Ad

Ad

Sunday, 12 August 2012

سوڈان Sudan History


سوڈان
Sudan
محل وقوع
سوڈان براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ سوڈان کے شمال مےں مصر، مشرق مےں بحیرہ ¿ احمر اور ایتھوپیا جنوب مےں، کینیا، یوگنڈا اور زائر واقع ہےں۔ اس ملک کے مغرب مےں چاڈ اور لیبیا کی حکومتیں واقع ہےں۔ شمال مےں دریائے نیل اس کے میدانی علاقوں مےں بہتا ہے۔ یہ ملک براعظم کا 8فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
لوگ
یہاں کے لوگ 70فی صد مسلمان ہےں۔ 18فی صد دہریئے اور 5فیصد عیسائی ہےں۔ 28افراد فی مربع مےں رہتے ہےں۔ 52فیصد لوگ سیاہ فام ہےں۔ 39فی صد لوگ عرب اور چھ فیصد لوگوں کا تعلق بیجا (Beja) نسل سے ہے۔ لوگ عربی بولتے ہےں۔ تاہم ڈنکا، نوبن، نوئر (Nuir) اور بیجا زبانیں بولتے ہےں۔
35فی صد لوگ شہروں مےں رہتے ہےں۔ مردوں کی اوسط عمر 52سال اور عورتوں کی 54سال ہے۔ 2ہزار افراد کے حصے مےں ایک ڈاکٹر اور دو بستر ہسپتال کے آتے ہےں۔ نابالغوں مےں شرح اموات 85بچے 1000مےں سے وفات پا جاتے ہےں۔
27 فی صد کے قریب لوگ پڑھے لکھے ہوئے ہےں۔ حکومت تعلیم کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ یہاں نو سال کے بچے کے لئے تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔
وسائل
اس ملک کا بیشتر حصہ ویران اور بنجر ہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ملک کا میدانی علاقہ صحرا مےں تبدیل ہو رہا ہے۔ آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ 78فی صد لوگ زراعت کے پیشے سے منسلک ہےں۔ مگر 5 فی صد رقبہ قابل کاشت ہے اور باقی کو کاشت کرنے کے لئے سرمایہ نہیں ہے۔ یہاں کپاس، گندم، مونگ پھلی، کون، چاول، کافی، گنا اور کھجوریں کاشت کی جاتی ہےں۔
معدنیات مےں لوہے، تانبے، کرم، نمک، سونے، جپسم، مینگانیز، میکا، سنگ مرمر چونے اور کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر اس ملک مےں موجود ہےں۔ یہاں وسیع پیمانے پر تیل کے ذخائر بھی موجود ہےں۔
9فیصد لوگ صنعت اور تجارت سے منسلک ہےں اور کل قومی پیداوار کا 6.4فیصد حصہ مےں پارچہ بافی، غذا کی پیکنگ، سگریٹ، شراب، ماچس، گتہ اور ادویات بنانے کی صنعتیں یہاں موجود ہےں۔
5503 کلومیٹر ریلوے لائن ہے۔ 60فیصد لوگ آمدورفت کے لئے یہی طریقہ استعمال کرتے ہےں۔ سڑکیں 15ہزار کلومیٹر لمبی ہےں۔ اپنی قومی ایئرلائن ہے۔ جو 1983ءسے نجی تحویل مےں تیرہ ہوائی اڈا ہے۔ خرطوم بین الاقوامی شہرت یافتہ ہوائی اڈا ہے۔ سوڈان شپنگ لائن اندرون اور بیرون ملک بحری خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ ملک مےں آٹھ بندرگاہیں ہےں۔ پورٹ سوڈان سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ 
اہم درآمدات مےں کپڑے، پٹرولیم، مشینری اور کاریں شامل ہےں جبکہ برآمدات مےں کپاس اور لائیو سٹاک اہمیت رکھتے ہےں۔
تاریخ
سوڈان کی سرزمین کو آباد کرنے والے سب سے پہلے مصری تھے۔ چھٹی صدی مےں یہاں عیسائی راہب آئے۔ 11وی صدی مےں بربر قبائل نے اسلام پہنچایا۔ سارے سوڈان مےں 1820ءکو اسلام پہنچا۔ 1820ءکے بعد مصر کی حکومت قائم ہوگئی۔ 1898ءمےں مصر کی فوج نے مہدوی تحریک کا اعلان کر خاتمہ کیا۔ 1951ءمےں مصری پارلیمنٹ نے برطانیہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر کے اس کو آزادی کی طرف گامزن کر دیا۔ یکم جنوری 1956ءکو عوام نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1958ءمےں جنرل عبود حکمران بنے۔ اکتوبر مےں مستعفی ہوگئے۔ 1965ءکے انتخابی عمل کے ذریعے یہاں مخلوط حکومت بنی جو سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہوگئی۔ 1969ءمےں جنرل نمیری نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1973ءمےں ملک کو نیا آئین ملا۔ 30جون 1984ءمےں فوجی انقلاب کے نتیجے مےں جنرل عمر احمد البشیر حکمران بن گئے۔ جنہوں نے اسلامی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی اور ملک مےں اسلام کو نافذ کرنے مےں اب بھی کوششیں کر رہے ہےں، مگر سازشوں کی وجہ سے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس ملک کے باشندوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ فاقوں مرنا شروع ہوگئے ہےں۔ 1991ءمےں سوڈان مےں اقوام متحدہ نے عوام کی فاقہ کشی کو دیکھتے ہوئے ان کی خوراک اور طبی سہولتوں کی سپلائی کے لئے ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا۔ جس کو خانہ جنگی اور محاذ آرائی نے بند کروا دیا کیونکہ وہاں عدم اعتماد اور جنگل کا قانون نافذ ہے۔ باغی دندناتے پھرتے ہےں۔ 17مارچ 1994ءکو دوسرے افریقی ملکوں کی مداخلت کی وجہ سے انتہاپسندوں اور حکومت مےں مصالحت ہوئی مگر کوئی فائدہ حاصل نہ کیا جاسکا۔
اس خانہ جنگی نے جنوبی سوڈان کے چالیس لاکھ سے زیادہ باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ ان مےں سے بہت سے ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا، مصر اور دیگر پڑوسی ممالک مےں جاپناہ گزین ہوئے ہےں۔ یہ پناہ گزین بڑے پیمانے پر غذائی کمی اور اس سے پیدا ہونے والی گوناگوں بیماریوں کے شکار ہےں چونکہ گذشتہ حکومتوں نے جنوبی سوڈان مےں سرمایہ کاری پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی اس لئے یہاں کے باشندے تعلیم، روزگار اور صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہے ہےں۔
2003ءاور 2004ءمےں مذاکرات امن مےں خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے مےں آئی لیکن جھڑپوں کا سلسلہ رکا نہیں۔ تاہم فریقین کا اس امر پر ضرور اتفاق رائے ہوگیا کہ ایک حتمی معاہدہ امن ہونے کے بعد جنوبی سوڈان کو چھ سال کے لئے داخلی خودمختاری دے دی جائے گی۔ اس مدت کے ختم ہونے کے بعد ریفرنڈم کرایا جائے گا جس مےں جوبی سوڈان کے باشندے آزادی کے حق مےں ووٹ دے سکیں گے۔ اس کے علاوہ ان چھ سالوں مےں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حکومت اور باغیوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا تاہم زیادہ تر مشاہدہ نگاروں کا خیال تھا کہ سوڈان کی حکومت اس معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گی۔
2003ءکے اوائل مےں مغربی حصے مےں واقع دارفور مےں ایک نئی بغاوت کا آغاز ہوگیا۔ باغیوں نے مرکزی حکومت پر دارفور کو نظرانداز کرنے کا الزام لگایا تھا۔ دونوں فریقین پر بڑے پیمانے پر ظالمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا گیا، تاہم ان کارروائیوں کی زیادہ تر ذمہ داری حکومت کی اتحادی عرب ملیشیا (جنجوید) پر ڈالی گئی۔ باغیوں نے الزام لگایا کہ یہ ملیشیا دارفر مےں نسل کشی کی کارروائیوں مےں ملوث ہے۔ یہاں ہونے والی لڑائی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا جن مےں سے بیشتر پناہ کی تلاش مےں پڑوسی چاڈ کی سرحدوں مےں داخل ہوگئے۔ 2004ءمےں طائن کے سرحدی قصبے پر قبضہ کرنے کے بعد سوڈانی حکومت نے اپنی فتح کا دعویٰ کیا مگر علاقے مےں جاری متشددانہ کارروائیوں مےں کوئی کمی دیکھنے مےں نہیں آئی۔
9جنوری 2005ءکے روز نیروبی مےں ایک حتمی معاہدہ امن پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدہ کے مطابق، جنوب کو چھ سال کے داخلی خودمختاری اور اس مدت کے اختتام پر آزادی کے لئے ریفرنڈم کرانے کا حق دے دیا گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ اگر ریفرنڈم کا نتیجہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے حق مےں نہ نکلا تو دونوں فریق چھ سال کے بعد اپنی فوجیں ایک دوسرے مےں مدغم کر دیں گے۔ تیل کے کنوﺅں سے ہونے والی آمدنی جنوب اور شمال مےں برابر تقسیم ہوگی۔ سرکاری ملازمتیں مختلف شرح ہائے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی مثلاً مرکزی انتظامیہ مےں حکومت کو ستر اور باغیوں کو تیس فیصد حصہ ملے گا اور جنوبی حصے مےں حکومت کو پچپن اور باغیوں کو پنتالیس فیصد حصہ دیا جائے گا۔ شمال مےں اسلامی قانون نافذ رہے گا جبکہ جنوب مےں شریعت کے نفاذ کا فیصلہ منتخب اسمبلی کرے گی۔
23دسمبر 2005ءکے روز چاڈ اور سوڈان کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ چاڈ کی حکومت کا کہنا تھا کہ سوڈان کی حکومت ان کے باغیوں کی پشت پناہی کر کے ان کے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چاڈ کی حکومت اپنے باغیوں پر قابو پانے مےں کامیاب رہی تاہم دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات مےں پیدا ہونے والی کشیدگی تاحال برقرار ہے۔ جہاں تک سوڈانی حکومت کا سوال ہے تو وہ چاڈ مےں ہونے والی کسی بھی شورش انگیزی مےں اپنے کسی کردار سے یکسر انکاری ہے۔

No comments:

Post a Comment