Ad

Ad

Monday, 27 August 2012

ملکہ ترنم نورجہاں History Noor Jahan


نصف صدی تک عوام کے دلوںمیں راج کرنے والی 
ملکہ ترنم نورجہاں 
بے بی نور جہاں ۔۔۔۔ ابتدائی دور (1926 ء تا 1940 ئ) 
21 ستمبر 1926 ءکے دن عظیم پنجابی شاعر بابا بلھے شاہ ؒ کے شہر قصور کے ایک گاﺅں کوٹ مراد کے ایک گانا بجانے والے گھرانے میں مددعلی اور فتح بیگم کے ہاں ایک بچی اللہ وسائی پیدا ہوئی تھی جو اپنے غریب کاخاندان کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوئی تھی اور محض پانچ سال کی عمر ہی سے اپنی خوش الحانی کے باعث کمائی کا ذریعہ بن گئی تھی۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم اس نے اپنے استاد غلام محمد سے حاصل کی تھی جو عمرب ھر اس کے ساتھ رہے تھے۔ صرف نو سال کی عمر میں اس نے پنجابی فلموں کے عظیم موسیقار جی اے چشتی کے ترتیب دئیے ہوئے چند لوگ گیت ، غزلیں اور نعتیں گا کر لاہور کے سٹیج پر بے حد مقبولیت حاصل کی تھی۔ فی گیت ساڑھے سات آنہ معاوضہ لیتی تھی جو اُس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی معقول رقم ہوتی تھی ۔ لاہور میں یہ کامیابی اسے اس وقت کے دوسرے بڑے فلمی مرکز کلکتہ لے گئی تھی جہاں اس نے اپنی دونوں بہنوں حیدر باندی اور عیدن باندی کے ساتھ ایک پنجابی فلم پنڈ دی کڑی (1935 ئ µ میں بے بی نور جہاں کے نام سے اداکاری اور گلوکاری کی تھی۔ اللہ وسائی کے بے بی نور جہاں کا نام غالباً اس کی آئیڈیل گلوکارہ مختاربیگم نے دیا تھا۔ جو تیس کے عشرے کی ایک نامور گلوکارہ اور اداکارہ تھیں اور عظیم اردو ڈرامہ نگار آغاحشر کا شمیری کی شریک حیات تھیں جبکہ ملکہ غزل فریدہ خانم کی بڑی بہن بھی تھی۔ بے بی نور جہاں کا پہلا فلمی گیت © ©”لنگ“ آجا پتن چناں دا یار“ بتایا جاتا ہے جس کی دھن کرشن جی مہرہ نے بنائی تھی لیکن اسے اصل شہرت فلم گل بکاﺅ لی ۔ (1939ئ) کے مشہور زمانہ گیت 
”شالا جوانیاں مانیں ، آکھانہ موڑیں پی لے“ سے ملی تھی۔ اس گیت کی دھن ماسٹر غلام حیدر نے بنائی تھی اور اسے ولی صاحب نے لکھا تھا۔ یہ پنجابی فلم لاہور میں بنائی گئی تھی جہاں اس کی بطور بے بی نور جہاں دیگر فلموں میں ہیر سیال ایک بڑی مشہور فلم تھی۔نور جہاں بطو ہیروئن اور گلوکارہ متحدہ ہندوستان میں (1941 ءتا1947 ئ) 
1942 ءمیں لاہور میں بننے والی اُردو فلم خاندان کو نور جہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں گزشتہ سال کی دو مشہو ر زمانہ ، پنجابی فلموں پہلا جٹ اور چودھری میں بالترتیب ایم اسماعیل اور غلام محمد کے ساتھ فرسٹ ہیروئن کے طور پر موجود تھی اور ان فلموں کے پوسٹروں پر اس کے نام کے ساتھ بے بی بھی نہیں لکھا ہو ا تھا۔ اس لیے غالباً قیاس یہی ہے کہ یہی دونوں فلمیں ان کی بطور ہیروئن پہلی پہلی فلمیں تھیں۔ فلم خاندان نے ملک بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ کلکتہ سے بطور فلم ایڈیٹر اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والے سید شوکت حسین رضوی اس فلم کے ہداتیکار تھے اور نامور بھارتی ولن اداکار نور جہاں کے ہیرو تھے۔ عہد ساز موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں نورجہاں کے گیتوں نے دھوم مچادی تھی اور سب سے بڑے فلمی مرکز ممبئی کے فلمسازوں نے بھی اسے بمبئی کی فلموں میں کاسٹ کرنا شروع کر دیا تھا جن میں انمول گھڑی ، زینت اور جگنو بہت بڑی نغمانی فلمیں تھیں۔ 
1946 ءمیں بننے والی ہدایتکار محبوب کی سدا بہار تغمانی فلم انمول گھڑی کی دھنوں سے سب سے بڑی فلم تھی جس میں موسیقار نوشاد علی کی دھنوں پر گائے ہوئے نور جہاں کے پانچوں گیت لازوال گیت ثابت ہوئے تھے جبکہ اس فلم میں وقت کی ایک اور بہت بڑی گلوکلورہ اور اداکارہ ثریا نے بھی کام کیا تھا۔اس فلم کے ہیرو اور گلوکار سریندر کے ساتھ گایا ہوا موسیقار نوشاد علی کی دھن پر نور جہاں کا یہ امرسنگیت : آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے، آج بھی دل کے تار چھیڑ دیتا ہے یہ گیت تنویر نقوی کا لکھا ہوا تھا ، جو میڈم کی بڑی بہن عیدن باندی کے شوہر تھے ۔
1947 ءکی سپرہٹ فلم جگنو متحدہ ہندوستان میں نور جہاں کی آخری بڑی فلم تھی جس میں اس نے پہلی اور آخری بار عظیم گائیگ محمد رفیع کے ساتھ ایک دوگانا گایا تھا جس کی دھن ماسٹر فیروز نظامی نے بنائی تھی۔ 
1942 ءکی فلم خاندان کی تکمیل کے دوران میڈم نورجہاں نے فلم کے ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی سے شادی کر لی تھی۔ جن سے ان کے تین بچے تھے بڑے بیٹے اکبر حسین رضوی کی ایک بیٹی سونیا جہاں نے کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی فلم تاج محل میں مرکزی کردار کیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ان کا دوسرا بیٹا اصغر حسین رضوی غالباً فوج میں رہا ہے جبکہ بڑی بیٹی ظل ہما ستر کے عشرے کے ایک خوبروادا کار عقیل سے بیاہی گئی تھی لیکن اس کی بعد میں طلاق ہو گئی تھی۔ ظل ہما خود بھی گاتی ہے اور اس کا ایک بیٹا بھی آج کل گا رہا ہے۔ 
نورجہاں بطور اداکارہ اور گلوکارہ پاکستان میں(1951 ءتا1961 ئ) 
تقسیم کے بعد ملکہ نریم نورجہاں اپنے خاوند شوکت حسین رضوی اور بچوں کے ساتھ بمبئی کو خیرآباد کہہ کر پہلے کراچی آئیں لیکن جب انہیں لاہور میں تبادحال شوری سٹوڈیو اور ایک متروکہ سینما ریجنٹ الاٹ ہو تو وہ لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ اس دوران رضوی صاحب نے تمام تر توجہ فلم سٹوڈیو کو بنانے سنوارنے میں صرف کر دی تھی اور ان کی معاونت سے میڈم نور جہاں نے بطور ہدایتکار ، اداکارہ گلوکارہ پنجابی فلم ”چن وے“ بنائی تھی جو اس لحاظ سے تو کامیاب تھی کہ ریجنٹ سینما میں 18 ہفتے چلی تھی لیکن چونکہ اس قبل پنجابی فلم ”پھیرے “ ایک ہی سینما پر مسلسل پچیس ہفتے چل چکی تھی اس لئے اس فلم کو اس کے مقابلے کی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی البتہ الف ڈی شرف کا لکھا ہوا اور موسیقار فیروز نظامی گیت لازوال ثابت ہو اتھا۔ 
پاکستان میں اپنے دور میں میڈم نورجہاں نے کل13 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سوائے فلم پردیسن (1959 ئ) کے سبھی فلمیں یادگار نغمانی فلمیں شمار ہوتی ہیں۔ فلم انتظار میں میڈم نورجہاں کو بہترین اداکار اور گلوکارہ کا صدارتی ایوارڈ ملا تھا انہیں غیر سرکاری طور پر ملکہ نریم کا خطاب دیا گیا تھا۔ بطور اداکارہ اور گلوکارہ نورجہاں کی آخری فلم غالب (1961 ئ) تھی۔ اسی دور میں میڈم نورجہاں کی اپنے پہلے شوہر سید شوکت حسین رضوی سے طلاق ہو گئی تھی جنہوں نے اس وقت کی ایک ممتاز اداکارہ اور کیمرہ مین جعفر بخاری کی بیوی یاسمین سے شادی کر لی تھی۔ 80 کے عشرے میں جائیداد کی تقسیم پر بڑا سخت تنازعہ کھڑا ہوا تھا اور میڈیا میں انتہائی شرمناک الزامات اور مضحکہ خیزانکشافات کا ایک سلسلہ جاری تھی۔ رضوری صاحب نے نور جہاں کے بارے میں ایک متنازعہ کتاب” میں اور نورجہاں“ بھی لکھی تھی جسے پڑے کر رضوی صاحب کا ایک بڑا ہی منفی متنازعہ ادیب سعادت حسن منٹو نے نورجہاں سرور جہاں نامی فضول سی کتاب بھی لکھی تھی جو بعض لوگوں کے لئے معلومات اور الہامات کا ایک ذریعہ تھی یاد رہے کہ24 جون 1953 ءکے روزنامہ ”امرزو“لاہور کے مطابق میڈم نورجہاں کا پاکستان کرکٹ کی سنچری بنانے والے اور نامور کرکٹر مدثر نذیر کے والد نذر محمد کے ساتھ ایک سکینڈل برا مشہور ہوا تھا جس میں نذر کا بازو ٹوٹ گیا تھا لیکن یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ نذر محمد میڈم نور جہاں کے رشتہ دار تھے اور ان کا رضوی صاحب کے ساتھ کسی جھگڑے میں بازو ٹوٹ گیا تھا( واللہ اعلم بالصواب)
19 اکتوبر 1959 ءکو میڈم نورجہاں نے سپر سٹار اداکار اور فلمساز اعجاز درانی سے شادی کر لی تھی جس سے اس کی تین بیٹیاں تھیں جن میں ایک لڑکی پہلے ٹی وی کے نامور گلوکار خالد وحید کے ساتھ بیاہی گئی تلیکن بعد میں طلاق کے بعد ہاکی کے عظیم سینٹر فارورڈ حسن سردار سے بیاہی گئی تھی ایک لڑکی کی شادی اداکار شان سے ہونا طے پائی تھی لیکن نہ ہو سکی تھی۔ 
اپنے طویل دور میں1965 ءکی جنگ میں ملکہ نرنم نورجہاں کی کارکردگی انتہائی قابل فخر رہی تھی جب ان کے ملی ترانوں نے پوری قوم اور فوج کا جذبہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے گائے ہوئے یہ رزمیہ نرانے سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل کر گئے تھے۔ 
میرا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھا
اے وطن کے سجیلے جوانوں میرے نغمے تمہارے لئے ہین 
اس شاندار کارکردگی پر اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے انہیں تمغہ حسن کاکردگی بھی دیا تھا لیکن 1971 ءکی جنگ میں ملک کے دیگر سبھی شعبوں کی طرح میڈم نورجہاں کا کرداد بھی بڑ متنازعہ رہا تھا جب پاکستان کی تاریخ کے انتہائی بدکردار حاکم صدر جنرل یحییٰ خان کی بدنام زمانہ منظور نظر خواتین میں ان کا نام بھی آتا تھا اور بڑے افسانے مشہور ہوئے تھے۔ 
میڈم نور جہاں ایک عجیب متضاد شخصیت تھیں کہ ایک طرف لوگ بڑے مزے لے لے کر ان سے یہ بیان منسوب کرتے ہیں کہ ”میں نے کبھی گیتوں اور معاشقوں کا حساب نہیں رکھا “ تو دوسری طرف ان کی دیانتداری کا یہ عالم تھا کہ لتا منگشیکر اپنے ایک ویڈیو انٹر ویو میں یہ چشم دیدانکشاف کرتی ہیں۔ کہ میڈم نورجہاں اپنے عین شاب کے دور میں بھی فلم کے سیٹ پر بھی نماز ادائیگی نہیں بھولتی تھیں۔ ان کی پابندی صوم وصلٰوة کی عادت کی گواہی دوسرے بہت سے ذرائع بھی دیتے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں روایتی تعلیمی قابلیت سے محرومی کے باوجود انتہائی ذہین گلوکارہ تھیں۔ کوئی بھی گیت نہیں پہلی بار ہی از برہو جاتا تھااور خالص پنجابن ہونے کے باوجود اُردو تلفظ بڑے کمال کا ہوتا تھا جواہل زبان کو بھی بڑا متاثر کرتا تھا۔ وہ ایک طرف تو انتہائی خوش گفتار خوش اطوار اور خوش خیال خاتون تھیں لیکن دوسری طرف خلاف مزاج باتوں پر فورا ً سیخ پا ہو جاتی تھیں اور بڑے درشت الفاظ میں مخالفین کو ان کی وفات یاد دلاتی تھیں لیکن کسی میں دم نہ ہو تا تھا کہ ان سے ٹکر لے سکے لیکن اگر کسی نے کبھی ٹکرلے بھی لی وہ ناکام و نامزاد ہوا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کے سات عشروں کا یہ عظیم الشان سفر1997 ءتک بستر مرگ پر پڑنے تک جاری رہا تھا۔ اس عظیم عورت نے موت سے قبل اپنی لاہور کی کوٹھی کروڑوں میں بیچ کر کچھ رقم اپنے علاج معالجہ کے لیے رکھی اور باقی رقم اپنی اولاد میں تقسیم کر دی تھی۔ اور تاحیات کسی کی ایک کوڑی کی محتاج نہیں ہوئی تھی۔ میڈم نورجہاں کا آخری سپرہٹ پنجابی فلم سخی بادشاہ(1996 ئ) میں ملتا ہے۔(جو اتفاق سے سلطان راہی کی بھی آخری بڑی فلم تھی) جس کی دھن موسیقار طافو نے بنائی تھی اور جو صائمہ پر فلمایا گیا تھا ” کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے“ 23 دسمبر2000 ءکو 26رمضان المبارک (یعنی شب قدر) کی رات کو 74 سال کی عمر میں انتقال کیا اور اسی رات کراچی میں دفن ہوئیں۔ یادرہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں کی لحد کے کتبے پران کی تاریخ پیدائش 23 ستمبر1929 ءدرج ہے۔ 


No comments:

Post a Comment