Ad

Ad

Thursday, 30 August 2012

Libya History


لیبیا
Libya
آزادی، 24دسمبر 1951ئ۔ سرکاری نام، الجماہیریة العربیة البیة الشعبیة الاشعراکیة العظمیٰ۔ سرکاری زبان، عربی۔ طرز حکومت، جمہوریہ۔ کرنسی، دینار۔ فی کس آمدن، 14533ڈالر۔ کل رقبہ 1759541مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، طرابلس۔ اہم شہر، بن غازی، مسوراتا، الزائیوہ، طبرق، اجدابیہ۔ آبادی، 6420000 (تخمینہ 2009ئ)
محل وقوع
لیبیا براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں بحیرہ ¿ روم، مشرق مےں مصر، جنوب مشرق مےں سوڈان، جنوب مےں چاڈ اور نجد، مغرب مےں الجزائر اور شمال مغرب مےں تیونس واقع ہےں۔ ساحل ایک ہزار ایک سو میل لمبا ہے۔ جبل سودا، الاسودلحروج اور جبل نفوسہ پہاڑی سلسلے ہےں۔ 92فی صد حصہ ریگستانی یا نیم ریگستانی ہے۔ اس کا ایک مقام عزیزیہ دنیا کا گرم ترین علاقہ ہے۔ موسم گرما مےں درجہ حرارت 100سے 125درجے فارن ہائیٹ تک ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ تاہم ساحلی علاقوں کا موسم معتدل رہتا ہے۔ صحرائی علاقوں مےں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہےں۔
لوگ
یہاں مسلمانوں کی آبادی 97فیصد ہے۔ نسلی اعتبار سے بربر اور عرب نژاد باشندے بھی 97فیصد ہےں۔ بقیہ تین فیصد مےں یونانی، مالٹائی اور اطالوی شامل ہےں۔ آبادی مےں اضافے کی شرح 2.3فیصد سالانہ ہے۔ اطفال مےںاموات کی شرح 30.8 فی ہزار ہے۔ اوسط عمر 75سال ہے۔ مردوں مےں یہ شرح 73سال اورخواتین مےں 77سال ہے۔ شرح خواندگی 95.4فیصد ہے۔ مردوں مےں یہ شرح 96.9فیصد ہے اور خواتین مےں 94فیصد ہے۔
وسائل
ملک کے پانچ فی صد علاقے پر کاشت کاری ہوتی ہے۔ ملک کا ایک بڑا حصہ ریگستان پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ویران ہے۔ مونگ پھلی، زیتون، انگور، کھجوریں، گندم، جو اور ترشادہ پھل اس ملک کی اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ لوگ بھیڑ بکریاں بھی پالتے ہےں۔ 31فی صد افراد کاشت کاری کے شعبے سے منسلک ہےں۔
تیل اس ملک کے سب سے بڑی معدنی دولت ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ملک دنیا کا 37واں بڑا امیر ملک ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی گیس اور جپسم کے وسیع ذخائر بھی یہاں موجود ہےں۔ 27فی صد لوگ صنعت سے وابستہ ہےں۔ 40فی صد ملکی پیداوار صنعت سے حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ تر صنعتیں قومی ملکیت مےں ہےں۔ مشروبات، کپڑا، سگریٹ، سیمنٹ، پٹرولیم کی مصنوعات اور قالین بافی اہم صنعتوں مےں شامل ہےں۔ کھاد، پانی سے کشید کر کے تازہ پانی حاصل کرنے کا پلانٹ بن غازی کے ساحل پر واقع ہے۔ 5لاکھ کاریں اور تقریباً اتنی ہی کمرشل گاڑیاں ہےں۔ سڑکوں کی لمبائی تیس ہزار کلومیٹر ہے۔ ریلوے کا نظام قائم نہیں۔ بن غازی اور طرابلس بین الاقوامی ہوائی اڈے اور اہم بندرگاہیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں خوراک، کیمیکلز مشینری اور ٹرانسپورٹ شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں اون، زیتون کا تیل، کھالیں، ترشادہ پھلوں اور قدرتی گیس کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ 
630ق م مےں یونانی سب سے پہلے یہاں آئے۔ اس وقت اس علاقے کو سائریکا کہتے تھے۔ اس دوران فینیقوں نے یہاں حکومت قائم کی۔ پہلی صدی مےں رومی یہاں آئے۔ 642ءمےں اسے عربوں نے فتح کیا۔ 1551ءمےں عثمانی سلطنت کا حصہ بن کر یہ علاقہ ترکوں کے زیر سایہ آگیا اور یہ 1910ءتک اس ملک کا حصہ رہا۔ 1911ءمےں اس پر اٹلی نے قبضہ کر لیا مگر سنوسی قبائل نے غیر ملکی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 1941-42ءمےں لیبیا دوسری عالمگیر جنگ کا اکھاڑہ بن گیا۔ اس جنگ مےں لیبیا کو بغیر کسی وجہ سے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ سے برطانوی جنرل منٹگمری، جرمن رومیل اور امریکی جنرل آئزن ہاور نے عالمی شہرت حاصل کی۔ 1942ءمےں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران انگریزوں نے سنوسیوں سے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد انہیں آزاد کر دیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 
انہیں آزادی 24دسمبر 1951ءکے روز ملی اور 2جنوری 1952ءکو آزادی کا عمل مکمل ہوگیا۔ شاہ ادریس سنوسی یہاں کے حکمران بنے۔ یکم ستمبر 1969ءکو کرنل معمر قذافی نے ان کا تختہ الٹ کر ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اب تک وہی حکمران ہےں۔
1972ءمےں مصر اور لیبیا کے وفاق کا قیام اور 12جنوری 1974ءکو تیونس لیبیا کا ادغام کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔ 1977ءمےں امریکہ کے طیاروں نے خلیج سدرہ کی جھڑپ مےں لیبیا کے دو جنگی طیارے مار گرائے۔ 6جنوری 1986ءکو امریکہ نے اس ملک پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ امریکہ لیبیا پر جوہری اور کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ اگست 1989ءکے معاہدے کی رو سے اوزوکی متنازعہ پٹی کا معاملہ بین الاقوامی عدالت انصاف مےں پیش کیا گیا جس پر 1993ءمےں لیبیا کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ 
21دسمبر 1988ءکے روز امریکہ کا ایک مسافر بردار بوئنگ 747سکاٹ لینڈ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے مار گرایا گیا جس کے تمام 259مسافر ہلاک ہوگئے۔ امریکہ نے لیبیا کے محکمہ جاسوسی کے دو افسران کو اس کا ذمہ دار قرار دیا لیکن لیبیا نے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ 1992ءمےں اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا پر تجارتی اور فضائی ٹریفک کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
5اپریل 1999ءکے روز بالآخر لیبیا نے امریکہ کا مطالبہ مان لیا اور دونوں افسروں عبدالباسط علی اور خلیفہ مہمہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔ لیبیا کے تعاون کی وجہ سے اقوام متحدہ نے بھی اپنی پابندیاں اٹھا لیں۔ اس کے ساتھ یورپ کی آئل کمپنیوں نے فی الفور لیبیا سے رابطے کرنا شروع کر دیئے۔
دسمبر 2003ءمےں امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ مذاکرات کے بعد کرنل قذافی نے یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ لیبیا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیار کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ جون 2004ءمےں چوبیس سال کے بعد امریکہ اور لیبیا کے درمیان دوبارہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ 
٭٭٭٭٭

Wednesday, 29 August 2012

Lebanon History


لبنان
Lebanon
آزادی، 22نومبر 1943ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ لبنان۔ سرکاری زبان، عربی، فرانسیسی۔ طرز حکومت، پارلیمانی جمہوریہ۔ کرنسی، لبنانی پاﺅنڈ۔ فی کس آمدن، 13373ڈالر۔ کل رقبہ، 10452مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، بیروت۔ اہم شہر، طرابلس، زاہلے، بابدا، بعلبک، جزین۔ آبادی، 4,224,000 (تخمینہ 2009ئ)۔
محل وقوع
یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ براعظم مغربی ایشیاءمےں واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق مےں شام، جنوب مےں اسرائیل اور مغرب مےں بحیرہ روم واقع ہےں۔ اس کی شمالاً جنوباً لمبائی 135میل اور شرقاً غرباً چوڑائی 55میل ہے۔
جبل لبنان اہم پہاڑی سلسلہ۔ بلند ترین چوٹی قرنات السودا 10131 فٹ بلند ہے۔ عاصی اور لیطافی یہاں کے مشہور دریا ہےں۔ اس کی آب و ہوا بحیرہ روم سے ملتی جلتی ہے۔ گرمیاں خشک اور بارشیں کم اور سردیوں مےں سردی کم پڑتی ہے۔ یہ براعظم ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔
لوگ 
یہاں کے 75فی صد لوگ مسلمان ہےں جبکہ 25فی صد عیسائی ہےں۔ نسلی اعتبار سے 95فیصد باشندے عرب جبکہ 4 فیصد آرمینیائی ہےں۔ لوگ عرب کے علاوہ فرانسیسی، جرمن، اطالوی، آرمینی اور انگریزی زبانیں بول اور سمجھ لیتے ہےں۔ 
5سال کے بچے کو پڑھنے کے لئے سکول بھیجنا لازمی ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ خواندہ علاقہ ہے۔ 95فیصد بچے سکولوں مےں جاتے ہےں۔ خواندگی کا تناسب 75فی صد ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 66سال اور عورتوں کی 71سال ہے۔ آبادی مےں اضافے کی شرح 2.1فیصد سالانہ ہے۔ 263افراد کے حصے مےں ہسپتال کا ایک بستر اور 771افراد کے لئے ایک ڈاکٹر آتا ہے۔ اطفال مےں اموات کی شرح 52فی ہزار ہے۔
وسائل
تر شادہ پھل، سیب، انگور،آلو، چقندر، جو، تمباکو، کیلا، انجیر اور گندم یہاں کی اہم فصلیں ہےں۔ 35فی صد رقبہ زیر کاشت ہے اور 11 فی صد لوگ اس پیشے سے منسلک ہےں۔ خام لوہا، تانبا، چینی مٹی، فاسفیٹ اور اسفالٹ اہم معدنیات ہےں۔ سیاحت اس ملک کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ اس کے علاوہ خوراک کو ڈبہ بند کرنا، سیمنٹ، کیمیائی اشیاءاور تیل کی مصنوعات اہم صنعتیں ہےں۔ ریلوے کا نظام کافی وسیع ہے جو شام اور ترکی سے مربوط ہے۔ 6000ہزار میل لمبی سڑکیں ہےں۔ بیروت، طرابلس اور حیرا مشہور بندرگاہیں ہےں۔ 
تاریخ
یہ بہت قدیم ملک ہے۔ اس پر حطیطی، رومی اور بازنطینی حکمران حکومت کرتے رہے۔ ساتویں صدی عیسوی مےں عربوں نے اس کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کی فتح کے بعد سے پہلی جنگ عظیم تک اس پر ترک حکمران رہے۔ 
جنگ عظیم اول مےں جب خلافت عثمانیہ بکھر گئی اور اس کے زیر اقتدار علاقوں کو الگ الگ ریاستوں مےں تقسیم کر کے یورپی ممالک نے ان پر قبضہ جما لیا تو شام کا شمالی حصہ فرانس کے تسلط مےں چلا گیا۔ شام کا جنوبی حصہ، جس مےں فلسطین کا علاقہ شامل تھا، برطانیہ نے اپنے قبضے مےں لے لیا کیونکہ برطانیہ اعلان بالفور کے تحت یہودیوں سے فلسطین کے علاقے مےں ان کی حکومت قائم کرنے کا وعدہ کر چکا تھا۔
1943ءتک لبنان کسی مستقل ملک کا نام نہ تھا۔ فرانس نے اپنی نو آبادیاتی مصلحتوں کے تحت شام کے پانچ اضلاع کو ملا کر لبنان کے نام سے ایک نئی ریاست قائم کی۔ 1944ءمےں جنگ عظیم دوم مےں شکست کھانے کے بعد فرانس نے شام اور اپنی ساختہ نئی مملکت لبنان کے عوام کو الگ الگ اختیارات حکومت دے دیئے۔ تاہم اس کے فوجی دستے 1946ءتک دونوں ملکوں مےں موجود رہے۔
1958ءمےں صدر کمال شمعون کی مغرب نواز پالیسی کی مخالفت نے بغاوت کا روپ دھار لیا۔ بغاوت اتنی شدید کہ صدر شمعون نے امریکہ سے فوجی امداد کی درخواست کی۔ نئی حکومت بننے تک امریکہ کی فوجیں لبنان مےں رہیں۔ 
1970ءمےں سلیمان صدر منتخب ہوئے اور رشید کرامی کی جگہ وزارت عظمیٰ سلام کے حصے مےں آئی۔ 1972ءمےں میونخ اولمپکس کے کھلاڑیوں کے قتل کا انتقام لینے کے لئے اسرائیل نے لبنان مےں فلسطین کے گوریلا ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ 1973ءمےں اسرائیلی چھاپہ ماروں نے بیروت پر حملہ کیا اور تین گوریلا لیڈر ہلاک کر دیئے۔ اس واقعے کے نتیجے مےں بیروت مےں گوریلوں اور لبنانی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی جو دو ہفتوں تک جاری رہی۔ وزیراعظم سلام کو استعفیٰ دینا پڑا۔ نئے وزیراعظم تقی الدین صلح نے مصالحت کی کوشش کی لیکن گوریلوں کی سرگرمیاں اور اسرائیلی فوجی کارروائیاں اکتوبر 1973ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بھی جاری رہیں۔
1975ءمےں عیسائیوں، مسلمانوں اور فلسطینی گوریلوں کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ 1976ءمےں الیاس سارکس لبنان کے صدر بنے۔ 19اپریل 1981ءکو عیسائی ملیشیا کے سربراہ میجر سعد مراد جنوبی لبنان کے صدر بنے اور اس کا نام آزاد لبنان رکھا۔ اس پر ان کے اوپر غداری کا مقدمہ چلا۔ یکم اپریل 1981ءکے روز شامی فوجوں اور عیسائی ملیشیا کے مابین پھر جھڑپیں ہوئیں۔ 24جولائی 1981ءکو اسرائیل اور فلسطینی گوریلوں کے درمیان جنگ بندی کا سمجھوتہ ہوا مگر اس کے باوجود جنگ جاری رہی۔ 10جون 1982ءکو اسرائیلی فوجیں بیروت کے نواح تک پہنچ گئیں۔ اس جنگ مےں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئے اور بالآخر جنوبی لبنان فلسطینیوں کو خالی کرنا پڑا۔ 14ستمبر 1982ءتک تمام فلسطینی لبنان سے چلے گئے۔ 
مئی 1985ءمےں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ 1986ءمےں پی ایل او کے اڈوں پر اسرائیل نے فضائی حملے کئے۔ یکم جون 1987ءکو وزیراعظم رشید کرامی فضائی حادثے مےں جاںبحق ہوگئے۔ 1988ءمےں امین جمائل صدارت سے دستبردار ہوگئے۔ میکائل عون نے اقتدار سنبھالا مگر وزیراعظم سلیم الحوص نے ان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا۔ کاسابلانکا، مراکش مےں عرب راہنماﺅںکی کوششوں سے لبنانی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ مارونی عیسائی رینی معوض صدر اور مسلم الحوص وزیراعظم نامزد ہوئے۔ 22نومبر 1989ءمےں صدر کار بم دھماکے مےں ہلاک ہوگئے۔ ان کی جگہ الیاس ہراوی 24نومبر 1989ءکو صدر بنے۔ مئی 1991ءمےں منعقدہ انتخابات مےں عیسائیوں نے حصہ نہ لیا۔ ان کا موقف تھا کہ لبنان سے شامی فوجیں چلی جائیں۔ جنوری 1993ءمےں عیسائی ملیشیاءدو حصوں مےں منقسم ہوگئی۔
3اپریل 1991ءکو بیروت مےں متعین فرانسیسی سفیر نے سابق صدر جنرل عون کو فرانس مےں سیاسی پناہ کی پیش کش کی جو انہوں نے مان لی۔ 27اگست 1991ءکو لبنان حکومت نے جنرل عون کو 5سال لبنان مےں نہ آنے اور سیاست مےں ساری زندگی حصہ نہ لینے کی شرط پر معاف کر دیا۔ لبنانی مسلمان جنرل عون کو قاتل اور جلاد کہتے ہےں۔ لبنان مےں یرغمالیوں کی رہائی اگست 1991ءکے پہلے عشرے مےں شروع ہوئی۔ ایران نے اس سلسلہ مےں اہم کردار ادا کیا۔ ایک صحافی جو 5سال سے یرغمال تھا، رہا کر دیا گیا۔ انہی دنوں مےں امریکی یرغمالی بھی رہا ہوئے۔ اسی سال مےں لبنان نے شام کی پشت پناہی سے تمام پرائیویٹ گوریلا تنظیموں کا خاتمہ کیا اور یوں سولہ سالہ خانہ جنگی ختم ہوئی۔ 
جون 1999ءمےں اسرائیل کی فضائیہ نے جنوبی لبنان پر شدید بمباری کی تاکہ شامی فوج اور حزب اللہ کے گوریلا ٹھکانوں کو ختم کیا جاسکے۔ مئی 2000ءمےں اٹھارہ سال بعد اسرائیل نے لبنان سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ 2001ءمےں شام نے بھی بیروت اور اردگرد کے علاقے سے اپنے پچیس ہزار فوجی واپس بلا لئے تاہم اندرون لبنان مےں پندرہ ہزار شامی فوجی موجود رہے۔
 2004ءمےں لبنان کے شام نواز صدر ایملی لاہود کو مزید تین برس کے لئے صدر منتخب کر لیا گیا۔ فروری 2005ءمےں سابق وزیراعظم رفیق الحریری بم دھماکے مےں ہلاک ہوگئے اور شام پر بین الاقوامی دباﺅ ڈالا جانے لگا کہ وہ لبنان سے اپنی فوج واپس بلا لے۔
2005ءکے انتخابات کے نتیجے مےں حزب اللہ بھی لبنانی حکومت کا حصہ بن گئی تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے عسکریت پسند حصے کو ختم کرنے کی قرارداد منظور ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کی حیثیت کا تعین نہیں ہو سکا۔
12جولائی 2006ءکے روز اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ حزب اللہ کے نیم فوجی دستوں نے اسرائیل کی باقاعدہ فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 33دن تک انہیں پیش قدمی کرنے سے روکے رکھا۔ بالآخر اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور 14اگست 2006ءکے روز فائر بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ اس جنگ نے اسرائیلی فوج کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو پاش پاش کر دیا۔ 
٭٭٭٭٭

Guinea-Bissau History


گنی بساﺅ
Guinea-Bissau
آزادی، 10ستمبر 1974ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ گنی بساﺅ۔ سرکاری زبان، پرتگالی۔ طرز حکومت، نیم صدارتی جمہوریہ۔ کرنسی، ویسٹ افریقن سی ایف اے فرانک۔ فی کس آمدن، 485ڈالر۔ کل رقبہ 36544مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت بساﺅ۔ اہم شہر، منسوآ، ساﺅڈومنگوز، بوبا۔ آبادی، 1586000 (تخمینہ 2005ئ) 
محل وقوع
یہ ملک براعظم جنوبی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مغرب مےں بحراوقیانوس، شمال مےں سینی گال، اور مشرق مےں گنی واقع ہےں۔ ملک کی سطح میدانی ہے۔ آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔
لوگ
یہاں 34فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ 36فی صد چھوٹے چھوٹے گروہوں مےں بٹے ہوئے ہےں۔ مظاہر پرست مسلمانوں کے بعد دوسری بڑی آبادی ہےں جو 26فیصد ہےں۔ عیسائی لوگ 24فی صد ہےں۔ ایک مربع میل مےں 73افراد بستے ہےں۔ بلانتا، خولا، منڈبا قبائل کی اکثریت ہے۔ آبادی کا 80فی صد دیہاتوں مےں رہتا ہے۔ یہاں لوگ تعلیم کی طرف توجہ دے رہے ہےں۔ 4سال کے بچے کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 49سال ہے جبکہ عورتوں کی اوسط عمر 48سال ہے۔ سالانہ شرح اضافہ آبادی 2.4فی صد ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 1000مےں 145ہے۔
وسائل
یہاں کا سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ زراعت ہے۔ ملک کی نوے فی صد آبادی اسی پیشے سے وابستہ ہے۔ چاول، باجرہ، پام، مونگ پھلی، زیتون، گنا اس ملک کی اہم زرعی پیداوار ہےں۔ حکومت زراعت کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے تاکہ زراعت سے حاصل فوائد سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جاسکے۔ باکسائیٹ یہاں کی اہم معدنی پیداوار ہے۔ اس سے گنی بساﺅ کو کثیر مقدار مےں زرمبادلہ ملتا ہے۔ جنگلات اور ماہی گیری اس کی اہم صنعتیں ہےں۔
اہم درآمدات مےں ٹرانسپورٹ کے آلات، اشیائے خوردنی، اشیائے صرف، مشروبات اور مشینری شامل ہےں۔ جبکہ برآمدات مےں ناریل، مونگ پھلی، مچھلی اور لکڑی کے نام آتے ہےں۔
تاریخ
مسلمان یہاں تیرہویں صدی مےں اسلام کی روشنی لے کر آئے۔ ان کے بعد پرتگالی، ولندیزی، انگریز اور بعد مےں فرانسیسی آئے جو یہاں غلاموں کی خرید و فروخت کرتے رہے۔ 1879ءمےں فرانسیسی نوآبادی قرار دیا گیا۔ اس مےں کیپ وردی اور گولڈ کوسٹ کا علاقہ بھی شامل تھا۔ 1945ء مےں تحریک آزادی عروج پر تھی۔ بڑی جماعت گولڈ کوسٹ کیپ وردی پارٹی تھی جس نے آزادی کی تحریک مےں اہم کردار ادا کیا۔ 10نومبر 1974ءکو یہ ملک آزاد ہوگیا۔ 1980ءمےں یہاں جونارڈوویر کی قیادت مےں فوجی انقلاب آیا۔ 
1994ءمےں پرتگال سے آزادی کے 20سال بعد پہلی مرتبہ کثیر جماعتی انتخابات قانون ساز مجلس اور عہدہ صدارت کے لئے ہوئے۔ 1998ءمےں فوج نے بغاوت کر دی جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت مےں نکلا اور لاکھوں افراد کو گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش مےں بھاگنا پڑا۔ فوج نے 7مئی 1999ءکے روز صدر کو اقتدار سے اتار پھینکا۔ فروری 2000ءمےں ایک عبوری حکومت نے اقتدار اپوزیشن کے رہنما کمبالالا کے حوالے کر دیا جو شفاف صدارتی انتخابات کے دو مراحل سے گزر کر صدر بن گئے۔ جمہوریت کی طرف گنی بساﺅ کے سفر کو بگڑی ہوئی معیشت اور فوج کی اقتدار مےں بار بار مداخلت نے بہت مشکل بنا دیا۔ 
ستمبر 2003ءمےں ایک پرامن انقلاب آیا جس مےں فوج کے جنرل ویری سیموکوریا سیبارا نے لالا کو گرفتار کر لیا، یہ کہہ کر وہ مسائل حل کرنے مےں ناکام رہے ہےں۔ اپریل 2004ءمےں ہزار تاخیر کے بعد ایک بار پھر قانون ساز مجلس کے انتخابات ہوئے۔
اکتوبر 2004ءمےں فوج کے چند حصوں نے بغاوت کردی جس کا نتیجہ جنرل سیابرا اور ان کے ساتھیوں کی موت کی صورت مےں نکلا۔ وزیراعظم کالوس گومزجونیئر کے بیان کے مطابق باغی فوجی اقوام متحدہ کی فوج مےں شامل رہ کر لائبیریا سے واپس آنے والے فوجی تھے جو تنخواہوں مےں تاخیر ہو جانے پرناراض تھے۔ ان فوجیوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
جون 2005ءمےں صدارتی انتخابات ہوئے جن مےں سابیہ صدر جوآﺅبرنارڈووایئرا کو فتح حاصل ہوئی۔ 2مارچ 2009ءکو فوجیوں نے وائیرا کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 5جون کے روز کئی دیگر بڑے سیاستدانوں کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب قتل اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے کھیلی جا رہی گیم کا ایک حصہ ہےں۔ 

Gambia History


گیمبیا
Gambia
آزادی، 18فروری 1965ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ گیمبیا۔ سرکاری زبان، انگریزی۔ طرز حکومت، جمہوریہ۔ کرنسی، دلاسی۔ فی کس آمدن، 1389ڈالر۔ کل رقبہ، 10380مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، بنجول۔ اہم شہر، سیرے کندا، بکاﺅ، سکوتا، گنجر۔ آبادی، 1700000 (تخمینہ 2007ئ)۔
محل وقوع
گیمبیا براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق اور جنوب مےں سینی گال اور مغرب مےں بحر اوقیانوس واقع ہےں۔ ملک کی سطح ہموار اور میدانی ہے۔ آب و ہوا گرم اور خشک ہے تاہم ساحلوں پر آب و ہوا خوشگوار ہے۔ زیادہ تر بارشیں ساحلی علاقوں پر ہوتی ہےں۔
لوگ
90فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہےں جو مظاہر پرست یا عیسائی ہےں۔ 211افراد فی مربع میل مےں بستے ہےں۔ نسلی اعتبار سے 42فیصد لوگ منڈنکا، 16فیصد فولا اور 16فیصد وطوف قبائل سے تعلق رکھتے ہےں۔ زیادہ آبادی حبشی مسلمانوں کی ہے۔ لوگ بہت کم تعلیم یافتہ ہےں۔ شرح خواندگی 15فی صد ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 47سال اور عورتوں کی 51سال ہے۔
وسائل
زراعت ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ 75فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ 16فی صد رقبے پر زراعت ہوتی ہے۔ مونگ پھلی، پام، چاول اور روغنی بیج اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ مونگ پھلی اہم تجارتی جنس ہے۔ دریائے گیمبیا ملک کے وسیع حصہ کو سیراب کرتا ہے۔ صنعتوں کے لحاظ سے کوئی صنعت ایسی نہیں جو قابل ذکر ہو۔ بخول اہم بندرگاہ ہے۔
اہم درآمدات مےں اشیائے خوردنی، مشینری، ٹیکسٹائلز، پٹرولیم پروڈکٹس کیمیکلز اور تمباکو شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں کھجور کا بیج، مچھلی کا تیل، مونگ پھلی اور اس کی پروڈکٹس کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
گیمبیا مےں انسانی آبادکاری کے عمل نے گھانا، مالی اور سونگھے کی اسلامی مملکتوں کے زمانے مےں زور پکڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تیرھویں صدی مےں اسلام یہاں پہنچا۔ پندرھویں صدی مےں پرتگالی یہاں آئے۔ سولہویں صدی مےں پرتگالیوں نے یہاں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر لیں۔ 1588ءمےں انہوں نے تجارتی حقوق انگریزوں کے ہاتھ فروخت کر دیئے۔ 1651ءمےں انگریزوں نے یہاں جیمس فورٹ کا قلعہ تعمیر کیا اور حکمران بن بیٹھے۔
عرصہ دراز تک گیمبیا برطانیہ اور فرانس کے مابین وجہ مخاصمت بنا رہا۔ نپولین کی جنگوں کے سینی گال فرانس کے قبضے مےں چلا گیا اور برطانیہ کے تاجروں نے گیمبیا پر تسلط جما لیا۔ 1783ءمےں معاہدہ ¿ ورسائی کی رو سے یہاں برطانیہ کے تجارتی حقوق اصولی طور پر تسلیم کر لئے گئے۔ 1807ءمےں یہاں سے غلاموں کی تجارت کا خاتمہ ہوا اور 1843ءمےں اسے نو آبادی کا درجہ دے دیا گیا۔ 1866ءمےں اسے مغربی افریقہ کا حصہ بنانے کے بعد دسمبر 1888ءمےں اسے علیحدہ نو آبادی کی حیثیت دے دی گئی اور اس کی جدید تاریخ کا آغاز ہوا۔
1901ءکا سورج طلوع ہونے تک یہاں کے مقامی سردار برطانیہ سے ایسے کئی معاہدے کر چکے تھے کہ برطانیہ نے اسے اپنا محروسہ (زیر حفاظت) ملک قرار دے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد 1945ءمےں یہاں تحریک آزادی کا آغاز ہوا جو 1965ءمےں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ حصول آزادی کے بعد گیمبیا برطانوی دولت مشترکہ کا رکن بن گیا۔ ملک کو جمہوریہ قرار دینے کے سلسلے مےں ریفرنڈم ہوا لیکن دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ 1966ءمےں عام انتخابات ہوئے۔ وزیراعظم سرداﺅد جوارا کی پیپلز پروگریسو پارٹی کو واضح اکثریت ملی۔
اپریل 1970ءمےں دولت مشترکہ کے اندر رہتے ہوئے یہ جمہوریہ بنا اور اسی روز نیا آئین نافذ کیا گیا۔ داﺅد جوارا نئے آئین کے تحت صدر بنے اور مارچ 1974ءمےں عام انتخابات کے نتیجہ مےں دوبارہ 5سال کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ 1982ءمےں گیمبیا اور سینی گال کی کنفیڈریشن بنی اور جوارا کو ایک بار پھر صدر منتخب کیا گیا۔ 1984ءمےں صدر جوارا کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی امہ کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔
جولائی 1994ءمےں کیپٹن یحییٰ جمعہ نے داﺅد جوارا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور آئین معطل کر کے نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ 1996ءمےں ہونے والے انتخابات مےں کیپٹن یحییٰ جمعہ نے 55فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ 1997ءمےں سول حکومت کو بحال کر دیا گیا تاہم سیاسی جماعتوں پر پابندی رہی اور اخبارات بھی سنسر شپ کے شکار رہے۔
اکتوبر 2001ءکے انتخابات مےں یحییٰ جمعہ ایک بار پھر کامیاب رہے اور اسی سال انہوں نے سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ہٹا دیں۔ تاحال ملک کی صدارت انہی کے قبضہ قدرت مےں ہے۔
٭٭٭٭٭

Tuesday, 28 August 2012

Guinea History


گنی
Guinea
محل وقوع
گنی براعظم جنوبی افریقہ کا ملک ہے۔ اس کے شمال مےں گنی بساﺅ، سینی گال اور مالی، مشرق مےں کوت دیوور اور جنوب مےں لائبیریا واقع ہےں۔ اس کے مغرب مےں بحر اوقیانوس ہے۔ اس کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ ساحل پر گرمی اور رطوبت ہوتی ہے جبکہ اندرونی علاقوں مےں آب و ہوا معتدل ہے۔
لوگ
یہاں کے 85فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ 10فی صد عیسائی اور 5فی صد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہےں۔ یہاں کے 26فی صد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں جو فولانی، میلنک اور سوسیس نسلوں سے تعلق رکھتے ہےں۔ 8سال کے بچے کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ 36فی صد بچے پرائمری اور 15فی صد ہائی سکول مےں پڑھتے ہےں۔ یہاں کی عورتوں کی اوسط عمر 45سال اور مردوں کی 41سال ہے۔ سالانہ شرح اضافہ 2.5فی صدہے۔ 9732افراد کے لئے ہسپتال مےں ایک ڈاکٹر ہے۔ اطفال مےں شرح اموات 144فی ہزار ہے۔
وسائل
گنی زرعی ملک ہے۔ چاول، پام ناریل، مالٹا، کافی اور شہد اہم زرعی اجناس ہےں۔ یہاں جانوروں کی کثرت ہے اور لوگ 82فیصد کسی نہ کسی طرح اس پیشے سے وابستہ ہےں۔ کل رقبہ کا 18فی صد حصہ زیر کاشت ہے۔ ماہی گیری بھی ہوتی ہے۔ وسیع حصہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ ملک مےں معدنیات کے ذخیرے موجود ہےں۔ باکسائیٹ، خام لوہا، ایلومنیم اور سونے کے ذخائر ہےں۔ ایلومنیم برآمدات کا 60فی صد فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا 33فی صد باکسائیٹ یہ ملک پیدا کرتا ہے اور صنعتی لحاظ سے یہی چیز قابل ذکر ہے۔ باکسائیٹ کی صفائی قابل ذکر صنعت ہے۔ کناکری اہم بندرگاہ ہے۔ ملک کی ایئرسروس کا نام ”ایئر گنی“ ہے اور دارالحکومت مےں موجود ہوائی اڈہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔
اہم درآمدات مےں عمارتی سامان، مشروبات، صنعتی و مشینری آلات، پٹرولیم پروڈکٹس اور ادویات شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں پھل، روغنی بیج، باکسائیٹ اور المونیم شامل ہےں۔
تاریخ
تیرہوں صدی مےں یہاں پرتگالی آئے، سولہویں صدی مےں فولانی قبائل یہاں حکمران رہے جو 1849ءتک حکمرانی کرتے رہے۔پھر یہ علاقہ فرانس کے زیر قبضہ آگیا اور 1958ءتک فرانس اس علاقے پر قابض رہا۔ 12اکتوبر 1958ءمےں گنی کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے بعد عظیم رہنما سیکوطورے کی ولولہ انگیز قیادت مےں آزادی حاصل کی جو 1961ءسے 1983ءتک صدر رہے۔ 27مارچ 1984ءکو یہ عظیم رہنما انتقال کر گیا۔ ان کی جگہ کرنل لاسانا کونتے نے لی اور ملک مےں مارشل لاءلگا دیا۔ 
1992ءکونتے نے سویلین حکومت کی طرف پلٹنے کی خواہش کے تحت اقدامات کا آغاز کیا۔ 1993ءمےں صدر کے انتخاب کے لئے رائے شماری کرائی گئی اور 1995ءمےںپارلیمان کے انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات مےں کونتے کی پارٹی نے 114مےں سے 71نشستیں حاصل کیں۔ اقتدار پر کونتے کی گرفت مضبوط رہی۔
2001ءمےں کونتے نے اپنی مدت صدارت کو طول دینے کے لئے ایک ریفرنڈم کرایا اور کامیابی حاصل کی۔ 2003ءمےں ہونے والے انتخابات کے اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ کے بعد، کونتے نے نئی مدت صدارت کا آغاز کیا۔ جنوری 2005ءمےںکونتے پر قاتلانہ حملہ ہوا مگر ان کی جان محفوظ رہی۔ 
لاساناکونتے کا انتقال 23دسمبر 2008ءکے روز ہوا جس کے فوراً بعد فوج نے حرکت مےں آکر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 

Cameroon History


کیمرون
Cameroon
محل وقوع
کیمرون براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مےں جھیل چاڈ، مشرق مےں چاڈ اور جمہوریہ وسطی افریقہ، جنوب مےں کانگو، گیبون اور استوائی گنی، مغرب مےں خلیج گنی اور مغرب اورشمال مےں نائیجریا واقع ہےں۔ ملک کی سطح مرتفاعی ہے۔ جنوب مےں بہت ساحلی میدان ہے جن مےں جنگلات کی کثرت ہے۔ بلند ترین چوٹی ماﺅنٹ کیمرون ہے جو سطح سمندر سے 13350فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ساحلی علاقوں کی آب و ہوا گرم اور اندرونی علاقوں کی سرد اور خشک ہے۔ ساحلی علاقوں مےں بارش بھی ہوتی ہے۔
لوگ
یہاں کے لوگوں کا تعلق دو سو سے زیادہ مختلف قبائل ہے جن مےں 30فیصد بملیکی اور 7فی صد فولانی ہےں۔ فی مربع میل مےں 63افراد بستے ہےں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی اگرچہ 20فیصد ہے مگر چونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی لامذہبیت پر عمل پیرا ہے، اس لئے سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو اولیت حاصل ہے۔ 65فی صد لوگ خواندہ ہےں۔ مرد کی اوسط عمر 49سال اور عورت کی 53سال ہے۔
وسائل
74فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں مگر بدقسمتی سے صرف 14فی صد رقبہ قابل کاشت ہے۔ یہاں کا کوکو اور کیلے عالمی شہرت رکھتے ہےں۔ ان کے علاوہ کافی، چاول، کپاس، ربڑ، مونگ پھلی، چائے، چمڑا، تیل نکالنے والے بیج اور پام آئل اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ لوگ ماہی گیری اور شجرکاری سے بھی وابستہ ہےں۔ یہاں کی سب سے بڑی معدنی دولت ایلومنیم ہے۔ باکسائیٹ، سونے اور خام تیل کے ذخائر کے علاوہ قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہےں۔
صنعتی لحاظ سے ابھی یہ ملک راستے مےں ہے۔ غذاﺅں کو ڈبہ بند کرنا، لکڑی کی مصنوعات، المونیم، پٹرول، پٹ سن کے تھیلے، صابن اور مشروبات کی صنعتیں ترقی کر رہی ہےں۔ 11فی صد لوگ صنعت سے وابستہ ہےں۔ ڈوآلا مشہور بندرگاہ ہے۔ ہوائی اڈہ اور ایئر لائن بھی ہے۔
اہم درآمدات مےں کتابیں اور ٹرانسپورٹ کے آلات، ادویات، لوہا، جوتے، اسٹیل، ٹائر، سیمنٹ، کاغذ، گارمنٹس، کٹنگ ٹولز اور مشینری شامل ہےں۔ اہم برآمدات مےں ایلومنیم خام پٹرولیم، کوکا، سوتی دھاگہ، کھجور کا تیل، کیلا، لکڑی اور ربڑ کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
جب شمالی افریقہ کے ملکوں نے اسلام قبول کیا اور بربر قبائل کٹر مسلمان ہوگئے تو یہ پیغام توحید بلادالسودان (سیاہ ممالک) یعنی صحرائے اعظم کے جنوب مےں بھی کاررواں اور درکاررواں لے جانے لگے، اور یوں اسلام کی روشنی صحرائے اعظم کے جنوب مےں حبشی قبائل مےں بھی پھیلنے لگی۔ جب شمال مےں مرابطین نے زور پکڑا تو انہوں نے صرف سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا بلکہ جنوب مےں اشاعت اسلام کے لئے مبلغین بھی بھیجے۔
مرابطین کے بعد بربریوں کے خاندان موحدین کا دور شروع ہوا۔ موحدین شمالی افریقہ اور ہسپانیہ مےں مور تہذیب کے علمبردار تھے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مذہبی تحریک تھی۔ موحدین کے عہد حکومت مےں اسلام جنوب افریقہ مےں تیزی سے پھیلا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحرائے اعظم کے جنوب مےں چھوٹی چھوٹی اسلامی مملکتیں وجود مےں آنے لگیں جن مےں کیمرون مےں شامل ہے۔
کیمرون کا شمالی علاقہ صدیوں سے مسلمانوں کی آماجگاہ چلا آرہا ہے۔ جنوب مےں کافر، دہریئے اور لامذہیب قبائل رہتے تھے جن کے لئے یہاں یورپ نے عیسائی مبلغ بھیجے۔ نیز تجارتی اور کاروباری تعلقات بڑھائے اور یوں جنوب مےں عیسائیت نے زور پکڑا۔ شمال کے مسلمانوں اور جنوب کے عیسائیوں کے مابین مستقل عداوت رہتی ہے۔
15ویں صدی مےں پرتگالی آئے۔ 1884ءمےں جرمنی نے اس پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ ملک جرمنوںکے ہاتھ سے نکل کر فرانس کے قبضہ مےں چلا گیا۔ اتحاد نامی سیاسی تحریک کے زیر سایہ اس ملک مےں آزادی کی تحریک چلی جس کے نتیجے مےں یکم جنوری 1960ءمےں ریفرنڈم کے بعد یہ ملک برطانیہ سے بھی آزاد ہوگیا۔ 1982ءمےں پال بیا ملک کے صدر بنے اور اب تک اس عہدے پر وہی فائز ہےں۔ 

Monday, 27 August 2012

مسجد نبوی کی تعمیر کے 19 مرحلے Masjid Nabwi Stretcher in 19 Steps


مسجد نبوی کی تعمیر کے 19 مرحلے
پہلی مرتبہ: ”یہ مسجد مبارک حضور سید عالم نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی اور خود بنفس نفیس اس میں کام فرماتے رہے، یہ رقبہ سو گز مربع کے لگ بھگ تھا۔
دوسری مرتبہ: فتح خیبر کے 7 ہجری میں حضور سید عالم نے از سرِ نو تعمیر کرائی، مسجد کے اضافہ کے پیش نظر، مسجد کے متصل ایک انصاری کی زمین تھی، آپ نے انصاری سے فرمایا ”یہ زمین جنت کے ایک محل کے عوض ہمیں دے دو“ وہ کثیر العیالی کے سبب یہ رقبہ نہ دے سکے، سیدنا عثمان غنیؓ نے دس ہزار درہم انصاری کو پیش کر دیئے اور پھر دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی ”یارسول اللہ جو قطعہ زمین آپ انصاری ے جنت میں محل کے عوض خریدنا چاہتے تھے، وہ قطعہ مجھ سے خرید فرمائیں، چنانچہ وہ قطعہ معاوضہ جنت سیدنا عثمان غنیؓ سے خرید کر مسجد میں شامل فرمایا۔
تیسری مرتبہ: سیدنا فاروق اعظمؓ نے اضافہ فرمایا، یہ تعمیر 17 ہجری میں ہوئی۔
صدیق اکبرؓ کے دور میں اضافہ یا ترمیم کا کوئی پہلو نہیں ملتا، سیدنا فاروق اعظمؓ نے مسجد کو جنوب شمال مغرب کی جانب وسعت دی، ستونوں کو بدلا، کھجور کے تنے کی جگہ لکڑی کے ستون کھڑے کئے، مشرقی جانب اضافہ نہ کیا کہ امہات المومنین کے حجروں کا تحفظ مطلوب تھا، نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر حضور علیہ السلام نے مجھے مسجد وسیع کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو میں یہ ھکام کرنے کی ہر گز جرا ¿ت نہ کرتا، اس تعمیر میں سیدنا عباسؓ کا مکان بھی شامل کیا گیا۔
سیدنا فاروق اعظمؓ نے انہیں فرمایا کہ یا تو آپ مکان فروخت کر دیں یا مدینے میں اپنی پسند کی جگہ لے لیں یا پھر وقف کر دیں، سیدنا عباسؓ نے انکار کر دیا، معاملہ بڑھا تو سیدنا ابی بن کعبؓ نے ثالثی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے حضرت عباسؓ کے حق میں فیصلہ دیا، فاروق اعظمؓ خاموش ہو گئے، اس پر حضرت عباسؓ نے بخوشی مسجد کو جگہ دے دی۔
سیدنا عمر فاروق ؓ اور سیدنا عباسؓ کے درمیان اسی مکان کے پارنالہ پر بھی اختلاف رائے ہوا، چھت کا پانی مسجد میں گرتا تھا، جس سے نمازوں میں دقت پیدا ہوتی، نمازی پریشان ہوتے، سیدنا فا روق اعظمؓ نے یہ پرنالہ اکھڑوا دیا، سیدنا عباسؓ نے دربار فاروقی میں عرض کی ”اے خلیفة المسلمین! آپ نے اس پرنالے کو اکھڑوا دیا ہے جسے حضور سید عالم نے اپنے ہاتھ سے نصب کیا تھا“۔ بس یہ سننا تھا کہ خلیفة المسلمین پر رقت طاری ہو گئی، لرزہ براندام ہو گئے اور فرمایا: اے عم رسول آپ میری پیٹھ پر کھڑے ہو کر اس پرنالہ کو اسی جگہ لگا دیں کہ میری غلطی کی تلافی ہو سکے۔
چوتھی مرتبہ: جب سیدنا عثمان بن عفانؓ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، لوگوں نے مسجد ش ریف کی تنگی کی شکایت کی، آپ نے جلیل القدر صحابہ سے مسجد کے شہید کرنے اور از سرِ نو بنانے کا مشورہ لیا، سب نے متفقہ طور پر تجدید کا مشورہ دیا۔ 29ہجری میں پتھر، چونا اور لوہے سے مضبوکط فرمایا۔ آپ نے بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کی طرح مسجد کا اضافہ جنوب اور شمال مغرب میں فرمایا۔ مشرقی جانب حجرات کے تحفظ کے پیش نظر اقدام نہ فرمایا۔ اس اضافہ کی چواڑائی 225 فٹ اور لمبائی 240 فٹ تھی، یہ کام دس ماہ میں مکمل ہوا۔
پانچویں مرتبہ: ولید بن عبدالملک نے 88ہجری میں کام شروع کیا اور 91ہجری میں ختم کیا اور امہات المومنین کے حجرات مقدسہ کو مبارک میں داخل کیا، ولید بن عبدالملک نے عمر بن عبدالعزیز کو حکم دیا تھا کہ مسجد کے قرب و جواز کے مکانات خرید کر مسجد کی توسیع کی جائے، حجرات مقدہ کو منہدم کیا جانے لگا تو اہل مدینہ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، لوگوں کی چیخ و پکار سے کہرام بپا تھا، لوگوں کی خواہش تھی ”کاش! یہ حجرات مقدسہ اپنی حالت پر چھوڑے جاتے“۔
ولید بن عبدالملک نے روم کے بادشاہ کو لکھا کہ وہ مسجد نبوی شریف کی جدید تعمیر میں حصہ لے۔ چنانچہ اس نے چالیس استاد فن، چالیس قبطی، اسی ہزار دینار چاندی کی زنجیریں اور بہترین قسم کے معمار، مزدور، نقدی اور سونا سے تعاون کیا۔ (خلاصة الوفا: ص195) مسجد شریف میں عمدہ کام کرنے والے کو عمر بن عبدالعزیز مزدودری کے علاوہ مزید انعام دیتے۔ مسجد شریف کی تکمیل پر ولید بن عبدالملک نے تعمیر کا جائزہ لیا تو بہت خوش ہوا۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں تعمیر کا کام 88ہجری میں شروع ہوا اور 91ہجری میں مکمل ہوا۔ کفایت کے باجود پچاسی ہزار خرچ ہوا، اسی دور تعمیر میں عمر بن عبدالعزیز نے مسجد شریف کے چار مینار بنوائے جن کی اونچائی اٹھاسی، اٹھاسی فٹ تھی، جب سلیمان بن عبدالملک حج کیلئے آیا تو مروان کے مکان میں ٹھہرا، موذن مینار پر چڑھا تو اس نے موذن کو دیکھا، گھر والوں کی بے پردگی کے پیش نظر اس مینار کو گرا دیا۔ (خلاصة الوفا: ص 91، راحت القلوب: ص 124) یہ تعمیر منقش پتھروں سے کی گئی۔ عمدہ مینا ھکاری کی گئی، ساگوان کی لکڑی، مرمر کے ستون بنائے گئے، چاندی کی زنجیریں آویزاں کی گئیں، گرمی سے بچنے کیلئے دروازوں پر پردے لٹکائے گئے۔
چھٹی مرتبہ: خلفائے عباسی میں عباس مہدی نے 161 ہجری میں تعمیر کام شروع کیا جو 165 ہجری میں مکمل ہوا۔
ساتویں مرتبہ: خلیفہ عباس المستعصم نے تعمیر کام کیا اور حضور کے تبرکات، اونی چادر، تہبند، جبہ طیالیہ، غلاف کعبہ کا ٹکڑا، مصلیٰ، جھنڈا اور ہتھیاروں کے دستے، مصحف عثمانی کی حفاظت کیلئے قبہ بنوایا۔ (تاریخ المدینہ: ص 225)پھر 654 ہجری مسجد شریف کے اندر آگ لگنے کا جو حادثہ پیش آیا، تو یہ بے بہا خزانہ ضائع ہو گیا، تبرکات نہ بچ سکے۔
آٹھویں مرتبہ: ملک ناصر محمد بن قلادون نے 705 ہجری، 706 ئجری میں تعمیر کی اور پھر 729 ہجری میں برآمدوں کا اضافہ کیا۔
نویں مرتبہ: 831 ہجری میں ملک اشرف قائت بائی نے مسجد شریف کی تعمیر کا کام کیا۔
دسویں مرتبہ: خلیفہ ظاہر نے چھتوں کی مرمت میں حصہ لیا، یہ کام 853 ہجری میں مکمل ہوا۔
گیارہویں مرتبہ: ملک اشرف قائت بائی نے 879ہجری میں تعمیر کام کیا، آگ لگنے کے واقعہ کے بعد محراب عثمانی کو وسیع کیا، باب جبرئیل کی جانب دیوار تعمیر کرائی، اذان کیلئے جگہ بنوائی، منقر الجمالی مدینہ منورہ ھآیا، ایک سو انجینئر اسس کے ساتھ تھے، اس تعمیر پر ایک لاکھ بیس ہزار دینار خرچ ہوئے، حجرہ مبارک کی دیواروں پر گنبد بھی بنوایا، مزید دوگنبد باب السلام کے سامنے اندر کی جگہ بنوائے، باب الرحمت کا مینار تعمیر کیا۔
بارہویں مرتبہ: سلطان سلمان نے 974 ہجری میں دیواریں منقش کرائیں، تزئین مسجد میں حصہ لیا۔
تیرہویں مرتبہ: سلطان سلیم ثانی نے 980 ہجری میں کام شروع کیا، حجرہ انور کا گنبد بنوایا، آب زر سے گل کاری کرائی گئی۔
چودہویں مرتبہ: سلطان محمود نے از سرِ نو قبر انور پر قبہ شریف بنوایا، سبز رنگ کرایا، اسی وقت سے قبہ خضراءکہلایا۔
پندرہویں مرتبہ: سلطان عبدالمجید نے 1265 ہجری میں کام شروع کیا اور 1277 ہجری میں ختم کیا، باب مجیدی، انہیں کے نام سے مشہور ہے، مجھے قطب الوقت مولانا ضیاءالدین نے فرمایا کہ: تعمیر مسجد کے وقت ادب کو خاص ملحوظ رکھا گیا، ستون دور تیار کیے جاتے کہ قریب آواز پیدا نہ ہو۔ ان کا اضافہ قابل قدر رہا۔ سورہ ¿ احزاب، سورہ ¿ فتح، سورہ ¿ حجرات کی تحریر اپنی مثال آپ ہے۔ ہر ستون کے نچلے حصے پر سونے کے کڑے چڑھائے۔ قریباً 296 ستونوں پر عمارت مشتمل ہے۔
سولہویں مرتبہ: فخری پاشا نے تعمیر میں حصہ لیا، محراب نبوی اور محراب سلمانی پر کام کیا، مسجد کے صحن والا کنواں بند کیا، لوگ اس کنویں کے پانی کو آب کوثر کے نام ے یاد کرتے تھے۔
سترہویں مرتبہ:ملک عبدالعزیز (سعودی حکومت نے) کڑے چڑھائے۔
اٹھارہویں مرتبہ: 1352 ہجری میں مصر کی حکومت نے ترمیم و تجدید کا کچھ کام اپنے ذمہ لیا، مصر میں اس کام کیلئے فنڈ قائم کیا۔
انیسودیں مرتبہ: سعودی حکومت نے 1368 ہجری میں توسیع مسجد کا اعلان کیا، 5شوال 1370 ہجری کی دیواریں منہدم کی گئیں، 1373ءمیں جدید سنگ بنیاد رکھا گیا۔
1983ءسے مسجد کی حالیہ توسیع، باب مجیدی کے سامنے اور دائیں بائیں عمل میں آ رہی ہے۔ اس منصوبے پر اب تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اس سے نمازیوں کے لیے دوگنی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔ اس میں چھ نئی میناروں کا، جن کی اونچائی 90میٹر ہے، اضافہ کیا گیا ہے، تعمیر پر 5بلین سعودی ریال خرچ آئے گا، مسجد میں استعمال ہونے والے رقبہ کیلئے سات سو ملین سعودی ریال ادا کیے گئے ہیں، اس تعمیر کے بعد مسجد نبوی کے رقبے میں 82000 مربع میٹر اضافہ ہو جائے گا۔
oooooo

پاکستان کا ایٹمی پروگرام Pakistan Atomic Program


پاکستان کا ایٹمی پروگرام
جب افغان جنگ کے ابتدائی تین سال میں مجاہدین نے قابض روسی افواج کو پے در پے ضربات پہنچا کر ادھ مووا کر دیا تو 1982ءمیں پہلی مرتبہ امریکیوں کی باسی کڑھی میں اُبال آیا اور انہوں نے دیکھا کہ مجاہدین نے پاکستان، چین اور سعودی عرب کی مدد سے روسیوں کو دبوچ لیا ہے تو وہ بھی کامیابی کے ثمرات سمیٹنے اور ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے مجاہدین اور پاکستان کی مدد کو پہنچ گئے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ بدنام زمانہ پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کو فوجی و اقتصادی پابندیوں کی زنجیر میں جکڑ چکے تھے۔ افغان جنگ میں شمولیت کے حوالہ سے امریکہ کے عزائم محض روس کو engage رکھنے تک محدود تھے۔ مجاہدین یا پاکستان کی کامیابی اسے مطلوب نہ تھی، جیسا کہ مارٹن ایونز لکھتے ہیں:۔
"Against this background, this was now a shift in United States Policy. Hitherto, the Americans had provided arms to the Mujahideen judiciously and descretely, President Regan's aims seem to have been to keep the Russian wounds bleeding, rather than to Mujahidin victory".
امریکی صدر جمی کارٹر نے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق سے رابطہ کرکے چار سو ملین ڈالر امداد کی پیشکش کی۔ ضیاءالحق نے اس رقم کو ”مونگ پھلی“ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ امریکی صدر جمی کارٹر کے ”مونگ پھلی“ کے فارم تھے، لہٰذا صدر جنرل ضیاءالحق نے طنزاً ان کی اس پیشکش کو ”مونگ پھلی“ قرار دیا تھا۔ دریں اثناءصدر کارٹر کی جگہ صدر ریگن امریکن منصب صدارت پر فائز ہو چکے تھے اور پاکستان امریکی امداد کے بغیر کامیابی کی راہوں پر گامزن تھا، بالآخر امریکہ نے مجبور ہو کر پاکستان کی شرائط کے مطابق امداد کی پیشکش کی۔ صدر ضیاءالحق نے امریکیوں کے سامنے ا پنے کارڈ بڑی مہارت سے کھیلے اور ا مریکہ کی طرف سے نہ صرف پاکستان پر عائد کردہ پابندیاں اٹھوائیں بلکہ چار سو ملین کی بجائے 3.2 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج حاصل کرنے کے علاوہ ایف 16 طیاروں اور افغان مجاہدین کیلئے سٹنگر میزائلز کا بھی مطالبہ کیا۔ ایف 16 طیاروں کی پہلی کھیپ تو 1983ءمیں ہی دے دی گئی لیکن سٹنگر میزائل کی فراہمی کیلئے کانگریس کی منظوری ضروری تھی، اس سلسلہ میں امریکی ریاستی اداروں کے مابین تین سال تک بحث مباحثہ کے بعد بالآخر 1986ءمیں امریکی کانگریس نے سٹنگر میزائل کی فراہمی کی منظوری دے دی۔
پاکستان نے اس سلسلہ میں امریکہ سے مندرجہ ذیل شرائط منوائیں:۔
-i امریکہ مجاہدین افغانستان کے ساتھ کسی قسم کا براہ راست رابطہ نہیں کر سکے گا، اور مجاہدین کو جو بھی امداد دی جائے گی، پاکستانی اداروں کے ذریعے دی جائے گی۔
-ii امریکہ پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
-iii سٹنگرمیزائل کے استعمال کا طریقہ پہلے پاکستانی ٹرینر خود امریکہ سے سیکھیں گے اور پھر افغان مجا ہدین کو سکھائیں گے۔
-iv افغان مجاہدین اودر ان کی تنظیموں کی مدد کا طریق کار اور ان سے تعلق کی نوعیت پاکستان خود طے کرے گا اور امریکہ کو اس امر سے کوئی سروکار نہ ہو گا کہ کس مجاہد گروپ کو کس قدر اور کس قسم کی مدد فراہم کی جا رہی ہے، جارج کرائیل (George Crile) نے اپنی کتاب Charlie Wilkson's War میں انکشاف کیا ہے کہ:۔
”یہ بھی ایک ناپسندیدہ راز ہے کہ جنگ افغانستان کے حوالے صدر ضیاءالحق نے شروع میں ہی ریگن سے ایک سہولت حاصل کر لی تھی کہ پاکستان کی طرف سے سی آئی اے سے تعاون کے عوض امریکہ نہ صرف بھاری امداد دے گا بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی صرف نظر کرے گا“۔
(ترجمہ طارق اسمٰعیل ساگر۔ بحوالہ ”افغان ستان پر کیا بیتی“ صفحہ 89)
1985ءمیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک انتہائی نازک مرحلہ آیا، جب امریکہ میں ایک پاکستانی ”ہائی سپیڈ ٹریگر“ نامی ایک ڈیوائس خریدتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ ڈیوائس ایٹمی اسلحہ چلانے کیلئے سوئچ کا کام دیتا ہے۔ اب کیا تھا، ساﺅتھ ایشیاءسب کمیٹی کے چیئر مین اور نیو یارک سے یہودی کانگریس مین، سٹیفن سولارز نے فوری طور پر سماعت کا حکم دے دیا، امریکی سی آئی اے کے اسلام آباد میں مقیم ہر سٹیشن چیف کی پہلی ترجیح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ایکسپوز کرنا ہوتی تھی۔ انہیں تو گویا ایک ثبوت ہاتھ آ گیا تھا، قریب تھا کہ امریکہ اس جرم میں پاکستان پر از سر نو پا بندیاں لگا دیتا لیکن صدر ضیاءالحق نے چارلی ولسن کو استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈلوا دیا۔ ہوا یوں کہ چارلی ولسن بھارت کے ایٹمی پروگرام کے ٹھوس شواہد لیکر سٹیفن سولارز کے پاس چلا گیا اور یہ شواہد اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات کی گئی تو پاکستان سے زیادہ بھارت بے نقاب ہو گا ، کیونکہ اس کے خلاف پاکستان سے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ اس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اٹھنے والا طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، جارج کرائیل لکھتا ہے:۔
”یہ بحران ٹل گیا لیکن پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا، ضیاءالحق اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے روز ویلٹ سے کم پُرعزم نہیں تھے، جب روز ویلٹ نے مین ہٹن پروگرام کی منظوری دی تھی، کرائین ٹریگر (ہائی سپیڈ ڈیوائس) صرف امریکہ سے مل سکتے تھے۔ ضیاءالحق نے ان کے حصول کی کوشش جاری رکھی۔ ضیاءالحق کہیں سے بھی یہ پروگرام کامیاب بنانا چاہتے تھے، چاہے ان کے ایجنٹ اس کام کے دوران پکڑے ہی کیوں نہ جائیں“۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے اس سے بھی زیادہ سخت وقت آیا، جب فلاڈلفیا سے ارشد پرویز نامی ایک پاکستانی 25ٹن ایک خصوصی قسم کا سٹیل ”الائے“ خریدتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ سٹیل ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے، امریکیوں کو یقین تھا کہ ارشد پرویز ضیاءالحق کا آدمی ہے۔ اب پاکستان کے خلاق اقدام کیلئے سٹیفن سولارز کی ترمیم تیار تھی اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس موقع پر جارج کرائل کے بقول چارلی ولسن نے ضیاءالحق کو ایک امریکی وفد سے ملنے پر راضی کیا اور دوسری طرف واپس امریکہ جا کر اس نے اہم کانگریس مین اور ممبران سینٹ کی بیگمات کا ایک وفد دورہ پاکستان پر لے آیا۔ اس وفد کو پاکستان میں افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپوں اور مہاجرین کی خیمہ بستیوں کا دورہ کرایا گیا اور جہاد افغانستان کی امریکہ کیلئے ناگزیریت سے انہیں آگاہ کیا گیا، جارج کرائل لکھتا ہے:،۔
”اس سلسلہ میں پشاور میں ایک سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا، جس میں صدر ضیاءالحق اور امریکی کانگریس مین چارلی ولسن کے علاوہ امریکی ارکان پارلیمنٹ کی بیگمات بھی شریک تھیں، اس موقع پر چارلی ولسن نے ضیاءالحق سے مخاطب ہو کر کہا“:۔
”مسٹر صدر، ونسٹن چرچل، صدر ابراہام لنکن اور صدر ضیاءالحق تاریخ کے تین ہیروز ہیں، لیکن ضیاءالحق کے بطور صدر کارنامے کی وجہ سے انسانی تاریخ کی آزاد دنیا مختلف ہو گی۔ مسٹر صدر! جہاں تک میرا تعلق ہے۔ آپ جتنے چاہیں ایٹم بم بنا لیں کیونکہ آپ ہمارے دوست ہیں اور وہ بھارتی ہمارے دشمن۔ لیکن اس پر تمام امریکیوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہے، امریکیوں کے ذہن میں کچھ سوالات ہیں جن کا آپ نے جواب دینا ہے کیونکہ اب یہ ایشو بہت اوپر اٹھ چکا ہے“۔
”چارلی ولسن تقریر کرکے روسٹرم سے نیچے آیا تو صدر ضیاءالحق ایک ہاتھ میں عینک اور دوسرے ہاتھ میں لکھی ہوئی تقریر کے کاغذات اٹھائے سٹیج پر پہنچے۔ چارلی پھر کھڑا ہو گیا اور کہا :جناب صدر، میں نے اپنی تقریر بغیر عینک لگائے اور نوٹس دیکھے کی ہے، آپ بھی فی البدیہہ تقریر کریں“۔
صدر ضیاءالحق نے کہا: چارلی میرا اچھا دوست ہے، میں اس کی بات نہیں ٹال سکتا، اور پھر انہوں نے عینک اور لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھی، ملازمین کو باہر جانے کا کہا اور اے ڈی سی کو کہہ کر ہال کا دروازہ اندر سے بند کر دیا، اس کے بعد صدر جنرل محمد ضیاءالحق ان بااثر امریکی خواتین و حضرات سے مخاطب ہوئے:۔
”افغان جنگ اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے امریکی دوستوں کی طرف سے پاکستان کی امداد بند کرنے یا پاکستان پر پابندی لگانے کی بات تاریخی بے وفائی ہو گی اور ایسا فیصلہ کرنے والوں کیلئے تاریخ کا فیصلہ بڑیا ظالمانہ ہوتا ہے۔ ہم نے اس وقت امریکہ کی شرائط تسلیم نہیں کیں۔ (وہ ان شرائط کی بات کر رہے تھے جب صدر کارٹر نے افغان جہاد کے ابتدائی سالوں میں چار سو ملین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی تھی، جسے انہوں نے ”مونگ پھلی“ کہہ کر مسترد کر دیا تھا) اب جبکہ ہم افغانستان میں روسیوں کو آگے لگا چکے ہیں اور ان کا خون بہا رہے ہیں تو امریکہ ہم سے کیسے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم اس کی شرائط مان لیں گے؟ امریکہ ہماری امداد کرے یا نہ کرے، ہم جنگ جاری رکھیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنی جانوں کا نقصان ہوتا ہے اور کتنے معذور ہو جاتے ہیں۔ جاﺅ اور امریکہ میں ہمارے دوستوں کو، جو ہماری امداد بند کرنا اور ہم پر پابندی لگانا چاہتے ہیں، بتا دو کہ ہم ان کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے“۔
(’چارلی ولسن وار‘ از جارج کرائیل بحوالہ طارق اسمٰعیل ساگر صفحہ 99)
ضیاءالحق کا واضح، دو ٹوک اور جرات مندانہ پیغام امریکی ارباب اقتدار تک پہنچا تو امریکی ایوانوں میں پاکستان کے خلاف اٹھنے والا طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، کیونکہ انہیں یہ خوب معلوم تھا کہ ضیاءالحق کو بلیک میل یا خوف زدہ کرکے اس سے اپنی شرائط نہیں منوائی جا سکتیں تھیں، پاکستان کے خلاف سولارز ترمیم کا خطرہ ٹل گیا اودر پاکستان کا ایٹمی پروگرام تیز رفتاری سے تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھنے لگا۔
oooo

ملکہ ترنم نورجہاں History Noor Jahan


نصف صدی تک عوام کے دلوںمیں راج کرنے والی 
ملکہ ترنم نورجہاں 
بے بی نور جہاں ۔۔۔۔ ابتدائی دور (1926 ء تا 1940 ئ) 
21 ستمبر 1926 ءکے دن عظیم پنجابی شاعر بابا بلھے شاہ ؒ کے شہر قصور کے ایک گاﺅں کوٹ مراد کے ایک گانا بجانے والے گھرانے میں مددعلی اور فتح بیگم کے ہاں ایک بچی اللہ وسائی پیدا ہوئی تھی جو اپنے غریب کاخاندان کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوئی تھی اور محض پانچ سال کی عمر ہی سے اپنی خوش الحانی کے باعث کمائی کا ذریعہ بن گئی تھی۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم اس نے اپنے استاد غلام محمد سے حاصل کی تھی جو عمرب ھر اس کے ساتھ رہے تھے۔ صرف نو سال کی عمر میں اس نے پنجابی فلموں کے عظیم موسیقار جی اے چشتی کے ترتیب دئیے ہوئے چند لوگ گیت ، غزلیں اور نعتیں گا کر لاہور کے سٹیج پر بے حد مقبولیت حاصل کی تھی۔ فی گیت ساڑھے سات آنہ معاوضہ لیتی تھی جو اُس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی معقول رقم ہوتی تھی ۔ لاہور میں یہ کامیابی اسے اس وقت کے دوسرے بڑے فلمی مرکز کلکتہ لے گئی تھی جہاں اس نے اپنی دونوں بہنوں حیدر باندی اور عیدن باندی کے ساتھ ایک پنجابی فلم پنڈ دی کڑی (1935 ئ µ میں بے بی نور جہاں کے نام سے اداکاری اور گلوکاری کی تھی۔ اللہ وسائی کے بے بی نور جہاں کا نام غالباً اس کی آئیڈیل گلوکارہ مختاربیگم نے دیا تھا۔ جو تیس کے عشرے کی ایک نامور گلوکارہ اور اداکارہ تھیں اور عظیم اردو ڈرامہ نگار آغاحشر کا شمیری کی شریک حیات تھیں جبکہ ملکہ غزل فریدہ خانم کی بڑی بہن بھی تھی۔ بے بی نور جہاں کا پہلا فلمی گیت © ©”لنگ“ آجا پتن چناں دا یار“ بتایا جاتا ہے جس کی دھن کرشن جی مہرہ نے بنائی تھی لیکن اسے اصل شہرت فلم گل بکاﺅ لی ۔ (1939ئ) کے مشہور زمانہ گیت 
”شالا جوانیاں مانیں ، آکھانہ موڑیں پی لے“ سے ملی تھی۔ اس گیت کی دھن ماسٹر غلام حیدر نے بنائی تھی اور اسے ولی صاحب نے لکھا تھا۔ یہ پنجابی فلم لاہور میں بنائی گئی تھی جہاں اس کی بطور بے بی نور جہاں دیگر فلموں میں ہیر سیال ایک بڑی مشہور فلم تھی۔نور جہاں بطو ہیروئن اور گلوکارہ متحدہ ہندوستان میں (1941 ءتا1947 ئ) 
1942 ءمیں لاہور میں بننے والی اُردو فلم خاندان کو نور جہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں گزشتہ سال کی دو مشہو ر زمانہ ، پنجابی فلموں پہلا جٹ اور چودھری میں بالترتیب ایم اسماعیل اور غلام محمد کے ساتھ فرسٹ ہیروئن کے طور پر موجود تھی اور ان فلموں کے پوسٹروں پر اس کے نام کے ساتھ بے بی بھی نہیں لکھا ہو ا تھا۔ اس لیے غالباً قیاس یہی ہے کہ یہی دونوں فلمیں ان کی بطور ہیروئن پہلی پہلی فلمیں تھیں۔ فلم خاندان نے ملک بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ کلکتہ سے بطور فلم ایڈیٹر اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والے سید شوکت حسین رضوی اس فلم کے ہداتیکار تھے اور نامور بھارتی ولن اداکار نور جہاں کے ہیرو تھے۔ عہد ساز موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں نورجہاں کے گیتوں نے دھوم مچادی تھی اور سب سے بڑے فلمی مرکز ممبئی کے فلمسازوں نے بھی اسے بمبئی کی فلموں میں کاسٹ کرنا شروع کر دیا تھا جن میں انمول گھڑی ، زینت اور جگنو بہت بڑی نغمانی فلمیں تھیں۔ 
1946 ءمیں بننے والی ہدایتکار محبوب کی سدا بہار تغمانی فلم انمول گھڑی کی دھنوں سے سب سے بڑی فلم تھی جس میں موسیقار نوشاد علی کی دھنوں پر گائے ہوئے نور جہاں کے پانچوں گیت لازوال گیت ثابت ہوئے تھے جبکہ اس فلم میں وقت کی ایک اور بہت بڑی گلوکلورہ اور اداکارہ ثریا نے بھی کام کیا تھا۔اس فلم کے ہیرو اور گلوکار سریندر کے ساتھ گایا ہوا موسیقار نوشاد علی کی دھن پر نور جہاں کا یہ امرسنگیت : آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے، آج بھی دل کے تار چھیڑ دیتا ہے یہ گیت تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا ، جو میڈم کی بڑی بہن عیدن باندی کے شوہر تھے ۔
1947 ءکی سپرہٹ فلم جگنو متحدہ ہندوستان میں نور جہاں کی آخری بڑی فلم تھی جس میں اس نے پہلی اور آخری بار عظیم گائیگ محمد رفیع کے ساتھ ایک دوگانا گایا تھا جس کی دھن ماسٹر فیروز نظامی نے بنائی تھی۔ 
1942 ءکی فلم خاندان کی تکمیل کے دوران میڈم نورجہاں نے فلم کے ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی سے شادی کر لی تھی۔ جن سے ان کے تین بچے تھے بڑے بیٹے اکبر حسین رضوی کی ایک بیٹی سونیا جہاں نے کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی فلم تاج محل میں مرکزی کردار کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ان کا دوسرا بیٹا اصغر حسین رضوی غالباً فوج میں رہا ہے جبکہ بڑی بیٹی ظل ہما ستر کے عشرے کے ایک خوبروادا کار عقیل سے بیاہی گئی تھی لیکن اس کی بعد میں طلاق ہو گئی تھی۔ ظل ہما خود بھی گاتی ہے اور اس کا ایک بیٹا بھی آج کل گا رہا ہے۔ 
نورجہاں بطور اداکارہ اور گلوکارہ پاکستان میں(1951 ءتا1961 ئ) 
تقسیم کے بعد ملکہ نریم نورجہاں اپنے خاوند شوکت حسین رضوی اور بچوں کے ساتھ بمبئی کو خیرآباد کہہ کر پہلے کراچی آئیں لیکن جب انہیں لاہور میں تبادحال شوری سٹوڈیو اور ایک متروکہ سینما ریجنٹ الاٹ ہو تو وہ لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ اس دوران رضوی صاحب نے تمام تر توجہ فلم سٹوڈیو کو بنانے سنوارنے میں صرف کر دی تھی اور ان کی معاونت سے میڈم نور جہاں نے بطور ہدایتکار ، اداکارہ گلوکارہ پنجابی فلم ”چن وے“ بنائی تھی جو اس لحاظ سے تو کامیاب تھی کہ ریجنٹ سینما میں 18 ہفتے چلی تھی لیکن چونکہ اس قبل پنجابی فلم ”پھیرے “ ایک ہی سینما پر مسلسل پچیس ہفتے چل چکی تھی اس لئے اس فلم کو اس کے مقابلے کی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی البتہ الف ڈی شرف کا لکھا ہوا اور موسیقار فیروز نظامی گیت لازوال ثابت ہو اتھا۔ 
پاکستان میں اپنے دور میں میڈم نورجہاں نے کل13 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سوائے فلم پردیسن (1959 ئ) کے سبھی فلمیں یادگار نغمانی فلمیں شمار ہوتی ہیں۔ فلم انتظار میں میڈم نورجہاں کو بہترین اداکار اور گلوکارہ کا صدارتی ایوارڈ ملا تھا انہیں غیر سرکاری طور پر ملکہ نریم کا خطاب دیا گیا تھا۔ بطور اداکارہ اور گلوکارہ نورجہاں کی آخری فلم غالب (1961 ئ) تھی۔ اسی دور میں میڈم نورجہاں کی اپنے پہلے شوہر سید شوکت حسین رضوی سے طلاق ہو گئی تھی جنہوں نے اس وقت کی ایک ممتاز اداکارہ اور کیمرہ مین جعفر بخاری کی بیوی یاسمین سے شادی کر لی تھی۔ 80 کے عشرے میں جائیداد کی تقسیم پر بڑا سخت تنازعہ کھڑا ہوا تھا اور میڈیا میں انتہائی شرمناک الزامات اور مضحکہ خیزانکشافات کا ایک سلسلہ جاری تھی۔ رضوری صاحب نے نور جہاں کے بارے میں ایک متنازعہ کتاب” میں اور نورجہاں“ بھی لکھی تھی جسے پڑے کر رضوی صاحب کا ایک بڑا ہی منفی متنازعہ ادیب سعادت حسن منٹو نے نورجہاں سرور جہاں نامی فضول سی کتاب بھی لکھی تھی جو بعض لوگوں کے لئے معلومات اور الہامات کا ایک ذریعہ تھی یاد رہے کہ24 جون 1953 ءکے روزنامہ ”امرزو“لاہور کے مطابق میڈم نورجہاں کا پاکستان کرکٹ کی سنچری بنانے والے اور نامور کرکٹر مدثر نذیر کے والد نذر محمد کے ساتھ ایک سکینڈل برا مشہور ہوا تھا جس میں نذر کا بازو ٹوٹ گیا تھا لیکن یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ نذر محمد میڈم نور جہاں کے رشتہ دار تھے اور ان کا رضوی صاحب کے ساتھ کسی جھگڑے میں بازو ٹوٹ گیا تھا( واللہ اعلم بالصواب)
19 اکتوبر 1959 ءکو میڈم نورجہاں نے سپر سٹار اداکار اور فلمساز اعجاز درانی سے شادی کر لی تھی جس سے اس کی تین بیٹیاں تھیں جن میں ایک لڑکی پہلے ٹی وی کے نامور گلوکار خالد وحید کے ساتھ بیاہی گئی تلیکن بعد میں طلاق کے بعد ہاکی کے عظیم سینٹر فارورڈ حسن سردار سے بیاہی گئی تھی ایک لڑکی کی شادی اداکار شان سے ہونا طے پائی تھی لیکن نہ ہو سکی تھی۔ 
اپنے طویل دور میں1965 ءکی جنگ میں ملکہ نرنم نورجہاں کی کارکردگی انتہائی قابل فخر رہی تھی جب ان کے ملی ترانوں نے پوری قوم اور فوج کا جذبہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے گائے ہوئے یہ رزمیہ نرانے سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل کر گئے تھے۔ 
میرا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھا
اے وطن کے سجیلے جوانوں میرے نغمے تمہارے لئے ہین 
اس شاندار کارکردگی پر اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے انہیں تمغہ حسن کاکردگی بھی دیا تھا لیکن 1971 ءکی جنگ میں ملک کے دیگر سبھی شعبوں کی طرح میڈم نورجہاں کا کرداد بھی بڑ متنازعہ رہا تھا جب پاکستان کی تاریخ کے انتہائی بدکردار حاکم صدر جنرل یحییٰ خان کی بدنام زمانہ منظور نظر خواتین میں ان کا نام بھی آتا تھا اور بڑے افسانے مشہور ہوئے تھے۔ 
میڈم نور جہاں ایک عجیب متضاد شخصیت تھیں کہ ایک طرف لوگ بڑے مزے لے لے کر ان سے یہ بیان منسوب کرتے ہیں کہ ”میں نے کبھی گیتوں اور معاشقوں کا حساب نہیں رکھا “ تو دوسری طرف ان کی دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ لتا منگشیکر اپنے ایک ویڈیو انٹر ویو میں یہ چشم دیدانکشاف کرتی ہیں۔ کہ میڈم نورجہاں اپنے عین شاب کے دور میں بھی فلم کے سیٹ پر بھی نماز ادائیگی نہیں بھولتی تھیں۔ ان کی پابندی صوم وصلٰوة کی عادت کی گواہی دوسرے بہت سے ذرائع بھی دیتے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں روایتی تعلیمی قابلیت سے محرومی کے باوجود انتہائی ذہین گلوکارہ تھیں۔ کوئی بھی گیت نہیں پہلی بار ہی از برہو جاتا تھااور خالص پنجابن ہونے کے باوجود اُردو تلفظ بڑے کمال کا ہوتا تھا جواہل زبان کو بھی بڑا متاثر کرتا تھا۔ وہ ایک طرف تو انتہائی خوش گفتار خوش اطوار اور خوش خیال خاتون تھیں لیکن دوسری طرف خلاف مزاج باتوں پر فورا ً سیخ پا ہو جاتی تھیں اور بڑے درشت الفاظ میں مخالفین کو ان کی وفات یاد دلاتی تھیں لیکن کسی میں دم نہ ہو تا تھا کہ ان سے ٹکر لے سکے لیکن اگر کسی نے کبھی ٹکرلے بھی لی وہ ناکام و نامزاد ہوا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کے سات عشروں کا یہ عظیم الشان سفر1997 ءتک بستر مرگ پر پڑنے تک جاری رہا تھا۔ اس عظیم عورت نے موت سے قبل اپنی لاہور کی کوٹھی کروڑوں میں بیچ کر کچھ رقم اپنے علاج معالجہ کے لیے رکھی اور باقی رقم اپنی اولاد میں تقسیم کر دی تھی۔ اور تاحیات کسی کی ایک کوڑی کی محتاج نہیں ہوئی تھی۔ میڈم نورجہاں کا آخری سپرہٹ پنجابی فلم سخی بادشاہ(1996 ئ) میں ملتا ہے۔(جو اتفاق سے سلطان راہی کی بھی آخری بڑی فلم تھی) جس کی دھن موسیقار طافو نے بنائی تھی اور جو صائمہ پر فلمایا گیا تھا ” کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے“ 23 دسمبر2000 ءکو 26رمضان المبارک (یعنی شب قدر) کی رات کو 74 سال کی عمر میں انتقال کیا اور اسی رات کراچی میں دفن ہوئیں۔ یادرہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں کی لحد کے کتبے پران کی تاریخ پیدائش 23 ستمبر1929 ءدرج ہے۔ 


History about Abu Hanifa (R.A)


امام اعظم ابوحنیفہ کی علمی و فقہی خدمات
نام :نعمان ؛کنیت :ابوحنیفہ ؛والدکانام :ثابت؛ القاب :امام اعظم ،سیدالاولیاءوالمحدثین رئیس الفقہاءوالمجتہدین ،امام الائمہ ، سراج الامہ ۔ امام صاحب موصوف کے دادا اہل کابل سے تھے۔ سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے :نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒکی ولادت با سعادت مشہور روایت کے مطابق 70 ہجری میں ہوئی ۔
بخاری اور مسلم شریف میں موجود ہے کہ جب سورة جمعہ نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آیت : وآخرین منھم لما یلحقوابہمپڑھی تو صحابہ میں سے کسی نے سوال کیا :”یارسول اللہ !یہ بعد میں ملنے والے لوگوں سے کون سے لوگ مراد ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے ،جب باربار پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھے پر اپنا دست اقدس رکھ کر ارشاد فرمایا :اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کرلیں گے ۔
علامہ ابن حجر مکی ؒنے لکھا ہے کہ امام سیوطی ؒکے تلامذہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے استاد امام سیوطیؒ یقین کے ساتھ کہتے تھے:”اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہؒ ہیںکیونکہ امام اعظم ؒ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہیں پہنچ سکا۔“
امام موصوف تجارتی سلسلے میں بازار جا رہے تھے ،راستے میں امام شعبیؒ .... جنہوں نے تقریبا پانچ سو صحابہ کرام ؓکا زمانہ پایاہے .... سے ملاقات ہوئی ،فرمایا : کہاں جاتے ہو ؟عرض کیا بازار۔چونکہ آپ نے امام اعظم ؒکے چہر ہ سے ٹپکنے والی ذہانت وفطانت اورسعادت کو جانچ لیا تھا، فرمایا: علماءکی مجلس میں نہیں بیٹھتے ہو ؟عرض کیا نہیں۔فرمایا : غفلت نہ کرو تم علماءکی مجلس میں بیٹھا کرو کیونکہ میں تمہارے چہرے میں علم وفضل کی درخشندگی کے آثار دیکھ رہا ہوں ۔امام اعظم ؒفرماتے ہیں : امام شعبی ؒسے ہونے والی اس مختصر گفتگو نے میرے دل پرگہرے اثر چھوڑے چنانچہ میں نے بازار جانا چھوڑ دیا ۔ پہلے علم الکلام کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد گمراہ فرقوں مثلا جہمیہ، قدریہ سے بحث ومباحثہ کیا اورمناظرہ شروع کیا۔پھر خیال آیا کے صحابہ کرامؓ نے شرعی اورفقہی مسائل سے زیادہ شغف رکھا،لہذا مجھے بھی اسی طرف متوجہ ہونا چاہئے.... چنانچہ میں فقہاءکوفہ میں ایک فقیہ (حضرت حماد بن ابی سلیمان ؒ)کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔اس وقت آپ کی عمر تقریبا بیس سال سے بھی کچھ متجاوز ہوچکی تھی اور آپ اٹھارہ سال تک ان کی خدمت میں فقہ حاصل کرتے رہے ،اسی دوران آپ کوحج بیت اللہ کیلئے حرم شریف میں بھی حاضری کا موقع ملااور بعض دیگر شہروں میں بھی شیوخ حدیث اور فقہاءکرام کی صحبت میسر آتی رہی ۔ تقریباً چارہزار مشائخ سے علم حدیث وفقہ حاصل کیا ۔
امام موصوف ؒخود فرماتے ہیں:ایک رات حضرت حمادؒکو اطلاع ملی کہ بصرہ میں ان کا کوئی عزیزفوت ہوگیا ہے ،بڑامال چھوڑا اور حماد کے سوا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے ، آپ نے اپنی جگہ مجھے بٹھا یا ، جیسے ہی وہ تشریف لے گئے کہ میرے پاس چند ایسے مسائل آئے جو میں نے آج تک ان سے نہ سنے تھے ، میں جواب دیتا جاتا اوراپنے جوابات لکھتا جاتا تھا۔جب حضرت حمادؒ واپس تشریف لائے تو میں نے وہ مسائل پیش کئے ،یہ تقریباً ساٹھ مسائل تھے۔چالیس سے تو آپ نے اتفاق کیا جبکہ بیس مسائل میں ان کی رائے مختلف تھی ۔میں نے اسی دن یہ تہیہ کر لیا کہ جب تک زندہ ہوں ان کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ،لہٰذا میں اسی عہد پر قائم رہا اور تازندگی ان کے دامن سے وابستہ رہا۔
علامہ ابن حجر ہیتمی مکی ؒلکھتے ہیں:امام اعظم ابوحنیفہ ؒنے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو پایا۔آپ کی ولادت80ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تھی۔حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓکا وصال88ھ کے بعد ہواہے۔حضرت انس بن مالک ؓاس وقت بصرہ میں موجود تھے اور 95ھ میں وصال فرمایا۔ آپ ؒنے ان کو دیکھا ہے۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام ؓبھی موجود تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع ؓشام میں۔وصال 85ھ ، حضرت سہل بن سعدؓ مدینہ میں۔وصال 88ھ ،حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ ؓمکہ میں۔وصال 110ھ۔
امام ابو یوسف ؒکہتے ہیں کہ میں نے امام اعظم ؒکو فرماتے سنا کہ”میں93ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ برس کی تھی۔میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے میاں کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابی ہیں اور ان کا نام عبداللہ بن حارث بن جزہے پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے کہ لوگوں کا ہجوم ہے؟ والدصاحب نے کہا: ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔میں نے کہا : مجھے بھی ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ،چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں ان کے قریب پہنچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ؛ من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کووہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
مشہور محدث شیخ علامہ محمد طاہر ہندی ؒنے کرمانی ؒکے حوالہ سے لکھا ہے:”امام اعظم ؒکے تلامذہ کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ ؓکی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے۔“
چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہٰذا امام اعظم ؒنے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پر تھا ۔ تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوصیت میں ممتاز تھا۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔
فقہ چونکہ قرآن وسنت کی عام فہم تشریح کا نام ہے اس لیے فقیہ کے لیے حدیث ،علم حدیث ،اصول حدیث ، اقسام حدیث علاوہ ازیں روایان حدیث وغیرہ کے علم میں مکمل مہارت اور پختگی ضروری ہے۔ ابوالمحاسن شافعی ؒنے فرمایا :”93وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم ؒنے حدیث اخذ کی۔
مکہ معظمہ میں حضرت عطاءبن ابی رباح ؒموجود تھے ،دوسرے صحابہ کرام ؓکی صحبت کا شرف حاصل تھا۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد اورفقیہ تھے۔ ان کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓفرماتے تھے کہ عطاءکے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں۔ان کی جلالت کا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطائؒ کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے۔ کبار محدثین امام اوزاعی ؒ،امام زہری ؒ، امام عمروبن دینار ؒان کے شاگردتھے۔ امام اعظم ؒنے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کر لی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے۔حضرت عکرمہ ؓکا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں: حضرت علی،حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابوقتادہ ،حضرت ابن عمر اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کے تلمیذ خاص ہیں۔70مشاہیر ائمہ تابعین ان کے تلامذہ میں داخل ہیں۔امام اعظم ؒنے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ؓاورسالم بن عبداللہ ؒسے احادیث سنیں۔ ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی علم حاصل کیا۔بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک ؓکی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم ؒکی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی۔حضرت انس بن مالک ؓسے آپ کی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی۔غرضیکہ امام اعظم ؒکو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ،آپ کے مشائخ میں صحابہ کرام ؓسے لے کر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک کی ایک عظیم جماعت داخل ہے اور آپ کے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے۔
تلامذہ : امام اعظم ابو حنیفہ ؒکے علم حدیث وفقہ کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے والوں کی بہت طویل فہرست ہے جنہوں نے صحابہ کے فتاوی جات تابعین کبار کے آثار کو اپنے استاد (امام ابو حنیفہ ؒ) سے سینہ بہ سینہ لیا اور ہر طرف اس فیض کو عام کیا ان میں سے چند مشاہیر کے اسماءگرامی یہ ہیں :
 امام ابو یوسف ،امام محمد بن حسن شیبانی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ، امام مالک ،امام عبداللہ بن مبارک ،امام زفربن ہذیل،امام داو ¿د طائی ،فضیل بن عیاض ،ابراہیم بن ادہم ، بشربن الحارث حافی، ابوسعید یحییٰ بن زکریاکوفی ہمدانی ،علی بن مسہر کوفی، حفص بن غیاث ، حسن بن زناد ، مسعر بن کدام،نوح بن درا ج نخعی،ابراہیم بن طہران ، اسحاق بن یوسف ازرق ، اسد بن عمر وقاضی ،عبدالرزاق ،ابونعیم ، حمزہ بن حبیب الزیات ، ابو یحییٰ حمانی ، عیسیٰ بن یونس یزید بن زریع ، وکیع بن جراح ، ہیثم، حکام بن یعلی رازی، خارجہ بن مصعب، عبد الحمید بن ابی داو ¿د، مصعب بن مقدام ، یحییٰ بن یمان ، لیث بن سعد ، ابو عصمہ بن مریم ، ابوعبدالرحمن مقری ، ابوعاصم رحمة اللہ علیہم اجمعین۔
تدوین فقہ اور اس میں احتیاط : امام وکیع ؒبلند پایہ محدث ہیں ان سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ابو حنیفہ ؒنے غلطی کی ہے اس پر امام وکیع ؒچونک اٹھے اور کہنے والے سے فرمایا : ابو حنیفہ ؒکا مسلک کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟ جبکہ امام ابو یوسف ؒ،امام محمد بن حسن ؒ، امام زفر ؒجیسے ماہرین قیاس واجتہاد ؛یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ ؒ،حفص بن غیاث ؒ،حبان ؒاور مندل ؒجیسے حفاظ حدیث وائمہ حدیث ؛قاسم بن حصن ؒ،عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود ؒجیسے عربیت اور لغت کے امام ، داﺅد طائی ؒاور فضیل بن عیاض ؒجیسے عبادت گزار اور پرہیز گار ہوں ۔اگر غلطی ہوگی تو ان کے ہم نشین ان کو حق اور صواب کی طرف لوٹادیں گے ۔آپ نے اپنے تلامذہ پر مشتمل ایک فقہی شورائی کمیٹی تشکیل دی جنہوں نے تدوین فقہ کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔ 
 اللہ تعالی ہم کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلائے ۔
٭٭٭٭٭

مشرقی پاکستان کی جارحیت کے ذریعے علیحدگی East Pakistan_Sakoot Dhaka


مشرقی پاکستان کی جارحیت کے ذریعے علیحدگی 
1946ءکے تارےخی انتخابات مےں بنگالی مسلمانوںنے 97فےصد ووٹ دے کر پاکستان کا قےام ےقےنی بناےا۔ آزادی کے بعد 1970ءمےں بالغ رائے دہی کی بنےاد پر ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے غےر معمولی اہمےت کے حامل تھے کہ انتخابات کی طوےل انتخابی مہم اےک سال پر محےط تھی۔ اس دوران شےخ مجےب الرحمان جب انتخابی مہم مےں کسی جلسے مےں جاتا تھا تو لوگ اس سے پوچھتے تھے کہ کےا تم پاکستان سے علےحدگی چاہتے ہو؟ وہ جےب سے قرآن پاک نکال کر اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا تھا کہ قرآن پاک کی قسم مےں پاکستان سے علےحدگی نہےں چاہتا۔ دوسری طرف عوامی لےگ کے کارکنوں نے غنڈہ گردی سے اےسے حالات پےدا کردےے کہ دوسری جماعتوں کے لےے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگےا۔ عوامی لےگ نے مغربی پاکستان مےں اپنی پارٹی کی طرف سے اُمےدوار نامزد کرنے مےں دلچسپی نہ لی۔ اس طرح پےپلز پارٹی اور دوسری سےاسی جماعتوں کے لےے مشرقی پاکستان مےں اُمےدوارکھڑے کرنے کو ناممکن بنا دےا گےا۔ جب انتخابات ہوئے تو اس کے نتائج حکومت اور سےاسی جماعتوں کے لےے حےران کن تھے بلکہ پرےشان کن بھی۔ ملک سےاسی طور پر تےن حصوں مےں تقسےم ہوگےا تھا۔ مغربی پاکستان مےں پےپلز پارٹی کو سندھ اور پنجاب مےں بھاری کامےابی حاصل ہوئی جبکہ مشرقی پاکستان مےں عوامی لےگ کومکمل غلبہ حاصل ہو گےا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان پر نےشنل عوامی پارٹی اور جمعےت العلماءاسلام اپنا سکہ جمائے ہوئے تھےں۔ مسلم لےگ قےوم گروپ کو صوبہ سرحد مےں محض چند سےٹےں حاصل ہوسکےں اور ےہ جماعت تمام تر سرکاری حماےت کے باوجود انتخاب مےں بری طرح شکست کھا گئی۔ اس طرح مسلم لےگ کونسل اور جمعےت العلماءپاکستان نے بھی چند نشستےں حاصل کےں۔ اےک امر واضح تھا کہ آج کی طرح اس وقت بھی ملک مےں صاحب بصےرت قےادت کا فقدان تھا۔ قومی اسمبلی کےلئے عام انتخابات کے روزمشرقی پاکستان مےں صرف ستاون(57)فےصد لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ باقی لوگ ہنگاموں اور غنڈہ گردی کے خوف سے اپنی رائے کا استعمال نہ کرسکے۔ پولنگ اسٹےشنوں پر پولےس کے علاوہ فوج بھی تعےنات تھی مگر اسے کسی کارروائی کی اجازت نہےں تھی۔ عوامی لےگی غنڈوں نے خوف و ہراس کی فضا قائم کرکے کھلم کھلا دھاندلی کی اور لوگوں کو پولنگ اسٹےشنوں پر آنے سے روکا۔ ان انتخابات مےں ڈالے گئے ووٹوں مےں سے صرف (42)بےالےس فےصد لوگوں نے عوامی لےگ کے حق مےں ووٹ ڈالے۔ ان مےں سے 23فےصد ہندو باشندوں کے ووٹ تھے۔ ےہ حقےقت آج ساری دنےا بالخصوص بنگالی بھائےوں پر آشکار ہوچکی ہے کہ مشرقی پاکستان مےں مٹھی بھر لوگوں نے وہاں کے عوام کو گمراہ کےا۔ وہاں کے لوگوں کی اکثرےت کسی قےمت پر علےحدگی نہےں چاہتی تھی۔ اب کئی بنگالی دانشور برملا اس بات کا اعتراف کرتے ہےں کہ 1970ءکے انتخابات منصفانہ نہےں تھے۔ اس کے علاوہ ان سچے پاکستانی بنگالےوں سے 1970ءمےں ےا اس کے بعد ہونے والے کسی انتخاب مےں ےہ نہےں پوچھا گےا کہ کےا تم پاکستان سے علےحدگی چاہتے بھی تھے ےا نہےں؟
1971ءمےں بھارت نے تمام بےن الاقوامی قوانےن‘ اصولوں اور ضابطوں کو پامال کرکے ننگی جارحےت کے ذرےعے مشرقی پاکستان پر زبردستی قبضہ کرکے پاکستان کو دولخت کردےا۔ اس وقت بھارت کی وزےراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ مےں نے دو قومی نظرےہ کو خلےج بنگال مےں غرق کردےا ہے اور برصغےر پر مسلمانوں کے ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لے لےا ہے لےکن اکھنڈ بھارت کا خواب دےکھنے والی بھارتی قےادت کا ےہ خواب شرمندہ ¿ تعبےر نہ ہوا۔ دو قومی نظرےہ آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اگر اےسا نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان آزادمملکت کی بجائے مغربی بنگال مےں شامل ہوکر بھارت کا اےک صوبہ بن جاتا مگر بھارت کو اےسا کرنے کی جرا ¿ت نہ ہوئی بلکہ بھارتی فوجوں کو شدےد عوامی رد عمل کے باعث ڈھاکہ اور دےگر علاقوں سے واپس جانا پڑا۔ جاتے جاتے وہ کارخانوں کی مشےنری‘ دفاتر کے پنکھے‘ فرنےچر حتیٰ کہ غسل خانوں کی ٹونٹےاں بھی اتار کر لے گئے۔ بنگلہ بندھو شےخ مجےب الرحمان نے 1970ءکے انتخابات مےں عوام کو جو سنہرے سپنے دکھائے تھے‘ وہ اےک اےک کرکے بھےانک شکل اختےار کرگئے۔ مجےب الرحمن 15اگست 1975ءکو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارا گےا اورتےن دن تک اس کی لاش اس کے مکان کی سےڑھےوں مےں پڑی رہی۔ بعدازاں چند پولےس والوں نے اےک مولوی کی امامت مےں نماز جنازہ ادا کرکے اس کی تدفےن کی۔ شےخ مجےب الرحمن نے اپنی حفاظت کے لےے اےک خصوصی فوج تشکےل دی تھی جو 60ہزار افراد پر مشتمل تھی اور ان سب کا تعلق بھارت سے تھا۔ اس فوج کو ڈالرز مےں تنخواہ دی جاتی تھی۔ شےخ مجےب الرحمان کے قتل کے وقت اس فوج کے 33ہزار لوگ مارے گئے اور باقی بھارت بھاگ گئے۔ بھارت جس نے مشرقی پاکستان مےں مداخلت اور جنگ مسلط کرکے بنگلہ دےش بنواےا ہے مسلسل اس ملک کا استحصال کررہا ہے۔ ہم سے زےادہ زرخےز زمےن ہونے اور سال مےں چاول کی چار فصلےں حاصل کرنے کے باوجود ڈھاکہ مےں ہزاروں لوگ بھوک کی حالت مےں پھےنکے جانے والے کچرے پر لپک پڑتے ہےں۔ ہندوساہوکاروں نے معےشت کو اپنے پنجوں مےں جکڑا ہوا ہے۔ فصل کی کاشت کے فوراً بعد وہ اونے پونے داموں مےں فصل خرےد لےتے ہےں۔ متحدہ پاکستان کے وقت قائم ہونے والی صنعتےں بند ہوچکی ہےں اور زےادہ تر بھارتی اشےاءبنگلہ دےش کے بازاروں مےں مہنگے داموں بکتی ہےں۔ 
بنگلہ دےش کے قےام مےں مدد فراہم کرنے کے باعث بھارت بنگلہ دےش کو اپنی اےک نو آبادی سمجھتا ہے۔ جب بنگالی دانشور ےہ کہتے ہےں کہ ہم نے بنگلہ دےش قائم کرکے آزادی حاصل کی تو بھارتی دانشور ےہ جتلاتے ہےں کہ ےہ ہم ہےں جنہوں نے پاکستان کے دوٹکڑے کئے ہےں۔ ےہی نہےں بھارتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ بنگلہ دےش سے شائع ہونے والے بعض اخبارات بھی بنگلہ دےش کی نئی پود کو مسلسل ےہ سمجھانے مےں مصروف ہےں کہ بھارتی ہی تمہارے نجات دہندہ اور محسن ہےں۔ درحقےقت بھارت کی خفےہ اےجنسی ’را‘ کو پاکستان توڑنے کا ٹاسک دےا گےا تھا اور اسے آج بھی بنگلہ دےش کی سےاست اور معےشت پر کنٹرول حاصل ہے۔ ’را‘ کا دنےا مےں بہت بڑا نےٹ ورک ہے۔ اس کے اپنے جہاز اور ہےلی کاپٹر ہےں۔ پاکستان کے لےے ’را‘ نے دبئی کو اپنا ہےڈکوارٹر بناےا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے ےہ ’را‘ کروا رہی ہے۔ بھارتےوں نے کلکتہ کے تعلےمی اداروں مےں بنگالی طلباءکے لےے مفت تعلےم کا انتظام کر رکھا ہے اور بھارت کی تمام ےونےورسٹےوں مےں انہےں تعلےم کے لےے بلاےا جاتا ہے تاکہ ان کی برےن واشنگ کرکے انہےں مسلم اُمہ سے دور کےا جاسکے۔ بہت سارے اساتذہ کو بھارتی ےونےورسٹےوں نے ان کی تعلےمی استعداد کے برعکس پی اےچ ڈی کی ڈگرےاں دے کر اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔
40سال قبل زبردستی علےحدگی کے باوجود حالات نے ےہ ثابت کےا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دےش اےک ہےں۔ ہمارے مفادات اےک ہےں‘ ہمارے دشمن اور دوست اےک ہےں۔ ہر بےن الاقوامی فورم پر دونوں ممالک نے مشترکہ مو ¿قف اپنا کر ثابت کےا ہے کہ ہماری خارجہ پالےسی اےک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچھڑے ہوئے بھائےوں کو قرےب لائےں۔ اس سلسلے مےں جناب مجےد نظامی کی قےادت مےں نظرےہ ¿ پاکستان ٹرسٹ کے پلےٹ فارم سے ہونے والی کاوشےں قابل قدر ہےں جس کے تحت جدوجہد آزادی 1947ءکے حوالے سے علمی و تحقےقی کام جاری ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دےش مےں باہمی تجارت کو بھی فروغ دےے جانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بنگلہ دےش کی معےشت ترقی کررہی ہے۔ بنگالےوں کی محنت اور ہنر مندی کے باعث ٹےکسٹائل کے حوالے سے دنےا بھر مےں ان کی مانگ ہے۔اس وقت ہمارے گوجرانوالہ اور سےالکوٹ کے چےمبرز آف کامرس کے ذےلی دفاتر بنگلہ دےش مےں قائم ہوچکے ہےں۔ ہمارے ہاں ڈالر 85روپے کا اور بنگلہ دےش مےں ڈالر 55ٹکے کا ہے۔ سمندری راستے سے کراچی اور ڈھاکہ کی بندرگاہوں کے مابےن 45دن کا فاصلہ ہے‘ جبکہ زمےنی راستے سے تےن دن مےں سات بھارتی صوبوںمےں سے گزر کر لاہور سے ڈھاکہ سامان بھجواےا جاسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابےن طلبہ‘ اساتذہ اور صحافےوں کی زےادہ آمدورفت ہونی چاہےے۔ پاکستان کے تعلےمی اداروں مےں بنگالی طلبہ کو زےادہ سے زےادہ داخلے اور فےس کی رعاےت دی جانی چاہےے۔ پرنٹ و الےکٹرانک مےڈےا کی ذمہ داری ہے کہ بنگلہ دےش کے بارے مےں زےادہ سے زےادہ معلومات بہم پہنچائے تاکہ باشعور طبقے اپنے شاندار ماضی کے ورثہ کو اجاگر کرکے مشترکہ لائحہ عمل اپنائےں اور اپنی نئی نسل کی ان شاندار خطوط پر تربےت کرےں۔ مسلمانانِ ہند نے انگرےز سامراج اور ہندو بنےے کو باہمی جدوجہد سے شکست دے کر آزادی حاصل کی تھی۔ اگر ہم خلوصِ دل سے قدم بڑھائےں تو دونوں خطوں کے عوام کسی نہ کسی شکل مےں دوبارہ اےک ہوجائےں گے۔ اس کا آغاز کم از کم کنفےڈرےشن کی صورت مےں ہوسکتا ہے بشرطےکہ بنگلہ دےشی مجےب کی بےٹی کو شکست دے سکےں۔
٭٭٭

Sunday, 26 August 2012

کوت دیوور (آئیوری کوسٹ) Cote d`lvoire History


کوت دیوور (آئیوری کوسٹ)
Cote d`lvoire
محل وقوع
کوت دیوور (عربی نام ساحل العاج) افریقہ کے مغربی ساحل کا ایک ملک ہے جس نے فرانسیسی قبضہ سے آزادی حاصل کی ہے۔ کوت دیوور کا سابقہ نام آئیوری کوسٹ تھا۔ اس نام کو 1985ءمےں تبدیل کر کے اسی کا ہم معنی فرانسیسی نام رکھ دیا گیا۔ اس کے معنی ہاتھی دانت کا ساحل (ساحل العاج) کے ہےں۔ عربی مےں، جو اس علاقے مےں کافی لوگ سمجھتے ہےں، اسے ساحل العاج ہی کہا جاتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب مےں لائیبریا اور گیانا سے، شمال مےں مالی اور برکینافاسو، مشرق مےں گھانا اور جنوب مےں گیانا کی خلیج سے ملتی ہےں۔
لوگ
آبادی کا بیس فی صد سے کچھ زائد مسلمان ہےں۔ تقریباً بائیس سے پچیس فی صد عیسائی ہےں جن مےں یورپی لوگ بھی شامل ہےں۔ آبادی کا 77فیصدی حصہ آئیوری لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان مےں بہت سے مختلف لوگ اور بہت سی زبانیں شامل ہےں۔ ایک اندازے کے مطابق 65مختلف زبانیں اس ملک مےں بولی جاتی ہےں۔ ان مےں سب سے زیادہ عام زبان ڈیولا ہے جو کہ مسلمان آبادی اور تجارت سے متعلقہ لوگوں کی مشترکہ زبان ہے۔ فرانسیسی سرکاری زبان ہے اور اسے سکولوں مےں پڑھایا جاتا ہے اور شہری علاقوںمےں عام بول چال کی زبان بھی یہی ہے۔ چونکہ کوت دیوور نے خود کو مغربی افریقہ کی سب سے خوشحال ریاست ثابت کیا ہے، اس کی کل آبادی کا 20فیصد حصہ پڑوسی ممالک سے جیسا کہ لائبیریا، برکینا فاسو اور گیانا سے آیا ہے۔ اس وجہ سے ان بیرونی ورکرز جو کہ مسلمان ہےں اور عیسائی آبادی کے درمیان کشیدگی کو ہوا ملی ہے۔ آبادی کا چار فیصد حصہ وہ لوگ ہےں جو کہ آئیوری کے نہیں، بلکہ باہر سے آئے ہےں۔ ان مےں فرانسیسی، ویت نامی اور ہسپانوی شہری ہےں اور اسی طرح امریکہ سے آنے والے عیسائی مشنری بھی شامل ہےں۔ یہاں پر رہنے والے فرانسیسی شہریوں کے علاوہ ان فرانسیسی آبادکاروں کی نسلیں بھی آباد ہےں جو شروع مےں ادھر آئے تھے۔
وسائل
1960ءمےں آزادی کے بعد سے فرانس کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات رہے۔ زراعت مےں برآمدات کے تنوع اور غیر ملکی سرمائے کے موقعوں نے استوائی افریقی ریاستوں مےں کوت دیوور کو سب سے خوشحال ریاست بنا دیا۔ تاہم موجودہ دور مےں اس کی اہم فصلوں یعنی کافی اور کوکا کی بین الاقوامی منڈی مےں گرتی قیمتوں کے باعث خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر رشوت ستانی نے کاشتکاروں اور بیرون ملک برآمد کنندگان کے لئے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔
تاریخ
1460ءمےں پرتگالی جہازوں کی آمد سے قبل تک اس کے بارے بہت کم علم موجود ہے۔ اہم لسانی گروہ نسبتاً قریبی دور مےں ہمسایہ ممالک سے آئے ہےں۔ لائبیریا کے کرو قبائل 16ویں صدی مےں آئے، سینوفو اور لوبی جنوب کی طرف برکینافاسو اور مالی سے ہجرت کر کے ادھر آئے ہےں۔ 18ویں اور 19ویں صدی مےں اکان لوگ آئے جن مےں باولی گھانا سے ہجرت کر کے ملک کے مشرقی حصے مےں آئے اور مالین کے لوگ گیانا سے شمال مغرب مےں پہنچے۔
ہمسائیہ گھانا کے مقابلے کوت دیوور کو غلاموں کی تجارت سے کم ہی پالا پڑا۔ یورپین غلام بنانے والے اور تجارتی جہازوں نے دوسرے علاقوں کو ترجیح دی جو ساحل کے ساتھ ساتھ واقع تھے اور جہاں بہتر بندرگاہیں موجود تھیں۔ 1840ءمےں فرانس نے دلچسپی لی اور مقامی سرداروں کو ملی بھگت سے فرانسیسی تجارتی جہازوں کو اجارہ داری ملی۔ بعدازاں انہی فرانس کی بنائی ہوئی بندرگاہوں سے غیر فرانسیسی تاجروں کو باہر رکھا گیا اور بتدریج اندر کی طرف فتوحات کو جاری رکھا گیا۔ یہ کام 1890ءمےں ہونے والی مینڈرینکا کی فوجوں جو کہ زیادہ تر گیمبیا کی طرف سے آئی تھیں، کے خلاف طویل جنگ کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 1917ءتک باولے اور دیگر قبائل کی طرف سے گوریلا جنگ جاری رہی۔ فرانس کا بنیادی مقصد برآمدات کا فروغ تھا۔ کافی، کوکا اور پام آئل کی فصلوں کی کاشت ساحل کے ساتھ کرنے پر زور دیا گیا۔ یہاں کوکا، کافی اور کیلے کے باغات کی ایک تہائی فرانسیسی آبادکاروں کی ملکیت تھی اور جبری مزدوری کا نظام معیشت مےں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک باﺅل سردار کا بیٹا فیلکس ہوفویٹ بوئیگنی کوت دیوور کی آزادی کا سبب بنا۔ 1944ءمےں اس نے ملک مےں اپنے جیسے افریقی کوکا کے کاشتکاروں کی پہلی زرعی ٹریڈ یونین بنائی۔ فرانسیسی پالیسی کے خلاف انہوں نے نئے آبادکاروں کو اپنی مزروعہ زمینوں پر کام کے لئے تیار کیا۔ ہوفویٹ بوئیگنی کو جلد ہی عروج حاصل ہوا اور ایک ہی سال کے اندر اندر اسے پیرس مےں فرانسیسی پارلیمان کا ممبر چن لیا گیا۔ ایک سال بعد فرانس نے جبری مزدوری کو ختم کر دیا۔ ہوفویٹ بوئیگنی نے فرانسیسی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کئے اور یہ تاثر دیا کہ اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ یہ کئی سال تک جاری رہا۔ فرانس نے اسے وزیر کا عہدہ دیا جو کہ پہلی بار کسی افریقی کو یورپی حکومت مےں ملا تھا۔ 1958ءمےں کوت دیوور فرانسیسی کمیونٹی کا خودمختار رکن بن گیا۔ کوت دیوور کی آزادی کے وقت یہ ملک خطے مےں کل برآمدات کا 40فیصد حصہ پیداکرتا تھا۔ جب ہوفویٹ بوئیگنی پہلا صدر بنا تو اس کی حکومت نے کاشتکاروں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت دینا شروع کی جس کے نتیجے مےں پیداوار مےں اضافہ ہوا۔ کافی کی پیداوار مےں اتنا اضافہ ہوا کہ کوت دیوور دنیا کا تیسرا بڑا کافی پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ 1979ءمےں یہ ملک کوکا کی پیداوار کا دنیا مےں سب سے اہم ملک تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ افریقہ کا سب سے بڑا انناس اور پام آئل برآمد کرنے والا ملک بھی بن گیا۔ فرانسییس تیکنیک کاروں نے اس معجزے کو ممکن بنایا۔ افریقہ کے دیگر علاقوں مےں ممالک کی آزادی کے ساتھ ہی ساتھ یورپیوں کو نکلنا پڑا جبکہ کوت دیوور مےں انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ فرانسیسی کمیونٹی مےں آزادی سے قبل کے مقابلے مےں 10000سے 50000کا اضافہ ہوا جن مےں اکثریت استادوں اور مشاورت دانوں کی تھی۔ 20سال تک ملکی معیشت مےں تقریباً 10فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ان افریقی ممالک مےں سب سے زیادہ تھا جو تیل نہیں پیدا کرتے۔
سیاسی طور پر ہوفویٹ بوئیگنی نے سختی کے ساتھ، یا یوں کہیں کہ آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کی۔ صحافت آزاد نہ تھی اور صرف ایک سیاسی جماعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ اس پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے وسیع پیمانے والے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی۔ کچھ لوگوں کو اس کی جانب سے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اس کے گاﺅں کی دارالحکومت مےں منتقلی پر اعتراض تھا تو کچھ لوگوں کو اس کی طرف سے امن، تعلیم اور مذہب کو ملک کے وسط مےں ایک مقام دینے پر خوشی تھی۔ لیکن 1980ءمےں عالمی مندی اور مقامی قحط نے آئیوری کی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا۔ جنگلات کی حد سے زیادہ کٹائی اور چینی کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب بیرونی قرضہ جات کی مقدار تگنی ہوگئی۔ عابد جان مےں جرائم کی شرح مےں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ 1990ءمےں سینکڑوں سرکاری ملازمین نے طلبا کا ساتھ دیتے ہوئے رشوت ستانی کے خلاف ہڑتال کر دی۔ عوامی بے چینی نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو اجازت دے۔ ہوفویٹ بوئیگنی بہت زیادہ کمزور ہوتا گیا اور 1993ءمےں انتقال کر گیا۔ اس نے ہنری کونان بیڈی کو اپنے جانشین بنانے کی حمایت کی۔
اکتوبر 1995ءمےں غیر منظم اور بکھری ہوئی اپوزیشن کے خلاف اکثریت سے انتخابات جیت لئے۔ اس نے سیاسی زندگی کے گرد اپنا جال مضبوط کیا اور سینکڑوں مخالفین کو جل مےں ڈال دیا۔ اس کے برعکس معاشی صورتحال بہتر ہوئی اور بظاہر افراط زر کی شرح مےں کمئی ہوئی اور بیرونی قرضہ جات کو اتارنے کی کوشش کی گئی۔ ہوفویٹ بوئیگنی کے برعکس، جو کہ کسی بھی لسانی یا گروہی اختلاف کے لئے بہت محتاط تھا، اس نے ہمسایہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے لئے انتظامی عہدے خالی کر دیئے۔ چونکہ برکینافاسو سے بہت سارے لوگ آئیوری آبادی کا بڑا حصہ تھے، ان کی ترقی کے راستے مسدود ہوگئے اور اس پالیسی کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو آئیوری کی شہریت نہ مل سکی اور مختلف لسانی اور نسلی گروہوں مےں خلیج بڑھتی چلی گئی۔
اسی طرح بیڈی نے فوج سے اپنے کئی پوشیدہ مخالفین کو ہٹایا۔ 1999ءکے آخر مےں غیر مطمئن افسران نے فوجی بغاوت کی اور جنرل رابرٹ گوئی کو حکمران بنایا۔ بیڈی فرانس فرار ہوگیا۔ اس فوجی بغاوت نے جرائم کی شرح مےں کمی کی اور کرپشن کو روکا۔
اکتوبر 2000ءمےں صدارتی انتخابات ہوئے جن مےں لاورنٹ گباگبو نے گوئی کا مقابلہ کیا لیکن یہ سب پرامن نہ رہا۔ اس کے نتیجے مےں عوام اور فوج مےں بے چینی پیدا ہوئی۔ گوئی نے انتخابات مےں دھاندلی کی کوشش کی جس کے نتیجے مےں عوامی مزاحمت ہوئی اور 180افراد مارے گئے اور گوئی کی جگہ اس کے مقابل گباگبو نے لے لی۔ الاسا نے اواتارا کو ملکی سپریم کورٹ نے اس کی متنازعہ برکینا بے کی شہریت کے سبب نااہل قرار دیا۔ موجودہ اور اس کے بعد کی آئینی ترامیم نے غیر شہری کو صدر ہونے سے روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے مےں متشدد احتجاج شروع ہوئے جس مےں اس کے حامیوں نے جو کہ زیادہ تر شمال سے تھے، یا موسوکرو مےں پولیس کے خلاف ایک طرح کی جنگ لڑی۔
19ستمبر 2002ءکی علی الصبح صدر کا تختہ الٹنے کی ایک فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی۔ اس دوران صدر اٹلی کے دورے پر تھا۔ دستوں نے کئی شہروں پر حملہ کیا۔ دوپہر تک فرانس کی طرف سے حکومت کے حق مےں مداخلت کی گئی تاہم یہ ابھی تک نہیں کہا جاسکتا کہ اس مداخلت کے سبب صورتحال بہتر ہوئی کہ بدتر۔ تاہم دن کے اختتام تک ملک کے شمال پر ان کا کنٹرول ختم ہو چکا تھا جو کہ آج تک جنوب سے کٹا ہوا ہے۔ جنوب کے لئے ہونے والی لڑائی بہت سخت تھی۔ مین جینڈارماری بیرک کے لئے عابد جان مےں ہونے والی لڑائی اگلے دن صبح تک جاری رہی۔ اس رات کیا ہوا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ حکومت نے دعویٰ کیاکہ سابقہ صدر رابرٹ گوئی نے فوجی بغاوت کی سربراہی کی اور ریاستی ٹی وی نے اس کی اور پندرہ دگر افراد کی لاشیں سڑکوں پر پڑی دکھائیں۔ مخالفین کاکہنا ہے کہ ان لوگوں کو گھروں پر قتل کر کے سڑکوں پر ڈالا گیا تاکہ انہیں مجرم گردانا جاسکے۔ الاسا نے اوتارا نے فرانسیسی سفارت خانے مےں پناہ لی اور اس کا گھر جلا دیا گیا۔ صدر گباگبو نے اپنا اٹلی کا دورہ مختر کر دیا اور ملک واپسی پر یہ اعلان کیا کہ کچھ باغی ان قصبوں مےں چھپے ہوئے ہےں جہاں غیر ملکی مہاجرین ورکر رہتے ہےں۔ جینڈآرمس نے ہزاروں گھروں کو بلڈوز کیا اور جلا دیا جبکہ مکینوں پر بھی حملے کئے گئے۔ باغیوں سے ہونے والا فائربندی کا معاہدہ عارضی ثابت ہوا اور کوکا کی کاشت کے علاقوں مےں لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی۔ فرانس نے اپنے فوجیوں کو بھیجا تاکہ فائر بندی، سرحدوں اور ملیشیا کو روکا جاسکے جس سے لائبیریا اور سیرالیون سے آنے والے جنگی سردار اور جنگجوﺅں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
جنوری 2003ءمےں صدر گباگبو اور باغی رہنماﺅں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے ”ملکی اتحاد کے لئے حکومت“ بنانے کا کہا گیا تھا۔ کرفیو اٹھا لیا گیا اور فرانسیسی دستوں نے مغربی لاقانونیت کا شکار علاقہ صاف کر دیا۔ تب سے متحدہ حکومت انتہائی غیر مستحکم ثابت ہوئی ہے اور مرکزی مسائل ویسے کے ویسے ہےں اور کوئی بھی اپنے مقاصد مےں کامیاب نہیں ہو رہا۔ مارچ 2004ءمےں 120لوگ اپوزیشن کی ریلی مےں مارے گئے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم سے پیداہونے والے حالات مےں غیر ملکیوں کا انخلا کیا گیا۔ بعدازاں ایک رپورٹ مےں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قتل پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے امن سفارت کار تعینات کئے گئے تاکہ زون آف کانفیڈنس قائم رہ سکے لیکن گباگبو اور اپوزیشن کے تعلقات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
نومبر 2004ءکے اوائل مےں امن معاہدے کی ناکامی کے بعد باغیوں نے غیر مسلح ہونے سے انکار کر دیا اور گباگبو نے باغیوں کے خلاف فضائی حملے کا حکم دے دیا۔ بوآ کے مےں ہونے والے ان حملوں مےں فرانسیسی فوجی بھی شکار ہوئے اور نو فوجی مارے گئے۔ آئیوری حکومت کے مطابق یہ غلطی تھی لیکن فرانسیسیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جان بوجھ کر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب مےں انہوں نے آئیوری کے طیاروں کو تباہ کیا جس کے بعد فرانس کے خلاف متشدد بغاوتیں عابد جان مےں شروع ہوگئیں۔ گباگبو کی اصلی صدارتی مدت 30اکتوبر 2005ءمےں ختم ہو رہی تھی لیکن ملکی حالات کے پیش نظر انتخابات کا ہونا غیر یقینی تھا اور اس کے نتیجے مےں صدارتی مدت مےں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا اضافہ کیا گیا۔ اس کا منصوبہ افریقی یونین نے بنایا تھا اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظور کیا۔ اکتوبر 2006ءکی ڈیڈ لائن پہنچنے کے بعد یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اب بھی انتخابات کا انعقاد مشکوک ہے لیکن اپوزیشن نے گباگبو کو مزید مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ سلامتی کونسل نے صدارتی مدت مےں ایک سال کا مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی منظور کیا کہ وزیراعظم کے اختیارات کوبڑھا دیا جائے۔ اگلے ہی دن گباگبو نے کہا کہ اس قرارداد کے نکات ملکی آئین سے متصادم ہےں اس لئے ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور باغیوں مےں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت، جسے نیو فورس کا نام دیا گیا، 4مارچ 2007ءکو اس پر دستخط ہوئے اور نتیجتاً نیو فورسز کے لیڈر گویلیام سورو وزیراعظم بن گئے۔ کچھ مبصروں نے ان واقعات کو گباگبو کی مضبوطی مےں اضافے کی نظر سے دیکھا۔ 

Saturday, 25 August 2012

کموروز Comoros History


کموروز
Comoros
محل وقوع
یہ بحرہند مےں موجود تین چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے اور ان کے نام گرینڈ کومورو، آنجوان اور موہیلی ہےں۔ موز چینل مےں شمال مشرقی مڈغاسکر اور جنوب مشرقی افریقہ کے مابین واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں موزمبیق اور مشرق مےں مڈغاسکر ہےں۔ جزیرہ میوٹ اس سے کچھ فاصلے پر ہے۔ آب و ہوا سارا سال گرم رہتی ہے۔ مئی تا اکتوبر موسم خشک رہتا ہے۔ ساحلی علاقوں مےں موسم معتدل رہنا ہے۔ ساحل 230میل لمبا ہے۔
لوگ
یہاں مسلمان 98فیصد ہےں۔ انڈونیشیا اور ایران سے آئے ہوئے لوگوں کی بھی کافی تعداد یہاں موجود ہے۔ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہےں۔ شرح خواندگی صرف 15فی صد ہے۔ 20فیصد سے کم بچے سکول جاتے ہےں۔ صحت عامہ پر کم توجہ ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 54برس اور عورتوں کی 58برس ہے۔ آبادی مےں سالانہ شرح اضافہ 35فی صد ہے۔ اطفال مےں اموات کی شرح 91فی ہزار ہے۔
وسائل
80فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں جو کل قومی پیداوار کا 44.8فی صد ہے۔ قہوہ، کایرا، ونیلا اور کوکو اہم زرعی پیداوار ہےں۔ پھل بھی پیدا ہوتے ہےں۔ 35فی صد رقبے پر کاشت ہوتی ہے۔ معدنیات مےں کوئی چیز قابل ذکر نہیں۔ صنعتی طور پر انتہائی پسماندہ ملک ہے۔ لکڑی چیرنے، سیمنٹ سازی اور عطریات کی چھوٹی موٹی صنعتیں یہاں موجود ہےں جو کل پیداوار کا 5فیصد فراہم کرتی ہےں۔ ریلوے کا نظام موجود نہیں ہے۔ سڑکوں کی لمبائی ایک ہزار میل ہے۔ مارونی قدرتی بندرگاہ ہے۔ اس کے علاوہ زاﺅزی بھی اہم بندرگاہ ہے۔ ایکونی یہاں کا ہوائی اڈہ ہے جو مارونی کے جنوب مےں واقع ہے۔
تاریخ
1525ءمےں پرتگیزی جہاز ران ڈیگورپیرو نے اس کو دریافت کیا۔ 1591ءمےں برطانوی ملاح جیمزلنکاسٹراس کے ساحل پر اترا۔ پھر یہاں مسلمان تاجروں کی آمدورفت سے اسلام پھیلا۔ 1841ءتک یہاں مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ 1841ءسے 1909ءتک یہاں فرانس نے حکومت کی۔ 1974ءمےں ریفرنڈم کے ذریعہ یہ ملک آزاد ہوا۔ جولائی 1975ءمےں یہاں کے باشندوں نے فرانس سے یک طرفہ آزادی کا اعلان کر دیا۔ صرف میوٹ کے عیسائی باشندوں نے فرانس کا ساتھ دیا۔ صدر علی صالح نے اگست 1976ءمےں صدر عبداللہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 13مئی 1978ءکو صدر علی صالح کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 19مئی 1978ءکو احمد سید عبداللہ صالح نے اقتدار سنبھالا۔ ستمبر 1984ءمےں وہ دوبارہ منتخب ہوئے۔ دسمبر 1987ءمےں ان کے خلاف بغاوت ہوئی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ 26نومبر 1989ءکو انہیں قتل کر دیا گیا۔ جناب حریب ایشیابی نے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالا جو سپریم کورٹ کے جج تھے، بعد مےں محمد جوہر نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
28ستمبر 1995ءمےں کرائے کے فوجیوں کے ایک گروہ نے بوب ڈینارڈ کی قیادت مےں کموروز جزائر پر قبضہ کر لیا۔ فرانس نے فوراً اس بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے اور صدر ژاک شیراک نے اپنی سپیشل فورسز کو حکم دیا کہ وہ جزیرے پر چڑھ دوڑیں۔ صدر شیراک نے یہ اقدام 1978ءکے ایک دفاعی معاہدے کے تحت کیا تھا۔ 3اکتوبر کے روز فرانس کے فوجی دستے کموروز پر اترے تاہم ڈینارڈ نے اپنے فوجیوں کو جنگ نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ سات گھنٹوں کے اندر اندر فرانس کی فوج تمام اہم مقامات پر قابض ہو چکی تھی۔ ڈینارڈ اور اس کے فوجیوں نے اگلے روڈ ہتھیار ڈال دیئے۔ اس آپریشن مےں کوئی ایک جان بھی ضائع نہیں ہوئی۔
مارچ 1996ءمےں صدارتی انتخابات کے بعد محمد تقی عبدالکریم صدر بن گئے۔ تقی عبدالکریم اس شہری حکومت مےںبھی شامل تھے جو ڈینارڈ نے قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1997ءمےں آنجوان اور موہیلی نے کموروز سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے بزور ان جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ افریقی یونین نے فریقین مےں صلح کرانے کی کوشش کی اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہی۔ مئی 2006ءمےں احمد عبداللہ سامبی کو آنجوان کے جزیرے سے کموروز کی یونین کا صدر منتخب کیا گیا۔ احمد عبداللہ ایک اعتدال پسند عالم دین ہےں اور ملکی حلقوں مےں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہےں۔ 

کرغستان Kyrgyzstan History


کرغستان
Kyrgyzstan
محل وقوع
وسط ایشیاءکی اس ریاست کے شمال مےں قازقستان، مغرب مےں ازبکستان، جنوب مغرب مےں تاجکستان اور مشرق مےں چین شامل ہےں۔
اس کی چار ہزار ایک سو ستر کلومیٹر لمبی سرحد زیادہ تر قدرتی سرحدوں، پہاڑی سلسلوں اور دریاﺅں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک پہاڑی ملک ہے۔ یہ تین فٹ سطح سمندر سے بلند ہے۔ سلسلہ کوہ کا مغربی حصہ بھی شامل ہے۔ پوبیدار فتح سب سے بلند چوٹی ہے جو 7439 میٹر اونچی ہے۔ جوساری و جاز، تارین اور چنگل اہم دریا ہےں بحیرہ ارال مےں گرتے ہےں۔ یہاں کا موسم پہاڑوں مےں نیم گرم اور معتدل ہے۔ بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہےں۔ اس لئے اکثر حصے موسم سرما مےں سخت سرد ہوتے ہےں۔
لوگ
یہاں مسلمانوں کی آبادی 75فیصد ہے۔ روسی 20فیصد اور 5فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہےں۔ نسلی اعتبار سے 48فی صد لوگ کرغز ہےں، 26فی صد روسی، 3فی صد یوکرائنی، 12فی ازبک اور 2فی صد تاتار۔
کرغستان اکیڈمی آف سائنسز یہاں کا سب سے بڑا تعیلمی ادارہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی پرائمری اور ثانوی تعلیم کے لئے 2000ءکے لگ بھگ ادارے موجود ہےں۔ دس ہزار سائنسدان تحقیق و تدریس مےں مصروف ہےں۔ لوگوں کا علاج معالجہ مفت ہے۔
وسائل
ملک مےں زراعت جدید انداز اور جدید مشینری سے کی جاتی ہے۔ زراعت پیشہ افراد زیادہ تر مویشی اور گھوڑے پالتے ہےں۔ کپاس، چاول، تمباکو اور شکرقندی اہم فصلیں ہےں۔ یہاں پھل اور سبزیاں بھی کاشت کی جاتی ہےں۔ اس ملک مےں کان کنی بہت ترقی یافتہ ہے۔ یہاں بڑی بڑی کوئلے کی کانیں ہےں۔ تیل اور گیس، ہیلی سائی ازباس، کنت اور چنگیز تاش نامی مقامات مےں موجود ہےں۔ یہاں انجینئرنگ اور دھات سازی کے بڑے بڑے کارخانے ہےں۔ آہنی و غیر آہنی دھات سازی کے علاوہ کپڑا اور جوتے، سوتی دھاگا، غذائی اشیاءکو ڈبہ بند کرنا، بجلی کے بلب، شکر تیار کرنے اور سگریٹ سازی کے کارخانے موجود ہےں۔
یہاں 1916ءمےں سب سے پہلے ریلوے لائن تعمیر ہوئی۔ یہ اندیحان کو جلال آباد سے ملاتی ہے۔ یہاں ہزاروں میل لمبی پکی سڑکیں ملک کے ہر حصے مےں موجود ہےں۔ 1965ءمےں 562کلومیٹر لمبی فرونزے اوش موٹروے تعمیر کی گئی تھی۔ اس سڑک مےں ایک دو ہزار پانچ سو ساٹھ میٹر لمبی سرنگ بھی ہے۔ اندرون ملک و بیرون ملک کے لئے ہوائی سروس موجود ہے۔
تاریخ
یہاں کے عوام 13صدی تک خودمختار تھے۔ 1864ءمےں وہ قوقتد کی امارات کے ساتھ روس مےں شامل ہوئے۔ 1917ءتک روسی انقلاب کے بعد یہ سارا کرغیز کا خودمختار علاقہ تھا۔ 1926ءمےں اس کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ 1936ءمےں سوویت یونین کی ایک جمہوریہ قرار دیا گیا۔ 1991ءکو سوویت یونین کے ختم ہونے پر ایک آزاد اور خودمختار ملک بن گیا۔ 25دسمبر 1991ءکو آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کا قیام عمل مےں آیا تو کرغستان نے بھی اس مےں شمولیت اختیار کی۔ 2مارچ 1992ءمےں اقوام متحدہ کا رکن بنا۔
30جنوری 1994ءصدر عسکراکائیوف 96.7فی صد ووٹ لے کرمزید پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ 1996ءمےں ایک ریفرنڈم کے تحت رائے دہندگان نے صدر مملکت کو غیر معمولی آئینی اختیارات دے دیئے۔ اپریل مےں روس، چین، قازقستان اور تاجکستان نے عدم جارحیت کا معاہدہ کیا۔ اکتوبر 2000ءمےں صدارتی انتخابات ہوئے جو عسکراکائیوف نے 75فیصد اکثریت سے جیت لئے تاہم حزب اختلاف نے الزام لگایا کہ انتخابات مےں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ 2001ءمےں کرغستان مےں امریکہ نے فوجی اڈے قائم کئے تاکہ وہاں سے فوج بھیج کر افغانستان مےں طالبان اور القاعدہ پر حملہ کیا جاسکے۔ 
2003ءمےں ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد اکائیوف کے اختیارات مےں مزید اضافہ ہوگیا۔ جلد ہی پارلیمان نے صدر کو عمر بھر کے لئے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے بالاتر قرار دے دیا۔ 2005ءکے پارلیمانی انتخابات کو بھی عالمی اداروں کی طرف سے آزاد اور منصفانہ ہونے کی سند نہ مل سکی۔ کچھ عرصہ بعد عوام کی بے چینی نے ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی اور حالات اس حد تک بگڑے کہ صدر اکائیوف کو بھاگ کر ماسکو مےں پناہ لینا پڑی تاہم انہوں نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ 

Friday, 24 August 2012

قطر Qatar History


قطر
Qatar
محل وقوع
یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ہے جو براعظم شمالی افریقہ مےں واقع ہے۔ مشرق وسطیٰ کی آزاد ریاست ہے۔ مغرب مےں سعودی عرب اور جنوب مےں متحدہ عرب امارات ہےں۔ سعودی عرب اور قطر کی سرحد 35میل طویل ہے۔ اس کا ساحل 350میل لمبا ہے۔ اس کی سطح صحرائی اور پتھریلی ہے، اسی لئے آب و ہوا گرم ہے۔ بارش بہت کم ہوتی ہے۔ گرمیوں مےں درجہ حرارت 100 درجے فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ 
لوگ
93.4فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ دیگر مذاہب مےں 5.9 فی صد عیسائی، 1.1 فی صد ہندو، بہاری 0.2 فی صد اور دوسری اقوام کے 0.4 فی صد لوگ شامل ہےں۔ 121افراد فی مربع میل مےں رہتے ہےں۔ 40فی صد تارکین وطن سعودی عرب، 18 فی صد پاکستان، 14 فیصد ایران اور 10فی صد بھارت سے تعلق رکھتے ہےں۔ شرح خواندگی 76فی صد ہے۔ 6سے 12سال کے بچے کے لئے تعلیم لازمی ہے اور یہ تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 69سال اور عورتوں کی 70سال ہے۔ 399افراد کے لئے ہسپتالوں مےں ایک ڈاکٹر اور 518افراد کے لئے ایک بستر میسر آتا ہے۔ اطفال مےں اموات کے شرح 24فی ہزار ہے۔ 
وسائل 
یہاں سب سے بڑا وسائل کا ذریعہ تیل گیس ہے۔ دخان سے تیل نکالا جاتا ہے۔ ام سعید مےں آئل ٹرمینل ہے۔ یہاں قدرتی گیس کے ذخائر پائے جاتے ہےں جو دنیا کے ذخائر کا 12فیصد ہےں۔ تیل کی دریافت 1939ءاور پیداوار کا سلسلہ 1940ءمےں شروع ہوا تھا۔ قومی آمدن کا 75 فی صد حصہ تیل کی مد مےں وصول ہوتا ہے۔ یہاں کی زراعت بہت محدود ہے۔ 10فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ سبزیاں بہت زیادہ کاشت ہوتی ہےں۔ اہم فصلوں مےں گندم، ٹماٹر، سبزیاں، کھجوریں اور جو وغیرہ شامل ہے۔ یہاں سمندری کھارا پانی صاف کر کے زراعت کے کام آتا ہے۔
تیل صاف کرنے کی صنعتیں بہت وسیع ہےں۔ فولاد، کھاد، آٹا اور ایلومینم کی صنعتیں بھی قائم ہےں۔ 76فی صد لوگ صنعتوں سے وابستہ ہےں۔ ریلوے کا نظام بالکل نہیں ہے۔ تاہم سڑکوں کا نظام نہایت وسیع اور عمدہ ہے۔ دوحا اور ام سعید اہم بندرگاہیں ہےں۔ قطر کی اپنی ایئر سروس نہیں البتہ گلف ایئر مےں اس کے حصص ہےں۔ اہم درآمدات مےں اشیائے خوردنی، عمارتی مشینری، بجلی کا سامان، مویشی ایئر کنڈیشننگ مشینری اور موٹر گاڑیاں شامل ہےں جبکہ سب سے اہم برآمدی آئٹم خام پٹرولیم ہے، قومی آمدن کا سو فی صد اسی معدنی دولت سے حاصل ہوتا ہے۔
تاریخ
یہ ملک پہلے بحرین کا حصہ تھا۔ پھر 1872ءمےں ترکوں نے یہاں قبضہ کر لیا جو 1915ءتک رہا۔ 1916ءمےں ترکوں کی عثمانی سلطنت کے خاتمے پر برطانیہ اور قطر مےں ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے مےں دفاع اور خارجہ امور کی ذمہ داری برطانیہ کی قرار پائی۔ اس سروس کی بدولت برطانیہ کو یہاں تجارتی مراعات مل گئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد قطر کے عوام نے برطانیہ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ 15اگست 1971ءکو برطانیہ اور قطر کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت 1916ءکا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا اور برطانیہ سمیت ساری دنیا نے قطر کو آزاد اور خودمختار مملکت تسلیم کر لیا۔
1960ءسے 1972ءتک امیر احمد بن الثانی یہاں حکمران رہے۔ شیخ خلیفہ ابن حماد الثانی جو ان کے چچازاد بھائی بھی ہےں، نے ان کو معزول کر کے 22فروری 1972ءکو اقتدار سنبھال لیا۔ انہوں نے قطر کی ترقی کے لئے بہت کام کیا۔ صنعتوں کو ترقی دی گئی، سٹیل پلانٹ اور پٹرو کیمیکل انڈسٹری ملک مےں لگائی گئی۔ 1977ءمےں تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا۔ 1978ءمےں 300ملین ڈالر کی لاگت سے پیٹرو کیمیکل پلانٹ لگایا گیا۔ قطر مےں 1984ءمےں سب سے پہلے انہی کے دور اقتدار مےں تیل صاف کرنے کا کارخانہ لگایا گیا۔ 1991ءمےں گہرے سمندر مےں گیس کے بہت بڑے ذخیرے نارتھ فیلڈ سے گیس کی فراہمی شروع ہوئی جس پر 20فی صد علاقے کا دعویٰ ایران نے کیا۔
جولائی 1988ءمےں قطر نے، عوامی جمہوریہ چین سے سفارتی تعلقات قائم کئے۔ جون 1992ءمےں امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا۔ 1992ءمےں ہی سعودی عرب کے ساتھ پیداشدہ سرحدی تنازعہ کو ختم کر کے دوستی کو دوبارہ شروع کیا گیا۔ 1993ءمےں اگرچہ امارات کا منصف خلیفہ ابن حماد کے پاس ہی رہا مگر ان کے ولی عہد اور وزیر دفاع حماد ابن خلیفہ نے امور سلطنت کی زیادہ تر ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ آنے والے دو سالوں مےں دونوں ایک دوسرے کی مشاورت سے سلطنت کا انصرام کرتے رہے۔ 27جون 1995ءکے روز حماد ابن خلیفہ نے ایک پرامن انقلاب کے ذریعے اپنے والد کو معزول کر دیا اور امارات کا منصب سنبھال لیا گیا۔ 1996ءمےں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ اب دونوں باپ بیٹا مےں صلح ہو چکی ہے اور حماد ابن خلیفہ امارات کی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی نباہ رہے ہےں۔
اپریل 2003ءمےں امیر نے ایک نیا آئین متعارف کرایا جسے جون 2005ءمےں منظور کر لیا گیا۔ اس آئین کے ذریعے امیر نے جمہوریت کی طرف پیش قدمی کے عمل کا آغاز کیا۔ اخبارات کو زیادہ آزادی فراہم کی اور پارلیمانی انتخابات کے نقیب کے طور پر میونسپل انتخابات کا انعقاد کرایا۔ امیر کئی بار قطر کو ایک جمہوری ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کر چکے ہےں۔ حالیہ سالوں مےں معاشی، سماجی اور جمہوری اصلاحات روبہ عمل لائی گئی ہےں۔ 2003ءمےں ایک خاتون کو وزیر تعلیم بھی مقرر کیا گیا۔