Ad

Ad

Saturday, 22 September 2012

Aqwaly Zareen (Sunehri batain)


٭روشنی .... اندھیروں ہی میں پھیلائی جاتی ہے۔
٭عجز میں جھکنے والا ہی صفاکی پہاڑی پر چڑھتاہے۔
٭علم پر عمل کیاجائے تو ایک گھنی چھاﺅں ہے .... اپنے لئے بھی اور دوسروںکیلئے بھی ....!علم پر عمل نہ ہو تو ....اپنے خلاف ایک فردِ جرم !!
٭مخلوق کا گلہ کرنے والا .... مخلوق کو خالق کا عمل نہیں جانتا۔مالک الملک کی منشاءکا دراک کرنے والا.... نہ شکوہ کرتاہے .... نہ شکائت .... نہ گلہ .... نہ تقاضا!!
٭دو طرفہ گلہ ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے یکطرفہ طور پر ختم کر دیا جائے۔
٭ناشکری ایک جہالت ہے ....شکر گذاری نعمت کا علم ہے۔
٭ہمتِ انسان .... فاصلے سمیٹ لیتی ہے ۔ ظاہر ی ہمت سے مکانی فاصلے سمٹتے ہیں .... اور ِ باطنی ہمت سے زمانی فاصلے!
٭تکلیف کا بیان تکلیف کو دو طرفہ کر دیتاہے .... کہ تکلیف سننے والا بھی تکلیف میں مبتلا ہو جاتاہے۔
٭ایک سنگریزہ ....اپنے گھر میں خود کو ایک کوہِ گراں سمجھتاہے....مگر قلزم حقیقت کا سامناکرتے ہی اس میں شرم سے ڈوب کر رہ جاتاہے ۔
٭کون و مکان میں ہر ذرہِ وجود .... کعبہ ¿ مشیت کے گرد محوِ طواف ہے۔
٭کائنات ِ حقیقت میں سب سے حقیقی شئے بندے کاعجز ہے....اور رب کی مطلق العنانیت !
٭دوسروں کے بارے میںسوچنے کی صلاحیت وہی رکھتاہے .... جو اپنے بارے میں نہیں سوچتا!!دوسروں کا فائدہ ....بالعموم اپنے فائدے کی نفی میں پوشیدہ ہے۔
٭دل کی بات ....!!وہ بات جو دل کے اندر سے نہیں گذرتی ....وہ سر کے اوپر سے گذر جاتی ہے۔
٭اخلاص....! اخلا ص کے تو ہجے بھی صرف محبت ہی کر سکتی ہے .... عقل کی زبان اخلاص پر آتے آتے لکنت زدہ جاتی ہے ۔
٭دوسرے لوگوں کاوجود ہمارے لئے ایک منظر ہے .... اور ہمارا وجود اپنے کردار سمیت دوسروں کیلئے ایک منظر نامہ ہے ۔ اگر ہم خود کو منظم اورخوبصورت بنا لیں تو مخلوق خدا کامنظر نامہ خوبصورت ہوجائے گا۔ مخلوق ہمیں دیکھ کر خالق کے گن گائے گی .... اور ہم بالواسطہ اس حمد کا واسطہ بنیں گے ۔
٭قطرہ جب اپنی یکتائی کو پہنچتا ہے .... تو قلزم سے واصل ہوجاتاہے ۔
٭دعا .... زمین و زمان کے فاصلے پاٹ دیتی ہے ۔ دعاکے بغیر انسان زمان و مکان کے دوپاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جاتاہے ۔
٭انسان جب تک اپنی حدود کو نہیں پہچانتا.... کسی لامحدود کو نہیں پہچان سکتا۔
٭توجہ کا نام شفاہے لاپرواہی .... بیماری ہے۔
٭دنیائے رنگ و بو میںاخلاص کی پہچان بہت مشکل ہے .... کیونکہ اخلاص بے رنگ و بو ہے!!اخلاص کو دیکھنے کیلئے محبت کی آنکھ چاہئے!!
٭اسم ....جسم اور روح کے درمیان ایک برزخ ہے۔اس لئے عالم اجسام سے عالم ِ ارواح تک رسائی کیلئے اسماءکا وسیلہ درکار ہوتاہے۔
٭علم اور حلم باہم اتنے آس پاس ہیں کہ مخلوق کیلئے یہ جاننا دشوار ہوا جاتاہے کہ علم حلم کے پاس ہوتاہے یا حلم علم کے پاس! 
٭عجلت کا شکار .... دراصل لالچ کا شکار ہوتاہے۔
٭تسلیم کا سبق تعلیم سے پہلے ہے ۔
٭فقیری ....بہت مشکل کام ہے .... یہ سوئے ہوئے بچے کو پیار کرنے کانام ہے۔
٭حاسد ....محروم ہوتاہے .... اُس نعمت سے جس سے وہ حسد کر رہا ہوتاہے .... اور اپنے اس حسد کے سبب محروم رہتاہے .... اُس عزت سے جو اُس نعمت کے نہ ہونے سے بھی مل سکتی تھی !!
٭ انسان جب کمزوروں کی مدد کرتاہے ‘تو دراصل خود کو طاقت وربنا رہا ہوتاہے ۔
٭اخلاقیات نفی اخلاص .... منافقت کے برابر ہے ۔ 
٭ فکر.... دل کا شعبہ ہے .... اور یہی شعبہ انسان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔
٭دنیا .... خود غرض ہے .... دین .... بے غرض ! اس لئے وقت پڑنے پر....دین د ار ہی دنیا دار کا سہارابنتاہے !!پس دین دار کی ایک تعریف یہ بھی ہے .... کہ دین داربے سہارامخلوق کا سہارا بنتاہے .... !!دراصل دوسروں کی غرض وہی پوری کر سکتاہے .... جو خود بے غرض ہوچکاہو!!
٭وقت ہی قوت ہے ....اگر ترتیب میں آجائے!!
٭اختیار اور ترک ....!! کلام بھی ایک اختیار ہے۔ جب تک اس اختیار کو ترک نہ کیاجائے .... نوائے سروش نہیں سنائی دیتی ہے ۔
٭ بیوقوف سے عقل کی توقع رکھنا .... سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔
٭ عالمِ خلق .... دوئی میں ہے۔جو شخص دوئی سے نکل جاتاہے ....وہ خلق سے نکل جاتاہے۔
٭پہلے نیت خراب ہوتی ہے .... پھر کام خراب ہوجاتاہے۔خراب نیّت کامطلب ہے .... اپنے مفاد کو پہلی ترجیح دینا.... اور کام کو دوسری ترجیح!!
٭ممکن کو ناممکن بنانے والی صرف دو چیزیں ہیں....وقت اور فاصلہ !!جب توفیق شامل ِ حال ہو جائے ‘تو وقت اور فاصلہ دونوں طے ہوجاتے ہیں۔ وقت کا فاصلہ طے ہوجاتاہے .... اور فاصلہ وقت کی طرح سمٹ جاتاہے!!
٭دل کی خیانت .... عمل سے پہلے الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوجاتی ہے.... الفاظ کی ترتیب اور چناﺅ کے عمل میں....!!
٭کم ظرف سے اگر کوئی نیکی سرزد ہوجائے تو وہ غرور کی زد میں آجاتا ہے۔پس ....نیکی کرنا بھی بڑے ظرف کی بات ہے ....!!
٭عقل کا علم دراصل نقل کا علم ہے .... عقلی علوم میں منشاءکی پہچان کا کوئی سبق موجود نہیں ہے ۔ منشاءکی پہچان تسلیم ہے ....اور تسلیم دل کا شعبہ ہے.... اور دل کا کوئی شعبہ انسان سے بے نیاز نہیں رہ سکتا !!
٭جب اختیار ملنے پر کوئی بے اختیار ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اس اختیار کا اہل نہیں رہا!!
٭کسی حاصل پر شکر کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ محروم لوگوں کی بے التفاتی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے۔
٭اگر مالک کی منشا کا عرفان ہوجائے تو صبر کا ہر درجہ .... ایک درجہ ¿ شکر بھی ہے ۔
٭خود تعریفی ....دراصل بدتعریفی ہوتی ہے۔
٭ اس تغیر پذیر دنیا میں ثبات اور اثبات کا میسر آجانا.... کریم کے کرم کی ایک داستان ہے۔
٭غصہ ....غیر مہذب ہونے کی نشانی ہے ۔ مہذب لوگ ہرغیر مہذب بات کے جواب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔
٭ نام .... کسی کام کا نام ہوتاہے ۔نام کمانا .... دراصل کام کمانا ہے ۔پہلے کام ایک ہوتاہے .... پھر نام بھی ایک ہوجاتاہے ۔
٭وقت ....ایک عجب راز ہے ۔متعلق کو مجتمع کرتاہے .... غیر متعلق کو منتشر !!
٭تعلق .... دل کا دل کے ساتھ ایک رشتہ ہوتاہے۔جب تعلق اور رشتے میں دراڑ پڑتی ہے تو انسان دل کی دنیاسے نکل جاتاہے.... اور اپنے تعلقات اور متعلقین کو عقل کی مدد سے ماپنے اورجاننے کی کوشش کرتاہے ....اور یوں خود بے یار ومددگار ہوجاتاہے ۔
٭دعویٰ ....غرور کی ایک شکل ہے .... اور غرور کی ہر شکل انسان کو بدشکل کر دیتی ہے۔دعویٰ ....کام کو مشکل بنا دیتاہے۔عجز .... آسان !!
٭صبر ....ظاہری قوت کی قربانی مانگتاہے .... اور اس قربانی کا صلہ باطنی قوت ہے۔
٭برائی کی طرف مائل ہونے والا برائی اختیار کرنے کو اپنی کوشش کاکرشمہ جانتاہے ....جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ نیکی نے اسے اس قابل ہی نہیں جانا ہوتاکہ اُسے اپنی جانب راغب بھی کرے!!
٭یہ ہماری اَنا کی تپش ہے ‘جواِس جنت زار زندگی کا جہنم بنادیتی ہے۔
٭اپنے اخلا ق کا امتحان مقصود ہوتو دیکھو کہ اپنے سے کمزور لوگوں کے ساتھ تمہارے اخلا ق کا عالم کیا ہے۔کمزور لوگوں سے خوش اخلا قی سے پیش آنے والاسب سے بہتر اخلاق کا مالک ہوتاہے ....اور اُن سے بدلحاظی کا مظاہرہ کرنے والاہر لحاظ سے بداخلاق ہوتاہے ۔
٭عیادت کرنے والے ....عبادت کرنے والوں پر بازی لے گئے!!
٭غفلت .... موت ہے! زندگی .... بیداری ہے !!
٭زندگی میں معیشت اور معاشرت کے قوانین بناتے ہوئے خو د کو خود کفیل سمجھنا .... اُس خدائے وحدہ ¾ لا شریک کے سامنے ایک علم ِ بغاوت بلند کرنا ہے جس نے انسان کی راہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے !!
٭اگر باطن کی طرف رجوع ہو تو ہر ظاہر ی تکلیف کسی باطنی کشائش کاپیش خیمہ ہوتی ہے۔
٭غرور کرنے والا.... غور کرنے سے محروم ہوجاتاہے۔
٭پاکیزہ رزق وہ ہے جو بغیر خواہش اور بغیرکوشش کے مل جائے!
٭شوق کے عالم میں کسی سوال کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شوق سوالی ہوتاہے نہ سائل !.... بلکہ شوق وفورِ شوق میں خود ہی مسﺅل ہوتاہے .... شوق ہر سوال کا خود ہی شافی و کافی جواب ہوتاہے ۔
٭خواہش کا پردہ چاک ہوجائے تو زندگی کا حسن جابجاعیاں ہوجاتاہے۔
٭جب تک انسان خود سے فارغ نہ ہو .... وہ خدا کی طرف راغب نہیں ہوسکتا۔
٭جب ہم اپنی زندگی کو اپنی ہی کوشش کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو زندگی کا اصل منظرہماری نظر سے اوجھل ہوجاتاہے۔
٭باطنی قوت .... ظاہری قوت کی قربانی مانگتی ہے۔
٭منزل مقصود....!منزل اُسے ملتی ہے .... جو اپنے ہر مقصود کر ترک کر چکاہو....!جس کامقصود ....اس سے مفقود ہوچکا ہے !!
٭زندگی میںاپنے زورِبازو کے قصیدے ختم ہوجائیں .... تو باقی اپنے رب کی حمد رہ جاتی ہے۔
٭رزق کے معاملے میں خوف کا شکار ہونے والاشخص .... بے عزت ہوجاتاہے۔
٭توحیدکے بعد اخلاص خاصہ ¿ ولائت ہے ۔اخلاص اپنی ذات کی نفی ہے ....اور اپنی ذات کی نفی سے ثبات کو اثبات مل جاتاہے۔خود سے خود کو نکال دیاجائے تو خدا حاصل ہوتاہے۔
 ٭نیک ہوئے بغیر نیک نامی وصول کرنا.... بددیانتی ہے ۔
٭ خواہش زدہ شخص .... خارش زدہ ہوتاہے .... کہ خواہش بجھانے کی ہر تدبیر اس کی خارش اور خواہش بھڑکا تی ہے۔خواہش زدہ شخص کسی کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔
٭اَنا کے جھگڑے میں وہی پڑتاہے .... جسے اپنی انا کو شعور نہیں ہوتا۔
٭کسی کو عزت دینے سے اپنی عزت کم نہیں ہوتی!!
٭ذکر کا راز یہ ہے کہ.... ذاکر ہوجاﺅ یا مذکور!!
٭فقیری ظاہری قوت سے باطنی قوت کی طرف رجوع کرنے کا نام ہے۔
٭غصہ .... انسان کو اس کے علم اور شرف سے محروم کردیتاہے۔
٭ جب انسان.... اپنی اَنا کے حصار میں داخل ہوجاتاہے تو خود ہی محصور ہوجاتا ہے .... اور کسی مقابلے میں اُترنے ہے پہلے ہی شکست خوددہ ہوجاتاہے۔جواں مردی .... اپنی انا کے قلعے سے باہر نکل آنے کانام ہے!!
٭خود کو ایک صفت سے منسوب کر لینے والا.... اس صفت کے کم ہونے یا گُم ہونے کی صورت میں خود کو بے عزت سمجھے گا۔
٭محنت .... عبرت بن جاتی ہے .... اگر اپنی اَنا کے خول سے باہر نہ نکل سکے تو....!
٭گلہ .... خواہش کی کوکھ سے جنم لیتاہے.... اور حسر ت کی زمین پر جا دفن ہوتاہے۔
٭تاجور کو تجوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔
٭شعور .... اَسباب و علل سے ماوراءمشیت کا ادراک ہے۔
٭تسلیم کا پہلا مرحلہ .... اپنی تفہیم کی قربانی دیناہے ....رب کی منشاءکے سامنے .... کارگاہِ مشیت میں!!
٭ہر گناہ کسی خواہش کا اندھا دھند تعاقب کرنے کا نتیجہ ہوتاہے۔
٭ خواہش کی کم سے کم تعریف ....! مالک کے حکم کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنا!!
٭نیت کا نام سفر ہے! حاصل نیت کا نام.... منزل!!
٭خواہش خطاہے ....اورہر خطا پر توبہ واجب ہے
٭تسلیم میں داخل ہوئے بغیر کسی سجدہ گاہ میں داخل ہونا....منافقت ہے۔
٭منشاءو مشیت کامشاہدہ کرنے کیلئے تسلیم و رضا میں داخل ہونا پڑتاہے۔
٭وہ شخص جو خواہش کی دنیا میں رہتاہے ‘ وہ دنیا دار ہے ‘خواہ وہ کسی جھونپڑی میں کیوں نہ رہ رہاہو۔وہ شخص جو خواہش سے بے نیاز ہے .... وہ دین دار ہے‘ خواہ وہ کسی محل میں کیوں نہ قیام پذیر ہو۔
٭بندگی سے نکل جانے والا.... اپنا سفر طویل تر کر لیتاہے۔
٭جھگڑ ا .... خواہش کے پیدا ہونے کے بعد پیداہوتاہے۔
٭کلام .... شعور شکن ہوتا.... شعور کے ایک دائرے کو توڑتاہے اور نیا دائرہ پیدا کرتاہے۔اس لئے کلام کرنے میں احتیاط برتنا لازم ہے.... وگرنہ کاسہ ¿ ظرف کے ساتھ ساتھ کاسہ ¿ سر بھی چٹخ سکتاہے۔
٭سیخ پا ہونے والا....دیرپا نہیں ہوسکتا۔
٭اپنی خواہش پر اصرارکرنا اپنے مالک کی مملکت میں بغاوت برپا کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
٭انسان کے اندر خیر اور شرکی دو لہریں موجزن ہیں .... اور ان کے درمیان ایک پردہ ہے۔خواہش اس پردے کو پھاڑ دیتی ہے۔ پس اظہارِخواہش پردہ دری ہے .... اور ضبط خواہش ....پردہ پوشی !!
٭خدمت کرنے کیلئے خود کی نفی کرنی پڑتی ہے .... اس لئے خدمت درویشی ہے۔
٭ہر شعور کی ایک فریکوئینسی ہوتی ہے....اس شعور سے ہمکلام ہونے کیلئے اُسی فریکوئینسی پر کلام کرناپڑتاہے
٭وہ جوخود اپنے ساتھ جنگ میں مصروفِ رہتاہے .... دنیا اس کے شر سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ وہ جو اپنے ساتھ جنگ میں شکست کھا جاتاہے .... وہ باہر والوں کیلئے بڑا ظالم ہوجاتاہے۔
٭اگر عالم کو جاہل کی بات پر غصہ آتا ہے‘ تو اس میں جہل ابھی تک باقی ہے ۔
٭مصنوعی طریقوں سے قدرتی چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔
٭اناپرست ....کسی اصو ل پر کاربند نہیں رہ سکتا۔
٭اعلانیہ قانون کی پابندی نہ کرنے والاقانون بنانے والے کے ساتھ بغاوت کا اعلان کرتاہے۔
٭منافقت .... سچ سے محروم ہوتی ہے.... اور اسی محرومی کے سبب معانی سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔
٭نعمتوں کے سب دروازے ایک شکر گذار آدمی کے گھر کی طرف کھلتے ہیں۔
٭معلوم پر غرور نامعلوم کی سرحد عبور نہیں کرنے دیتا۔
٭غرور .... غفلت کی ایک انتہائی شکل ہے۔
٭ گلہ .... خالق سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف رجوع کرنے کا نام ہے۔گلے کو دل سے مٹانا رفعت ہے ....اور دل میں جگہ دینا رجعت !!

No comments:

Post a Comment