئی لاکھ 
تینوں کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ
صوفیانہ شاعری میں اہم ترین عنصر وجدان رہا ہے۔ وہ عقلی علوم اور حواس کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے۔ بابا بلّھے شاہ کی شاعری میں بھی یہ عنصر نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اساں پڑھیا علم تحقیقی اے اوتھے اکو حرف حقیقی اے
ہور جھگڑا سب ودھیکی اے اینویں رولا پایا سبئدی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
اپنی ذات کی نفی صوفی شاعری کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک موضوع رہا ہے۔ مگر فنی ذات کا یہ مرحلہ بہرحال جا کر اثبات حق پر منتج ہوتا ہے۔ صوفی شاعردیوانوں کی طرح فرد فرد سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ میں کون ہوں مگر وہ جانتا ہے کہ ”میں کون ہوں“ آج بھی جب ٹی وی پر ” بلھیا کیہہ جانا میں کون“ سنائی دے تو بلّھے شاہ کا یہ سوال ہمارے سامنے بھی آموجود ہوتا ہے۔
نہ وچ شادی نہ غمنا کی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھوایا
نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیاناں
بلھیا شوءکھڑا ہے کون
بلھیا کیہہ جانا میں کون
عشق اور عقل کی جنگ کلاسیکل شاعری کی طرح صوفی شاعری کا بھی بنیادی عنوان رہی ہے۔ صوفی ہمیشہ سے عقل و عشق کی برتری کے قائل رہے ہیں، ان کے نزدیک عشق کی جو ایک جست میں قصہ تمام کر دیتا ہے وہ عقل کی ہزاروں پُر خارروادیاں طے کرنے سے قاصر رہتی ہیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ صوفی شاعر نے علم پر طعنے کسے ہیں۔ بابا بلّھے شاہ بار بار اپنے شعروں میں علم پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی علم کی بنیاد پر دنیا میں منافقتوں اور برائیوں نے جنم لیا۔
علموں بس کریں اور یار
اکو الف ترے درکار
علم نہ آوے وچ شمار
جاندی عمر، نہیں اعتبار
اکو الف ترے درکار
علموں بس کریں اور یار
پڑھ پڑھ ، لکھ لکھ لاویں ڈھیر 
ڈھیر کتاباں چار چوفیر
کر دے چانن ، وچ انھیر
پچھو ”راہ“؟ تے خبر نہ سار
علموں بس کریں او یار
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
اُلٹے مسئلے گھروں بتاویں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں
چوتھے سچے کریں اقرار
علموںب س کریں او یار
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں
اچیاں بانگاں چانگاں ماریں
منبر تے چڑھ وعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار
علموں بس کریں او یار
جد میں سبق عشق دا پڑھیا
دریا دیکھ وحدت دا وڑیا
گھمن گھیراں دے وچ اڑیا
شاہ عنایت لایا یار
علموں بس کریں او یار
عبادت کا ایک تصور وہ ہوتا ہے جو ہمارے مولوی کے پاس ہے جس میں تسبیح پردا نے گن گن کر بندگی کا حساب رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس صوفی کی عبادت میں شیفتگی ، بے لوثیت اور برجستگی ہوتی ہے اور وہ رسوم عبودیت کی حدوں کا قائل نہیں ہوتا۔ بلّھے شاہ کی درج ذیل نظم میں شاندار علامتوں کے ذریعے اس فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
راتیں جاگیں ، کریں عبادت راتیں جاگن کتے
تیتھوں اُتے بھونکنوں بند مول نہ ہوندے
جا رُوڑی تے ستے تیتھوں اُتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈ دے بھانویں وجن جُتے تیتھوں اُتے
٭٭٭

Sean Paul Sartre (Novelist)


ژاں پال سارتر
رانا قمر پرویز ضیائ
فرانسیسی ادیب کو معتبر فلسفی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا
1975ءمیں ژاں پال سارتر سے کسی نے پوچھا:
”مرنے کے بعد تمہیں کس حوالے سے یاد رکھا جائے“
سارتر نے جواب دیا:
”میرے ناول نوسیا میرے دو ڈرامے No Exit اور The Devil and the Good Lord کے حوالے سے ۔ ان کے علاوہ میرے فلسفے کی کتاب Critique of Dialectical Rennson اور میرا مقالہ Saint Genet .... اگر لوگوں نے ان کو یاد رکھا تو میں یاد رہوں گا۔ اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں۔“
ژاں پال سارتر نے تو چند کتابوں ، ڈراموں کا نام گنوایا ہے لیکن سارتر کا لکھا ہوا ہر نقط لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے اور یاد رہے گا۔
بیسویں صدی کو جن دو فلسفیوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ لارڈ برٹرینڈرسل اور سارتر ہیں۔ سارتر و جودیت کا بانی فلاسفر تھا۔ اس نے انسان دوست فلاسفر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ سارتر نے ڈرامے لکھے۔ نوسیا جیسا ناول لکھا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی افراد کی آزادی پر حرف آیا۔ سارتر نے اس کےخلاف آواز اٹھائی۔ فرانس پر نازیوں نے حملہ کیا تو اس نے آواز بلند کی لیکن جب فرانس نے الجزائر پر فوج کشی کی تو وہ فرانس کے خلا ف ہو گیا۔ ابتدا میں اس کی ساری ہمدریاں اشتراکیت اور روس کے ساتھ تھیں لیکن جب روس نے افغانستان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور اسے جارحیت کا نشانہ بنایا تو وہ روس کے خلاف ہو گیا۔ سارتر اور برٹرینڈرسل دنوں پہلے روس کی دوستی کا دم بھرتے تھے۔ لیکن جب روس کی پالیسیوں کو غور سے دیکھا‘ اصل چہرہ نظر آیا تو دونوں اشتراکیت کےخلاف ہو گئے اور سب سے بڑے نقاد بن گئے۔
ژاں پال سارتر 21جون 1905ءکو پیرس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فرانس نیوی میں افسر تھا۔ سارتر کی ماں این میری شوائٹرز جرمن زبان کے ماہر چالس شوائٹرز کی بیٹی تھی۔ سارتر دو سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ ماں اسے اپنے باپ کے پاس لے گئی جہاں نانا نے سارتر کی پرورش کی۔ سارترکی ماں جوان عورت تھی اس نے دوسری شادی کرلی۔ جس کا دکھ سارتر کو ساری عمر رہا اور ماں کی دوسری شادی نے عورت کے تصورات بدل دئیے۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی۔
سارتر ایک دبلا پتلا ، بھینگا اور بیمار سابچہ تھا مگر بچپن ہی سے بلا کا ذہین تھا۔ سارتر کا نانا ایک پڑھا لکھا آزاد خیال آدمی تھا۔ پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھتا تھا لیکن اس نے سارتر پر کبھی اپنے عقیدے کا بوجھ لادنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ سارتر لڑکپن ہی میں مذہب کا مخالف ہو گیا۔
ماں کی دوسری شادی نے اسے تنہائی پسند بنا دیا اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی شے کے بارے میں غور و فکر کرتا رہتا تھا۔ اپنی ذہانت اور تیز دماغ کے بارے میں وہ اپنی بائیو گرافی (Words) میں لکھتا ہے۔ ”اپنی ماں کے کہنے کے مطابق میں اپنی ماں کے پیٹ میں 9کے بجائے دس مہینے رہا اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تنور میں پکتا رہا۔ میں خستہ اور تابناک بن کر باہر نکلا....“
سارتر ابتدائی عمر ہی میں برگساں سے متاثر اور فلسفے کی طرف راغب ہو گیا۔ فلسفہ پڑھنے لگا اور پیرس فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔ پھر جرمنی چلا گیا۔ ہسرل اور ہائیڈیگر سے ملاقاتیں کیں۔ فرائی برگ یونیورسٹی میں کچھ عرصہ تحقیقی کام کیا اور پھر پیرس واپس چلا آیا۔
1929ءمیں اس کی ملاقات سیمون ڈی بوار سے ہوئی اور زندگی بھر کا رشتہ اس سے جڑ گیا۔ سیمون ڈی بوار سے اس نے شادی نہیں کی۔ دونوں ساری زندگی اکٹھے رہے شادی اور بچے پید اکرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سارتر کی موت تک دونوں کا ساتھ رہا۔
1939ءمیں سارتر کو فرانس کی فوج میں نوکری کرنا پڑی۔ 1940ءمیں نازیوں نے اسے پکڑلیا وہ 9مہینے تک جرمنوں کی قید میں رہا .... تنہائی اور قید کے اس زمانے میں سارتر نے ہائیڈیگر (Hiedegger) کو پڑھا۔ قید میں اس کی بینائی اور صحت دونوں بگڑ گئیں۔ اسے اپریل 1941ءمیں جیل سے رہائی مل گئی اور وہ دوبارہ استاد کی حیثیت سے شہری زندگی میں شامل ہو گیا۔
سارتر نے ساری زندگی اپنے لئے کوئی گھر بنایا نہ ہی شادی کی۔ ماں کی دوسری شادی نے اسے ساری عمر شادی سے متنفر کر دیا تھا اور وہ شادی کے نام سے دور بھاگتا رہا۔ سیمون ڈی بوار اس کی ہم خیال تھی .... دونوں بغیر شادی کے ساتھ ساتھ رہے اور یہ ساتھ سارتر کی موت پر ٹوٹا .... سارتر نے اپنی ساری کتابیں ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھیں .... ہوٹل ”فلور“ اس کا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ کچھ لوگ اس کے فلسفے ”جدیدیت“ کو ”کافی ہاﺅس کا فلسفہ“ بھی کہتے ہیں۔ سارتر کے کیفے کے قیام پر کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا تو اس نے جواب دیا۔
”میں کیفے میں گھر سے زیادہ منہمک ہوتا ہوں“
پوچھنے والوں نے پوچھا: ”کیوں؟“
سارتر کوجواب تھا:
”لوگ وہاں نہ میری پروا کرتے ہیں نہ مجھے لوگوں کی پروا ہوتی ہے۔ اس ماحول میں مجھے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور پھر گھر بار کا بوجھ میرے بس کی بات نہیں۔“
سیمون ڈی بوار سے اس کی ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی۔ سیمون ایک ذہین اور اپنے آپ پر نازاں لڑکی تھی۔ مردوں کو کمتر سمجھنا اور ان کا مذاق اڑانا اس کی عادت بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کی ملاقات سارتر سے ہوئی تو اسے اپنی یہ عادت ترک کرنا پڑی اور سارتر کی ذہانت کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ دوستوں نے جب اس سے پوچھا کہ تم سارتر سے متاثر ہو گئی ہو یا اس کے سامنے سرنگوں ہو گئی؟
تو اس نے جواب دیا:
”میں سارتر کی دوست ہوں لیکن جب مجھے کوئی سارتر سے بہتر آدمی مل جائے گا تو میں اسے چھوڑ دونگی۔“
مگر اسے سارتر سے بہتر آدمی نہ مل سکا اور یہ دوستی زندگی بھر رہی۔
سیمون ڈی بوار نے سارتر کے ساتھ ہوٹلوں میں وقت گزارا۔ اس کے ساتھ بہت سفر کیے۔ راتیں جاگ کر اور گھوم پھر کر گزاریں اور اس کے بارے میں بڑی عجیب باتیں لکھیں۔ وہ کہتی ہے سارتر بہت وہمی آدمی تھا۔ ایک باروینس کی گلیوں میں وہ ساری رات پھرتے رہے۔ صبح سارتر نے سیمون کو بتلایا کہ ایک جھینکا مچھلی ساری رات اس کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ سیمون کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بہت پر سکون محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ یہ وہم کی بیماری جاتی رہی۔
سارتر نے زندگی بھر لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ لکھنے کا شوق اُسے بچپن ہی سے تھا۔ اس نے بچپن میں ایک کہانی لکھی اور پھر وہ ساری عمر لکھتا رہا۔ اس نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں لکھنے کےلئے پیدا ہوا ہوں اور لکھنے کی وجہ سے ہی میں زندہ ہوں۔
سارتر نے ڈرامے لکھے ، ناول لکھے، بائیو گرافی لکھی ، فلسفے پر کتابیں لکھیں، لیکن اس کی یہ ساری تحریریں اس کے فلسفے کے گرد گھومتی ہیں، جس کا وہ موجد یابانی سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وجودیت کا لفظ سامنے آئے تو سارتر کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ سارتر اور وجودیت اس عہد میں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
وجودیت پر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ سارتر کے ہاں یہ اصطلاح یا فلسفہ رہیگل ، ہیسرل اور ہائیڈیگر کے مطالعے سے آیا ہے۔ سارتر سے پہلے بھی یہ موجود تھا لیکن سارتر نے اسے باقاعدہ فلسفے کی شکل دی .... سقراط سے پہلے تک اور سقراط کے بعد میں فلسفہ مخصوص لوگوں کی وارثت تھا۔ سقراط نے اسے بازاروں کا راستہ دکھایا لیکن فلسفہ رہا چند لوگوں کے پاس ہی۔ اسے عمومی درجہ نہ دیا گیا۔ وجودیت شاید فلسفے کی پہلی اصطلاح ہے جسے گلی محلوں ہوٹلوں اور دب میں زیر بحث لایا گیا اور یہ سب کچھ سارتر کی بدولت ہوا۔ البرٹ کا میو سے سارتر کی دوستی تھی۔ سارتر نے 1938ءمیں اپنا ناول ناسیا لکھا اور پھر کامیو سے مل کر وجودیت کے فلسفے کو ادب میں شامل کر دیا۔ ساری دنیا کے ادیب اپنے اپنے شاہکاروں میں وجودیت کی بانسری بجانے لگے، کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے۔ وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ نہ زمین اس کی دوست ہے۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کےلئے پھینک دیا گیا ہے۔ دنیا سراسر لغو ہے بے معنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان قطعی طور پر آزاد ہے۔ اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے۔
سارتر زندگی کو بے مقصد قراردیتا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ انسان اپنا خود خالق ہے اور اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو ایک کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔
ڈاکٹر سی ۔ اے ۔ قادر وجودیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”یہ یورپ میں عالمی جنگوں سے پیدا ہوا۔ انسانی درندوں اور وحشیوں کی طرح لڑا۔ ہر قدم کو ٹھکرا دیا۔ اخلاق کا پاس رہا نہ مذہب کا۔ جنگوں نے اخلاق اور مذہب دونوں کو تباہ کر دیا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ماضٰ کا اخلاق ان کے مسائل کا حل نہیں اور مذہب کی طفل تسلیاں ان کی بے چینی دور نہیں کر سکتیں۔ اگر پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں، فلسفہ دوراز قیاس بانوں کا مجموعہ بن گیا ہے تو انسانی دور کا مداوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وجودیت نے دیا ہے .... ؟
سارترانسان کو پرانے رواجوں اور روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ سارتر نے اپنے ناول نوسیا میں ہیروں کے کردار ”مجھے دوسری جنگ عظیم کی شکست کا تجربہ جون 1940ءمیں ہو گیا تھا۔ میں نے خود اس کا انتخاب کیا۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ میں ہر بات پر عمل اور ہر شے کا جو مجھ سے وابستہ ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں ....“
سارتر کے نزدیک ہر آدمی اپنی زندگی میں ایک ایسا کردار ضرور ادا کرتا ہے جو اس کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی آدمی حقیقی زندگی میں باورچی نہیں ہوتا لیکن وہ باروچی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کرکے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کرتا ہے، مثلاً سارتر کا ڈراما (Intimacy) پر نظر ڈالئے۔ ایک عورت اپنے پاگل شوہر کے ساتھ ایک بلڈنگ میں رہتی ہے اسے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ ذہنی مریض ہے۔ لیکن وہ شوہر کے ساتھ ذہنی مرض میں شریک نہیں ہونا چاہتی اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو اس کی حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا مگر وہ کردار ادا کرنے کا خود انتخاب کرتی ہے۔ یہ اس نے مکمل اور کامل آزادی سے کیا جو اسے حاصل ہے۔
سارتر کا کہنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی اذیت سے جو لوگ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کا انتخاب کرنے سے پرہیز کرتے ہیں وہ اپنے گرد مذہب ، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے ہیولے بنا لیتے ہیں جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کے تار بنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں دم توڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے اور وہ بھی اخلاق ، مذہب اور معاشرتی ہیولوں میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ 
سارتر نے دو جنگوں سے پیدا ہونےوالی صورت حال کی منظر کشی کی ہے۔ سماجی ، مذہبی ، ثقافتی اور اخلاقی تباہی کے مناظر پیش کرکے موجودہ انسان کو ایک نیا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور راستہ دکھانے کےلئے اس نے لوگوں کے سامنے وجودیت کا دیا جلایا ہے۔ نسل انسانی اس کے نظریات سے اختلاف تو کر سکتی ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ اس نے کوشش ضرور کی .... افلاطون نے جب ایک خیالی ریاست کا نقشہ پیش کیا تو اس کے ایک شاگرد نے جو ایک ریاست کا نقشہ پیش کیا تو اس کے ایک شاگرد نے جو ایک ریاست کا بادشاہ تھا افلاطون کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میری ریاست کے انتظامات کو آپ اپنے اصولوں اور قوانین کے مطابق چلائیں۔ افلاطون کچھ عرصہ اس کی ریاست میں رہا پھر وہ یہ کہہ کر ایتھتنز واپس آگیا کہ یہ قابل عمل فلسفہ نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا، سارتر کا فلسفہ وجودیت قابل عمل ہو یا ناقابل عمل مگر اس کے اس نظریے نے ایک بار پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ سوشل ، ادبی اور معاشرتی زندگی میں اس نے خاطر خواہ اثر ڈالا لیکن شاید اس نظریے کی مخالفت زیادہ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد سارتر خود بھی وجودی کہلانے سے کترانے لگا اور اپنی کچھ باتوں سے منحرف ہونے لگا۔ مثلاً سارتر نے پہلے یہ بات کہی کہ انسان کی آزادی ، خارجی حالات کی تابع نہیں ہوتی لیکن کچھ عرصے بعد سارتر اس بات سے انکار کرتا دکھائی دیتا ہے اور اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خارجی حالات انسان کی آزادی پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔
سارتر انسان دوست تھا مگر اس نے انسان دوستی کی بنیاد دہریت پر رکھی۔ سارتر کے نزدیک انسان جو بنتا ہے اپنی مرضی سے بنتا ہے۔ (اس کے لئے سارتر اپنے ڈرامے Intimacy میں اس عورت کی مثال دیتا ہے جو پاگل نہیں ہے لیکن اپنے پاگل خاوند کےلئے وہ پاگل بننے کا ارادہ کرلیتی ہے جو اس کا اپنا فیصلہ ہے اور اس کی ذمہ دار ہو خود ہے)۔
سارتر کے نظریات کی مخالفت بھی کی گئی جس میں مذہبی حلقہ پیش پیش تھا چنانچہ پاپائے روم نے سارتر کی تمام کتابوں کو ممنوعہ فہرست میں شامل کر دیا۔ لوگوں کے نزدیک یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ سچائی اور اچھائی کے مقابلے میں جھوٹ اور بے ہودہ بات ہی ”وجودیت“ کا درجہ رکھتی ہے۔ پیرس کی ایک عورت کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ جب وہ بات کرتے کرتے بے خیالی میں کوئی بے ہودہ اور مکروہ بات کر جاتی تو کہتی تھی ”میں وجودی ہونے لگی ہوں“ اور پھر لوگوں سے معافی مانگ لیتی تھی۔ سارتر نے بڑی بھرپور اور سادہ زندگی گزاری۔ عملی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جارحیت کے خلاف عملی میدان میں اُتر آیا۔ 1968 ءمیں سٹوڈنٹ ہڑتال میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سول نافرمانی کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ڈیگال کا زمانہ تھا اس نے ذاتی دلچسپی لے کر اسے رہائی دلائی اور کہا:
"You dont arrest Voltaire"
میونخ میں جب 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کا فلسطینیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو سارتر نے مخالفت کی۔ الجیریا فرانس کی جارحیت کی اس نے مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ الجیریا میں مقیم فرانسیسی فوجیوں کو نوکری چھوڑ دینا چاہیے۔ 1960 ءمیں اس نے سیمون ڈی بوار کے ساتھ کیوبا (Cuba) کا دورہ کیا۔ چے گویرا Che. Guevera سے ملاقات کی اور کہا:
”چے صرف ذہین آدمی ہی نہیں ، ہمارے عہد کا ایک مکمل انسان ہے....“
اس کی موت پر اسے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
"He lived his words, spoke his own actions and his story and the story of the world Rah Parallel"
1964ءمیں اسے نوبل پرائز کی پیش کش ہوئی مگر اس نے یہ انعام لینے سے انکار کر دیا اور جوازیہ پیش کیا کہ ایک ادارے میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے، اسے اپنی مکمل آزادی قائم رکھنا چاہیے۔ (سارتر کا نام 1957ءمیں بھی نوبل انعام کےلئے تجویز ہوا تھا مگر وہ ان دنوں الجیریا کے خلاف سامراجی طاقتوں کے خلاف احتجاج کررہا تھا۔ اس لیے یہ انعام البرٹ کو میوکو دے دیا گیا۔1964ءمیں اس نے خود انعام لینے سے انکار کر دیا)
جون 1964ءمیں تیل کے ذخیروں پر امریکہ بمباری کے خلاف اس نے احتجاج کیا، اگست 1966ءمیں ایک غیر سرکاری ٹرائل کا اعلان کیا گیا، رسل ، سیمون اور سارتر اس کے ممبر تھے۔ مئی 1967ءمیں اس کا فیصلہ سنایا گیا جس میں شہری ٹھکانوں پر بمباری کے جرم میں امریکہ کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ سارتر اس عدالت کا صدر تھا۔ سارتر اور البرٹ کا میو میں ابتدائی سالوں میں دوستی تھی اکٹھے منصوبہ بندی سے لکھنا شروع کیا لیکن پھر اختلافات ہو گئے اور دونوں الگ الگ راستوں پر چلنے لگے .... بس ایک سیمون ڈی بوار تھی جس نے عمر بھر ساتھ نہ چھوڑا۔ اس نے کہا تھا کہ سارتر سے اچھا آدمی مل گیا تو اسے چھوڑ دونگی مگر ساری عمر اسے سارتر سے اچھا آدمی نہ ملا۔ سارتر ان تھک لکھنے والا تھا۔ اس نے فلسفے پر لکھا، ناول لکھے ، ڈرامے لکھے، رسالہ نکالا، مضامین لکھے، سوانح عمری لکھی۔ لکھنا ہی اس کا کام تھا۔ اس کی تحریروں کی فہرست بہت طویل ہے۔
کام کی زیادتی اس کےلئے عذاب بن گئی۔ صحت خراب ہو گئی۔ آنکھوں کی بینائی جواب دے گئی۔ پھیپھڑوں کا مرض جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 15اپریل 1980 ءکو فوت ہو گیا ....
یوں تو سارتر کی سب کتابیں ساری دنیا میں بہت شوق سے پڑھی گئیں مگر ادب کے وہ قارئین جنہیں ”وجودیت“ سے اتنی دلچسپی نہ تھی، انہوں نے اس کے ڈراموں اور کہانیوں کو بہت دلچسپی سے پڑھا۔
ان میں سارتر کا ناول نوسیا (Nausea) اس کے ڈرامے
(1) No Exit
(2) The Files
(3) Dirty Hards
(4) The |Respectful Prosititute
ہیں۔ کہانیوں میں
(1) The Wall
(2) The Room
(3) Erostratus
(4) Intimacy
(5) The Childhood of a Leader
ہیں۔ اس کی اپنی سوانح عمری (Words) کو بھی بہت شہرت ملی۔ ان سب کہانیوں کا مرکزی فلسفہ ”وجودیت“ ہے۔ جسے اس نے بہت ہنر مندی سے اپنے ان تخلیقی شاہکاروں میں سمویا ہے۔
اس کی کہانی (Intimacy) ایک عورت Lulu اور ہنری (Hanri) کے رشتے کی کہانی ہے۔ دونوں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہنری دماغی مریض ہے۔ نفسیات کا شکار ہے۔ دونوں میاں بیوی ہیں۔ لولو اسے Gulliverl's Travel کا Gulliver کہتی ہے۔ ایک عرصہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اب شاید اس سے محبت نہیں کرتی اگر کرتی بھی ہے تو مجبوری ہیں .... اس کی ایک سہیلی Rirette سے قلبی اور جسمانی تعلقات ہیں۔ Rirette اس سے اکثر کہتی ہے:
"You cannot stay with Henti, because you dont love him"
Lulu ہنری کے ساتھ رہ رہی ہے اگرچہ ہنری کی عادات سے اسے اکتاہٹ ہوتی ہے لیکن اسے پھر بھی ہنری کا خیال ہے۔ اس کی ضروریات کی فکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی سہیلی Rirette کا جسمانی پیکر بھی ہر پل اداس رکھتا ہے۔ Rirette اسے بار بار اکستاتی ہے کہ Happiness اور Honour کی تلاش کرو .... صرف خاوند کےلئے قربانی دینے کا خیال ذہن سے نکال دو .... ”میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں لولو (Lulu) ہم سیر پر جائیں گے۔ کشتی ، گاڑی پر سواری کریں گے۔“ (لولو (Lulu) اپنے خاوند کے پہلو میں لیٹی یہ سب کچھ سوچتی ہے اور پھر اپنا سامان (Pack) کرکے Rirette کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے "I Left Henri, Fished, I dropped him" اور پھر تفصیل بتلاتی ہے۔
”میں نے بالکونی میں تالا لگا دیا، بڑا عجیب منظر تھا۔ وہ ابھی تک پاجاما پہنے ہوئے تھا۔ کھڑکی کے شیشے پر انگلی سے ٹک ٹک کررہا تھا۔ اس نے شیشہ توڑنے کی جرا ¿ت نہیں کی۔ میں اس کی جگہ ہوتی تو کھڑکی توڑ کر بالکونی سے اندر آجاتی .... “
لولو (Lulu) کہتی ہے:
”میں اس کی سہولت کےلئے کچن کی میز پر ایک چٹ لکھ آئی تھی۔ فریج میں سور کا گوشت پڑا ہے۔ گیس کا چولہا بند کر دیا ہے۔ اب اپنی مدد آپ کے تحت کام کرو۔ میں اکتا گئی ہوں۔ میں قصہ تمام کررہی ہوں۔ الوداع“۔
(Rirette) دراصل لولو (Lulu) کو ایک آدمی Pierre کے ساتھ پیرس سے جانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ لولو کو Fischer کی دکان سے کچھ سامان خریدتا ہے۔ Rirette نہیں چاہتی کہ لولو اس سڑک پر جائے جہاں Fischerکی دکان ہے کیونکہ ٹھیک 6بجے Henri سیر کے لئے ادھر سے گزرتا ہے۔ لولو اس سڑک پر جاتی ہے Henri انہیں دیکھ لیتا۔ دونوں بھاگتی ہیں۔ ہنری پیچھا کرتا ہے اور پاگلوں کی طرح پکار کر کہتا ہے:
”لولو! رُک جاﺅ .... واپس آجاﺅ .... تم میری ہو .... میں تمہارا خاوند ہوں۔“
لولو اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ ہنری بے دم ہو کر گرتا ہے اور پھر لولو میں ایک تبدیلی آتی ہے اور Pierre کے نام ایک خط لکھتی ہے اور ہنری کے پاس واپس چلی جاتی ہے: ©
ڈارلنگ!
میں ہنری کے پاس جا رہی ہوں۔ کیونکہ وہ بہت غمگین ہے۔ سب سے پہلے تو میں مزید آزادی چاہتی ہوں۔ تم سے محبت کرتی ہوں۔ کل تمہیں Dome کے مقام پر 5بجے ملوں گی۔
لولو (Lulu) 
دوسرا ڈراما The respectfull Prostitute ہے۔ ان دونوں ڈراموں میں عورت اپنے فیصلے خود کرتی ہے اور ذمہ داری قبول کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھتی ہے۔
یہی سارتر کا بنیادی فلسفہ تھا۔
معزز بیسوا ۔ سیاہ فام اور سفید فام نسل کے درمیان ایک تصادم ہے۔ سیاہ فام سے سفید فام کی نفرت ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سیاہ فام جرم کرے یا نہ کرے، وہ مجرم ہے۔ اسے سزا ملنی چاہیے۔ اس کا وجود بے معنی ہے۔ سفید فام گناہ کرکے بھی بے گناہ اور معصوم ہے۔ ڈرامے کا کردار لیزی عدالت میں حبشی کےخلاف گواہی دینے پر رضا مند نہیں ہوتی لیکن سنٹر اپنی فطری چالبازی کو استعمال میں لاتا ہے انسانی جذبات کا تانا بانا پھیلا کر لیزی کو موم کرلیتا ہے اور جھوٹی گواہی پر دستخط کرالیتا ہے۔ وہ حبشی کو بچانا چاہتی ہے کیونکہ وہ بے گناہ ہے لیکن وہ سنٹر کی چال میں آجاتی ہے اسے اپنے کیے پر افسوس ہے لیکن وہ حبشی کو بچانے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے۔ اسے فریڈ کی گولی کا نشانہ نہیں بننے دیتی اور حبشی بھاگ جاتا ہے۔
سارتر اپنی کہانیوں اور ناولوں میں ایک نفسیاتی فضا قائم کرتا ہے اور اس فضا میں دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی زد میں آنے والے کرداروں کو چلتے پھرتے دکھاتا ہے۔ جنگ میں اپنا سب کچھ کھو دینے والی نسل "Lost Generation" ہے اور سارتر انہیں ایک فلسفہ ”وجودیت“ فراہم کرتا ہے۔ جس کو اپنا کردہ اپنی منزل ، اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں۔ انہیں سارتر کا مل آزادی کا احساس دلاتا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کریں اور ذمہ داری قبول کریں۔ سارتر کا یہ فلسفہ کہاں تک کامیاب رہا پا رہے گا۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اب باراس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ادبی دنیا میں ایک ہلچل برپا کر دی۔

Semon Deeb War (Essay)


”حقوق نسواں کی علمبردار ”سیمون ڈی بوار“
(اسماءرشید شاہ)
باپ دونوں لڑکیوں کی پیدائش پر خوش نہ تھا وہ اکثر سوچتا تھا کہ کاش ان کی بجائے ایک لڑکا ہوجاتا۔ لڑکا تو نہیں ہوا لیکن ان میں سے ایک لڑکی نے سب کچھ لڑکوں والا کیا۔ لڑکا تو نہیں ہوا لیکن ان میں سے ایک لڑکی نے سب کچھ لڑکوں والا کیا۔ اس لڑکی کا نام سیمون ڈی بوار تھا۔ سیمون ڈی بوار کا بچپن اتنا اچھا نہ تھا۔ نہ تو وہ اتنی خوش شکل تھی اور نہ ہی وہ ایسے کپڑے پہنتی تھی کہ وہ کپڑوں میں خوبصورت نظر آئے۔ اس کے کپڑے گھر میں اس کی ماں سیتی تھی اور وہ برے کپڑے سینے والی کے نام سے مشہور تھی۔ ماں کے سلے کپڑے پہن کر وہ اور بھی بدوضع دربدر صورت نظر آتی تھی۔ باپ بھی ہر وقت طغے دیتا تھا کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔
سیمون کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ اس کا نانا ایک بینک کا صدر تھا۔ بینک دیوالیہ ہو گیا۔ سارا خاندان پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا۔ باپ کی چھوٹی موٹی نوکری کرنا پڑی بہرحال جوں توں زندگی کی گاڑی چلتی رہی اور سیمون ایک ”پگڑے بچے“ کے طور پر آگے بڑھتی رہی۔ نہ اس کا کوئی دوست تھا نہ ساتھی۔ ایک بہن ہیلن (Helene) تھی جس کے ساتھ وہ ہر بات ، ہر راز کہہ سن لیتی تھی۔ ان حالات میں سیمون نے کبھی اپنے آپ کو لڑکی نہ سمجھا اور لڑکا بن کر زندگی گزاری۔ اس کا باپ اکثر اپنے رشتے داروں سے کہا کرتا تھا۔
(Simon Thinks Like a Man)
سیمون نے اپنے آپ کو کتابوں کی نذر کر دیا اور ہر کھیل اور دیگر مصروفیات کی طرف دھیان نہ دیا۔ کیتھولک سکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی اس کی بہن بھی ساتھ تھی۔ دونوں لڑکیوں کی نگہداشت کےلئے کلاس میں ان کی ماں ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
باپ کو اپنی غربت کا خیال تھا اور اس نے اپنی لڑکیوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں کیونکہ میرے پاس دینے کےلئے جہیز نہیں ہے۔ چنانچہ تمہارے پاس غربت سے نکلنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم علم و دانش کی ڈھیر ساری دولت جمع کرلو۔ سیمون نے یہ بات پلے باندھ لی اور کتابوں کے سمندر میں غوطہ لگا دیا۔ 1924ءمیں اس نے امتیازی نمبروں میں گریجویشن کرلی اور پھر فیصلہ کرلیا کہ وہ مصنف بنے گی۔
سیمون ڈی بوار نے ریاضی میں ڈگری لی۔ فلسفہ پڑھنے پیرس یونیورسٹی چلی گئی۔ یہاں سے ذہن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوئی ان میں ایک سارتر بھی تھا۔ سیمون کہا کرتی تھی کہ مجھے کوئی ذہین مرد نظر نہیں آیا اور وہ اکثر مردوں کی حاکمیت اور ذہانت کو ہسنی میں اڑا دیا کرتی تھی۔ لیکن سارتر کے سامنے وہ ڈھیر ہو گئی۔
1929 ءبڑا اہم سال تھا۔ سیمون کی عمر 21 سال تھی اور سارتر اس وقت 24سال کا تھا۔ فلسفے کا رزلٹ آیا تو امتحان میں اس کی دوسری پوزیشن آئی۔ یہ ڈگری لینے والی وہ 9 ویں خاتون تھی۔ اسے دوسری پوزیشن کا انعام ملا پہلی پوزیشن سارتر کی تھی۔
یہ اکتوبر 1929 ءکے مہینے کی دوپہر کا واقعہ ہے۔ سارتر اور سیمون دونوں بیچ پر بیٹھے تھے۔ سارتر نے سیمون کو شادی کی پیش کش کی۔
”شادی تو ممکن نہیں“ سیمون نے کہا۔
”کیوں“ سارتر نے پوچھا۔
”میرے پاس جہیز نہیں“ سیمون نے جواب دیا ”البتہ ہم دونوں دو سال ساتھ رہنے کا معاہدہ کر لیتے ہیں“۔
اور پھر دونوں ساتھ رہنے لگے ۔۔۔۔۔۔ سیمون کے دوستوں نے سیمون سے پوچھا۔
”تم تو مردوں کو گھاس نہیں ڈالتی تھی ، سارتر کو کیسے قبول کرلیا“۔
سیمون نے جواب دیا۔
”سارتر ذہن آدمی ہے سارتر سے بہتر کوئی مرد مجھے مل گیا تو میں اسے چھوڑ دوں گی“۔
لیکن سارتر کی موت تک ا سے کوئی مرد سارتر سے ذہن نہ ملا اور وہ مرتے دم تک سارتر کے ساتھ رہی۔ دونوں نے کوئی گھر نہ بنایا۔ نہ بچے پیدا کئے۔ بس لکھ لکھ کر ڈھیر لگا دیا اور پڑھ پڑھ کر ساری دنیا اسے اپنا رومانوی ماں باپ ماننے لگی۔۔۔۔ دونوں اپنی اپنی زندگی گزارنے تھے۔ دونوں اپنے اپنے افعال میں آزاد تھے۔ دونوں نے عشق کئے۔ تعلقات قائم کئے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتراض نہ تھا۔ سارتر کے دوسری عورتوں سے تعلقات تھے۔ سیمون نے کئی عورتوں سے تعلقات قائم کئے۔ ان تمام باتوں کا انکشاف سیمون نے اپنے ناولوں میں کیا ہے۔
سارتر اور سیمون کے تعلقات بڑی عجیب نوعیت کے تھے۔ اپنی سوانح عمری میں سیمون سارتر کے بارے میں کہتی ہے۔
”سارتر میرا روحانی ساتھی تھا۔ جس میں مجھے اپنے تمام جذبات کی گرمی اور حرارت ملی“
دونوں الگ الگ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ شام کو اکٹھے مل کر بیٹھتے اور بحث ہوتی۔ نظریات کا تبادلہ ہوتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کا ذکر ہوتا۔ اکٹھے تھے مگر فیصلے اپنی مرضی کر کرتے تھے۔ سیمون نے اپنی ایک تحریر میں کہا تھا۔
”میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے سوا کسی اور کی مرضی کے تابع نہیں بنانا چاہتی“۔
سیمون نے ساری زندگی سارتر کے ساتھ گزاری لیکن ہمیشہ اپنی کہی ہوئی اس بات پر عمل کیا ۔۔۔ سیمون ڈی بوار نے کچھ عرصہ ایک سکول میں فلسفہ پڑھایا۔ کچھ کالجوں میں لیکچرز دئیے۔ لیکن ساری زندگی لکھنے میں گزاری اور سارتر کے ساتھ دنیا کی سیر کرنے میں صرف کر دی۔ سیمون ڈی بوار نے بہت لکھا۔ بڑے شاہکار تخلیق کیے۔ فلسفے کی کتابیں ، ناول ، ڈرامے اور مضامین اس کے کریڈٹ پر ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ عورتوں کی آزادی اور تحریک میں اسے ایک امام اور رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔
{{"She is Considered the Mather of Post 1968 Feminism"
تخلیق طور پر سیمون اپنے ساتھی دوست اور روحانی ہمسفر سارتر سے کسی طور پر بھی کم نہ تھی۔ اس کے تخیلقی کاموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سیمون نے مختلف اصناف بھی لکھا اور اپنے قلم کا لوہا منوایا۔ اس کی کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) She Comto Stay.
(2) The Blood of Others.
(3) The Mandarins
(4) All Men are Mortal
(5) When Things of the Spirit Came first.
(6) The Women Destroyed.
(7) Who shall die (Drama)
یہ سیمون کے ناول ، شارٹ سٹوری کے مجموعے ہیں اس نے تھیٹر کےلئے صرف ایک ڈرامہ Who Shall Die لکھا سیمون کے سفر ناموں میں دو نمایاں کتابیں شامل ہیں۔
(1) America Day by Day.
(2) The Long March.
پہلا سفر نامہ اس کی امریکہ کی تفصیلی روداد ہے جب وہ مختلف شہروں میں لیکچرز دینے گئی۔ یہ سفر اس نے 1947ءمیں کیا نیویارک ، شکاگو، ہالی وڈ اور لاس ویگاس کا دورہ کیا۔ اسے نیویارک ٹائمز نے لکھنے کی دعوت دی اور اس کے مضامین لکھے The Long March ۔ روس اور چین کے سفر کی روداد ہے۔ اس میں اس نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی لوگوں کی بھلائی اور بہتری کےلئے بہت کام کررہی ہے۔ بعد میں اسنے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ چین کے کلچرل تجزیے کےلئے نہیں بلکہ صرف پیسہ کمانے کےلئے کیا تھا۔
سیمون ڈی بوار کا ناول She Came to Stay سیمون اور سارتر کے تعلقات اور جذباتی کش مکش پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ کہانی ایک افسانوی انداز میں سارتر اور سیمون کی جذباتی کھینچا تانی کی تفصیل ہے۔ ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کی ابتداءہے۔ وہ روسی لڑکیاں اولگا (Olga) اور وانڈ (Wanda) سیمون کے پاس ٹھہرنے کےلئے آتی ہیں۔ اولگا سیمون کی پرانی سٹوڈنٹ ہے۔ جس سے اس نے 1930 ءمیں ایک سکول میں پڑھایا تھا۔ اولگا سیمون کو پسند کرنے لگی تھی جب وہ چند دن ٹھہرنے کےلئے سیمون کے پاس آئی تو سارتر نے اولگا میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اولگا نے سارتر کو روکھا سا جواب دیا کیونکہ اولگا سیمون کو پسند کرتی تھی چنانچہ سارتر نے اس کی بہن وانڈا سے تعلق قائم کرلیا اور یہ تعلق وانڈا کی شادک تک قائم رہا۔۔۔۔ اس ناول کے بعد یمون کے کئی ناول آئے لیکن اس کا شاہکار ناول The Mandarains ہے۔ اس ناول کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے فرانس کا سب سے بڑا انعام بڑے ادب (Prix) دیا گیا۔ اس ناول میں ایک دانشور کی ذمے داریوں اور تعلقات کو دکھایا اور بتایا گیا ہے کہ اس کا اپنے معاشرے اور سوسائٹی سے کیا تعلق ہے اور اس کی کیا ذمے داریاں ہیں۔ اس ناول میں صحافیوں ، تھیٹر کے اداکاروں اور ادبی ناموروں کی خامیوں اور خوبیوں اور پیرس کی منافقانہ زندگی اور مصلتحوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
When things of the Sprite Came First اور The Women Doestroyed 
دونوں کہانیوں کی کتابیں ہیں۔۔۔ ان میں اکثر کہانیاں عورتوں کی زندگی اور ان کی خواہشات کو ظاہر کرتی ہیں۔ عورتوں کے ساتھ معاشرے کا سلوک اور پھر عورتوں کی جدوجہد اور معاشرے کے جبر سے رہائی۔۔۔ مثلاً The Women Dest royed تین عورتوں کی کہانی ہے۔ خاندانی ماحول میں وہ کس طرح حالات کا مقابلہ کرتی ہیں اور پھر کس طرح اپنی آزادی کےلئے جدوجہد کرتی ہیں۔
Second Sex ۔ سیمون کی شہرت یافتہ اور بدنام کتاب ہے۔ یہ کتاب اور اس کا ناول (The Mandrins) ”ویٹکن سٹی“ نے ممنوعہ کتابوں کے خانے میں سجا دئیے تھے۔
Second Sex ۔ سیمون ڈی بوار کی ایک انقلابی کتاب ہے۔ رجعت پسند نقادوں نے اس کتاب پر بہت تنقید کی اور اسے روایت کے خلاف بغاوت تصور کیا لیکن عورتوں نے اسے اپنی زندگی اور صورتحال پر پہلی مکمل کتاب قرار دیا۔ سیمون ڈی بوار کا یہ موثر کار نامہ حقوق نسواں کی تحریک کا سنگ میل بن گیا۔ عورتوں کی تحریک اور فرانس نے اس کتاب کا بڑا اثر قبول کیا۔ ”سیکنڈ سیکس“ عورت کی ابتداءعہد بہ عہد اس کی معاشرتی حالت سوسائٹی میں اس کا مقام۔ عورت اور مرد کے تعلق پر ایک تفصیلی اور فلسفیانہ تجزیہ ہے۔ سیمون ڈی بوار کا نظریہ ہے کہ ہر فرد کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ آزادی اس کی منزل ہے۔ اس کائنات میں اسے کیا بننا ہے اسے اپنے لئے کیا منتخب کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ ایک فرد کو کرنا ہے۔ سیمون ڈی بوار کا نقطہ نظر وجودی ہے۔ اس نے عورتوں پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح غیر معتبر ہیں کیونکہ وہ نسوانی رویہ چھڑ کر مردانہ کھیلوں میں مصروف ہیں۔ سیمون ڈی بوار نے عورتوں کےلئے ”دوجا“ (The Other) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس میں معنویت یہ ہے کہ مرد کتنا ہی چاہے عورت سے چھٹکار حاصل نہیں کرسکتا۔ ہم جنس پرست ہونے کے باوجود وہ عورت کے ارد گرد منڈلانے پر مجبور ہے یہ بات برسوں پہلے لونانی عرجیہ نگار اسٹوفینز نے بھی اپنے ایک ڈرامے میں کی کہ ایک عورت کردار سے کہلوائی تھی کہ عورتوں مٰں لاکھ برائیاں سہی، مرد عورت میں سوعیب نکالے لیکن وہ عورت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ سیمون نے اس کتاب میں عورت کی تاریخی اور بیالوجیکل ہسٹری پر بھی بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بت سے معاملوں میں عورت کو مرد کے مقابلے میں بہت سے تجربات اور مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلاً بچہ کو کھ میں رکھنا اور پھر بچہ پید اکرنا، یہ دو تجربات ایسے ہیں جو مردوں کے مقابلے میں عورت کرتی ہے۔ سیمون نے اس تحقیقی کتاب میں عورت کے ہر پہلو پر بحث کی ہے۔ بلاشہ ”سکینڈ سیکس“ نسوانیت پر ایک فلسفیانہ ، تاریخی ، فکری اور تحقیقی دستاویز ہے۔
The Ethics of Ambiguity سیمون کی وجودیت کے فلسفے پر مبنی کتاب ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں اس نے فرد کی آزادی خارجی محرکات اور آزادی کی راہ میں معاشرتی پابندیوں پر بحث کی ہے۔ اس نے مثال دے کر بحث کی ہے کہ عورتیں اور غلام معاشرے میں ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی آزادی نہیں۔ رسومات مذہبی فرمان اور معاشرے کے قوانین نے انہیں آزادی نہیں دی بلکہ پابندیوں میں جکڑ دیا ہے اور انہیں بتلایا جاتا ہے کہ انہیں قدرت نے ایسا ہی بنایا ہے کیونکہ قدرت کے خلاف وہ بغاوت نہیں کر سکتے، چنانچہ انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے۔ معاشرہ انہیں بغاوت نہیں کرنے دیتا اور وہ اسی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کتاب میں سیمون نے نائٹ ، ہیگل ، مارکس اور سارتر کے نظریات پر بحث کی ہے اور ان سے مکالمہ کیاہے۔ جدید فلسفے کی تاریخ میں اس کتاب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
سیمون ڈی بوار کا آٹو بائی گرافیکل کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سوانح اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے وقت اس نے اپنے عہد کی نامور شخصیتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بیسویں صدی کی تمام نامور شخصیتیں جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں کارنامے سرانجام دئیے وہ سیمون کی بائیو گرامی میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیمون کے فلسفے کو سمجھنے کےلئے اس کی بائیو گرافی ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ سیمون کی شخصیت کی کئی پر تیں ہیں۔ وہ فلاسفر تھی۔ ناول نگار تھی، مصنف تھی، سوشل ورکر تھی۔ اس کی ایک سیاسی اور ثقافتی حیثیت تھی۔ تمام پہلوﺅں پر اس نے اپنی بائیو گرافی میں روشنی ڈالی ہے۔ سیمون نے علوی طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ نسوانی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شمولیت کی۔ جلسوں میں تقریر کیں۔ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔ عورتوں پر لاگو ناجائز قوانین کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان تمام پہلوﺅں پرا ا کی بائیو گرافی میں تفصیل ملتی ہے۔ جس سے سیمون کے فلسفے اور نظریات سمجھنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔
سیمون ڈی بوار کی زندگی کی کہانی 5حصوں پر مشتمل ہے۔
بائیو گرافی کے پہلے حصے میں اس نے اپنے بچپن ، ماں باپ سے اپنے تعلقات اپنے سکول کے حالات دوستوں سے اس کے شب و روز کے حالات، اپنی شخصیت میں روز بہ روز تبدیلی کی رودار ہے۔ دوسرا حصہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے کی رودار ہے۔ نیز جنگ اور امن کے زمانے میں اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے حالات درج ہیں۔ تیسرا حصہ بہت اچھا ہے جس میں اس نے ادب اور فلسفے سے اپنے تعلق کا اظہار کیا اور نسوانی تحریک سے اپنے مضبوط رشتے کی بات کی ہے۔ کیمونزم اور کیپیٹل ازم کے نقصان اور فائدے پر بحث کی ہے۔ ادب ، فلسفے پر اپنے نظریات پر کھل کر بحث کی ہے۔ 
سیمون ڈی بوار نے سارتر کےساتھ 41 سال اکٹھے گزارے۔ اس حصے میں اس نے سارتر کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ اس حصے پر کچھ اعتراضات بھی کئے گئے۔ سخت تنقید بھی کی گئی اس لئے کہ سیمون نے سارتر کے آخری دنوں کے حالات بیان کرتے وقت سارتر کی جسمانی اور ذہنی خرابیوں اور زوال پذیر ہونے کا ذکر کیا ہے جس قارئین نے پسند نہیں کیا۔ لیکن ان اعتراضات کے باوجود یہ حصہ بہت جاندار اور قاری کےلئے سارتر کے حالات سے آگاہی کا باعث بنتا ہے۔ سیمون کے مختلف شخصیتوں کو لکھے خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کچھ خط سارتر کے نام ہیں کچھ خطوط فیدل کاسترو کے نام یہ خطوط انہیں عنوانات سے چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔ سیمون کا امریکی موسیقار Nelson ALgren سے عشق بہت مشہور ہے۔ سیمون نے اس پر ایک ناول بھی لکھا ہے اس کے نام سیمون کے خطوط کو اکٹھا کرکے Love Affair کے نام سے شائع کیا ہے۔ ۔ ان تمام خطوط سے بیسویں صدی کی نامور مصنف اور فلسفی کی زندگی کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات ملتی ہے۔
سیمون ڈی بوار بیسویں صدی کی ایک بڑی تخلیق کار تھی جو وجودیت پسند فلسفی تھی۔ نامور ناول نگار تھی۔ نسوانی تحریک کی سرخیل تھی۔ اس نے عملی طور پر اس میں حصہ لیا۔ شہری دنیا کی آواز کےلئے اس نے آواز اٹھائی۔ مزدوروں کے حق کےلئے تقریریں کہیں خاص طور پر نسوانی تحریک اس کی تحریوں کے نام سے زندہ بنے اور بقول ایک دانش ور ”نسوانیت پسندی کی تاریخ میں سیمون ڈی بور ایک ہیروئن کا درجہ رکھتی ہے۔“
٭٭٭

Mopsan French Poet


”موپساں“ عظیم فرانسیسی ادیب
فلابیئر کی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتا تو ایک کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ کھانا کھاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کمرے میں جا کر کوٹ اور جوتے اتار دیتا۔ بنیان قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دیتا۔ پھر شراب پیتا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتا جب کھا کر مدہوش ہوجاتا اور لڑکھڑا نے لگتا تو اس کو سہارا دے کر گھر حفاظت سے لانے کا فریضہ اس کا ہونہار شاگرد ادا کرتا تھا۔ یہ شاگرد کوئی اور نہ تھا۔ سترہ سالہ موپساں تھا۔
جس کا ہاتھ فلابیئر کے ہاتھ میں دے کر موپساں کی ماں نے کہا تھا:
”لے فلابیئر یہ تیرا ہوا۔ اسے لکھنا سکھا دے“
فلابیئر نے موپساں کی ماں کی یہ بات سنی اور موپساں کو دنیا کا ایک بڑا کہانی نویس بنا دیا۔
موپساں کی ماں مادام (Lee Poittevin) اور اس کے باپ Gustave de Maupassant کے مزاج اور عادات میں بڑا فرق تھا۔ موپساں کی ماں ادبی اور شاعری ذوق رکھتی تھی، پیرس کے ادیبوں اور شاعروں سے اس کا ملنا جلنا تھا۔ انگریزی کلاسیک ادب سے شد بدھ رکھتی تھی۔ شیکسپیئر اس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ موپساں کا باپ ایک سٹاک بروکر تھا۔ دونوں خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر موپساں کا باپ سب کچھ رکھتے ہوئے ادبی ذوق اور حسن لطیف سے دور تھا۔ موپساں کی ماں اس کے باپ کے دو بچوں کی ماں بنی مگر پھر اس کے ساتھ گزارا مشکل سمجھا۔ وہ ایک آزاد خیال عورت تھی۔ عورت کا خاوند سے طلاق لینا اس زمانے میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس نے یہ معاشرتی اور سماجی بدنامی مول لی اور طلاق لے لی۔ اپنے لڑکوں کو ساتھ لے کر لگ رہنا شروع کر دیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا 5سال اور بڑا بیٹا موپساں 11سال کا تھا۔ جب 17سال کا ہوا تو اسے ماں نے فلابیئر کی شاگردی میں دے دیا۔
ہنری رینے گائی ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5اگست 1850ءکو نارمنڈی (فرانس) کے مقام پر پیدا ہوا۔ صرف 42سال زندہ رہا اور 6جولائی 1893ءکو فوت ہو گیا۔ بہت مختصر زندگی پائی مگر مختصر کہانی اور افسانے کا امام کہلایا۔ وہ جدید افسانے میں حقیقیت نگاری اور نیچرل ازم کے بانیوں میںشمار کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ سب فلابیئر کی صحبت اورتربیت کا نتیجہ تھا۔ فلابیئر اس کا گرو اور گارڈ فادر تھا۔ لکھنے اور کہانی کہنے کے دنگل میں اس نے موپساں کو عملی اور فکری تربیت دی۔ جملے کی ساخت اور الفاظ کے استعمال کے گر سکھائے (کہانی شروع کرنے اور اسے احسن طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ سمجھایا اور قدم قدم پر اس کی رہنمائی کی .... الفاظ سے تصویر بنانے کا فن الفاظ کو بر محل استعمال کرنے کا گر اور سادہ طرز تحریر، جملے کا اختصار۔ فلابیئر کی بتائی ہوئی یہ باتیں اس نے پلے باندھ لیں اور پھر اپنی محنت اور لگن سے وہ دنیا کا بڑا افسانہ نویس بن گیا۔ فلابیئر اس کی تحریروں کی بار بار کانٹ چھانٹ کرتا تھا۔ ایک ہی موضوع پر اس سے بار بار کہانی لکھواتا تھا .... ایک بار موپساں نے ایک ڈراما لکھا۔ فلابیئر نے اپنے گھر سب دوستوں کو اکٹھا کیا (ان میں ایملی زولا بھی تھا اور پھر موپساں کو یہ ڈراما سٹیج کرنے کےلئے کہا۔ موپساں کی اچھائیاں ادبی دوستوں کے سامنے پیش کرنے کےلئے فلابیئر اکثر ایسا کیا کرتا تھا)۔ فلابیئر کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ موپساں کو ان ادبی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور اس کی ادبی صلاحیت کو بہت تقویت ملی۔ روسی ناول نگار تر گنیف جو فلابیئر کا دوست تھا۔ موپساں کے مداحوں میں شامل تھا۔ موپساں کو ٹالسٹائی سے ادبی طور پر متعارف کرانے والا ترگنیف ہی تھا۔ اس نے موپساں کی کہانیوں کی کتاب روس جا کر ٹالسٹائی کو پیش کی اور موپساں کی بے حد تعریف کی۔ ٹالسٹائی کے موپساں کی کہانیوں سے روسی ترجمے کا دیباچہ لکھ کر موپساں کے فن کا بہت سراہا ہے۔
موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل دریا خوبصورت فطری نظاروں میں اس نے وقت گزارا۔ سمندر میں کشتی رانی کی۔ مچھلیاں پکڑنے وہ سمندر میںبہت دور نکل جاتا تھا۔ سمندری سفر کا شوق ساری زندگی اس کے ساتھ رہا۔ ایک بار نار منڈی کے ساحل پر مشہور شاعر چارلس سونبرن (Charles Swinburne) سمندر میں ڈوبنے لگا تو موپساں نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی .... پہلی بار ایک سکول میں داخل ہوا تو مذہب کے بارے میں اپنے منفی خیالات کی بنا پر سکول سے نکال دیا گیا۔ دوسرے سکول میں جا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شاعری میں دلچسپی اور ادب کا مطالعہ کیا، بی اے کرتے ہی فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑ گئی۔ موپساں نے رضاکارانہ طور پر جنگ میں اپنا نام لکھوا دیا .... 1871ءمیں جنگ سے فارغ ہو کر پیرس آگیا اور نیوی کے محکمے میں دس سال کلرکی کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلابیئر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ادب اور صحافت کے میدان کا کامیاب کھلاڑی بنا دیا۔ زولا اور ترگنیف کی صحبت میں بٹھایا حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کے سکول کے دروازے اس پر کھولے۔ اس نے اسی زمانے میں اخباروں کے لئے لکھا اور ناول اور افسانہ نویسی کی طرف دھیان دیا۔
1880ءکی دہائی کا زمانہ موپساں کے تخلیقی عروج کا زمانہ ثابت ہوا۔ اس نے اپنا پہلا ناول Boule de Suif اسی زمانے میں لکھا۔ جسے فلابیئر نے زندہ رہنے والا شاہکار قرار دیا۔ ”مادام فی فی“ Mother Savage جیسی کہانیاں لکھیں اس زمانے میں اس نے بے حد دولت بھی کمائی۔ تخلیقی اور اقتصادی صلاحیتوں میں توازن قائم کیا۔ ادب بھی لکھا اور پیسے بھی کمائے .... کہانیوں کا مجموعہ Le Masion Tellier چھپا تو دو سال میں 12 ایڈیشن آ گئے .... ناول UNE.VIE (جس کا انگریزی نام (A Woman's Life کی ایک سال میں 25000 کاپیاں بک گئیں .... ناول بل ایمی (Bel Ami) شاہکار ثابت ہوا۔ چار مہینے میں 37 ایڈیشن چھپ گئے۔
بل ایمی (Bel Ami) پیرس کی معاشرتی اور مجلسی زندگی کی حقیقی اور کھری تصویر ہے۔ پیرس کی مجلسی زندگی شادی شدہ عورتوں کے معاشقوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں مردوں کا ایک ایسا گروہ نظر آتا ہے جو دیہاتوں سے پیرس میں داخل ہوتا ہے۔ (دولت اور مقام حاصل کرنے کےلئے وہ شادی شدہ مال دار عورتوں سے عشق کرتا اور سوسائٹی میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔ 18ویں اور انیسویں صدی کے کئی ناولوں کا پلاٹ ایسے ہی مردوں اور ان کی سرگرمیوں پر بنا گیا ہے۔ روسو کے ”اعتراضات“ سے اس کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ پیرس میں جب روسو بیکار زندگی گزارتے گزارتے تھک جاتا ہے تو اسے کافی ہاﺅس کا بوڑھا یہی مشورہ دیتا ہے کہ نام کمانا چاہتے ہو تو کسی شادی شدہ مال دار عورت کا سہارا تلاش کرو .... چنانچہ ایسی مال دار عورتیں اسے مل جاتی ہیں اور وہ دیکھتے دیکھتے پیرس کی مجلسی زندگی میں مشہور ہو جاتا ہے۔ ستاں وال کا ”سرخ و سیاہ“ کا پلاٹ میں شادی شدہ عورت اور کنوارے نوجوان کے عشق کے داستان ہے)۔ بالزاک کے ”بوڑھا گوریو“ میں ہیرو شادی شدہ عورت سے عشق کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ بل ایمی Bel Ami کی کہانی بھی ایک ایسے مرد کے گرد گھومتی ہے جو دیہاتی علاقے سے پیرس کی زندگی میں آتا ہے اور شادی شدہ عورت کی مدد سے پیرس کی مجلس زندگی کا ایک کامیاب فرد بن جاتا ہے۔
بل ایمی کی کہانی جارج ڈیور رائے کی منفی سرگرمیوں کی کہانی ہے۔ جو ایک غریب آدمی ہے۔ لیکن اپنی چالا کیوں، سازشوں اور منصوبوں سے پیرس کی سوشل سوسائٹی کا ایک طاقتور آدمی بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسے اپنی ذہانت اور چالاکی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایسی کامیاب منصوبہ بندی کرتا ہے کہ اسے نام ، مقام اور دولت مند محبوبہ مل جاتی ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس کےلئے وہ پیرس کی مجلسی زندگی میں داخل ہوا تھا۔
ناول کی کہانی پیرس کے ماحول میں ایک کامیاب اخبار کے مالک، اس کے عملے اور دوستوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہ الجیریا میں تین سال فوجی خدمات سرانجام دینے والے Duroy Georges کی کہانی ہے۔ وہ پیرس میں آتا ہے۔ چھ مہینے کلر کی کرتا ہے پھر اس کی ملاقات اپنے ایک فوجی ساتھی، کامریڈ (Forestier) سے ہو جاتی ہے جو اسے صحافی بننے کا مشورہ دیتا ہے۔ چنانچہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کی رپورٹنگ اور ہلکی پھلکی خبریں اخبار میں دینا شروع کر دیتا ہے اور چیف ایڈیٹر تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ ایڈیٹر اس کی توجہ اہم موضوعات پر مضمون لکھنے کی طرف دلاتا ہے۔ اس کا پہلا مضمون ہی اخبار میں اہم جگہ پاتا ہے اور پھر وہ اہم ترین سوشل ، سیاسی موضوعات پر مضامین لکھنا شروع کرتا ہے جو پہلے صفحے پر مرکزی جگہ پاتے ہیں۔ ان تمام مضامین کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے جو اس کے پرانے فوجی ساتھی کی بیوی ہے۔ (Forestier) کی بیوی اس کے لکھے مضامین دیکھتی ہے۔ ان کای کانٹ چھانٹ کرتی اور پھر اسے اخبار میں دینے کے لئے کہتی ہے۔ اس کے حکومت کے سیاسی آدمیوں سے تعلقات ہیں۔ ان سے وہ اہم راز حاصل کرتی ہے اور ان مضامین کا حصہ بناتی ہے اور (Duroy) کو سیاسی اور اہم شخصیتوں سے متعارف کراتی ہے۔ یہ ساری دعوتیں مادام (Forestier) کے ڈرائنگ روم میں ہوتی ہیں۔ جہاں پیرس کی اہم خواتین بھی آتی ہیں۔ ان میں ایک عورت مادام (MME de Marelle) بھی ہے جو مادام Forestierکی سہیلی ہے۔ ناول کا ہیرو Duroy اس سے عشق شروع کر دیتا ہے .... اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مادام (Forestier) سے بھی جسمانی رسم و راہ بڑھانا چاہتا ہے۔ مادام اس کے اس اظہار عشق کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اور اس سے کہتی ہے کہ ہم اچھے دوست بن کر بہتر وقت گزار سکتے ہیں۔ چند ماہ بعد چارلس (Forestier) کی صحت بگڑ جاتی ہے۔ مادام اسے لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے صحت افزا مقام پر لے جاتی ہے۔ اس کی حالت بگڑتی ہے تو وہ (Duroy) کو بلا لیتی ہے۔ چارلس فوت ہو جاتا ہے۔ Duroy مادام کو شادی کی پیش کش کرتا ہے، چند ہفتے سوچ بچار کے بعد مادام اس شادی کرلیتی ہے۔ اور مادام Duroy بن جاتی ہے۔ .... شادی کے بعد Duroy اسے اپنے ماں باپ کے پاس نارمنڈی لے جاتا ہے۔ جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا ہے، مادام وہاں جا کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوتی۔ اسے وہ جگہ اور Duroy کے ماں باپ پسند نہیں آتے۔ چنانچہ دو تین دن رہ کر واپس پیرس آجاتے ہیں۔ جہاں آکر حالات بدلنے شروع ہو تے ہیں۔ 
اخبار کا سارا عملہ اس راز سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ Duroy کے مضامین اس کی بیوی لکھتی ہے چنانچہ وہ سب اسے باتوں باتوں میں اس کا طعنہ دیتے ہیں۔ اور اسے ”بیوی کا دست نگر“ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ Duroy اس بات سے بہت چڑتا ہے اور وہ اپنی بیوی میڈیلین Madeleine (جو مادام Forestierکا اصلی نام ہے) سے حسد کرنے لگتا ہے اور اسے طعنہ دیتا ہے کہ وہ اس سے بے وفائی کررہی ہے۔ جس کا وہ انکار نہیں کرتی۔ Duroyکا شک امربیل کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔ اسے مزید ستانے کےلئے وہ اخبار کے مالک کی بیوی مادام والٹر سے تعلقات قائم کرلیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد مادام والٹر کے بے وقت اور لا تعداد جسمانی تقاضوں سے وہ اکتا جاتا ہے۔ بیوی سے فاصلہ بڑھتا رہتا ہے اور پھر اچانک اسے اپنی بیوی سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ایک پولیس افسر کو ساتھ لے کر وہ ایک فلیٹ پر جاتا ہے جہاں اس کی بیوی ایک وزیر کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ دونوں پکڑے جاتے ہیں اور دونوں پر بدکاری کا مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔
Duroyاب ایک آخری معرکہ مارتا ہے اور اخبار کے ایڈیٹر کی بیٹی سوسین والٹر (Susanne Walter) سے تعلق قائم کر لیتا ہے مادام والٹر اور والٹر بے بس ہیں کیونکہ سوسین والٹر شادی کرنے پر تلی ہوئی ہے .... ناول کے آخر میں Duroy کی شادی سوسین والٹر سے ہو رہی ہے۔ پیرس کی تمام ساسی اور اہم شخصیات شامل ہیں۔ Duroy اہم ترین آدمی بن چکا ہے۔ لیکن شادی کے وقت بھی وہ اپنی پہلی محبت MME de Marelleکے بارے میں سوچ رہا ہے وہ بھی شادی میں شامل ہے۔ اسے مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے کہ شادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اب بھی تم سے ملنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ میں اب بھی تم سے ملتی رہوں گی۔ بیل ایمی اس ناول کے ہیرو کا نک نیم ہے۔
بل ایمی کو چھپتے ہی بڑی پذیرائی ملی اور چار مہینے میں اس کے 37 اڈیشن چھپ گئے۔ شاید پیرس کے مردوں اور عورتوں کو اس ناول میں اپنے چہرے دکھائی دے رہے تھے۔ 
بل ایمی کا بعض نقادوں نے زولا کے مشہور ناول نانا سے موازنہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ناولوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے۔ بل ایمی کا ہیرو Duroyدیہات سے آتا ہے۔ غریب ہے اور امیر بننے کےلئے پیرس کی سماجی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
نانا (Nana) بھی پیرس کی غریب بستی میں پیدا ہوتی ہے۔ حصول زر کےلئے وہ جدوجہد کرتی اور پیرس کی سوشل زندگی میں مقبولیت حاصل کرتی ہے اور ایک مقام حاصل کرلیتی ہے۔ 
بل ایمی کا ہیرو Duroy عورتوں کےلئے ایک کشش رکھتا ہے۔ عورتیں اس کی طرف کھینچی چلی آتی ہیں۔ نانا بھی مردوں کےلئے جنسی کشش رکھتی ہے اور مردوں کا ایک ہجوم اس کا قرب حاصل کرنے کےلئے بے تاب رہتا ہے۔
Duroy اپنی منزل تک پہنچنے کےلئے عورتوں کو بیساکھی استعمال کرتا ہے اور جبکہ نانا اپنی منزل کےلئے مردوں کی مدد حاصل کرتی ہے۔ موپساں نے چھ ناول ، شاعری کی ایک کتاب ، تین سفر نامے اور تقریبا 275 کہانیاں لکھیں۔ پہلے پہل اسے شاعری کا شوق چرایا کتاب چھپی۔ موپساں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ شاعری اس کے بس کا روگ نہیں اور روسی مصنف گوگول کی طرح شاعری سے توبہ کرلی۔ فلابیئر کا مشورہ بھی تھا کہ ”تم افسانے لکھا کرو“۔
موپساں کا شمار دنیا کے عظیم افسانہ نویسوں میں ہوتا ہے۔ چنیوف بھی اس کی کہانیوں کا معترف ہے۔ موپساں نے معاشرے کے ان مسائل کو موضوعات بنایا جو تلخ حقائق تھے مگر کوئی انہیں لکھنے کی جرا ¿ت نہ کرتا تھا۔ اس کی کہانیوں کے پس منظر فرانس اور پروشیا جنگ کے متاثرین ہیں۔ دوسرا اہم موضوع جنس ہے۔ جس پر موپساں نے کھل کر لکھا اور سچائی بیان کرنے میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اس کے ناول اور کچھ کہانیاں عدالتی نوٹس کی بدولت Ban بھی کر دی گئیں۔
موپساں کی حقیقت پسندی اور نیچرل ازم نے ساری دنیا کے ادیبوں کو متاثر کیا۔ مختصر انداز میں لکھی گئی کہانیاں، جنسی مسائل کے باریک بینی کے بیان نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کی تقلید میں ہر زبان میں افسانے لکھے گئے اور موپساں کے بار بار مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے .... اردو میں منٹو کو اس کا پیرو کار کہا جا سکتا ہے۔ سمرسٹ ماہم اور او۔ ہنری نے بھی اس کی تقلید میں افسانے لکھے۔ اردو میں راجندر سنگھ بیدی نے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسے چنیوف اور منٹو کو اردو زبان کا موپساں نہ کیا جائے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ منٹو موپساں سے حد درجہ متاثر تھا۔ منٹو نے موپساں کی کہانیوں کے تراجم بھی کیے اور اس سے اثر بھی قبول کیا۔ منٹو کی جو کہانی بھی پڑھی جائے اس کے کسی نہ کسی حصے پر موپساں کا رنگ ضرور نظر آتا ہے۔ 
موپساں بہت زور نویس تھا۔ اس نے پیسے کےلئے دھڑا دھڑ افسانے اور ناول لکھے۔ اس کے اس انداز پر تنقید بھی کی گئی مگر کچھ نقادوں نے یہ کہا کہ موپساں کو کم درجے کا مصنف نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ہر افسانہ لکھنے میں تیز رفتاری سے کام لیا۔
موپساں کے ہاں انسانی زندگی کے باطنی نظام کا پورا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ریاکاری سے کام نہیں لیتا جو دیکھتا ہے لکھ دیتا ہے۔ وہ یونانی ڈراما نگار کی طرح سوسائٹی میں نظر آنے والی چیزوں کا مصور تھا، تصویر اچھی بنے یا بری وہ ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں جو سوسائٹی میں دیکھتا ہوں۔ جو مجھے نظر آتا ہے وہی لکھتا ہوں۔
موپساں نے اپنے گروفلابیئر کی ہر بات پر عمل کیا اور فنی طور پر مضبوط بن کر لوگوں کے سامنے آیا .... بس آخری دنوں میں اپنی نجی زندگی میں فلابیئر کی باتوں پر عمل نہیں کیا اور اپنی زندگی برباد کرلی۔ لذت پرستی کے ہاتھوں اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ ابنار مل زندگی گزار دی۔ جنسی زندگی کی بے راہروی کے ہاتھوں اپنا دماغی نظام خراب کر بیٹھا۔ ایسا بیمار ہوا کہ جسم کے سارے بال جھڑ گئے۔ کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش کی ناکام رہا۔ ایک بار اپنا گلا کاٹ لیا۔ یہ جنوری 1892ءکی بات ہے۔ پیرس میں Passy کے مقام پر اسے ہسپتال میں ڈاکٹر Esparit Balanche کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اب اس کا دماغی توازن بالکل بگڑ چکا تھا۔ آخر 6جولائی 1893ءکی صبح کو مختصر کہانی کا پیش رو جدید افسانے کا بانی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
موپساں نے چھ ناول لکھے۔ اس کی بے شمار کہانیوں کی فہرست دینا ممکن نہیں۔ صرف اتنا بتا دینا کافی ہو گا کہ افسانوں کے 16 مجموعے اس کی زندگی ہی میں چھپ چکے تھے۔ اس کی 60سے زیادہ کہانیاں شاہکار تصور کی جاتی ہیں۔ جب میں موپساں کے فن کو دنیا کے بڑے بڑے نقادوں نے سراہا ہے۔ نٹشے (Nietzsche) اپنی سوانح عمری میں کہتا ہے کہ اگر مجھے اس صدی کا کوئی مصنف منتخب کرنے کےلئے کہا جائے تو میں موپساں کا نام لوں گا۔
ٹالسٹائی نے اپنے مضمون میں موپساں کا بھرپور تجزیہ کیا ہے اور اسے بڑا کہانی نویس قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ موپساں نے فرانسیسیوں کے کردار تشکیل دیتے وقت اس مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ ٹالسٹائی اپنے مضمون میں کہتا ہے۔ 
”میں روسی ہوں“ فرانس کے ادیب اپنے ہم وطنوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں، لیکن انہوں نے جس طرح اپنی تحریروں میں فرانسیسیوں کو پیش کیا ہے لگتا ہے وہ سب سست مویشی ہیں۔ جنس زدہ ہیں اور مضحکہ خیز ہیں، حالانکہ انہوں نے آرٹ ، سائنس اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں بڑا نام پیدا کیا ہے ....“
 بہرحال یہ ٹالسٹائی کا اعتراض ہے۔ لیکن موپساں نے اپنی تحریروں میں وہی کچھ پیش کیا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔
روسی ادیب گوگول جب تک پشکن کے زیر سایہ رہا سلیقے کی زندگی بسر کرتا رہا۔ جب پشکن مرگیا تو اس کی زندگی اندھیروں میںبھٹک کے رہ گئی۔ دیوانہ ہوگیا۔ پاگل ہو گیا اور جنونی ہو گیا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ اپنے لکھے کو جلا دیا اور لوگوں نے اسے مردہ سمجھ کر زندہ دفنا دیا۔
موپساں فلابیئر کے زیر اثر رہا تو بڑا مصنف بن گیا، زندگی اپنے انداز میں گزاری تو بکھر کر رہا گیا۔ دماغی توازن کھو بیٹھا۔ اپنے ہاتھ سے اپنا گلا کاٹ لیا اور ہسپتال میں درد ناک موت سے دوچار رہو گیا۔ 

Helter Arbenz (Novel Urdu)


ہیر لڈرابنز (مقبول ترین ناول نگار)
سید افضال حیدر نقوی
اس پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فحش نگار ہے اور اسے جنسیات کا پرچار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔ ناقدین اس کے ناول پڑھ کر ناک بھوں چڑھاتے تھے مگر عام لوگوں ک دلوں میں اس کی قدر و منزلت تھی۔ اس کے سبب اس کے ناول 75کروڑ کی تعداد میں 40 ممالک میں فروخت ہوئے اور دنیا کی 36زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔ فکشن کی تاریخ میں مقبولیت کے لحاظ سے اس کا نمبر چوتھا ہے۔ وہ جیاتو شہزادوں کی طرح اور مرا تو اس کے جنازے میں شریک ہونے والا کوئی نہیں تھا اور اس پر دس لاکھ ڈالر قرض تھے۔
یہ ہیرلڈرابنز تھا جس نے ایک عالم کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اس کے نئے ناول کے بارے میں لوگ بک اسٹالوں پر جا کر استفسار کرتے تھے۔ ہر نئے ناول نگار کی طرح اس کے پہلے ناول ”نیورلوائے اسٹرینجر“ پر تنقید نگاروں نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اسے فحش نگار کا خطاب دیا۔ تاہم اسے پبلک نے خراج تحسین پیش کیا۔ ناول میں اس نے آزاد خیال پیش کی تھی۔ لیکن بعض ریاستوں میں اسے پسند نہیں کیا گیا جب اس کا ناول ”کارپٹ بیگرز“ شائع ہوا تو دھوم مچ گئی اور وہ ایک دم سے لکھ پتی بن گیا۔ اس لیے کہ وہ ناول بین الاقوامی طور پر بیسٹ سیلرز تھا۔ اس نے ایک جزیرہ خرید لیا اور اس کے دوسرے سرے پر ایک محل نما مکان بنوایا۔ ایک ہیلی کاپٹر اسے روزانہ جزیرے پر پہنچا دیتا تھا۔ وہ ابتدائی حصے میں اتر کر باقی سفر ٹرین سے کیا کرتا تھا۔ وہ اس ٹرین کا واحد مسافر ہوا کرتا تھا جب ٹرین اسے محل نمامکان کے سامنے جا کر اتارتی تو وہ اندر جا کر اپنی مطالعہ گاہ میں بیٹھ جاتا اور اپنی سیکرٹری کو اپنا ناول لکھواتا۔ یہ اس کا معمول تھا۔
وہ21مئی 1916میں فرینک کین نیویارک میں پیدا ہوا۔ جب اس کی عمر پانچ برس ہوئی تو اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک نیک دل خاتون تھی اور رابنز کا بہت خیال کرتی تھی۔ رابنز جب بھی اسے یاد کرتا تو آبدیدہ ہوجایاکرتاتھا، اس کی ماں کا تعلق پولینڈ اور باپ کا روس سے تھا۔ باپ ایک تعلیم یافتہ شخص تھا اور رابنز اس کا احترام سے لیا کرتا تھا۔
اس کی ابتدائی زندگی بہت عسرت میں گزری۔ وہ مفوک الحال تھا۔ بعض اوقات اس کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس کی پرورش ایک کیتھولک بوائز ہوم میں ہوئی۔ اس کے بعد اسے جارج واشنگٹن سکول میں داخل کرایا گیا۔ نصابی تعلیم میں اس کا دل نہیں لگا اور اس نے پندرہ برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا۔ بیس برس کی عمر تک اس نے سیکڑوں الٹے سیدھے کام کیے، جن میں تابوتوں پر رنگ کرنا، اخبار فروخت کرنا، پیکنگ کرنا اور ہوٹلوں کے فرش صاف کرنا شامل تھے۔ بالآخر وہ ایک پرچون کی دکان پر سیلز بوائے کی حیثیت سے ملازم ہو گیا۔ جب وہ اس کام میں طاق ہو گیا تو اسے خیال آیا کہ کیوں نہ غلے کی خرید فروخت شروع کر دئیے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
اس نے اپنے ایک واقف کار سے آٹھ سو ڈالر لیے اور کاروبار شروع کر دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کاروبار سے لکھ پتی بن جائے گا۔ غلہ فروخت کرتے کرتے ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ شکر بیچنا شروع کر دے۔ اس سے آمدنی میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس خیال کے تحت اس نے بہت سی چینی خرید کر سٹور کرلی۔ چند ماہ بعد اچانک دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ چیزیں مہنگی ہونا شروع ہو گئیں اور لوگوں میں ہراس پھیل گیا۔ ایسے میں چینی کو کون پوچھتا؟ لہٰذا اسے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ لکھ پتی بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن جب اس نے چینی کی ہول سیل سے توبہ کی تو وہ دیوالیہ ہو چکا تھا اور اس پر بینکوں کا قرض چڑھ چکا تھا۔ یہ کاروبار صرف تین برس چلا تھا اور اس کے بعد اس کے شب و روز پھر تاریک ہو گئے۔ 
اس کا ابتدائی نام فرانس کین تھا۔ چونکہ وہ دنیا میں تنہا تھا چنانچہ مختلف خاندانوں میں رہ کر زندگی بسر کرتا رہا۔ جو کچھ روکھا سوکھا اسے مل جاتا تھا کھا لیتا تھا۔ ایک خاندان کے لوگوں سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنا نام رابنز رکھ لیا۔ اس کے بعد اپنے نام کا پہلا حصہ اس نے اس وقت تبدیل کیا جب اس نے ناول نگاری شروع کی۔
اس نے اپنے سکول کی کلاس فیلولیلن سے کم عمری میں شادی کرلی اور ہالی وڈ چلا گیا۔ جہاں اس کے سسر نے اپنے یونیورسل پکچرز میں شپنگ کلرک کی حیثیت سے ملازمت دلا دی۔ اس کے بعد وہ اپنی محنت سے سٹوڈیو ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچ گیا۔ اس زمانے میں وہ فلموں کی شوٹنگ دیکھا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہالی وڈ کی فلموں کی کہانیاں بودی اور کمزور ہوتی ہیں۔ وہ محض فلمیں ہوتی ہیں، ان میں برائے نام کہانی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ان میں کہانی ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ایک دوست نے کہا اگر ایسی بات ہے تو وہ کہانی لکھ کر دکھائے۔ اس پر اس نے ایک سو ڈالر کی شرط لگائی کہ وہ ناول نویس کی حیثیت سے مشہور ہوگا اور لکھ پتی بن جائے گا۔ دوست کا خیال تھا کہ وہ ایک فضول سی بات کہہ رہا ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ اس نے کبھی کوئی کہانی نہیں لکھی تو وہ ناول کیا لکھے گا؟ اس نے ناول لکھنا شروع کر دیا 1948ءمیں اس کا ناول ”نیورلوائے اسٹرینجر“ مارکیٹ میں آیا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے پسند اور ناپسند کیا۔ یہ ملا جلا رد عمل تھا۔ ناول کی کہانی اس کی آپ بیتی تھی۔ یہ ایک یتیم بچے کی کہانی تھی جو نیویارک کی سڑکوں پر آوارہ گھومتا پھڑتا ہے، لیکن اپنی جدوجہد سے نام پیدا کرتا ہے اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرلیتا ہے۔ ناول پچاس فیصد جنس پر مبنی تھا۔ اس لئے امریکا کی بہت سی ریاستوں میں اس کے خلاف شور مچ گیا۔ یہاں تک کہ بعض ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اپنے پہلے ناول کے بارے میں اس نے بتایا کہ جب اس نے پبلشر پیٹ کینوف کو اس کا مسودہ دیا تو اس نے ایک ہفتے بعد اسے طلب کیا اور اس سے معاہدہ کرلیا۔ ہیرالڈ نے اس سے پوچھا کہ اس ناول میں کیا خاص بات نظر آئی جو وہ اسے شائع کرنے پر آمادہ ہوا تو اس نے کہا کہ کیوں کہ اگلے ہی باب میں ایسی مزاحیہ سچویشن آئی کہ وہ ہنسنے لگا۔ اس کی ساری کلفت دور ہو گئی ۔ رنج و الم اور سرشاری کا ایسا امتزاج اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے وہ اس ناول کو شائع کرنا چاہتا ہے۔
ناول شائع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں فروخت ہوا اور اس کے کئی ایڈیشن شائع کرنا پڑے۔ پبلشر کی نظر میں اس کی قدروقیمت بڑھ گئی۔ اس نے حوصلہ دیا کہ وہ مزید ناول لکھے۔ اگر اس کا یہی انداز رہا تو وہا یک اچھا ناول نویس بن سکتا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کے پیش نظر رابنز نے ایک برس بعد دوسرا ناول ”ڈریم مرچنٹ“ کا مسودہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ اس کے بعد ”اے اسٹون فارڈینی فشر“ مارکیٹ میں لے آیا تو لوگوں نے اسے سراہا اور اسے ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔ جب اس ناول پر فلم بنی تو اس میں راک اینڈ رول کے سب سے بڑے گلوکار ایلوس پریسلے کو کاسٹ کیا گیا۔ اس فلم نے ریلیز ہونے کے بعد دھوم مچا دی اور باکس آفس پر بھاری بزنس کیا۔
ناول ”کارپٹ بیگرز“ نے دھوم مچا دی اور وہ بین الاقوامی طور پر بیسٹ سیلرز میں شامل ہو گیا۔ یہ ناول تسلسل کے اعتبار سے پانچواں تھا جو 19761 ءمیں منظر عام پر آیا۔
اس کے ناول جنگ عظیم کے بعد شائع ہوئے جب ہر کس ناکس کے ذہن پر مایوسی کا غلبہ تھا۔ ایسے میں رابنز کے ناولوں نے انہیں یہ راہ سجھائی کہ اگر انسان جدوجہد کرے تو وہ ایک روز بڑا آدمی بن سکتا ہے اور دولت ، عزت اور شہرت حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کی ساری لذتیں اس کی غلام ہو ںگی۔ 
اس کے ناولوں میں بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ وہ جنس زدہ ماحول تیار کرکے اس میں دولت، طاقت اور ایکشن کے لوازمات بھر دیتا تھا۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ نبض شناس تھا اور بخوبی جانتا تھا کہ قارئین کیاچاہتے ہیں وہ ان کی ناک پکڑ کر انہیں نہایت آسانی سے اپنے بنائے ہوئے ماحول میں کھینچ لیا کرتا تھا اور ان سے دادو تحسین وصول کرلیا کرتا تھا۔
وہ بلاشبہ ایک اچھا ناول نگار تھا اور اپنے ناولوں کے پلاٹ مہارت اور چابک دوستی سے بناتا تھا۔ اسے کردار سازی آتی تھی۔ وہ نیویارک اور شکاگو کی تاریک گلیوں میں کوڑے دان میں سونے والوں کو اپنے کردار بنا کر پیش کرتا تھا۔ مجبور ولاچار کردار، زمانے کے ستائے ہوئے کردار۔ وہ ایسے کردار تخلیق کرتا تھا جو ہمارے سامنے چلتے پھرتے اور ہماری نگاہوں کے پیش نظر رہتے تھے۔ انہیں زندگی میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوتا تھا اور وہ حصول زندگی کےلئے کوشاں رہتے تھے۔
وہ فرضی اور خیالی کرداروں سے اجتناب کرتا تھا۔ وہ رواں زندگی سے کردار ماخوذ کرنے کا عادی تھا۔ جیتے جاگتے توانائی اور حرارت سے بھرپور۔ مثال کے طور پر اس نے ”کارپٹ بیگرز“ کا مرکزی کردار ہاورڈ ہیوز کو دیکھ کر پینٹ کیا تھا۔ جو کہ نیویارک کیلی فورنیا چلاجاتا ہے۔ اس کے بعد سخت جدوجہد کرنے کے بعد وہ متمول اور بلند مرتبہ ہوجاتا ہے اسے طیاروں سے دلچسپی ہوتی ہے لہٰذا وہ ایک طیارہ ساز کمپنی کا مالک بن جاتا ہے اور اس سلسلے میں نت نئے تجربات کرتاہے۔
ناول کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایک ناول ”دی ریڈرز“ لکھا جو 1955 ءمیں شائع ہوا۔ اس کی کہانی تسلسل کے اعتبار سے ”کارپٹ بیگرز“ کا دوسرا حصہ کی کہی جا سکتی ہے۔
جب اس سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں پوچھا گیاکہ وہ ناول کیوںلکھتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس کے پیش نظر اپنی جیب ہوتی ہے۔ وہ ناول لکھتے وقت اس کے معیار اور لوگوں کے مزاج کو یقینا خیال رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ اس کی جیب میں کتنی رقم گرے گی اسے ناقدین کی پروا نہیں ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں وہ تو اپنے قارئین کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھتا ہے۔
اس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا فکشن اٹیڈ ہے۔ اس نے ایک اخباری نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ”جب میں مرجاﺅں گا تو سارا کھیل ختم ہو جائےگا۔ پھر مجھے کوئی یاد نہیں رکھے گا“ اس کا یہ قیاس بڑی حد تک درست ثابت ہوا۔ اپنے کرداروں میں حقیقت پسندی کا رنگ بھرنے کےلئے وہ السٹیئر میکلین کی طرح ان جگہوں پر جاتا تھا جہاں کے بارے میں وہ لکھ رہا ہوتا تھا۔ چنانچہ جب اس نے اپنے ناول ”دی ایڈونچررز“ کا خاکہ مرتب کیا تو خود امریکا کی ایک جنوبی ریاست میں جا کر مقیم ہو گیا۔ وہ تین برس تک وہاں کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس کے بعد امریکا لوٹا اور اس نے اپنا ناول لکھا۔ یہ ناول گزشتہ ناولوں سے زیادہ فروخت ہوا۔ چھوٹی ریاستوں میں انداز حکمرانی کیا ہوتا ہے اور وہاں انقلاب کیسے رونما ہوتا ہے، یہ اس ناول کا موضوع تھا۔ بلاشبہ انگریزی فکشن میں انقلاب پر اس سے بہتر ناول نہیں لکھا گیا۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے مشہور و مقبول ناول نگار ابن صفی اس کے ناول بھی پڑھا کرتے تھے کیونکہ انہیں اس کے کردار بہت پسند تھے۔ 
وہ چونکہ ناول نویس تھا چنانچہ ہر ایک کو کوئی قصہ سنا دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک چینی رقاصہ سے شادی کی تھی اور جب اسے ایک طوطے نے کاٹ لیا تھا تو اس کے جسم میں زہر پھیل گیا تھا۔ وہ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئی لیکن اس کے بارے میں تحقیق کرنے پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اس نے ایک عورت لیلن سے شادی کرنے کے بعد سعادت مند اور گھریلو شوہروں کی طرح اپنی زندگی کے 28برس اس کے ساتھ گزار دئیے۔ اس دوران اس کا کوئی سیکنڈل نہیں بنا۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن اس سے لیلن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ البتہ وہ اپنے ساتھ دو بیٹیاں لائی تھی۔ جن کی محبت کے سہارے رابنز نے زندگی گزار دی۔ اسے اپنی بیٹیوں سے بہت محبت تھی اور وہ انہیں اپنا بیٹا خیال کرتا تھا۔ ان کے نام کیریان اور اینڈرینا ہیں۔
اس کے بعد اس نے گریس سے شادی کی جو تعلیم یافتہ تھی اور ایک اخبار میں کالم نویس تھی۔ شادی کے بعد اس نے رابنز کا ہاتھ بٹایا اور اس کی موت کے بعد اس کی سوانح حیات بھی لکھی ، جو بہت مشہور ہوئی گریس کے ساتھ بھی اس نے 27برس گزارے۔ پھر جب گریس نے اس علیحدگی اختیار کرلی تو اس نے پے درپے دو شادیاں کیں اور دونوں سے مطمئن نہیں ہوا تو انہیں طلاق دے دی۔ 
اس کی پانچویں اور آخری شادی جین سے ہوئی جو مرتے دم تک اس کے ساتھ رہی اور جب وہ بستر مرگ پر اذیت سے دو چار تھا تو وہی اس کے سرہانے موجود تھی۔
ہیرلڈرابنز کی بیویوں سے جب اس کے ماضی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے عجیب و غریب واقعات سنائے۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ وہ نیوی میں ملازم رہ چکا ہے اور ایک بار اس کی آبدوز کو دشمن نے اپنا نشانہ بنایا تو کئی میل تیرتا ہوا ساحل تک پہنچا تھا۔ جب کہ اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کبھی بحری فوج میں ملازم تھا۔ یہ اس کے ذہن کی اختراع تھی اس نے تین محل نما مکانات بنائے۔ ایک فرنچ ریویرا، دوسرا ہالی ووڈ ور تیسرا پام بیچ میں۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مونٹی کارلو میں جوا کھیلتے ہوئے بھی گزارا ہے۔ اسے دیت نام کی جنگ، چاند کی تسخیر اور کمیونزم کے خطے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی دنیا میں مست رہنے والا شخص تھا۔
اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے اسٹول اور ناسس اور ہاورڈ بیوز کے ساتھ مونٹی کارلو مین جوا کھیلا ہے۔ اوناسس بھی اس کا مداح تھا اور اس کے ساتھ کشتی رانی کرتا تھا۔ اس نے اپنے بحری جہازوں پر اس کی کئی بار دعوت کی تھی۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے یا یہ واقعات محض اس کے افسانوی ذہن کی پیداوار ہیں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔
اپنی شاہانہ زندگی کے دوران اسے منشیات کی لت بھی لگ گئی ایک بار جب وہ کوکین کا نشہ کرنے کے بعد اپنے لان کی طرف جا رہا تھا تو اس کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ ایک کیاری میں گر پڑا جس سے اس کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یہ ہڈی ٹھیک طرح سے نہ جڑی اور وہ پہیوں والی کرسی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگیا۔ اس دوران اس نے ناول نویسی ترک نہیں کی اور اپنی تخلیقات سے پڑھنے والوں کو نوازتا رہا۔ اس کے تقریباً سارے ناولوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔ انہیں ٹیلی ویژن کی منی سیریل میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ مجموعی طور پر ساری دنیا میں اس کے تیس ناول 75کروڑ کی تعداد میں فروخت ہوئے اس لئے اس فکشن ناولوں میں پانچویں بڑے بیسٹ سیلر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
جب وہ 81برس کی عمر میں 14اکتوبر 1997 ءکو اس دنیا سے رخصت ہونے لگا تو اس کا کوئی دوست اس کے سرہانے نہیں تھا حالانکہ دوستوں کے ساتھ وہ خلوص برتتا تھا۔ وہ مجموعی طور پر ایک اچھا آدمی تھا۔ اسے دل کا دورہ پڑا تھا جس کی بنا پر اسے پام بیچ کے ڈزرٹ ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکا۔
اس نے بیوی گریس سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ جب وہ مر جائے تو اسے جلا کر اس کی راکھ ایک لاکٹ میںبندکی جائے اور وہ اس لاکٹ کو ساری زندگی پہنے رہے۔ تاکہ وہ اس کے سینے سے لگا رہے۔ بد قسمتی سے گریس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے مرنے کے بعد اسے جلایا تو گیا لیکن اس کی راکھ ایک کتاب نما پیکنگ میںبند کرنے کے بعد پام بیچ کے مکان میں رکھوا دی گئی، جہاں اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا تھا۔ کتاب کی جلد پر اس کا نام کندہ ہے۔
وہ محنتی ، سخی اور پُر جوش شخص تھا۔ توانائی اور زندگی کی حرارت سے بھرپور۔ جب بھی فکشن ادب کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس کا نام ضرور لیا جائے گا۔
ہالی ووڈ بولیو ارڈ کے واک آف فیم میں اس کا ستارہ بھی لگا ہوا ہے اور اس کا نمبر 6743 ہے۔
اس کی موت کے بعد چار ناول منظر عام پر آئے جنہیں اس کے مصنف دوست جو نیئس بوڈرگ نے لکھا تھا جب کہ بنیادی خیال ہیرلڈرابنز کا تھا۔ ان میں اسے صرف ایک ناول پسند کیا گیا مگر باقی ناولوں کو قبولیت عام حاصل نہ ہو سکی۔ دراصل بوڈرگ کو ادراک نہیں تھا کہ رابنز کی تحریر کی خصوصیات کیا ہیں اور اس کے کردار کس ماحول میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ رمز صرف رابنز کو معلوم تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ ہی دنیا سے لے گیا۔

Mekhsm Gorki (Mazmoon)


میکسم گورکی
سید نوید عباس
ہر زبان میں چند ایسے ادیب اور شاعر ضرور پیدا ہوئے جن کی عظمت کو صدیوں یاد رکھا گیا۔ بے شک ان بڑے ادیبوں کے درمیان معاصرانہ چشمک جاری رہی، وہ ایک دوسرے میں خامیاں ڈھونڈتے رہے، ایک دوسرے پر اپنی قادر الکلامی کی دھونس جماتے رہے لیکن آنے والی نسلوں کے ان کی عظمت کو تسلیم کیا اور وقت کی دھول ان کے خدوخال نہ دھندلا سکی۔ اردو ادب پر نظر ڈالئے۔ میر، درد اور سودا تینوں اساتذہ ایک ہی عہد میں جئے اور اب تک زندہ ہیں۔ میرا انیس اور دبیر دونوں اساتذہ شعرا کی عظمت مسلم ہے۔ غالب ، مومن اور ذوق ایک ہی زمانے کے مستند شعرا ہیں۔ انگریزی شاعری میں بائرن ، ورڈزورتھ ، کولرج ، شیلے اور کیٹس نے ایک ہی عہد میں آنکھ کھولی اور شاعرانہ عظمت کی بلندیوں کو چھوا۔ فرانس کے لوگوں نے وکٹرہیوگو، فلابیئر، موپساں اور بالزاک کو ایک زمانے میں سانس لیتے دیکھا۔ چاروں اپنے اپنے فن میں بے مثال تھے۔ ایسا ہی عہد روس میں بھی آیا جب پانچ بڑے نثر نگار، ڈراما نویس، ناول نگار ، بیک وقت گھومتے پھرتے نظر آئے۔ چھوٹی موٹی معاصرانہ چشمک جاری رہے مگر پانچوں کے پانچوں عالمی ادب میںنامور کہلائے اور دنیا نے ان کے فن کی عظمت کو تسلیم کیا۔ یہ ٹالسٹائی ، دوستو، یفسکی ، چیخوف، میکسم گورکی، اور ترگنیف تھے۔ سینئر ناول نگار ٹالسٹائی ، دوستویفسکی اور میکسم گورکی کے بارے میں کبھی کبھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا لیکن گورکی اور دوستویفسکی نے کبھی کھل کے ٹالسٹائی کے بارے میں رائے کا اظہار نہیں کیا۔ دوستویفسکی ہمیشہ مقروض رہا، وہ اکثر ترگنیف سے پیسے ادھار لیا کرتا تھا۔ جب کبھی وہ پیسے دینے سے انکار کردیتا تو دوستویفسکی اس سے ناراض ہو جاتا اور اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتا۔ ایک بار تو اس کو اتنا غصہ آیا کہ ترگنیف کا کرادار اپنے ناول میں لکھ ڈالا اور اپنا سارا غصہ اس کردار کی تشکیل میں اتار دیا اور اس کردار کو جی پھر کر بُرا بنایا۔ جہاں تک میکسم گورکی کا تعلق ہے تو ٹالسٹائی شاید اس سے حسد کرتا تھا اور اسے پسند نہیں کرتاتھا۔ اس بات کا گواہ چیخوف ہے۔ ایک بار ٹالسٹائی نے باتوں باتوں میں کہا: ”پتا نہیں کیوں مجھے میکسم گورکی اچھا نہیں لگتا۔ وہ ہر وقت ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے جیسے اس نے جا کر اپنے خداکو ساری تفصیل بتلانی ہے۔“ چیخوف نے کہا: ”نہیں ایسی بات نہیں۔ میکسم گورکی کی بہت اچھاآدمی ہے“ ٹالسٹائی نے کہا: ”بالکل نہیں۔ اس کی ناک بالکل بطخ جیسی ہے صرف بدمزاج لوگوں کی ناک ایسی ہوتی ہے۔ عورتیں اسے پسند نہیں کرتیں۔ عورتیں تو کتوں کی طرح اچھے آدمی کو پہچان لیتی ہیں“ ٹالسٹائی کی ناپسندیدگی اپنی جگہ۔ میکسم گورکی اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ اکثر چیخوف کے ساتھ ٹالسٹائی کو ملنے ٹالسٹائی کی جاگیر Yasnaya Polyana جاتا تھا۔ اس نے کئی مضامین میں ٹالسٹائی کی تعریف کی ہے اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ انقلاب روس کےلئے راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار نبھایا، زندگی کے قیمتی سال جیل اور جلاوطنی کی نذر کئے، مثالی ڈرامے ، سیاسی تجزیے اور مضامین لکھے۔
Aleksey Makismovich Peshkov نامی شخص کو ساری دنیا میکسم گورکی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ روس کا نامور ادیب، ناول نگار، ڈراما نویس، سیاسی تجزیہ نگار اور عملی سیاست کا سرگرم رکن تھا۔ میکسم گورکی کی 16مارچ 1868 ءکو روس کے شہر Nizhny Novgorod میں پیدا ہوا۔ بچپن میں باپ فوت ہو گیا۔ اس کا بچپن بہت مفلسی اور بھاگ دوڑ میں گزرا۔ 12سال کی عمر میں وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس فرار کی وجہ اپنی دادی کی تلاش تھی۔ دادی اچھی داستان گو تھی بس اس کے ساتھ اس نے اپنا بچپن گزارا۔ گورکی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ دادی کی موت نے اسے ذہنی طور پر پریشان کر دیا۔ اس نے خود کشی کی کوشش کی مگر بچالیا گیا۔ دادی کی موت کے بعد اس کی دربدری کا زمانہ شروع ہوا اور وہ پانچ چھ سال سارے روس میں خشک پتوں کی طرح اڑتا پھرتا رہا اورمختلف کام اور مزدوریاں کرتا رہا۔
اس کی سوانح عمری ”بچپن“ میں اس دربدری کی تفصیل موجود ہے۔ جب اس نے لینن کو اپنے بچپن کی یہ روداد سنائی۔ یہ 1908 ءکی بات ہے جب وہ اٹلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ لینن نے یہ تفصیل سن کر کہا: ”تمہاری داستان بہت دلچسپ ہے اس کو ضرور قلم بند کرو“۔ گورکی نے لینن کی بات کو عملی جامہ دپہنایا اور 1915ءمیں اس کے بچپن کی یہ داستان پچپن کے نام روس میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے چھپنے کے بعد آرمینیا کے ایک مصنف نے گورکی کو لکھا تھا: ”میرے خیال میں یہ کتاب روسیوں کی زندگی کی حقیقی کہانی ہے لیکن اسے پڑھ کر فرانس کے لوگ بھی اسے اپنی کہانی سمجھیں گے۔ میں روسی نہیں ہوں لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آرمینیا کے لوگوں کی کہانی ہے۔ تمہاری اس کتاب کا یہ وصف ہے کہ یہ بنی نوع انسان کی کہانی بن گئی ہے۔
ایک روسی نقاد نے اس کتاب کو پڑھ کر کہا: ”اس کی صرف یہی اہمیت نہیں کہ یہ آرٹ کا شاندار نمونہ ہے بلکہ یہ ایک مصنف کی سوانح عمری ہے جسے پڑھ کر ہم اس کی تحریروں کی اہمیت سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اس میںبہت آنسو ہیں، بہت زخم ہیں، بہت اداسی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک مسرت سے لبریز گیت ہے۔“ میکسم گورکی نے روسی ادب میں سوشلسٹوں کی روایتی حقیقت نگاری کی بنیاد رکھی۔ ایک عرصے تک گورکی اخباروں میں نام بدل کر لکھتا رہا۔ نام بدلنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وہ تحریریں اور مضامین روسی حکومت کےخلاف تھیں۔ گورکی کا بحیثیت مصنف تعارف اس کی پہلی کتاب ”مضامین اور کہانیاں“ سے ہوا۔ اس کتاب میں اس نے سماج میں جبر کے زیر اثر زندگی گزارنے والے لوگوں کے بارے میں لکھا۔ ان سختیوں اور زیادتیوں کا ذکر کیا جو وہ زندگی میں برداشت کررہے تھے۔ ان ذلتوں اور مظالم کا ذکر کیا جو ان کا مقدر بن چکی تھیں اور ان کے اندر چھپی اچھائیوں اور خوبیوں کو بے نقاب کیا۔ ایسا کرتے ہوئے دراصل وہ روسی سوشل زندگی کے خلاف ایک آواز بن چکا تھا۔ 1899ءمیں وہ مارکسسٹ سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ لوگوں کو ارد گرد کی سماجی برائیوں کے بارے میں باخبر کرنے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انقلابی ذہین کی تیاری میں تحریک کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ وہ زار حکومت کے خلاف لکھنے لگا اور کئی بار اسے جیل جانا پڑا۔ 1902ءمیں اس کی لینن سے دوستی ہو گئی۔ اس نے پریس کی آزادی کےلئے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1902ءہی میں اسے ادبی اکیڈمی کا ممبر بنا دیا گیا۔ چیخوف بھی اس اکیڈمی کا ممبر تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد گورکی کو بادشاہ کے حکم سے نکال دیا گیا۔ احتجاجی طور پر چیخوف نے بھی ممبر شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ روسی انقلاب کے دوران میکسم گورکی کی فعال حیثیت سے سرگرم رہا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی بالشویک شاخ سے منسلک رہا۔ اس زمانے میں گورکی کے سیاسی ڈراموں نے بہت دھوم مچائی۔ اس کا ڈراما The Lower Depths بڑا مقبول رہا۔ 1906 ءبالشویک پارٹی نے اسے فنڈ اکٹھا کرنے کےلئے امریکہ کا دورہ کرنے کےلئے بھیجا۔ اس دورے کے دوران اس نے Adirondack کے مقام پر اپنا مشہور زمانہ نال ”ماں“ لکھا۔ انقلاب روس کے دوران اس نے پال اور پیٹرنامی قلعوں میں جیل بھی کاٹی۔ اس دوران اس نے ایک ڈراما (Children of the Sun) بھی مکمل کیا۔ یہ ڈراما 1962ءمیں پھیلنے والی ملیریا کی بیماری کے پس منظر میں لکھا گیا تھا جس میں شامل واقعات میں آفاقی سچائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ میکسم گورکی روسی انقلاب سے پہلے بھی وقفے وقفے سے جلاوطنی کی سزا کاٹتا رہا۔ انقلاب کے بعد بھی صحت کی خرابی کی وجہ سے ملک سے باہر جاتا رہا۔ 1906 ء، 1913 ءتک کا اٹلی میں قیام خرابی صحت کی وجہ سے ہی تھا۔ اس قیام میں خرابی صحت کے ساتھ ساتھ پارٹی سے سیاسی اختلافات بھی تھے۔ گورکی روس کا سوشل جمہوریت کے گن گاتا رہا اور اس نظریے کا قائل رہا کہ روس کے انقلاب میں معاشی اور سیاسی حالات سے زیادہ کلچر کا ہاتھ ہے۔ اس نے اپنی اس فلاسفی کو God Building کا نام دیا۔ لینن اس سے اختلاف رکھتا تھا لیکن گورکی انسان کی اخلاقی روحانی آگاہی پر زور دیتار ہا۔ 1913ءمیں وہ واپس روس آیا۔ تنقیدی مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔ اپنی سوانح عمری کا پہلا حصہ لکھتا رہا۔ اپنا اخبار نئی زندگی (New Life) نکالتا رہا۔ بالشویک پارٹی نے اس کے مضامین پر سنسر شپ لگا دی۔ ان مضامین میں میکسم گورکی نے لینن کا زارِ روس سے موازانہ کیاتھا۔ اور سخت تنقید کی تھی۔
”ماں“ ایسا شاہکار ناول لکھا جس کے تراجم دنیا کی تقریباً ہر زبان میں کئے جا چکے ہیں، یہ اشتراکی حقیقت نگاری کی مکمل دستاویز بھی ہے۔ 1921ءمیں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اس کی ایک ساتھی مصنفہ (ANNA) کے خاوند Nikolai Gumilyov کو نظریاتی اختلاف کی بنا پر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ گورکی ماسکو گیا لینن سے ملاقات کی اور اس کی رہائی کے احکامات حاصل کئے۔ لیکن جب گورکی Petrograd پہنچا تو (Gumilyov) کو گولی مار دی گئی تھی۔ گورکی اسی سال اکتوبر میں اٹلی چلا گیا۔ اس کی بیماری حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ وہ مالی حالات کے ہاتھوں بہت پریشان رہا۔ کئی بار روس آیا اور پھر اٹلی چلا گیا۔ 1932ءمیں جوزف سٹالن نے اس سے درخواست کی کہ وہ اب روس واپس آجائے۔ اسے سٹالن نے لینن انعام دیا۔ رہنے کے لئے عالی شان گھر دیا(جواب گورکی میوزیم ہے) سٹالن اس کے گھر آیا۔ گورکی نے اس کے سامنے اپنی ایک کہانی پڑھی جس کا نام ”ایک لڑکی اور موت“ (A Girl and Death) سٹالن کو یہ کہانی اتنی اچھی لگی کہ اس پر خوش ہو کر ایک جملہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ جملہ یہ تھا: ”یہ کہانی گوئٹے کے ”فاﺅسٹ“ سے کہیں زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں موت محبت کے ہاتھوں شکست کھا جاتی ہے۔ یہ تعریف اپنی جگہ مگر سٹالن اور گورکی کے درمیان اب اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات سرد جنگ کی صورت اختیار کر گئے۔ اندر ہی اندر گورکی کو سٹالن سے خطرہ محسوس ہونے لگا اور گورکی کو غیر علانیہ طور پر ماسکو میں اس گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ 1934ءکو میکسم گورکی کا بیٹا فوت ہوا۔ جون 1936 ءکو میکسم گورکی فوت ہو گیا۔ سٹالن اور مالوخوف نے اس کے جنازے کو کاندھا دیا اور اس کے تابوت کو قبر میں اتارا۔ ایک عرصہ اس کی موت ایک معما بنی رہی۔ مشہور یہ ہے کہ اس کی موت ایک سرکاری آدمی کے ہاتھوں ہوئی جس کا تعلق ایک خفیہ سرکاری ایجنسی سے تھا۔ سٹالن حکومت کے پولیس چیف (Genrilkh Yagoda) کو گورکی کی موت کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا جس کی شہادت 1938ءکے ایک مقدمے کی انکوائری سے ملتی ہے۔ میکسم گورکی کو انقلاب روس کا ایک زبردست کا رکن ، سپاہی قرار دیا جاتا ہے۔ جس نے اپنی تحریروں سے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ ناول لکھے، شاعری کی ، ڈرامے لکھے، سیاسی مضامین لکھے، انقلاب کی حمایت میں تقریریں کیں۔ پھر اپنے دوستوں سے اختلاف کیا۔ انقلاب کے بعد حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے انجام کو پہنچا۔ گورکی نے بہت کچھ لکھا۔ ناول ، ڈرامے لکھے ، شاعری کی ، اشتراکی نظریات کے فروغ کے لئے مضامین لکھے ، کہانیاں لکھیں اور ان کہانیوں میں روسی عوام کی زندگی کے دکھ بھرے مناظر کھینچے اور نظام کی تبدیلی کے لئے ذہنوں کی تیار کی۔ گورکی مقصدیت پسند تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں اشتراکی نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس نے اپنی ہر تحریر میں ان نظریات کو ادبی رنگ دے کر پیش کیا۔ ماسکو تھیٹر میں ڈرامے کئے اور پھر اس کا جال پورے روس میں پھیلا دیا اور تھیٹر آرٹ سکول قائم کئے جب ڈراموں پر سنسر شپ لگا دی گئی تو اس نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ اس نے قریباً بارہ ڈرامے لکھے جن میں سے: 
(1) The Lover Depths
(2) Summer Folks
(3) Barbarians
(4) Enemies
(5) Queer People
(6) The Chilren of Sun
بہت مشہور ہیں۔
گورکی بہت اچھا شاعر تھا اس کی شاعری کا ایک مجموعہ بھی ہے جس کا نام The Songs of Stormy Petrel ہے۔ میکسم گورکی کا سب سے مشہور ناول ماں ہے۔ میکسم گورکی کا یہ ناول عالمی شہرت رکھتا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ناول نگاری کی سوسالہ تاریخ میں اس ناول کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ ناول ”ماں“ انقلاب روس سے پہلے کے حالات ، جدوجہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو Focus کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دو چار تھا عوام کی زندگی جن دشواریوں سے دو چار تھی، زار حکومت میں اندھے قانون اور سوشل نا انصافیوں نے عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا تھا اور پھر وہ سب انقلاب اور تبدیلی لانے کےلئے کیسے کمر بستہ ہوئے۔ یہ سب واقعات اس ناول کے پلاٹ میں شامل ہیں۔ ناول ”ماں“ روسی ادب میں ایک تبدیلی کا باعث بنا۔ انقلاب روس کو سمجھنے کےلئے اس ناول کی اہمیت اور پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا: ”یہ ناول بہت اچھا اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مزدور اور محنت کش جو بغیر سوچے سمجھے انقلاب لانے والے قافلے میں شامل ہوئے۔
یہ ناول پڑھ کر انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔“ ناول ”ماں“ کا مرکزی کردار کے ہیرو پافل (Pavel) کی بوڑھی، ان پڑھ ماں Pelagea Nilovna ہے جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لاعلم ہے۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اسے اپنے پافل سے بہت پیار ہے۔ پافل وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ مطالعاتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے۔ گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پافل اپنے دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کررہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا (Sasha) لڈمیلا (Ludmilla) صوفیا (Sophia) اور نتاشا (Natasha) اپنے رشتے داروں اور گھروالوں کو چھوڑ کر انقلابیوں میں شامل ہوجاتی ہیں۔ نتاشا ایک امیر باپ کی بیٹی ہے جو صاحبِ جائیداد ہے لیکن نتاشا انقلاب کے لئے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہے۔ گورکی نے اس کردار کی بُنت اس طریقے سے کی ہے کہ وہ قارئین کا پسندیدہ کردار بن گیا ہے۔ ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پافل سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے بتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھ دن تک کچھ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پافل کی ماں Pelagea Nilovana صرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب کا مریڈز کےلئے محبت ہے۔ اسے پافل کے ایک دوست (Andrel Nikhodka) سے بہت پیار ہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے (Nenko) کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ”ماں“ کہتے ہیں۔ پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہے۔ جب فیکٹری کی انتظامیہ علاقے کی بہتری کےلئے ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک (Kopek) کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔ فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے۔ وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کر پمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔ یوم مئی کا واقعہ ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پافل پر مقدمہ چلتا ہے۔ اور عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے: ”ہم اس نظام کےخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کےلئے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔“ اندر بیٹا تقریر کررہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرات کی داد دے رہے ہیں۔ پافل کو سائبر یریا جلاوطنی کی سزا دی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے: ”اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لئے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے۔“ ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے۔ پافل کو سائبر پریا روانہ کیاجانے والا ہے۔ ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ چوری چھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پافل کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات بانٹتی ہے زار حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں اس کے بال نوچتے ہیں، ٹھڈے مارتے ہیں وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے:
Can Drown the Tru Not Even and Ocean of Blood
میکسم گورکی کا یہ ناول نہ صرف روس کے ادب میں ایک سنگ میل ثابت ہوا بلکہ عالمی ادب پر بھی اس نے بہت اثرات مرتب کئے۔ جرمنی کے مشہور ڈراما نگار بریخت (Brecht) نے میکس ناول ”ماں“ پر ایک خوبصورت ڈراما (Die Mutter) لکھا اور اسے سٹیج کیا۔ جب یہ ڈراما دکھایا جا رہا تھا تو ہٹلر کے عروج کا زمانہ تھا۔ ڈرامے کے دوران نازی فوجیوں نے چھپا مارا اور اس ڈرامے کے مرکزی کردار کو گرفتار کرکے لے گئے۔ ناول نگاروں نے ”ماں“ کے کردار سے متاثر ہو کر مختلف زمانوں میں اس کردار سے ملتے جلتے کردار تشکیل دئیے مگر میکسم گورکی کی ”ماں“ جیسا شاہکار تخلیق نہ کر سکے۔ میکسم گورکی کے ناول کی ادبی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ جس طرح غالب کے خطوط نثر میں ایک جدید طرز اسلوب کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی اور زمانے کے بدلتے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں اور ان سے جنگ آزادی کے حالات کی ایک چھوٹی موٹی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے اسی طرح میکسم گورکی کی ”ماں“ ناول کی تعریف میں ایک ادب پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب روس کی مکمل تاریخ بھی ہے۔ اشتراکی حقیقت نگاری کی ایک دستاویز بھی ہے۔۔۔۔؟

Aqwaly Zareen (Sunehri batain)


٭روشنی .... اندھیروں ہی میں پھیلائی جاتی ہے۔
٭عجز میں جھکنے والا ہی صفاکی پہاڑی پر چڑھتاہے۔
٭علم پر عمل کیاجائے تو ایک گھنی چھاﺅں ہے .... اپنے لئے بھی اور دوسروںکیلئے بھی ....!علم پر عمل نہ ہو تو ....اپنے خلاف ایک فردِ جرم !!
٭مخلوق کا گلہ کرنے والا .... مخلوق کو خالق کا عمل نہیں جانتا۔مالک الملک کی منشاءکا دراک کرنے والا.... نہ شکوہ کرتاہے .... نہ شکائت .... نہ گلہ .... نہ تقاضا!!
٭دو طرفہ گلہ ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا جائے۔
٭ناشکری ایک جہالت ہے ....شکر گذاری نعمت کا علم ہے۔
٭ہمتِ انسان .... فاصلے سمیٹ لیتی ہے ۔ ظاہر ی ہمت سے مکانی فاصلے سمٹتے ہیں .... اور ِ باطنی ہمت سے زمانی فاصلے!
٭تکلیف کا بیان تکلیف کو دو طرفہ کر دیتاہے .... کہ تکلیف سننے والا بھی تکلیف میں مبتلا ہو جاتاہے۔
٭ایک سنگریزہ ....اپنے گھر میں خود کو ایک کوہِ گراں سمجھتاہے....مگر قلزم حقیقت کا سامناکرتے ہی اس میں شرم سے ڈوب کر رہ جاتاہے ۔
٭کون و مکان میں ہر ذرہِ وجود .... کعبہ ¿ مشیت کے گرد محوِ طواف ہے۔
٭کائنات ِ حقیقت میں سب سے حقیقی شئے بندے کاعجز ہے....اور رب کی مطلق العنانیت !
٭دوسروں کے بارے میںسوچنے کی صلاحیت وہی رکھتاہے .... جو اپنے بارے میں نہیں سوچتا!!دوسروں کا فائدہ ....بالعموم اپنے فائدے کی نفی میں پوشیدہ ہے۔
٭دل کی بات ....!!وہ بات جو دل کے اندر سے نہیں گذرتی ....وہ سر کے اوپر سے گذر جاتی ہے۔
٭اخلاص....! اخلا ص کے تو ہجے بھی صرف محبت ہی کر سکتی ہے .... عقل کی زبان اخلاص پر آتے آتے لکنت زدہ جاتی ہے ۔
٭دوسرے لوگوں کاوجود ہمارے لئے ایک منظر ہے .... اور ہمارا وجود اپنے کردار سمیت دوسروں کیلئے ایک منظر نامہ ہے ۔ اگر ہم خود کو منظم اورخوبصورت بنا لیں تو مخلوق خدا کامنظر نامہ خوبصورت ہوجائے گا۔ مخلوق ہمیں دیکھ کر خالق کے گن گائے گی .... اور ہم بالواسطہ اس حمد کا واسطہ بنیں گے ۔
٭قطرہ جب اپنی یکتائی کو پہنچتا ہے .... تو قلزم سے واصل ہوجاتاہے ۔
٭دعا .... زمین و زمان کے فاصلے پاٹ دیتی ہے ۔ دعاکے بغیر انسان زمان و مکان کے دوپاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جاتاہے ۔
٭انسان جب تک اپنی حدود کو نہیں پہچانتا.... کسی لامحدود کو نہیں پہچان سکتا۔
٭توجہ کا نام شفاہے لاپرواہی .... بیماری ہے۔
٭دنیائے رنگ و بو میںاخلاص کی پہچان بہت مشکل ہے .... کیونکہ اخلاص بے رنگ و بو ہے!!اخلاص کو دیکھنے کیلئے محبت کی آنکھ چاہئے!!
٭اسم ....جسم اور روح کے درمیان ایک برزخ ہے۔اس لئے عالم اجسام سے عالم ِ ارواح تک رسائی کیلئے اسماءکا وسیلہ درکار ہوتاہے۔
٭علم اور حلم باہم اتنے آس پاس ہیں کہ مخلوق کیلئے یہ جاننا دشوار ہوا جاتاہے کہ علم حلم کے پاس ہوتاہے یا حلم علم کے پاس! 
٭عجلت کا شکار .... دراصل لالچ کا شکار ہوتاہے۔
٭تسلیم کا سبق تعلیم سے پہلے ہے ۔
٭فقیری ....بہت مشکل کام ہے .... یہ سوئے ہوئے بچے کو پیار کرنے کانام ہے۔
٭حاسد ....محروم ہوتاہے .... اُس نعمت سے جس سے وہ حسد کر رہا ہوتاہے .... اور اپنے اس حسد کے سبب محروم رہتاہے .... اُس عزت سے جو اُس نعمت کے نہ ہونے سے بھی مل سکتی تھی !!
٭ انسان جب کمزوروں کی مدد کرتاہے ‘تو دراصل خود کو طاقت وربنا رہا ہوتاہے ۔
٭اخلاقیات نفی اخلاص .... منافقت کے برابر ہے ۔ 
٭ فکر.... دل کا شعبہ ہے .... اور یہی شعبہ انسان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔
٭دنیا .... خود غرض ہے .... دین .... بے غرض ! اس لئے وقت پڑنے پر....دین د ار ہی دنیا دار کا سہارابنتاہے !!پس دین دار کی ایک تعریف یہ بھی ہے .... کہ دین داربے سہارامخلوق کا سہارا بنتاہے .... !!دراصل دوسروں کی غرض وہی پوری کر سکتاہے .... جو خود بے غرض ہوچکاہو!!
٭وقت ہی قوت ہے ....اگر ترتیب میں آجائے!!
٭اختیار اور ترک ....!! کلام بھی ایک اختیار ہے۔ جب تک اس اختیار کو ترک نہ کیاجائے .... نوائے سروش نہیں سنائی دیتی ہے ۔
٭ بیوقوف سے عقل کی توقع رکھنا .... سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔
٭ عالمِ خلق .... دوئی میں ہے۔جو شخص دوئی سے نکل جاتاہے ....وہ خلق سے نکل جاتاہے۔
٭پہلے نیت خراب ہوتی ہے .... پھر کام خراب ہوجاتاہے۔خراب نیّت کامطلب ہے .... اپنے مفاد کو پہلی ترجیح دینا.... اور کام کو دوسری ترجیح!!
٭ممکن کو ناممکن بنانے والی صرف دو چیزیں ہیں....وقت اور فاصلہ !!جب توفیق شامل ِ حال ہو جائے ‘تو وقت اور فاصلہ دونوں طے ہوجاتے ہیں۔ وقت کا فاصلہ طے ہوجاتاہے .... اور فاصلہ وقت کی طرح سمٹ جاتاہے!!
٭دل کی خیانت .... عمل سے پہلے الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوجاتی ہے.... الفاظ کی ترتیب اور چناﺅ کے عمل میں....!!
٭کم ظرف سے اگر کوئی نیکی سرزد ہوجائے تو وہ غرور کی زد میں آجاتا ہے۔پس ....نیکی کرنا بھی بڑے ظرف کی بات ہے ....!!
٭عقل کا علم دراصل نقل کا علم ہے .... عقلی علوم میں منشاءکی پہچان کا کوئی سبق موجود نہیں ہے ۔ منشاءکی پہچان تسلیم ہے ....اور تسلیم دل کا شعبہ ہے.... اور دل کا کوئی شعبہ انسان سے بے نیاز نہیں رہ سکتا !!
٭جب اختیار ملنے پر کوئی بے اختیار ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اس اختیار کا اہل نہیں رہا!!
٭کسی حاصل پر شکر کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ محروم لوگوں کی بے التفاتی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے۔
٭اگر مالک کی منشا کا عرفان ہوجائے تو صبر کا ہر درجہ .... ایک درجہ ¿ شکر بھی ہے ۔
٭خود تعریفی ....دراصل بدتعریفی ہوتی ہے۔
٭ اس تغیر پذیر دنیا میں ثبات اور اثبات کا میسر آجانا.... کریم کے کرم کی ایک داستان ہے۔
٭غصہ ....غیر مہذب ہونے کی نشانی ہے ۔ مہذب لوگ ہرغیر مہذب بات کے جواب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔
٭ نام .... کسی کام کا نام ہوتاہے ۔نام کمانا .... دراصل کام کمانا ہے ۔پہلے کام ایک ہوتاہے .... پھر نام بھی ایک ہوجاتاہے ۔
٭وقت ....ایک عجب راز ہے ۔متعلق کو مجتمع کرتاہے .... غیر متعلق کو منتشر !!
٭تعلق .... دل کا دل کے ساتھ ایک رشتہ ہوتاہے۔جب تعلق اور رشتے میں دراڑ پڑتی ہے تو انسان دل کی دنیاسے نکل جاتاہے.... اور اپنے تعلقات اور متعلقین کو عقل کی مدد سے ماپنے اورجاننے کی کوشش کرتاہے ....اور یوں خود بے یار ومددگار ہوجاتاہے ۔
٭دعویٰ ....غرور کی ایک شکل ہے .... اور غرور کی ہر شکل انسان کو بدشکل کر دیتی ہے۔دعویٰ ....کام کو مشکل بنا دیتاہے۔عجز .... آسان !!
٭صبر ....ظاہری قوت کی قربانی مانگتاہے .... اور اس قربانی کا صلہ باطنی قوت ہے۔
٭برائی کی طرف مائل ہونے والا برائی اختیار کرنے کو اپنی کوشش کاکرشمہ جانتاہے ....جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ نیکی نے اسے اس قابل ہی نہیں جانا ہوتاکہ اُسے اپنی جانب راغب بھی کرے!!
٭یہ ہماری اَنا کی تپش ہے ‘جواِس جنت زار زندگی کا جہنم بنادیتی ہے۔
٭اپنے اخلا ق کا امتحان مقصود ہوتو دیکھو کہ اپنے سے کمزور لوگوں کے ساتھ تمہارے اخلا ق کا عالم کیا ہے۔کمزور لوگوں سے خوش اخلا قی سے پیش آنے والاسب سے بہتر اخلاق کا مالک ہوتاہے ....اور اُن سے بدلحاظی کا مظاہرہ کرنے والاہر لحاظ سے بداخلاق ہوتاہے ۔
٭عیادت کرنے والے ....عبادت کرنے والوں پر بازی لے گئے!!
٭غفلت .... موت ہے! زندگی .... بیداری ہے !!
٭زندگی میں معیشت اور معاشرت کے قوانین بناتے ہوئے خو د کو خود کفیل سمجھنا .... اُس خدائے وحدہ ¾ لا شریک کے سامنے ایک علم ِ بغاوت بلند کرنا ہے جس نے انسان کی راہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے !!
٭اگر باطن کی طرف رجوع ہو تو ہر ظاہر ی تکلیف کسی باطنی کشائش کاپیش خیمہ ہوتی ہے۔
٭غرور کرنے والا.... غور کرنے سے محروم ہوجاتاہے۔
٭پاکیزہ رزق وہ ہے جو بغیر خواہش اور بغیرکوشش کے مل جائے!
٭شوق کے عالم میں کسی سوال کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شوق سوالی ہوتاہے نہ سائل !.... بلکہ شوق وفورِ شوق میں خود ہی مسﺅل ہوتاہے .... شوق ہر سوال کا خود ہی شافی و کافی جواب ہوتاہے ۔
٭خواہش کا پردہ چاک ہوجائے تو زندگی کا حسن جابجاعیاں ہوجاتاہے۔
٭جب تک انسان خود سے فارغ نہ ہو .... وہ خدا کی طرف راغب نہیں ہوسکتا۔
٭جب ہم اپنی زندگی کو اپنی ہی کوشش کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو زندگی کا اصل منظرہماری نظر سے اوجھل ہوجاتاہے۔
٭باطنی قوت .... ظاہری قوت کی قربانی مانگتی ہے۔
٭منزل مقصود....!منزل اُسے ملتی ہے .... جو اپنے ہر مقصود کر ترک کر چکاہو....!جس کامقصود ....اس سے مفقود ہوچکا ہے !!
٭زندگی میںاپنے زورِبازو کے قصیدے ختم ہوجائیں .... تو باقی اپنے رب کی حمد رہ جاتی ہے۔
٭رزق کے معاملے میں خوف کا شکار ہونے والاشخص .... بے عزت ہوجاتاہے۔
٭توحیدکے بعد اخلاص خاصہ ¿ ولائت ہے ۔اخلاص اپنی ذات کی نفی ہے ....اور اپنی ذات کی نفی سے ثبات کو اثبات مل جاتاہے۔خود سے خود کو نکال دیاجائے تو خدا حاصل ہوتاہے۔
 ٭نیک ہوئے بغیر نیک نامی وصول کرنا.... بددیانتی ہے ۔
٭ خواہش زدہ شخص .... خارش زدہ ہوتاہے .... کہ خواہش بجھانے کی ہر تدبیر اس کی خارش اور خواہش بھڑکا تی ہے۔خواہش زدہ شخص کسی کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔
٭اَنا کے جھگڑے میں وہی پڑتاہے .... جسے اپنی انا کو شعور نہیں ہوتا۔
٭کسی کو عزت دینے سے اپنی عزت کم نہیں ہوتی!!
٭ذکر کا راز یہ ہے کہ.... ذاکر ہوجاﺅ یا مذکور!!
٭فقیری ظاہری قوت سے باطنی قوت کی طرف رجوع کرنے کا نام ہے۔
٭غصہ .... انسان کو اس کے علم اور شرف سے محروم کردیتاہے۔
٭ جب انسان.... اپنی اَنا کے حصار میں داخل ہوجاتاہے تو خود ہی محصور ہوجاتا ہے .... اور کسی مقابلے میں اُترنے ہے پہلے ہی شکست خوددہ ہوجاتاہے۔جواں مردی .... اپنی انا کے قلعے سے باہر نکل آنے کانام ہے!!
٭خود کو ایک صفت سے منسوب کر لینے والا.... اس صفت کے کم ہونے یا گُم ہونے کی صورت میں خود کو بے عزت سمجھے گا۔
٭محنت .... عبرت بن جاتی ہے .... اگر اپنی اَنا کے خول سے باہر نہ نکل سکے تو....!
٭گلہ .... خواہش کی کوکھ سے جنم لیتاہے.... اور حسر ت کی زمین پر جا دفن ہوتاہے۔
٭تاجور کو تجوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔
٭شعور .... اَسباب و علل سے ماوراءمشیت کا ادراک ہے۔
٭تسلیم کا پہلا مرحلہ .... اپنی تفہیم کی قربانی دیناہے ....رب کی منشاءکے سامنے .... کارگاہِ مشیت میں!!
٭ہر گناہ کسی خواہش کا اندھا دھند تعاقب کرنے کا نتیجہ ہوتاہے۔
٭ خواہش کی کم سے کم تعریف ....! مالک کے حکم کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنا!!
٭نیت کا نام سفر ہے! حاصل نیت کا نام.... منزل!!
٭خواہش خطاہے ....اورہر خطا پر توبہ واجب ہے
٭تسلیم میں داخل ہوئے بغیر کسی سجدہ گاہ میں داخل ہونا....منافقت ہے۔
٭منشاءو مشیت کامشاہدہ کرنے کیلئے تسلیم و رضا میں داخل ہونا پڑتاہے۔
٭وہ شخص جو خواہش کی دنیا میں رہتاہے ‘ وہ دنیا دار ہے ‘خواہ وہ کسی جھونپڑی میں کیوں نہ رہ رہاہو۔وہ شخص جو خواہش سے بے نیاز ہے .... وہ دین دار ہے‘ خواہ وہ کسی محل میں کیوں نہ قیام پذیر ہو۔
٭بندگی سے نکل جانے والا.... اپنا سفر طویل تر کر لیتاہے۔
٭جھگڑ ا .... خواہش کے پیدا ہونے کے بعد پیداہوتاہے۔
٭کلام .... شعور شکن ہوتا.... شعور کے ایک دائرے کو توڑتاہے اور نیا دائرہ پیدا کرتاہے۔اس لئے کلام کرنے میں احتیاط برتنا لازم ہے.... وگرنہ کاسہ ¿ ظرف کے ساتھ ساتھ کاسہ ¿ سر بھی چٹخ سکتاہے۔
٭سیخ پا ہونے والا....دیرپا نہیں ہوسکتا۔
٭اپنی خواہش پر اصرارکرنا اپنے مالک کی مملکت میں بغاوت برپا کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
٭انسان کے اندر خیر اور شرکی دو لہریں موجزن ہیں .... اور ان کے درمیان ایک پردہ ہے۔خواہش اس پردے کو پھاڑ دیتی ہے۔ پس اظہارِخواہش پردہ دری ہے .... اور ضبط خواہش ....پردہ پوشی !!
٭خدمت کرنے کیلئے خود کی نفی کرنی پڑتی ہے .... اس لئے خدمت درویشی ہے۔
٭ہر شعور کی ایک فریکوئینسی ہوتی ہے....اس شعور سے ہمکلام ہونے کیلئے اُسی فریکوئینسی پر کلام کرناپڑتاہے
٭وہ جوخود اپنے ساتھ جنگ میں مصروفِ رہتاہے .... دنیا اس کے شر سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ وہ جو اپنے ساتھ جنگ میں شکست کھا جاتاہے .... وہ باہر والوں کیلئے بڑا ظالم ہوجاتاہے۔
٭اگر عالم کو جاہل کی بات پر غصہ آتا ہے‘ تو اس میں جہل ابھی تک باقی ہے ۔
٭مصنوعی طریقوں سے قدرتی چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔
٭اناپرست ....کسی اصو ل پر کاربند نہیں رہ سکتا۔
٭اعلانیہ قانون کی پابندی نہ کرنے والاقانون بنانے والے کے ساتھ بغاوت کا اعلان کرتاہے۔
٭منافقت .... سچ سے محروم ہوتی ہے.... اور اسی محرومی کے سبب معانی سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔
٭نعمتوں کے سب دروازے ایک شکر گذار آدمی کے گھر کی طرف کھلتے ہیں۔
٭معلوم پر غرور نامعلوم کی سرحد عبور نہیں کرنے دیتا۔
٭غرور .... غفلت کی ایک انتہائی شکل ہے۔
٭ گلہ .... خالق سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف رجوع کرنے کا نام ہے۔گلے کو دل سے مٹانا رفعت ہے ....اور دل میں جگہ دینا رجعت !!