Ad

Ad

Friday, 7 September 2012

ملائیشیا Malaysaia History


ملائیشیا
Malaysaia
قیام، 16ستمبر 1963ئ۔ سرکاری نام، ملائیشیا۔ سرکاری زبان، ملائی۔ طرز حکومت، وفاقی آئینی منتخب بادشاہت اور پارلیمانی جمہوریہ۔ کرنسی، رنگٹ۔ فی کس آمدن، 14071ڈالر۔ کل رقبہ 329845مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، کوالالمپور۔ اہم شہر، جوہر بہارو، جارج ٹاﺅن (پینانگ)، کیلانگ۔ آبادی، 28,276,000 (تخمینہ جون 2009ئ)
محل وقوع
براعظم جنوب مشرق ایشیا مےں واقع ہے۔ اس کے مشرق مےں بحیرہ ¿ جنوبی چین، شمال مےں تھائی لینڈ اور جنوب مےں سنگاپور ہے۔ آب و ہوا مرطوب ہے اور بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہےں۔ 
لوگ
یہاں کے 51فی صد سے زائد لوگ مسلمان ہےں۔ دیگر مذاہب کے لوگ بھی بستے ہےں۔ جن مےں ہندو، بدھ مت، تاﺅمت اور عیسائی شامل ہےں۔ 59فی صد لوگ ملائی، 32فی صد چینی اور 9فی صد ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتے ہےں۔ یہاں کے 80فی صد لوگ خواندہ ہےں۔ نوجوانوں کی 96فی صد تعداد سکولوں اور کالجوں مےں جاتی ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 65سال اور عورتوں کی ستر سال ہے۔ شرح پیدائش 2.4فیصد سالانہ ہے۔ 442افراد کے لئے ہسپتال مےں ایک بستر اور 2700افراد کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت میسر ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 29فی ہزار ہے۔
وسائل
اہم زرعی پیداواروں مےں چاول، ناریل، سیاہ مرچ، کیلا، پپیتا، آم اور ربڑ شامل ہےں۔ زراعت مےں ملائیشیا نے بہت شاندار ترقی کی ہے۔ معدنیات مےں قلعی قابل ذکر ہے۔ ملائیشیا دنیا کا قلعی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ دیگر معدنی وسائل مےں سونا، کوئلہ، تیل، چینی، مٹی، تانبہ اور دیگر دھاتیں شامل ہےں ملک کی معدنی پیداوار کی وجہ سے ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ملائیشیا مےں صنعت نے بھی بہت ترقی کی ہے۔ ربڑ کی مصنوعات، فولاد، الیکٹرانکس کے آلات، سگریٹ، بسکٹ، فرنیچر، کشتی سازی اور برتن سازی اہم صنعتیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں سبزیوں کا تیل، مشینری، خوراک، ٹرانسپورٹ کے آلات اور مشروبات شامل ہےں۔ برآمدات پٹرولیم، کپڑے، ربڑ، کھجور کا تیل، بجلی کا سامان، لکڑی، کپڑے اور جوتے قابل ذکر ہےں۔
تاریخ
 878عیسوی مےں اسلام نے اس علاقے کو منور کیا اور اس مذہب نے یہاں بہت ترقی کی۔ لوگ سنی العقیدہ ہےں۔ 15ویں صدی مےں سماٹرا کے بادشاہ میشورار نے اس سلطنت کی بنیاد رکھی مگر صرف 15سال بعد ہی پرتگالیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد 1641ءمےں یہاں ولندیزیوں نے قبضہ کر لیا۔ 1795ءمےں یہ علاقہ برطانیہ کے زیر سایہ چلا گیا۔ 1941ءمےں جاپان قابض ہوگیا مگر جنگ عظیم کے بعد صورتحال بدل گئی۔ جاپان پسپا ہوا۔ ملائیشیا مےں آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ یونائیٹڈ ملائیشیا نیشنل آرگنائزیشن تنظیم قائم کی گئی جس نے ملک بھر مےں عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ بالآخر برطانیہ کو مجبور ہو کر مقامی رہنماﺅں سے مذاکرات کرنا پڑے۔
21اگست 1957ءکو مرکزی حکومت کے تحت ملائیشیا کی ریاستوں کا وفاق عمل مےں آیا۔ 17ستمبر 1957ءکو یہ اقوام متحدہ کا ممبر ملک بن گیا۔ 1960ءتک یہ مکمل آزاد اور خودمختار ملک بن گیا۔ تنکو عبدالرحمن ملک کے پہلے وزیراعظم بنے۔ 1970ءمےں کمیونسٹ تحریک نے زور حاصل کیا مگر اس تحریک کو کچل دیا گیا۔ اس دوران 65ارکان کی مشاورتی کونسل بنائی گئی تاکہ ملک مےں امن و امان ہو۔ ستمبر 1970ءمےں تنکو عبدالرحمن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ تنکو عبدالرزاق نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا جنہوں نے پارلیمانی نظام کو فروغ دیا۔ 24اگست 1974ءکے انتخابات مےں ان کی پارٹی واضح اکثریت سے جیتی۔
14جنوری 1976ءکے روز تنکو عبدالرزاق انتقال کر گئے اور نائب وزیراعظم دتو حسین بن عون وزیراعظم بن گئے۔ کمیونسٹوں کا انقلاب روکنے کے لئے حکومت نے سختی کی پالیسی اختیار کی۔ نسلی امتیاز کی پالیسی سے بچنے کے لئے چینی پیشہ ور کاریگر ملک چھوڑ کر جانے لگے۔ حسین بن عون کی جماعت نے 1978ءکے انتخابات مےں دوتہائی کی اکثریت حاصل کی۔ 1981ءمےں حسین بن عون صحت کی خرابی کی وجہ سے سبکدوش ہوگئے اور ان کی جگہ مہاتیربن محمد وزیراعظم بنے۔ 1982ءکے انتخابات مےں ان کے زیر قیادت ان کی جماعت نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
1990ءتک مہاتیر محمد کی معاشی حکمت عملیوں کی بدولت ملائیشیا ایشیاءکی عظیم معاشی قوت بن گیا اور اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک مےں ہونے لگا لیکن 1997ءکے کرنسی کے بحران نے اس ترقی کو خاصا دھچکا پہنچایا۔ بہرحال، مہاتیر محمد آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی پالیسیوں پر نہیں چلے بلکہ اپنی راہ خود متعین کی اور بالآخر ملک کو بحران سے نکالنے مےں کامیاب رہے۔
1998ءمےں مہاتیر محمد نے اسلامی رہنما اور نائب وزیراعظم انور ابراہیم کو برطرف کر دیا جن پر مختلف نوع کے الزامات تھے۔ 2003ءمےں بائیس برس حکومت کرنے کے بعد مہاتیر محمد سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ عبداللہ بدوی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ مارچ 2004ءمےں عام انتخابات ہوئے جن مےں حکمران جماعت نے نوے فیصد ووٹ حاصل کئے۔ عبداللہ بدوی نے باقاعدہ طور پر وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ اسی سال انور ابراہیم کو بھی رہا کر دیا گیا۔ 
اگرچہ ملائیشیا کی ترقی کی رفتار کسی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے ہی چند سالوں مےں یہ ایک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کر لے گا تاہم اس کے سیاسی نظام کی سخت گیری پر اکثر اعتراضات اٹھائے جاتے رہتے ہےں۔ یہاں کثیر جماعتی نظام کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، پریس پر قدغنیں عائد ہےں، عدلیہ کو آزاد تصور نہیں کیا جاتا اور کئی مدنی و سیایس آزادیاں نظر نہیں آتیں۔ تاہم اس وقت اگر اسلامی دنیا کے حالات کو مدنظر رکھا جائے اور ملائیشیا کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ ملائیشیا کے نظام کی یہ سخت گیری اس کے حق مےں مفید ثابت ہوئی اور ملکی عوام مےں سیاسی شعور مناسب حد تک پختہ ہو جانے کے بعد انہیں سیاسی آزادیوں سے روشناس کرا دیا جائے تو ہی مناسب رہے گا۔
2008ءکے انتخابات مےں حکومتی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ اس کی ناکامی کی وجوہات مےں افراط زر کی بلند شرح، جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، نسلی بنیادوں پر کشیدگی اور کئی دیگر وجوہات کو گنوایا گیا تاہم عبداللہ احمد بداوی دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے مےں کامیاب رہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment