Ad

Ad

Saturday, 22 September 2012

Mopsan French Poet


”موپساں“ عظیم فرانسیسی ادیب
فلابیئر کی عجیب و غریب عادات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتا تو ایک کمرہ کرائے پر لے لیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے وہ کھانا کھاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کمرے میں جا کر کوٹ اور جوتے اتار دیتا۔ بنیان قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دیتا۔ پھر شراب پیتا اور پیٹ بھر کر کھانا کھاتا جب کھا کر مدہوش ہوجاتا اور لڑکھڑا نے لگتا تو اس کو سہارا دے کر گھر حفاظت سے لانے کا فریضہ اس کا ہونہار شاگرد ادا کرتا تھا۔ یہ شاگرد کوئی اور نہ تھا۔ سترہ سالہ موپساں تھا۔
جس کا ہاتھ فلابیئر کے ہاتھ میں دے کر موپساں کی ماں نے کہا تھا:
”لے فلابیئر یہ تیرا ہوا۔ اسے لکھنا سکھا دے“
فلابیئر نے موپساں کی ماں کی یہ بات سنی اور موپساں کو دنیا کا ایک بڑا کہانی نویس بنا دیا۔
موپساں کی ماں مادام (Lee Poittevin) اور اس کے باپ Gustave de Maupassant کے مزاج اور عادات میں بڑا فرق تھا۔ موپساں کی ماں ادبی اور شاعری ذوق رکھتی تھی، پیرس کے ادیبوں اور شاعروں سے اس کا ملنا جلنا تھا۔ انگریزی کلاسیک ادب سے شد بدھ رکھتی تھی۔ شیکسپیئر اس کا پسندیدہ شاعر تھا۔ موپساں کا باپ ایک سٹاک بروکر تھا۔ دونوں خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر موپساں کا باپ سب کچھ رکھتے ہوئے ادبی ذوق اور حسن لطیف سے دور تھا۔ موپساں کی ماں اس کے باپ کے دو بچوں کی ماں بنی مگر پھر اس کے ساتھ گزارا مشکل سمجھا۔ وہ ایک آزاد خیال عورت تھی۔ عورت کا خاوند سے طلاق لینا اس زمانے میں بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس نے یہ معاشرتی اور سماجی بدنامی مول لی اور طلاق لے لی۔ اپنے لڑکوں کو ساتھ لے کر لگ رہنا شروع کر دیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا 5سال اور بڑا بیٹا موپساں 11سال کا تھا۔ جب 17سال کا ہوا تو اسے ماں نے فلابیئر کی شاگردی میں دے دیا۔
ہنری رینے گائی ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5اگست 1850ءکو نارمنڈی (فرانس) کے مقام پر پیدا ہوا۔ صرف 42سال زندہ رہا اور 6جولائی 1893ءکو فوت ہو گیا۔ بہت مختصر زندگی پائی مگر مختصر کہانی اور افسانے کا امام کہلایا۔ وہ جدید افسانے میں حقیقیت نگاری اور نیچرل ازم کے بانیوں میںشمار کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ سب فلابیئر کی صحبت اورتربیت کا نتیجہ تھا۔ فلابیئر اس کا گرو اور گارڈ فادر تھا۔ لکھنے اور کہانی کہنے کے دنگل میں اس نے موپساں کو عملی اور فکری تربیت دی۔ جملے کی ساخت اور الفاظ کے استعمال کے گر سکھائے (کہانی شروع کرنے اور اسے احسن طریقے سے ختم کرنے کا طریقہ سمجھایا اور قدم قدم پر اس کی رہنمائی کی .... الفاظ سے تصویر بنانے کا فن الفاظ کو بر محل استعمال کرنے کا گر اور سادہ طرز تحریر، جملے کا اختصار۔ فلابیئر کی بتائی ہوئی یہ باتیں اس نے پلے باندھ لیں اور پھر اپنی محنت اور لگن سے وہ دنیا کا بڑا افسانہ نویس بن گیا۔ فلابیئر اس کی تحریروں کی بار بار کانٹ چھانٹ کرتا تھا۔ ایک ہی موضوع پر اس سے بار بار کہانی لکھواتا تھا .... ایک بار موپساں نے ایک ڈراما لکھا۔ فلابیئر نے اپنے گھر سب دوستوں کو اکٹھا کیا (ان میں ایملی زولا بھی تھا اور پھر موپساں کو یہ ڈراما سٹیج کرنے کےلئے کہا۔ موپساں کی اچھائیاں ادبی دوستوں کے سامنے پیش کرنے کےلئے فلابیئر اکثر ایسا کیا کرتا تھا)۔ فلابیئر کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ موپساں کو ان ادبی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور اس کی ادبی صلاحیت کو بہت تقویت ملی۔ روسی ناول نگار تر گنیف جو فلابیئر کا دوست تھا۔ موپساں کے مداحوں میں شامل تھا۔ موپساں کو ٹالسٹائی سے ادبی طور پر متعارف کرانے والا ترگنیف ہی تھا۔ اس نے موپساں کی کہانیوں کی کتاب روس جا کر ٹالسٹائی کو پیش کی اور موپساں کی بے حد تعریف کی۔ ٹالسٹائی کے موپساں کی کہانیوں سے روسی ترجمے کا دیباچہ لکھ کر موپساں کے فن کا بہت سراہا ہے۔
موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل دریا خوبصورت فطری نظاروں میں اس نے وقت گزارا۔ سمندر میں کشتی رانی کی۔ مچھلیاں پکڑنے وہ سمندر میںبہت دور نکل جاتا تھا۔ سمندری سفر کا شوق ساری زندگی اس کے ساتھ رہا۔ ایک بار نار منڈی کے ساحل پر مشہور شاعر چارلس سونبرن (Charles Swinburne) سمندر میں ڈوبنے لگا تو موپساں نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی .... پہلی بار ایک سکول میں داخل ہوا تو مذہب کے بارے میں اپنے منفی خیالات کی بنا پر سکول سے نکال دیا گیا۔ دوسرے سکول میں جا کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شاعری میں دلچسپی اور ادب کا مطالعہ کیا، بی اے کرتے ہی فرانس اور پروشیا کی جنگ چھڑ گئی۔ موپساں نے رضاکارانہ طور پر جنگ میں اپنا نام لکھوا دیا .... 1871ءمیں جنگ سے فارغ ہو کر پیرس آگیا اور نیوی کے محکمے میں دس سال کلرکی کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلابیئر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ادب اور صحافت کے میدان کا کامیاب کھلاڑی بنا دیا۔ زولا اور ترگنیف کی صحبت میں بٹھایا حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کے سکول کے دروازے اس پر کھولے۔ اس نے اسی زمانے میں اخباروں کے لئے لکھا اور ناول اور افسانہ نویسی کی طرف دھیان دیا۔
1880ءکی دہائی کا زمانہ موپساں کے تخلیقی عروج کا زمانہ ثابت ہوا۔ اس نے اپنا پہلا ناول Boule de Suif اسی زمانے میں لکھا۔ جسے فلابیئر نے زندہ رہنے والا شاہکار قرار دیا۔ ”مادام فی فی“ Mother Savage جیسی کہانیاں لکھیں اس زمانے میں اس نے بے حد دولت بھی کمائی۔ تخلیقی اور اقتصادی صلاحیتوں میں توازن قائم کیا۔ ادب بھی لکھا اور پیسے بھی کمائے .... کہانیوں کا مجموعہ Le Masion Tellier چھپا تو دو سال میں 12 ایڈیشن آ گئے .... ناول UNE.VIE (جس کا انگریزی نام (A Woman's Life کی ایک سال میں 25000 کاپیاں بک گئیں .... ناول بل ایمی (Bel Ami) شاہکار ثابت ہوا۔ چار مہینے میں 37 ایڈیشن چھپ گئے۔
بل ایمی (Bel Ami) پیرس کی معاشرتی اور مجلسی زندگی کی حقیقی اور کھری تصویر ہے۔ پیرس کی مجلسی زندگی شادی شدہ عورتوں کے معاشقوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں مردوں کا ایک ایسا گروہ نظر آتا ہے جو دیہاتوں سے پیرس میں داخل ہوتا ہے۔ (دولت اور مقام حاصل کرنے کےلئے وہ شادی شدہ مال دار عورتوں سے عشق کرتا اور سوسائٹی میں اپنا مقام پیدا کرتا ہے۔ 18ویں اور انیسویں صدی کے کئی ناولوں کا پلاٹ ایسے ہی مردوں اور ان کی سرگرمیوں پر بنا گیا ہے۔ روسو کے ”اعتراضات“ سے اس کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ پیرس میں جب روسو بیکار زندگی گزارتے گزارتے تھک جاتا ہے تو اسے کافی ہاﺅس کا بوڑھا یہی مشورہ دیتا ہے کہ نام کمانا چاہتے ہو تو کسی شادی شدہ مال دار عورت کا سہارا تلاش کرو .... چنانچہ ایسی مال دار عورتیں اسے مل جاتی ہیں اور وہ دیکھتے دیکھتے پیرس کی مجلسی زندگی میں مشہور ہو جاتا ہے۔ ستاں وال کا ”سرخ و سیاہ“ کا پلاٹ میں شادی شدہ عورت اور کنوارے نوجوان کے عشق کے داستان ہے)۔ بالزاک کے ”بوڑھا گوریو“ میں ہیرو شادی شدہ عورت سے عشق کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ بل ایمی Bel Ami کی کہانی بھی ایک ایسے مرد کے گرد گھومتی ہے جو دیہاتی علاقے سے پیرس کی زندگی میں آتا ہے اور شادی شدہ عورت کی مدد سے پیرس کی مجلس زندگی کا ایک کامیاب فرد بن جاتا ہے۔
بل ایمی کی کہانی جارج ڈیور رائے کی منفی سرگرمیوں کی کہانی ہے۔ جو ایک غریب آدمی ہے۔ لیکن اپنی چالا کیوں، سازشوں اور منصوبوں سے پیرس کی سوشل سوسائٹی کا ایک طاقتور آدمی بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسے اپنی ذہانت اور چالاکی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایسی کامیاب منصوبہ بندی کرتا ہے کہ اسے نام ، مقام اور دولت مند محبوبہ مل جاتی ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس کےلئے وہ پیرس کی مجلسی زندگی میں داخل ہوا تھا۔
ناول کی کہانی پیرس کے ماحول میں ایک کامیاب اخبار کے مالک، اس کے عملے اور دوستوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہ الجیریا میں تین سال فوجی خدمات سرانجام دینے والے Duroy Georges کی کہانی ہے۔ وہ پیرس میں آتا ہے۔ چھ مہینے کلر کی کرتا ہے پھر اس کی ملاقات اپنے ایک فوجی ساتھی، کامریڈ (Forestier) سے ہو جاتی ہے جو اسے صحافی بننے کا مشورہ دیتا ہے۔ چنانچہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کی رپورٹنگ اور ہلکی پھلکی خبریں اخبار میں دینا شروع کر دیتا ہے اور چیف ایڈیٹر تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ ایڈیٹر اس کی توجہ اہم موضوعات پر مضمون لکھنے کی طرف دلاتا ہے۔ اس کا پہلا مضمون ہی اخبار میں اہم جگہ پاتا ہے اور پھر وہ اہم ترین سوشل ، سیاسی موضوعات پر مضامین لکھنا شروع کرتا ہے جو پہلے صفحے پر مرکزی جگہ پاتے ہیں۔ ان تمام مضامین کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے جو اس کے پرانے فوجی ساتھی کی بیوی ہے۔ (Forestier) کی بیوی اس کے لکھے مضامین دیکھتی ہے۔ ان کای کانٹ چھانٹ کرتی اور پھر اسے اخبار میں دینے کے لئے کہتی ہے۔ اس کے حکومت کے سیاسی آدمیوں سے تعلقات ہیں۔ ان سے وہ اہم راز حاصل کرتی ہے اور ان مضامین کا حصہ بناتی ہے اور (Duroy) کو سیاسی اور اہم شخصیتوں سے متعارف کراتی ہے۔ یہ ساری دعوتیں مادام (Forestier) کے ڈرائنگ روم میں ہوتی ہیں۔ جہاں پیرس کی اہم خواتین بھی آتی ہیں۔ ان میں ایک عورت مادام (MME de Marelle) بھی ہے جو مادام Forestierکی سہیلی ہے۔ ناول کا ہیرو Duroy اس سے عشق شروع کر دیتا ہے .... اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مادام (Forestier) سے بھی جسمانی رسم و راہ بڑھانا چاہتا ہے۔ مادام اس کے اس اظہار عشق کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اور اس سے کہتی ہے کہ ہم اچھے دوست بن کر بہتر وقت گزار سکتے ہیں۔ چند ماہ بعد چارلس (Forestier) کی صحت بگڑ جاتی ہے۔ مادام اسے لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے صحت افزا مقام پر لے جاتی ہے۔ اس کی حالت بگڑتی ہے تو وہ (Duroy) کو بلا لیتی ہے۔ چارلس فوت ہو جاتا ہے۔ Duroy مادام کو شادی کی پیش کش کرتا ہے، چند ہفتے سوچ بچار کے بعد مادام اس شادی کرلیتی ہے۔ اور مادام Duroy بن جاتی ہے۔ .... شادی کے بعد Duroy اسے اپنے ماں باپ کے پاس نارمنڈی لے جاتا ہے۔ جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا ہے، مادام وہاں جا کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوتی۔ اسے وہ جگہ اور Duroy کے ماں باپ پسند نہیں آتے۔ چنانچہ دو تین دن رہ کر واپس پیرس آجاتے ہیں۔ جہاں آکر حالات بدلنے شروع ہو تے ہیں۔ 
اخبار کا سارا عملہ اس راز سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ Duroy کے مضامین اس کی بیوی لکھتی ہے چنانچہ وہ سب اسے باتوں باتوں میں اس کا طعنہ دیتے ہیں۔ اور اسے ”بیوی کا دست نگر“ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ Duroy اس بات سے بہت چڑتا ہے اور وہ اپنی بیوی میڈیلین Madeleine (جو مادام Forestierکا اصلی نام ہے) سے حسد کرنے لگتا ہے اور اسے طعنہ دیتا ہے کہ وہ اس سے بے وفائی کررہی ہے۔ جس کا وہ انکار نہیں کرتی۔ Duroyکا شک امربیل کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔ اسے مزید ستانے کےلئے وہ اخبار کے مالک کی بیوی مادام والٹر سے تعلقات قائم کرلیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد مادام والٹر کے بے وقت اور لا تعداد جسمانی تقاضوں سے وہ اکتا جاتا ہے۔ بیوی سے فاصلہ بڑھتا رہتا ہے اور پھر اچانک اسے اپنی بیوی سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ایک پولیس افسر کو ساتھ لے کر وہ ایک فلیٹ پر جاتا ہے جہاں اس کی بیوی ایک وزیر کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہے۔ دونوں پکڑے جاتے ہیں اور دونوں پر بدکاری کا مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔
Duroyاب ایک آخری معرکہ مارتا ہے اور اخبار کے ایڈیٹر کی بیٹی سوسین والٹر (Susanne Walter) سے تعلق قائم کر لیتا ہے مادام والٹر اور والٹر بے بس ہیں کیونکہ سوسین والٹر شادی کرنے پر تلی ہوئی ہے .... ناول کے آخر میں Duroy کی شادی سوسین والٹر سے ہو رہی ہے۔ پیرس کی تمام ساسی اور اہم شخصیات شامل ہیں۔ Duroy اہم ترین آدمی بن چکا ہے۔ لیکن شادی کے وقت بھی وہ اپنی پہلی محبت MME de Marelleکے بارے میں سوچ رہا ہے وہ بھی شادی میں شامل ہے۔ اسے مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے کہ شادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اب بھی تم سے ملنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ میں اب بھی تم سے ملتی رہوں گی۔ بیل ایمی اس ناول کے ہیرو کا نک نیم ہے۔
بل ایمی کو چھپتے ہی بڑی پذیرائی ملی اور چار مہینے میں اس کے 37 اڈیشن چھپ گئے۔ شاید پیرس کے مردوں اور عورتوں کو اس ناول میں اپنے چہرے دکھائی دے رہے تھے۔ 
بل ایمی کا بعض نقادوں نے زولا کے مشہور ناول نانا سے موازنہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ناولوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے۔ بل ایمی کا ہیرو Duroyدیہات سے آتا ہے۔ غریب ہے اور امیر بننے کےلئے پیرس کی سماجی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
نانا (Nana) بھی پیرس کی غریب بستی میں پیدا ہوتی ہے۔ حصول زر کےلئے وہ جدوجہد کرتی اور پیرس کی سوشل زندگی میں مقبولیت حاصل کرتی ہے اور ایک مقام حاصل کرلیتی ہے۔ 
بل ایمی کا ہیرو Duroy عورتوں کےلئے ایک کشش رکھتا ہے۔ عورتیں اس کی طرف کھینچی چلی آتی ہیں۔ نانا بھی مردوں کےلئے جنسی کشش رکھتی ہے اور مردوں کا ایک ہجوم اس کا قرب حاصل کرنے کےلئے بے تاب رہتا ہے۔
Duroy اپنی منزل تک پہنچنے کےلئے عورتوں کو بیساکھی استعمال کرتا ہے اور جبکہ نانا اپنی منزل کےلئے مردوں کی مدد حاصل کرتی ہے۔ موپساں نے چھ ناول ، شاعری کی ایک کتاب ، تین سفر نامے اور تقریبا 275 کہانیاں لکھیں۔ پہلے پہل اسے شاعری کا شوق چرایا کتاب چھپی۔ موپساں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ شاعری اس کے بس کا روگ نہیں اور روسی مصنف گوگول کی طرح شاعری سے توبہ کرلی۔ فلابیئر کا مشورہ بھی تھا کہ ”تم افسانے لکھا کرو“۔
موپساں کا شمار دنیا کے عظیم افسانہ نویسوں میں ہوتا ہے۔ چنیوف بھی اس کی کہانیوں کا معترف ہے۔ موپساں نے معاشرے کے ان مسائل کو موضوعات بنایا جو تلخ حقائق تھے مگر کوئی انہیں لکھنے کی جرا ¿ت نہ کرتا تھا۔ اس کی کہانیوں کے پس منظر فرانس اور پروشیا جنگ کے متاثرین ہیں۔ دوسرا اہم موضوع جنس ہے۔ جس پر موپساں نے کھل کر لکھا اور سچائی بیان کرنے میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اس کے ناول اور کچھ کہانیاں عدالتی نوٹس کی بدولت Ban بھی کر دی گئیں۔
موپساں کی حقیقت پسندی اور نیچرل ازم نے ساری دنیا کے ادیبوں کو متاثر کیا۔ مختصر انداز میں لکھی گئی کہانیاں، جنسی مسائل کے باریک بینی کے بیان نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کی تقلید میں ہر زبان میں افسانے لکھے گئے اور موپساں کے بار بار مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے .... اردو میں منٹو کو اس کا پیرو کار کہا جا سکتا ہے۔ سمرسٹ ماہم اور او۔ ہنری نے بھی اس کی تقلید میں افسانے لکھے۔ اردو میں راجندر سنگھ بیدی نے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسے چنیوف اور منٹو کو اردو زبان کا موپساں نہ کیا جائے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ منٹو موپساں سے حد درجہ متاثر تھا۔ منٹو نے موپساں کی کہانیوں کے تراجم بھی کیے اور اس سے اثر بھی قبول کیا۔ منٹو کی جو کہانی بھی پڑھی جائے اس کے کسی نہ کسی حصے پر موپساں کا رنگ ضرور نظر آتا ہے۔ 
موپساں بہت زور نویس تھا۔ اس نے پیسے کےلئے دھڑا دھڑ افسانے اور ناول لکھے۔ اس کے اس انداز پر تنقید بھی کی گئی مگر کچھ نقادوں نے یہ کہا کہ موپساں کو کم درجے کا مصنف نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ہر افسانہ لکھنے میں تیز رفتاری سے کام لیا۔
موپساں کے ہاں انسانی زندگی کے باطنی نظام کا پورا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ریاکاری سے کام نہیں لیتا جو دیکھتا ہے لکھ دیتا ہے۔ وہ یونانی ڈراما نگار کی طرح سوسائٹی میں نظر آنے والی چیزوں کا مصور تھا، تصویر اچھی بنے یا بری وہ ہمیشہ یہ کہتا تھا کہ میں جو سوسائٹی میں دیکھتا ہوں۔ جو مجھے نظر آتا ہے وہی لکھتا ہوں۔
موپساں نے اپنے گروفلابیئر کی ہر بات پر عمل کیا اور فنی طور پر مضبوط بن کر لوگوں کے سامنے آیا .... بس آخری دنوں میں اپنی نجی زندگی میں فلابیئر کی باتوں پر عمل نہیں کیا اور اپنی زندگی برباد کرلی۔ لذت پرستی کے ہاتھوں اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ ابنار مل زندگی گزار دی۔ جنسی زندگی کی بے راہروی کے ہاتھوں اپنا دماغی نظام خراب کر بیٹھا۔ ایسا بیمار ہوا کہ جسم کے سارے بال جھڑ گئے۔ کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش کی ناکام رہا۔ ایک بار اپنا گلا کاٹ لیا۔ یہ جنوری 1892ءکی بات ہے۔ پیرس میں Passy کے مقام پر اسے ہسپتال میں ڈاکٹر Esparit Balanche کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اب اس کا دماغی توازن بالکل بگڑ چکا تھا۔ آخر 6جولائی 1893ءکی صبح کو مختصر کہانی کا پیش رو جدید افسانے کا بانی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
موپساں نے چھ ناول لکھے۔ اس کی بے شمار کہانیوں کی فہرست دینا ممکن نہیں۔ صرف اتنا بتا دینا کافی ہو گا کہ افسانوں کے 16 مجموعے اس کی زندگی ہی میں چھپ چکے تھے۔ اس کی 60سے زیادہ کہانیاں شاہکار تصور کی جاتی ہیں۔ جب میں موپساں کے فن کو دنیا کے بڑے بڑے نقادوں نے سراہا ہے۔ نٹشے (Nietzsche) اپنی سوانح عمری میں کہتا ہے کہ اگر مجھے اس صدی کا کوئی مصنف منتخب کرنے کےلئے کہا جائے تو میں موپساں کا نام لوں گا۔
ٹالسٹائی نے اپنے مضمون میں موپساں کا بھرپور تجزیہ کیا ہے اور اسے بڑا کہانی نویس قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ موپساں نے فرانسیسیوں کے کردار تشکیل دیتے وقت اس مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ ٹالسٹائی اپنے مضمون میں کہتا ہے۔ 
”میں روسی ہوں“ فرانس کے ادیب اپنے ہم وطنوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں، لیکن انہوں نے جس طرح اپنی تحریروں میں فرانسیسیوں کو پیش کیا ہے لگتا ہے وہ سب سست مویشی ہیں۔ جنس زدہ ہیں اور مضحکہ خیز ہیں، حالانکہ انہوں نے آرٹ ، سائنس اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں بڑا نام پیدا کیا ہے ....“
 بہرحال یہ ٹالسٹائی کا اعتراض ہے۔ لیکن موپساں نے اپنی تحریروں میں وہی کچھ پیش کیا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔
روسی ادیب گوگول جب تک پشکن کے زیر سایہ رہا سلیقے کی زندگی بسر کرتا رہا۔ جب پشکن مرگیا تو اس کی زندگی اندھیروں میںبھٹک کے رہ گئی۔ دیوانہ ہوگیا۔ پاگل ہو گیا اور جنونی ہو گیا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ اپنے لکھے کو جلا دیا اور لوگوں نے اسے مردہ سمجھ کر زندہ دفنا دیا۔
موپساں فلابیئر کے زیر اثر رہا تو بڑا مصنف بن گیا، زندگی اپنے انداز میں گزاری تو بکھر کر رہا گیا۔ دماغی توازن کھو بیٹھا۔ اپنے ہاتھ سے اپنا گلا کاٹ لیا اور ہسپتال میں درد ناک موت سے دوچار رہو گیا۔ 

No comments:

Post a Comment