Ad

Ad

Monday, 6 August 2012

تیونس Tunisia History

تیونس
Tunisia
محل وقوع
تیونس براعظم شمالی افریقہ مےں واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق مےں بحیرہ روم، جنوب مےں لیبیا اور مغرب مےں الجزائر واقع ہےں۔ مشرق مغرب اٹلس پہاڑ اسے دو حصوں مےں تقسیم کرتے ہےں۔ ان پہاڑوں کا شمالی حصہ زرخیز ہے۔ جنوب مےں میدان ہےں شمالاً جنوباً اس کی لمبائی 470 میل اور شرقاً غرباً چوڑائی 218 میل ہے۔ ایک تہائی حصہ پر پہاڑ ہےں۔ انتسنابی سب سے بڑا پہاڑ ہے جو سطح سمندر سے 5066 فٹ بلند ہے۔
لوگ
99 فی صد لوگ مسلمان ہےں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے عیسائی اور یہودی ہےں۔ لوگ عربی زبان بولتے ہےں۔ فرانسیسی اہم قومی زبان ہے۔ فی مربع میل 131 افراد بستے ہےں۔ 98فی صد باشندے عرب بربر ہےں۔ 65 فی صد لوگ پڑھے لکھے ہےں۔ 8سال کے بچے کے لئے تعلیم لازمی ہے۔
تیونس اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کی تنظیم، مغرب عرب یونین، عرب لیگ اور افریقی اتحاد کی تنظیم کا رکن ملک ہے۔
وسائل
اراضی نصف حصہ زراعت کے لئے نجی تحویل مےں دیا جاچکا ہے۔ گندم، جو، انگور، زیتون، کھجور، مچھلی، سنگترہ، لیموں اور پستہ اہم زرعی پیداوار ہےں۔ نشیبی علاقوں مےں ایک خاص قسم کی گھاس پیدا ہوتی ہے جس سے کاغذ بنتا ہے 35 فی صد افراد زراعت سے منسلک ہےں۔
تیل اور گیس اہم معدنیات ہےں۔ فاسفیٹ اس کی اہم معدنی دولت ہے۔ اس کی کانیں جفعہ کے علاقے مےں ہےں۔ یہ فاسفیٹ برآمد کرنےوالا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہ تمام تر خام تیل اور پٹیرولیم برآمد کرتا ہے۔
بناسپتی گھی، آٹا پیسنے، شیشہ سازی، دھات کی مصنوعات، رنگ و روغن، کپڑا اہم صنعتیں ہےں۔ زیتون کا تیل نکالنے کی صنعت بڑی ترقی یافتہ ہے۔ لوگ قدیم دستکاری سے اپنی روزی کماتے ہےں۔ اپریل 1972ءمےں یہاں فری زون قائم کیا گیا۔ 22 فی صد افراد صنعت سے وابستہ ہےں۔
1393 میل لمبی ریلوے لائن موجود ہے۔ تیونس سے مرسی تک بجلی کی گاڑیاں چلتی ہےں۔ 7000 میل لمبی پکی سڑکیں ہےں۔ ساڑھے تین لاکھ کاریں اور سوا دو لاکھ کمرشل گاڑیاں چل رہی ہےں۔ نیشنل بس ٹرانپسورٹ سروس ادارہ سرکاری ہے اپنی ہوائی سروس ہے۔ پانچ بڑی ایئرپورٹس ہےں۔ ایک شپنگ کمپنی ہے۔ بزرتہ سوس اور صفاقس اہم بندرگاہیں ہےں۔
یہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہترین ترقی یافتہ ممالک سے کسی طور کم نہیں جوکہ دو معاشی مثالوں سے ثابت ہے۔
اول یہ کہ تیونس ہر طرح کے مادہ اشیاءکی پیداوار مےں خودکفیل بن گیا ہے، دوم یہ کہ تمام تر شہروں اور قصبوں کی رقبہ کے لحاظ سے تعمیر و ترقی۔ اگر کسی درمیانے درجے کی دکان کو دیکھا جائے تو اس مےں 90 فی صد اشیاءگھریلو صنعتوں کی تیار کردہ ہوتی ہےں۔ اسی طرح تعمیراتی صنعت و ترقی، اگر کسی چھوٹے قصبے (شہروں سے ہٹ کر) کا بھی دورہ کیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ترقی کی رفتار پورے ملک مےں یکساں ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے منصوبے، خصوصاً ہوٹل کی صنعت، ہوٹل تمام تر جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہےں اور کئی عمارتوں کے ڈھانچے تیار ہےں کہ جیسے ہی کسی نئی عمارت کی ضرورت ہے تو اس کو معمولی تکمیلی کام کے بعد ایک عالیشان عمارت مےں تبدیل کر دیا جائے، جس کے لئے کثیر سرمایہ بھی موجود ہے۔ تیونس ایک خودمختار خود کفیل ریاست کے طور پر موجود ہے، ایک ایسے خطے مےں کہ جہاں بھوک و افلاس، بے گھر اور بیماریوں و دیگر مسائل افریقہ اور ایشیا کے ممالک مےں عام ہےں، لیکن تیونس مےں یہ سب چیزیں ناپید نظر آتی ہےں۔
تاریخ
تاریخی حقائق کے مطابق تیونس کی ابتداءبربر قبائل سے ہوئی۔ تقریباً 10صدی قبل مسیح مےں تیونس کی بندرگاہ کی دریافت و آغاز کا سہرا فونیقی باشندوں کو جاتا ہے جبکہ صور کے باشندوں نے تقریباً 9 صدی قبل میسح شہر قرطاج کی بنیاد رکھی جو کہ آج کے جدید دور مےں لبنان کہلاتا ہے۔ کچھ مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکہ ایلیزا نے تقریباً 814 قبل مسیح اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ یونانی شہر سسلی سے جنگوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد تقریباً 5 صدی قبل مسیح قرطاج کو بالآخر فتح حاصل ہوئی اور یوں مغربی بحیرہ روم مےں قرطاج کی تہذیب مربوط انداز مےں سامنے آئی۔ قرطاج کے لوگ بتوں کے پجاری تھے، ان بتوں مےں مشرق وسطیٰ کے اس کے زمانے کے بت بعل اور تانیت کی بھی پوجا کی جاتی تھی۔ تانیت ایک لمبے ہاتھوں اور لمبے لباس والی دیوی تھی، جو کہ ایک مشہور نشان یا علامت کے طور پر اب بھی قدیم جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ قرطاج بنانے والوں نے ٹوپھیٹ بھی بنایا جس کو رومیوں نے بدل ڈالا۔
گوکہ رومیوں کے حوالے سے نیا شہر قرطاج فونیق یا فونیقی طرز مےں بڑھتا چلا گیا تاہم قرطاج کے اطراف مےں قائم ہونے والی سلطنت فونیقی بستیوں کے مقابلے مےں مغربی بحیرہ روم مےں ایک آزاد سیاسی حیثیت کی حامل تھی۔ قرطاجیوں کی جانب سے ہنی بیل کی زیر قیادت اٹلی پر حملوں کے آغاز مےں دوسری فونیقی جنگ کے دوران، جو کہ رومیوں کے خلاف جنگوں کے ایک سلسلہ اختیار کر گیا، نے رومی سلطنت کے بڑھتے ہوئے قدموں کو مفلوج کر دیا۔ قرطاج کو روم نے دوسری صدی قبل مسیح مےں فتح کر لیا جس کی بدولت اس خطہ کی تہذیب مےں ایک اہم موڑ آیا اور بحیرہ روم کی تہذیب و تمدن یورپ زدہ ہوگئی۔ رومیوں کی فتح کے بعد یہ علاقہ روم کے لئے اناج کی گودیوں کا مرکز بن گیا اور مکمل طور پر لاطینی اور مسیحی زیر اثر ہوگیا۔ تقریباً پانچویں صدی و عیسوی مےں اس کو وینڈلز نامی جنگجوﺅں نے فتح کر لیا تاہم چھٹی صدی مےں اس کو بازنطینی حکمراں جسٹینین نے فتح کر لیا۔
ساتویں صدی عیسوی مےں عرب مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدموں نے اس خطے کو بھی فتح کر لیا اور یہاں پر قیروان کی بنیاد رکھی۔ یہاں کی پشت در پشت مسلم حکمرانی مےں خلل اس وقت پڑا جب بربر قبائل کے باغیوں نے بغاوت کی۔ نویں صدی عیسوی مےں یہاں پر اغالبہ حکومت کی بنیاد پڑی جو کہ 972ءعیسوی سے زیریوں کے ہاتھ مےں آگئی، اس دور مےں فاطمی کے پیروکاروں کو کافی مالی آسودگی حاصل ہوئی۔ جب 1050ءمےں زیریوں اور فاطمیوں مےں اختلافات ہوئے تو بنو ہلال کو ایک خط بھیجا گیا جس مےں تیونس کو غارت گری کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی۔ بارہویں صدی عیسوی مےں ساحلی علاقوں پرایک بار پھر سسلی نے قبضہ کر لیا، جس کو مسلم عرب نے دوبارہ فتح کیا، نتیجتاً مسیحی تیونس سے بالکل غائب ہوگئے۔ 1159ءمےں تیونس کو موحدین نے فتح کر لیا، 1230ءبنو حفص نے اس خطے پر اپنا جھنڈا لہرایا، جن کے زیر اثر 1230ءسے 1574ءتک اس خطے نے خوب ترقی کی۔ سولہویں صدی عیسوی مےں بنو حفص کے زوال کے باعث ساحلی علاقے قزاقوں کا مضبوط گڑھ بن گئے، بنو حفص کے اختتامی سالوں مےں اسپین نے کئی ساحلی شہروں کو فتح کر لیا جو کہ خلاف عثمانیہ نے واپس لے لئے۔ ترک گورنر، حکمرانوں کے دور حکومت مےں تیونس کو غیر معینہ آزادی حاصل ہوگئی۔ اس طرح پشت در پشت چلنے والی حکومت جو کہ 1705ءمےں قائم ہوئی تھی، 1957ءمےں ختم ہوئی۔
اٹھارویں صدی کے وسط مےں جب بے سیورلے تیونس کا حکمراں تھا، کئی ایسے متنازعہ معاشی فیصلے کئے گئے، جس کے نتیجے مےں تیونس دیوالیہ ہوگیا، ایسے مےں جب بے سیورلے نے فرانس سے ایک خطیر رقم بطور قرض حاصل کی تاکہ ملک کو مغرب زدہ یا مغربی ترقی کی راہ پر ڈالا جائے تو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرانس نے تیونس پر قبضہ کے لئے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ ایک ناکام ریاست کو دیکھتے ہوئے الجزائر نے بھی کئی حملے کئے تاکہ تیونس پر قبضہ کیا جاسکے۔ کمزور بے سیورلے اس موقع پر ان حملوں کے سامنے بے بس ہوگیا اور یورپی ریشہ دوانیوں کے سامنے بھی کوئی مزاحمت نہ کر سکا۔ 1878ءمےں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا جس مےں شمالی افریقہ کے اس ملک کے مستقبل کا تعین کیا گیا۔ مشروط معاہدہ کے تحت اگر فرانس قبرص پر برطانیہ کے قبضے کو تسلیم کر لیتا ہے تو برطانیہ بھی تیونس پر فرانس کا قبضہ تسلیم کر لے گا۔ اس معاہدہ پر دونوں فریق راضی ہوگئے اور اس طرح تیونس 12مئی 1881ءکو تیونس باقاعدہ طور پر فرانس کے زیر اثر آگیا۔
1942-1943ءمےں تیونس نازی قوتوں (اٹلی اور جرمنی) کے خلاف اتحادی قوتوں (برطانوی اور امریکی) کے دوسرے جنگ عظیم کے دوران پہلے مضبوط گڑھ کی صورت مےں سامنے آیا۔ برطانوی افواج کا مرکزی دستہ جو کہ الامین کی جنگ اور پھر فتح کے تجربہ سے لیس تھے، فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری کی زیر قیادت جنوب سے تیونس مےں داخل ہوئے جبکہ امریکی و دیگر اتحادی افواج نے مغرب سے حملوں کا آغاز کرتے ہوئے الجزائر اور مراکش کے ”آپریشن ٹارچ“ کا آغاز کیا۔
شمالی افریقہ مےں نازی افواج کے کمانڈر مےں جنرل ایرون رومل جوکہ 1940ءمےں فرانس کی جنگ مےں فتح کے بعد بہت پرامید تھے کہ اتحادی افواج کو بھی فرانس کی طرح شکست سے دوچار کریں گے، تیونس کی جنگ سے قبل ناتجربہ کار اتحادی افواج، جرمنی کے ابتدائی جنگی حملوں کا سامنا کرنے کے بھی قابل نہ تھیں اور نہ ہی کوئی باہمی جنگی حکمت عملی ان کے پاس تھی۔ اس طرح تیونس کی یہ جنگ اتحادی افواج کے لئے بھی ایک بڑی آزمائش تھی۔
اس لئے اتحادی افواج نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ نازی افواج کو شکست دینے کے لئے ضروری ہے کہ تمام تر جنگی حملوں مےں مکمل باہمی ربط و ضبط رکھا جائے اور تجربہ کار جرمنی اور اٹلی کی افواج کو ہر محاذ پر بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
19 فروری 1943ءکو نازی جنرل رومل نے مغربی تیونس مےں واقع درہ ¿ قصرین کے علاقے مےں امریکی افواج پر حملہ کیا، جنرل رومل کو امید تھی کہ اس حملے کے نتیجے مےں اتحادی افواج کا حوصلہ ٹوٹ جائےگا اور اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا جس طرح جرمنی نے پولینڈ اور فرانس کو شکست دی تھی۔ اتحادی افواج نے 8اپریل کو جنگی اتحادی کو بروئے کار لاتے ہوئے صف بندی کی اور 2مئی 1943ءکو جرمنی اور اٹلی کی افواج کو شکست سے دوچار کیا۔ اس طرح امریکہ، برطانیہ، آزاد فرانس، پولینڈ (اور دیگر اتحادی افواج) نے ایک بڑی جنگ اتحادی فوج کی صورت جیت لی۔
مغربی ریشہ دوانیوں سے قبل 1881ءتک تیونس کے بندرگاہوں کا ایک حصہ ترکی کے زیر اثر تھا۔ اس وقت تک تیونس کی یورپ سے مالی امداد لے رہا تھا تاکہ تیونس مےں مالی استحکام و جدید طرز زندگی لایا جاسکے، تاہم جب تیونس کی عوام کے لئے قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کے باعث محصولات کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا تو ملک دیوالیہ ہوگیا اور یہی وہ وقت تھا کہ فرانس، برطانیہ اور اٹلی نے ایک بین الاقوامی معاہدے کے ذریعے تیونس کا نظم و نسق اپنے ہاتھ مےں لے لیا۔ ابتدائی مراحل مےں سرمایہ کاری، تہذیب و شہریت اور جغرافیائی حدود بندی جیسے محرکات کی بناءپر اٹلی نے تیونس پر تسلط کی خواہش کا اظہار کیا تاہم برطانیہ اور فرانس کے باہمی اشتراک نے اٹلی کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔ 1871ءسے 1878ءتک کی ان کوششوں کا اختتام تب ہوا کہ جب برطانیہ کے تعاون سے فرانس نے قبرص پر تبادلہ اقتدار کر لیا، یعنی فرانس نے ایک معاہدہ کے تحت قبرص پر برطانوی قبضے کو تسلیم کر لیا اور بدلے مےں برطانیہ نے تیونس پر فرانس کے تسلط کو تسلیم کر لیا۔ اٹلی کا فرانس مےں اثر قائم تھا جو کہ فرانس کے لئے ایک مسئلہ تھا، لہٰذا اس کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تیونس کے الجزائر پر حملے کے تناظر مےں فرانس نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے چھتیس ہزار فوجیوں کی مدد سے بندرگاہوں پر بھی قبضہ کر لیا اور یوں 1881ءمےں ”معاہدہ ¿ القصر السید“ وجود مےں آیا جس کے تحت تیونس کا نظم و نسق مکمل طور پر فرانس کے ہاتھوں مےں آگیا اور تیونس مکمل طور پر فرانس کے زیر اثر آگیا۔
تیونس پر فرانس کے تسلط سے جہاں تیونس کی آزادی سلب ہوئی، وہیں تیونس کو چند فوائد بھی حاصل ہوئے تاہم تیونس کی عوام مےں خودمختاری کی خواہش باقی رہی۔ 1910ءمےں علی بچ حمبہ اور بشیر اصفر نے تیونس کے نوجوانوں کو متحد کرنا شروع کیا اور 1920ءمےں جماعت دستور (آئین) بنا ڈالی۔ آزادی کی اس نئی تحریک کو دبانے کے لئے فرانس ”جزا اور سزا“ کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوگیا، یعنی جو لوگ فرانس کے وفادار ہوتے، ان کو نوازا جاتا اور جو فرانس کے مفاد کے خلاف کام کرتے، ان کے لئے سزائیں۔ اس حکمت عملی نے وقتی طور پر کام بھی کیا لیکن آزادی کی اس تحریک کو دبا نہ سکی۔ 1934ءمےں حبیب بورقیبہ، ڈاکٹر محمود ماتیر، طہر اصفر اور باحری جیجہ، جیسے لوگوں کی ولولہ انگیز قیادت مےں ”نئی جماعت دستور“ سامنے آئی۔
حبیب بورقیبہ نے زندگی کا بڑا حصہ فرانسیسی جیلوں مےں گزارا تاہم اس سے ان کی شخصیت کے تاثر یا تحریک پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ دوسری جنگ عظیم مےں نازی افواج نے ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر تیونس مےں جگہ بنانے کی کوشش کی مگر بورقیبہ نے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔
جنگ عظیم دوم کے بعد دس سال تک آزادی کی یہ تحریک جاری رہی اور بورقیبہ کی حمایت بڑھتی ہی رہی۔ 1952ءسے 1954ءکے دوران حبیب بورقیبہ کو ایک بار پھر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا نتیجتاً آزادی کی حمایتیوں کی جانب سے گوریلا حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ 1954ءمےں حالات نے تیزی سے کروٹ لی جب پیری مینڈس نے فرانس کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور نئی حکومتی پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت تمام ایسی فرانسیسی نوآبادیوں سے پیچھا چھڑانے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ فرانس کی معیشت کے لئے بوجھ بن گئیں تھیں، تیونس اس مےں شامل تھا۔ نتیجے کے طور پر اپریل 1955ءمےں معاہدہ عمل مےں آیا، جس کے تحت تیونس کو اندرونی خودمختاری دی گئی جبکہ بیرونی و بین الاقوامی تعلقات عامہ کا نظم و نسق فرانس کے پاس ہی رہا۔ کچھ اسی طرح کی انتظامی تبدیلیاں ترکی کی بندرگاہوں کے ساتھ بھی کی گئیں جو کہ 1881ءکے معاہدہ کے زیر اثر تھیں۔
نئی دستور جماعت اب قابو مےں تھی تاہم حبیب بورقیبہ نے اس وقت تک کسی بھی قسم کی انتظامی ذمہ داری قبول کرنے سے انکارکر دیا کہ جب تک تیونس کو مکمل خودمختاری نہ دی جائے۔ ان کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا کیونکہ الجزائر کی جنگ آزادی نے فرانس کی بستیاں بنانے کی خواہش کو بدل ڈالا اور یوں ”معاہدہ ¿ القصر السید“ ختم ہوگیا اور 20مارچ 1956ءکو تیونس کو مکمل خودمختاری مل گئی۔ حبیب بورقیبہ وزیراعظم بنے اور پھر 1957ءمےں جمہوریہ ¿ تیونس کے پہلے صدر بن گئے۔
1959ءمےں ملک کو نیا دستور ملا۔ 8نومبر کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ اب ملک چودہ ولایتوں مےں منقسم ہے اور ہر ولایت کا حاکم والی کہلاتا ہے۔ اس کے معاون کو معتمد کا نام دیاج اتا ہے۔
1967ءکی عرب اسرائیل جنگ مےں شرکت کرنے سے تیونس نے انکار کر دیا کیونکہ ایسا کرنے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ اس دور مےں کھڑی ہونے والی اسلام پسند تحریک کو ”بنیاد پرست“ قرار دے کر دبانے کی کوشش کی گئی۔
حبیب بورقیبہ نے 1987ءتک حکومت اور اس کے بعد بوجہ علالت سبکدوش ہوگئے۔ ان کی جگہ زین العابدین بن علی کو صدرمنتخب کیا گیا۔ اس سے پہلے ملک کی معاشی حالت بگاڑ کی طرف مائل تھی۔ آئی ایم ایف کی لگائی ہوئی شرائط حکومت کو بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں مےں اضافہ کرنے پرمجبور کر رہی تھیں۔ عوام مےں بے چینی بڑھ رہی تھی اور اسلام پسندوں کی سرگرمیوں مےں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان حالات مےں زین العابدین بن علی نے اقتدار سنبھالا۔
1988ءمےں بن علی نے اسلام پسندی کے خطرے پر قابو پانے ملک کے اسلامی تشخص کو دوبارہ اجاگر کیا۔ کئی اسلامی کارکنوں کو جیل سے رہا کر دیا اور اسلام پسند جماعت حرکت الاتجاہ الاسلامی کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس کے نتیجے مےں 1989ءکے انتخابات مےں اسلام پسند عناصر کو پہلے سے کچھ زیادہ پذیرائی حاصل ہوگئی تاہم بعدازاں اسلامی جماعتوں کی طرف سے حکومت پر دھاندلی سے کام لینے اور بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے اور جواب مےں بن علی نے ایک بار پھر اسلام پسند جماعتوں پر پابندی لگا دی۔
2004ءمےں بن علی کو ایک بار پھر پانچ سال کی مدت کے لئے صدر منتخب کیا گیا اور تاحال ملک کی صدارت کا بوجھ انہیں کے کاندھوں پر ہے۔

No comments:

Post a Comment