کم آشنائی ، گریز پائی
نہ کم نہ زیادہ پورے ستائیس برس بعد اسے اچانک محسوس ہوا کہ آج دھوپ بہت دھوم دھام سے نکلی ہے۔ اس کے چاروں جانب بے حد شفاف روشنی تھی۔ وہ باہر لان میں کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں سُکیڑیں، تھوڑا کرسی کے پیھچے کھِسکی اور گردن کو کندھوں پر پھینک کر آسمان کی طرف دیکھا تو اسے دھوپ کے ساتھ گلے ملتے ہوئے کئی رنگ نظر آئے ، یہ رنگ ایسے گلے مل رہے تھے، جیسے آج اس کی زندگی سے منسوب وقت کی آگہی اور اس کا تھکا ماندہ وجود۔ لیکن ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے نے اسے چھوا تو اسے آسودگی اور طمانیت کا احساس ہوا۔
وہ ستائیس برسوں میں ایک ہی رنگ ڈھونڈتی رہی ، محبت کا رنگ، شیفتگی کا رنگ، لیکن یہ رنگ اس کی زندگی کے شب و روز میں کہیں نہیں تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زندگی کے اس دراز سلسلے پر پھیلے اپنے وجود کی اکائیوں کو وہ کہاں سے بھورا بھورا چننا اور سمیٹنا شروع کرے۔
ان دنوں اس کی عمر کوئی پانچ ایک سال رہی ہو گی، اس نے محسوس کیا کہ اس کے جواں سال بھائی کی موت کی وجہ سے اس کے گھر والے ایک گہرے آشوب سے گزر رہے ہیں۔ گھر کا ہر فرد ایک لمبی چپ کے حصار میں تھا۔
اس کا مُنا سا وجود یہ گھٹن برداشت نہ کر پاتا تو ہو مئی جون کی تپتی دوپہروں میں چپکے سے گھر سے کھِسک جاتی، اپنی ہی عمر کی دو چار سہیلیوں کو محلے سے اکٹھا کرتی اور گھر کے قریب ہی ایک کھلے میدان میں کہ جہاں کسی کے جلے ہوئے گھر کا ملبا پھیلا تھا ، وہاں پہنچ جاتی، وہ اور اس کی سہیلیاں اس جلے ملبے سے موتی، کانچ کے ٹکڑے ، ڈبیاں شیشیاں ، کوئی ٹوٹا پھوٹا بندیا انگوٹھی تلاش کرلیتیں، اور جب سایے لمبے ہونے لگتے تو وہ اور اس کی منی منی سہیلیاں اپنا اپنا سامان اپنی جھولیوں میں بھرتیں اور گھروں کو لوٹ آتیں۔
وہ اس انتظار میں رہتی کہ سب گھر والے دوپہر کا کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں سو جائیں تو وہ اپنے روزانہ ٹوئر پر روانہ ہو۔ وہ سب جائزہ لیتی ، اور مطمئن ہو کر اپنی چپلیں کستی اور کمرے سے برآمدے میں ، اور پھر صحن سے ہوتی ہوئی ڈیوڑھی تک ابھی پوری طرح پہنچ بھی نہ پاتی کہ اوپر سے ایک منچلا جلدی میں سیڑھیاں پھلانگتا ہوا عین ڈیوڑھی میں آکر اس کے منے سے وجود کو اپنے بازوﺅں میں سمیٹ لیتا، اس کے گالوں پر پیار کرتا اور پھر گودسے اتار کر اس سے پوچھتا ”پروفیسر صاحب! آپ اس دھوپ میں کہاں جا رہے تھے، جب آپ کمرے سے ڈیوڑھی کی جانب آ رہے تھے تو میں آپ کے دوڑنے سے آپ کی منی منی چپلوں کی آواز سن رہا تھا۔ ”پروفیسر صاحب! یہ بتائیے، آپ نے سکول کا کام کرلیا ہے؟“ جواب میں وہ تھوڑا کسمساتی، کیوں کہ سکول کا کام کرنا اسے پسند نہیں تھا۔ ”دوپہر کو گھر سے نہیں نکلتے ، اماں خفا ہوتی ہیں، ہوتی ہیں نا؟“ وہ ایک اور پیار کرتے ہوئے اس سے پوچھتا۔ وہ شرمساری سرہلا کر ہاں میں جواب دیتی اور وہ انگلی پکڑے اسے اوپر لے جاتا۔ دونوں آنکھوں سے بولتے ، دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ جاتے اور وہ مسکرا کر کہتا ”یہ لیجیے پروفیسر صاحب، کاغذ اور پنسل۔ آپ اپنا کام کریں اور میں اپنا کام کرتا ہوں، ٹھیک ہے نا!؟“ وہ کاغذ پنسل لے کے بے حد خوش ہوتی اور پھر پیٹ کے بل لیٹ کر جو جو اس کے من میں آتا، ساری لکیریں اور دائرے کاغذ کے حوالے کرتی جاتی۔ یوں آنے والی زندگی میں قلم اور کاغذ سے اس کا رشتہ استوار ہوا۔ یہ منچلا کیسا سجیلا اور شاندار تھا، یہ سب دیکھنے کے لئے اس ننھی جان کو گردن اٹھا کر دیکھنا پڑتا۔ لانبی قامت، کتابی چہرہ ، قدرے تنگ پیشانی، چمک دار بے چین آنکھیں، کھلے کھلے ہاتھ پاﺅں ، سر پر گھنے بال جنہیں وہ بیچ میں سے مانگ نکال کر سنوارتا تھا، اور جب وہ چلتا تو یہ اس کی چال کی دھمک سے لرزتے تھے۔
سنسان دوپہروں کو وہ کتابوں سے پررونق بناتا، نہ معلوم کیا کچھ پڑھتا اور کیا کیا لکھتا۔ برسوں بعد بھی زینب اس سجیلے اور منچلے بھائی کو ایک سیکنڈ میں اپنے سامنے کھڑا دیکھ سکتی تھی۔ سجا بنا ایک خوب صورت فریم میں فٹ۔ لیکن ہوا یہ کہ یہ منچلے کی دوسراتھ بھی جب اس منی سی زنیب سے چھِن گئی تو اس کا منا سا وجود ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اوپر کا کمرا بے آباد ہوا۔ کتابیں چپ سادھ گئیں اور پروفیسر صاحب کے لئے کاغذ پنسل کی دعوت تمام ہوئی۔ خجل خجل سی دوپہریں ، سہمی سہمی شامیں اور ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے گھر کے افراد۔ کچھ مدت تک کتابوں پر گرد پڑی رہی، لیکن ایک روز اماں نے ہمت کی اور کتابوں پر سے گرد بڑے دُلارسے صاف کی اور الماری میں ان کو ویسے ہی سنبھال سینت کر رکھا دیا، جیسے انہوں نے اپنے کچھ عرصے پہلے چلے جانے والے بیٹے کی وہ ٹوکری سنبھال کر رکھی تھی، جس میں اس نے شیشے کی رنگ برنگی گولیاں سجا رکھی تھیں۔
کمرے کی دیوار پر ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا۔ کیلنڈر پر بنی تصویر والی لڑکی زینب کی ہم عمر ہی تھی، خوب صورت فراک اور جوتے پہنے ہوئے تھی، اور زینب کرسی پر کھڑی بڑے انہماک سے اس لڑکی کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی تھی کہ پاس سے گزرتے ہوئے کسی نے کہا ”زینب یہ تم ہو“ زینب نے بے اعتباری سے یہ کہنے والے کی جانب دیکھا، ”ہاں ! ہاں بھئی یہ تم ہی ہو“! یہ کہنے والی آپا تھیں، اور آپا جھوٹ نہیں بولتی تھیں، سو ایک مدتِ دراز تک وہ خو کو کیلنڈر والی لڑکی سمجھتی رہی ۔۔۔ لیکن ایک دن یہ سپنا یوں ٹوٹا ۔۔۔ ان کے گھر میں کہیں دوسرے شہر سے مہمان آئے تھے، اور انہوںنے دو ایک روز رہنا بھی تھا۔ مہمانوں کے ساتھ تقریبا زینب کی ہم عمر ایک لڑکی بھی تھی۔ زینب نے اس لڑکی کو کھیلنے کی دعوت دی۔ لڑکی اپنی جگہ سے نہ ہلی، تب مہمان خاتون نے اپنی بیٹی کو کہا۔ ”جاﺅنا! کھیلو۔ مجھے تنگ مت کرو۔“ لڑکی نے کھٹ سے اپنی ماں سے کہا ”نہیں میں اس کالی اکلوٹی سے نہیں کھیلتی“۔ لڑکی کی ماں کھسیانی ہو کر ہنسنے لگی، لیکن زینب کے منے سے دل پر اس بچی کے انکار کا یہ پتھر اس زور سے لگا کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی، اور احساس تنہائی اس کے اندر اتنا گہرا ہوا کہ حیرانی ، کم آشنائی اور گریز پائی اس کے مزاج کا حصہ بنیں!!
بہت پرانی بات ۔۔۔ اسے یاد آتی ہے۔ ایک سہ پہر گملوں میں کھاد ڈالتے ہوئے اس نے مالی سے پوچھا کہ کیکٹس کو کتنا پانی دوں؟ تو مالی نے بڑے سبھا سے اسے سمجھایا کہ بی بی جی اس پودے میں جنگل کی خوبو ہے۔ گرمی ، سردی سارے موسم جھیل جاتا ہے۔ اسے پانی تر سا ترسا کر دیتے ہیں۔ سو آنے والے بہت سے وقتوں میں وہ اس نیتجے پر پہنچی کہ زندگی میں میری بڑھوتری، میری برداشت ، پرداخت کیکٹس جیسی ہی تو ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس ایک ہنگامہ ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے اندر اس قد تنہا ہوتی ہے کہ جیسے بھری دوپہر میں تپتی سڑک پر کوئی کسی کا منتظر ہو۔ نہ معلوم ایسا کیوں ہے کہ میں ذہنی طور پر ہمہ وقت سفری کیفیت میں رہتی ہوں۔ ایسی حالت میں وہ سوچتی ، خود سے پوچھتی کہ مجھے کہاں جانا ہے۔
اس کے وجود میں ممتا کے لمس اور باپ کے دُلار کی کسی بھی قسم کی خوشبو موجود نہیں تھی۔۔۔ بہت پرے، ۔۔۔ بہت دور دروازے پر بیل ہوئی، جب کسی نے بھی بیل کی آواز پر توجہ نہ دی تو وہ لپک کر ڈیوڑھی تک گئی، ڈیوڑھی میں دو جواں سال لڑکے کھڑے تھے۔ زینب نے کہا ”جی؟“ لڑکے کچھ نہ بولے۔ زینب نے محسوس کیا کہ بو بغور اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ گھبرا کر یہ کہتے ہوئے واپس آگئی کہ ابا تو گھر پر نہیں ہیں۔
کمرے میں آکر یہ جاننے کےلئے کہ وہ دونوں لڑکے اسے کیوں، بغور دیکھ رہے تھے، وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہوگئی، خود آئینے میں دیکھ کر اس کی آنکھیں ہنس دیں۔ وہ حیرت زدہ تھی کہ اسکے سراپے کی تمام قوسیں اور زاویے مکمل تھے۔ رنگت بھی سانولی نہ لگی۔ اسے اپنا آپ بہت بھلا بھلا سا لگا۔ یہ سوچ کر کہ وہ دونوں لڑکے فقط اسی کو اس قدر محویت سے دیکھ رہے تھے، اس نے اپنے پاﺅں میں پہنی چھوٹی ایڑی کی سینڈل کا اگلا حصہ ہوا میں کھڑا کیا اور بازو پھیلا کر وہ اپنی سینڈل کی ایڑی پر ایک سرشاری کی کیفیت میںکمرے میں گھوم گئی۔
ہاں ایک دفعہ یوں بھی تو ہوا تھا۔ زینب کو جیسے کسی نے ٹھوکا دیا ہو۔ وہ اپنی دوست کے گھر بیٹھی تھی۔ اس کی دوست کے سب بہن بھائی بھی یہیں موجود تھے۔ اسے لگا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تنکا یا پلک گر گئی ہے۔ اس کی دوست کی دوست نے اندر سے شیشہ لا کر دیا، اس نے شیشہ گھٹنوں پر رکھا اور پپوٹا اٹھا کر اندر دیکھنے لگی۔ جب وہ دیکھ چکی تو آنکھ میں آئے پانی کو صاف کرتے ہوئے اچانک اس کی نظریں اپنی دوست کے بھائی پر پڑی جو اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، ستواں ناک ، بڑی بڑی آنکھیں، بالوں میں لہریں ، دُبلا پتلا سا ، دوست کے بھائی کا یوں محویت سے دیکھنا اسے قطعی بُرانہ لگا۔ کیوں کہ کچھ مدت سے اسے احساس ہو چکا تھا کہ لوگ اس کی جانب دیکھتے ہیں، شوق سے اور بغور دیکھتے ہیں اور ان نگاہوں میں ستایش اور لگاوٹ ہوتی ہے۔ دوست کے بھائی نے راہ و رسم بڑھانی چاہی۔ زینب کو بھی اعتراض نہ تھا کہ دونوں کچی عمر کے کھلاڑی تھے۔ لیکن زینب کے اندر سُکڑنے کی کیفیت اور کم آشنائی ، گریز پائی کی خُو سے بات وہیں ختم ہو گئی۔ ایسے والہانہ پن کے دو ایک سلسلے اور چلے، لیکن وہ اپنی موت یوں مر گئے کہ وہ سوچتی کہ چاہنے والا میری صورت کو تو دیکھتا ہے، کیا وہ ’[مجھے“ بھی دیکھتا ہے؟ مجھے پڑھ سکتا ہے؟ مجھے سن سکتا ہے؟
بعض اوقات وقت چلنے میں آواز پیدا نہیں کرتا، اور جب کبھی تھوڑا کھٹکا ہوتا ہے تو اس کے اندر رہنے والا چونک جاتا ہے۔ شیشے کے سامنے تو وہ روز ہی جاتی تھی، لیکن اس روز شیشے نے جیسے اسے تھام لیا، اور وہ حیرت زدہ سی رہ گئی کہ اتنے بہت سارے سال کِدھر پھسل گئے۔
زینب نے سوشل ورک میں ماسٹر کیا تو ساتھ ہی Leave Vacancy پر اس کی اپوائنٹمنٹ ہوگئی، زندگی میں قدرے نئے صبح و شام سے تعارف ہوا۔ لیکن کچھ دنوں بعد نہ کچھ نیا لگا نہ پرانا۔
الحمرا میں ”ابلاغِ عامہ“ کے ادارہ نے ایک انڈین فیچر فلم دکھانے کا اہتمام کیا تھا۔ فلم کے ختم ہونے پر زینب جب باہر آئی، تو تھوڑا تھوڑا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ زینب کی گاڑی ابھی نہیں آئی تھی، جب کہ اس کی کولیگ راشدہ نے بھی اس کے ساتھ ہی جانا تاھ۔ راشدہ اپنے بچے کےلئے مضطرب تھی، کہ وہ گھر پرا کیلا تھا۔ پاس سے گزرتی ایک گاڑی کے اندر راشدہ نے مسکرا کر جھانکا۔ جواب میں گاڑی والے صاحب بھی مسکرائے اور نیچے اتر کر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ راشدہ جلدی سے گاڑی کے اندر بیٹھ گئی۔ جب زینب بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھنے لگی تو راشدہ نے ہنس کر کہا ”بھئی تم تو آگے بیٹھونا، زمان صاحب ہمارے ڈرائیور تو نہیں ہیں!“ لہٰذا زینب اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
”زمان صاحب فلم کیسی لگی؟“ راشدہ نے زمان صاحب سے پوچھا ”بس ٹھیک تھی۔“ زمان صاحب نے مختصر سا جواب دیا۔
”مجھے تو یہ فلم ، فیچر فلم کے بجائے ڈاکو منٹری فلم زیادہ لگی ہے۔ وہی تھرڈ ورلڈ کا استحصال ، سستا خام مال، سستی لیبر، اور کرافٹ تو بالکل ہی کوڑیوں کے مول، ایک بڑی ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ چھوٹی چھوٹی ایسٹ انڈیا کمپنیاں۔ In a Smaller role وہی کمزور کا استحصال اور طاقتور کا اختیار“ زینب نے گردن پیھچے موڑ کر راشدہ سے کہا۔
”تم نے تو ضرور ہی کوئی نہ کوئی Cynical پہلو نکالنا ہوتا ہے۔۔۔ لیکن زینب کس قدر خوب صورت ساریاں تھیں، اور بنانے والے بیچارے تنگ گلیوں اور محلوں میں رہنے والے۔ بیمار، مدقوق اور کم خوراکی کا شکار“۔ ”اور اب کیا تم Cynical نہیں ہو رہی ہو “ ، زینب نے بھی ہنس کر کہا۔ زمان صاحب بھی ہنس پڑے اور کہا۔ ”عورتیں کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں۔ ایسی گفتگو سے باز نہیں رہ سکتیں“۔ اسی طرح دو چار باتیں اور ہوئیں۔ زینب کا گھر پہلے آتا تھا۔ زینب گاڑی سے اتری۔
بیگ ، کتابیں سنبھالے اور ساری دُرُست کرتے وقت اس نے محسوس کیا کہ زمان صاحب نے ایک نظر بغور زینب کو دیکھا۔
”ہوگا“ !! زینب نے سرسری انداز یں سر جھٹکا اور گھر کے اندر داخل ہو گئی۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ کی طرح بات آئی گئی کردی۔
بعض اوقات نہ نگاہوں کا کھیل رچتا ہے، نہ دل میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، اور بات آپ ہی آپ بنتی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اب کی بار زینب کو کم آشنائی ، گریز پائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اور راشدہ کی وساطت سے چند ہی دنوں میں زینب کے گھر والوں نے زینب کی رضا مندی سے زمان صاحب کے ساتھ شادی طے کر دی۔
زمان صاحب ایک Seasonedجرنلسٹ تھے اور اپنے حلقے میں اپنے مضبوط اور متوازن ، موقف کی وجہ سے ایک خاص حیثیت و اہمیت کے مالک تھے۔ ”جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔“ اس فرسودہ کہاوت کے عمل پذیر ہونے پر وہ حیرت زدہ ضرور تھی۔
”آپ میرے بارے میں پہلے سے کچھ جانتی تھیں؟“
ایبٹ آباد کے ایک بڑے ہوٹل کے ایک وسیع لان میں چائے پیتے ہوئے زمان نے زینب سے پوچھا۔
”نہیں بالکل بھی نہیں“ زینب نے جواب دیا۔
”تو پھر ہاں کیسے کر دی؟، آپ تو پڑھی لکھی ہیں“ زمان نے بات آگے بڑھائی ”بس کردی“ زینب مسکرائی ”ویسے آپ نے بھی شاید سنا ہو کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔“ زینب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہاں وہ تو سنا ہے۔“ زمان بھی ہنسا۔ ”اچھا وہ کاکول اکیڈمی جانا ہے نا۔ میں تیار ہوتا ہوں، آپ چائے ختم کرکے آجائیے۔“ زمان یہ کہتا ہوا لان سے اٹھ گیا۔ زینب نے چائے ختم کی۔ فضا میں خنک موسم کا غبار ساتھا۔ زینب نے ایک لمحے کےلئے اس غبار سے پرے بہت دور نگاہ دوڑائی۔ اضطراری حالت میں لان میں سے ایک گھاس کا کا تنکا توڑا، دانتوں میں دبایا، پھر پھینک دیا۔ چائے کی پیالی اٹھائی اور کمرے کی جانب چل دی۔
زینب کی ذہنی سوچ اس کے شوہر زمان کی معمول کی زندگی کے مطابق تھی۔ پڑھنا ، لکھنا، گفتگو کرنا، آناجانا۔ دوست، احباب ، ڈراما، زندگی گویا ایک ہنگامہ تھی۔ اس ہنگامے میں زینب نے خود کو بڑی خوبصورتی سے سمولیا۔ وہ مطمئن تھی، بے حد مطمئن۔
بچے پیدا ہوئے۔ دونوں نے مل کر بڑی ذمہ داری سے بچے پالے۔ وقت جیسے دوڑ رہا تھا۔ بچے بڑے ہوئے۔ قابل اور ذہین نکلے۔ اپنی اپنی پسند کا پروفیشن اختیار کیا۔ زینب اور زمان مطمئن تھے کہ انہوں نے بخوبی اپنے فرائض ادا کیے۔ وقت اس قدر رسانیت سے گزر رہا تھا کہ بعض اوقات زینب سہم جاتی اور معمولی کھٹکے سے بھی چونک اٹھتی۔
بچوں کی شادیاں ہوگئیں۔ پھر بچوں کے بچے آگئے۔ زمان اپنی روٹین کی زندگی میںمصروف رہا، لیکن اب اکثر ایسا ہوتا کہ زینب پوتے پوتیوں کی وجہ سے بہت سی سماجی تقریبات میںزمان کا ساتھ نہ دے سکتی، اور زمان کو اکیلے ہی جانا پڑتا۔ زینب کی عدم موجودگی شروع شروع میں زمان کو محسوس ہوئی۔ لیکن جلد ہی ہر جگہ اکیلے جانے کی عادت پختہ ہوگئی۔ بعض اوقات زینب فارغ ہوتی تو ساتھ جانا چاہتی، لیکن زمان کی جانب سے کوئی گرمجوشی نہ پا کر ارادہ بدل دیتی اور یوں بہت ہی آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ باہر کی زندگی میں دونوں ایک دوسرے سے کیا دُور ہوئے کہ وہ گھریلو زندگی میںبھی ایک دوسرے کےلئے اجنبی بنتے چلے گئے۔ زینب سوچتی کہ یہ شخص میرے پاس تو ہے لیکن میرے ساتھ نہیں۔ زینب نے اپنے خدشات یا شکایات کا اظہار زمان سے کبھی نہی کیا تھا۔ لیکن کچھ دن پہلے کسی نے فون کرکے ایک افواہ اس کے کان میں ڈال دی۔ زینب نے بڑے تجایل سے افواہ سنی، اور بڑی فراخ دلی سے ٹال گئی۔ زینب کوئی گھاگ عورت نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ اول و یہ بات سچ نہیں ہے اور اگر میں پوچھوں گی بھی تو مذاق کا رنگ دے کر پوچھوں گی۔ سو ایک دن دوپہر جب زامان اخبارات پھیلائے کام کررہا تھا، زینب کافی بنا کر لائی، اور زمان کے ساتھ صوفے کے بازو پر بیٹھتے ہوئے ایک خاتون کا نام لے کر بولی ”لوگ کہتے ہیں کہ شمسہ آج کل اس طرح سے آپ کے صوفے کے بازو پر بیٹھتی ہے، یعنی اس طرح سے جیسے میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی۔“ زمان نے کافی کی پیالی زمین پر رکھی، اور ایک زور کا دھکا زینب کو دیتے ہوئے کہا ”ہاں آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شمسہ اس طرح بیٹھ سکتی ہے، آپ نہیں بیٹھ سکتیں“ اور پیالی کو ٹھوکر مارتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اس دھکے میں نفرت تھی، حقارت تھی اور زینب کے وجود سے بیزاری تھی۔ اس دھکے نے زینب کے ذہن مین کربلا سی جگا دی۔ اس کربلا نے زینب کو بہت رلایا، کھپایا اور آخر کار اس نے خود سے یہ جھوٹ بولا ”زمان نے دھکا تو نہیں دیا ہوگا۔ میں ہی توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ لیکن وہ اقرار وہ جملہ تو زمان نے ہی بولا تھا“۔ اس سے آگے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی۔ اس واقعے کو دو ہفتے گزرچکے تھے، لیکن وہ خود کو ابھی تک نارمل نہ کر سکی تھی۔ آج رات بھی وہ جاگتی رہی تھی، لیکن صبح صبح وہ ٹھنڈے پانی سے نہائی، سر میںبھی بہت سارا ٹھنڈا پانی ڈالا، اور ایک خوب صورت ساری پہن کر چھوٹے لان میں کرسی ڈال کر بیٹھ گئی، صبح کی خنک ہوا نے اسے مزید سکون بخشا، دن بھر وہ اپنے ذہن کی انگلی پکڑے نہ معلوم کہاں کہاں گھومتی رہی۔
ستائیس سال یا ستائیس صدیاں ، بعض لمحوں میں عمر کے تمام موسم جوان ہو جاتے ہیں اور مٹے، دھندلے نقوش اُجاگر ہو جاتے ہیں۔ مجھے خود کو ایک بڑے سچ کے سپرد کرنا ہی ہوگا۔ ایسا سچ جسے میں تا عمر جھٹلاتی رہی ہوں۔ جب بھی خیال آیا سر کو جھٹکا اور آگے نکل گئی۔
نومبر کا آغاز ، فضا میں ہلکی خنکی، سہ پہر کے ڈھلتے لمحوں کا وقت ، یونیورسٹی کے لان میں کتابیں بکھیرے میں اور وہ بیٹھے تھے کہ عالم لہجے میں بات کرتے کرتے اچانک اس کا لہجہ گمبیھر ہوا، جیسے اس میں مدھ گھول دی گئی ہو۔ وہ بولا ”مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا۔“ ۔۔ اس کے بعد نہ معلوم کیا ہے؟ وہ گویا خود سے گویا ہوا۔ میں نے حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ اس کے چہرے اور آنکھوں کے مدھ بھرے تاثر سے میں ششدر اور خوفزدہ سی، کن اکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوئی آہستگی سے لان سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی تھی کہ ”مجھے معلوم نہیں۔“ یہ مصرع مدتوں میرے ساتھ رہا، اور آج بھی پورے سیاق و سباق کے ساتھ میرے ذہن میں موجود ہے۔
۔۔۔ دادی ۔۔۔ دادی ۔۔۔ د۔ا۔د۔ی کھانا لگ گیا ہے، مما بُلا رہی ہیں۔ اس کی پوتی نے لاڈ سے اپنا سر زینب کے زانوﺅں پر رکھ دیا۔ زینب نے پوتی کے بالوں کو سہلایا۔ اس لمس سے زینب کے سارے وجود میں شگفتگی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ عجب جبر مشیت ہے کہ اولاد کی محبت، آپ کےلئے ہزار پایہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ہزار پایہ بِنازہر کے ہے، لیکن تا عمر آپ کو جکڑے رکھتا ہے۔ پچھلے ستائیس سالوں سے اس کی زندگی کی سلیٹ پر فقط زمان لکھا ہوا تھا۔ لیکن پچھلے چند دنوں سے یہ لفظ اپنی آب و تاب کھوتا جا رہا تھا، دھندلا ہوتا جا رہا تھا۔ ردِ ذات نے ایک دفعہ پھر اسے کم آشنائی ، گریز پائی کے Cocoon میں دھکیل دیا تھا۔ ”زندگی نسبتاً سہل ہو جائے گی۔“ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے نہایت سکون سے سوچا۔
زینب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔ وہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں سمیٹتی ساری کی سلوٹیں سنوارتی کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی بہو نے کہا ”آئیے آنٹی ہم دونوں تو کھانا کھائیں، جب اور کوئی آئے گا تو کھالے گا۔ ساس بہو کی نظریں ملیں۔ بہو کی آنکھیں متورم تھیں۔ او آواز میں زکام کی کیفیت تھی۔ "The same old story" زینب نے دل میں ملال سے سوچا ، لیکن جب وہ کرسی سے اٹھ کر فریج میں سے دہی نکال رہی تھی تو وہ گُنگُنا رہی تھی ”مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا“ اور زینب کی پوتی حیران ہو کر دادی سے پوچھ رہی تھی۔ ”دادی آپ تو گا رہی ہیں۔ آپ کو گانا آتا ہے؟“
بند کمروں کی شناسائیاں
دو چار روز سے گھر میں کچھ ہو رہا تھا۔ اس کے بچے اور میاں کچھ پلان کررہے تھے۔ فون آ، جا ، رہے تھے اور اس کا میاںبچوں کو بتا رہا تھا کہ ہاں فلاں وقت ٹھیک ہے، ہاں ہاں فلاں کا گھر بھی صحیح رہے گا۔ زرینہ کو اس تمام Activity سے یہ پلے پڑا کہ کسی بڑی خاتون شخصیت سے ملاقات کا وقت اور مقام طے ہو رہا تھا، اور اس تمام ہیجان کا موضوع یہ ملاقات تھی۔ وہ پریشان تھی کہ یہ سب کارروائی بالا ہی بالا کیوں ہو رہی ہے، جب کہ وہ خود براہِ راست ، سالہا سال سے عملی طور پر اسی مضمون اور موضوع سے وابستہ تھی۔۔۔ زرینہ کا میاں ملک کے ایک بڑے ادارے کا ڈائریکٹر تھا اور شادی کے بعد زرینہ نے بھی اس ادارے میں آنریری حیثیت سے کام شروع کر دیا تھا۔ تو پھر آج اسے اہم شخصیت سے ملنے کےلئے کیوں نظر انداز کیا جا رہا تھا؟ کمال ڈھٹائی ہے اس نے سوچا۔ پھر اس نے اپنے آپ ہی یہ یقین کرلیا کہ اصل میں وہ اسے سرپرائز دیں گے اور عین وقت پر اسے بھی ساتھ چلنے کو کہیں گے۔ یہ سب سوچ کر وہ مطمئن ہوگئی۔
رات بھر بارش ہوتی رہی تھی، اور دن بہت روشن اور چمکیلی دھوپ لے کر نمودار ہوا تھا۔ زرینہ نے دھوپ کو غنیمت جانا اور ایک بڑا کمبل جسے وہ بہت دنوں سے دھلوانے کا ارادہ رکھتی تھی، اس کےلئے چھیماں سے کہا ”ٹب میں صرف ڈالو اور کمبل بھگو دو“ وہ یہ سب خود کھڑے ہو کر کروا رہی تھی۔ لیکن اس کے دل اور ذہن میں ایک بے چینی تھی۔ اس کا شوہر اور بچے تیار ہو چکے تھے، لیکن زرینہ خود ابھی تک کسی سرپرائز کے انتظار میں تھی۔۔۔ وہ چھیماں کو خواہ مخواہ ڈانٹے جا رہی تھی، اور چھیماں حیران ہو کر اسے تک رہی تھی کہ میں سب کام ٹھیک کر رہی ہوں،پھر بھی بی بی جی مجھے ڈانٹے جا رہی ہیں۔۔۔ گیٹ کی جانب زرینہ کی پیٹھ تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ ایک گاڑی آئی ہے۔ زرینہ اوٹ میں ہو گئی، گاڑی سے ایک خاتون اتریں۔ بیل بجائی ، جواب میں اس کا شوہر اور بچے کھٹاکھٹ باہر نکلے اور گاڑی ریورس ہو کر گیٹ سے باہر نکل گئی۔ زرینہ جہاں کی تہاں کھڑی رہی۔ اور جو بارش رات کو تھمی تھی، وہ اس وقت اس کی آنکھوں میں اتر آئی۔ زرینہ کو اپنا وجود رستے میں گرے پڑے کنکر اور پتھر سے زیادہ بے وقعت لگا۔۔۔۔
یہ عورت جس کے ساتھ ابھی ابھی اس کے بچے اور میاں گئے تھے۔ اس کے میاں کے ادارے میں نئی نئی وارد ہوئی تھی۔ بے حد معمولی شکل و صورت اور منحنی وجود کے باوجود اسے مردوں کی نفسیات سے آگہی تھی اور پھر اس سے کھیلنا، ان کو استعمال کرنے کا گُر اس عورت کو خوب آتا تھا۔ کسی سے لگاوٹ یا کسی کی خوشامد اور کسی سے متاثر ہونے کا ذکر کرکے اس نے بہت تھوڑی مدت میںبہت سی عورتوں اور مردوں کو پچھاڑ دیا تھا، اور اپنے لیے اس ادارے میں ایک قابلِ ذکر جگہ پیدا کرلی تھی۔
۔۔۔۔٭۔۔۔۔
زرینہ اپنے خاندان کی دوسری لڑکیوں سے مختلف تھی، وہ ایک جاگتے اور سوچتے ذہن کی مالک تھی۔ اسے مباحثوں پر، مشاعروں میں اور سیمیناروں میں جانا اچھا لگتا تھا۔ عام لوگوں سے ملنا، بات کرنا اس کے شعور کو بڑھاوا دیتا تھا۔
وہاب نے سرِ راہے اسے کہیں دیکھا۔ پتا کرتا کراتا زرینہ کے گھر والوں تک پہنچا اور اسے پروپوز کر ڈالا۔ زرینہ کو کوئی اعتراض نہ تھا کہ آنے والا شخص کئی حوالوں سے اپنی شناخت رکھتا تھا، اور یہی زرینہ کی بھی خواہش تھی۔ یوں وہ ایک دوسرے کے ساتھی بنے۔
رت جگوں کی محفلیں جمیں، دوست احباب قہقہے، ایک دوسرے کےلئے دل میں محبت اور نگاہ میںمٹھاس ، وہاب نے کیا کھایا، اس نے ٹھیک سے کھایا۔ زرینہ نے کیا پہنا، وہ پہن کر اچھی لگی، وہاب بتاتا۔ زرینہ دن بدن نکھرتی گئی۔ ریستوران میں چائے پیتے ہوئے وہاب زرینہ کو ٹھوکا دیتا۔ زرینہ پوچھتی ، کیا ہے بھئی؟ وہ جو فارنرز اس میز پر بیٹھے ہیں نا، وہ تمہیں بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ یعنی کھیوڑہ کی نمک کی کان ان کو اچھی لگ رہی ہے۔ وہاب ہنستا اور زرینہ شرمندہ سی ہو کر بات ٹال دیتی۔
زندگی اس قدر بھرپور، اس قدر بھرپور کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ وہاب اور زرینہ ایک دوسرے سے گھلے ملے۔ بحث ،مباحثے ، دلیل ، تکرار ، بہت کچھ کھلا ، لیکن جب ذہن کھلنے لگے تو روزمرہ میں ایک ٹھہراﺅ سا آگیا اور پھر ۔۔۔ زرینہ کے دل، دماغ اور نگاہوں میں وہ جولش لش کرتا ہوا ہرا کچور زندگی کا نظارہ تھا، وہ ایسے لگنے لگا جیسے اس پر کسی نے زہریلی کھاد کے کچھ قطرے انڈیل دیے ہوں، اور اب وہ لش لش کرتا نظارہ جگہ جگہ سے سوکھ کر ککھوں کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
وہاب کے ذہن کی بہت سی سطحیں تھیں اور ان سطحوں کی بہت سی پرتیں تھیں۔ اس کی شخصیت کی تمام سطحیں اپنا اپنا مقام رکھتی تھیں۔ لیکن ایک سطح ایسی تھی، جس نے وہاب کومات دے رکھی تھی، اور اس پر اس کو کسی طور قابو نہیں تھا، اور یہی وہ سطح تھی جو یخ ہوا بن کر ان کی از دواجی زندگی میں چلنی شروع ہو گئی۔ وہاب کا یہ نیا رخ زرینہ کےلئے، بے حد جان لیوا تھا، وہ ذہنی طور پر بے حد نڈھال اور ویران ہو گئی۔ بہت سے گدرائے موسم سچ اور شک کو نتھارنے میں رایگاں گئے۔ وہاب کے سنگ سنگ چلنے کی خواہش مین زرینہ نے اپنی سوچوں کے بہت سے جگنو اپنی مٹھی میں ہی مسل ڈالے تھے، اور اپنی عمر کے خوبصورت زمانے پر کائی سی مل دی تھی۔
وہاب دیر سے گھر آنے لگا۔ کبھی کام کی زیادتی کا ذکر، کبھی گاڑی خراب ہونے کی شکایت، کبھی کچھ ،کبھی کچھ۔ زرینہ سب سچ سمجھتی رہی۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھی کہ کہیں وہاب کے یہ عذر جھوٹ نہ ہوں۔ اس کے ذہن میں اپنے شوہر کی قدر تھی۔ ایک متوازن تصویر تھی، اور وہ کبھی کسی طور بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے تصور میں کوئی دراڑ آئے۔ ویسے بھی اس کے ذہن میں شوہر اور بیوی کا الگ الگ زندگی گزارنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔
ہاں مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔
کوئی بات نہیں مرد تو ایسے کرتے رہی رہتے ہیں۔
سوسائٹی میں رائج اس عام رویے کو زرینہ کسی طور بھی برداشت کرنے کے لئے خود کو آمادہ نہ کرپائی۔
شاید ذہنی دوسراتھ میں میں وہاب کے ساتھ نہیں چل سکی ہوں۔وہ اپنے کھلے ذہن سے سوچنے کی کوشش کرتی۔ لیکن وہاب کے رویے میں کہیں ہچکچاہٹ یا معذرت نہ پا کر وہ سوچتی کہ میں نے اس کے ساتھ سب کچھ Shareکیا ہے۔ دکھ سکھ اس کی سوچ اپنا وقت ، اپنا وجود لیکن اس نے صرف اس قدر Shareکیا کہ اپنے سرکل میں یہ تاثر دے سکے کہ وہ ایک کھلے ذہن کا مالک ہے۔
بے اعتنائیوں نے شک پیدا کیا، اور شک کی یہ دیمک ان کی زندگیوں میں سر سرانے لگی۔ کئی کئی دن ان میں مکالمہ نہ ہوتا۔ زرینہ کھانا دیتی۔ کھانا اکثر خاموشی سے ختم ہوتا۔ پانی ، صابن، تولیہ، زرینہ کو برسوں پہلے دیکھی ایک فلم کا مکالمہ یاد آ جاتا۔ جس میں راتوں کے ہاتھوں و اماندگی کا شکار شخص صبح دم بیوی کے چہرے پر نگاہ ڈالے بغیر پانی، صابن، تولیہ مانگتا۔ بیوی فقط ہاﺅس کیپر ہے، زرینہ سوچتی رہتی۔
گزرتا وقت اپنے دامن میں منفی تبدیلی لایا۔ خطوں کا لہجہ بدلا۔ وقت کا مزاج بدلا۔ بات کرنے میں تکلف اور سرسری پن آیا۔ بچے آ گئے، دونوں کے درمیان کمیونیکیشن کم ہوتی چلی گئی۔ دل کے رزق کی کمی نے دونوں کے نرم، گرم جذبوں میں قحط کی دہائی مچا دی۔
Vanity was stronger than love at Sixteen
لیکن میں سکارلٹ اوہارا نہیں ہوں، اور نہ ہی میں سولہ برس کی ہوں۔ اس نے تلخی سے سوچا۔ رنج اور تنہائی اس کی سوچوں کو بھٹکا لے جاتے۔ اس نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ لڑکپن میں اچھا لگا یہ فقرِہ اسے خواہ مخواہ یاد آگیا تھا۔
بچے سکول جاچکے تھے۔ چیزیں سمیٹتے ہوئے اس کی نظر آئینے پر پڑی۔ آئینے میں ایک موٹی، بھدی ، چھائیوں بھرے چہرے ، حلقے پڑی آنکھوں ، جٹاﺅں جیسے خشک بالوں اور اجڑے پجڑے چہرے والی ایک عورت کھڑی تھی۔۔۔ میں ۔۔۔ ایسی تو نہ تھی۔ وہ روسی دی۔ میں اچھی بھلی تھی۔ لوگ مجھ سے بات کرنا پسند کرتے تھے۔ لیکن کیا وہاب کو میرا اس قدر بد صورت اور خوفناک ہوتے جا نا نظر نہیں آیا؟ اس نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ میں موٹی اور بھدی ہوتی جا رہی ہوں۔ شاید اس نے مدت دراز سے مجھے نگاہ بھر کے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اس روز زرینہ بلک بلک کر روئی تھی۔ روتے روتے اچانک اسے ماں کی بات یاد آ گئی۔ اماں بہت پڑھی لکھی نہ تھی، لیکن زندگی کامشاہدہ بہت بھرپور تھا۔
اماں کہا کرتی تھیں ”وقت کو گزارتے نہیں، سہتے ہیں۔ اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ اسے اپنے جسم کی گرمی پہنچاتے ہیں۔ تب کہیں جا کے یہ آپ کا بنتا ہے۔ ماضی کچھ بھی نہیں۔ ماضی کو انسان ورت اور ہنڈا چکا ہوتا ہے۔ بس جو کچھ ہے حال ہے ، آج ہے، یہ لمحہ ہے۔ اور اماں یہ بھی تو کہا کرتی تھیں۔ زرینہ کو یاد آیا ”اپنا دکھ کسی سے مت کہو، کیوں کہ بہن بھائی جوں جوں اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ برادری او رشریکا بنتے چلے جاتے ہیں۔ سو اپنا دکھ اپنے پاس بہت سنبھال کے رکھو۔“
زرینہ نے انہیں لمحوں میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنا ہر مسئلہ اپنے تک رکھوں گی، اور میں اپنے آج کو سنواروں گی۔ اسے سینے سے لگاﺅ ںگی۔ وہ نہائی ، دھوئی اچھے سے کپڑے پہنے، بال بنائے اور خود میں شگفتگی پیدا کرنے کی کوشش کی، اور چلتے پھرتے ، گھر میں کام کرتے ہوے اپنی میٹھی سی آواز میں مدت دراز کے بعد گنگناتی رہی۔
No comments:
Post a Comment