کوت دیوور (آئیوری کوسٹ)
Cote d`lvoire
محل وقوع
کوت دیوور (عربی نام ساحل العاج) افریقہ کے مغربی ساحل کا ایک ملک ہے جس نے فرانسیسی قبضہ سے آزادی حاصل کی ہے۔ کوت دیوور کا سابقہ نام آئیوری کوسٹ تھا۔ اس نام کو 1985ءمےں تبدیل کر کے اسی کا ہم معنی فرانسیسی نام رکھ دیا گیا۔ اس کے معنی ہاتھی دانت کا ساحل (ساحل العاج) کے ہےں۔ عربی مےں، جو اس علاقے مےں کافی لوگ سمجھتے ہےں، اسے ساحل العاج ہی کہا جاتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب مےں لائیبریا اور گیانا سے، شمال مےں مالی اور برکینافاسو، مشرق مےں گھانا اور جنوب مےں گیانا کی خلیج سے ملتی ہےں۔
لوگ
آبادی کا بیس فی صد سے کچھ زائد مسلمان ہےں۔ تقریباً بائیس سے پچیس فی صد عیسائی ہےں جن مےں یورپی لوگ بھی شامل ہےں۔ آبادی کا 77فیصدی حصہ آئیوری لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان مےں بہت سے مختلف لوگ اور بہت سی زبانیں شامل ہےں۔ ایک اندازے کے مطابق 65مختلف زبانیں اس ملک مےں بولی جاتی ہےں۔ ان مےں سب سے زیادہ عام زبان ڈیولا ہے جو کہ مسلمان آبادی اور تجارت سے متعلقہ لوگوں کی مشترکہ زبان ہے۔ فرانسیسی سرکاری زبان ہے اور اسے سکولوں مےں پڑھایا جاتا ہے اور شہری علاقوںمےں عام بول چال کی زبان بھی یہی ہے۔ چونکہ کوت دیوور نے خود کو مغربی افریقہ کی سب سے خوشحال ریاست ثابت کیا ہے، اس کی کل آبادی کا 20فیصد حصہ پڑوسی ممالک سے جیسا کہ لائبیریا، برکینا فاسو اور گیانا سے آیا ہے۔ اس وجہ سے ان بیرونی ورکرز جو کہ مسلمان ہےں اور عیسائی آبادی کے درمیان کشیدگی کو ہوا ملی ہے۔ آبادی کا چار فیصد حصہ وہ لوگ ہےں جو کہ آئیوری کے نہیں، بلکہ باہر سے آئے ہےں۔ ان مےں فرانسیسی، ویت نامی اور ہسپانوی شہری ہےں اور اسی طرح امریکہ سے آنے والے عیسائی مشنری بھی شامل ہےں۔ یہاں پر رہنے والے فرانسیسی شہریوں کے علاوہ ان فرانسیسی آبادکاروں کی نسلیں بھی آباد ہےں جو شروع مےں ادھر آئے تھے۔
وسائل
1960ءمےں آزادی کے بعد سے فرانس کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات رہے۔ زراعت مےں برآمدات کے تنوع اور غیر ملکی سرمائے کے موقعوں نے استوائی افریقی ریاستوں مےں کوت دیوور کو سب سے خوشحال ریاست بنا دیا۔ تاہم موجودہ دور مےں اس کی اہم فصلوں یعنی کافی اور کوکا کی بین الاقوامی منڈی مےں گرتی قیمتوں کے باعث خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر رشوت ستانی نے کاشتکاروں اور بیرون ملک برآمد کنندگان کے لئے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔
تاریخ
1460ءمےں پرتگالی جہازوں کی آمد سے قبل تک اس کے بارے بہت کم علم موجود ہے۔ اہم لسانی گروہ نسبتاً قریبی دور مےں ہمسایہ ممالک سے آئے ہےں۔ لائبیریا کے کرو قبائل 16ویں صدی مےں آئے، سینوفو اور لوبی جنوب کی طرف برکینافاسو اور مالی سے ہجرت کر کے ادھر آئے ہےں۔ 18ویں اور 19ویں صدی مےں اکان لوگ آئے جن مےں باولی گھانا سے ہجرت کر کے ملک کے مشرقی حصے مےں آئے اور مالین کے لوگ گیانا سے شمال مغرب مےں پہنچے۔
ہمسائیہ گھانا کے مقابلے کوت دیوور کو غلاموں کی تجارت سے کم ہی پالا پڑا۔ یورپین غلام بنانے والے اور تجارتی جہازوں نے دوسرے علاقوں کو ترجیح دی جو ساحل کے ساتھ ساتھ واقع تھے اور جہاں بہتر بندرگاہیں موجود تھیں۔ 1840ءمےں فرانس نے دلچسپی لی اور مقامی سرداروں کو ملی بھگت سے فرانسیسی تجارتی جہازوں کو اجارہ داری ملی۔ بعدازاں انہی فرانس کی بنائی ہوئی بندرگاہوں سے غیر فرانسیسی تاجروں کو باہر رکھا گیا اور بتدریج اندر کی طرف فتوحات کو جاری رکھا گیا۔ یہ کام 1890ءمےں ہونے والی مینڈرینکا کی فوجوں جو کہ زیادہ تر گیمبیا کی طرف سے آئی تھیں، کے خلاف طویل جنگ کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 1917ءتک باولے اور دیگر قبائل کی طرف سے گوریلا جنگ جاری رہی۔ فرانس کا بنیادی مقصد برآمدات کا فروغ تھا۔ کافی، کوکا اور پام آئل کی فصلوں کی کاشت ساحل کے ساتھ کرنے پر زور دیا گیا۔ یہاں کوکا، کافی اور کیلے کے باغات کی ایک تہائی فرانسیسی آبادکاروں کی ملکیت تھی اور جبری مزدوری کا نظام معیشت مےں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک باﺅل سردار کا بیٹا فیلکس ہوفویٹ بوئیگنی کوت دیوور کی آزادی کا سبب بنا۔ 1944ءمےں اس نے ملک مےں اپنے جیسے افریقی کوکا کے کاشتکاروں کی پہلی زرعی ٹریڈ یونین بنائی۔ فرانسیسی پالیسی کے خلاف انہوں نے نئے آبادکاروں کو اپنی مزروعہ زمینوں پر کام کے لئے تیار کیا۔ ہوفویٹ بوئیگنی کو جلد ہی عروج حاصل ہوا اور ایک ہی سال کے اندر اندر اسے پیرس مےں فرانسیسی پارلیمان کا ممبر چن لیا گیا۔ ایک سال بعد فرانس نے جبری مزدوری کو ختم کر دیا۔ ہوفویٹ بوئیگنی نے فرانسیسی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کئے اور یہ تاثر دیا کہ اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ یہ کئی سال تک جاری رہا۔ فرانس نے اسے وزیر کا عہدہ دیا جو کہ پہلی بار کسی افریقی کو یورپی حکومت مےں ملا تھا۔ 1958ءمےں کوت دیوور فرانسیسی کمیونٹی کا خودمختار رکن بن گیا۔ کوت دیوور کی آزادی کے وقت یہ ملک خطے مےں کل برآمدات کا 40فیصد حصہ پیداکرتا تھا۔ جب ہوفویٹ بوئیگنی پہلا صدر بنا تو اس کی حکومت نے کاشتکاروں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت دینا شروع کی جس کے نتیجے مےں پیداوار مےں اضافہ ہوا۔ کافی کی پیداوار مےں اتنا اضافہ ہوا کہ کوت دیوور دنیا کا تیسرا بڑا کافی پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ 1979ءمےں یہ ملک کوکا کی پیداوار کا دنیا مےں سب سے اہم ملک تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ افریقہ کا سب سے بڑا انناس اور پام آئل برآمد کرنے والا ملک بھی بن گیا۔ فرانسییس تیکنیک کاروں نے اس معجزے کو ممکن بنایا۔ افریقہ کے دیگر علاقوں مےں ممالک کی آزادی کے ساتھ ہی ساتھ یورپیوں کو نکلنا پڑا جبکہ کوت دیوور مےں انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ فرانسیسی کمیونٹی مےں آزادی سے قبل کے مقابلے مےں 10000سے 50000کا اضافہ ہوا جن مےں اکثریت استادوں اور مشاورت دانوں کی تھی۔ 20سال تک ملکی معیشت مےں تقریباً 10فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ان افریقی ممالک مےں سب سے زیادہ تھا جو تیل نہیں پیدا کرتے۔
سیاسی طور پر ہوفویٹ بوئیگنی نے سختی کے ساتھ، یا یوں کہیں کہ آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کی۔ صحافت آزاد نہ تھی اور صرف ایک سیاسی جماعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ اس پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس نے وسیع پیمانے والے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی۔ کچھ لوگوں کو اس کی جانب سے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اس کے گاﺅں کی دارالحکومت مےں منتقلی پر اعتراض تھا تو کچھ لوگوں کو اس کی طرف سے امن، تعلیم اور مذہب کو ملک کے وسط مےں ایک مقام دینے پر خوشی تھی۔ لیکن 1980ءمےں عالمی مندی اور مقامی قحط نے آئیوری کی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا۔ جنگلات کی حد سے زیادہ کٹائی اور چینی کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب بیرونی قرضہ جات کی مقدار تگنی ہوگئی۔ عابد جان مےں جرائم کی شرح مےں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ 1990ءمےں سینکڑوں سرکاری ملازمین نے طلبا کا ساتھ دیتے ہوئے رشوت ستانی کے خلاف ہڑتال کر دی۔ عوامی بے چینی نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو اجازت دے۔ ہوفویٹ بوئیگنی بہت زیادہ کمزور ہوتا گیا اور 1993ءمےں انتقال کر گیا۔ اس نے ہنری کونان بیڈی کو اپنے جانشین بنانے کی حمایت کی۔
اکتوبر 1995ءمےں غیر منظم اور بکھری ہوئی اپوزیشن کے خلاف اکثریت سے انتخابات جیت لئے۔ اس نے سیاسی زندگی کے گرد اپنا جال مضبوط کیا اور سینکڑوں مخالفین کو جل مےں ڈال دیا۔ اس کے برعکس معاشی صورتحال بہتر ہوئی اور بظاہر افراط زر کی شرح مےں کمئی ہوئی اور بیرونی قرضہ جات کو اتارنے کی کوشش کی گئی۔ ہوفویٹ بوئیگنی کے برعکس، جو کہ کسی بھی لسانی یا گروہی اختلاف کے لئے بہت محتاط تھا، اس نے ہمسایہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے لئے انتظامی عہدے خالی کر دیئے۔ چونکہ برکینافاسو سے بہت سارے لوگ آئیوری آبادی کا بڑا حصہ تھے، ان کی ترقی کے راستے مسدود ہوگئے اور اس پالیسی کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو آئیوری کی شہریت نہ مل سکی اور مختلف لسانی اور نسلی گروہوں مےں خلیج بڑھتی چلی گئی۔
اسی طرح بیڈی نے فوج سے اپنے کئی پوشیدہ مخالفین کو ہٹایا۔ 1999ءکے آخر مےں غیر مطمئن افسران نے فوجی بغاوت کی اور جنرل رابرٹ گوئی کو حکمران بنایا۔ بیڈی فرانس فرار ہوگیا۔ اس فوجی بغاوت نے جرائم کی شرح مےں کمی کی اور کرپشن کو روکا۔
اکتوبر 2000ءمےں صدارتی انتخابات ہوئے جن مےں لاورنٹ گباگبو نے گوئی کا مقابلہ کیا لیکن یہ سب پرامن نہ رہا۔ اس کے نتیجے مےں عوام اور فوج مےں بے چینی پیدا ہوئی۔ گوئی نے انتخابات مےں دھاندلی کی کوشش کی جس کے نتیجے مےں عوامی مزاحمت ہوئی اور 180افراد مارے گئے اور گوئی کی جگہ اس کے مقابل گباگبو نے لے لی۔ الاسا نے اواتارا کو ملکی سپریم کورٹ نے اس کی متنازعہ برکینا بے کی شہریت کے سبب نااہل قرار دیا۔ موجودہ اور اس کے بعد کی آئینی ترامیم نے غیر شہری کو صدر ہونے سے روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے مےں متشدد احتجاج شروع ہوئے جس مےں اس کے حامیوں نے جو کہ زیادہ تر شمال سے تھے، یا موسوکرو مےں پولیس کے خلاف ایک طرح کی جنگ لڑی۔
19ستمبر 2002ءکی علی الصبح صدر کا تختہ الٹنے کی ایک فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی۔ اس دوران صدر اٹلی کے دورے پر تھا۔ دستوں نے کئی شہروں پر حملہ کیا۔ دوپہر تک فرانس کی طرف سے حکومت کے حق مےں مداخلت کی گئی تاہم یہ ابھی تک نہیں کہا جاسکتا کہ اس مداخلت کے سبب صورتحال بہتر ہوئی کہ بدتر۔ تاہم دن کے اختتام تک ملک کے شمال پر ان کا کنٹرول ختم ہو چکا تھا جو کہ آج تک جنوب سے کٹا ہوا ہے۔ جنوب کے لئے ہونے والی لڑائی بہت سخت تھی۔ مین جینڈارماری بیرک کے لئے عابد جان مےں ہونے والی لڑائی اگلے دن صبح تک جاری رہی۔ اس رات کیا ہوا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ حکومت نے دعویٰ کیاکہ سابقہ صدر رابرٹ گوئی نے فوجی بغاوت کی سربراہی کی اور ریاستی ٹی وی نے اس کی اور پندرہ دگر افراد کی لاشیں سڑکوں پر پڑی دکھائیں۔ مخالفین کاکہنا ہے کہ ان لوگوں کو گھروں پر قتل کر کے سڑکوں پر ڈالا گیا تاکہ انہیں مجرم گردانا جاسکے۔ الاسا نے اوتارا نے فرانسیسی سفارت خانے مےں پناہ لی اور اس کا گھر جلا دیا گیا۔ صدر گباگبو نے اپنا اٹلی کا دورہ مختر کر دیا اور ملک واپسی پر یہ اعلان کیا کہ کچھ باغی ان قصبوں مےں چھپے ہوئے ہےں جہاں غیر ملکی مہاجرین ورکر رہتے ہےں۔ جینڈآرمس نے ہزاروں گھروں کو بلڈوز کیا اور جلا دیا جبکہ مکینوں پر بھی حملے کئے گئے۔ باغیوں سے ہونے والا فائربندی کا معاہدہ عارضی ثابت ہوا اور کوکا کی کاشت کے علاقوں مےں لڑائی دوبارہ شروع ہوگئی۔ فرانس نے اپنے فوجیوں کو بھیجا تاکہ فائر بندی، سرحدوں اور ملیشیا کو روکا جاسکے جس سے لائبیریا اور سیرالیون سے آنے والے جنگی سردار اور جنگجوﺅں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
جنوری 2003ءمےں صدر گباگبو اور باغی رہنماﺅں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے ”ملکی اتحاد کے لئے حکومت“ بنانے کا کہا گیا تھا۔ کرفیو اٹھا لیا گیا اور فرانسیسی دستوں نے مغربی لاقانونیت کا شکار علاقہ صاف کر دیا۔ تب سے متحدہ حکومت انتہائی غیر مستحکم ثابت ہوئی ہے اور مرکزی مسائل ویسے کے ویسے ہےں اور کوئی بھی اپنے مقاصد مےں کامیاب نہیں ہو رہا۔ مارچ 2004ءمےں 120لوگ اپوزیشن کی ریلی مےں مارے گئے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم سے پیداہونے والے حالات مےں غیر ملکیوں کا انخلا کیا گیا۔ بعدازاں ایک رپورٹ مےں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قتل پہلے سے طے شدہ تھے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے امن سفارت کار تعینات کئے گئے تاکہ زون آف کانفیڈنس قائم رہ سکے لیکن گباگبو اور اپوزیشن کے تعلقات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
نومبر 2004ءکے اوائل مےں امن معاہدے کی ناکامی کے بعد باغیوں نے غیر مسلح ہونے سے انکار کر دیا اور گباگبو نے باغیوں کے خلاف فضائی حملے کا حکم دے دیا۔ بوآ کے مےں ہونے والے ان حملوں مےں فرانسیسی فوجی بھی شکار ہوئے اور نو فوجی مارے گئے۔ آئیوری حکومت کے مطابق یہ غلطی تھی لیکن فرانسیسیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جان بوجھ کر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے جواب مےں انہوں نے آئیوری کے طیاروں کو تباہ کیا جس کے بعد فرانس کے خلاف متشدد بغاوتیں عابد جان مےں شروع ہوگئیں۔ گباگبو کی اصلی صدارتی مدت 30اکتوبر 2005ءمےں ختم ہو رہی تھی لیکن ملکی حالات کے پیش نظر انتخابات کا ہونا غیر یقینی تھا اور اس کے نتیجے مےں صدارتی مدت مےں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا اضافہ کیا گیا۔ اس کا منصوبہ افریقی یونین نے بنایا تھا اور اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظور کیا۔ اکتوبر 2006ءکی ڈیڈ لائن پہنچنے کے بعد یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اب بھی انتخابات کا انعقاد مشکوک ہے لیکن اپوزیشن نے گباگبو کو مزید مہلت دینے سے انکار کر دیا۔ سلامتی کونسل نے صدارتی مدت مےں ایک سال کا مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی منظور کیا کہ وزیراعظم کے اختیارات کوبڑھا دیا جائے۔ اگلے ہی دن گباگبو نے کہا کہ اس قرارداد کے نکات ملکی آئین سے متصادم ہےں اس لئے ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اور باغیوں مےں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت، جسے نیو فورس کا نام دیا گیا، 4مارچ 2007ءکو اس پر دستخط ہوئے اور نتیجتاً نیو فورسز کے لیڈر گویلیام سورو وزیراعظم بن گئے۔ کچھ مبصروں نے ان واقعات کو گباگبو کی مضبوطی مےں اضافے کی نظر سے دیکھا۔
No comments:
Post a Comment