یوگنڈا
Uganda
آزادی، 9اکتوبر 1962ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ یوگنڈا۔ سرکاری زبان، انگریزی، سواحلی۔ طرز حکومت، جمہوریہ۔ کرنسی، یوگنڈی شلنگ۔ فی کس آمدن، 453ڈالر۔ کل رقبہ، 236040 مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، کمپالا۔ اہم شہر، جنجا، انٹی بے، امبیل۔ آبادی، 30,900,000 (تخمینہ 2007ئ)
محل وقوع
براعظم شمالی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں سوڈان، مشرق مےں کینیا، جنوب مےں تنزانیہ، جھیل وکٹوریہ اور وانڈا اور مغرب مےں ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو واقع ہےں۔ جنوب مےں آتش فشاں پہاڑ ہےں۔ شمال مشرق علاقہ بنجر ہے۔ مغرب اور جنوب مغرب مےں بارشیں بکثرت ہوتی ہےں۔ اس کی آب و ہوا نشیبی علاقوں کی آب و ہوا سے ملتی جلتی ہے۔ اس کا درجہ حرارت 71فارن ہائیٹ سے بڑھنے نہیں پاتا۔
لوگ
یہاں اگرچہ اکثریت (66فیصد) عیسائیوں کی ہے مگر مختلف گروہوں مےں بٹے ہونے کے باعث انہیں وہ اثر حاصل نہیں ہو سکا جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ مسلمان تعداد مےں کم (16فیصد) ہونے کے باوجود سیاسی طور پر تقدیم رکھتے ہےں۔
یہاں ایک مربع میل مےں 200افراد بستے ہےں۔ 90فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ لوگ بنتو، نیلونگ، نیلو اور سوڈانی نسل سے تعلق رکھتے ہےں۔ یہاں کے 52فیصد افراد پڑھے لکھے ہےں۔ مردوں کی اوسط عمر 50سال اور عورتوں کی 52سال ہے۔ آبادی مےں اضافے کی شرح 3.52 فی صد سالانہ ہے۔ ہسپتال مےں 817افراد کے حصے مےں بستر اور بیس ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 94فی ہزار ہے۔
وسائل
تمباکو، گنا، آلو، چنے، مونگ پھلی، چائے، کافی اور کیلا اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ ملک کے 23فی صد حصے پر کاشت ہوتی ہے۔ 90فی صد لوگ کاشت کاری کرتے ہےں۔ زراعت سے ہونے والی آمدنملک کی مجموعی پیداوار کا 65فی صد ہے۔
یہاں کی دس فی صد آبادی صنعتوں اور تجارت سے وابستہ ہے۔ 54فی صد صنعتی خام مال زرعی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔ عیدی امین نے 1973ءمےں تمام کمپنیوں کو قومی تحویل مےں لے لیا تھا۔ پارچہ بافی، لوہے اور فولاد سے سامان سازی، ادویات سازی، سیمنٹ، جوتے اور کھاد کی صنعتیں ترقی کر رہی ہےں۔
یہاں 775میل لمبی ریلوے لائن موجود ہے۔ سڑکیں 4500میل لمبی ہےں۔ جھیل وکٹوریہ جہاز رانی کا اہم ذریعہ ہے۔ کمپالا کے قریب ایسٹب مےں بین الاقوامی ہوائی اڈہ موجود ہے۔ آرودا کے مقام پر ہوائی اڈہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
اہم درآمدات مےں زرعی مشینری، پٹرولیم پروڈکٹس، دھات کا سامان، ٹرانسپورٹ کا سامان، کاغذ اور خوراک شامل ہےں جبکہ اہم برآمدات مےں تانبا، چائے، کپاس، کافی اور مویشیوں کی کھالوں کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
1800ءتک مختلف قبائل یہاں کے حکمران رہے۔ 1862ءمےںبرطانیہ کے سیاح یہاں آئے۔ آہستہ آہستہ برطانیہ نے یہاں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ 1893ءمےں یہ علاقہ برطانیہ کے زیر سایہ چلا گیا۔ عوامی دباﺅ پر 19اکتوبر 1962ءکو غیر ملکی تسلط ختم ہوا۔ 1963ءمےں شاہ موتسیہ صدر اور ملٹن اوبوٹے وزیراعظم بنے۔ فروری 1966ءمےں شاہ موتیہ کی حکومت ختم کر کے ملٹن اوبوٹے نے اقتدارپر مکمل قبضہ کر لیا اور آئین معطل کر دیا۔ شاہ موتیہ برطانیہ بھاگ گئے۔
25جنوری 1971ءکو جنرل عیدی امین نے ملٹن اوبوٹے کے غیر ملکی دورے کے دوران ان کا تختہ الٹ دیا۔ انہوں نے 1992ءمےں غیر ملکی باشندوں کو ملک سے نکال دیا جس پر برطانیہ، امریکہ، کینڈا نے یوگنڈا سے اپنے تعلقات ختم کر دیئے۔ عیدی امین نے اپنے تعلقات عربوں سے مستحکم کرنے شروع کر دیئے۔ 28جولائی 1976ءکو عیدی امین نے تنزانیہ سے جنگ شروع کی اور اس کے 710میل کے رقبہ پر قبضہ کر لیا۔ جوابی حملے پر 11اپریل 1979ءکو یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا پر تنزانیہ نے قبضہ کر لیا۔ یہ جنگ 1979ءجولائی تک رہی۔ بالآخر عیدی امین بھاگ گئے اور 13اپریل 1979ءکو یوسفو کرونڈے لولے صدر بن گئے۔
20جون کو ان کو صدارت سے الگ کر کے گاﺅنرے بناکسا کو نیا صدر بنا دیا گیا اور امریکہ برطانیہ سے تعلقات استوار کئے گئے۔ 1980ءمےں یہاں زبردست قحط پڑا اور ہزاروں افراد مر گئے۔ اسی سال مئی مےں فوج نے بغاوت کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اوبوٹے وطن واپس آگئے۔ انہوں نے ایشیائیوں کو واپس آنے کی دعوت دی اور آزادانہ انتخابات کا وعدہ کیا۔
جولائی 1985ءمےں فوج نے بغاوت کر دی۔ صدر اوبوٹے فرار ہوئے۔ فوج نے جنرل ٹیٹو اورکلو کو صدر بنا دیا لیکن حزب اختلاف کے قائد یوواری موسونی نے جس طرح اوبوٹے کے خلاف تحریک چلائی تھی، اس سے بھی زیادہ شدت سے فوجی حکومت کے خلاف بھی تحریک کو جاری رکھا۔ 29 جنوری 1986ءکو انہوں نے دارالحکومت کمپالا پر قبضہ کر لیا۔ یوواری صدر بنے اور آج تک وہی اس عہدے پر فائز ہےں۔ صدر یوواری نے خودکفالت کی بنیاد پر ملک کی اقتصادی حالت کو سنبھالا اور عیدی امین اور اوبوٹے کے ادوار کی لوٹ مار اور بدعنوانیوں کے برعکس ملک کو صاف ستھری انتظامیہ دی جس کی وجہ سے مغربی ممالک یوگنڈا کی بے دریغ مالی امداد کر رہے ہےں۔
مارچ 2001ءمےں وہ ستر فیصد ووٹ لے کر پھر صدر منتخب ہوئے۔ جون 2001ءمےں پارلیمانی انتخابات ہوئے نئے امیدواروں نے پچاس فیصد سے زیادہ نشستیں جیت لیں۔ اس سے ملک مےں تبدیلی کی خواہش کے رجحانات ابھرتے ہوئے نظر آئے۔
اگست 2005ءمےںپارلیمنٹ نے آئین مےں تبدیلی کر کے صدر پر سے زیادہ سے زیادہ بار منتخب ہونے کی حد اٹھا لینے کے لئے ووٹ دیا۔ اس سے پہلے جولائی مےں ایک ریفرنڈم مےں عوام نے اپنا ووٹ کثیر جماعتی نظام کے حق مےں دے کر غیر جماعتی سیاست کا خاتمہ کر دیا تھا۔
فروری 2006ءمےںملکی تاریخ کے پہلے کثیر جماعتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حکومتی جماعت اگرچہ اکثریتی نشستیں جیتنے مےں کامیاب رہی مگر دیگر مضبوط حریف بھی ابھر کر سامنے آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment