ہیر لڈرابنز (مقبول ترین ناول نگار)
سید افضال حیدر نقوی
اس پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فحش نگار ہے اور اسے جنسیات کا پرچار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔ ناقدین اس کے ناول پڑھ کر ناک بھوں چڑھاتے تھے مگر عام لوگوں ک دلوں میں اس کی قدر و منزلت تھی۔ اس کے سبب اس کے ناول 75کروڑ کی تعداد میں 40 ممالک میں فروخت ہوئے اور دنیا کی 36زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔ فکشن کی تاریخ میں مقبولیت کے لحاظ سے اس کا نمبر چوتھا ہے۔ وہ جیاتو شہزادوں کی طرح اور مرا تو اس کے جنازے میں شریک ہونے والا کوئی نہیں تھا اور اس پر دس لاکھ ڈالر قرض تھے۔
یہ ہیرلڈرابنز تھا جس نے ایک عالم کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اس کے نئے ناول کے بارے میں لوگ بک اسٹالوں پر جا کر استفسار کرتے تھے۔ ہر نئے ناول نگار کی طرح اس کے پہلے ناول ”نیورلوائے اسٹرینجر“ پر تنقید نگاروں نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اسے فحش نگار کا خطاب دیا۔ تاہم اسے پبلک نے خراج تحسین پیش کیا۔ ناول میں اس نے آزاد خیال پیش کی تھی۔ لیکن بعض ریاستوں میں اسے پسند نہیں کیا گیا جب اس کا ناول ”کارپٹ بیگرز“ شائع ہوا تو دھوم مچ گئی اور وہ ایک دم سے لکھ پتی بن گیا۔ اس لیے کہ وہ ناول بین الاقوامی طور پر بیسٹ سیلرز تھا۔ اس نے ایک جزیرہ خرید لیا اور اس کے دوسرے سرے پر ایک محل نما مکان بنوایا۔ ایک ہیلی کاپٹر اسے روزانہ جزیرے پر پہنچا دیتا تھا۔ وہ ابتدائی حصے میں اتر کر باقی سفر ٹرین سے کیا کرتا تھا۔ وہ اس ٹرین کا واحد مسافر ہوا کرتا تھا جب ٹرین اسے محل نمامکان کے سامنے جا کر اتارتی تو وہ اندر جا کر اپنی مطالعہ گاہ میں بیٹھ جاتا اور اپنی سیکرٹری کو اپنا ناول لکھواتا۔ یہ اس کا معمول تھا۔
وہ21مئی 1916میں فرینک کین نیویارک میں پیدا ہوا۔ جب اس کی عمر پانچ برس ہوئی تو اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک نیک دل خاتون تھی اور رابنز کا بہت خیال کرتی تھی۔ رابنز جب بھی اسے یاد کرتا تو آبدیدہ ہوجایاکرتاتھا، اس کی ماں کا تعلق پولینڈ اور باپ کا روس سے تھا۔ باپ ایک تعلیم یافتہ شخص تھا اور رابنز اس کا احترام سے لیا کرتا تھا۔
اس کی ابتدائی زندگی بہت عسرت میں گزری۔ وہ مفوک الحال تھا۔ بعض اوقات اس کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس کی پرورش ایک کیتھولک بوائز ہوم میں ہوئی۔ اس کے بعد اسے جارج واشنگٹن سکول میں داخل کرایا گیا۔ نصابی تعلیم میں اس کا دل نہیں لگا اور اس نے پندرہ برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا۔ بیس برس کی عمر تک اس نے سیکڑوں الٹے سیدھے کام کیے، جن میں تابوتوں پر رنگ کرنا، اخبار فروخت کرنا، پیکنگ کرنا اور ہوٹلوں کے فرش صاف کرنا شامل تھے۔ بالآخر وہ ایک پرچون کی دکان پر سیلز بوائے کی حیثیت سے ملازم ہو گیا۔ جب وہ اس کام میں طاق ہو گیا تو اسے خیال آیا کہ کیوں نہ غلے کی خرید فروخت شروع کر دئیے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
اس نے اپنے ایک واقف کار سے آٹھ سو ڈالر لیے اور کاروبار شروع کر دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کاروبار سے لکھ پتی بن جائے گا۔ غلہ فروخت کرتے کرتے ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ شکر بیچنا شروع کر دے۔ اس سے آمدنی میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس خیال کے تحت اس نے بہت سی چینی خرید کر سٹور کرلی۔ چند ماہ بعد اچانک دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ چیزیں مہنگی ہونا شروع ہو گئیں اور لوگوں میں ہراس پھیل گیا۔ ایسے میں چینی کو کون پوچھتا؟ لہٰذا اسے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ لکھ پتی بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن جب اس نے چینی کی ہول سیل سے توبہ کی تو وہ دیوالیہ ہو چکا تھا اور اس پر بینکوں کا قرض چڑھ چکا تھا۔ یہ کاروبار صرف تین برس چلا تھا اور اس کے بعد اس کے شب و روز پھر تاریک ہو گئے۔
اس کا ابتدائی نام فرانس کین تھا۔ چونکہ وہ دنیا میں تنہا تھا چنانچہ مختلف خاندانوں میں رہ کر زندگی بسر کرتا رہا۔ جو کچھ روکھا سوکھا اسے مل جاتا تھا کھا لیتا تھا۔ ایک خاندان کے لوگوں سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنا نام رابنز رکھ لیا۔ اس کے بعد اپنے نام کا پہلا حصہ اس نے اس وقت تبدیل کیا جب اس نے ناول نگاری شروع کی۔
اس نے اپنے سکول کی کلاس فیلولیلن سے کم عمری میں شادی کرلی اور ہالی وڈ چلا گیا۔ جہاں اس کے سسر نے اپنے یونیورسل پکچرز میں شپنگ کلرک کی حیثیت سے ملازمت دلا دی۔ اس کے بعد وہ اپنی محنت سے سٹوڈیو ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچ گیا۔ اس زمانے میں وہ فلموں کی شوٹنگ دیکھا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہالی وڈ کی فلموں کی کہانیاں بودی اور کمزور ہوتی ہیں۔ وہ محض فلمیں ہوتی ہیں، ان میں برائے نام کہانی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ان میں کہانی ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ایک دوست نے کہا اگر ایسی بات ہے تو وہ کہانی لکھ کر دکھائے۔ اس پر اس نے ایک سو ڈالر کی شرط لگائی کہ وہ ناول نویس کی حیثیت سے مشہور ہوگا اور لکھ پتی بن جائے گا۔ دوست کا خیال تھا کہ وہ ایک فضول سی بات کہہ رہا ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔ اس نے کبھی کوئی کہانی نہیں لکھی تو وہ ناول کیا لکھے گا؟ اس نے ناول لکھنا شروع کر دیا 1948ءمیں اس کا ناول ”نیورلوائے اسٹرینجر“ مارکیٹ میں آیا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے پسند اور ناپسند کیا۔ یہ ملا جلا رد عمل تھا۔ ناول کی کہانی اس کی آپ بیتی تھی۔ یہ ایک یتیم بچے کی کہانی تھی جو نیویارک کی سڑکوں پر آوارہ گھومتا پھڑتا ہے، لیکن اپنی جدوجہد سے نام پیدا کرتا ہے اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرلیتا ہے۔ ناول پچاس فیصد جنس پر مبنی تھا۔ اس لئے امریکا کی بہت سی ریاستوں میں اس کے خلاف شور مچ گیا۔ یہاں تک کہ بعض ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اپنے پہلے ناول کے بارے میں اس نے بتایا کہ جب اس نے پبلشر پیٹ کینوف کو اس کا مسودہ دیا تو اس نے ایک ہفتے بعد اسے طلب کیا اور اس سے معاہدہ کرلیا۔ ہیرالڈ نے اس سے پوچھا کہ اس ناول میں کیا خاص بات نظر آئی جو وہ اسے شائع کرنے پر آمادہ ہوا تو اس نے کہا کہ کیوں کہ اگلے ہی باب میں ایسی مزاحیہ سچویشن آئی کہ وہ ہنسنے لگا۔ اس کی ساری کلفت دور ہو گئی ۔ رنج و الم اور سرشاری کا ایسا امتزاج اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے وہ اس ناول کو شائع کرنا چاہتا ہے۔
ناول شائع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں فروخت ہوا اور اس کے کئی ایڈیشن شائع کرنا پڑے۔ پبلشر کی نظر میں اس کی قدروقیمت بڑھ گئی۔ اس نے حوصلہ دیا کہ وہ مزید ناول لکھے۔ اگر اس کا یہی انداز رہا تو وہا یک اچھا ناول نویس بن سکتا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کے پیش نظر رابنز نے ایک برس بعد دوسرا ناول ”ڈریم مرچنٹ“ کا مسودہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ وہ اس کے بعد ”اے اسٹون فارڈینی فشر“ مارکیٹ میں لے آیا تو لوگوں نے اسے سراہا اور اسے ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔ جب اس ناول پر فلم بنی تو اس میں راک اینڈ رول کے سب سے بڑے گلوکار ایلوس پریسلے کو کاسٹ کیا گیا۔ اس فلم نے ریلیز ہونے کے بعد دھوم مچا دی اور باکس آفس پر بھاری بزنس کیا۔
ناول ”کارپٹ بیگرز“ نے دھوم مچا دی اور وہ بین الاقوامی طور پر بیسٹ سیلرز میں شامل ہو گیا۔ یہ ناول تسلسل کے اعتبار سے پانچواں تھا جو 19761 ءمیں منظر عام پر آیا۔
اس کے ناول جنگ عظیم کے بعد شائع ہوئے جب ہر کس ناکس کے ذہن پر مایوسی کا غلبہ تھا۔ ایسے میں رابنز کے ناولوں نے انہیں یہ راہ سجھائی کہ اگر انسان جدوجہد کرے تو وہ ایک روز بڑا آدمی بن سکتا ہے اور دولت ، عزت اور شہرت حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کی ساری لذتیں اس کی غلام ہو ںگی۔
اس کے ناولوں میں بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ وہ جنس زدہ ماحول تیار کرکے اس میں دولت، طاقت اور ایکشن کے لوازمات بھر دیتا تھا۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ نبض شناس تھا اور بخوبی جانتا تھا کہ قارئین کیاچاہتے ہیں وہ ان کی ناک پکڑ کر انہیں نہایت آسانی سے اپنے بنائے ہوئے ماحول میں کھینچ لیا کرتا تھا اور ان سے دادو تحسین وصول کرلیا کرتا تھا۔
وہ بلاشبہ ایک اچھا ناول نگار تھا اور اپنے ناولوں کے پلاٹ مہارت اور چابک دوستی سے بناتا تھا۔ اسے کردار سازی آتی تھی۔ وہ نیویارک اور شکاگو کی تاریک گلیوں میں کوڑے دان میں سونے والوں کو اپنے کردار بنا کر پیش کرتا تھا۔ مجبور ولاچار کردار، زمانے کے ستائے ہوئے کردار۔ وہ ایسے کردار تخلیق کرتا تھا جو ہمارے سامنے چلتے پھرتے اور ہماری نگاہوں کے پیش نظر رہتے تھے۔ انہیں زندگی میں کوئی مقام حاصل نہیں ہوتا تھا اور وہ حصول زندگی کےلئے کوشاں رہتے تھے۔
وہ فرضی اور خیالی کرداروں سے اجتناب کرتا تھا۔ وہ رواں زندگی سے کردار ماخوذ کرنے کا عادی تھا۔ جیتے جاگتے توانائی اور حرارت سے بھرپور۔ مثال کے طور پر اس نے ”کارپٹ بیگرز“ کا مرکزی کردار ہاورڈ ہیوز کو دیکھ کر پینٹ کیا تھا۔ جو کہ نیویارک کیلی فورنیا چلاجاتا ہے۔ اس کے بعد سخت جدوجہد کرنے کے بعد وہ متمول اور بلند مرتبہ ہوجاتا ہے اسے طیاروں سے دلچسپی ہوتی ہے لہٰذا وہ ایک طیارہ ساز کمپنی کا مالک بن جاتا ہے اور اس سلسلے میں نت نئے تجربات کرتاہے۔
ناول کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایک ناول ”دی ریڈرز“ لکھا جو 1955 ءمیں شائع ہوا۔ اس کی کہانی تسلسل کے اعتبار سے ”کارپٹ بیگرز“ کا دوسرا حصہ کی کہی جا سکتی ہے۔
جب اس سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں پوچھا گیاکہ وہ ناول کیوںلکھتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس کے پیش نظر اپنی جیب ہوتی ہے۔ وہ ناول لکھتے وقت اس کے معیار اور لوگوں کے مزاج کو یقینا خیال رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ اس کی جیب میں کتنی رقم گرے گی اسے ناقدین کی پروا نہیں ہے کہ وہ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں وہ تو اپنے قارئین کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھتا ہے۔
