پاکستان کا ایٹمی پروگرام
جب افغان جنگ کے ابتدائی تین سال میں مجاہدین نے قابض روسی افواج کو پے در پے ضربات پہنچا کر ادھ مووا کر دیا تو 1982ءمیں پہلی مرتبہ امریکیوں کی باسی کڑھی میں اُبال آیا اور انہوں نے دیکھا کہ مجاہدین نے پاکستان، چین اور سعودی عرب کی مدد سے روسیوں کو دبوچ لیا ہے تو وہ بھی کامیابی کے ثمرات سمیٹنے اور ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے مجاہدین اور پاکستان کی مدد کو پہنچ گئے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ بدنام زمانہ پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کو فوجی و اقتصادی پابندیوں کی زنجیر میں جکڑ چکے تھے۔ افغان جنگ میں شمولیت کے حوالہ سے امریکہ کے عزائم محض روس کو engage رکھنے تک محدود تھے۔ مجاہدین یا پاکستان کی کامیابی اسے مطلوب نہ تھی، جیسا کہ مارٹن ایونز لکھتے ہیں:۔
"Against this background, this was now a shift in United States Policy. Hitherto, the Americans had provided arms to the Mujahideen judiciously and descretely, President Regan's aims seem to have been to keep the Russian wounds bleeding, rather than to Mujahidin victory".
امریکی صدر جمی کارٹر نے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق سے رابطہ کرکے چار سو ملین ڈالر امداد کی پیشکش کی۔ ضیاءالحق نے اس رقم کو ”مونگ پھلی“ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ امریکی صدر جمی کارٹر کے ”مونگ پھلی“ کے فارم تھے، لہٰذا صدر جنرل ضیاءالحق نے طنزاً ان کی اس پیشکش کو ”مونگ پھلی“ قرار دیا تھا۔ دریں اثناءصدر کارٹر کی جگہ صدر ریگن امریکن منصب صدارت پر فائز ہو چکے تھے اور پاکستان امریکی امداد کے بغیر کامیابی کی راہوں پر گامزن تھا، بالآخر امریکہ نے مجبور ہو کر پاکستان کی شرائط کے مطابق امداد کی پیشکش کی۔ صدر ضیاءالحق نے امریکیوں کے سامنے ا پنے کارڈ بڑی مہارت سے کھیلے اور ا مریکہ کی طرف سے نہ صرف پاکستان پر عائد کردہ پابندیاں اٹھوائیں بلکہ چار سو ملین کی بجائے 3.2 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج حاصل کرنے کے علاوہ ایف 16 طیاروں اور افغان مجاہدین کیلئے سٹنگر میزائلز کا بھی مطالبہ کیا۔ ایف 16 طیاروں کی پہلی کھیپ تو 1983ءمیں ہی دے دی گئی لیکن سٹنگر میزائل کی فراہمی کیلئے کانگریس کی منظوری ضروری تھی، اس سلسلہ میں امریکی ریاستی اداروں کے مابین تین سال تک بحث مباحثہ کے بعد بالآخر 1986ءمیں امریکی کانگریس نے سٹنگر میزائل کی فراہمی کی منظوری دے دی۔
پاکستان نے اس سلسلہ میں امریکہ سے مندرجہ ذیل شرائط منوائیں:۔
-i امریکہ مجاہدین افغانستان کے ساتھ کسی قسم کا براہ راست رابطہ نہیں کر سکے گا، اور مجاہدین کو جو بھی امداد دی جائے گی، پاکستانی اداروں کے ذریعے دی جائے گی۔
-ii امریکہ پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
-iii سٹنگرمیزائل کے استعمال کا طریقہ پہلے پاکستانی ٹرینر خود امریکہ سے سیکھیں گے اور پھر افغان مجا ہدین کو سکھائیں گے۔
-iv افغان مجاہدین اودر ان کی تنظیموں کی مدد کا طریق کار اور ان سے تعلق کی نوعیت پاکستان خود طے کرے گا اور امریکہ کو اس امر سے کوئی سروکار نہ ہو گا کہ کس مجاہد گروپ کو کس قدر اور کس قسم کی مدد فراہم کی جا رہی ہے، جارج کرائیل (George Crile) نے اپنی کتاب Charlie Wilkson's War میں انکشاف کیا ہے کہ:۔
”یہ بھی ایک ناپسندیدہ راز ہے کہ جنگ افغانستان کے حوالے صدر ضیاءالحق نے شروع میں ہی ریگن سے ایک سہولت حاصل کر لی تھی کہ پاکستان کی طرف سے سی آئی اے سے تعاون کے عوض امریکہ نہ صرف بھاری امداد دے گا بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بھی صرف نظر کرے گا“۔
(ترجمہ طارق اسمٰعیل ساگر۔ بحوالہ ”افغان ستان پر کیا بیتی“ صفحہ 89)
1985ءمیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک انتہائی نازک مرحلہ آیا، جب امریکہ میں ایک پاکستانی ”ہائی سپیڈ ٹریگر“ نامی ایک ڈیوائس خریدتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ ڈیوائس ایٹمی اسلحہ چلانے کیلئے سوئچ کا کام دیتا ہے۔ اب کیا تھا، ساﺅتھ ایشیاءسب کمیٹی کے چیئر مین اور نیو یارک سے یہودی کانگریس مین، سٹیفن سولارز نے فوری طور پر سماعت کا حکم دے دیا، امریکی سی آئی اے کے اسلام آباد میں مقیم ہر سٹیشن چیف کی پہلی ترجیح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ایکسپوز کرنا ہوتی تھی۔ انہیں تو گویا ایک ثبوت ہاتھ آ گیا تھا، قریب تھا کہ امریکہ اس جرم میں پاکستان پر از سر نو پا بندیاں لگا دیتا لیکن صدر ضیاءالحق نے چارلی ولسن کو استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈلوا دیا۔ ہوا یوں کہ چارلی ولسن بھارت کے ایٹمی پروگرام کے ٹھوس شواہد لیکر سٹیفن سولارز کے پاس چلا گیا اور یہ شواہد اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات کی گئی تو پاکستان سے زیادہ بھارت بے نقاب ہو گا ، کیونکہ اس کے خلاف پاکستان سے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ اس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اٹھنے والا طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، جارج کرائیل لکھتا ہے:۔
”یہ بحران ٹل گیا لیکن پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا، ضیاءالحق اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے روز ویلٹ سے کم پُرعزم نہیں تھے، جب روز ویلٹ نے مین ہٹن پروگرام کی منظوری دی تھی، کرائین ٹریگر (ہائی سپیڈ ڈیوائس) صرف امریکہ سے مل سکتے تھے۔ ضیاءالحق نے ان کے حصول کی کوشش جاری رکھی۔ ضیاءالحق کہیں سے بھی یہ پروگرام کامیاب بنانا چاہتے تھے، چاہے ان کے ایجنٹ اس کام کے دوران پکڑے ہی کیوں نہ جائیں“۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے اس سے بھی زیادہ سخت وقت آیا، جب فلاڈلفیا سے ارشد پرویز نامی ایک پاکستانی 25ٹن ایک خصوصی قسم کا سٹیل ”الائے“ خریدتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ سٹیل ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے، امریکیوں کو یقین تھا کہ ارشد پرویز ضیاءالحق کا آدمی ہے۔ اب پاکستان کے خلاق اقدام کیلئے سٹیفن سولارز کی ترمیم تیار تھی اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس موقع پر جارج کرائل کے بقول چارلی ولسن نے ضیاءالحق کو ایک امریکی وفد سے ملنے پر راضی کیا اور دوسری طرف واپس امریکہ جا کر اس نے اہم کانگریس مین اور ممبران سینٹ کی بیگمات کا ایک وفد دورہ پاکستان پر لے آیا۔ اس وفد کو پاکستان میں افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپوں اور مہاجرین کی خیمہ بستیوں کا دورہ کرایا گیا اور جہاد افغانستان کی امریکہ کیلئے ناگزیریت سے انہیں آگاہ کیا گیا، جارج کرائل لکھتا ہے:،۔
”اس سلسلہ میں پشاور میں ایک سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا، جس میں صدر ضیاءالحق اور امریکی کانگریس مین چارلی ولسن کے علاوہ امریکی ارکان پارلیمنٹ کی بیگمات بھی شریک تھیں، اس موقع پر چارلی ولسن نے ضیاءالحق سے مخاطب ہو کر کہا“:۔
”مسٹر صدر، ونسٹن چرچل، صدر ابراہام لنکن اور صدر ضیاءالحق تاریخ کے تین ہیروز ہیں، لیکن ضیاءالحق کے بطور صدر کارنامے کی وجہ سے انسانی تاریخ کی آزاد دنیا مختلف ہو گی۔ مسٹر صدر! جہاں تک میرا تعلق ہے۔ آپ جتنے چاہیں ایٹم بم بنا لیں کیونکہ آپ ہمارے دوست ہیں اور وہ بھارتی ہمارے دشمن۔ لیکن اس پر تمام امریکیوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہے، امریکیوں کے ذہن میں کچھ سوالات ہیں جن کا آپ نے جواب دینا ہے کیونکہ اب یہ ایشو بہت اوپر اٹھ چکا ہے“۔
”چارلی ولسن تقریر کرکے روسٹرم سے نیچے آیا تو صدر ضیاءالحق ایک ہاتھ میں عینک اور دوسرے ہاتھ میں لکھی ہوئی تقریر کے کاغذات اٹھائے سٹیج پر پہنچے۔ چارلی پھر کھڑا ہو گیا اور کہا :جناب صدر، میں نے اپنی تقریر بغیر عینک لگائے اور نوٹس دیکھے کی ہے، آپ بھی فی البدیہہ تقریر کریں“۔
صدر ضیاءالحق نے کہا: چارلی میرا اچھا دوست ہے، میں اس کی بات نہیں ٹال سکتا، اور پھر انہوں نے عینک اور لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھی، ملازمین کو باہر جانے کا کہا اور اے ڈی سی کو کہہ کر ہال کا دروازہ اندر سے بند کر دیا، اس کے بعد صدر جنرل محمد ضیاءالحق ان بااثر امریکی خواتین و حضرات سے مخاطب ہوئے:۔
”افغان جنگ اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے امریکی دوستوں کی طرف سے پاکستان کی امداد بند کرنے یا پاکستان پر پابندی لگانے کی بات تاریخی بے وفائی ہو گی اور ایسا فیصلہ کرنے والوں کیلئے تاریخ کا فیصلہ بڑیا ظالمانہ ہوتا ہے۔ ہم نے اس وقت امریکہ کی شرائط تسلیم نہیں کیں۔ (وہ ان شرائط کی بات کر رہے تھے جب صدر کارٹر نے افغان جہاد کے ابتدائی سالوں میں چار سو ملین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی تھی، جسے انہوں نے ”مونگ پھلی“ کہہ کر مسترد کر دیا تھا) اب جبکہ ہم افغانستان میں روسیوں کو آگے لگا چکے ہیں اور ان کا خون بہا رہے ہیں تو امریکہ ہم سے کیسے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم اس کی شرائط مان لیں گے؟ امریکہ ہماری امداد کرے یا نہ کرے، ہم جنگ جاری رکھیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنی جانوں کا نقصان ہوتا ہے اور کتنے معذور ہو جاتے ہیں۔ جاﺅ اور امریکہ میں ہمارے دوستوں کو، جو ہماری امداد بند کرنا اور ہم پر پابندی لگانا چاہتے ہیں، بتا دو کہ ہم ان کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے“۔
(’چارلی ولسن وار‘ از جارج کرائیل بحوالہ طارق اسمٰعیل ساگر صفحہ 99)
ضیاءالحق کا واضح، دو ٹوک اور جرات مندانہ پیغام امریکی ارباب اقتدار تک پہنچا تو امریکی ایوانوں میں پاکستان کے خلاف اٹھنے والا طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، کیونکہ انہیں یہ خوب معلوم تھا کہ ضیاءالحق کو بلیک میل یا خوف زدہ کرکے اس سے اپنی شرائط نہیں منوائی جا سکتیں تھیں، پاکستان کے خلاف سولارز ترمیم کا خطرہ ٹل گیا اودر پاکستان کا ایٹمی پروگرام تیز رفتاری سے تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھنے لگا۔
oooo
No comments:
Post a Comment