گیمبیا
Gambia
آزادی، 18فروری 1965ئ۔ سرکاری نام، جمہوریہ گیمبیا۔ سرکاری زبان، انگریزی۔ طرز حکومت، جمہوریہ۔ کرنسی، دلاسی۔ فی کس آمدن، 1389ڈالر۔ کل رقبہ، 10380مربع کلومیٹر۔ دارالحکومت، بنجول۔ اہم شہر، سیرے کندا، بکاﺅ، سکوتا، گنجر۔ آبادی، 1700000 (تخمینہ 2007ئ)۔
محل وقوع
گیمبیا براعظم افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال مشرق اور جنوب مےں سینی گال اور مغرب مےں بحر اوقیانوس واقع ہےں۔ ملک کی سطح ہموار اور میدانی ہے۔ آب و ہوا گرم اور خشک ہے تاہم ساحلوں پر آب و ہوا خوشگوار ہے۔ زیادہ تر بارشیں ساحلی علاقوں پر ہوتی ہےں۔
لوگ
90فی صد لوگ مسلمان ہےں۔ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہےں جو مظاہر پرست یا عیسائی ہےں۔ 211افراد فی مربع میل مےں بستے ہےں۔ نسلی اعتبار سے 42فیصد لوگ منڈنکا، 16فیصد فولا اور 16فیصد وطوف قبائل سے تعلق رکھتے ہےں۔ زیادہ آبادی حبشی مسلمانوں کی ہے۔ لوگ بہت کم تعلیم یافتہ ہےں۔ شرح خواندگی 15فی صد ہے۔ مردوں کی اوسط عمر 47سال اور عورتوں کی 51سال ہے۔
وسائل
زراعت ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ 75فی صد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ 16فی صد رقبے پر زراعت ہوتی ہے۔ مونگ پھلی، پام، چاول اور روغنی بیج اہم زرعی پیداواریں ہےں۔ مونگ پھلی اہم تجارتی جنس ہے۔ دریائے گیمبیا ملک کے وسیع حصہ کو سیراب کرتا ہے۔ صنعتوں کے لحاظ سے کوئی صنعت ایسی نہیں جو قابل ذکر ہو۔ بخول اہم بندرگاہ ہے۔
اہم درآمدات مےں اشیائے خوردنی، مشینری، ٹیکسٹائلز، پٹرولیم پروڈکٹس کیمیکلز اور تمباکو شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں کھجور کا بیج، مچھلی کا تیل، مونگ پھلی اور اس کی پروڈکٹس کو شمار کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
گیمبیا مےں انسانی آبادکاری کے عمل نے گھانا، مالی اور سونگھے کی اسلامی مملکتوں کے زمانے مےں زور پکڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تیرھویں صدی مےں اسلام یہاں پہنچا۔ پندرھویں صدی مےں پرتگالی یہاں آئے۔ سولہویں صدی مےں پرتگالیوں نے یہاں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر لیں۔ 1588ءمےں انہوں نے تجارتی حقوق انگریزوں کے ہاتھ فروخت کر دیئے۔ 1651ءمےں انگریزوں نے یہاں جیمس فورٹ کا قلعہ تعمیر کیا اور حکمران بن بیٹھے۔
عرصہ دراز تک گیمبیا برطانیہ اور فرانس کے مابین وجہ مخاصمت بنا رہا۔ نپولین کی جنگوں کے سینی گال فرانس کے قبضے مےں چلا گیا اور برطانیہ کے تاجروں نے گیمبیا پر تسلط جما لیا۔ 1783ءمےں معاہدہ ¿ ورسائی کی رو سے یہاں برطانیہ کے تجارتی حقوق اصولی طور پر تسلیم کر لئے گئے۔ 1807ءمےں یہاں سے غلاموں کی تجارت کا خاتمہ ہوا اور 1843ءمےں اسے نو آبادی کا درجہ دے دیا گیا۔ 1866ءمےں اسے مغربی افریقہ کا حصہ بنانے کے بعد دسمبر 1888ءمےں اسے علیحدہ نو آبادی کی حیثیت دے دی گئی اور اس کی جدید تاریخ کا آغاز ہوا۔
1901ءکا سورج طلوع ہونے تک یہاں کے مقامی سردار برطانیہ سے ایسے کئی معاہدے کر چکے تھے کہ برطانیہ نے اسے اپنا محروسہ (زیر حفاظت) ملک قرار دے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد 1945ءمےں یہاں تحریک آزادی کا آغاز ہوا جو 1965ءمےں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ حصول آزادی کے بعد گیمبیا برطانوی دولت مشترکہ کا رکن بن گیا۔ ملک کو جمہوریہ قرار دینے کے سلسلے مےں ریفرنڈم ہوا لیکن دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ 1966ءمےں عام انتخابات ہوئے۔ وزیراعظم سرداﺅد جوارا کی پیپلز پروگریسو پارٹی کو واضح اکثریت ملی۔
اپریل 1970ءمےں دولت مشترکہ کے اندر رہتے ہوئے یہ جمہوریہ بنا اور اسی روز نیا آئین نافذ کیا گیا۔ داﺅد جوارا نئے آئین کے تحت صدر بنے اور مارچ 1974ءمےں عام انتخابات کے نتیجہ مےں دوبارہ 5سال کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ 1982ءمےں گیمبیا اور سینی گال کی کنفیڈریشن بنی اور جوارا کو ایک بار پھر صدر منتخب کیا گیا۔ 1984ءمےں صدر جوارا کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی امہ کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔
جولائی 1994ءمےں کیپٹن یحییٰ جمعہ نے داﺅد جوارا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور آئین معطل کر کے نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ 1996ءمےں ہونے والے انتخابات مےں کیپٹن یحییٰ جمعہ نے 55فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ 1997ءمےں سول حکومت کو بحال کر دیا گیا تاہم سیاسی جماعتوں پر پابندی رہی اور اخبارات بھی سنسر شپ کے شکار رہے۔
اکتوبر 2001ءکے انتخابات مےں یحییٰ جمعہ ایک بار پھر کامیاب رہے اور اسی سال انہوں نے سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ہٹا دیں۔ تاحال ملک کی صدارت انہی کے قبضہ قدرت مےں ہے۔
٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment