Ad

Ad

Saturday, 22 September 2012

Mekhsm Gorki (Mazmoon)


میکسم گورکی
سید نوید عباس
ہر زبان میں چند ایسے ادیب اور شاعر ضرور پیدا ہوئے جن کی عظمت کو صدیوں یاد رکھا گیا۔ بے شک ان بڑے ادیبوں کے درمیان معاصرانہ چشمک جاری رہی، وہ ایک دوسرے میں خامیاں ڈھونڈتے رہے، ایک دوسرے پر اپنی قادر الکلامی کی دھونس جماتے رہے لیکن آنے والی نسلوں کے ان کی عظمت کو تسلیم کیا اور وقت کی دھول ان کے خدوخال نہ دھندلا سکی۔ اردو ادب پر نظر ڈالئے۔ میر، درد اور سودا تینوں اساتذہ ایک ہی عہد میں جئے اور اب تک زندہ ہیں۔ میرا انیس اور دبیر دونوں اساتذہ شعرا کی عظمت مسلم ہے۔ غالب ، مومن اور ذوق ایک ہی زمانے کے مستند شعرا ہیں۔ انگریزی شاعری میں بائرن ، ورڈزورتھ ، کولرج ، شیلے اور کیٹس نے ایک ہی عہد میں آنکھ کھولی اور شاعرانہ عظمت کی بلندیوں کو چھوا۔ فرانس کے لوگوں نے وکٹرہیوگو، فلابیئر، موپساں اور بالزاک کو ایک زمانے میں سانس لیتے دیکھا۔ چاروں اپنے اپنے فن میں بے مثال تھے۔ ایسا ہی عہد روس میں بھی آیا جب پانچ بڑے نثر نگار، ڈراما نویس، ناول نگار ، بیک وقت گھومتے پھرتے نظر آئے۔ چھوٹی موٹی معاصرانہ چشمک جاری رہے مگر پانچوں کے پانچوں عالمی ادب میںنامور کہلائے اور دنیا نے ان کے فن کی عظمت کو تسلیم کیا۔ یہ ٹالسٹائی ، دوستو، یفسکی ، چیخوف، میکسم گورکی، اور ترگنیف تھے۔ سینئر ناول نگار ٹالسٹائی ، دوستویفسکی اور میکسم گورکی کے بارے میں کبھی کبھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا لیکن گورکی اور دوستویفسکی نے کبھی کھل کے ٹالسٹائی کے بارے میں رائے کا اظہار نہیں کیا۔ دوستویفسکی ہمیشہ مقروض رہا، وہ اکثر ترگنیف سے پیسے ادھار لیا کرتا تھا۔ جب کبھی وہ پیسے دینے سے انکار کردیتا تو دوستویفسکی اس سے ناراض ہو جاتا اور اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتا۔ ایک بار تو اس کو اتنا غصہ آیا کہ ترگنیف کا کرادار اپنے ناول میں لکھ ڈالا اور اپنا سارا غصہ اس کردار کی تشکیل میں اتار دیا اور اس کردار کو جی پھر کر بُرا بنایا۔ جہاں تک میکسم گورکی کا تعلق ہے تو ٹالسٹائی شاید اس سے حسد کرتا تھا اور اسے پسند نہیں کرتاتھا۔ اس بات کا گواہ چیخوف ہے۔ ایک بار ٹالسٹائی نے باتوں باتوں میں کہا: ”پتا نہیں کیوں مجھے میکسم گورکی اچھا نہیں لگتا۔ وہ ہر وقت ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے جیسے اس نے جا کر اپنے خداکو ساری تفصیل بتلانی ہے۔“ چیخوف نے کہا: ”نہیں ایسی بات نہیں۔ میکسم گورکی کی بہت اچھاآدمی ہے“ ٹالسٹائی نے کہا: ”بالکل نہیں۔ اس کی ناک بالکل بطخ جیسی ہے صرف بدمزاج لوگوں کی ناک ایسی ہوتی ہے۔ عورتیں اسے پسند نہیں کرتیں۔ عورتیں تو کتوں کی طرح اچھے آدمی کو پہچان لیتی ہیں“ ٹالسٹائی کی ناپسندیدگی اپنی جگہ۔ میکسم گورکی اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ اکثر چیخوف کے ساتھ ٹالسٹائی کو ملنے ٹالسٹائی کی جاگیر Yasnaya Polyana جاتا تھا۔ اس نے کئی مضامین میں ٹالسٹائی کی تعریف کی ہے اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ انقلاب روس کےلئے راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار نبھایا، زندگی کے قیمتی سال جیل اور جلاوطنی کی نذر کئے، مثالی ڈرامے ، سیاسی تجزیے اور مضامین لکھے۔
Aleksey Makismovich Peshkov نامی شخص کو ساری دنیا میکسم گورکی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ روس کا نامور ادیب، ناول نگار، ڈراما نویس، سیاسی تجزیہ نگار اور عملی سیاست کا سرگرم رکن تھا۔ میکسم گورکی کی 16مارچ 1868 ءکو روس کے شہر Nizhny Novgorod میں پیدا ہوا۔ بچپن میں باپ فوت ہو گیا۔ اس کا بچپن بہت مفلسی اور بھاگ دوڑ میں گزرا۔ 12سال کی عمر میں وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس فرار کی وجہ اپنی دادی کی تلاش تھی۔ دادی اچھی داستان گو تھی بس اس کے ساتھ اس نے اپنا بچپن گزارا۔ گورکی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ دادی کی موت نے اسے ذہنی طور پر پریشان کر دیا۔ اس نے خود کشی کی کوشش کی مگر بچالیا گیا۔ دادی کی موت کے بعد اس کی دربدری کا زمانہ شروع ہوا اور وہ پانچ چھ سال سارے روس میں خشک پتوں کی طرح اڑتا پھرتا رہا اورمختلف کام اور مزدوریاں کرتا رہا۔
اس کی سوانح عمری ”بچپن“ میں اس دربدری کی تفصیل موجود ہے۔ جب اس نے لینن کو اپنے بچپن کی یہ روداد سنائی۔ یہ 1908 ءکی بات ہے جب وہ اٹلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ لینن نے یہ تفصیل سن کر کہا: ”تمہاری داستان بہت دلچسپ ہے اس کو ضرور قلم بند کرو“۔ گورکی نے لینن کی بات کو عملی جامہ دپہنایا اور 1915ءمیں اس کے بچپن کی یہ داستان پچپن کے نام روس میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے چھپنے کے بعد آرمینیا کے ایک مصنف نے گورکی کو لکھا تھا: ”میرے خیال میں یہ کتاب روسیوں کی زندگی کی حقیقی کہانی ہے لیکن اسے پڑھ کر فرانس کے لوگ بھی اسے اپنی کہانی سمجھیں گے۔ میں روسی نہیں ہوں لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آرمینیا کے لوگوں کی کہانی ہے۔ تمہاری اس کتاب کا یہ وصف ہے کہ یہ بنی نوع انسان کی کہانی بن گئی ہے۔
ایک روسی نقاد نے اس کتاب کو پڑھ کر کہا: ”اس کی صرف یہی اہمیت نہیں کہ یہ آرٹ کا شاندار نمونہ ہے بلکہ یہ ایک مصنف کی سوانح عمری ہے جسے پڑھ کر ہم اس کی تحریروں کی اہمیت سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اس میںبہت آنسو ہیں، بہت زخم ہیں، بہت اداسی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک مسرت سے لبریز گیت ہے۔“ میکسم گورکی نے روسی ادب میں سوشلسٹوں کی روایتی حقیقت نگاری کی بنیاد رکھی۔ ایک عرصے تک گورکی اخباروں میں نام بدل کر لکھتا رہا۔ نام بدلنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وہ تحریریں اور مضامین روسی حکومت کےخلاف تھیں۔ گورکی کا بحیثیت مصنف تعارف اس کی پہلی کتاب ”مضامین اور کہانیاں“ سے ہوا۔ اس کتاب میں اس نے سماج میں جبر کے زیر اثر زندگی گزارنے والے لوگوں کے بارے میں لکھا۔ ان سختیوں اور زیادتیوں کا ذکر کیا جو وہ زندگی میں برداشت کررہے تھے۔ ان ذلتوں اور مظالم کا ذکر کیا جو ان کا مقدر بن چکی تھیں اور ان کے اندر چھپی اچھائیوں اور خوبیوں کو بے نقاب کیا۔ ایسا کرتے ہوئے دراصل وہ روسی سوشل زندگی کے خلاف ایک آواز بن چکا تھا۔ 1899ءمیں وہ مارکسسٹ سوشل ڈیموکریٹک تحریک کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ لوگوں کو ارد گرد کی سماجی برائیوں کے بارے میں باخبر کرنے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انقلابی ذہین کی تیاری میں تحریک کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ وہ زار حکومت کے خلاف لکھنے لگا اور کئی بار اسے جیل جانا پڑا۔ 1902ءمیں اس کی لینن سے دوستی ہو گئی۔ اس نے پریس کی آزادی کےلئے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1902ءہی میں اسے ادبی اکیڈمی کا ممبر بنا دیا گیا۔ چیخوف بھی اس اکیڈمی کا ممبر تھا۔ لیکن کچھ عرصے بعد گورکی کو بادشاہ کے حکم سے نکال دیا گیا۔ احتجاجی طور پر چیخوف نے بھی ممبر شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ روسی انقلاب کے دوران میکسم گورکی کی فعال حیثیت سے سرگرم رہا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی بالشویک شاخ سے منسلک رہا۔ اس زمانے میں گورکی کے سیاسی ڈراموں نے بہت دھوم مچائی۔ اس کا ڈراما The Lower Depths بڑا مقبول رہا۔ 1906 ءبالشویک پارٹی نے اسے فنڈ اکٹھا کرنے کےلئے امریکہ کا دورہ کرنے کےلئے بھیجا۔ اس دورے کے دوران اس نے Adirondack کے مقام پر اپنا مشہور زمانہ نال ”ماں“ لکھا۔ انقلاب روس کے دوران اس نے پال اور پیٹرنامی قلعوں میں جیل بھی کاٹی۔ اس دوران اس نے ایک ڈراما (Children of the Sun) بھی مکمل کیا۔ یہ ڈراما 1962ءمیں پھیلنے والی ملیریا کی بیماری کے پس منظر میں لکھا گیا تھا جس میں شامل واقعات میں آفاقی سچائی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ میکسم گورکی روسی انقلاب سے پہلے بھی وقفے وقفے سے جلاوطنی کی سزا کاٹتا رہا۔ انقلاب کے بعد بھی صحت کی خرابی کی وجہ سے ملک سے باہر جاتا رہا۔ 1906 ء، 1913 ءتک کا اٹلی میں قیام خرابی صحت کی وجہ سے ہی تھا۔ اس قیام میں خرابی صحت کے ساتھ ساتھ پارٹی سے سیاسی اختلافات بھی تھے۔ گورکی روس کا سوشل جمہوریت کے گن گاتا رہا اور اس نظریے کا قائل رہا کہ روس کے انقلاب میں معاشی اور سیاسی حالات سے زیادہ کلچر کا ہاتھ ہے۔ اس نے اپنی اس فلاسفی کو God Building کا نام دیا۔ لینن اس سے اختلاف رکھتا تھا لیکن گورکی انسان کی اخلاقی روحانی آگاہی پر زور دیتار ہا۔ 1913ءمیں وہ واپس روس آیا۔ تنقیدی مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔ اپنی سوانح عمری کا پہلا حصہ لکھتا رہا۔ اپنا اخبار نئی زندگی (New Life) نکالتا رہا۔ بالشویک پارٹی نے اس کے مضامین پر سنسر شپ لگا دی۔ ان مضامین میں میکسم گورکی نے لینن کا زارِ روس سے موازانہ کیاتھا۔ اور سخت تنقید کی تھی۔
”ماں“ ایسا شاہکار ناول لکھا جس کے تراجم دنیا کی تقریباً ہر زبان میں کئے جا چکے ہیں، یہ اشتراکی حقیقت نگاری کی مکمل دستاویز بھی ہے۔ 1921ءمیں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اس کی ایک ساتھی مصنفہ (ANNA) کے خاوند Nikolai Gumilyov کو نظریاتی اختلاف کی بنا پر پولیس نے گرفتار کرلیا۔ گورکی ماسکو گیا لینن سے ملاقات کی اور اس کی رہائی کے احکامات حاصل کئے۔ لیکن جب گورکی Petrograd پہنچا تو (Gumilyov) کو گولی مار دی گئی تھی۔ گورکی اسی سال اکتوبر میں اٹلی چلا گیا۔ اس کی بیماری حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ وہ مالی حالات کے ہاتھوں بہت پریشان رہا۔ کئی بار روس آیا اور پھر اٹلی چلا گیا۔ 1932ءمیں جوزف سٹالن نے اس سے درخواست کی کہ وہ اب روس واپس آجائے۔ اسے سٹالن نے لینن انعام دیا۔ رہنے کے لئے عالی شان گھر دیا(جواب گورکی میوزیم ہے) سٹالن اس کے گھر آیا۔ گورکی نے اس کے سامنے اپنی ایک کہانی پڑھی جس کا نام ”ایک لڑکی اور موت“ (A Girl and Death) سٹالن کو یہ کہانی اتنی اچھی لگی کہ اس پر خوش ہو کر ایک جملہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ جملہ یہ تھا: ”یہ کہانی گوئٹے کے ”فاﺅسٹ“ سے کہیں زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں موت محبت کے ہاتھوں شکست کھا جاتی ہے۔ یہ تعریف اپنی جگہ مگر سٹالن اور گورکی کے درمیان اب اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات سرد جنگ کی صورت اختیار کر گئے۔ اندر ہی اندر گورکی کو سٹالن سے خطرہ محسوس ہونے لگا اور گورکی کو غیر علانیہ طور پر ماسکو میں اس گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ 1934ءکو میکسم گورکی کا بیٹا فوت ہوا۔ جون 1936 ءکو میکسم گورکی فوت ہو گیا۔ سٹالن اور مالوخوف نے اس کے جنازے کو کاندھا دیا اور اس کے تابوت کو قبر میں اتارا۔ ایک عرصہ اس کی موت ایک معما بنی رہی۔ مشہور یہ ہے کہ اس کی موت ایک سرکاری آدمی کے ہاتھوں ہوئی جس کا تعلق ایک خفیہ سرکاری ایجنسی سے تھا۔ سٹالن حکومت کے پولیس چیف (Genrilkh Yagoda) کو گورکی کی موت کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا جس کی شہادت 1938ءکے ایک مقدمے کی انکوائری سے ملتی ہے۔ میکسم گورکی کو انقلاب روس کا ایک زبردست کا رکن ، سپاہی قرار دیا جاتا ہے۔ جس نے اپنی تحریروں سے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ ناول لکھے، شاعری کی ، ڈرامے لکھے، سیاسی مضامین لکھے، انقلاب کی حمایت میں تقریریں کیں۔ پھر اپنے دوستوں سے اختلاف کیا۔ انقلاب کے بعد حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے انجام کو پہنچا۔ گورکی نے بہت کچھ لکھا۔ ناول ، ڈرامے لکھے ، شاعری کی ، اشتراکی نظریات کے فروغ کے لئے مضامین لکھے ، کہانیاں لکھیں اور ان کہانیوں میں روسی عوام کی زندگی کے دکھ بھرے مناظر کھینچے اور نظام کی تبدیلی کے لئے ذہنوں کی تیار کی۔ گورکی مقصدیت پسند تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں اشتراکی نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس نے اپنی ہر تحریر میں ان نظریات کو ادبی رنگ دے کر پیش کیا۔ ماسکو تھیٹر میں ڈرامے کئے اور پھر اس کا جال پورے روس میں پھیلا دیا اور تھیٹر آرٹ سکول قائم کئے جب ڈراموں پر سنسر شپ لگا دی گئی تو اس نے یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ اس نے قریباً بارہ ڈرامے لکھے جن میں سے: 
(1) The Lover Depths
(2) Summer Folks
(3) Barbarians
(4) Enemies
(5) Queer People
(6) The Chilren of Sun
بہت مشہور ہیں۔
گورکی بہت اچھا شاعر تھا اس کی شاعری کا ایک مجموعہ بھی ہے جس کا نام The Songs of Stormy Petrel ہے۔ میکسم گورکی کا سب سے مشہور ناول ماں ہے۔ میکسم گورکی کا یہ ناول عالمی شہرت رکھتا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ناول نگاری کی سوسالہ تاریخ میں اس ناول کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ ناول ”ماں“ انقلاب روس سے پہلے کے حالات ، جدوجہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو Focus کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دو چار تھا عوام کی زندگی جن دشواریوں سے دو چار تھی، زار حکومت میں اندھے قانون اور سوشل نا انصافیوں نے عوام کی زندگی کو کس طرح دوزخ بنا دیا تھا اور پھر وہ سب انقلاب اور تبدیلی لانے کےلئے کیسے کمر بستہ ہوئے۔ یہ سب واقعات اس ناول کے پلاٹ میں شامل ہیں۔ ناول ”ماں“ روسی ادب میں ایک تبدیلی کا باعث بنا۔ انقلاب روس کو سمجھنے کےلئے اس ناول کی اہمیت اور پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا: ”یہ ناول بہت اچھا اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مزدور اور محنت کش جو بغیر سوچے سمجھے انقلاب لانے والے قافلے میں شامل ہوئے۔
یہ ناول پڑھ کر انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔“ ناول ”ماں“ کا مرکزی کردار کے ہیرو پافل (Pavel) کی بوڑھی، ان پڑھ ماں Pelagea Nilovna ہے جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لاعلم ہے۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اسے اپنے پافل سے بہت پیار ہے۔ پافل وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ مطالعاتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے اس کے ذہن میں انقلاب جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پافل سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور گھر کتابیں لانا شروع کرتا ہے۔ گھر میں پافل کے دوستوں کی مجلس جمنا شروع ہوتی ہے۔ پافل کی ماں پہلے پہلے تو بیٹے کے منہ سے نکلے الفاظ سمجھنے سے قاصر ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ باتیں اچھی لگنا شروع ہوتی ہیں جو پافل اپنے دوستوں سے کرتا ہے اور پھر بوڑھی ماں اپنے آپ کو ان جوان لڑکوں کا حصہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے جو سوشلزم کا پرچار کررہے ہیں اور انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ پافل کی ماں کے علاوہ اس ناول میں اور بھی کئی نسوانی کردار ہیں۔ ساشا (Sasha) لڈمیلا (Ludmilla) صوفیا (Sophia) اور نتاشا (Natasha) اپنے رشتے داروں اور گھروالوں کو چھوڑ کر انقلابیوں میں شامل ہوجاتی ہیں۔ نتاشا ایک امیر باپ کی بیٹی ہے جو صاحبِ جائیداد ہے لیکن نتاشا انقلاب کے لئے سب کچھ ٹھکرا دیتی ہے۔ گورکی نے اس کردار کی بُنت اس طریقے سے کی ہے کہ وہ قارئین کا پسندیدہ کردار بن گیا ہے۔ ساشا کا کردار ایک لحاظ سے ہیروئین کا ہے۔ وہ پافل سے محبت کرتی ہے۔ جدوجہد کے دوران جیل جاتی ہے۔ جیل کا وارڈن اس سے بتک آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ ساشا بھوک ہڑتال کر دیتی ہے اور معافی مانگنے تک ہڑتال جاری رکھتی ہے۔ آٹھ دن تک کچھ نہیں کھاتی۔ وارڈن معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پافل کی ماں Pelagea Nilovana صرف پافل کی ماں نہیں اس کے دل میں سب کا مریڈز کےلئے محبت ہے۔ اسے پافل کے ایک دوست (Andrel Nikhodka) سے بہت پیار ہے جو یوکرائن کا رہنے والا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے (Nenko) کہہ کر بلاتا ہے جو یوکرائن کی زبان میں ”ماں“ کہتے ہیں۔ پافل کی ماں کا غصہ اس وقت دیکھنے کے قابل ہے۔ جب فیکٹری کی انتظامیہ علاقے کی بہتری کےلئے ہر مزدور کی تنخواہ سے ایک (Kopek) کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ پافل اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور ایک جلوس نکالنے کی تیاری کرتا ہے لیکن اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ پافل کی ماں کا اب ایک اور روپ سامنے آتا ہے۔ فیکٹری کے اندر سوشلزم کا لٹریچر لے جانے پر پابندی ہے۔ وہ اپنے کپڑوں میں چھپا کر پمفلٹ اندر لے جاتی ہے اور مزدوروں کو خبریں پہنچاتی ہے۔ یوم مئی کا واقعہ ناول میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پافل پر مقدمہ چلتا ہے۔ اور عدالت میں جج کے سامنے زور دار تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے: ”ہم اس نظام کےخلاف ہیں جس نظام کی حفاظت کےلئے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر۔ ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔“ اندر بیٹا تقریر کررہا ہے اور باہر ماں کو لوگ بیٹے کی جرات کی داد دے رہے ہیں۔ پافل کو سائبر یریا جلاوطنی کی سزا دی جاتی ہے۔ ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے: ”اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لئے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے۔“ ناول کا یہ حصہ بہت جذباتی اور متاثر کن ہے۔ پافل کو سائبر پریا روانہ کیاجانے والا ہے۔ ماں اس کی تقریر چھپوا کر لوگوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ چنانچہ وہ چوری چھاپہ خانے میں جاتی ہے۔ پافل کی تقریر سائیکلو سٹائل کراتی ہے۔ اسٹیشن پر جاتی ہے اور لوگوں میں تقریر کے صفحات بانٹتی ہے زار حکومت کے سپاہی اسے مارتے ہیں اس کے بال نوچتے ہیں، ٹھڈے مارتے ہیں وہ مار کھاتی رہتی ہے اور چلاتی رہتی ہے:
Can Drown the Tru Not Even and Ocean of Blood
میکسم گورکی کا یہ ناول نہ صرف روس کے ادب میں ایک سنگ میل ثابت ہوا بلکہ عالمی ادب پر بھی اس نے بہت اثرات مرتب کئے۔ جرمنی کے مشہور ڈراما نگار بریخت (Brecht) نے میکس ناول ”ماں“ پر ایک خوبصورت ڈراما (Die Mutter) لکھا اور اسے سٹیج کیا۔ جب یہ ڈراما دکھایا جا رہا تھا تو ہٹلر کے عروج کا زمانہ تھا۔ ڈرامے کے دوران نازی فوجیوں نے چھپا مارا اور اس ڈرامے کے مرکزی کردار کو گرفتار کرکے لے گئے۔ ناول نگاروں نے ”ماں“ کے کردار سے متاثر ہو کر مختلف زمانوں میں اس کردار سے ملتے جلتے کردار تشکیل دئیے مگر میکسم گورکی کی ”ماں“ جیسا شاہکار تخلیق نہ کر سکے۔ میکسم گورکی کے ناول کی ادبی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ جس طرح غالب کے خطوط نثر میں ایک جدید طرز اسلوب کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی اور زمانے کے بدلتے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں اور ان سے جنگ آزادی کے حالات کی ایک چھوٹی موٹی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے اسی طرح میکسم گورکی کی ”ماں“ ناول کی تعریف میں ایک ادب پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب روس کی مکمل تاریخ بھی ہے۔ اشتراکی حقیقت نگاری کی ایک دستاویز بھی ہے۔۔۔۔؟

No comments:

Post a Comment