اس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا فکشن اٹیڈ ہے۔ اس نے ایک اخباری نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ”جب میں مرجاﺅں گا تو سارا کھیل ختم ہو جائےگا۔ پھر مجھے کوئی یاد نہیں رکھے گا“ اس کا یہ قیاس بڑی حد تک درست ثابت ہوا۔ اپنے کرداروں میں حقیقت پسندی کا رنگ بھرنے کےلئے وہ السٹیئر میکلین کی طرح ان جگہوں پر جاتا تھا جہاں کے بارے میں وہ لکھ رہا ہوتا تھا۔ چنانچہ جب اس نے اپنے ناول ”دی ایڈونچررز“ کا خاکہ مرتب کیا تو خود امریکا کی ایک جنوبی ریاست میں جا کر مقیم ہو گیا۔ وہ تین برس تک وہاں کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس کے بعد امریکا لوٹا اور اس نے اپنا ناول لکھا۔ یہ ناول گزشتہ ناولوں سے زیادہ فروخت ہوا۔ چھوٹی ریاستوں میں انداز حکمرانی کیا ہوتا ہے اور وہاں انقلاب کیسے رونما ہوتا ہے، یہ اس ناول کا موضوع تھا۔ بلاشبہ انگریزی فکشن میں انقلاب پر اس سے بہتر ناول نہیں لکھا گیا۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے مشہور و مقبول ناول نگار ابن صفی اس کے ناول بھی پڑھا کرتے تھے کیونکہ انہیں اس کے کردار بہت پسند تھے۔
وہ چونکہ ناول نویس تھا چنانچہ ہر ایک کو کوئی قصہ سنا دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک چینی رقاصہ سے شادی کی تھی اور جب اسے ایک طوطے نے کاٹ لیا تھا تو اس کے جسم میں زہر پھیل گیا تھا۔ وہ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئی لیکن اس کے بارے میں تحقیق کرنے پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اس نے ایک عورت لیلن سے شادی کرنے کے بعد سعادت مند اور گھریلو شوہروں کی طرح اپنی زندگی کے 28برس اس کے ساتھ گزار دئیے۔ اس دوران اس کا کوئی سیکنڈل نہیں بنا۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے، لیکن اس سے لیلن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ البتہ وہ اپنے ساتھ دو بیٹیاں لائی تھی۔ جن کی محبت کے سہارے رابنز نے زندگی گزار دی۔ اسے اپنی بیٹیوں سے بہت محبت تھی اور وہ انہیں اپنا بیٹا خیال کرتا تھا۔ ان کے نام کیریان اور اینڈرینا ہیں۔
اس کے بعد اس نے گریس سے شادی کی جو تعلیم یافتہ تھی اور ایک اخبار میں کالم نویس تھی۔ شادی کے بعد اس نے رابنز کا ہاتھ بٹایا اور اس کی موت کے بعد اس کی سوانح حیات بھی لکھی ، جو بہت مشہور ہوئی گریس کے ساتھ بھی اس نے 27برس گزارے۔ پھر جب گریس نے اس علیحدگی اختیار کرلی تو اس نے پے درپے دو شادیاں کیں اور دونوں سے مطمئن نہیں ہوا تو انہیں طلاق دے دی۔
اس کی پانچویں اور آخری شادی جین سے ہوئی جو مرتے دم تک اس کے ساتھ رہی اور جب وہ بستر مرگ پر اذیت سے دو چار تھا تو وہی اس کے سرہانے موجود تھی۔
ہیرلڈرابنز کی بیویوں سے جب اس کے ماضی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے عجیب و غریب واقعات سنائے۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ وہ نیوی میں ملازم رہ چکا ہے اور ایک بار اس کی آبدوز کو دشمن نے اپنا نشانہ بنایا تو کئی میل تیرتا ہوا ساحل تک پہنچا تھا۔ جب کہ اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کبھی بحری فوج میں ملازم تھا۔ یہ اس کے ذہن کی اختراع تھی اس نے تین محل نما مکانات بنائے۔ ایک فرنچ ریویرا، دوسرا ہالی ووڈ ور تیسرا پام بیچ میں۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مونٹی کارلو میں جوا کھیلتے ہوئے بھی گزارا ہے۔ اسے دیت نام کی جنگ، چاند کی تسخیر اور کمیونزم کے خطے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنی دنیا میں مست رہنے والا شخص تھا۔
اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے اسٹول اور ناسس اور ہاورڈ بیوز کے ساتھ مونٹی کارلو مین جوا کھیلا ہے۔ اوناسس بھی اس کا مداح تھا اور اس کے ساتھ کشتی رانی کرتا تھا۔ اس نے اپنے بحری جہازوں پر اس کی کئی بار دعوت کی تھی۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے یا یہ واقعات محض اس کے افسانوی ذہن کی پیداوار ہیں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔
اپنی شاہانہ زندگی کے دوران اسے منشیات کی لت بھی لگ گئی ایک بار جب وہ کوکین کا نشہ کرنے کے بعد اپنے لان کی طرف جا رہا تھا تو اس کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ ایک کیاری میں گر پڑا جس سے اس کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یہ ہڈی ٹھیک طرح سے نہ جڑی اور وہ پہیوں والی کرسی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگیا۔ اس دوران اس نے ناول نویسی ترک نہیں کی اور اپنی تخلیقات سے پڑھنے والوں کو نوازتا رہا۔ اس کے تقریباً سارے ناولوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔ انہیں ٹیلی ویژن کی منی سیریل میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ مجموعی طور پر ساری دنیا میں اس کے تیس ناول 75کروڑ کی تعداد میں فروخت ہوئے اس لئے اس فکشن ناولوں میں پانچویں بڑے بیسٹ سیلر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
جب وہ 81برس کی عمر میں 14اکتوبر 1997 ءکو اس دنیا سے رخصت ہونے لگا تو اس کا کوئی دوست اس کے سرہانے نہیں تھا حالانکہ دوستوں کے ساتھ وہ خلوص برتتا تھا۔ وہ مجموعی طور پر ایک اچھا آدمی تھا۔ اسے دل کا دورہ پڑا تھا جس کی بنا پر اسے پام بیچ کے ڈزرٹ ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکا۔
اس نے بیوی گریس سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ جب وہ مر جائے تو اسے جلا کر اس کی راکھ ایک لاکٹ میںبندکی جائے اور وہ اس لاکٹ کو ساری زندگی پہنے رہے۔ تاکہ وہ اس کے سینے سے لگا رہے۔ بد قسمتی سے گریس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے مرنے کے بعد اسے جلایا تو گیا لیکن اس کی راکھ ایک کتاب نما پیکنگ میںبند کرنے کے بعد پام بیچ کے مکان میں رکھوا دی گئی، جہاں اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا تھا۔ کتاب کی جلد پر اس کا نام کندہ ہے۔
وہ محنتی ، سخی اور پُر جوش شخص تھا۔ توانائی اور زندگی کی حرارت سے بھرپور۔ جب بھی فکشن ادب کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس کا نام ضرور لیا جائے گا۔
ہالی ووڈ بولیو ارڈ کے واک آف فیم میں اس کا ستارہ بھی لگا ہوا ہے اور اس کا نمبر 6743 ہے۔
اس کی موت کے بعد چار ناول منظر عام پر آئے جنہیں اس کے مصنف دوست جو نیئس بوڈرگ نے لکھا تھا جب کہ بنیادی خیال ہیرلڈرابنز کا تھا۔ ان میں اسے صرف ایک ناول پسند کیا گیا مگر باقی ناولوں کو قبولیت عام حاصل نہ ہو سکی۔ دراصل بوڈرگ کو ادراک نہیں تھا کہ رابنز کی تحریر کی خصوصیات کیا ہیں اور اس کے کردار کس ماحول میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ رمز صرف رابنز کو معلوم تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ ہی دنیا سے لے گیا۔
No comments:
Post a Comment