Ad

Ad

Monday, 27 August 2012

مسجد نبوی کی تعمیر کے 19 مرحلے Masjid Nabwi Stretcher in 19 Steps


مسجد نبوی کی تعمیر کے 19 مرحلے
پہلی مرتبہ: ”یہ مسجد مبارک حضور سید عالم نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی اور خود بنفس نفیس اس میں کام فرماتے رہے، یہ رقبہ سو گز مربع کے لگ بھگ تھا۔
دوسری مرتبہ: فتح خیبر کے 7 ہجری میں حضور سید عالم نے از سرِ نو تعمیر کرائی، مسجد کے اضافہ کے پیش نظر، مسجد کے متصل ایک انصاری کی زمین تھی، آپ نے انصاری سے فرمایا ”یہ زمین جنت کے ایک محل کے عوض ہمیں دے دو“ وہ کثیر العیالی کے سبب یہ رقبہ نہ دے سکے، سیدنا عثمان غنیؓ نے دس ہزار درہم انصاری کو پیش کر دیئے اور پھر دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی ”یارسول اللہ جو قطعہ زمین آپ انصاری ے جنت میں محل کے عوض خریدنا چاہتے تھے، وہ قطعہ مجھ سے خرید فرمائیں، چنانچہ وہ قطعہ معاوضہ جنت سیدنا عثمان غنیؓ سے خرید کر مسجد میں شامل فرمایا۔
تیسری مرتبہ: سیدنا فاروق اعظمؓ نے اضافہ فرمایا، یہ تعمیر 17 ہجری میں ہوئی۔
صدیق اکبرؓ کے دور میں اضافہ یا ترمیم کا کوئی پہلو نہیں ملتا، سیدنا فاروق اعظمؓ نے مسجد کو جنوب شمال مغرب کی جانب وسعت دی، ستونوں کو بدلا، کھجور کے تنے کی جگہ لکڑی کے ستون کھڑے کئے، مشرقی جانب اضافہ نہ کیا کہ امہات المومنین کے حجروں کا تحفظ مطلوب تھا، نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر حضور علیہ السلام نے مجھے مسجد وسیع کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو میں یہ ھکام کرنے کی ہر گز جرا ¿ت نہ کرتا، اس تعمیر میں سیدنا عباسؓ کا مکان بھی شامل کیا گیا۔
سیدنا فاروق اعظمؓ نے انہیں فرمایا کہ یا تو آپ مکان فروخت کر دیں یا مدینے میں اپنی پسند کی جگہ لے لیں یا پھر وقف کر دیں، سیدنا عباسؓ نے انکار کر دیا، معاملہ بڑھا تو سیدنا ابی بن کعبؓ نے ثالثی کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے حضرت عباسؓ کے حق میں فیصلہ دیا، فاروق اعظمؓ خاموش ہو گئے، اس پر حضرت عباسؓ نے بخوشی مسجد کو جگہ دے دی۔
سیدنا عمر فاروق ؓ اور سیدنا عباسؓ کے درمیان اسی مکان کے پارنالہ پر بھی اختلاف رائے ہوا، چھت کا پانی مسجد میں گرتا تھا، جس سے نمازوں میں دقت پیدا ہوتی، نمازی پریشان ہوتے، سیدنا فا روق اعظمؓ نے یہ پرنالہ اکھڑوا دیا، سیدنا عباسؓ نے دربار فاروقی میں عرض کی ”اے خلیفة المسلمین! آپ نے اس پرنالے کو اکھڑوا دیا ہے جسے حضور سید عالم نے اپنے ہاتھ سے نصب کیا تھا“۔ بس یہ سننا تھا کہ خلیفة المسلمین پر رقت طاری ہو گئی، لرزہ براندام ہو گئے اور فرمایا: اے عم رسول آپ میری پیٹھ پر کھڑے ہو کر اس پرنالہ کو اسی جگہ لگا دیں کہ میری غلطی کی تلافی ہو سکے۔
چوتھی مرتبہ: جب سیدنا عثمان بن عفانؓ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، لوگوں نے مسجد ش ریف کی تنگی کی شکایت کی، آپ نے جلیل القدر صحابہ سے مسجد کے شہید کرنے اور از سرِ نو بنانے کا مشورہ لیا، سب نے متفقہ طور پر تجدید کا مشورہ دیا۔ 29ہجری میں پتھر، چونا اور لوہے سے مضبوکط فرمایا۔ آپ نے بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کی طرح مسجد کا اضافہ جنوب اور شمال مغرب میں فرمایا۔ مشرقی جانب حجرات کے تحفظ کے پیش نظر اقدام نہ فرمایا۔ اس اضافہ کی چواڑائی 225 فٹ اور لمبائی 240 فٹ تھی، یہ کام دس ماہ میں مکمل ہوا۔
پانچویں مرتبہ: ولید بن عبدالملک نے 88ہجری میں کام شروع کیا اور 91ہجری میں ختم کیا اور امہات المومنین کے حجرات مقدسہ کو مبارک میں داخل کیا، ولید بن عبدالملک نے عمر بن عبدالعزیز کو حکم دیا تھا کہ مسجد کے قرب و جواز کے مکانات خرید کر مسجد کی توسیع کی جائے، حجرات مقدہ کو منہدم کیا جانے لگا تو اہل مدینہ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، لوگوں کی چیخ و پکار سے کہرام بپا تھا، لوگوں کی خواہش تھی ”کاش! یہ حجرات مقدسہ اپنی حالت پر چھوڑے جاتے“۔
ولید بن عبدالملک نے روم کے بادشاہ کو لکھا کہ وہ مسجد نبوی شریف کی جدید تعمیر میں حصہ لے۔ چنانچہ اس نے چالیس استاد فن، چالیس قبطی، اسی ہزار دینار چاندی کی زنجیریں اور بہترین قسم کے معمار، مزدور، نقدی اور سونا سے تعاون کیا۔ (خلاصة الوفا: ص195) مسجد شریف میں عمدہ کام کرنے والے کو عمر بن عبدالعزیز مزدودری کے علاوہ مزید انعام دیتے۔ مسجد شریف کی تکمیل پر ولید بن عبدالملک نے تعمیر کا جائزہ لیا تو بہت خوش ہوا۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں تعمیر کا کام 88ہجری میں شروع ہوا اور 91ہجری میں مکمل ہوا۔ کفایت کے باجود پچاسی ہزار خرچ ہوا، اسی دور تعمیر میں عمر بن عبدالعزیز نے مسجد شریف کے چار مینار بنوائے جن کی اونچائی اٹھاسی، اٹھاسی فٹ تھی، جب سلیمان بن عبدالملک حج کیلئے آیا تو مروان کے مکان میں ٹھہرا، موذن مینار پر چڑھا تو اس نے موذن کو دیکھا، گھر والوں کی بے پردگی کے پیش نظر اس مینار کو گرا دیا۔ (خلاصة الوفا: ص 91، راحت القلوب: ص 124) یہ تعمیر منقش پتھروں سے کی گئی۔ عمدہ مینا ھکاری کی گئی، ساگوان کی لکڑی، مرمر کے ستون بنائے گئے، چاندی کی زنجیریں آویزاں کی گئیں، گرمی سے بچنے کیلئے دروازوں پر پردے لٹکائے گئے۔
چھٹی مرتبہ: خلفائے عباسی میں عباس مہدی نے 161 ہجری میں تعمیر کام شروع کیا جو 165 ہجری میں مکمل ہوا۔
ساتویں مرتبہ: خلیفہ عباس المستعصم نے تعمیر کام کیا اور حضور کے تبرکات، اونی چادر، تہبند، جبہ طیالیہ، غلاف کعبہ کا ٹکڑا، مصلیٰ، جھنڈا اور ہتھیاروں کے دستے، مصحف عثمانی کی حفاظت کیلئے قبہ بنوایا۔ (تاریخ المدینہ: ص 225)پھر 654 ہجری مسجد شریف کے اندر آگ لگنے کا جو حادثہ پیش آیا، تو یہ بے بہا خزانہ ضائع ہو گیا، تبرکات نہ بچ سکے۔
آٹھویں مرتبہ: ملک ناصر محمد بن قلادون نے 705 ہجری، 706 ئجری میں تعمیر کی اور پھر 729 ہجری میں برآمدوں کا اضافہ کیا۔
نویں مرتبہ: 831 ہجری میں ملک اشرف قائت بائی نے مسجد شریف کی تعمیر کا کام کیا۔
دسویں مرتبہ: خلیفہ ظاہر نے چھتوں کی مرمت میں حصہ لیا، یہ کام 853 ہجری میں مکمل ہوا۔
گیارہویں مرتبہ: ملک اشرف قائت بائی نے 879ہجری میں تعمیر کام کیا، آگ لگنے کے واقعہ کے بعد محراب عثمانی کو وسیع کیا، باب جبرئیل کی جانب دیوار تعمیر کرائی، اذان کیلئے جگہ بنوائی، منقر الجمالی مدینہ منورہ ھآیا، ایک سو انجینئر اسس کے ساتھ تھے، اس تعمیر پر ایک لاکھ بیس ہزار دینار خرچ ہوئے، حجرہ مبارک کی دیواروں پر گنبد بھی بنوایا، مزید دوگنبد باب السلام کے سامنے اندر کی جگہ بنوائے، باب الرحمت کا مینار تعمیر کیا۔
بارہویں مرتبہ: سلطان سلمان نے 974 ہجری میں دیواریں منقش کرائیں، تزئین مسجد میں حصہ لیا۔
تیرہویں مرتبہ: سلطان سلیم ثانی نے 980 ہجری میں کام شروع کیا، حجرہ انور کا گنبد بنوایا، آب زر سے گل کاری کرائی گئی۔
چودہویں مرتبہ: سلطان محمود نے از سرِ نو قبر انور پر قبہ شریف بنوایا، سبز رنگ کرایا، اسی وقت سے قبہ خضراءکہلایا۔
پندرہویں مرتبہ: سلطان عبدالمجید نے 1265 ہجری میں کام شروع کیا اور 1277 ہجری میں ختم کیا، باب مجیدی، انہیں کے نام سے مشہور ہے، مجھے قطب الوقت مولانا ضیاءالدین نے فرمایا کہ: تعمیر مسجد کے وقت ادب کو خاص ملحوظ رکھا گیا، ستون دور تیار کیے جاتے کہ قریب آواز پیدا نہ ہو۔ ان کا اضافہ قابل قدر رہا۔ سورہ ¿ احزاب، سورہ ¿ فتح، سورہ ¿ حجرات کی تحریر اپنی مثال آپ ہے۔ ہر ستون کے نچلے حصے پر سونے کے کڑے چڑھائے۔ قریباً 296 ستونوں پر عمارت مشتمل ہے۔
سولہویں مرتبہ: فخری پاشا نے تعمیر میں حصہ لیا، محراب نبوی اور محراب سلمانی پر کام کیا، مسجد کے صحن والا کنواں بند کیا، لوگ اس کنویں کے پانی کو آب کوثر کے نام ے یاد کرتے تھے۔
سترہویں مرتبہ:ملک عبدالعزیز (سعودی حکومت نے) کڑے چڑھائے۔
اٹھارہویں مرتبہ: 1352 ہجری میں مصر کی حکومت نے ترمیم و تجدید کا کچھ کام اپنے ذمہ لیا، مصر میں اس کام کیلئے فنڈ قائم کیا۔
انیسودیں مرتبہ: سعودی حکومت نے 1368 ہجری میں توسیع مسجد کا اعلان کیا، 5شوال 1370 ہجری کی دیواریں منہدم کی گئیں، 1373ءمیں جدید سنگ بنیاد رکھا گیا۔
1983ءسے مسجد کی حالیہ توسیع، باب مجیدی کے سامنے اور دائیں بائیں عمل میں آ رہی ہے۔ اس منصوبے پر اب تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اس سے نمازیوں کے لیے دوگنی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔ اس میں چھ نئی میناروں کا، جن کی اونچائی 90میٹر ہے، اضافہ کیا گیا ہے، تعمیر پر 5بلین سعودی ریال خرچ آئے گا، مسجد میں استعمال ہونے والے رقبہ کیلئے سات سو ملین سعودی ریال ادا کیے گئے ہیں، اس تعمیر کے بعد مسجد نبوی کے رقبے میں 82000 مربع میٹر اضافہ ہو جائے گا۔
oooooo

No comments:

Post a Comment