Ad

Ad

Sunday, 2 September 2012

مراکش Morocco History


مراکش
Morocco
آزادی، فرانس سے آزادی 2مارچ 1956ءاور سپین سے آزادی 7اپریل 1956ءکے روز حاصل ہوئی۔
سرکاری نام، سلطنت مراکش۔ سرکاری زبان، عربی۔ طرز حکومت، آئینی بادشاہت۔ کرنسی، مراکشی درہم۔ فی کس آمدن، 4349ڈالر۔ کل رقبہ 446550 مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، رباط۔ اہم شہر، کاسابلانکا، مراکش، فیز، طنجہ۔ آبادی، 31,993,000 (تخمینہ 2009ئ)
محل وقوع
براعظم جنوب مغربی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ روم، مشرق اور جنوب مشرق مےں الجزائر، جنوب مےں مغربی (ہسپانوی) صحرا اور مغرب مےں بحر اوقیانوس واقع ہےں۔ شمال مشرق سے جنوب مغرب تک اس کی لمبائی 825میل اور مشرق سے جنوب تک 475میل چوڑائی ہے۔ یہ 5قدرتی خطوں مےں منقسم ہے۔ اطلس اعظم، وسطی اطلس اور اطلس داخلیہ اہم پہاڑی سلسلے ہےں۔ آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہےں۔
لوگ
99فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ ایک فی صد کیتھولک اور یہودی ہےں۔ ایک مربع میل مےں 15افراد رہتے ہےں۔ عرب بربر 99فیصد ہےں۔ شرح خواندگی 30فیصد ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 63سال اور عورتوں کی 66سال ہے۔ آبادی مےں شرح اضافہ 2.2فی صد سالانہ ہے۔ 918افراد کے لئے ہسپتال کا ایک بستر اور 4873کے لئے ایک ڈاکٹر۔ اطفال مےں شرح اموات 76فی ہزار ہے۔
وسائل
ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ زراعت کل ملکی پیداواری آمدنی کا 17فی صد ہے۔ گندم، جو، زیتون، اہم فصلیں ہےں۔ گلہ بانی اور ماہی گیری اہم پیشے ہےں۔ فاسفیٹ یہاں کی اہم معدنی دولت ہے۔ فاسفیٹ کے علاوہ کوئلہ، سونا، خام تیل، لوہا، سیسہ، کوبالٹ، زنک، مینگانیز، چاندی، سرمہ اور سنگ مرمر اہم معدن ہےں۔
یہاں کی صنعت اتنی قابل ذکر نہیں تاہم کاراسمبلنگ، چینی ادویہ، چمڑہ سازی، قالین سازی اور پارچہ بافی قابل ذکر ہےں۔ ریلوے لائنوں کی لمبائی 1893کلومیٹر اور سڑکوں کی لمبائی چالیس ہزار میل ہے۔ رائل ایئر قومی ایئر لائن ہے۔ ملک مےں 15ہوائی اڈے ہےں۔ مراکش نیوی گیشن کمپنی ایک سرکاری کمپنی ہے جس مےں حکومت کے 96فی صد حصص ہےں۔
تاریخ
جدید مراکش کا علاقہ 8ہزار سال قبل مسیح مےں آباد ہوا۔ قدیم دور مےں یہ موریطانیہ کہلاتا تھا۔ واضح رہے کہ موریطانیہ نام کا ملک بھی مراکش کے قریب ہی واقع ہے۔ شمالی افریقہ اور مراکش عظیم رومی سلطنت کا حصہ رہے ہےں اور رومی سلطنت مےں مراکش کا علاقہ Mauretania Tingitana کہلاتا تھا۔ 5ویں صدی مےں رومی سلطنت کے زوال کے بعد وینڈلز، وزیگوتھ اور بازنطینی یونانیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس دور مےں بھی جدید مراکش کے پہاڑی علاقے آزاد رہے جن مےں بربر نسل کے لوگ رہتے تھے۔ 
ساتویں صدی عیسوی مےں اسلام یہاں پہنچا جب حضرت عقبہ بن نافع اور موسیٰ بن نصیر نے اسے فتح کیا۔ خاندان امیہ کے حکمران ادریس اول نے اس علاقے کو بہت ترقی دی اور ایک ترقی یافتہ علاقہ بنانے مےں اہم کردار ادا کیا۔ 1061ءسے 1106ءتک یوسف بن تاشفین یہاں حکمران رہا اور بہت سے افریقی علاقے اس نے فتح کئے۔ عبدالمومن بن علی نے اس کے بعد مراکش اور اندلس کے علاقے فتح کئے۔ یعقوب المنور نے 1184ءسے 1199ءتک یہاں حکومت کی۔
بعدازاں سلطنت علویہ نے عروج حاصل کیا جسے سپین اور مسلسل مغرب کی جانب توسیع پانے والی سلطنت عثمانیہ کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔ علوی اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے مےں کامیاب رہے حالانکہ ان کی حکومت گذشتہ حکومتوں کے مقابلے مےں چھوٹی لیکن کافی دولت مند تھی۔ 1684ءمےں انہوں نے طنجہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
مراکش پہلا ملک ہے جس نے 1777ءمےں امریکہ کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا۔ امریکی انقلاب کے آغاز مےں بحر اوقیانوس مےں سفر کرنے والے امریکی جہازوں پر بربر قزاق حملے کیا کرتے تھے۔ اس وقت امریکیوں نے یورپی قوتوں سے مدد کی درخواست کی لیکن اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ 20دسمبر 1777ءکو مراکش کے سلطان نے اعلان کیا کہ امریکی تاجروں کے جہاز سلطنت کی حفاظت و امان مےں ہوں گے۔ 
امریکہ مراکش دوستی کا یہ معاہدہ امریکہ کا قدیم ترین دوستی کا معاہدہ ہے جو آج تک برقرار ہے۔ اس معاہدے پر جون ایڈمز اور تھامس جیفرسن نے دستخط کئے تھے۔ اور یہ 1786ءسے نافذ ہے۔ صدر جارج واشنگٹن نے سلطان سیدی محمد کو خط لکھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ طنجہ مےں امریکی قونصلیٹ ملک سے امریکی حکومت کی پہلی ملکیت تھی۔ اس عمارت مےں اب طنجہ امریکن لیگیشن میوزیم قائم ہے۔
مراکش اس وقت افریقہ مےں سب سے دولت مند ملک تھا اور وہ بحیرہ روم مےں داخلے کے راستے پر قائم ہونے اور اپنے بہترین محل وقوع کے باعث یورپی استعماری قوتوں کی نظر مےں آگیا۔ فرانس نے 1830ءمےں مراکش مےں زبردست دلچسپی دکھائی۔ 1904ءمےں مراکش مےں فرانس کے حلقہ اثر کی برطانوی قبولیت نے جرمنی مےں زبردست ردعمل پیدا کیا اور جون 1905ءکے اس بحران کو 1906ءمےں سپین مےں الجزیراس کانفرنس کے ذریعے حل کیا گیا جس کے ذریعے مراکش مےں فرانس کی ”خصوصی حیثیت“ اور فرانس اور اسپین کے مشترکہ قبضے کو تسلیم کیا گیا۔ یورپی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ مراکش کا دوسرا بحران برلن نے پیدا کیا اور 30مارچ 1912ءکو معاہدہ فاس کے تحت مراکش کو فرانس کی کالونی بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت اسی سال 27نومبر کو سپین کو شمالی و جنوبی علاقوں کا قبضہ دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد طے پانے والے میثاق اوقیانوس کے تحت مراکش کی کئی قومی سیاسی جماعتوں نے ملک کی آزادی کامطالبہ کیا اور استقلال پارٹی نے پہلی مرتبہ 1944ءمےں عوامی سطح پر آزادی کی آواز اٹھائی۔
1953ءمےں سلطان محمد پنجم کی مڈغاسکر جلاوطنی اور ان کی جگہ غیر مقبول محمد بن عارفہ کی تقرری نے ملک بھر مےں فرانس کے خلاف زبردست ردعمل پیدا کیا۔ اس دوران سب سے مشہور واقعہ اوجدا مےں مراکشی باشندوں کو فرانس اور دیگر یورپی باشندوں کی رہائش گاہوں پر حملہ تھا۔ فرانسی قبضے کے خلاف یکم اکتوبر 1955ءکو ”آرمی ڈی لبریشن“ قائم کی گئی۔ اس کا ہدف سلطان محمد پنجم کی وطن واپسی اور الجزائر اور تیونس کی آزادی تھا۔ فرانس نے 1955ءمےں محمد پنجم کو وطن واپسی کی اجازت دی اور مذاکرات کا آغاز ہوا جو بالآخر اگلے برس مراکش کی آزادی پر منتج ہوئے۔ یہ ”انقلاب شاہ و عوام“ کہلاتا ہے جسے ہر سال 20اگست کو منایا جاتا ہے۔
مراکش جون 2004ءمےں امریکہ کا نان نیٹو اتحادی قرار پایا اور اس نے امریکہ و یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کئے۔
2003ءمےں مراکش کا سب سے بڑا شہر کاسابلانکا دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنا۔ ان حملوں کا نشانہ مغربی اور یہودی باشندے تھے جس مےں 33شہری ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہوئے جن کی اکثریت مراکشی تھی۔
2006ءمےں مراکش نے آزادی کی 50ویں سالگرہ منائی۔

No comments:

Post a Comment