حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ اور کشف المحجوب شریف
Hazrat Data Ganj Bashk and Kash Ul Mahjoob
علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ۰۰۴ھ یا ۱۰۴ھ میں پیدا ہوئے۔ اِسم گرامی ”علی“ ہے اور کنیت ”ابو الحسن“۔ آپ اپنا نام اِس طرح لکھتے ہیں علی بن عثمان بن علی الجلالی الغزنوی ثم الہجویری۔ ”سفینة الاولیائ“ میں دارا شکوہ نے لکھا ہے ”آپ غزنی کے رہنے والے تھے۔ جلاب اور ہجویر غزنی کے محلوں میں سے دو محلے ہیں۔ پہلے جلاب میں قیام پذیر تھے پھر ہجویر میں منتقل ہو گئے تھے۔ آپ کے والد ماجد کا مزار غزنی میں ہے۔ آپ کے خاندان کے تمام افراد صاحبِ زہد وتقویٰ تھے۔
آپ برصغیر پاک وہند کے اوّلین مبلغین اسلام میں سے ہیں آپ کا مزار پُر انوار تقریباً ایک ہزار سال سے مرجع خلائق ہے۔ عوام وخواص فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مخدوم الاولیاءسلطان الاصفیاءحضرت شیخ علی ہجویری اُس قدسی گروہ کے سربراہ ہیں جو امام الانبیاءحبیب کبریاءحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اور محبت سے ولایت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ خلافت ِالٰہیہ اور نیابت سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر متمکن تھے۔
آپ کی تعلیمات اور اِرشادات طالبانِ راہِ حق کے لئے مرشد طریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں برصغیر پاک وہند میں اِسلام کا جھنڈا لہرایا۔
” © ©کشف المحجوب “ تصوف کی کتابوں کی سردار ہے جو شخص اِسے توجہ سے پڑھے، اُس کی دنیا وآخرت سنور جاتی ہے۔ حضرت داتا صاحب علیہ الرحمہ نے بے شمار حجابات کو اِس میں کھولا ہے۔کتاب کے شروع میں آپ نے علم کی اہمیت کو خوب بیان کیا ہے اور نماز، جسے عبادات میں مرکزی اہمیت حاصل ہے‘اُسے بھی بڑے حسین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کے بغیر کلمہ گوانسان صحیح مسلمان نہیں بن سکتا۔
فرماتے ہیں کہ:علم دو قسموں کا ہے ایک” علم الٰہی“ دوسرا”علم مخلوق“ بندہ کا علم ، علم الٰہی کے مقابلے میںلاشی محض ہو تا ہے۔کیونکہ علم الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفت ِ قدیم ہے جو اُس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اُس کی صفتوں کے لئے انتہا نہیں۔جبکہ ہمارا علم ہماری صفت ہے جو ہمارے ساتھ قائم ہے اور ہمارے اَوصاف متناہی ہیں۔
ارشاد الٰہی ہے: ”تمہیں تھوڑا ہی علم دیا گیا ہے“۔ (نبی اسرائیل :۵۸) ”علم “کی تعریف: معلوم چیز کا احاطہ کرنا اور اُس کو بیان کرنا ہے اور علم کی نہایت عمدہ تعریف یہ ہے کہ: ”علم ایک صفت ہے جس سے جاہل عالم ہو جاتا ہے “۔
فرماتے ہیں کہ: © ©حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع نہ دے۔“پس تھوڑے سے علم کی مدد سے بہت سا عمل کرنا چاہئے اور ضروری ہے کہ علم کے ساتھ عمل بھی ہو ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” © ©عابد علم دین کے جانے بغیر خراس کے گدھے جیسا ہے۔ کہ وہ کتنا ہی گھومے اپنے پہلے ہی قدم پر رہتاہے اور آگے راستہ طے نہیں کر سکتا“۔
فرماتے ہیں ” میں نے عوام النّاس کا ایک گروہ دیکھا ہے جوعلم کو عمل پر فضیلت دیتا ہے اور دوسرا گروہ عمل کو علم پر لیکن یہ عمل نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ عمل اُس وقت ہوتا ہے، جب علم اُس کے ساتھ شامل ہو“۔ چنانچہ ایک واقعہ تحریرفرماتے ہیں:
”حضرت ابراہیم نے راستہ میں ایک پتھر دیکھا اُس پر لکھا ہوا تھا مجھے اُلٹ کر پڑھو۔ پس اُنہوں نے اُس کو پلٹا اُس پر لکھا ہو اتھا۔ ” تو جانی ہو ئی چیز پر تو عمل نہیں کرتا۔ پس کیسے اُس چیزکو تلاش کرتا ہے جس کو تونہیں جانتا؟“۔
فرماتے ہیں : ”جو لوگ علم سے مرتبہ اور دنیا کی عزّت طلب کرتے ہیں‘وہ عالم نہیں ہوتے کیونکہ مرتبہ اور دنیا کی عزّت ، جہالت کے لوازم میں سے ہے اور کوئی درجہ علم کے درجے سے بلند نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر علم نہ ہو تو انسان کسی بھی لطیفہ ¿ رحمانی کو پہچان نہیں سکتا۔اُس علم کی بدولت طالبِ حق‘ سب اَعمال ایسے طورپر کرے گاگویا خدا اُس کو اور اُس کے افعال کو دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ جانتا ہے کہ خدا سے افعال پوشیدہ نہیں ۔
حکایت نمبر۲:
حضرت حاتم اصم نے فرمایا کہ میں نے چار علوم اختیار کئے ہیں ۔ لوگوںنے پوچھا ! وہ کون سے چار علوم ہیں ؟ فرمایا: (۱)میں نے جان لیا کہ میرا رزق مقدّر ہو چکا ہے اِ س لئے لالچ نہیں کرتا، محنت کرتا ہوں۔(۲)میں نے یہ جان لیاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا مجھ پر حقِ بندگی ہے جس کو سوائے میرے اور ادا نہیں کر سکتا۔ (۳)میں نے یہ جان لیا کہ میرا ایک تلاش کرنے والا ہے۔ (یعنی موت) کہ میں اُس سے بھاگ نہیں سکتا‘اِ س لئے میں نے اُس کا سامان کر لیا ہے۔(یعنی نیک کام کرتا ہوں)۔ (۴)میں نے یہ جان لیا ہے کہ میرا ایک مالک ہے جو میرے اَحوال سے واقف ہے اِس لئے میں نے اُس سے شرم کی ہے اور نا کردنی کاموں سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے اور جب انسان یہ جانتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو دیکھ رہا ہے۔تو وہ کو ئی ایساکام نہیں کرتا جس سے اُس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز شرمسار ہوناپڑے۔( اگر کوئی یہ چار علوم حاصل کر لے تو وہ سلوک کی منزلوںکو آسانی سے طے کر سکتاہے)۔ فرماتے ہیں :حضرت بوعلی ثقفی ٰ نے لکھا ہے۔
” علم “ جہالت کی موت ہے۔ دل کا زندہ ہونا اور کفر کی تاریکی سے اِیمان کی آنکھ کا روشن ہو نا ہے۔جس شخص کو معرفتِ الٰہی کا علم نہیں اُس کا دِل جہالت کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اہلِ غفلت کا دِل بیمار ہے کہ وہ اُس کے احکام (اوامر و نواہی)سے بے خبر ہیں“۔
تین قسم کے لوگوں کی مجلس سے پرہیز:غافل علمائ:خوشامدی فقرائ:جاہل صوفیائ:
فرماتے ہیں:شیخ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی نے کیا ہی اچھا فرمایا ہے کہ ” تین اقسام کے لوگوں کی محفل سے پرہیز کرو“۔(۱)غافل علمائ۔(۲)خوشامدی فقرائ۔ اور(۳)جاہل صوفیائ۔
وہ ہیں جنہوں نے دنیا کو دِل کا قبلہ اور شریعت سے آسان چیزوں کو اختیارکرکے ظالم حاکموںکی پرستش کوا پنا وطیرہ اور اُن کے ڈیروں، دفاتر اور مراکز (درگاہوں)کو اپنی طواف گا ہ بنا رکھا ہے اور لوگوں کی نظر وقعت حاصل کرنے کو اپنامحراب بنا کر غرور اور دانائی پر فریفتہ اور اپنے کلام کی باریکی میں مشغول ہو گئے ہیں اور آئمہ دین اور اُستادوں کے حق میں لعن طعن کی زبان دراز کرکے بزرگانِ دین کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ زیادتی اور مبالغہ کی اِس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اُن کی نظر میں اِس کا کچھ بھی وزن نہ رہا۔ کیونکہ کینہ اور حسد کو اُنہوں نے اپنا مذہب بنالیا ہے۔ الغرض یہ سب لوگ حقیقی عالم نہیں ہوتے جب کہ علم ایک ایسی صفت ہے جس کی بدولت ہر قسم کی جہالت کی بات اُس کے موصوف سے دُور ہو جاتی ہے۔
وہ ہیں کہ جب کوئی اُن کی خواہشِ نفس کے مطابق کام کرے تو اگرچہ وہ فعل باطل ہی ہو وہ اُس کی مدح کریں اور جب کوئی شخص ایسا کام کرے جو اُن کی خواہش کے مخالف ہو تو اگرچہ وہ فعل حق ہی ہو وہ اُس فعل کی وجہ سے اُس کی مذمت کریںاور وہ لوگوں سے اپنے عمل اور برتاﺅ کے باعث مرتبہ کی طمع کریں اور خلقِ خدا کو باطل اُمور کی تلقین کریں۔
وہ ہیں جو نہ کسی مرشد کی صحبت میں رہے اور نہ کسی بزرگ سے ادب سیکھااور نہ ہی زمانہ کے مصائب جھیلے بلکہ باطنی اندھے پن سے فقیرانہ لباس پہن کر اپنے آپ کو لوگوں کے درمیان ڈال دیااور اُن کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی بے عزّتی پرخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ حماقت نے اُن کو اِس بات پر اُبھارا ہے کہ سب لوگوں کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں ۔ اِسی لئے حق و باطل میں تمیز کرنے کے طریق میں ناقص ہیں۔ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے اور اپنے طریق میں ناقص ہیں۔
فرماتے ہیں : حضرت با یزید بسطامی کا فرمان ہے : ” میں نے تیس سال کا مجاہدہ کیا مگر میں نے علم اور اِس کے مطابق عمل کرنے سے اور کسی چیز کو اپنے لئے مشکل نہیں پایا۔“
نماز کی حقیقت کے بارے میں فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور نماز قائم کرو“ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نماز قائم کرواور وہ جو تمہارے ملک میں ہیں“۔ (اُن کاخیال رکھو)۔
نماز ایک مخصوص عبادت ہے جو روزانہ چند مخصوص اَحکام کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور اللہ جل جلا لہ ¾ کا حکم ہے پانچ وقتوں میں نمازیں ادا کرو۔
حدیث شریف میں ہے۔”حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے قلبِ منور میں ایسا جوش ہوتا تھا جیسا کہ کانسی کی دیگ میں‘ جس کے نیچے آگ جلتی ہو“۔
امیر المو ¿منین حضرت سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ نماز کا قصد کیا کرتے تو آپ کے بدن کے بال کھڑے ہو جاتے اور کپڑے سے باہر سرنکال دیتے اور آپ پر کپکپی طاری ہو جاتی اور فرماتے کہ اُس امانت کے ادا کرنے کا وقت آگیا ہے جس کے اُٹھانے سے آسمان اور زمین عاجز آگئے تھے۔
حضرت حاتم اصم (علیہ الرحمہ)کی نماز:
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حاتم اصم سے پوچھا۔ آپ نماز کس طرح ادا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کہ جب نماز کا وقت آجاتا ہے تو ایک وضو ظاہر کا کرتا ہوں اور ایک باطن کا ۔ ظاہری وضو پانی سے کرتا ہوںاور باطنی وضو توبہ سے ۔ پھر مسجد میں داخل ہوتا ہوں اور مسجد بیت الحرام کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ مقام ابراہیم کو اپنے دو اَبرو کے سامنے رکھتا ہوں، بہشت کو اپنے قدموں کے نیچے رکھتا ہوں اور ملک الموت کو اپنی پیٹھ کے پیچھے خیال کرتا ہوں، پھر نہایت حُرمت کے ساتھ قیام اور بڑی ہیبت کے ساتھ قرا ¿ت اور خاکساری کے ساتھ رکوع، عاجزی کے ساتھ سجود اور بڑے حلم و وقار کے ساتھ قعود اور پھر آخر میں شکرِ حق کے ساتھ سلام پھیر تا ہوں اور توفیق قبضہ ¿ قدرت میں ہے
نماز کے فوائد:
یہ جاننا چاہئے کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ طالبانِ حق، اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں ابتداءسے انتہاتک اِسی سے راہِ حق پاتے ہیں اور اِسی میںمشغول ہو تے ہیں۔ اِن کے مقامات عموماً اِس میں کشف ہوتے ہیں۔چنانچہ طہارت طالبانِ حق کے لئے توبہ ہوتی ہے اور قبلہ کی طرف رُخ کرنا پیر کے ساتھ تعلق کے قائم مقام ہے اور قیام کرنا مجاہدئہ نفس اور قرا ¿ت ذکر دوام اور رکوع تواضع اور معرفتِ نفس اور تشہد، اُنسِ حق اور سلام دنیا سے علیحدگی اور مقامات کی پابندی سے نکلنے کے قائم مقام ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے تمام تعلقات سے منقطع ہو جاتے تو کمالِ حیرت کے محل میں شوق دیدار کے طالب ہوتے اور فقط یادِ حق سے تعلق مضبوط کرتے، پھر فرماتے: ”اے بلال رضی اللہ عنہ ہمیں نما ز سے خوش کرو“۔یعنی نماز کی اذان دو تاکہ نماز پڑھ کر راحتِ قلب حاصل کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے“۔یعنی مجھے نماز ہی میں سرور اور فرحت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں: سچے فرمانبردار کی علامت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ اُس کے لئے مقرر ہوتا ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو وہ اُس بندہ کو نماز ادا کرنے پر آمادہ کرے اور اگر وہ شخص سو رہا ہو تو اُسے بیدار کر دے اور یہ علامت حضرت سہل بن عبداللہ تستری میں ظاہر تھی۔اِ س لئے کہ آپ بوڑھے اور معذور ہو گئے تھے۔ لیکن جب نماز کا وقت آیا تو ٹھیک ٹھاک ہو جاتے اور نماز ادا کر چکتے تو پھر عاجز اور معذور کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔
روایت ہے کہ حضرت حسین بن منصور رحمہ اللہ تعالیٰ رات دن میں چار سو رکعت نماز پڑھنا لازم رکھتے تھے۔لوگوں نے عرض کیا کہ آ پ جو اتنے بلند درجہ پر ہیںتو اِس قدر رنج اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا : ” یہ سب رنج و راحت تیرے اپنے حال میں ظاہر ہوتا ہے اور دوستانِ حق جو فانی الصفت ہوتے ہیں اُنہیں نہ رنج محسوس ہوتا ہے نہ راحت۔ خبردار سستی کا نام حق تک پہنچنا اور حرص کا نام طلب حق نہ رکھنا۔
فرماتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی جب بوڑھے ہو گئے تو روزانہ اَیّام جوانی کے اَوراد میں سے کوئی وِرد بھی نہ چھوڑتے تھے۔ لوگوں نے عرض کیا‘ اے شیخ! اب آپ ضعیف ہو گئے ہیں اِن اوراد میں سے کچھ چھوڑدیجئے تو آپ نے فرمایا:
یہ وہ چیزیں ہیں کہ شروع سلوک میں، میں نے جو کچھ پایا اِنہی کی بدولت پایا۔ اَب محال ہے کہ انتہائے سلوک میں اِن کو ترک کر دوں۔
حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے بچپن میں ایک عابدہ عورت کو دیکھا کہ بچھو نے اُس کو نماز میں چالیس جگہ کاٹا اور اُس میں کچھ بھی تغیر ظاہر نہ ہوا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تو میں نے اُس سے کہا: ” اے اَمّاں جان آپ نے اُس بچھو کو کیوں نہیں ہٹایا؟ تو وہ فرماتی ہیں : لڑکے تو ابھی بچہ ہے کس طرح ممکن ہو سکتاہے میں خداوند تعالیٰ کے کام میں اپناکام کرتی۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال سفر کیا مگرمیری کوئی نماز جماعت کے بغیر نہیں ہوتی تھی اور جمعة المبارک کے روزمیں ایک قصبہ میں ہوتاتھااور نماز کے اَحکام اِس سے زیادہ ہیںکہ اُن کو بیان کر سکیں لیکن مقامات میں سے جو بات نماز سے تعلق رکھتی ہے وہ محبت ِ الٰہی ہے۔
No comments:
Post a Comment