Ad

Ad

Wednesday, 22 August 2012

فلسطین Palestine History


فلسطین
Palestine
محل وقوع
فلسطین کی ارضی ساخت اور آب و ہوا مےں زبردست گوناگونی پائی جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف بحیرہ ¿ مردار کے ساحلی علاقے سطح سمندر سے تقریباً 400میٹر نیچے ہےں، وہیں صرف 23کلومیٹر کے فاصلے پر ارضی خدوخال مےں تقریباً 1228 میٹر کا فرق پایا جاتا ہے۔ اس نشیب و فراز کا سڑکوں کی تعمیر اور ذرائع آمد و رفت کا جال پھیلانے پر گہرا اثر پڑا ہے۔ جہاں ایک طرف نجیب کا خشک اور ویران ریگستان ہے وہاں جرزیل، شاروں اور جنوبی گلیلی کے نہایت زرخیز میدان ہےں۔ شمال مےں کوہ ابال (2483میٹر)، کوہ تال اسود (1026میٹر) اور جنوب مےں ہیبرون (1030میٹر) اونچی پہاڑی چوٹیاں ہےں۔ 
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک مےں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بیشتر حصے پر اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948ءسے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا، جو خلافت عثمانیہ مےں قائم رہا مگر بعد مےں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948ءمےں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھا جس پر 1967ءمےں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہےں اور یہ شہر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ مسلمان کا قبضہ اول یہیں ہے۔ 
لوگ اور وسائل
مغربی کنارے مےں مسلمانوں کی آبادی 75فیصد اور غزہ کی پٹی مےں 98.7فیصد ہے۔ بقیہ اقوام مےں یہودی اور عیسائی شامل ہےں۔
فلسطین کے ذاتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہےں۔ یہاں کی قابل ذکر زرعی پیداواروں مےں زیتون، مالٹا، سبزیاں اور ڈیری کی مصنوعات شامل ہےں۔
تاریخ
جس زمانہ مےں لوگ ایک جگہ رہنے کی بجائے تلاش معاش مےں چل پھر کر زندگی بسر کیا کرتے تھے، عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جوکنعانی یا فونیقی کہلاتی تھی، 2500قبل مسیح مےں یہاں آکر آباد ہوگئی۔ پھر آج سے 4000سال پہلے یعنی لگ بھگ 2000قبل مسیح مےں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر، ار (Ur) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحق علیہ السلام کو بیت المقدس مےں، جبکہ دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ مےں آباد کیا۔ حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داﺅد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین مےں پیدا ہوئے یا باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔
ان علاقوں مےں عبرانی قومیت کے لوگوں کی آمد کا نشان ولادت مسیح سے لگ بھگ 1100سال قبل مےں ملتا ہے۔ حضرت سیموئیل جو اللہ کے نبی تھے، پہلے اسرائیلی بادشاہ تھے۔ انہوں نے کافی عرصہ حکومت کی اور جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے اللہ کے حکم سے حضرت طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کے پارہ دوئم مےں سورہ بقرہ کی آیات 247 تا 252مےں ملتا ہے۔
حضرت طالوت علیہ السلام نے 1004قبل مسیح سے 1020قبل مسیح تک حکمرانی کی۔ اس دوران انہوں نے جنگ کر کے جالوت کو مغلوب کیا اور اس سے تابوت سکینہ واپس لیا جس مےں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے۔
حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت داﺅد علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ انہوں نے پہلے ہیبرون اور پھر بیت المقدس مےں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ بیت المقدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں مقدس اور محترم ہے۔ اس شہر کا موجودہ نام ”یروشلم“ حضرت داﺅد علیہ السلام نے رکھا تھا۔ 
حضرت داﺅد علیہ السلام نے 1004قبل مسیح سے 965ق م تک 33سال حکمرانی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے 965ق م مےں حکومت سنبھالی جو 926قبل مسیح تک 39سال قائم رہی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست دو حصوں سامریہ اور یہودیہ مےں تقسیم ہوگئی۔ دونوں ریاستیں ایک عرصے تک باہم دست و گریبان رہیں۔
598 قبل مسیح مےں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کر کے یروشلم سمیت تمام علاقوں کو فتح کر لیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بادشاہ اور ہزاروں شہریوں کو گرفتار کر کے بابل مےں قید کر دیا۔ 539قبل مسیح مےں ایران کے بادشاہ خسرو نے بابل کو فتح کیا اور قیدیوں کو رہا کرکے لوٹا ہوا مال واپس یروشلم بھیج دیا۔ 332قبل مسیح مےں یروشلم پر سکندر اعظم نے قبضہ کر لیا۔ 168قبل مسیح مےں یہاں ایک یہودی بادشاہت کا قیام عمل مےں آیا۔ لیکن اگلی صدی مےں روما کی سلطنت نے اسے زیر نگین کر لیا۔ 135قبل مسیح اور 70قبل مسیح مےں یہودی بغاوتوں کو کچل دیاگیا۔ اس زمانے مےں اس خطے کا نام فلسطین پڑ گیا۔ 
20اگست 636ءکو عرب فاتحین نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل مےں آیا۔ 463سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ءمےں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ 
چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ءمےں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل مےں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل و مکانی 17ویں صدی کے اواخر مےں شروع ہوگئی۔ 1930ءتک نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس مےں بہت اضافہ ہوگیا۔ 1920ئ، 1921ئ، 1929ءاور 1936ءمےں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور اس علاقے مےں آمد کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔
1947ءمےں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ءمےں اپنی افواج واپس بلا لیں اور 14مئی 1948ءکو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے مےں ناکام رہے۔ بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے مےں اور اضافہ ہوگیا۔
1949ءمےں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل مےں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کو داخلی خودمختاری سے محروم رکھا۔
29اکتوبر 1958ءکو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے مےں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6نومبر کو جنگ بندی عمل مےں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کے معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی مےں ہوا جو 19مئی 1967ءتک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلا لئے گئے۔ مصری افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ مےں اسرائیلی جہازوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی۔
5جون 1967ءکو چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشرقی یروشلم کا علاقہ، شام کی گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن کا علاقہ بھی اپنے قبضہ مےں کر لیا۔ 10جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہوگئے۔
6اکتوبر 1973ءکو یہودیوں کے مقدس دن ”یوم کپور“ کے موقعہ پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور نہر سویز عبور کر کے مصر پر حملہ آور ہوگیا۔ 24اکتوبر 1973ءکو جنگ بندی عمل مےں آئی اور اقوام متحدہ کی امن فوج نے چارج سنبھال لیا۔ 18جنوری 1974ءکو اسرائیل نہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا۔
نومبر 1977ءمےں مصر کے صدر انور السادات نے اسرائیل کا دورہ کیا اور 26مارچ 1979ءکو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر کے 30سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک مےں سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ (تین سال بعد 1982ءمےں اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا)۔
جولائی 1980ءمےں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دےدیا۔ 7جون 1981ءکو اسرائیلی جیٹ جہازوں نے بغداد کے قریب عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا۔ 6جون 1982ءکو اسرائیلی فوج نے پی ایل و کی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لئے لبنان پر حملہ کر دیا۔ مغربی بیروت پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
16ستمبر 1982ءلبنان کے عیسائی شدت پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں مےں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس سفاکانہ کارروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر مےں شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا۔
1988ءمےں یاسر عرفات نے ریاست فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا۔ 1993ءمےں پی ایل او اور حکومت اسرائیل کے درمیان خفیہ مذاکرات ہوئے جن کے تحت پانچ سال کے اندر اندر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی مےں فلسطینیوں کو خودمختار حکومت کا مل جانا طے پا گیا۔ 13ستمبر کو یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم رابن نے ”اصولوں کی قرارداد“ پر دستخط کئے۔
معاہدے کے تحت 1994ءمےں اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے جیریکو کے علاقے خالی کر دیئے۔ یاسر عرفات کی قیادت مےں ”فلسطینی اتھارٹی“ کی حکومت قائم ہوگئی۔ فلسطینیوں کے نکتہ نظر سے حکومت خوداختیاری مکمل آزادی کا نعم البدل نہیں ہے، اس لئے اسرائیل سے امن و سلامتی اور مکمل آزادی کے موضوع پر گاہے گاہے مذاکرات ہوتے رہتے ہےں۔
مارچ 2004ءمےں اسرائیلیوں نے حماس کے رہنما شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا۔ چند ماہ بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رین سیتی کو بھی شہید کر دیا گیا۔ اسی سال نومبر مےں یاسر عرفات کا انتقال ہوگیا اور پی ایل او کی صدارت محمود عباس نے سنبھالی۔ جنوری 2005ءمےں منعقد ہونے والے انتخابات مےں بھی انہیں فتح ہوئی۔ 

No comments:

Post a Comment