Ad

Ad

Friday, 7 September 2012

مصر Egypt History


مصر
Egypt
قیام، 18 جون 1953ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ مصر العریبہ۔ سرکاری زبان، عربی۔ طرز حکومت، نیم صدارتی جمہوریہ۔ کرنسی، مصری پاﺅنڈ۔ فی کس آمدن، 5898ڈالر۔ کل رقبہ، 1002450 مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، قاہرہ۔ اہم شہر، الجزہ، شبریٰ الخیامہ، سکندریہ، پورٹ سعید، المنصورہ۔ آبادی، 82,999,00 (تخمینہ 2009ئ)
محل وقوع
یہ ملک براعظم افریقہ مےں اندر کی جانب واقع ہے اور افریقہ کے شمال کی طرف ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ روم، مشرق مےں اسرائیل اور بحیرہ قلزم (احمر)، جنوب مےں سوڈان اور مغرب مےں لیبیا واقع ہےں۔ اس کی آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ تاہم ساحلی علاقوں مےں آب و ہوا مرطوب ہے۔ بارشیں مختلف علاقوں مےں مختلف اوسط سے ہوتی ہےں۔ دنیا کے سب سے طویل دریا نیل کا زیادہ تر گزر اسی مےں سے ہے۔
لوگ
نوے فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ دس فی صد لوگ عیسائی مذہب کے پیروکار ہےں۔ فی مربع میل مےں 140افراد بستے ہےں۔ 44فی صد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں۔ نوے فی صد ہمیٹک قبائل سے تعلق رکھتے ہےں جبکہ دیگر مےں بدو اور نوبیائی لوگ شامل ہےں، 6 سے 12سال کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ 44فی صد لوگ خواندہ ہےں۔ مردوں کی اوسط عمر 60برس اور عورتوں کی 61برس ہے۔ شرح اضافہ آبادی 2.3فی صد سالانہ ہے۔ 505افراد کے حصے مےں ہسپتال کا ایک بستر اور 616افراد کے حصہ مےں ایک ڈاکٹر آتا ہے۔
وسائل
44 فی صد لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہےں جو کل ملکی پیداوار کا 20فی صد ہے۔ 4فیصد رقبے پر کاشت ہوتی ہے۔ برآمدات مےں زراعت کا حصہ 50فی صد ہے۔ اسوان ہائی ڈیم، اسیوط بیراج اور محمد علی بیراج اس کی اراضی کو سیراب کرنے مےں اہم معاون ہےں۔ مصر کی زمین دنیا کی زرخیر ترین زمینوں مےں سے ہے۔ یہاں کی کپاس دنیا کی بہترین کپاس ہے۔ دیگر زرعی اجناس مےں چاول، مکئی، باجرہ، برسیم، دالیں، چنا، تیل نکالنے والے بیج اور جو شامل ہےں۔ تیل، فاسفیٹ، نمک، خام لوہا، سیمنٹ کا پتھر، مینگانیز، سونا، جپسم اور یورنیم یہاں کی اہم معدنیات مےں شامل ہےں۔ پارچہ بافی، کیمیائی اشیائ، تیل کی مصنوعات، غذاﺅں کی پیکنگ اور سیمنٹ یہاں کی اہم صنعتیں ہےں۔ یہاں 3327 میل لمبی ریلوے لائن اور تیس ہزار میل لمبی سڑکیں موجود ہےں۔ قاہرہ، سکندریہ، پورٹ سویز اہم بندرگاہیں ہےں۔
تاریخ
تاریخی لحاظ سے یہ ملک بہت قدیم ہے۔ اس کی تہذیب بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے۔ 3200ق م مےں یہاں جیتا جاگتا ماحول تھا اور ترقی یافتہ بھی۔ یہاں کے اہرام جن کا دنیا کے عجوبوں مےں شمار ہوا ہے، 2600ق م اور 2500ق م مےں تعمیر ہوئے۔ 525ءمےں یہ ایران کے زیر قبضہ آگیا۔ 640ءمےں حضر عمرؓ کے عہد مےں اسلامی حکومت مےں شامل ہوا۔ اس علاقے کو حضرت عمروؓ بن العاص نے فتح کیا تھا۔
1517ءمےں یہ علاقہ ترکوں کی عثمانی سلطنت کے زیر نگیں آگیا۔ 1798ءمےں نپولین بونا پارٹ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد فرانس اور برطانیہ کے زیر اثر یہ علاقہ رہا۔ 1882ءمےں برطانیہ نے اس پر مکمل قبضہ کر لیا۔ 1914ءمےں یہ علاقہ برطانیہ کے زیر نگرانی قرار پایا۔ 1922ءمےں شاہ فواد اول یہاں کا حکمران بنا۔ 1936ءمےں اس کا بیٹا فاروق تخت نشین ہوا۔ دوسری جنگ عظیم مےں مصر اتحادیوں کا ایک بہت اہم اڈا تھا۔ 1948ءمےں عرب اسرائیل جنگ مےں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1952ءجنرل محمد نجیب نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا اور ملک کو جمہوری ملک قرار دے دیا۔ نائب وزیراعظم جمال عبدالناصر بنے۔ مگر اختلافات پر جنرل جلد ہی اقتدار سے علیحدہ ہوگئے اور جمال عبدالناصر صدر بن گئے۔ اکتوبر 1954ءمےں نہر سویز سے برطانوی فوج کے انخلاءکا معاہدہ طے پایا اور نہر کو بین الاقوامی آبی راستہ قرار دے دیا گیا۔ جولائی 1956ءمےں امریکہ برطانیہ اور بین الاقوامی بنک نے اسوان ہائی ڈیم کی تعمیر مےں مصر کو قرضہ دینے سے انکار کر دیا جس پر مصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت مےں لے لیا۔ اسرائیل، برطانیہ اور امریکہ نے مل کر مصر پر حملہ کیا اور شکست کھائی، اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بند کرنا پڑی۔ 1970ءمےں انوارالسادات، جمال عبدالناصر کی وفات پر صدر بنے۔ انہوں نے مغرب سے دوستی کا اظہار کیا جس پر عربوں نے مصر کو مالی امداد بھی دی۔ جون 1967ءمےں اسرائیل نے جو علاقہ زیر قبضہ کر رکھا تھا 1973ءمےں اس کے ایک بڑے حصے کو آزاد کروا لیا گیا۔ صدر انور السادات نے 18مئی 1978ءکو کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اسرائیل سے معاہدہ کیا۔ اس دوران مصری صدر نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا جس کے تحت صحرائے سینا مصر کو مل گیا۔ 6اکتوبر 1981ءکے روز اسرائیل سے مذاکرات پر ناراض فوجیوں نے انور سادات کو ایک فوجی پریڈ کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ان کے بعد حسنی مبارک صدر بنے اور اب تک اقتدار سنبھالے ہوئے ہےں۔ ان کی حکومت اسلام پسندوں پر سخت گیری اور مغرب نوازی کے لئے خاص شہرت رکھتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment