Ad

Ad

Friday, 7 September 2012

نائیجر Niger History


نائیجر
Niger
آزادی، 3اگست 1960ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ نائیجر۔ سرکاری زبان، فرانسیسی۔ طرز حکومت، صدارتی جمہوریہ۔ کرنسی، ویسٹ افریقن سی ایف اے فرانک۔ فی کس آمدن، 738ڈالر، کل رقبہ 1267000 مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، نیامی۔ اہم شہر، زندر، مرادی، اغادیز۔ آبادی، 13,272,679 (جولائی 2008ئ)
محل وقوع
نائیجر وزیراعظم افریقہ کے جنوبی حصے مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں الجزائر اور لیبیا، مشرق مےں چاڈ، جنوب مےں نائیجریا اور بینن اور جنوب مغرب مےں اپروولٹا اور مغرب مےں مالی واقع ہے۔ جنوبی سرے پر صحارا واقع ہے۔ علاقہ بے آب و گیاہ اور پہاڑی ہے۔ دریائے نائیجر اور ڈلیا اہم دریا ہےں۔ آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ اوسط درجہ حرارت 84فارن ہیٹ ہے۔
لوگ
85.5 فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ باقی عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہےں۔ ایک مربع میل مےں 16افراد رہتے ہےں۔ 21فی صد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں۔ لوگ ہاوسا، جرما، فولانی اور تاورگ قبائل سے تعلق رکھتے ہےں۔ شرح خواندگی 28 فی صد ہے۔ نیامی شہر مےں کئی یونیورسٹیاں ہےں۔ شرح پیدائش 3.2فی صد ہے۔ 1000مےں 199بچے زچگی کے وقت فوت ہو جاتے ہےں۔ حکومت نے لوگوں کی صحت و فلاح کے لئے ہسپتال، ڈسپنسریاں وغیرہ قائم کر رکھی ہےں۔
وسائل
گوند، مونگ پھلی اور کپاس اہم فصلیں ہےں دیگر فصلوں مےں باجرہ، روغنی بیج، چاول، غلہ اور روئی شامل ہےں۔ 59فی صد زراعت سے قومی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ 90فی صد حصہ زیر کاشت ہے۔ کاسٹیرائٹ، جپسم، چونے کا پتھر، میلشیا، سونا، قلعی، معدنی نمک، یورینم، لوہا، کوئلہ، مینگانیز اور تیل قابل ذکر ہےں۔ برآمدات کے شعبے مےں 64فی صد آمدنی یورینم سے حاصل ہوتی ہے۔ یہاں بڑی بڑی زرعی صنعتیں قائم ہےں، کپڑا بننے، سیمنٹ تیار کرنے، دھات کا سامان بنانے، مشروبات کو بوتلوں مےں بند کرنے، چمڑا رنگنے اور رنگ و روغن تیار کرنے کی صنعتیں یہاں موجود ہےں۔
اہم درآمدات مےں مشینری، لوہا، سٹیل، پٹرولیم پروڈکٹس، کپاس، ربڑ اور مونگ پھلی کے نام آتے ہےں اور برآمدات مےں کاغذ، تمباکو، چینی، کپاس، سوتی دھاگہ، مویشیوں کی کھالیں، مونگ پھلی، زندہ مویشی اور یورینم شامل ہےں۔
تاریخ
یہ ملک قدیم تاریخ کا حامل ہے۔ شمالی افریقہ کے مسلمان جھیل چاڈ کے اردگرد کے علاقوں مےں آنے جانے کےلئے نائیجر سے گزرا کرتے تھے اور کبھی کبھی یہاں آباد ہو کر چھوٹے موٹے دیہات تعمیر کر لیتے تھے، گیارہویں صدی عیسوی کی مسلمان بستیوں کے آثار آج بھی قائم ہےں۔
یہاں چھٹی صدی سے اٹھارویں صدی تک مختلف قبائل حکومت کرتے رہے جن مےں شونگھائی، ہوسا اور فولانی قبائل قابل ذکر ہےں۔ گیارہویں صدی کے بعد یہاں ہوسا اور توریگ قبائل کی حکومت تھی۔ 1515ءمےں سونی کے مسلمان حکمران عقید محمد اول نے ہوسا قبائل پر لشکر کشی کر کے اغادیر کے شہر پر قبضہ کر لیا جس سے پھر تمام علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ آہستہ آہستہ یہ قبائل سر اٹھانے لگے۔ ان کا ساتھ ان انگریزوں اور فرانسیسیوں نے دیا جو انیسویں صدی کے آغاز ہی سے وہاں بسنا شروع ہوگئے تھے۔
1890ءمےں فرانس نے جب یہاں قبضہ کیا تو یہاں کے عوام نے مسلح جدوجہد کی۔ 1892ءمےں اسے فرانسیسی نوآبادی قرار دیا گیا۔ 1958ءمےں اسے جزوی آزادی اور 1960ءمےں مکمل آزادی حاصل ہوگئی۔
صمانی ڈیوری ملک کے پہلے صدر تھے۔ جنہوں نے 15اپریل 1974ءتک حکومت کی۔ ان کا تختہ لیفٹیننٹ کرنل سینی کونچے نے الٹا دیا لیکن آنے والی حکومت بھی قحط سالی کو نہ ختم کر سکی۔ یہاں 1975ءمےں تیل اور فاسفیٹ کے ذخائر دریافت ہوئے۔ 76ءمےں صدر کے خلاف سازی کوکچل دیا گیا۔ 14نومبر 1987ءمےں کرنل علی میو ملک کے صدر بنے اور 1989ءمےں دوبارہ منتخب ہوئے۔ 27اکتوبر 1991ءمےں احمد وزیراعظم بنے۔ 1993ءمےں مہمانی عثمان صدر بنے اور محمد واسو خود وزیراعظم۔ 
نائیجر یورینیم کی پیداوار کے لئے معروف ہے۔ دنیا کا 40فی صد یورینم یہاں سے نکلتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بجلی کا کوئی پلانٹ یہاں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی ٹیکنالوجی اور فنی مہارت۔ اس لئے یہ یورینم کو اونے پونے یورپی ملکوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہے کیونکہ 90فی صد آمدنی یورینم سے حاصل ہوتی ہے۔
اکتوبر 1991ءکے آخر مےں توریگ قبائل نے شورشیں برپا کیں۔ ملک مےں ایک بار پھر خونی جھڑپیں ہوئیں جن مےں سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ جنوری 1993ءمےں ملک کے پہلے کثیر جماعتی انتخابات ہوئے لیکن جولائی مےں فوجی رہنما ابراہیم بارے نے فوجی انقلاب برپا کر دیا اور خود صدر بن گیا۔
اپریل 1999ءمےں صدر ابراہیم بارے کو اس کے حفاظتی دستے نے قتل کر دیا۔ ایک ”قومی اصلاحی کونسل“ نگرانِ کار کے طور پر بنی جس نے داﺅد مالم مانکے کو عارضی صدر مقرر کیا۔ قومی اصلاحی کونسل نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے نومبر مےں انتخابات کروائے جس مےں تانجا محمد صدر منتخب ہوئے۔
2004ءمےں امریکہ اور برطانیہ دونوں نے دعویٰ کیا کہ عراق نے ایٹم بم بنانے کے لئے نائیجر سے یورینیم حاصل کر لیا تھا مگر وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ جولائی 2004ءمےں نائیجر نے اختیارات کی ڈی سنٹر لائزیشن کے عمل کو جاری کرنے کے لئے میونسپل انتخابات کرائے اور 3700کے لگ بھگ افراد منتخب ہو کر مقامی حکومتوں مےں پہنچے۔ حکمران جماعت کو نشستوں کی اکثریت حاصل ہوئی مگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی بہتر کارکردگی دکھائی۔
نومبر اور دسمبر 2004ءمےں قانون ساز مجلس اور صدارت کے انتخابات ہوئے۔ تانجا محمد دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے اور بین الاقوامی مشاہدہ نگاروں نے ان انتخابات کو عمومی طور پر آزاد اور منصفانہ قرار دیا۔ نائیجر کی تاریخ مےں پہلی مرتبہ خالص جمہوری طریقے سے کوئی صدر منتخب ہوا تھا اور یہ نایئجر کی نوخیز جمہوریت کے لئے ایک امتحان تھا۔ قانون ساز مجلس کے انتخابات مےں بھی صدر کی حامی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہوئی۔
2007ءمےں پھر توریگ قبائل کی طرف سے باغیانہ سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس مرتبہ ان سرگرمیوں مےں ایک غیر معروف گروہ کا نام سننے مےں آیا۔ اس گروہ کی طرف سے بہت سے مطالبات پیش کئے گئے ہےں۔ اس گروہ کی سرگرمیوں نے نائیجر کی سیاحتی صنعت کو تباہ کر دیا ہے اور کان کنی اور تیل مےں ہونے والی سرمایہ کاری کا عمل رُک گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment