Ad

Ad

Monday, 27 August 2012

History about Abu Hanifa (R.A)


امام اعظم ابوحنیفہ کی علمی و فقہی خدمات
نام :نعمان ؛کنیت :ابوحنیفہ ؛والدکانام :ثابت؛ القاب :امام اعظم ،سیدالاولیاءوالمحدثین رئیس الفقہاءوالمجتہدین ،امام الائمہ ، سراج الامہ ۔ امام صاحب موصوف کے دادا اہل کابل سے تھے۔ سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے :نعمان بن ثابت بن مرزبان زوطی بن ثابت بن یزدگرد بن شہریار بن پرویز بن نوشیرواں۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒکی ولادت با سعادت مشہور روایت کے مطابق 70 ہجری میں ہوئی ۔
بخاری اور مسلم شریف میں موجود ہے کہ جب سورة جمعہ نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آیت : وآخرین منھم لما یلحقوابہمپڑھی تو صحابہ میں سے کسی نے سوال کیا :”یارسول اللہ !یہ بعد میں ملنے والے لوگوں سے کون سے لوگ مراد ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے ،جب باربار پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھے پر اپنا دست اقدس رکھ کر ارشاد فرمایا :اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کرلیں گے ۔
علامہ ابن حجر مکی ؒنے لکھا ہے کہ امام سیوطی ؒکے تلامذہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے استاد امام سیوطیؒ یقین کے ساتھ کہتے تھے:”اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہؒ ہیںکیونکہ امام اعظم ؒ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہیں پہنچ سکا۔“
امام موصوف تجارتی سلسلے میں بازار جا رہے تھے ،راستے میں امام شعبیؒ .... جنہوں نے تقریبا پانچ سو صحابہ کرام ؓکا زمانہ پایاہے .... سے ملاقات ہوئی ،فرمایا : کہاں جاتے ہو ؟عرض کیا بازار۔چونکہ آپ نے امام اعظم ؒکے چہر ہ سے ٹپکنے والی ذہانت وفطانت اورسعادت کو جانچ لیا تھا، فرمایا: علماءکی مجلس میں نہیں بیٹھتے ہو ؟عرض کیا نہیں۔فرمایا : غفلت نہ کرو تم علماءکی مجلس میں بیٹھا کرو کیونکہ میں تمہارے چہرے میں علم وفضل کی درخشندگی کے آثار دیکھ رہا ہوں ۔امام اعظم ؒفرماتے ہیں : امام شعبی ؒسے ہونے والی اس مختصر گفتگو نے میرے دل پرگہرے اثر چھوڑے چنانچہ میں نے بازار جانا چھوڑ دیا ۔ پہلے علم الکلام کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد گمراہ فرقوں مثلا جہمیہ، قدریہ سے بحث ومباحثہ کیا اورمناظرہ شروع کیا۔پھر خیال آیا کے صحابہ کرامؓ نے شرعی اورفقہی مسائل سے زیادہ شغف رکھا،لہذا مجھے بھی اسی طرف متوجہ ہونا چاہئے.... چنانچہ میں فقہاءکوفہ میں ایک فقیہ (حضرت حماد بن ابی سلیمان ؒ)کے دامن سے وابستہ ہوگیا۔اس وقت آپ کی عمر تقریبا بیس سال سے بھی کچھ متجاوز ہوچکی تھی اور آپ اٹھارہ سال تک ان کی خدمت میں فقہ حاصل کرتے رہے ،اسی دوران آپ کوحج بیت اللہ کیلئے حرم شریف میں بھی حاضری کا موقع ملااور بعض دیگر شہروں میں بھی شیوخ حدیث اور فقہاءکرام کی صحبت میسر آتی رہی ۔ تقریباً چارہزار مشائخ سے علم حدیث وفقہ حاصل کیا ۔
امام موصوف ؒخود فرماتے ہیں:ایک رات حضرت حمادؒکو اطلاع ملی کہ بصرہ میں ان کا کوئی عزیزفوت ہوگیا ہے ،بڑامال چھوڑا اور حماد کے سوا کوئی دوسرا وارث نہیں ہے ، آپ نے اپنی جگہ مجھے بٹھا یا ، جیسے ہی وہ تشریف لے گئے کہ میرے پاس چند ایسے مسائل آئے جو میں نے آج تک ان سے نہ سنے تھے ، میں جواب دیتا جاتا اوراپنے جوابات لکھتا جاتا تھا۔جب حضرت حمادؒ واپس تشریف لائے تو میں نے وہ مسائل پیش کئے ،یہ تقریباً ساٹھ مسائل تھے۔چالیس سے تو آپ نے اتفاق کیا جبکہ بیس مسائل میں ان کی رائے مختلف تھی ۔میں نے اسی دن یہ تہیہ کر لیا کہ جب تک زندہ ہوں ان کا ساتھ نہ چھوڑوں گا ،لہٰذا میں اسی عہد پر قائم رہا اور تازندگی ان کے دامن سے وابستہ رہا۔
علامہ ابن حجر ہیتمی مکی ؒلکھتے ہیں:امام اعظم ابوحنیفہ ؒنے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو پایا۔آپ کی ولادت80ھ میں ہوئی ، اس وقت کوفہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تھی۔حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓکا وصال88ھ کے بعد ہواہے۔حضرت انس بن مالک ؓاس وقت بصرہ میں موجود تھے اور 95ھ میں وصال فرمایا۔ آپ ؒنے ان کو دیکھا ہے۔ ان حضرات کے سوا دوسرے بلاد میں دیگر صحابہ کرام ؓبھی موجود تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع ؓشام میں۔وصال 85ھ ، حضرت سہل بن سعدؓ مدینہ میں۔وصال 88ھ ،حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ ؓمکہ میں۔وصال 110ھ۔
امام ابو یوسف ؒکہتے ہیں کہ میں نے امام اعظم ؒکو فرماتے سنا کہ”میں93ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کو گیا ،اس وقت میری عمر سولہ برس کی تھی۔میں نے ایک بوڑھے شخص کودیکھا کہ ان پر لوگوں کا ہجوم تھا ،میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ بوڑھے میاں کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحابی ہیں اور ان کا نام عبداللہ بن حارث بن جزہے پھر میں نے دریافت کیا کہ ان کے پاس کیا ہے کہ لوگوں کا ہجوم ہے؟ والدصاحب نے کہا: ان کے پاس وہ حدیثیں ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔میں نے کہا : مجھے بھی ان کے پاس لے چلئے تاکہ میں بھی حدیث شریف سن لوں ،چنانچہ وہ مجھ سے آگے بڑھے اور لوگوں کو چیرتے ہوئے چلے یہاں تک کہ میں ان کے قریب پہنچ گیا اور میں نے ان سے سنا کہ آپ کہہ رہے تھے:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ؛ من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ وھمہ ورزقہ من حیث لایحسبہ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دین کی سمجھ حاصل کرلی اس کی فکروں کا علاج اللہ تعالیٰ کرتاہے اوراس کو اس طرح پر روزی دیتاہے کہ کسی کووہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
مشہور محدث شیخ علامہ محمد طاہر ہندی ؒنے کرمانی ؒکے حوالہ سے لکھا ہے:”امام اعظم ؒکے تلامذہ کہتے ہیں کہ آپ نے صحابہ ؓکی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے اور ان سے سماع حدیث بھی کیا ہے۔“
چونکہ احادیث فقہ کی بنیاد ہیں اور کتاب اللہ کے معانی ومطالب کے فہم کی بھی اساس ہیں لہٰذا امام اعظم ؒنے حدیث کی تحصیل میں بھی انتھک کوشش فرمائی۔یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث کادرس شباب پر تھا ۔ تمام بلاد اسلامیہ میں اس کا درس زور وشور سے جاری تھا اورکوفہ تو اس خصوصیت میں ممتاز تھا۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں ،میں کوفہ اتنی بار حصول حدیث کیلئے گیا کہ شمار نہیں کرسکتا۔
فقہ چونکہ قرآن وسنت کی عام فہم تشریح کا نام ہے اس لیے فقیہ کے لیے حدیث ،علم حدیث ،اصول حدیث ، اقسام حدیث علاوہ ازیں روایان حدیث وغیرہ کے علم میں مکمل مہارت اور پختگی ضروری ہے۔ ابوالمحاسن شافعی ؒنے فرمایا :”93وہ مشائخ ہیں جو کوفے میں قیام فرماتھے یاکوفے تشریف لائے جن سے امام اعظم ؒنے حدیث اخذ کی۔
مکہ معظمہ میں حضرت عطاءبن ابی رباح ؒموجود تھے ،دوسرے صحابہ کرام ؓکی صحبت کا شرف حاصل تھا۔ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مجتہد اورفقیہ تھے۔ ان کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓفرماتے تھے کہ عطاءکے ہوتے ہوئے میرے پاس کیوں آتے ہیں۔ان کی جلالت کا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایام حج میں اعلان عام ہوجاتا کہ عطائؒ کے علاوہ کوئی فتوی نہ دے۔ کبار محدثین امام اوزاعی ؒ،امام زہری ؒ، امام عمروبن دینار ؒان کے شاگردتھے۔ امام اعظم ؒنے اپنی خداداد ذہانت وفطانت سے آپ کی بارگاہ میں وہ مقبولیت حاصل کر لی تھی آپ کو قریب سے قریب تر بٹھاتے ۔ تقریباً بیس سال خدمت میں حج بیت اللہ کے موقع پر حاضر ہوتے رہے۔حضرت عکرمہ ؓکا قیام بھی مکہ مکرمہ میں تھا ، یہ جلیل القدر صحابہ کے تلمیذ ہیں: حضرت علی،حضرت ابوہریرہ ، حضرت ابوقتادہ ،حضرت ابن عمر اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کے تلمیذ خاص ہیں۔70مشاہیر ائمہ تابعین ان کے تلامذہ میں داخل ہیں۔امام اعظم ؒنے ان سے بھی حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
مدینہ طیبہ میں سلیمان مولی ام المومنین میمونہ ؓاورسالم بن عبداللہ ؒسے احادیث سنیں۔ ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے بھی علم حاصل کیا۔بصرہ کے تمام مشاہیر سے اخذ علم فرمایا ،یہ شہر حضرت انس بن مالک ؓکی وجہ سے مرکز حدیث بن گیا تھا۔ امام اعظم ؒکی آمد ورفت یہاں کثرت سے تھی۔حضرت انس بن مالک ؓسے آپ کی ملاقات بصرہ میں بھی ہوئی اورآپ جب کوفہ تشریف لائے اس وقت بھی۔غرضیکہ امام اعظم ؒکو حصول حدیث میں وہ شرف حاصل ہے جو دیگر ائمہ کو نہیں ،آپ کے مشائخ میں صحابہ کرام ؓسے لے کر کبار تابعین اورمشاہیر محدثین تک کی ایک عظیم جماعت داخل ہے اور آپ کے مشائخ کی تعداد چارہزار تک بیان کی گئی ہے۔
تلامذہ : امام اعظم ابو حنیفہ ؒکے علم حدیث وفقہ کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے والوں کی بہت طویل فہرست ہے جنہوں نے صحابہ کے فتاوی جات تابعین کبار کے آثار کو اپنے استاد (امام ابو حنیفہ ؒ) سے سینہ بہ سینہ لیا اور ہر طرف اس فیض کو عام کیا ان میں سے چند مشاہیر کے اسماءگرامی یہ ہیں :
 امام ابو یوسف ،امام محمد بن حسن شیبانی ،امام حماد بن ابی حنیفہ ، امام مالک ،امام عبداللہ بن مبارک ،امام زفربن ہذیل،امام داو ¿د طائی ،فضیل بن عیاض ،ابراہیم بن ادہم ، بشربن الحارث حافی، ابوسعید یحییٰ بن زکریاکوفی ہمدانی ،علی بن مسہر کوفی، حفص بن غیاث ، حسن بن زناد ، مسعر بن کدام،نوح بن درا ج نخعی،ابراہیم بن طہران ، اسحاق بن یوسف ازرق ، اسد بن عمر وقاضی ،عبدالرزاق ،ابونعیم ، حمزہ بن حبیب الزیات ، ابو یحییٰ حمانی ، عیسیٰ بن یونس یزید بن زریع ، وکیع بن جراح ، ہیثم، حکام بن یعلی رازی، خارجہ بن مصعب، عبد الحمید بن ابی داو ¿د، مصعب بن مقدام ، یحییٰ بن یمان ، لیث بن سعد ، ابو عصمہ بن مریم ، ابوعبدالرحمن مقری ، ابوعاصم رحمة اللہ علیہم اجمعین۔
تدوین فقہ اور اس میں احتیاط : امام وکیع ؒبلند پایہ محدث ہیں ان سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ابو حنیفہ ؒنے غلطی کی ہے اس پر امام وکیع ؒچونک اٹھے اور کہنے والے سے فرمایا : ابو حنیفہ ؒکا مسلک کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟ جبکہ امام ابو یوسف ؒ،امام محمد بن حسن ؒ، امام زفر ؒجیسے ماہرین قیاس واجتہاد ؛یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ ؒ،حفص بن غیاث ؒ،حبان ؒاور مندل ؒجیسے حفاظ حدیث وائمہ حدیث ؛قاسم بن حصن ؒ،عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود ؒجیسے عربیت اور لغت کے امام ، داﺅد طائی ؒاور فضیل بن عیاض ؒجیسے عبادت گزار اور پرہیز گار ہوں ۔اگر غلطی ہوگی تو ان کے ہم نشین ان کو حق اور صواب کی طرف لوٹادیں گے ۔آپ نے اپنے تلامذہ پر مشتمل ایک فقہی شورائی کمیٹی تشکیل دی جنہوں نے تدوین فقہ کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔ 
 اللہ تعالی ہم کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلائے ۔
٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment