مالدیپ
Maldives
آزادی، 26جولائی 1965ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ مالدیپ۔ سرکاری زبان، دھی ویہی۔ طرز حکومت، صدارتی جمہوریہ۔ کرنسی، مالدیپی روفیہ۔ فی کس آمدن، 4950ڈالر۔ کل رقبہ، 298مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت مالے۔ اہم شہر، سینو، خریدو، ڈھگری۔ آبادی، 309000 (تخمینہ 2009ئ)
محل وقوع
جنوبی ایشیا مےں واقع یہ ملک بحر ہند کے تقریباً دو ہزار چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کا قریب ترین ہمسایہ بھارت 95کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ دوسرا ہمسایہ سری لنکا 670میل دور ہے۔ کسی جزیرے کا رقبہ 5مربع میل سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ اوسط درجہ حرارت 80فارن ہائٹ تک رہتا ہے۔
لوگ
یہاں کی سو فیصد آبادی سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دارالحکومت کے علاوہ تین جزائر ایسے ہےں جہاں کی آبادی ہزار سے زیادہ ہے۔ سنہالیوں کے علاوہ اوڑی اور عربی نسل لوگ یہاں رہتے ہےں۔ 22فی صد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں، عورتوں کی اوسط عمر 65برس اور مردوں کی 61برس ہے۔ 95فی صد لوگ پڑھے لکھے ہےں۔
وسائل
لوگ کاشت کاری کرتے ہےں اور 10فی صد افراد اس پیشے سے وابستہ ہےں۔ زراعت کی آمدنی کل قومی پیداوارکا 4فی صد ہے۔ ناریل، سنگترہ، میٹھا، کیلا، انناس، لیموں اور ارنڈ کاشت کئے جاتے ہےں۔ دیگر زرعی اجناس بیرونی ممالک سے پوری کی جاتی ہےں۔ سب سے بڑا ذریعہ آمدن اس ملک کا ماہی گیری ہے۔ 98.2 فی صد برآمدات ماہی گیری سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد سیاحت دوسرا بڑا آمدن کا ذریعہ ہے۔ گھونگوں سے بھی اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔
پانی کا ذریعہ بارشیں ہےں۔ یہاں مختلف اقسام کی چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم ہےں۔ ناریل کے ریشے کی صنعت سب سے بڑی صنعت ہے۔ عورتیں گھروں مےں چٹائیاں بنتی ہےں۔ سپیوں اور گھونگوں سے رنگ برنگی اشیاءتیار ہوتی ہےں۔ بحری جہاز رانی کی صنعت بھی ترقی کر رہی ہے۔ 1958ءمےں یہاں جہاز رانی شروع ہوئی۔ اس کا بحری بیڑہ بہت بڑا ہے۔ کل تجارت اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ بحری کشتیوں، موٹربوٹوں اور لانچوں کے ذریعہ جزائر کے درمیان آمد و رفت ہے۔ مالدیپ کی اپنی ہوائی سروس بھی ہے اور روزانہ اخبارات بھی شائع ہوتے ہےں۔
تاریخ
یہاں سب سے پہلے بدھ مت کے پیروکار رہتے تھے۔ ایک بزرگ ابوالبرکات یوسف البریری کی وجہ سے یہاں کا راجہ مسلمان ہوگیا اور ان کی وجہ سے رعایا مسلمان ہوئی۔ بدھ مت کے آثار اب بھی موجود ہےں۔ سلطان محمد بن عبداللہ کے عہد مےں یہاں اسلام پھیلا پھولا۔ اس کے بعد مالکہ رہندی کبادی کلاغد المعروف بہ خدیجہ نے اقتدار سنبھالا۔ وہ پہلی مسلمان حکمران خاتون تھی۔ ملکہ خدیجہ کے بعد سلطان علی (1513-1512) یہاں کا حکمران رہا۔ اس کے بعد سلطان حسن نہم اور سلطان علی ششم یہاں کے حکمران بنے۔
1518ءمےں ان جزائر پر پرتگالیوں نے قبضہ کر لیا۔ سترہویں صدی مےں سری لنکا کے حاکم ولندیزیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1887ءمےں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کو ہندوستان کے ساتھ ساتھ مالدیپ کا بھی حکمران تسلیم کر لیا گیا۔
1932ءمےں سلطان شمس الدین سکندر نے ملک کو نیا آئین دیا۔ انگریزوں نے 1939ءمےں یہاں ہوائی اڈہ اور بحری اڈہ تعمیر کیا۔ 1948ءمےںحکومت برطانیہ کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا جس مےں قرار پایا کہ برطانیہ مالدیپ کے داخلی امور مےں مداخلت نہیں کرے گا اور اس کے بدلے اسے جزیرہ گان مےں ایک ہوائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
1965ءمےں وزیراعظم ابراہیم ناصر کی قیادت مےں یہ ملک آزاد ہوا۔ 1968ءتک یہاں بادشاہت قائم رہی۔ 29مارچ 1979ءتک برطانوی مکمل طور پر یہاں سے چلے گئے۔ 1978ءمےں ابراہیم ناصر کے استعفیٰ کے بعد عبدالقیوم مامون صدر بنے۔
1990ءمےں جمہوری اصلاحات کا اعلان ہوا۔ عوامی شرکت کے لئے شوریٰ کے ارکان کی تعداد 15سے بڑھا کر 55کر دی گئی۔ اکتوبر 1993ءمےں صدر مامون کو چوتھی مرتبہ پانچ سالہ میعاد کے لئے صدر منتخب کیا گیا۔ اگلے دونوں انتخابات مےں بھی انہیں ہی کامیابی ملی جس پر ملک مےں مظاہرے ہوئے اور حکومت سے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔
دسمبر 2004ءمےں انڈونیشیا کے نزدیک آنے والے خوفناک زلزلے سے سونامی لہریں پیدا ہوئیں جنہوں نے مالدیپ کے تقریباً ہر جزیرے پر تباہی مچائی۔
اکتوبر 2008ءمےں منعقد ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے عوامی انتخابات مےں بالآخر ملک نے ایک نئے صدر کا استقبال کیا اور عبدالقیوم مامون کی جگہ محمد ناشید نئے صدر بنے۔
No comments:
Post a Comment