جمہوریہ وسطی افریقہ
Central African Republic
محل وقوع
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ ملک وسطی افریقہ مےں واقع ہے اور چاروں طرف سے خشکی مےں گھرا ہوا ہے۔ اس کے شمال مےں چاڈ، مشرق مےں سوڈان، جنوب مےں ری پبلک آف کانگو اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور مغرب مےں کیمرون واقع ہےں۔
ملک کا زیادہ تر حصہ سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ شمال اور شمال مشرق مےں اونچی پہاڑیاں اور جنوب مغرب مےں گھنے برساتی جنگلات واقع ہےں۔ یہاں کا موسم گرم اور مرطوب ہے۔ موسم برسات کے آغاز پر بگولوں کا اٹھنا اور سیلاب آنا عام بات ہے۔
لوگ
یہاں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ ملک کے مغرب نصف حصے مےں رہتا ہے۔ 60فیصد سے زیادہ لوگ دیہی علاقوں مےں رہتے ہےں۔ سرکاری زبان فرانسیسی ہے لیکن عوامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں مےں سب سے بڑی سانگو ہے۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ مقامی عقائد پر عمل پیرا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 15فیصد سے زائد ہے۔ بقیہ مےں عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہےں۔
اگرچہ تعلیم لازمی ہے لیکن سکول جانے کی عمر کے بچوں مےں سے صرف 59فیصد پرائمری سکول کی تعلیم حاصل کر پاتے ہےں اور ان مےں سے سیکنڈری سکول تک پہنچنے کی سعادت صرف دس فیصد کو نصیب ہوتی ہے۔ بالغ آبادی کا کم و بیش 60فیصد حصہ پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
وسائل
جمہوریہ وسطی افریقہ، براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک مےں سے ایک ہے۔ آبادی کا 80فیصد اپنی روزی روٹی کا بندوبست کھیتی باڑی، ماہی گیری اور شجرکاری کے ذریعے کرتا ہے۔ اہم نقد آور فصلوں مےں کافی اور کپاس شامل ہےں۔
صنعت کاری کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ ہیرے یہاں کی اہم برآمدات مےں شامل ہےں اور برآمدی محصول کا دوتہائی حصہ انہی سے حاصل ہوتا ہے۔
تاریخ
انیسویں صدی کے اوائل تک وسطی افریقہ کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے واسطہ بہت کم پڑا تھا۔ اسلام یہاں آنے والے عرب تاجروں کی بدولت پھیلا۔ عیسائیت اور یہودیت جیسے بڑے مذاہب کا گزر یہاں ممکن نہ ہو سکا اور نئی دنیا کے خیالات کی روشنی بھی ان تک پہنچنے مےں ناکام رہی۔ مسلمان تاجروں کی یہاں آمد بھی انیسویں صدی کے اوائل مےں ہی ہوئی۔ 1850ءکے لگ بھگ غلاموں کے تاجروں کی نگاہ یہاں پر پڑ گئی اور اگلے پچاس سالوں مےں سوڈان، چاڈ، کیمرون، دارالکوتی کے تاجروں نے یہاں کی افرادی قوت کا جی بھر کر استحصال کیا۔
1880ءمےں فرانس نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اگلے 80سال تک اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنائے رکھا۔ 1960ءمےں جمہوریہ وسطی افریقہ کو آزادی نصیب ہوئی اور ڈیوڈ ڈیکو پہلے صدر بنے۔ 1966ءمےں ڈیکو کے کزن، آرمی چیف ژاں بیدل بوکاسا نے اقتدار پر قبضہ کر کے ایک آمرانہ حکومت قائم کر دی اور علاقے کو ”سلطنت وسطی افریقہ“ کا نام دیا۔
بوکاسا کی حکومت کا تختہ 1979ءمےں ڈیکو نے فرانسیسی حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ الٹ دیا، مگر اسے برسراقتدار آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایک اور فوجی بغاوت نے اس کے اقتدار کا قصہ بھی ختم کر دیا۔ یکم ستمبر 1981ءکے روز جنرل آندرے کولنگ با نے اقتدار پر قبضہ کر کے آئین کو معطل کر دیا اور 1985ءتک فوج کی مدد سے حکومت کرتا رہا۔
1986ءمےں اس نے ایک نیا آئین متعارف کرایا جسے ملک گیر ریفرنڈم کے ذریعے منظور کر لیا گیا۔ 1987ءمےں پارلیمنٹ کے لئے ”نیم مسابقتی“ انتخابات منعقد ہوئے اور 1988ءمےں میونسپل انتخابات کرائے گئے۔ کولنگ با کے بڑے سیاسی حریفوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ان کی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
1990ءمےں دیوار برلن کے گرنے کے بعد جمہوریت نواز تحریک زور پکڑ گئی۔ مئی 1990ءمےں 253ممتاز شہریوں کے دستخطوں سے مزین ایک خط مےں نیشنل کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا لیکن کولنگ با نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کئی سیاسی حریفوں کو پکڑ کر جیل مےں ڈال دیا۔ اقوام متحدہ اور کئی دیگر ممالک کی طرف سے دباﺅ کے بعد کولنگ با، بالآخر اکتوبر 1992ءمےں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انتخابی امور کی مدد سے آزادانہ انتخابات کرانے پر رضامند ہوگیا۔
انتخابات تو ہوگئے لیکن کولنگ با نے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے بہانہ گھڑا کہ مےں بے ضابطگیوں کا ارتکاب ہوا ہے لہٰذا ان کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اقوام عالم نے اس پر دباﺅ ڈالا کہ وہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک ”انتخابی کمیشن“ تشکیل دے جس مےں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں۔
بالآخر 1993ءمےں انتخابات منعقد ہوئے۔ اینگ فیلکس پتا سے کی جماعت کو ان انتخابات مےں سادہ اکثریت حاصل ہوئی اور چند دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے اس نے ملک مےں نئی حکومت قائم کرلی۔
مارچ 1994ءمےں سابق صدرکولنگ با کو اس کے فوجی عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا اور بعدازاں کئی سابقہ وزراءسمیت اس پر بھی کئی جرائم کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ صدارتی محافظ دستے کے کئی ارکان کو برطرف کر دیا گیا یا انہیں فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ کولنگ با کی جماعت نے اس پر شور مچایا کہ انہیں اور ان کے نسلی گروہ ”یاکوما“ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
28دسمبر 1994ءکے روز نیا آئین متعارف کرایا گیا جسے 14جنوری 1995ءکو منظور کر لیا گیا تاہم سیایس روز و شب پر نئے آئین سے کوئی خاص اثر مرتب نہ ہوا۔ 1996ءاور 1997ءمےں پتاسے کے خلاف تین بغاوتیں ہوئیں اور نسلی بنیادوں پر ملک بھر مےں فسادات ہوتے رہے۔ 1998ءکے پارلیمانی انتخابات مےںکولنگ با کی جماعت نے 109مےں سے 20نشستیں جیت کر اپنی سیاسی واپسی کا اعلان کیا تاہم 1999ءکے صدارتی انتخابات مےں پتاسے نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کر لی۔ مئی 2001ءمےں اس کے خلاف ایک اور ناکام بغاوت ہوئی۔ اکتوبر 2002ءمےں، جبکہ صدر پتاسے ملک سے باہر تھا، اس کے سابق جنرل بوزیزے نے ایک اور بغاوت کا آغاز کیا اور اس مرتبہ کامیاب رہا۔
فرانسوابوزیزے نے آئین کو معطل کر کے نئی کابینہ کا تقرر کیا۔ مسٹر کلین کی عرفیت سے مشہور ایبل گومبا کو نائب صدر بنا کر بوزیزے نے اپنی حکومت کے لئے ایک مثبت تاثر حاصل کر لیا۔ اس نے اعلان کیا کہ نئے آئین کی منظوری کے بعد وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر ازسرنو انتخاب لڑے گا۔ ایسا ہی ہوا اور 27اکتوبر 2003ءکے روز ہونے والے آزاد انتخابات مےں بوزیزے نے کامیابی حاصل کر لی۔ ان انتخابات مےں پتاسے کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ 2005ءمےں ہونے والے انتخابات مےں بھی بوزیزے کو کامیابی حاصل ہوئی۔
No comments:
Post a Comment