شام
Syria
محل وقوع
براعظم افریقہ مےں واقع اس ملک کے شمال مشرق کی جانب ترکی اور مشرق کی جانب عراق واقع ہے۔ شام بحیرہ ¿ روم کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ شام کے جنوب کی طرف اردن اور مغرب مےں اسرائیل اور لبنان واقع ہےں۔
ملک کی سطح پہاڑوں دریائی وادیوں اور صحراﺅں پر مشتمل ہے۔ مشرقی حصے مےں فرات بہتا ہے جو آبپاشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آب و ہوا گرم ہے۔ موسم سرما مےں بارشیں ہوتی ہےں۔ یہ شمالاً جنوباً 310میل لمبا اور شرقاً غرباً 290میل چوڑا ہے۔
لوگ
90فیصد لوگ مسلمان ہےں۔ ایک مربع میل مےں 181افراد بستے ہےں۔ مسلمانوں مےں 74فی صد سنی العقیدہ اور 16فیصد لوگ شیعہ ہےں۔ 90فیصد لوگ عرب النسل ہےں جبکہ باقی دس فی صد مےں کرد اور آرمینی شامل ہےں۔
شام مےں 6سال کے بچے کو سکول مےں داخل کر دیا جاتا ہے۔ 94فیصد نوجوان بچے (لڑکیاں اور لڑکے) سکولوں اور کالجوں مےں جاتے ہےں۔ یہاں کئی یونیورسٹیاں ہےں جن مےں اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر مردوں مےں 64سال اور عورتوں مےں 71برس ہے۔ ہر سال 3.8فی صد آبادی مےں اضافہ ہو رہا ہے۔ 840افراد کے لئے ہسپتال کا ایک بستر آتا ہے اور 1347افراد کے لئے ایک ڈاکٹر۔ نوزائیدہ بچوں مےں شرح اموات 34 فی ہزار ہے۔
وسائل
شام کے 33فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہےں۔ اہم زرعی پیداواروں مےں گندم، جو، کپاس، چقندر تمباکو، سبزیاں اور پھل شامل ہےں۔ ملک کی برآمدات کا دوتہائی محصول زراعت سے ملتا ہے۔ 67فی صد رقبہ پر کاشت ہوتی ہے۔ 5 فی صد رقبے پر جنگلات ہےں۔ 1956ءمےں یہاں تیل دریافت ہوا۔ دیگر معدنیات مےں گیس، فاسفیٹ، نمک، منیگانیز، لوہا، کرومائیٹ اور اسفالٹ شامل ہےں مگر ان وسائل سے ابھی تک صحیح طور پر استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔
صنعتی لحاظ سے بھی یہ ملک زیادہ انحصار خام مال پر کرتا ہے۔ اہم صنعتوں مےں تیل کی صفائی، بجلی کی اشیائ، شیشے کی اشیاءبنانے کی صعتیں، پارچہ بافی، کیمیائی اشیائ، کھاد، سیمنٹ، انجینئرنگ کا سامان، تمباکو، پھلوں کو ڈبوں مےں بند کرنے کی صنعتیں شامل ہےں۔
ریلوے لائن 1100میل لمبی ہے۔ قدیم ترین شمالی ڈویژن لائن حلب کو ترکی اور عراق سے ملاتی ہے۔ 25000کلومیٹر لمبی سڑکیں موجود ہےں۔ سیرین عرب ایئر لائن بہت بڑی ایئر لائن ہے۔ دمشق، انطاکیہ اور طرطوس اہم بندرگاہیں ہےں۔
تاریخ
شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار شام سے دستیاب ہوئے ہےں۔ مشرقی شام کے شہر عبیل (انگریزی مےں Ebla) سے 1975ءمےں ایک عظیم سامی سلطنت کے آثار ملے ہےں جس مےں قدیم ترین سامی زبانوں اور تہذیب کا بہترین نوادراتی اثاثہ شامل ہے جس مےں 17000 مٹی کی تختیاں ہےں۔ ان پر اس زمانے کی تجارت، ثقافت، زراعت وغیرہ کے بارے مےں بیش قیمت معلومات درج ہےں۔ ان کا زمانہ 2500قبل مسیح سے بھی پہلے کا ہے۔ شام پر یکے بعد دیگرے کنعانیوں، عبرانیوں، آشوریوں اور بابلیوں نے قبضہ کیا اور نت نئی تہذیبوں کو جنم دیا جن کو آج ہم دنیا کی قدیم تہذیبوں کے نام سے جانتے ہےں۔ بعد مےں رومیوں، بازنطینیوں، یونانیوں، ایرانیوں اور عربوں نے بھی شام پر حکومت کی۔
دمشق جو دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں مےں سے ایک ہے، 636عیسوی مےں مسلمانوں نے فتح کیا۔ بعد مےں 661عیسوی سے 750عیسوی تک یہاں اموی سلطنت قائم رہی جس کی حدود ہسپانیہ سے وسط ایشیاءتک تھیں۔ 750عیسوی مےں عباسیوں نے امویوں کو سلطنت و خلافت سے بے دخل کر دیا اور سلطنت کا مرکز بغداد بن گیا۔ 1260عیسوی مےں مملوکوں نے اسے دوبارہ دارالخلافہ بنایا مگر امیر تیمور نے 1400عیسوی مےں دمشق اور اس کے گردونواح کو تباہ کر دیا اور اس کے تمام نابغہ روزگار لوگوں اور ہنرمندوں کو اپنے ساتھ سمرقند لے گیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی کے شروع تک یہ زیادہ تر عرصہ سلطنت عثمانیہ کے تحت رہا۔ جنگ عظیم اول کے بعد 1918ءمےں وہاں فرانسیسیوں اور برطانویوں کی ایما پر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہوئی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد شام کا زیادہ تر علاقہ فرانسیسیوں کے قبضہ مےں چلا گیا۔
شریف مکہ نے برطانوی سامراج کی ایما پر ترکی خلافت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے 1918 عیسوی مےں دمشق مےں ایک قومی حکومت قائم کرنے مےں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی جس کے تحت شام کے کچھ علاقے اور لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے آتے تھے۔ 1919ءمےں انتخابات ہوئے اور ایک پارلیمنٹ قائم ہوئی مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے دوستوں کے پاس رہی۔
1916ءمےں برطانیہ اور فرانس مےں ایک خفیہ معاہدہ ہوا جسے سائیکس پیکوٹ معاہدہ کہتے ہےں جس کے بعد لیگ آف نیشنز کے ذریعے اقتدار فرانس کو سونپ دیا گیا۔ 1920ءمےں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کر لیا اور شام کو 1921ءمےں چھ ریاستوں مےں تقسیم کر دیا جن مےں لبنان بھی شامل تھا۔
اس اثناءمےں شام مےں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932ءمےں شام مےں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔ آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ یہ پارلیمنٹ فرانس نے 1939ءمےں دوسری جنگ عظیم کے بہانے ختم کر دی۔ فرانس خود 1940ءمےں جرمنی کے قبضہ مےں آگیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ ہو سکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941ءمےں شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے فرانس نے کئی پارلیمانیں بنوائیں اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں۔ ایسی ایک پارلیمنٹ 1943ءمےں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944ءمےں فرانس نے ایک معاہدہ آزادی کیا مگر 1945ءمےں فرانسیسی افواج نے دمشق کے اردگرد گھیرا ڈال کر زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کر دی۔ اس بمباری مےں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ 2000 سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔ اس وقت شام کے صدر شکری القوتلی تھے جن سے برطانوی سفیر نے ملاقات کی اور فرانس کے ساتھ صلح نامے پر دستخط یا کسی محفوظ مقام پر منتقلی کی تجویز دی جو انہوں نے رد کر دی۔ ان کے اس عزم و حوصلے کے باعث ہی فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اسے اگلے سال شام خالی کرنا پڑا۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ دونوں کمزور ہوگئے تھے۔ فرانس نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ مزید شام پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتا تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ 1946ءمےں فرانس نے 1944ءمےں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15اپریل 1946ءکو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے نکل گئیں۔ 17اپریل 1946ءکو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بیسویں صدی کا ایک آزاد ملک بن گیا۔ بعد مےں مارچ 1949ءکو برطانیہ، فرانس اور سی آئی اے کی مدد سے ایک فوجی بغاوت ہوئی جس نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور کم و بیش وہی کہانی شروع ہوگئی جو نوآزاد مسلمان ملکوں کی مشترکہ داستان ہے۔
شامی افواج نے 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ مےں حصہ لیا جس کے بعد برطانیہ، فرانس اور سی آئی نے اس کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس سازش نے مارچ 1949ءکی فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ (1952ءمےں ایسی ہی فوجی بغاوت مصر مےں بھی ہوئی) جنرل حسنی الزعیم (جنرل زعیم) نے اقتدار سنبھالا۔
جنرل زعیم 25جولائی 1946ءکو ایک ریفرنڈم کے ذریعے 99فی صد ووٹ لے کر صدر بن گیا۔ (بعینہ یہی کہانی پاکستان اور دوسرے کئی ممالک مےں بھی دہرائی گئی ہے) اگست مےں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس کے بعد جنرل زعیم کو قتل کر دیا گیا۔ ایک نئی حکومت بن گئی۔ اس حکومت نے عراق کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی جسے برطانیہ، فرانس اور سی آئی اے نے سخت ناپسند کیا حالانکہ عراق مےں بھی انہی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی مگر وہ اسلامی ممالک کے اتحاد کو برداشت نہیں کر سکتے تھے چنانچہ اسی سال دسمبر مےں ایک اور فوجی بغاوت ہوئی اور جنرل ششکالی کی حکومت قائم ہوگئی۔
اس حکومت نے 1953ءمےں ایک آئین بھی منظور کیا۔ عوامی دباﺅ پر 1955ءمےں انتخابات ہوئے اور ایک غیر فوجی حکومت قائم ہوگئی جس نے مصر کی حکومت سے تعلقات قائمکئے۔ روس کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ 22فروری 1958ءکو مصر اور شام نے اتحاد کیا اور ایک متحدہ ملک قائم ہوگیا جس کا نام متحدہ عرب جمہوریہ تھا۔ یاد رہے کہ مصر مےں بھی امریکی اور برطانوی حمایت یافتہ قوتیں ختم کر کے جمال عبدالناصر برسراقتدار آچکے تھے جن کی وجہ سے یہ اتحاد ممکن ہوا، مگر 28ستمبر 1961ءمےں سامراجی قوتوں کی ایما پر ایک اور فوجی بغاوت ہوئی جس نے یہ اتحاد ختم کر کے شام کو دبارہ ایک الگ ملک کی حیثیت دے دی۔ ملک مےں روسی حمایت یافتہ لوگوں اور سامراجی حمایت رکھنے والوں کے درمیان رسہ کشی جاری رہی اور 8مارچ 1963ءکو بعث پارٹی کے لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ بعث پارٹی نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عیسائی مشنری سکولوں کو بند کر دیا۔ 23فروری 1966ءکو اسی پارٹی کے حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کر کے صدر امین حفیظ کو برطرف کر دیا۔ انہی حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد آج کل شام کے حاکم ہےں۔
1973ءمےں شام نے مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی اور گولان کی پہاڑیوں کا کچھ حصہ آزاد کروایا۔ اس موقع پر روس اور امریکہ دونوں ایک ہوگئے اور جنگ بندی مےں اہم کردار ادا کیا۔ انہی ممالک نے مصر اور اسرائیل کی صلح کروائی اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اس بنیادی کردار امریکی وزیر خارجہ نجری کسنجر نے ادا کیا جو خود ایک سابق جرمن یہودی تھا۔ مگر شام اس حد تک جانے پر تیار نہ ہوا اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔
1976ءمےں شامی افواج لبنانی حکومت کی درخواست پر لبنان مےں داخل ہوئیں۔ اور لبنان مےں عیسائیوںاور مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے مےں اہم کردار ادا کیا۔ 10جون 2000ءکے روز حافظ الاسد کا انتقال ہوگیا اور ان کے بیٹے بشارالاسد نے صدارت سنبھال لی۔ انہوں نے سابقہ حکومت کی نسبت شخصی آزادیوں مےں بہتری پیدا کی ہے۔ آج کل وہ امریکہ کے ساتھ سرد جنگ مےں الجھے ہوئے ہےں۔ 16جون 2006ءکو انہوں نے ایران کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا ہے جو بہت اہم ہے اور اس کے ذریعے ہتھیاروں کا تبادلہ بھی ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment