Ad

Ad

Monday, 17 September 2012

Qadeem Masajid e Nabawiya ثالث: قدیم مساجد نبویہ جو اب موجود نہیں


Qadeem Masajid e Nabawiya
ثالث: قدیم مساجد نبویہ جو اب موجود نہیں
مسجد الخربہ لبنی عبید بن بنی سلمہ:
ابن زبالہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اس مسجد کے مقام پر تشریف لائے۔ یہ جگہ سلافة ام بشر بن معرور کے نام سکے انی جاتی تھی جو مسجد الخرابہ میں وا قع تھی اور یہیں پر ایک کنواں بئر ا لقراصہ بھی موجود تھا اس مقام پر آپ نے نماز ادا کی۔ قراصہ اس جگہ کو بھی کہتے ہیں جو مشہور صحابی حضرت جابرؓ کی ملکیت کہی جاتی تھی۔ حضرت جابرؓ کے والد پر قرض تھا جو ان کی زندگی میں ادا نہیں ہو سکا تھا۔حضرت جابرؓ کی عمر چھوٹی تھی تو آپ نے ان کا قرض ادا کرنے کا اہتمام کیا تھا جو غالباً کھجوروں کی شکل میں تھا۔ یہاں پر ایک گڑھی (بڑی حویلی) الاشنف کے نام سے موسوم تھی۔ بنو عبید میں سے براءبن معرور بن سنان بن صخر بن عبید نے ان کی کفالت لی۔

 مسجد کے محل وقوع کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مقام حرہ اور القراصہ کنویں کے مقام پر جبل دویخل کے قریب واقع تھی اس کے سامنے مسجد بنی حرام الصغیر اور مشرق کی جانب سے مساجد الفتح تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد الخرابہ جبل سلع پر موجود مسجد الفتح کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ واللہ اعلم۔
مسجد بنی زریق:
یہ مسجد مدینہ منورہ کے علاقے الحظیرہ کے مقام پر تھی جہاں پر بعد میں محلات السید محمود نامی محلہ آباد ہو گیا تھا یہ حی الشونہ کی طرف باب جدید کے قریب واقع تھا۔ بنوزریق قبیلہ خزرج کی شاخ ہے۔
ابن شبہ نے معاذ بن رفاعة الزرقی سے روایت کی ہے کہ آپ مسجد بنی زریق میں داخل ہوئے اور وضو فرمایا لیکن قبلے کی چھت پر تعجب کیا اور یہاں نماز نہیں ادا کی۔ یہ پہلی مسجد تھی جس میں قرآن کریم پڑھا گیا۔ یہ جگہ مسجد نبوی شریف کی جدید توسیع کے دوران مغربی جانب سے شامل کی گئی جہاں پر مسجد کے انتظامی امور کے دفتر کی کاریں کھڑی کرنے کی جگہ ہے۔ 
ابن زبالہ نے روایت کی ہے کہ ”جس وقت رافع بن مالک الزرقی نے عقبہ کے مقام پر رسول اللہ سے ملاقات کی ہے تو آپ نے انہیں مکہ مکرمہ میں نزول شدہ قرآن کریم عطا کیا۔ جب رافع مدینہ منورہ واپس آئے اور اپنی قوم کو جمع کیا تو اس مقام پر انہوں نے قوم کو قرآن کریم سنایا۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ جہاں یہ سب کچھ ہوا وہ القرقول کا مقام تھا۔ القرقول کا مطلب ہے”پولیس سینٹر“ یہ مرکز 1290ھ میں خالد پاشا نے بنوایا تھا۔
 مسجد بنی مازن بن النجار:
ابن زبالہ یعقوب بن محمد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مسجد بنی مازن کی تعمیر کا حکم دیا تھا مگر اس میں نماز ادا نہیں کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا اور ام بُردہ کے مکان میں نماز ادا کی۔ ام بُردہ آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم بن محمد کی دایہ تھیں اور انہی کے گھر میں حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اور اس موقع پر رسول اللہ بھی یہاں موجود تھے۔ ام بردہ کا گھر بھی بنی زریق کے گھروں میں شمار ہوتا تھا جو مشرقی سمت میں جانب قبلہ تھا۔ 
مسجد بنی عدی بن النجار یا مسجد دار النابغہ فی بنی عدی:
ابن شبہ نے یحیی بن النضر سے روایت کی ہے کہ آپ نے مسجد دارالنابعہ میں نماز ادا کی، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے مسجد بنی عدی اور دارالنابغہ میں غسل فرمایا۔ ابن شبہ کی روایت کے مطابق اس مقام پر آپ کے والد حضرت عبداللہ کی قبر بھی تھی۔ دار ابن عدی مسجد کے مغربی جانب بنی جدیلہ کے پڑوس میں تھا۔ ان کے گھر میں ایک کنواں بھی تھا جس کا ذکر مدینہ منورہ میں موجود کنوﺅں کے  ضمن میں کیا جائے گا۔ یہ مقام مسجد نبوی الشریف کی مغربی توسیع میں شامل ہو چکا ہے۔ 
 مسجد بنی الحارث بن الخزرج یا مسجد السنح:
ابن زبالہ ارو ابن شبہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے اس مسجد میں نماز ادا کی۔ اس مقام پر مشرقی جانب بنی حارث کے مقانات تھے۔ ماضی قریب میں اسے’اسقاط بنی الحارث“ کہا جاتا تھا۔ یہ مقام مسجد نبوی الشریف سے ایک میل کے فاصلے پر واقع تھا یہ بھی کہا گیا کہ ”السنح“ نامی علاقہ اس کے قریب واقع تھا آج کل یہ علاقہ شارع العوالی کے شمالی جانب خط السالمیہ کے قریب واقع ہے۔ 
مسجد بنی واقف:
امام المطری کہتے ہیں کہ بنو واقف ہلال بن امیہ الواقفی قبیلہ الا ¿وس کی ایک شاخ ہے۔ ابن زبالہ نے الحارث بن الفضل سے روایت کی ہے کہ آپ نے بنی واقف کی مسجد میں نماز ادا کی۔ امام المطری اور ان کے ہم خیال محققین کے مطابق ”اب یہ معلوم نہیں کہ ا نکے گھر کس مقام پر واقع تھے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ العوالی کے علاقے میں تھے“۔
السید السمہوودی کہتے ہیں کہ ”مسجد بنی واقف مسجد الفضیخ کے قریب قبلہ کی جانب واقع تھی اور السید العباسی نے السمہودی کے قول کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بڑی مسجد تھی جو مسجد الفضیخ کے قریب قبلہ کی جانب تھی جو مغرب کی طرف ہے جبکہ اسے دیوار سے گھیرا نہیں گیا تھا لیکن اس کے اندر کی عمارت میں محراب تھی۔ السید العباسی اس ضمن میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کے وسائل کے مطابق اس کی چار دیواری بھی تعمیر کر لی گئی تھی۔ واللہ اعلم! یہ جگہ اب مدینہ منورہ کے شمال میں امیر سلطان کے محل میں ہے۔ 
مسجد بنی وائل من الا ¿وس:
ابن شبہ نے سلمہ بن عبداللہ الخطمی سے روایت کی ہے کہ نبی اللہ نے مسجد بنی وائل میں دو ستونوں کے درمیان نماز ادا کی۔یہ جگہ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ سے پانچ ہاتھ پیچھے تھے یا اس کی جانب تھی۔ ابن زبالہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کی نماز یہاں ثابت ہے اسلئے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بنی وائل کے گھر قباءکے مقام پر تھے۔ امام المطری کے مطابق ہی مسجد الشمس سے مشرقی جانب تھی۔ واللہ اعلم۔
مقام قباءمیں مسجد دار سعد بن خیشمة:
ابن زبالہ کی روایت ہے کہ آپ نے قبا کے مقام پر مسجد دار سعد بن خیشمہ میں نماز ادا کی اور یہاں کچھ دیر قیام بھی فرمایا۔ دار سعد مسجد قباءکے قریب قبلہ کی جانب واقع تھا۔ واللہ اعلم
مسجد بنی بیاضة من الخزرج:
ابن شبہ نے سعید بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مسجد بنی بیاضہ میں نماز ادا کی۔ ابن زبالہ سعد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
ترجمہ” آج رات ایسی رحمت نازل ہوئی جو بنی سالم اور بنی بیاضہ کے درمیان ہے“۔
اس پر بنو سالم اور بنو بیاضہ نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا ہم اس طرف سکے منتقل ہو جائیں تو آپ نے فرمایا ”نہیں لیکن اس میں قبریں بناﺅ“۔ طبرانی نے سعد بن خیشمہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ ”اپنے مردوں کی یہاں قبریں بناﺅ“۔ 
ابن زبالہ کے مطابق یہ مقام بنی بیاضہ کی گڑھی (بڑی حویلی ) کے شمال جانب کھیتوں میں تھا۔ اس جگہ کو عقرب کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ مسجد قبا کے مغربی جانب مسجد التوبہ اور مسجد بنی سالم کے درمیان اس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں مجموعی طور پر ہی مدینہ منورہ کا مغربی حصہ ہے۔ 
بنی خطمی میں مسجد العجوز:
ابن شبہ نے سلمہ بن عبید اللہ الخطمی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے بنی خطمہ کے علاقے میں واقع مسجد العجوز میں نماز ادا کی تھی۔ یہ جگہ براءبن معرور کی قبر کے نزدیک ہے جو مشہور واقعہ عقبہ میں موجود تھے لیکن ان کا انتقال ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے ہو گیا تھا۔ آپ نے بنی خطمہ کے کنویں پر وضو فرمایا تھا یہ کنواں قباءکے مقام پر تھا اس کے بعد آپ نے ان کی مسجد میں نماز ادا کی۔ ان کی قریہ کے آثار الماجشونیة اور تنانیر النورہ کے علاقے کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں۔ امام ا لمطری کے مطابق ”یہ آثار العوالی کے علاقے میں مسجد الشمس کے مشرق میں ہیں“۔ واللہ اعلم۔
مسجد جھین وبلی:
ابن شبہ نے معاذ بن عبداللہ بن ا بی مریم وغیرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے مسجد جہینہ میں نماز ادا کی۔ الزبیر نے اپنی سند کے حوالے سے خارجہ بن الحارث بن رافع بن مکیث الجہنی سے اور انہوں نے اپنے والد اور دادا سے روایت کی ہے۔ ”ایک مرتبہ رسول اللہ تشریف لائے، آپ کے دو اصحاب جو قبیلہ جہینہ سے تھے آئے ان میں سے ایک کو (ابومریم) کہا جاتا تھا ، یہ دونوں بنی قیس العطار اور دیگر انصار کے گھروں کے درمیان پہنچے، یہاں پر قوم جہینہ میں سے ایک جماعت نے ابو مریم سے کہا کہ اگر آپ کی ملاقات رسول اللہ سے ہو تو ان سے کہہ دیں کہ ہمارے لئے مسجد کی جگہ مقرر فرما دیں۔ ابو مریم نے کہا کہ مجھے آپ کے پاس لے چلو تو ان کو وہاں لے جایا گیا۔ ابو مریم نے کہا یا رسول اللہ میری قوم کے لئے مسجد کی نشاندہی فرما دیں جس پر رسول اللہ مسجد جہینہ کے مقام پر تشریف لائے اور دوانیوں والا ایک عصا تھام کر زمین پر مسجد کا نشان لگایا اس مقام کو ماضی قریب میں باب الکومة کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ واللہ اعلم 
مسجد عتبان بن مالک (خزرج کے قبیلے بن سالم کے مقام پر)
ابن زبالہ اور یحییٰ نے ابراہیم بن عبداللہ بن سعد سے روایت کی ہے کہ عتبان بن مالک قبیلہ خزرج میں سے انصار کے ایک گروہ کے نمائندے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ”یا رسول اللہ میری قوم کی مسجد میں سیلاب میرے اور میری نماز کے درمیان حائل ہو جاتا ہے“ پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے ان کے گھر میں نماز ادا کی۔ یہ اصل میں بنی سالم بن الخزرج کا گھر تھا جو بنی مالک بن عجلان کی گڑھی (بڑی حویلی ) کے نام سے موسوم تھا۔ یہی وہ مسجد الشامی ہے جو وادی الشرقیة کے کنارے کے قریب واقع تھی“ جبکہ ان کی قوم کی مسجد کو بڑی مساجد میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ وادی کے مغربی کنارے پر تھی۔
عتبان کے مطابق رسول اللہ نے ان کے گھر میں نماز ادا کی اور وہ سب افراد آپ کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے۔ اس مسجد کا شمار ان مساجد میں ہوتا ہے جن کے آثار اب نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ العباس کے مطابق مسجد بی تا عتبان بن مالک کی تجدید 1036ھ میں کروائی گئی تھی۔ جس کا طول بارہ ہاتھ اور عرض چھ ہاتھ تھا۔ واللہ اعلم۔
مسجد بنی انیف: 
کلمہ انیف، ا ¿نیف، ا ¿نف کی تصغیر ہے۔ بنی انیف قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔ ابن زبالہ نے عاصم بن سوید، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے بھی انیف کے بزرگوں سے روایت کی ہے کہ ”آپ نے یہاں اس وقت نماز ادا کی جب آپ طلہ بن البراءسے واپس تشریف لا رہے تھے۔ یہاں قریب ہی ان کی گڑھی (بڑی حویلی) موجود تھی۔ سوید کے مطابق بنی انیف نے اس مقام پر جو قباءکے نام سے مشہور ہے یہ مسجد بنائی۔ واللہ اعلم
مسجد بنی عبدالاشہل من الاوس (اسے مسجد واقم بھی کہا جاتا تھا)
سنن ابن داﺅد میں کعب بن عجزہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ مسجد بنی عبدالاشہل میں تشریف لائے اور یہاں نماز مغرب ادا کی۔ جب دیگر افراد نے نماز ادا کر لی تو دیکھا گیا کہ وہ بعد میں بھی نماز (نوافل) ادا کرتے ہیں۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ یہ گھروں کی نماز ہے اور پھر طرح فرمایا:
ترجمہ: ”تم کو چاہئے کہ یہ نماز (نفل) تم گھروں میں ادا کرو“۔
السید السمہودی نے اپنی تاریخ میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”امام المطری نے کہا کہ بنی عبدالاشہل کے گھر بنی ظفر کے گھروں سے ہٹ کر تھے مگر یہ دونوں اماکن مشرق کی جانب علاقے الحرة الشرقیة جو حرة واقم والصواب کے نام سے معروف ہے میں تھے۔ حرہ عربی زبان میں لاوے اور پتھریلی زمین یا علاقے کو کہا جاتا ہے۔ جدید عربی لغت میں یہ سیکٹر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی علاقہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا گاﺅں تھا۔
 روایت ہے کہ رسول اللہ نے بنی عبدالاشہل کی مسجد میں نماز ادا کی یہ قبیلہ حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر ؓ کے قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ اس مقام پر ام عامر بن زید بن السکن رسول کریم کے لئے ہڈی والا گوشت لے کر آئیں اس کے بعد سرور کونین اٹھے اور نماز ادا کی اس وقت وضو نہیں کیا کیونکہ آپ پہلے سے ہی وضو سے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ”آپ بنی عبدالاشہل یا بنی ظفر کی طرف تشریف لے گئے (بنی ظفر بھی بنی عبدالاشہل کی ایک شاخ ہے) یہاں آپ کے سامنے روٹی اور گوشت پیش کیا گیا جو رسول اللہ تناول فرمایا اور بعد میں نماز ادا کی۔ وضو نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے سے ہی وضو سے تھے“۔ اس رویت میں گوشت کے لئے ”عرق“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی 
عرق میں عین پر زبر اور ”را“ سکون ہے یہ ایسے گوشت کو کہا جاتا ہے جو ہڈی پر لگا ہوتا ہے اور اسے دانتوں سے کھینچ کر کھایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم 
مسجد بنی ا ¿میہ بن یزید من الا ¿وس:
ابن شبہ نے عمر بن قتادہ سے روایت کی ہے آپ نے انصار کے ایک قبیلے بنی امیہ کی مسجد میں نماز ادا کی۔ یہ قبیلہ اوس قبیلے کی ایک شاخ تھا۔ ایک اور روایت جو محمد بن عبدالرحمن بن وائل سے ہے کہ مطابق آپ نے بنی امیہ بن یزید الاوسی کی مسجد میں نماز ادا کی۔ یہ خاصا خستہ حال مقام تھا اس سے متصل ایک گڑھی (بڑی حویلی) تھی۔ جب یہ منہدم ہوئی تو اس کا ملبہ اس مقام پر گرا جہاں رسول پاک نے نماز ادا کی تھی اور اس جگہ نے ڈھیر کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس قبیلے کے افراد کے گھر العہن نامی باغ ک واقع تھے۔ یہاں پر ان کے مال و اسباب بھی تھے جب یہاں کبھی سیلاب کی کیفیت پیدا ہوتی تو پانی ان کے گھروں کے درمیان سے گزرتا اور ان کے مال واسباب کو نقصان پہنچایا۔ حرة الشرقیہ کا پتھریلا علاقہ العہن باغ کے قریب ہی تھا۔ یہ باغ بستان قربان علی کے عقب میں واقع ہے جو شارع الموصل اور خط الحزام نامی علاقے کے درمیان ہے جو شارع الامیر عبدالمحسن سے جا ملتی ہے۔ 
مسجد صدقة الزبیر:
ابن زبالہ اور ابن شبہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے بنی محجم کے علاقے صدقة الزبیر میں نماز ادا کی۔ یہ عل اقہ م شربة ام ابراہیم کے مغربی جانب ”الزبیرات“ کے نام سے موجود تھا۔ اس کا قبلہ رخ خناقہ اور الا ¿عوان کے علاقے کی جانب تھا جدید دور میں مشرقی قصر اخضر جو شارع العوالی کے آخر میں ہے کے قریب اس علاقے کے وجود کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
مسجد القرصہ:
یحییٰ بن ابی قتادہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ آپ انصار کے محلوں میں تشریف لاتے تھے اور ان کی مساجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ آپ نے مسجد القرصہ میں بھی نماز ادا کی۔ قرصہ مدینہ شریف کے ایک قریہ کا نام ہے جہاں سے حضرت سعد بن معاذ تعلق رکھتے تھے۔ امام ا لمراغی فرماتے تھے کہ ”قرصہ کا علاقہ الحرة الشرقیہ کی طرف شمال کی جانب سے بنی عبدالاشہل کے علاقے کے قریب واقع تھا اور بنی عبدالاشہل سعد بن معاذؓ کے قبیلے کی ایک شاخ تھی۔ وہاں اس مسجد کے علاوہ اور کسی مسجد کا پتہ نہیں ملتا“۔ امام السمہودی نے اپنی تاریخ وفاءالوفاءمیں بیان کیا ہے کہ ”میں نے اس مسجد کے آثار رابیہ نامی کنویں کے قریب دیکھے ہیں“۔ واللہ اعلم۔
 مسجد راتج:
 ابن شبہ نے خالد بن رباح سے روایت کی ہے کہ آپ نے مسجد راتج میں نماز ادا کی اور ”جاسم“ نامی کنویں سے پانی پیا۔ یہ کنواں اس مسجد میں واقع تھا۔ ابن زبالہ نے بھی بنی حارثہ کے ایک شخص سے رسول پاک کی مسجد راتج میں نماز کے بارے میں روایت کی ہے۔ جاسم نامی کنویں کا ذکر م دینہ منورہ کے کنوﺅں کے باب میں کیا جائے گا۔ اس کنویں کو بئر ابی الہیثم بن التیہان بھی کہا جاتا تھا جبکہ راتج نام کی ایک گڑھی (بڑی حویلی) یہاں موجود تھی۔ ابن زبالہ کے مطابق یہ مقام مدینہ منورہ سے شام کی جانب مشرقی جبل ذباب پر واقع تھا۔ واللہ اعلم۔
مسجد بقیع الزبیر:
ابن زبالہ عطا بن یسارؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے بقیع الزبیر میں قربانی سے پہلے آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ آپ نے پہلے ایسی نماز ادا نہیں کی توآپ نے فرمایا یہ رغبت اور خوف کی نماز ہے لیکن اس نماز کی طرف دعوت نہیں دی“۔ امام سمہودی کہتے ہیں کہ ”بقیع الزبیر بنی غنم کے مشرقی گھروں کے قریب واقع تھا۔ یہیں اس کے ایک جانب البقال کے مقام پر بنی زریق تھے اور یہیں غالباً حارة الاغوات نامی وسیع میدان تھا۔ واللہ اعلم 
لیکن اب یہ تمام علاقہ مسجد نبوی شریف کی مشر قی جانب توسیع میں شامل ہو چکا ہے۔ تاریخ معالم المدینة المنورة کے مصنف السید احمد یاسنی احمد الخیاریؒ کہتے ہیں کہ ”ان کے خیال میں یہ وہ علاقہ ہے جسے آج کل الرستمیہ کہا جاتا ہے۔“۔

No comments:

Post a Comment