مسلم دنیا کے اہم مسئلے
کشمیر
وادی جنت نظیر، کشمیر گزشتہ باسٹھ بس سے جبر و استبداد اور ظلم کی انتہا کا نشانہ ہے۔ اس کا رقبہ 84000مربع میل اور آبادی ایک کروڑ ہے۔ 14اگست 1947ءکے بعد انڈی پینڈنس ایکٹ کی دفعہ نمبر 7کی رو سے تمام ہندوستانی ریاستوں مےں، جن کی تعداد 562تھی، برطانیہ کا عمل دخل ختم ہوگیا اور ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے بھارت یا پاکستان سے الحاق کریں۔ تاہم گورنر جنرل لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ الحاق کے وقت جغرافیائی محل وقوع، عوام کی خواہشات، آبادی کے فرقہ وارانہ تناسب کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ تین روز بعد ریاست جوناگڑھ، حیدر آباد اور کشمیر کے الحاق کے متعلق دونوں ممالک مےں جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ جوناگڑھ مےں ہندوﺅں کی اکثریت تھی۔ مگر نواب نے اس کا الحاق پاکستان سے کیا جسے ہندوستان نے ماننے سے انکار کر دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہندوﺅں کی آبادی والی ریاست ہندوستان مےں شامل کی جائے۔ مگر کشمیر کے مسئلے پر وہ اس نقطہ نظر کو نہیں مانتا۔
ریاست کشمیر کی 80فی صد آبادی مسلمان ہے۔ یہ علاقہ پاکستان سے ملا ہوا ہے۔ سیاسی، اقتصادی، جغرافیائی اور دیگر تقاضوں سے یہ پاکستان کا حصہ بنتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اس خطہ کی آبادی پچھلی چھ صدیوں سے مسلمان چلی آرہی ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے دریاﺅں کا منبع کشمیر ہے۔ بھارت کے ساتھ ریاست کی سرحد 50میل لمبی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ 384میل لمبی ہے۔ اس کے جنوب اور مغرب مےں پاکستان واقع ہے۔ شمال مےں چین اور روس مشرق مےں تبت اور جنوب مشرق مےں بھارت واقع ہے۔ 27اکتوبر 1947ءکے روز بھارت نے اپنی افواج وادی مےں اتار دیں۔ بھارت اس کے 3/4حصے پر قابض ہوگیا۔ مگر یہاں کے لوگوں نے غیر ملکی فوجوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس مسئلہ پر مئی 1948ءمےں پاکستان اور بھارت کی افواج مےں جنگ ہوئی۔ اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1949ءکو جنگ بند کروا دی۔ جس حصہ کو کشمیری عوام نے بھارت سے آزاد کروایا اس کا نام آزاد کشمیر رکھا گیا اور یہاں انتخابات کے بعد صدر، وزیراعظم اور کابینہ نامزد کئے گئے جس نے آزاد علاقے کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ سمیت رائے شماری کے جتنے بھی مصالحتی فارمولے پیش ہوئے۔ پاکستان نے ان کو تسلیم کیا ہے اور بھارت ان کو رد کرتا رہا ہے۔ اس مسئلہ پر 1965ءمےںبھی پاک بھارت جنگ ہوئی۔ بھارتی افواج نے اس دوران مےں خواتین کی بے حرمتی کی۔ نوجوانوں، بوڑھوں اور بچوں کو شہید کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ روزانہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جاتے ہےں۔
گزشتہ نصف صدی سے مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے جنگ لڑ رہے ہےں۔ اقوام متحدہ مےں یہ حل طلب مسئلہ عالمی ضمیر کی سنگ دلی اور بھارتی حکومت کے وحشیانہ ظلم و ستم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں یہاں ہوئی ہےں، بھارتی حکومت چاہے جتنا بھی انکار کرے، بین الاقوامی اداروں کے شائع کردہ اعدادوشمار خود یہ کہانی سناتے ہےں۔ 2005ءمےں ”میڈیسنز سینز فرنٹیرز“ نامی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس مےں بتایا گیا کہ کشمیری خواتین جنسی تشدد کی دنیا بھر مےں سب سے بدترین شکار ہےں۔ اس تنظیم نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کےلئے جن خواتین سے رابطہ کیا ان مےں سے 11.6فیصد نے بتایا کہ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جنوری 1989ءسے لے کر 31جولائی 2009ءیہاں 92206افراد کو شہید کیا گیا، زیر حراست جو افراد شہید کئے گئے ان کی تعداد 6959ہے۔ 116333کو گرفتار کیا گیا۔ 105754آتش زدگیوں اور مال اسباب کی بربادی کے واقعات ہوئے۔ 22696خواتین بیوہ ہوئیں اور 107262بچے یتیم ہوگئے۔ 9885خواتین کو اجتماعی زیادتی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چیچنیا
اس وقت جبکہ دنیا اکیسویں صدی مےں داخل ہونے والی ہے اور ہر طرف یہ نعرہ بلند کیا جا رہا ہے کہ دنیا اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ وہ اپنے جھگڑے جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعہ حل کرے تاکہ یہ دنیا مکمل امن کا گہوارہ بن سکے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جہاں مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو تمام غیر مسلم طاقتیں ہر ممکن طریقے سے ان حقوق کو پامال کرتی نظر آتی ہےں اور امن کے اس بے بنیاد نعرے کو سب سے زیادہ شدت سے جوالاپ رہے ہےں، وہی اس کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہےں۔ ان کا یہ قول و فعل مےں تضاد ہمیں کہیں اسرائیل کی صورت مےں نظر آتا ہے اور کہیں کشمیر کی.... بوسنیا اور قبرص بھی اس کی تصویر ہےں، اس تضاد کی واضح مثال چیچنیا بھی ہے، جہاں کے لوگوں کا صرف اس لئے قتل عام ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہےں۔
بحیرہ ¿ اسود اور بحیرہ ¿ خزر کے پہاڑوں مےں واقع جمہوریہ چیچن شمالی قفقاز کی ان سات ریاستوں مےں سے ایک اہم ریاست ہے جن پر روس نے انیسویں صدی مےں قبضہ کر لیا تھا۔ روسی تسلط سے پہلے یہ ریاستیں متحدہ قفقاز کے نام سے جانی جاتی تھیں لیکن 1924ءمےں اس خوف کے پیش نظر کہ متحدہ قفقاز قبضے کو مستقل برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، روس نے اس خطے کو سات ریاستوں مےں تقسیم کر دیا۔
12 لاکھ آبادی اور 18ہزار کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس ریاست نے 3نومبر 1991ءکو آزادی کا اعلان کیا۔ یہ قفقاز کے علاوہ کہ قاف کے نام سے بھی مشہور ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی مےں یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ 1813ءمےں اس علاقے کو روس کے سپرد کر دیا گیا۔ شیخ منصور نے 1780ءسے 1791ءتک اور امام شامل نے 1830ءسے 1859ءتک روسیوں سے جنگ کی اور ایک ایک جنگل اور مورچے مےں روسیوں کو عبرتناک نقصان پہنچایا۔ 1857ءمےں روسی افواج نے مکمل حملہ کیا۔ قصبے اور دیہات تاراج کر دیئے اور غارت گری کا ایک بازار گرم کر دیا۔ امام شامل کے مریدوں نے مسلح جنگ جاری رکھی۔ شیشانیوں کو مطیع کرنے کے لئے روسی 1817ءسے 1864ءتک برسر پیکار رہے۔ زاروں کی شکست کے بعد 1924ءمےں اسے سوویت یونین مےں شامل کر لیا گیا۔ 1983ءمےں یہاں روسیوں کی آبادی 35فیصد اور شیشانی وقفقازی مسلمانوں کی آبادی 65فی صد تھی۔
اس سرزمین پر روس نے اپنا تسلط تو قائم کر لیا لیکن وہ اس سرزمین کے کوہستانی مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی کا خواب نہ کھرچ سکا اور چیچن کے مسلمانوں کے دلوں مےں آزادی کی خواہش اور جذبہ بدستور موجزن رہا۔ یہ چیچن کے مسلمانوں کے رگ و پے مےں سرایت کی ہوئی آزادی کا ہی اعجاز تھا کہ اس وقت جب زار شاہی قفقاز کے مسلمانوں کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی تو مشہور روسی شاعر الیگزنڈرپش کن نے اسے مشورہ دیا تھا کہ مسلمان قبائلیوں کو سماواروں مےں بھری چائے اور مسیحی مشنریوں کے ذریعے رام کرو، اسی شاعر نے 1859ءمےں ایک مرتبہ پھر جب بالآخر امام شاملؒ روسیوں کے ہاتھوں گرفتارہوئے، اپنی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا وہ مسلمان قبائل کو بندوق کے ذریعے رام کرنے کا خواب بھول جائے۔
1988ءکے بعد روس کا زوال شروع ہوا اور لتھوانیا، اسٹونیا، لٹویا، بیلا روس، مالدووا، ازبکستان، آذربائیجان، کرغیزستان، آرمینیا، ترکمانستان، یوکرائن، تاجکستان اور قازقستان نے یکے بعد دیگرے روس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور آزاد دنیا نے ان سب نئے ممالک کو خوش آمدید کہا۔
چیچنیا، تاتارستان، انگیشیا وغیرہ کی طرح رشین فیڈریشن کا حصہ تھا۔ جب چیچنیا نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادی کا اعلان کیا تو روسی فیڈریشن نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا اور تین سال تک خالی خولی دھمکیوں سے الگ ہونے والی جمہوریا کو واپسی پر مجبور کیا لیکن مجبوریہ کے منتخب صدر میجر جنرل داﺅدوف نے برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ چیچن سرزمین کسی دور مےں بھی روسی فیڈریشن کا حصہ نہیں رہی اس لئے روس کو اس علاقے پر اپنا حق جتانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ صدر بورس یلسن نے گروزنی شہر مےں متوازن حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے منفی نتائج برآمد ہوئے اور عوام الناس کی ہمدردیاں میجر جنرل جوہر کے ساتھ اور بڑھ گئیں۔
11دسمبر 1994ءکو روسی پارلیمنٹ ”ڈیوما“ نے چیچنیا کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دے دی، فضائی بیڑے نے گروزنی کو مطیع کرنے کے لئے فضائی حملے کئے اور مجاہدین کی پناہ گاہوں پر شدید بمباری کی۔ اس کے نتیجے مےں پچپن ہزار قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ اٹھارہ ہزار فٹ بلند پہاڑوں سے مجاہدین نے روسیوں پر حملے جاری رکھے اور وطن کا وسیع علاقہ آزاد کرا لیا۔ صدر بورس یلسن اور ان کے حواریوں نے عالمی پیمانے پر چیچنیا کو داخلی مسئلہ قرار دیا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی،امریکہ اور دیگر ممالک نے مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کی۔ کئی مواقعے پر روس اور امریکہ کے سربراہ اکٹھے ہوئے اور امریکی صدر نے چیچنیا کے مسئلے پر خاموشی اختیار کر رکھی جبکہ روسی صدر نے جواباً امریکہ کے فلسطین اور عرب خلیجی ممالک مےں نفوذ پر خاموشی اختیار کی اور چیچنیا کے بے کس و مظلوم شہری اپنی جانیں مادر وطن کی آزادی پر نچھاور کرتے رہے تاہم مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ واویلا ضرور کیا کہ جوہر داﺅدیوف دوسرا امام شامل بن رہا ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے جمہوریہ چیچن کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے شمال مےں داغستان، جنوب مےں جارجیا، مغرب مےں انگشتیا اور شمال مےں رشین فیڈریشن واقع ہےں۔ ریاست مےں شاہراہوں اور ریل کا اہم مواصلاتی نظام قائم ہے جس کا مختلف ریاستوں کے ذریعے مشرقی یورپ سے رابطہ قائم ہے۔
جمہوریہ چیچن کی تاریخ عزم و ہمت اور شجاعت کے لازوال کارناموں کی روشن دستاویز ہے۔ بندوق کو گلے مےں لٹکائے، گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر جوانی کی دہلیز پر رکھنے والی قوم کا ہر فرد آزادی اور خودداری کو اپنا جزو ایمان گروانتا ہے۔
چیچن کے اعلان آزادی کے ساتھ ہی ماسکو پر گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ ماسکو کے پہلو مےں واقع یہ ریاست روس کے لئے فی الحقیقت زندگی اور موت کا سوال بن گئی۔ سونے کی یہ چڑیا جہاں جغرافیائی ہیئت کے اعتبار سے روس کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہیں اقتصادی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت اور انتہائی حساس نوعیت ہے۔ قدرت نے اس ریاست کو بے انتہا معدنی دولت سے نوازا ہے حکومت روس اپنی تیل کی ضروریات کا اسی فی صد (80%) حصہ اسی ریاست سے پورا کرتی ہے۔ مزید برآں روس کی تقریباً تمام آئل ریفائنریز یہیں پر واقع ہےں۔ اس لحاظ سے روس کی اقتصادی ”قوت“ چیچن کی مٹھی مےں قید ہے۔
یہ انہی مجبوریوں کا تقاضا تھا کہ روس نے چیچن کے اعلان آزادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور صدر بورس یلسن نے ریاست مےں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر جعفر داﺅد کو حکم دیا کہ فوراً اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں بصورت دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن جعفر داﺅد کی جوابی حکمت عملی کے سامنے اس کی ایک نہ چلی تو روسیوں نے اپنی اس پالیسی مےں کچھ تبدیلیاں پیدا کیں اور براہ راست مداخلت سے پہلے اندرونی سرزمین ہموار کرنے کے لئے چیچن مہروں کے ہی انتخاب کی حکمت عملی پر سوچ بچار شروع کر دیا۔ اس ضمن مےں انہیں جلد ہی چند لوگوں کی عملی مدد حاصل ہوگئی۔ ان لوگوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف روس سے اسلحہ اور دوسری مراعات لےکر علیحدہ ملیشیا قائم کی اور کئی علاقوںپر قبضہ کر لیا لیکن انہیں اتنی کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کے بارے مےں وہ پہلے ہی سے امید لگائے بیٹھے تھے۔
جب روس نے یہ دیکھا کہ وہ اس ہتھکنڈے مےں فیل ہوگیا اور یہاں اس طرح دال گلتی نظر نہیں آتی تو اس نے 11دسمبر 1994ءکو چیچن پر عام حملہ کر دیا جس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے صدر یلسن نے اعلان کیا کہ چیچن رشین فیڈریشن کی حد ہے اور رہے گا، اس کے لئے ہمیں کیسا ہی قدم کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ روس اور چیچن کے سازشی ٹولے کی امیدوں اور توقعات کے علی الرغم چیچن عوام روس کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوئے۔
ابتداءمےں روسی افواج کو چند کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ روسی افواج سے بہت سی تزویراتی غلطیاں ہوئیں جن سے چیچن جانبازوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسلان مسخادوف کی قیادت مےں انہوں نے روسی افواج کے خلاف گوریلاکارروائیاں شروع کر دیں۔ مارچ 1995ءتک مسخادوف کو چیچن مزاحمت کا لیڈر تسلیم کر لیا گیا۔
جون 1995ءمےں چیچن گوریلوں نے جنوبی روس کے شہر بدیونوفسک مےں ایک ہسپتال پر قبضہ کر کے ایک ہزار سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا۔ روسی افواج نے دو مرتبہ ہسپتال پر حملہ آور ہو کر گوریلوں پر قابو پانے کی کوشش کی مگر دونوں کوششیں ناکام ہوئیں۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد گوریلوں کو وہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ واقعہ روسی وفاق کے لئے نہایت حوصلہ شکن ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے جنگی جرائم اور پھیلائی ہوئی تباہیوں کے مناظر پوری دنیا کے ٹیلی ویژنوں سے نشر کئے جا رہے تھے۔ ان سب عوام نے مل کر روسی حکومت کو مجبور کرد یا کہ وہ چیچنیا سے اپنی افواج نکال لیں۔ 21 مارچ 1996ءکے روز دونوں اطراف مےں مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا۔
صدر دادیوف کو 21اپریل 1996ءکے روز ایک فضائی حملے مےں شہید کر دیا گیا اور ان کی جگہ نائب صدر زلیم خان یاندربائیوف نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ اگست 1996ءمےں مذاکرات ختم ہوئے۔ جنگ ختم کر دی گئی اور روسی افواج علاقے سے نکل گئیں۔
اسلان مسخادوف کو 1997ءمےں صدر منتخب کیا گیا مگر وہ جنگی تباہیوں کے شکار اس علاقے پر اپنا کنٹرول مستحکم نہ کرسکے۔ مقامی قائدین اور علاقے کے طاقتور جرائم پیشہ دھڑوں نے استحکام کی راہ مےں ایسے روڑے اٹکائے کو چیچنیا بتدریج لاقانونیت کی دلدل مےں غرق ہونا شروع ہوگیا۔ چیچنیا کے عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگست 1999ءمےں روس نے اپنے علاقے مےں مداخلت کاری کا الزام لگا کر چیچنیا پر پھر حملہ کر دیا۔ شامل بسائیوف اور عامر خطاب کی قیادت مےں چیچن جانبازان کے خلاف صف آراءہوئے مگر اندرونی انتشار آڑے آیا اور انہیں شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ ستمبر 1999ءمےںروس کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ چیچن شورش پسندوں نے ماسکو اور دیگر کئی مقامات پر بم دھماکے کئے ہےں۔ روس کے نئے وزیراعظم ولادیمپرپوٹن کے حکم پر یکم ستمبر 1999ءکے روز روسی افواج چیچنیا مےں داخل ہوگئیں۔
اندرونی انتشار اور شورشوں کا شکار چیچنیا اس مرتبہ پہلے جیسے انداز مےں مزاحمت نہ کر سکا اور فروری 2000ءتک پورا چیچنیا ایک بار پھر روس کے قبضے مےں آگیا۔ مزاحمتی کارروائیاں جاری رہیں لیکن شامل بسائیوف اور اسلان مسخادوف جیسے قائدین کی شہادت کے بعد اب اس مےں پہلے جیسا دم خم باقی نہیں رہا۔ جمہوری عمل کو جاری کرنے کا جھانسہ دے کر روس ابھی تک اس علاقے پر قابض ہے اور عالمی برادری نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔
ترک جمہوریہ شمالی قبرص
ترک جمہوریہ شمالی قبرص قبرص کے شمالی علاقوں مےں واقع ایک ریاست ہے جسے صرف ترکی تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ پورے جزیرہ قبرص پر جمہوریہ قبرص کا اختیار تسلیم کرتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص یونانی قبرصی قبضے کے نو سال بعد 1983ءمےں قائم ہوئی۔ تھوڑے عرصے تک رہنے والا یہ قبضہ یونانی فوجی دستوں کی حمایت سے ای او کے اے بی کے حامیوں نے کیا تھا جو 1967ءسے 1974ءتک قائم رہا۔ بعدازاں قبرص مےں ترکی کی فوجی مداخلت کے باعث یہ ریاست تشکیل پائی۔ اس وقت سے آج تک علاقے مےں ترکی کی افواج کثیر تعداد مےں موجود ہےں۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے قیام سے قبل یہ علاقہ ”ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص“ کہلاتی تھی۔
ریاست کی آبادی 265000 ہے اور یہ 3355مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی تقریباً تمام آبادی ترکی زبان بولنے والے نسلاً ترک باشندوں پر مشتمل ہے۔ علاقے کی آبادی تین برادریوں مےں منقسم ہے، ایک اصلی ترک قبرصی، دوسرے وہ ترک باشندے جن کے شادیوں کے ذریعے یہاں کے قبرصیوں سے تعلقات بنے اور تیسرے اناطولیہ سے ہجرت کر کے آنے والے ترک باشندے، علاوہ ازیں کچھ کرد آبادی بھی یہاں موجود ہے۔ 33ہزار ماہر فوجیوں کی صورت مےں یہاں ترکوں کی بڑی آبادی ہے۔
ترک جمہوریہ شمالی قبرص مےں نکوسیا شہر کا شمالی حصہ بھی شامل ہے جو دارالحکومت ہے۔ 1963ءکے بعد یہاں کی کثیر آبادی ہجرت کر گئی۔ اکثریت نے برطانیہ کا رُخ کیا جبکہ بڑی تعداد نے ترکی مےں بھی رہائش اختیار کی۔ اس ہجرت کی وجہ عالمی سطح پر تسلیم نہ کی جانے کے باعث ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی خراب اقتصادی صورتحال تھی۔ ریاست کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت مےں شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور جمہوریہ قبرص کے درمیان کا علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہے۔
جمہوریہ قبرص کا قیام اس وقت عمل مےں آیا جب یہاں کی آبادی کے اصرار کے باوجود برطانیہ نے قبرص کے یونان کے ساتھ الحاق کو منظور نہ کیا اور اس کے بجائے مکمل خودمختاری دینے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ جزیرہ برطانیہ سے آزاد ہوگیا۔ جزیرے پر رہنے والی قبرصی اور ترک دونوں برادریوں کو نئی جمہوریہ کو چلانے کے لئے بلایا گیا کیونکہ جمہوریہ قبرص کے آئین کے مطابق کوئی ترک قبرصی صدر اور کوئی یونانی قبرصی نائب صدر نہیں بن سکتا اس لئے سیاسی تجزیہ نگاروں نے ابتدا ہی مےں ان خدشات کا اظہار کیا کہ جمہوریہ قبرص مےں کوئی مسئلہ پیدا ہونے والا ہے۔ دونوں اقوام کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری ملازمتوں مےں مخصوص تعداد مےں نمائندگی دی گئی۔ آئین کے مطابق ایوان نمائندگان مےں 70فیصد یونانی قبرصی اور 30فیصد ترک قبرصی ہوں گے۔ دیگر معاملات مےں بھی اسی طرح تناسب مقرر کیا گیا جیسے افواج اور سرکاری ملازمتوں مےں یہ تناسب بالترتیب 60اور 40تھا۔ 1960ءکے معاہدہ ضمانت کے تحت یونان، ترکی اور برطانیہ جمہوریہ کی ضامن قوتیں تھیں۔
دسمبر 1963ءمےں قبرص کی حکومت کا اس وقت خاتمہ ہوگیا جب ترک قبرصیوں نے اس مےں شرکت سے دستبرداری اختیار کر لی۔ کسی بھی متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لئے دونوں برادریوں مےں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تین سال کے لئے قانونی معاملات رُکے رہے۔ اس تنازع کو مزید ہوا اس وقت ملی جب جمہوریہ قبرص کے آئین مےں ترمیم کی 13تجاویز دی گئی۔ ترک قبرصیوں نے ان کی شدید مخالفت کی اور انہوں نے ریاست کے شریک بانی کے بجائے خود کو اقلیت قرار دیا۔ انہوں نے ترامیم کو یونان کے ساتھ الحاق کی جانب اہم قدم قرار دیا۔ 21دسمبر 1963ءکو ترک قبرصیوں اور وزارت داخلہ کے سادہ اہلکاروںمےں ملبوس اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپ مےں دو ترک قبرصی اور ایک یونانی قبرصی پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں اقوام کے درمیان جنگی صورت پیدا ہوگئی اور یونانی قبرصیوں نے یونان کی شہ پر ترک قبرصیوں کے خلاف ”جدوجہد“ کا آغاز کر دیا۔
ان فسادات مےں 191ترک اور 133یونانی قبرصی مارے گئے جبکہ 209ترک اور 41یونانی لاپتہ ہوئے۔ ترک قبرصیوں کے علاقوں کو مکمل طور پر لوٹ لیا گیا اور وہ اپنی ہی سرزمین پر مہاجرین کی صورت مےں خیموں مےں رہنے پر مجبور ہوگئے۔ اگلے 11سال تک ان کی زندگی کا انحصار اس غذا اور دواﺅں پر ہوتا تھا جو ترکی کی جانب سے آتی تھیں۔
1972ءسے 1974ءتک قبرص مےں اقوام متحدہ کی افواج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر فرانسس ہین کے مطابق: ”ترک قبرصیوں کو مکمل طور پر محصور کر دیا گیا اور یونانی قبرصیوں پر مشتمل انتظامیہ نے ان کی برادری کے 56ہزار اراکین کا بھرپور استحصال کیا اور انہیں بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر دیا“۔
15جولائی 1974ءکو یونان کے فوجی دستوں کی شہ پر قبرص مےں ای او کے اے نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ صدر میکاریوس کو عہدے سے معزول قرار دے کر ان کی جگہ ای او کے اے کے جنگجو اور رکن پارلیمان نکولس سمپسن کو نیا صدر بنا دیا گیا۔ ترکی نے اسے 1960ءکے معاہدہ ضمانت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کو جائز قرار دیا اور یوں 20جولائی 1974ءکو قبرص پر حملہ کر دیا۔ قبرص مےں ترک آبادی کو بچانے کے لئے ترکی کا یہ اقدام بہت ضروری تھا۔ ترک افواج نے جزیرے کے 37فیصد حصے پر قبضہ کر لیا اور یوں یونانی قبرصیوں کی بڑی آبادی کو بھی اپنے گھروں سے محروم ہونا پڑا۔ ایک لاکھ 95ہزار یونانی قبرصی جزیرے کے جنوبی جانب جبکہ 50ہزار ترک قبرصی جزیرے کی شمالی جانب ہجرت کر گئے۔ جنگی صورتحال کے خاتمے تک ہزاروں ترک اور یونانی قبرصی لاپتہ ہوگئے۔
1975ءمےں ترک وفاقی ریاست شمالی قبرص کا قیام جزیرہ قبرص پر ترک قبرصیوں کی ریاست کی حیثیت سے عالمی سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لئے پہلا قدم تھا جسے جمہوریہ قبرص، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ یونانی قبرصی قیادت کے ساتھ ساٹھ سال کے ناکام مذاکرات کے بعد شمالی قبرص نے 15نومبر 1983ءکو اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں ترک جمہوریہ شمالی قبرص معرض وجودمےں آیا۔ تاہم آج تک ترکی کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد قراردادوں مےں ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو رائے دہندہ ریاست کی حیثیت دی ہے اور وہ تنظیم مےں مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔ پاکستان، قطر اور گیمبیا سمیت دیگر کئی اقوام بھی ترک جمہوریہ شمالی قبرص کو تسلیم کرنے کے لئے مثبت خیالات کا اظہار کر چکی ہےں۔
اقوام متحدہ کے عنان منصوبہ پر اپریل 2004ءمےں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حوالے سے عالمی برادری کے رویے مےں کچھ بہتری آئی ہے۔
کوسوو
17فروری 2007ءکو سابق یوگوسلاویہ کی باقیات پر مشتمل ملک سربیا کے مسلم اکثریتی صوبہ کوسوو کی پارلیمان نے اعلان آزادی کی قرارداد منظور کر لی۔ پارلیمنٹ کے سپیکر یعقوب کراسی نے قرارداد منظور ہوتے ہی یہ تاریخی اعلان کیا کہ کوسوو اب ایک آزاد جمہوری اور خودمختار مملکت ہے۔ وزیراعظم ہاشم تھاچی نے کہا کہ آج ہمیں آزاد اور خودمختار ہونے پر فخر ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے اور البانیہ و بوسنیا کے بعد کوسوو جزیرہ نما بلقان کا تیسرا ملک ہے جو یورپ کے وسط مےں اپنے مسلم تشخص کے ساتھ وجود مےں آیا ہے۔ اب اس خطہ مےں مسلم نشاة الثانیہ کی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے، مساجد اور مدرسے آباد ہو رہے ہےں اور اکثریتی البانوی آبادی اپنی مسلم شناخت پر اصرار کرتی ہے۔
کوسوو کی آزادی ایک عشرہ کی مسلم نسل کشی کے بعد عمل مےں آئی۔ نسل کشی کا یہ سلسلہ سربیا کی عیسائی اکثریت اور ان کے نسل پرست رہنماﺅں کی طرف سے طویل عرصہ تک جاری رہا حتیٰ کہ یورپین یونین کی تحریک پر نیٹو افواج نے مداخلت کی۔ آخرکار اقوام متحدہ کو اس علاقہ مےں البانوی نژاد مسلمانوںکے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے یو این امن مشن کے زیر انتظام عبوری اقدامات کرنے پڑے۔
سابق یوگوسلاویہ کی تقسیم کے بعد ابتداءمےں کوسوو کو سربیا کا ایک خودمختار صوبہ قرار دیا گیا تھا۔ کوسوو کا رقبہ 10887 مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کی موجودہ آبادی بیس لاکھ ہے۔
کوسوو کی بانوے فیصد آبادی البانوی نژاد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ چھ فیصد آبادی کا تعلق سربوں، روما، گورنیز، بونکس اور ترکوں سے ہے۔ کوسوو کے نوے فیصد مسلمان سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہےں۔
کوسوو کا صدر مقام پر سٹینا ہے۔ اس کے مغرب مےں مانٹی نگیرو، جنوب مغرب مےں البانیہ، جنوب مےں جمہوریہ مقدونیہ اور شمال مےں وسطی سربیا واقع ہےں۔ البانوی، انگریزی اور سربی قومی زبانیں ہےں۔ قدرتی وسائل مےں کوئلہ، سیسہ، جست، کرومیم اور چاندی شامل ہے۔
کوسوو تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح سے ہی جنگ وجدل کا شکار رہا ہے اور مختلف سلطنتوں خصوصاً بازنطینی اور رومن سلطنتوں کے درمیان مفتوحہ علاقہ بنتا رہا ہے۔ سن 1389ءمےں جنگ کوسوو مےں سلطنت عثمانیہ نے سلطنت سربیا کو شکست دے کر خلاف عثمانیہ کا ایک حصہ بنا لیا تھا اور سن 1402ءمےں یہاں معدنی ذخائر کی دریافت کے بعد کوسوو کو ولایت رومالیہ کا نام دے کر ایک خودمختار صوبے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ 1455ءکی سرب مزاحمتی جدوجہد کے خاتمہ کے بعد کوسوو مکمل طور پر سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ عملاً 1455ءسے 1912ءتک کوسوو ترک خلافت کا باج گزار رہا۔ 1699ءسے 1683ءکے مختصر عرصے مےں کوسوو پر آسٹریا نے قبضہ جمائے رکھا جبکہ انیسویں صدی مےں البانیہ کے ساتھ کوسوو بھی قوم پرستی کی لہر کی زد مےں آگیا۔
1910ءمےں سلطنت عثمانیہ کے خلاف البانوی سورش پرسٹینا تک پھیل گئی جو جون 1911ءتک، عثمانی خلیفہ کے دورہ کوسوو تک جاری رہی۔ 1912ءمےںجنگ بلقان کے دوران کوسوو کا بیشتر حصہ سلطنت سربیا کے قبضہ مےں آگیا جس کے نتیجہ مےں یہاں سے بڑے پیمانہ پر البانوی مسلمانوں کا انخلا ہوا جس کی رپورٹ روسی اخبار پراودا کے رپورٹر لیون ٹراٹسکی نے تفصیل سے اپنے اخبار مےں شائع کی۔
1915-16ءمےں پہلی عالمی جنگ کے دوران سربیائی افواج کا بڑے پیمانہ پر کوسوو سے انخلا ہوا۔ اس وقت بلغاریہ، آسٹریا اور ہنگری کوسوو پر قابض تھے۔ 1918ءمےں وہ البانیہ کے ساتھ سینٹرل پاور نامی اتحاد مےں مجتمع ہوگئے۔ اسی سال مےں سربیائی فوج نے سینٹرل پاور اتحاد کو کوسوو سے دھکیل دیا اور یوں پہلی عالمی جنگ کے خاتمہ پر یکم دسمبر 1918ءکے روز سربیائی، کروشیائی اور سلوانین علاقوں پر مشتمل ایک نئی سلطنت یوگوسلاویہ وجود مےں آئی۔
1918ءتا 1929ءکے عرصے مےں جب دنیا دوسری عالمی جنگ کی لپیٹ مےں تھی، کوسوو کو چار حصوں مےں تقسیم کر دیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران 1941ءمےں محوری افواج نے سلطنت یوگوسلاویہ پر چڑھائی کر دی اور کوسوو کا بہت بڑا حصہ اطالوی سرپرستی مےں قائم البانیہ کی فسطائی حکومت کے قبضہ مےں آگیا جبکہ کچھ چھوٹے حصے بلغاریہ اور نازی جرمنی نواز سربیائی حکومتوں کے تسلط مےں رہے۔
متعدد شورشوں کے بعد پرسٹینا کے ایک مہم جو فیدل ہوگزا نے البانوی نژاد باشندوں کے ساتھ مل کر 1944ءمےں کوسوو کو آزاد کرایا اور پھر سربیا کے ایک صوبہ کی حیثیت سے کوسوو وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ مےں شامل ہوگیا۔
ایک خودمختار صوبے کی حیثیت کوسوو کا وجود سب سے پہلے 1945ءمےں وجود مےں آیا۔ مارشل جوزف بروز ٹیٹو کے آمرانہ دور مےں 1953ءکے دوران جمہوریہ یوگوسلاویہ کا نام بدل کر سوشلسٹ فیڈرل ری پبلک آف یوگوسلاویہ رکھ دیا گیا۔ تاہم 1960ءتک کوسوو کو اندرونی خودمختاری حاصل رہی اور اس کی قیادت کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے دیئے گئے تھے تاہم 1980ءسے کوسوو مےں نسلی کشیدگی شدت پکڑ گئی۔
مارچ 1981ءمےں البانوی نژاد طلباءنے کوسوو کی آزادی کی مہم شروع کی۔ 1986ءمےں یوگوسلاویہ کے مختلف اداروں نے ملک مےں نسلی انتشار اور خانہ جنگی کے خدشات کے بارے مےں متنبہ کرنا شروع کر دیاتھا۔ 28جون 1989ءکو جنگ کوسوو کی چھ سوویں برسی کے موقع پر جویوگوسلاویہ کے صدر اور سربیا کے نسل پرست رہنما ملاسووچ نے جو تقریر کی تھی وہ بھس مےں چنگاری ثابت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا یوگوسلاویہ شکست و ریخت انتشار اور خانہ جنگی کی لپیٹ مےں آگیا۔ 2جولائی 1990ءکو کوسوو کی ایک خودمختار پارلیمان نے کوسوو کو ایک خودمختار جمہوریہ قرار دیا لیکن یورپی اقوام نے اس پارلیمان اور اس کے اعلان آزادی کو غیر قانونی گردانا۔ عملاً جمہوریہ کوسوو کا وجود 2000ءمےں کالعدم قرار دیا جبکہ کوسوو کے تمام انتظامی ادارے اقوام متحدہ کے امن مشن کے زیر انتظام کام کرتے رہے۔ جمہوریہ کوسوو کے مختصر دور آزادی کو صرف البانیہ نے تسلیم کیا تھا۔
1998ءسے جس خونریز جنگ کوسوو کا آغاز ہوا وہ دراصل کوسوو کے نہتے عوام کے قاتل ملاسووچ اور بچے کھچے یوگوسلاویہ پر قابض نسل پرست سربیائی افواج کی جانب سے البانوی نژاد مسلمانوں کے نسلی پیمانہ پر قتل عام کا ایک سوچا سمجھا مذموم منصوبہ تھا۔ اس دوران 11ہزار کوسوو مسلم ہلاک اور تین ہزار لاپتہ ہوگئے جبکہ بیس ہزار البانوی نژاد مسلم خواتین کو بے آبرو کیا گیا۔ یہ قتل عام مہذب یورپ اور عالمی ضمیر کے منہ پر ایک طمانچہ ثابت ہوا اور بالآخر اقوام متحدہ یورپی یونین اور نیٹو کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے موثر مداخلت کرنی پڑی۔ کوسوو کے اعلان آزادی کو اب تک اقوام متحدہ کے 62سے زائد رکن ممالک تسلیم کر چکے ہےں تاہم سربیا کی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک یہ مرحلہ پوری طرح طے نہیں ہو سکا۔
نگورنو کاراباخ
آرمینیا کوہ قاف کے خطے کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کے مادی وسائل قابل ذکر نہیں ہےں۔ ترکی، ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان واقع یہ ملک چاروں طرف سے خشکی مےں گھرا ہوا ہے۔ وسائل کی کمی، کم آبادی اور جغرافیائی حالات کی نزاکت کے باوجود یہ ریاست توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے۔ اس نے آذربائیجان کی بیس فیصد سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، ترکی کے خلاف بھی جارحانہ رویہ رکھتا ہے اور ترکوں کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں مےں ہمیشہ سرگرم رہا ہے۔
15جنوری 2009ءکو آذربائیجان کے محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس مےں بتایا گیا کہ روس نے آرمینیا کو قریباً 80کروڑ ڈالر کا اسلحہ بطور تحفہ دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی روس آرمینیا کو ایک ارب ڈالر کا اسلحہ بطور گرانٹ دے چکا ہے۔ روس کی پشت پناہی نے آرمینیا کو درندہ صفت بنا دیا ہے۔ روس نے آرمینیا کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دے رکھی ہے۔ روس کوہ قاف اور مشرق وسطیٰ کے قریب ایک قابل اعتماد اور مضبوط ”بیس“ کا خواہاں ہے۔ روس آرمینیا کے ذریعے اس علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ روس اگر خود کسی پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ کارروائی کرے تو اس صورت مےں مغرب کی طرف سے اس پر زبردست تنقید ہو سکتی ہے۔ اس لئے روس آرمینیا کی بھرپور فوجی مدد کر رہا ہے تاکہ علاقے کے تمام ممالک روسی اثرورسوخ کو مدنظر رکھیں۔ دوسرا مقصد خطے مےں بڑھتے ہوئے امریکی اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔
روس نے جدید اسلحہ کی جو موجودہ کھیپ آرمینیا کی مسلح افواج کے حوالے کی ہے۔ یہ اس کے دوغلے پن کی بدترین مثال ہے کیونکہ روس ایک طرف تو بظاہر دونوں سابقہ روسی ریاستوںکے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے تو دوسری طرف جارح کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے۔ روس ہی دراصل وہ فیکٹر ہے جس نے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جھگڑا پیدا کیا۔ آذربائیجان علاقے کے تمام ممالک سے زیادہ وسائل اور صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ روسی حمایت کے بغیر آرمینیا آذربائیجان کےخلاف جنگ تو دور کی بات ہے جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
نگورنو کاراباخ تاریخی لحاظ سے جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے۔ ملک کے اس حصے کا نام دو آذری زبان کے لفظوں کا مجموعہ ہے۔ قرہ یعنی ”سیاہ“ اور باخ یعنی ”باغ“ یوں کاراباخ کا مطلب سیاہ باغ بنتا ہے۔ اس کے جنوب مےں دریائے اراض، شمال مےں دریائے قور جبکہ مشرق مےں ان دونوں دریاﺅں کا سنگم واقع ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی ہر دو لحاظ سے کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کا فطری حصہ ہے۔ نگورنو کاراباخ کا علاقہ پہلے 1980ءکی دہائی کے آخری سالوں مےں اور پھر 1990ءکی دہائی کے شروع مےں آرمینیائی جارحیت کا نشانہ بنا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب سوویت یونین ابھی قائم و دائم تھا۔ اس وقت آرمینیا نے روسی افواج کی مدد سے اور سوشلسٹ قیادت کی منافقانہ پالیسیوں کے طفیل نہ صرف نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا بلکہ اس سے ملحقہ سات دیگر قریبی انتظامی علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا۔ کمیونسٹ روس کے دور مےں آہنی پردے کی وجہ سے اندرون روس کی خبریں آزاد دنیا تک نہیں پہنچتی تھیں۔ آرمینین ہمیشہ سے آذری سرزمین کو زیر قبضہ لانے کے لئے غیر مسلح اور پرامن آذری لوگوں کے خلاف خونی مہمیں چلاتے رہے ہےں۔
تازہ ترین ظالمانہ کارروائیوں مےں جن کا آغاز سوویت دور کے آخری دنوں مےں ہوا۔ ان دہشت انگیز کارروائیوں مےں روسی افواج نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ روسی افواج کی مدد سے آرمینیا کے دہشت گردوں نے پورے نگورنو کاراباخ اور دیگر ملحقہ سات علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سینکڑوں بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور ہزاروں بے گناہوں کو پرتشدد طریقے سے قتل کیا۔ اسلامی دور اور ثقافت کی سینکڑوں انمول نشانیوں کو بھی تباہ کر دیا گیا اور جمہوریہ آذربائیجان کے تقریباً 20فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ ان تمام کارروائیوں مےں آذربائیجان کے دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر کر دیئے گئے جو پورے آذربائیجان مےں بکھرے ہوئے کیمپوں مےں پڑے ہےں۔ آرمینیا اور روسی افواج کی کارروائیوں مےں آذربائیجان کو ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے جس مےں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ 20جنوری 1990ءکو باکو کے گلی کوچوں مےں ہونے والا قتل عام ان سوویت فوجی دستوں نے کیا تھا جو روسی اور آرمینیائی فوجیوں پر مشتمل تھے۔ آذربائیجان کی قوم اس سانحے کو ابھی تک نہیں بھولی اور ہر سال 20جنوری کو ان شہداءکی یاد سرکاری سطح پر منائی جاتی ہے۔
1992ءمےں یورپ کی تنظیم برائے تعاون و سلامتی کا منسک گروپ تشکیل دیا گیا جس کی کوششوں سے 1994ءمےں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی ہوگئی۔ اسی سال 6دسمبر کو بوڈا پیسٹ اجلاس مےں امریکہ، فرانس اور روس پر مشتمل شریک چیئرمینوں کا انتخاب ہوا تاکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مسلح جھگڑے کا پرامن حل تلاش کیا جاسکے۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں مےں بھی آرمینیا کو آذربائیجان کے علاقے خالی کرنے کےلئے کہا گیا ہے اور دنیا پر زور دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک ایسی کارروائی نہ کرے جس سے جارح (آرمینیا) کو قبضہ جاری رکھنے کی شہ ملتی ہو یا قبضہ جاری رکھنے مےں مدد ملے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پوری دنیا نے اس جھگڑے مےں آذربائیجان کے موقف کو درست قرار دیا ہے۔ حقیقتاً آذربائیجان کی جاندار سفارت کاری نے آرمینیا کو نہ صرف دنیا مےں الگ تھلگ کر دیا ہے بلکہ اب آرمینیا پر مقبوضہ علاقے خالی کرنے کے لئے دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔ آذربائیجان نگورنو کاراباخ کو انتہائی درجے کی خودمختاری دینے کو بھی تیار ہے۔
2نومبر 2008ءکو روس، آرمینیا اور آذربائیجان کے صدور نے ماسکو مےں ملاقات کے بعد ایک اعلامیے پر دستخط بھی کئے جس مےں جھگڑے کے پرامن حل پر زور دیا گیا ہے۔ ان حالات مےں روس کی آرمینیا کو اس قدر بڑی مقدار مےں جدید اسلحے کی فراہمی، اس کے دوہرے کردار کی غمازی کرتی ہے۔ یہ ایک بڑی طاقت کے شایان شان نہیں کہ وہ چھوٹے ممالک کے مابین کشیدگی کو ہوا دے۔ روس کے اس منافقانہ کردار سے امن مذاکرات کو نقصان ہوگا اور اس سے آرمینیا کی جنگی صلاحیت مےں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ آذربائیجان چاہتا ہے کہ اس کے علاقے واگزار کئے جائیں۔ جبری بے دخل کئے گئے لوگوں کو اپنے گھروں کو جانے اور دوبارہ آباد ہونے دیا جائے اور اس کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ یورپی سلامتی و تعاون کی کونسل اور دیگر مصالحت کار آذربائیجان کے دعوے کو درست مانتے ہےں اور جھگڑے کے پرامن حل کےلئے اس کی کوششوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہےں۔ ان حالات مےں آرمینیا کو روسی اسلحے کی فراہمی بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے جس کا عالمی برادری کو سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔
٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment