”حقوق نسواں کی علمبردار ”سیمون ڈی بوار“
(اسماءرشید شاہ)
باپ دونوں لڑکیوں کی پیدائش پر خوش نہ تھا وہ اکثر سوچتا تھا کہ کاش ان کی بجائے ایک لڑکا ہوجاتا۔ لڑکا تو نہیں ہوا لیکن ان میں سے ایک لڑکی نے سب کچھ لڑکوں والا کیا۔ لڑکا تو نہیں ہوا لیکن ان میں سے ایک لڑکی نے سب کچھ لڑکوں والا کیا۔ اس لڑکی کا نام سیمون ڈی بوار تھا۔ سیمون ڈی بوار کا بچپن اتنا اچھا نہ تھا۔ نہ تو وہ اتنی خوش شکل تھی اور نہ ہی وہ ایسے کپڑے پہنتی تھی کہ وہ کپڑوں میں خوبصورت نظر آئے۔ اس کے کپڑے گھر میں اس کی ماں سیتی تھی اور وہ برے کپڑے سینے والی کے نام سے مشہور تھی۔ ماں کے سلے کپڑے پہن کر وہ اور بھی بدوضع دربدر صورت نظر آتی تھی۔ باپ بھی ہر وقت طغے دیتا تھا کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔
سیمون کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ اس کا نانا ایک بینک کا صدر تھا۔ بینک دیوالیہ ہو گیا۔ سارا خاندان پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا۔ باپ کی چھوٹی موٹی نوکری کرنا پڑی بہرحال جوں توں زندگی کی گاڑی چلتی رہی اور سیمون ایک ”پگڑے بچے“ کے طور پر آگے بڑھتی رہی۔ نہ اس کا کوئی دوست تھا نہ ساتھی۔ ایک بہن ہیلن (Helene) تھی جس کے ساتھ وہ ہر بات ، ہر راز کہہ سن لیتی تھی۔ ان حالات میں سیمون نے کبھی اپنے آپ کو لڑکی نہ سمجھا اور لڑکا بن کر زندگی گزاری۔ اس کا باپ اکثر اپنے رشتے داروں سے کہا کرتا تھا۔
(Simon Thinks Like a Man)
سیمون نے اپنے آپ کو کتابوں کی نذر کر دیا اور ہر کھیل اور دیگر مصروفیات کی طرف دھیان نہ دیا۔ کیتھولک سکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی اس کی بہن بھی ساتھ تھی۔ دونوں لڑکیوں کی نگہداشت کےلئے کلاس میں ان کی ماں ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
باپ کو اپنی غربت کا خیال تھا اور اس نے اپنی لڑکیوں کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں کیونکہ میرے پاس دینے کےلئے جہیز نہیں ہے۔ چنانچہ تمہارے پاس غربت سے نکلنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم علم و دانش کی ڈھیر ساری دولت جمع کرلو۔ سیمون نے یہ بات پلے باندھ لی اور کتابوں کے سمندر میں غوطہ لگا دیا۔ 1924ءمیں اس نے امتیازی نمبروں میں گریجویشن کرلی اور پھر فیصلہ کرلیا کہ وہ مصنف بنے گی۔
سیمون ڈی بوار نے ریاضی میں ڈگری لی۔ فلسفہ پڑھنے پیرس یونیورسٹی چلی گئی۔ یہاں سے ذہن لوگوں سے اس کی ملاقات ہوئی ان میں ایک سارتر بھی تھا۔ سیمون کہا کرتی تھی کہ مجھے کوئی ذہین مرد نظر نہیں آیا اور وہ اکثر مردوں کی حاکمیت اور ذہانت کو ہسنی میں اڑا دیا کرتی تھی۔ لیکن سارتر کے سامنے وہ ڈھیر ہو گئی۔
1929 ءبڑا اہم سال تھا۔ سیمون کی عمر 21 سال تھی اور سارتر اس وقت 24سال کا تھا۔ فلسفے کا رزلٹ آیا تو امتحان میں اس کی دوسری پوزیشن آئی۔ یہ ڈگری لینے والی وہ 9 ویں خاتون تھی۔ اسے دوسری پوزیشن کا انعام ملا پہلی پوزیشن سارتر کی تھی۔
یہ اکتوبر 1929 ءکے مہینے کی دوپہر کا واقعہ ہے۔ سارتر اور سیمون دونوں بیچ پر بیٹھے تھے۔ سارتر نے سیمون کو شادی کی پیش کش کی۔
”شادی تو ممکن نہیں“ سیمون نے کہا۔
”کیوں“ سارتر نے پوچھا۔
”میرے پاس جہیز نہیں“ سیمون نے جواب دیا ”البتہ ہم دونوں دو سال ساتھ رہنے کا معاہدہ کر لیتے ہیں“۔
اور پھر دونوں ساتھ رہنے لگے ۔۔۔۔۔۔ سیمون کے دوستوں نے سیمون سے پوچھا۔
”تم تو مردوں کو گھاس نہیں ڈالتی تھی ، سارتر کو کیسے قبول کرلیا“۔
سیمون نے جواب دیا۔
”سارتر ذہن آدمی ہے سارتر سے بہتر کوئی مرد مجھے مل گیا تو میں اسے چھوڑ دوں گی“۔
لیکن سارتر کی موت تک ا سے کوئی مرد سارتر سے ذہن نہ ملا اور وہ مرتے دم تک سارتر کے ساتھ رہی۔ دونوں نے کوئی گھر نہ بنایا۔ نہ بچے پیدا کئے۔ بس لکھ لکھ کر ڈھیر لگا دیا اور پڑھ پڑھ کر ساری دنیا اسے اپنا رومانوی ماں باپ ماننے لگی۔۔۔۔ دونوں اپنی اپنی زندگی گزارنے تھے۔ دونوں اپنے اپنے افعال میں آزاد تھے۔ دونوں نے عشق کئے۔ تعلقات قائم کئے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتراض نہ تھا۔ سارتر کے دوسری عورتوں سے تعلقات تھے۔ سیمون نے کئی عورتوں سے تعلقات قائم کئے۔ ان تمام باتوں کا انکشاف سیمون نے اپنے ناولوں میں کیا ہے۔
سارتر اور سیمون کے تعلقات بڑی عجیب نوعیت کے تھے۔ اپنی سوانح عمری میں سیمون سارتر کے بارے میں کہتی ہے۔
”سارتر میرا روحانی ساتھی تھا۔ جس میں مجھے اپنے تمام جذبات کی گرمی اور حرارت ملی“
دونوں الگ الگ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ شام کو اکٹھے مل کر بیٹھتے اور بحث ہوتی۔ نظریات کا تبادلہ ہوتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کا ذکر ہوتا۔ اکٹھے تھے مگر فیصلے اپنی مرضی کر کرتے تھے۔ سیمون نے اپنی ایک تحریر میں کہا تھا۔
”میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے سوا کسی اور کی مرضی کے تابع نہیں بنانا چاہتی“۔
سیمون نے ساری زندگی سارتر کے ساتھ گزاری لیکن ہمیشہ اپنی کہی ہوئی اس بات پر عمل کیا ۔۔۔ سیمون ڈی بوار نے کچھ عرصہ ایک سکول میں فلسفہ پڑھایا۔ کچھ کالجوں میں لیکچرز دئیے۔ لیکن ساری زندگی لکھنے میں گزاری اور سارتر کے ساتھ دنیا کی سیر کرنے میں صرف کر دی۔ سیمون ڈی بوار نے بہت لکھا۔ بڑے شاہکار تخلیق کیے۔ فلسفے کی کتابیں ، ناول ، ڈرامے اور مضامین اس کے کریڈٹ پر ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ عورتوں کی آزادی اور تحریک میں اسے ایک امام اور رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔
{{"She is Considered the Mather of Post 1968 Feminism"
تخلیق طور پر سیمون اپنے ساتھی دوست اور روحانی ہمسفر سارتر سے کسی طور پر بھی کم نہ تھی۔ اس کے تخیلقی کاموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سیمون نے مختلف اصناف بھی لکھا اور اپنے قلم کا لوہا منوایا۔ اس کی کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) She Comto Stay.
(2) The Blood of Others.
(3) The Mandarins
(4) All Men are Mortal
(5) When Things of the Spirit Came first.
(6) The Women Destroyed.
(7) Who shall die (Drama)
یہ سیمون کے ناول ، شارٹ سٹوری کے مجموعے ہیں اس نے تھیٹر کےلئے صرف ایک ڈرامہ Who Shall Die لکھا سیمون کے سفر ناموں میں دو نمایاں کتابیں شامل ہیں۔
(1) America Day by Day.
(2) The Long March.
پہلا سفر نامہ اس کی امریکہ کی تفصیلی روداد ہے جب وہ مختلف شہروں میں لیکچرز دینے گئی۔ یہ سفر اس نے 1947ءمیں کیا نیویارک ، شکاگو، ہالی وڈ اور لاس ویگاس کا دورہ کیا۔ اسے نیویارک ٹائمز نے لکھنے کی دعوت دی اور اس کے مضامین لکھے The Long March ۔ روس اور چین کے سفر کی روداد ہے۔ اس میں اس نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی لوگوں کی بھلائی اور بہتری کےلئے بہت کام کررہی ہے۔ بعد میں اسنے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ چین کے کلچرل تجزیے کےلئے نہیں بلکہ صرف پیسہ کمانے کےلئے کیا تھا۔
سیمون ڈی بوار کا ناول She Came to Stay سیمون اور سارتر کے تعلقات اور جذباتی کش مکش پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ کہانی ایک افسانوی انداز میں سارتر اور سیمون کی جذباتی کھینچا تانی کی تفصیل ہے۔ ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کی ابتداءہے۔ وہ روسی لڑکیاں اولگا (Olga) اور وانڈ (Wanda) سیمون کے پاس ٹھہرنے کےلئے آتی ہیں۔ اولگا سیمون کی پرانی سٹوڈنٹ ہے۔ جس سے اس نے 1930 ءمیں ایک سکول میں پڑھایا تھا۔ اولگا سیمون کو پسند کرنے لگی تھی جب وہ چند دن ٹھہرنے کےلئے سیمون کے پاس آئی تو سارتر نے اولگا میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اولگا نے سارتر کو روکھا سا جواب دیا کیونکہ اولگا سیمون کو پسند کرتی تھی چنانچہ سارتر نے اس کی بہن وانڈا سے تعلق قائم کرلیا اور یہ تعلق وانڈا کی شادک تک قائم رہا۔۔۔۔ اس ناول کے بعد یمون کے کئی ناول آئے لیکن اس کا شاہکار ناول The Mandarains ہے۔ اس ناول کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اسے فرانس کا سب سے بڑا انعام بڑے ادب (Prix) دیا گیا۔ اس ناول میں ایک دانشور کی ذمے داریوں اور تعلقات کو دکھایا اور بتایا گیا ہے کہ اس کا اپنے معاشرے اور سوسائٹی سے کیا تعلق ہے اور اس کی کیا ذمے داریاں ہیں۔ اس ناول میں صحافیوں ، تھیٹر کے اداکاروں اور ادبی ناموروں کی خامیوں اور خوبیوں اور پیرس کی منافقانہ زندگی اور مصلتحوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
When things of the Sprite Came First اور The Women Doestroyed
دونوں کہانیوں کی کتابیں ہیں۔۔۔ ان میں اکثر کہانیاں عورتوں کی زندگی اور ان کی خواہشات کو ظاہر کرتی ہیں۔ عورتوں کے ساتھ معاشرے کا سلوک اور پھر عورتوں کی جدوجہد اور معاشرے کے جبر سے رہائی۔۔۔ مثلاً The Women Dest royed تین عورتوں کی کہانی ہے۔ خاندانی ماحول میں وہ کس طرح حالات کا مقابلہ کرتی ہیں اور پھر کس طرح اپنی آزادی کےلئے جدوجہد کرتی ہیں۔
Second Sex ۔ سیمون کی شہرت یافتہ اور بدنام کتاب ہے۔ یہ کتاب اور اس کا ناول (The Mandrins) ”ویٹکن سٹی“ نے ممنوعہ کتابوں کے خانے میں سجا دئیے تھے۔
Second Sex ۔ سیمون ڈی بوار کی ایک انقلابی کتاب ہے۔ رجعت پسند نقادوں نے اس کتاب پر بہت تنقید کی اور اسے روایت کے خلاف بغاوت تصور کیا لیکن عورتوں نے اسے اپنی زندگی اور صورتحال پر پہلی مکمل کتاب قرار دیا۔ سیمون ڈی بوار کا یہ موثر کار نامہ حقوق نسواں کی تحریک کا سنگ میل بن گیا۔ عورتوں کی تحریک اور فرانس نے اس کتاب کا بڑا اثر قبول کیا۔ ”سیکنڈ سیکس“ عورت کی ابتداءعہد بہ عہد اس کی معاشرتی حالت سوسائٹی میں اس کا مقام۔ عورت اور مرد کے تعلق پر ایک تفصیلی اور فلسفیانہ تجزیہ ہے۔ سیمون ڈی بوار کا نظریہ ہے کہ ہر فرد کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ آزادی اس کی منزل ہے۔ اس کائنات میں اسے کیا بننا ہے اسے اپنے لئے کیا منتخب کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ ایک فرد کو کرنا ہے۔ سیمون ڈی بوار کا نقطہ نظر وجودی ہے۔ اس نے عورتوں پر بھی کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ بھی مردوں کی طرح غیر معتبر ہیں کیونکہ وہ نسوانی رویہ چھڑ کر مردانہ کھیلوں میں مصروف ہیں۔ سیمون ڈی بوار نے عورتوں کےلئے ”دوجا“ (The Other) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس میں معنویت یہ ہے کہ مرد کتنا ہی چاہے عورت سے چھٹکار حاصل نہیں کرسکتا۔ ہم جنس پرست ہونے کے باوجود وہ عورت کے ارد گرد منڈلانے پر مجبور ہے یہ بات برسوں پہلے لونانی عرجیہ نگار اسٹوفینز نے بھی اپنے ایک ڈرامے میں کی کہ ایک عورت کردار سے کہلوائی تھی کہ عورتوں مٰں لاکھ برائیاں سہی، مرد عورت میں سوعیب نکالے لیکن وہ عورت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ سیمون نے اس کتاب میں عورت کی تاریخی اور بیالوجیکل ہسٹری پر بھی بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بت سے معاملوں میں عورت کو مرد کے مقابلے میں بہت سے تجربات اور مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلاً بچہ کو کھ میں رکھنا اور پھر بچہ پید اکرنا، یہ دو تجربات ایسے ہیں جو مردوں کے مقابلے میں عورت کرتی ہے۔ سیمون نے اس تحقیقی کتاب میں عورت کے ہر پہلو پر بحث کی ہے۔ بلاشہ ”سکینڈ سیکس“ نسوانیت پر ایک فلسفیانہ ، تاریخی ، فکری اور تحقیقی دستاویز ہے۔
The Ethics of Ambiguity سیمون کی وجودیت کے فلسفے پر مبنی کتاب ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں اس نے فرد کی آزادی خارجی محرکات اور آزادی کی راہ میں معاشرتی پابندیوں پر بحث کی ہے۔ اس نے مثال دے کر بحث کی ہے کہ عورتیں اور غلام معاشرے میں ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی آزادی نہیں۔ رسومات مذہبی فرمان اور معاشرے کے قوانین نے انہیں آزادی نہیں دی بلکہ پابندیوں میں جکڑ دیا ہے اور انہیں بتلایا جاتا ہے کہ انہیں قدرت نے ایسا ہی بنایا ہے کیونکہ قدرت کے خلاف وہ بغاوت نہیں کر سکتے، چنانچہ انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے۔ معاشرہ انہیں بغاوت نہیں کرنے دیتا اور وہ اسی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کتاب میں سیمون نے نائٹ ، ہیگل ، مارکس اور سارتر کے نظریات پر بحث کی ہے اور ان سے مکالمہ کیاہے۔ جدید فلسفے کی تاریخ میں اس کتاب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
سیمون ڈی بوار کا آٹو بائی گرافیکل کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سوانح اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے وقت اس نے اپنے عہد کی نامور شخصیتوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بیسویں صدی کی تمام نامور شخصیتیں جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں کارنامے سرانجام دئیے وہ سیمون کی بائیو گرامی میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیمون کے فلسفے کو سمجھنے کےلئے اس کی بائیو گرافی ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ سیمون کی شخصیت کی کئی پر تیں ہیں۔ وہ فلاسفر تھی۔ ناول نگار تھی، مصنف تھی، سوشل ورکر تھی۔ اس کی ایک سیاسی اور ثقافتی حیثیت تھی۔ تمام پہلوﺅں پر اس نے اپنی بائیو گرافی میں روشنی ڈالی ہے۔ سیمون نے علوی طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ نسوانی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شمولیت کی۔ جلسوں میں تقریر کیں۔ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔ عورتوں پر لاگو ناجائز قوانین کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان تمام پہلوﺅں پرا ا کی بائیو گرافی میں تفصیل ملتی ہے۔ جس سے سیمون کے فلسفے اور نظریات سمجھنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔
سیمون ڈی بوار کی زندگی کی کہانی 5حصوں پر مشتمل ہے۔
بائیو گرافی کے پہلے حصے میں اس نے اپنے بچپن ، ماں باپ سے اپنے تعلقات اپنے سکول کے حالات دوستوں سے اس کے شب و روز کے حالات، اپنی شخصیت میں روز بہ روز تبدیلی کی رودار ہے۔ دوسرا حصہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے کی رودار ہے۔ نیز جنگ اور امن کے زمانے میں اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے حالات درج ہیں۔ تیسرا حصہ بہت اچھا ہے جس میں اس نے ادب اور فلسفے سے اپنے تعلق کا اظہار کیا اور نسوانی تحریک سے اپنے مضبوط رشتے کی بات کی ہے۔ کیمونزم اور کیپیٹل ازم کے نقصان اور فائدے پر بحث کی ہے۔ ادب ، فلسفے پر اپنے نظریات پر کھل کر بحث کی ہے۔
سیمون ڈی بوار نے سارتر کےساتھ 41 سال اکٹھے گزارے۔ اس حصے میں اس نے سارتر کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ اس حصے پر کچھ اعتراضات بھی کئے گئے۔ سخت تنقید بھی کی گئی اس لئے کہ سیمون نے سارتر کے آخری دنوں کے حالات بیان کرتے وقت سارتر کی جسمانی اور ذہنی خرابیوں اور زوال پذیر ہونے کا ذکر کیا ہے جس قارئین نے پسند نہیں کیا۔ لیکن ان اعتراضات کے باوجود یہ حصہ بہت جاندار اور قاری کےلئے سارتر کے حالات سے آگاہی کا باعث بنتا ہے۔ سیمون کے مختلف شخصیتوں کو لکھے خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کچھ خط سارتر کے نام ہیں کچھ خطوط فیدل کاسترو کے نام یہ خطوط انہیں عنوانات سے چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔ سیمون کا امریکی موسیقار Nelson ALgren سے عشق بہت مشہور ہے۔ سیمون نے اس پر ایک ناول بھی لکھا ہے اس کے نام سیمون کے خطوط کو اکٹھا کرکے Love Affair کے نام سے شائع کیا ہے۔ ۔ ان تمام خطوط سے بیسویں صدی کی نامور مصنف اور فلسفی کی زندگی کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات ملتی ہے۔
سیمون ڈی بوار بیسویں صدی کی ایک بڑی تخلیق کار تھی جو وجودیت پسند فلسفی تھی۔ نامور ناول نگار تھی۔ نسوانی تحریک کی سرخیل تھی۔ اس نے عملی طور پر اس میں حصہ لیا۔ شہری دنیا کی آواز کےلئے اس نے آواز اٹھائی۔ مزدوروں کے حق کےلئے تقریریں کہیں خاص طور پر نسوانی تحریک اس کی تحریوں کے نام سے زندہ بنے اور بقول ایک دانش ور ”نسوانیت پسندی کی تاریخ میں سیمون ڈی بور ایک ہیروئن کا درجہ رکھتی ہے۔“
٭٭٭
No comments:
Post a Comment