ژاں پال سارتر
رانا قمر پرویز ضیائ
فرانسیسی ادیب کو معتبر فلسفی کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا
1975ءمیں ژاں پال سارتر سے کسی نے پوچھا:
”مرنے کے بعد تمہیں کس حوالے سے یاد رکھا جائے“
سارتر نے جواب دیا:
”میرے ناول نوسیا میرے دو ڈرامے No Exit اور The Devil and the Good Lord کے حوالے سے ۔ ان کے علاوہ میرے فلسفے کی کتاب Critique of Dialectical Rennson اور میرا مقالہ Saint Genet .... اگر لوگوں نے ان کو یاد رکھا تو میں یاد رہوں گا۔ اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں۔“
ژاں پال سارتر نے تو چند کتابوں ، ڈراموں کا نام گنوایا ہے لیکن سارتر کا لکھا ہوا ہر نقط لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے اور یاد رہے گا۔
بیسویں صدی کو جن دو فلسفیوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ لارڈ برٹرینڈرسل اور سارتر ہیں۔ سارتر و جودیت کا بانی فلاسفر تھا۔ اس نے انسان دوست فلاسفر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ سارتر نے ڈرامے لکھے۔ نوسیا جیسا ناول لکھا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی افراد کی آزادی پر حرف آیا۔ سارتر نے اس کےخلاف آواز اٹھائی۔ فرانس پر نازیوں نے حملہ کیا تو اس نے آواز بلند کی لیکن جب فرانس نے الجزائر پر فوج کشی کی تو وہ فرانس کے خلا ف ہو گیا۔ ابتدا میں اس کی ساری ہمدریاں اشتراکیت اور روس کے ساتھ تھیں لیکن جب روس نے افغانستان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور اسے جارحیت کا نشانہ بنایا تو وہ روس کے خلاف ہو گیا۔ سارتر اور برٹرینڈرسل دنوں پہلے روس کی دوستی کا دم بھرتے تھے۔ لیکن جب روس کی پالیسیوں کو غور سے دیکھا‘ اصل چہرہ نظر آیا تو دونوں اشتراکیت کےخلاف ہو گئے اور سب سے بڑے نقاد بن گئے۔
ژاں پال سارتر 21جون 1905ءکو پیرس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فرانس نیوی میں افسر تھا۔ سارتر کی ماں این میری شوائٹرز جرمن زبان کے ماہر چالس شوائٹرز کی بیٹی تھی۔ سارتر دو سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ ماں اسے اپنے باپ کے پاس لے گئی جہاں نانا نے سارتر کی پرورش کی۔ سارترکی ماں جوان عورت تھی اس نے دوسری شادی کرلی۔ جس کا دکھ سارتر کو ساری عمر رہا اور ماں کی دوسری شادی نے عورت کے تصورات بدل دئیے۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی۔
سارتر ایک دبلا پتلا ، بھینگا اور بیمار سابچہ تھا مگر بچپن ہی سے بلا کا ذہین تھا۔ سارتر کا نانا ایک پڑھا لکھا آزاد خیال آدمی تھا۔ پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھتا تھا لیکن اس نے سارتر پر کبھی اپنے عقیدے کا بوجھ لادنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ سارتر لڑکپن ہی میں مذہب کا مخالف ہو گیا۔
ماں کی دوسری شادی نے اسے تنہائی پسند بنا دیا اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی شے کے بارے میں غور و فکر کرتا رہتا تھا۔ اپنی ذہانت اور تیز دماغ کے بارے میں وہ اپنی بائیو گرافی (Words) میں لکھتا ہے۔ ”اپنی ماں کے کہنے کے مطابق میں اپنی ماں کے پیٹ میں 9کے بجائے دس مہینے رہا اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تنور میں پکتا رہا۔ میں خستہ اور تابناک بن کر باہر نکلا....“
سارتر ابتدائی عمر ہی میں برگساں سے متاثر اور فلسفے کی طرف راغب ہو گیا۔ فلسفہ پڑھنے لگا اور پیرس فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔ پھر جرمنی چلا گیا۔ ہسرل اور ہائیڈیگر سے ملاقاتیں کیں۔ فرائی برگ یونیورسٹی میں کچھ عرصہ تحقیقی کام کیا اور پھر پیرس واپس چلا آیا۔
1929ءمیں اس کی ملاقات سیمون ڈی بوار سے ہوئی اور زندگی بھر کا رشتہ اس سے جڑ گیا۔ سیمون ڈی بوار سے اس نے شادی نہیں کی۔ دونوں ساری زندگی اکٹھے رہے شادی اور بچے پید اکرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سارتر کی موت تک دونوں کا ساتھ رہا۔
1939ءمیں سارتر کو فرانس کی فوج میں نوکری کرنا پڑی۔ 1940ءمیں نازیوں نے اسے پکڑلیا وہ 9مہینے تک جرمنوں کی قید میں رہا .... تنہائی اور قید کے اس زمانے میں سارتر نے ہائیڈیگر (Hiedegger) کو پڑھا۔ قید میں اس کی بینائی اور صحت دونوں بگڑ گئیں۔ اسے اپریل 1941ءمیں جیل سے رہائی مل گئی اور وہ دوبارہ استاد کی حیثیت سے شہری زندگی میں شامل ہو گیا۔
سارتر نے ساری زندگی اپنے لئے کوئی گھر بنایا نہ ہی شادی کی۔ ماں کی دوسری شادی نے اسے ساری عمر شادی سے متنفر کر دیا تھا اور وہ شادی کے نام سے دور بھاگتا رہا۔ سیمون ڈی بوار اس کی ہم خیال تھی .... دونوں بغیر شادی کے ساتھ ساتھ رہے اور یہ ساتھ سارتر کی موت پر ٹوٹا .... سارتر نے اپنی ساری کتابیں ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھیں .... ہوٹل ”فلور“ اس کا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ کچھ لوگ اس کے فلسفے ”جدیدیت“ کو ”کافی ہاﺅس کا فلسفہ“ بھی کہتے ہیں۔ سارتر کے کیفے کے قیام پر کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا تو اس نے جواب دیا۔
”میں کیفے میں گھر سے زیادہ منہمک ہوتا ہوں“
پوچھنے والوں نے پوچھا: ”کیوں؟“
سارتر کوجواب تھا:
”لوگ وہاں نہ میری پروا کرتے ہیں نہ مجھے لوگوں کی پروا ہوتی ہے۔ اس ماحول میں مجھے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور پھر گھر بار کا بوجھ میرے بس کی بات نہیں۔“
سیمون ڈی بوار سے اس کی ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی۔ سیمون ایک ذہین اور اپنے آپ پر نازاں لڑکی تھی۔ مردوں کو کمتر سمجھنا اور ان کا مذاق اڑانا اس کی عادت بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کی ملاقات سارتر سے ہوئی تو اسے اپنی یہ عادت ترک کرنا پڑی اور سارتر کی ذہانت کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ دوستوں نے جب اس سے پوچھا کہ تم سارتر سے متاثر ہو گئی ہو یا اس کے سامنے سرنگوں ہو گئی؟
تو اس نے جواب دیا:
”میں سارتر کی دوست ہوں لیکن جب مجھے کوئی سارتر سے بہتر آدمی مل جائے گا تو میں اسے چھوڑ دونگی۔“
مگر اسے سارتر سے بہتر آدمی نہ مل سکا اور یہ دوستی زندگی بھر رہی۔
سیمون ڈی بوار نے سارتر کے ساتھ ہوٹلوں میں وقت گزارا۔ اس کے ساتھ بہت سفر کیے۔ راتیں جاگ کر اور گھوم پھر کر گزاریں اور اس کے بارے میں بڑی عجیب باتیں لکھیں۔ وہ کہتی ہے سارتر بہت وہمی آدمی تھا۔ ایک باروینس کی گلیوں میں وہ ساری رات پھرتے رہے۔ صبح سارتر نے سیمون کو بتلایا کہ ایک جھینکا مچھلی ساری رات اس کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ سیمون کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بہت پر سکون محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ یہ وہم کی بیماری جاتی رہی۔
سارتر نے زندگی بھر لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ لکھنے کا شوق اُسے بچپن ہی سے تھا۔ اس نے بچپن میں ایک کہانی لکھی اور پھر وہ ساری عمر لکھتا رہا۔ اس نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں لکھنے کےلئے پیدا ہوا ہوں اور لکھنے کی وجہ سے ہی میں زندہ ہوں۔
سارتر نے ڈرامے لکھے ، ناول لکھے، بائیو گرافی لکھی ، فلسفے پر کتابیں لکھیں، لیکن اس کی یہ ساری تحریریں اس کے فلسفے کے گرد گھومتی ہیں، جس کا وہ موجد یابانی سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وجودیت کا لفظ سامنے آئے تو سارتر کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ سارتر اور وجودیت اس عہد میں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔
وجودیت پر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ سارتر کے ہاں یہ اصطلاح یا فلسفہ رہیگل ، ہیسرل اور ہائیڈیگر کے مطالعے سے آیا ہے۔ سارتر سے پہلے بھی یہ موجود تھا لیکن سارتر نے اسے باقاعدہ فلسفے کی شکل دی .... سقراط سے پہلے تک اور سقراط کے بعد میں فلسفہ مخصوص لوگوں کی وارثت تھا۔ سقراط نے اسے بازاروں کا راستہ دکھایا لیکن فلسفہ رہا چند لوگوں کے پاس ہی۔ اسے عمومی درجہ نہ دیا گیا۔ وجودیت شاید فلسفے کی پہلی اصطلاح ہے جسے گلی محلوں ہوٹلوں اور دب میں زیر بحث لایا گیا اور یہ سب کچھ سارتر کی بدولت ہوا۔ البرٹ کا میو سے سارتر کی دوستی تھی۔ سارتر نے 1938ءمیں اپنا ناول ناسیا لکھا اور پھر کامیو سے مل کر وجودیت کے فلسفے کو ادب میں شامل کر دیا۔ ساری دنیا کے ادیب اپنے اپنے شاہکاروں میں وجودیت کی بانسری بجانے لگے، کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے۔ وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ نہ زمین اس کی دوست ہے۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کےلئے پھینک دیا گیا ہے۔ دنیا سراسر لغو ہے بے معنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان قطعی طور پر آزاد ہے۔ اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے۔
سارتر زندگی کو بے مقصد قراردیتا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ انسان اپنا خود خالق ہے اور اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو ایک کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔
ڈاکٹر سی ۔ اے ۔ قادر وجودیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”یہ یورپ میں عالمی جنگوں سے پیدا ہوا۔ انسانی درندوں اور وحشیوں کی طرح لڑا۔ ہر قدم کو ٹھکرا دیا۔ اخلاق کا پاس رہا نہ مذہب کا۔ جنگوں نے اخلاق اور مذہب دونوں کو تباہ کر دیا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ماضٰ کا اخلاق ان کے مسائل کا حل نہیں اور مذہب کی طفل تسلیاں ان کی بے چینی دور نہیں کر سکتیں۔ اگر پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں، فلسفہ دوراز قیاس بانوں کا مجموعہ بن گیا ہے تو انسانی دور کا مداوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وجودیت نے دیا ہے .... ؟
سارترانسان کو پرانے رواجوں اور روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ سارتر نے اپنے ناول نوسیا میں ہیروں کے کردار ”مجھے دوسری جنگ عظیم کی شکست کا تجربہ جون 1940ءمیں ہو گیا تھا۔ میں نے خود اس کا انتخاب کیا۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ میں ہر بات پر عمل اور ہر شے کا جو مجھ سے وابستہ ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں ....“
سارتر کے نزدیک ہر آدمی اپنی زندگی میں ایک ایسا کردار ضرور ادا کرتا ہے جو اس کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی آدمی حقیقی زندگی میں باورچی نہیں ہوتا لیکن وہ باروچی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کرکے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کرتا ہے، مثلاً سارتر کا ڈراما (Intimacy) پر نظر ڈالئے۔ ایک عورت اپنے پاگل شوہر کے ساتھ ایک بلڈنگ میں رہتی ہے اسے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ ذہنی مریض ہے۔ لیکن وہ شوہر کے ساتھ ذہنی مرض میں شریک نہیں ہونا چاہتی اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو اس کی حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا مگر وہ کردار ادا کرنے کا خود انتخاب کرتی ہے۔ یہ اس نے مکمل اور کامل آزادی سے کیا جو اسے حاصل ہے۔
سارتر کا کہنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی اذیت سے جو لوگ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کا انتخاب کرنے سے پرہیز کرتے ہیں وہ اپنے گرد مذہب ، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے ہیولے بنا لیتے ہیں جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کے تار بنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں دم توڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے اور وہ بھی اخلاق ، مذہب اور معاشرتی ہیولوں میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔
سارتر نے دو جنگوں سے پیدا ہونےوالی صورت حال کی منظر کشی کی ہے۔ سماجی ، مذہبی ، ثقافتی اور اخلاقی تباہی کے مناظر پیش کرکے موجودہ انسان کو ایک نیا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور راستہ دکھانے کےلئے اس نے لوگوں کے سامنے وجودیت کا دیا جلایا ہے۔ نسل انسانی اس کے نظریات سے اختلاف تو کر سکتی ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ اس نے کوشش ضرور کی .... افلاطون نے جب ایک خیالی ریاست کا نقشہ پیش کیا تو اس کے ایک شاگرد نے جو ایک ریاست کا نقشہ پیش کیا تو اس کے ایک شاگرد نے جو ایک ریاست کا بادشاہ تھا افلاطون کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میری ریاست کے انتظامات کو آپ اپنے اصولوں اور قوانین کے مطابق چلائیں۔ افلاطون کچھ عرصہ اس کی ریاست میں رہا پھر وہ یہ کہہ کر ایتھتنز واپس آگیا کہ یہ قابل عمل فلسفہ نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا، سارتر کا فلسفہ وجودیت قابل عمل ہو یا ناقابل عمل مگر اس کے اس نظریے نے ایک بار پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ سوشل ، ادبی اور معاشرتی زندگی میں اس نے خاطر خواہ اثر ڈالا لیکن شاید اس نظریے کی مخالفت زیادہ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد سارتر خود بھی وجودی کہلانے سے کترانے لگا اور اپنی کچھ باتوں سے منحرف ہونے لگا۔ مثلاً سارتر نے پہلے یہ بات کہی کہ انسان کی آزادی ، خارجی حالات کی تابع نہیں ہوتی لیکن کچھ عرصے بعد سارتر اس بات سے انکار کرتا دکھائی دیتا ہے اور اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خارجی حالات انسان کی آزادی پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔
سارتر انسان دوست تھا مگر اس نے انسان دوستی کی بنیاد دہریت پر رکھی۔ سارتر کے نزدیک انسان جو بنتا ہے اپنی مرضی سے بنتا ہے۔ (اس کے لئے سارتر اپنے ڈرامے Intimacy میں اس عورت کی مثال دیتا ہے جو پاگل نہیں ہے لیکن اپنے پاگل خاوند کےلئے وہ پاگل بننے کا ارادہ کرلیتی ہے جو اس کا اپنا فیصلہ ہے اور اس کی ذمہ دار ہو خود ہے)۔
سارتر کے نظریات کی مخالفت بھی کی گئی جس میں مذہبی حلقہ پیش پیش تھا چنانچہ پاپائے روم نے سارتر کی تمام کتابوں کو ممنوعہ فہرست میں شامل کر دیا۔ لوگوں کے نزدیک یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ سچائی اور اچھائی کے مقابلے میں جھوٹ اور بے ہودہ بات ہی ”وجودیت“ کا درجہ رکھتی ہے۔ پیرس کی ایک عورت کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ جب وہ بات کرتے کرتے بے خیالی میں کوئی بے ہودہ اور مکروہ بات کر جاتی تو کہتی تھی ”میں وجودی ہونے لگی ہوں“ اور پھر لوگوں سے معافی مانگ لیتی تھی۔ سارتر نے بڑی بھرپور اور سادہ زندگی گزاری۔ عملی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ جارحیت کے خلاف عملی میدان میں اُتر آیا۔ 1968 ءمیں سٹوڈنٹ ہڑتال میں اس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سول نافرمانی کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ڈیگال کا زمانہ تھا اس نے ذاتی دلچسپی لے کر اسے رہائی دلائی اور کہا:
"You dont arrest Voltaire"
میونخ میں جب 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کا فلسطینیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو سارتر نے مخالفت کی۔ الجیریا فرانس کی جارحیت کی اس نے مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ الجیریا میں مقیم فرانسیسی فوجیوں کو نوکری چھوڑ دینا چاہیے۔ 1960 ءمیں اس نے سیمون ڈی بوار کے ساتھ کیوبا (Cuba) کا دورہ کیا۔ چے گویرا Che. Guevera سے ملاقات کی اور کہا:
”چے صرف ذہین آدمی ہی نہیں ، ہمارے عہد کا ایک مکمل انسان ہے....“
اس کی موت پر اسے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
"He lived his words, spoke his own actions and his story and the story of the world Rah Parallel"
1964ءمیں اسے نوبل پرائز کی پیش کش ہوئی مگر اس نے یہ انعام لینے سے انکار کر دیا اور جوازیہ پیش کیا کہ ایک ادارے میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے، اسے اپنی مکمل آزادی قائم رکھنا چاہیے۔ (سارتر کا نام 1957ءمیں بھی نوبل انعام کےلئے تجویز ہوا تھا مگر وہ ان دنوں الجیریا کے خلاف سامراجی طاقتوں کے خلاف احتجاج کررہا تھا۔ اس لیے یہ انعام البرٹ کو میوکو دے دیا گیا۔1964ءمیں اس نے خود انعام لینے سے انکار کر دیا)
جون 1964ءمیں تیل کے ذخیروں پر امریکہ بمباری کے خلاف اس نے احتجاج کیا، اگست 1966ءمیں ایک غیر سرکاری ٹرائل کا اعلان کیا گیا، رسل ، سیمون اور سارتر اس کے ممبر تھے۔ مئی 1967ءمیں اس کا فیصلہ سنایا گیا جس میں شہری ٹھکانوں پر بمباری کے جرم میں امریکہ کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ سارتر اس عدالت کا صدر تھا۔ سارتر اور البرٹ کا میو میں ابتدائی سالوں میں دوستی تھی اکٹھے منصوبہ بندی سے لکھنا شروع کیا لیکن پھر اختلافات ہو گئے اور دونوں الگ الگ راستوں پر چلنے لگے .... بس ایک سیمون ڈی بوار تھی جس نے عمر بھر ساتھ نہ چھوڑا۔ اس نے کہا تھا کہ سارتر سے اچھا آدمی مل گیا تو اسے چھوڑ دونگی مگر ساری عمر اسے سارتر سے اچھا آدمی نہ ملا۔ سارتر ان تھک لکھنے والا تھا۔ اس نے فلسفے پر لکھا، ناول لکھے ، ڈرامے لکھے، رسالہ نکالا، مضامین لکھے، سوانح عمری لکھی۔ لکھنا ہی اس کا کام تھا۔ اس کی تحریروں کی فہرست بہت طویل ہے۔
کام کی زیادتی اس کےلئے عذاب بن گئی۔ صحت خراب ہو گئی۔ آنکھوں کی بینائی جواب دے گئی۔ پھیپھڑوں کا مرض جان لیوا ثابت ہوا اور وہ 15اپریل 1980 ءکو فوت ہو گیا ....
یوں تو سارتر کی سب کتابیں ساری دنیا میں بہت شوق سے پڑھی گئیں مگر ادب کے وہ قارئین جنہیں ”وجودیت“ سے اتنی دلچسپی نہ تھی، انہوں نے اس کے ڈراموں اور کہانیوں کو بہت دلچسپی سے پڑھا۔
ان میں سارتر کا ناول نوسیا (Nausea) اس کے ڈرامے
(1) No Exit
(2) The Files
(3) Dirty Hards
(4) The |Respectful Prosititute
ہیں۔ کہانیوں میں
(1) The Wall
(2) The Room
(3) Erostratus
(4) Intimacy
(5) The Childhood of a Leader
ہیں۔ اس کی اپنی سوانح عمری (Words) کو بھی بہت شہرت ملی۔ ان سب کہانیوں کا مرکزی فلسفہ ”وجودیت“ ہے۔ جسے اس نے بہت ہنر مندی سے اپنے ان تخلیقی شاہکاروں میں سمویا ہے۔
اس کی کہانی (Intimacy) ایک عورت Lulu اور ہنری (Hanri) کے رشتے کی کہانی ہے۔ دونوں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہنری دماغی مریض ہے۔ نفسیات کا شکار ہے۔ دونوں میاں بیوی ہیں۔ لولو اسے Gulliverl's Travel کا Gulliver کہتی ہے۔ ایک عرصہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اب شاید اس سے محبت نہیں کرتی اگر کرتی بھی ہے تو مجبوری ہیں .... اس کی ایک سہیلی Rirette سے قلبی اور جسمانی تعلقات ہیں۔ Rirette اس سے اکثر کہتی ہے:
"You cannot stay with Henti, because you dont love him"
Lulu ہنری کے ساتھ رہ رہی ہے اگرچہ ہنری کی عادات سے اسے اکتاہٹ ہوتی ہے لیکن اسے پھر بھی ہنری کا خیال ہے۔ اس کی ضروریات کی فکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی سہیلی Rirette کا جسمانی پیکر بھی ہر پل اداس رکھتا ہے۔ Rirette اسے بار بار اکستاتی ہے کہ Happiness اور Honour کی تلاش کرو .... صرف خاوند کےلئے قربانی دینے کا خیال ذہن سے نکال دو .... ”میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں لولو (Lulu) ہم سیر پر جائیں گے۔ کشتی ، گاڑی پر سواری کریں گے۔“ (لولو (Lulu) اپنے خاوند کے پہلو میں لیٹی یہ سب کچھ سوچتی ہے اور پھر اپنا سامان (Pack) کرکے Rirette کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے "I Left Henri, Fished, I dropped him" اور پھر تفصیل بتلاتی ہے۔
”میں نے بالکونی میں تالا لگا دیا، بڑا عجیب منظر تھا۔ وہ ابھی تک پاجاما پہنے ہوئے تھا۔ کھڑکی کے شیشے پر انگلی سے ٹک ٹک کررہا تھا۔ اس نے شیشہ توڑنے کی جرا ¿ت نہیں کی۔ میں اس کی جگہ ہوتی تو کھڑکی توڑ کر بالکونی سے اندر آجاتی .... “
لولو (Lulu) کہتی ہے:
”میں اس کی سہولت کےلئے کچن کی میز پر ایک چٹ لکھ آئی تھی۔ فریج میں سور کا گوشت پڑا ہے۔ گیس کا چولہا بند کر دیا ہے۔ اب اپنی مدد آپ کے تحت کام کرو۔ میں اکتا گئی ہوں۔ میں قصہ تمام کررہی ہوں۔ الوداع“۔
(Rirette) دراصل لولو (Lulu) کو ایک آدمی Pierre کے ساتھ پیرس سے جانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ لولو کو Fischer کی دکان سے کچھ سامان خریدتا ہے۔ Rirette نہیں چاہتی کہ لولو اس سڑک پر جائے جہاں Fischerکی دکان ہے کیونکہ ٹھیک 6بجے Henri سیر کے لئے ادھر سے گزرتا ہے۔ لولو اس سڑک پر جاتی ہے Henri انہیں دیکھ لیتا۔ دونوں بھاگتی ہیں۔ ہنری پیچھا کرتا ہے اور پاگلوں کی طرح پکار کر کہتا ہے:
”لولو! رُک جاﺅ .... واپس آجاﺅ .... تم میری ہو .... میں تمہارا خاوند ہوں۔“
لولو اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ ہنری بے دم ہو کر گرتا ہے اور پھر لولو میں ایک تبدیلی آتی ہے اور Pierre کے نام ایک خط لکھتی ہے اور ہنری کے پاس واپس چلی جاتی ہے: ©
ڈارلنگ!
میں ہنری کے پاس جا رہی ہوں۔ کیونکہ وہ بہت غمگین ہے۔ سب سے پہلے تو میں مزید آزادی چاہتی ہوں۔ تم سے محبت کرتی ہوں۔ کل تمہیں Dome کے مقام پر 5بجے ملوں گی۔
لولو (Lulu)
دوسرا ڈراما The respectfull Prostitute ہے۔ ان دونوں ڈراموں میں عورت اپنے فیصلے خود کرتی ہے اور ذمہ داری قبول کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھتی ہے۔
یہی سارتر کا بنیادی فلسفہ تھا۔
معزز بیسوا ۔ سیاہ فام اور سفید فام نسل کے درمیان ایک تصادم ہے۔ سیاہ فام سے سفید فام کی نفرت ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سیاہ فام جرم کرے یا نہ کرے، وہ مجرم ہے۔ اسے سزا ملنی چاہیے۔ اس کا وجود بے معنی ہے۔ سفید فام گناہ کرکے بھی بے گناہ اور معصوم ہے۔ ڈرامے کا کردار لیزی عدالت میں حبشی کےخلاف گواہی دینے پر رضا مند نہیں ہوتی لیکن سنٹر اپنی فطری چالبازی کو استعمال میں لاتا ہے انسانی جذبات کا تانا بانا پھیلا کر لیزی کو موم کرلیتا ہے اور جھوٹی گواہی پر دستخط کرالیتا ہے۔ وہ حبشی کو بچانا چاہتی ہے کیونکہ وہ بے گناہ ہے لیکن وہ سنٹر کی چال میں آجاتی ہے اسے اپنے کیے پر افسوس ہے لیکن وہ حبشی کو بچانے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے۔ اسے فریڈ کی گولی کا نشانہ نہیں بننے دیتی اور حبشی بھاگ جاتا ہے۔
سارتر اپنی کہانیوں اور ناولوں میں ایک نفسیاتی فضا قائم کرتا ہے اور اس فضا میں دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی زد میں آنے والے کرداروں کو چلتے پھرتے دکھاتا ہے۔ جنگ میں اپنا سب کچھ کھو دینے والی نسل "Lost Generation" ہے اور سارتر انہیں ایک فلسفہ ”وجودیت“ فراہم کرتا ہے۔ جس کو اپنا کردہ اپنی منزل ، اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہیں۔ انہیں سارتر کا مل آزادی کا احساس دلاتا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کریں اور ذمہ داری قبول کریں۔ سارتر کا یہ فلسفہ کہاں تک کامیاب رہا پا رہے گا۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اب باراس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ادبی دنیا میں ایک ہلچل برپا کر دی۔
No comments:
Post a Comment