Ad

Ad

Sunday, 5 August 2012

ترکی Turkey History

ترکی
Turkey

محل وقوع
ترکی یورپ اور ایشیا کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ملک 95فیصد براعظم ایشیا مےں اور 5فیصد براعظم یورپ مےں واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں یونان اور بلغاریہ واقع ہےں جبکہ مشرق مےں ایران ہے۔ شام جنوب کی طرف اور مشرق مےں جارجیا، آرمینیا اور اذربائیجان واقع ہےں۔ یہ بحیرہ ¿ اسود اور بحریہ روم کے درمیان ایشیائے کوچک کا علاقہ ہے۔ آبنائے باسفورس ان دونوں سمندروں کو ملاتا ہے۔ یہ پہاڑوں اور سطح مرتفع کا ملک ہے۔
لوگ
ترکی کے 98فیصد لوگ مسلمان ہےں۔ ایک فی صد یہودی اور ایک فی صد عیسائی ہےں۔ 80فیصد لوگ ترک النسل ہےں۔ 17فیصد کرد اور تین فیصد لوگوں کا تعلق دیگر نسلوں سے ہے۔ یہاں چھ سال کے بچے کے لئے سکول جا کر تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ یہاں کے 91فیصد لوگ خواندہ ہےں۔ 476افراد کے حصے مےں ایک بستر آتا ہے اور 1189افراد کے لئے ایک ڈاکٹر۔
وسائل
ترکی ایک زرعی ملک ہے۔ 70فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ یہاں کاشت کاری کے جدید طریقے استعمال کئے جاتے ہےں۔ کپاس یہاں کی سب سے بڑی زیر کاشت زرعی فصل ہے۔ دیگر اہم زرعی پیداوار مےں گندم، تمباکو، چقندر، زیتون، انجینئر، گوند وغیرہ شامل ہےں۔ دنیا مےں تمباکو کی کاشت کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ایک چوتھائی رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہےں۔ جانوروں کے ریشے اور کھالیں ملکی تجارت کا اہم حصہ ہےں۔ مشرقی اناطولیہ مےں مویشیوں کے بڑے بڑے فارم ہےں۔
لوہا، پارہ، تانبا، کوئلہ، کرومیم، سرمہ، میگانیز، گندھک، کرومائٹ، باکسائٹ، سنگ مر مر اور تیل قابل ذکر معدنیات ہےں، 1961ءمےں یہاں پر تیل دریافت ہوا جو ملکی ضروریات کا بیس فی صد پورا کرتا ہے۔
فولاد، کپڑا، ریشم، جوتے، فرنیچر، سیمنٹ، کاغذ، شیشے کا سامان، موٹر گاڑیاں، تیل کی مصنوعات، کیمیائی ایشیاءتیار کرنے کی صنعتیں روز افزوں ترقی پر ہےں۔ انقرہ اور استنبول اہم صنعتی مراکز ہےں۔
ترکی مےں مراکش پبلک سٹیٹ ریلوے کی لمبائی 5238 میل ہے۔ ریلوے نظام کے ذریعے بلغاریہ، جرمنی، روس، یونان اور ایران سے مربوط ہے۔ سڑکوں کی لمبائی ہزاروں میل ہے۔ باسفورس دنیا کا چوتھا بڑا پل ہے جو 1975ءسے ٹریفک کے لئے کھلا ہے۔ ترکش ایئر لائن کے پندرہ ہوائی اڈے ہےں۔ ترکی کی تمام بری تجارت استنبول، ازمیر، مرسن اور سمسون کے ذریعہ ہوتی ہے۔
تاریخ
600ق م مےں یونانیوں نے اس ملک کے قدیم ترین اور عالمی شہرت یافتہ شہر استنبول کی بنیاد رکھی تھی۔ اس زمانے مےں استنبول کا نام بازنطیم تھا۔ تقریباً آٹھ سو سال کے بعد یہاں رومی قابض ہوگئے اور انہوں نے اس مشہور شہر کا نام قسطنطنیہ رکھا۔ انہوں نے یہاں 1000سال حکومت کی اور یہ بازنطینی حکومت کے نام سے مشہور ہوئے۔ عثمانی سلطان محمد دوم نے اس سلطنت کا خاتمہ 1453ءمےں کیا۔ اب یہاں عیسائیت کی جگہ اسلام تیزی سے پھیلا۔ یہ حکومت 19ویں صدی تک بڑے جاہ و جلال کے ساتھ حکمران رہی۔
جنگ عظیم اول مےں ترکی کی حکومت نے جنگ مےں جرمنی کا ساتھ دیا۔ 1918ءمےں اسے شکست ہوئی جس کے نتیجے مےں اس کی سرحدوں مےں کمی واقع ہوئی اور اتحادی افواج اس پر قابض ہوگئیں۔ 1920ءمےں تاترک مصطفیٰ کمال پاشا نے انقرہ مےں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ اس مرد مجاہد نے مٹھی بھر جان نثار ساتھیوں کی مدد سے یونانیوں کو مار بھگایا اور آخری سلطان محمد ششم بھی 20نومبر 1922ءکو مالٹا بھاگ گئے۔ 29اکتوبر 1923ءکو آزاد جمہوری حکومت قائم ہوئی اور 1924ءمےں خلافت کا خاتمہ ہوا۔
جمہوریہ ترکی مصطفیٰ کمال اتاترک کی کوششوں سے وجود مےں آیا۔ وہ ترکی کو ایک ایسا جدید ملک بنانا چاہتے تھے جس مےں حکومتی نظام دین کی بنیادوں پر استوار نہ کیا گیا ہو۔ وہ فوجی اور اقتصادی امور مےں ترکی کو مغربی ممالک کے برابر دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ترکی سوائے یورپی یونین کے یورپ کی ہر تنظیم کا رکن ہے۔ وہ 1952ءمےں نیٹو کا اور 1949ءمےں کونسل آف یورپ کا رکن بنا۔ اب وہ یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے 1999ءسے کوشاں ہے۔
اتاترک (لغوی معنی، ترکوں کا باپ) ترکی کے پہلے صدر تھے۔ وہ 1938ءمےں انتقال کر گئے۔ ترکی کی افواج خود کو اتاترک کے تصورات کا اصل محافظ قرار دیتی ہےں اور سیاسی استحکام بحال کرنے کی خاطر تین مرتبہ 1960ئ، 1971ءاور 1980ءمےں ملک کے سیاسی نظام مےں براہ راست مداخلت تک کر چکی ہےں۔
1970ءکے عشرے مےں ملک مےں امن و امان قائم رکھنے مےں ناکام مخلوط حکومتوں سے بیزار ہو کر انہوں نے ستمبر 1980ءمےں اقتدار سنبھال لیا۔ مارشل لائی ضوابط کے تحت کئی ہزار افراد پکڑ دھکڑ کی زد مےں آئے۔ ان مےں سے کئی ہزار کو تخریب کاری کا مجرم قرار دے کر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں اور کئی کو سزائے موت بھی دی گئی۔
1982ءمےں ترکی مےں نیا آئین نافذ کیا گیا۔ 1989ءمےں جنرل ایورن کی جگہ ترغت اوزال صدر بنے۔ صدر اوزال نے ترک معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کے رتبے کو کافی بلند کیا۔ وہ 1993ءمےں فوت ہوگئے۔ مئی 1993ءمےں وزیراعظم سلیمان ڈیمرل صدر منتخب ہوئے۔ جون 1993ءمےں سابق وزیر معیشت تانسوچلر ڈیمرل کی جگہ راہ حق پارٹی کی سربراہ منتخب ہوگئیں اور یوں وہ ترکی کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔
جون 1996ءمےں راہ حق پارٹی اور رفاہ پارٹی کے اتحاد سے بننے والی حکومت مےں نجم الدین اربکان وزیراعظم بنے لیکن رفاہ پارٹی کے اسلام پسند نظریات کے بعد قومی سلامتی کونسل کے ساتھ ان کے تعلقات مےں بدمزگیاں پیدا ہوگئیں۔ یہ اندیشے بھی سر اٹھانے لگے کہ کہیں نئی حکومت ترکی کے سیکولر نظام اور مغرب کی طرف التفات کی پالیسی کو تباہ ہی نہ کر دے۔ آخرکار قومی سلامتی کونسل کے دباﺅ مےں آکر جون 1997ءمےں اربکان کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے باعث ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے زیادہ فائدہ بلند ایجوت کی جمہوری بائیں پارٹی کو ہوا اور انہوں نے پہلے مادر وطن پارٹی اور آگے چل کے راہ حق پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی۔ 
18اپریل 1999ءکو ہونے والے قومی اور بلدیاتی انتخابات کے نتیجے مےں جمہوری بائیں پارٹی، مادر وطن پارٹی اور دیولت باہ چلی کی قوم پرست ایکشن پارٹی کے اتحاد نے حکومت بنائی جس مےں بلند ایجوت ہی بدستور وزیراعظم رہے۔ ترکی کی آئینی عدالت (سپریم کورٹ) کے سابق سربراہ احمد نجدت سیزر کو 5 مئی 2000ءکو ترکی کا صدر منتخب کیا گیا۔ انہوں نے 16مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 
اس حکومت نے پہلے ہی برس آئینی و اقتصادی اصلاحات کا ایک پروگرام بنایا۔ اس مےں وہ نکات بالخصوص شامل تھے جن کے باعث یورپی یونین مےں ترکی کی رکنیت کے امکانات بہتر ہو جاتے لیکن ان اصلاحات کو عملی شکل دینے کے بارے مےں حکومت کی صلاحیت سے متعلق شکوک کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی سکینڈل کے باعث فروری 2001ءمےں ترکی ایک اقتصادی بحران مےں پھنس گیا۔ جیسے جیسے یہ بحران سخت ہوتا گیا، کھلے بازار مےں ترک لیرا کی فروخت بڑھ گئی جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت مےں 40فیصد تک کمی کرنا پڑی۔ ساتھ ہی سود کی شرح اور اشیائے صرف کی قیمتوں مےں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع بھی کم ہونے لگے۔ اس بحران کا اثر جن دیگر معاملات پر پڑا ان مےں اقتصادی استحکام کے لئے بلندایجوت حکومت کے بے نظیر اقدامات اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے 11ارب ڈالر کے قرض کی مدد سے چلنے والا مہنگائی توڑ پروگرام سرفہرست تھے۔ 
ان حالات سے نمٹنے کےلئے وزیراعظم نے عالمی بینک کے ایک سابق نائب صدر کمال درویش کو مارچ 2001ءمےں وزیر اقتصادیات مقرر کیا۔ متعدد اقتصادی و عملی اصلاحات اور نچلی سطح پر اقتصادی استحکام اور بجٹ سازی مےں حکومت کو سہارا دینے کے لئے انہوں نے مئی 2001ءتک مجموعی طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 10ارب ڈالرز کے قرضوں کا انتظام کیا۔ فروری 2002ءمےں عالمی مالیاتی فنڈ نے 9ارب ڈالرز کے مزید قرضے منظور کر دیئے اور اس شرط پر سال بھر کے دوران چند قسطوں پر مشتمل مزید 5ارب ڈالرز کا وعدہ بھی کیا کہ ترکی اپنی اقتصادی اصلاحات ان کے مشوروں کی روشنی مےں مرتب کرے گا۔
تاہم حکومتی اتحاد مےں کشیدگی چلتی رہی۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط (بالخصوص سرکاری اداروں کی نجکاری) اور سیاسی اصلاحات کی سست روی تنازعات کی بڑی وجوہ تھیں۔ مئی 2002ءمےں خرابی صحت کے آثار سامنے آنا شروع ہونے کے باوجود بلند ایجوت کے مستعفی نہ ہونے کے باعث وزیراعظم کی اپنی جمہوری بائیں پارٹی کے 60ارکان اسمبلی، نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ سمیت کئی وزراءنے بھی استعفے دے دیئے۔
ان استعفوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں اور حکومتی اتحاد مےں شامل دیگر جماعتوں کی طرف سے دباﺅ کے نتیجے مےں ترک پارلیمنٹ کو مقررہ وقت سے 18ماہ قبل 3نومبر 2002ءکو نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرنا پڑا تاہم اپنے آخری دنوں مےں اس پارلیمنٹ نے اہم سیاسی اصلاحات پر مشتمل ایک پروگرام کی منظوری دے دی تھی۔
نومبر 2002ءکے انتخابات مےں صرف قدامت پسند انصاف و ترقی پارٹی اور بائیں بازو کی جمہوری عوامی پارٹی ہی وہ دو جماعتیں تھیں جنہوں نے پارلیمنٹ مےں نمائندے بھیجنے کے لئے کم از کم 10فیصد ووٹ جیتنے کی شرط پوری کی۔ ان مےں اول الذکر نے 34اور دوسری نے 19فیصد ووٹ حاصل کئے تھے تاہم بعد مےں ان دونوں پارٹیوں کے بعض ارکان کی طرف سے اپنی اپنی پارٹیوں سے علیحدگی کے باعث تین مزید پارٹیوں کو پارلیمنٹ کی رکنیت مل گئی۔ 
2002ءکے انتخابات کے موقع پر انصاف و ترقی پارٹی کے چیئرمین رجب طیب اردگان 1998ءمےں اپنی کسی تقریر مےں کہی گئی کسی بات پر سزا پانے کے باعث انتخابات و وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل تھے۔ نتیجتاً ان کی جگہ ان کے نائب عبداللہ گل وزیراعظم بنائے گئے تاہم بعد مےں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس پابندی اور اس کی وجہ سے ہونے والی سزا کو ختم کر دیا گیا۔ 9مارچ کو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے اردگان پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ان کو حکومت مےں لانے کی خاطر عبداللہ گل وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوگئے۔ انہیں بعدازاں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔
ابھی انصاف و ترقی پارٹی نے پوری طرح حکومت ہی نہ سنبھالی تھی کہ جنگ عراق شروع ہوگئی۔ پارلیمنٹ نے امریکہ کے اتحادی ممالک کی افواج کے دستوں کو ترکی سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی البتہ اپنے دستے ترکی بھیجنے کی منظوری دے دی لیکن امریکہ اور ترکی بعد مےں اس بات پر متفق ہوگئے کہ ترکی کی اس پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا۔
اس وقت انصاف و ترقی پارٹی کے سیاسی ایجنڈے پر عراق، یورپی یونین کی رکنیت، قبرص اور معیشت زیادہ نمایاں نکات ہےں۔ نومبر 2003ءمےں حکومت کو دہشت گردی کے 4بڑے واقعات سے نمٹنا پڑا۔ ان مےں یہودیوں کی دو عبادت گاہوں، برطانوی قونصل جنرل اور ایک غیر ملکی بینک کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام واقعات استنبول مےں پیش آئے۔
مارچ 2004ءمےں برسراقتدار انصاف و ترقی پارٹی نے بلدیاتی انتخابات مےں 42فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔
قبرص کے سیاسی حالات کے باعث 1950ءکے عشرے کے وسط سے ترکی اور یونان کے تعلقات مےں کشیدگی چلی آرہی ہے۔ 1960ءمےں قبرص کی آزادی کے بعد یہ کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ دسمبر 1963ءمےں وہاں عیسائی مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ یہ فسادات 1974ءتک جاری رہے۔ ترک قبرصیوں کی اقلیت 1964ءمےں اقوام متحدہ کی حفاظت مےں اپنی پناہ گاہوں مےں چھپنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ یونان مےں اقتدار پر قابض فوج کی پشت پناہی کے ساتھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جولائی 1974ءمےں قبرص کے منتخب صدر کا تختہ الٹے جانے کے بعد ترک افواج شمالی قبرص پہنچ گئیں۔ اس کے بعد پورا جزیرہ عملاً کسی ایک حکومت کے کنٹرول مےں نہیں ہے۔ جزیرے کے تقریباً 36فیصد علاقے پر حکومت جمہوریہ قبرص کا راج نہیں۔ جزیرہ کے شمال مےں ترک افواج کے دستے بھی بڑی تعداد مےں تعینات ہےں۔
منصفانہ، دیرپا اور ہمہ گیر سمجھوتے کی تلاش مےں 1974ءکے بعد سے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی مذاکرات کی کئی کوششیں کی جا چکی ہےں تاہم یہ مقصد تاحال حاصل نہیں کیا جاسکا۔ مسئلہ قبرص کے حل کی تلاش مےں اقوام متحدہ کی نگرانی کی آخری کوشش 24اپریل 2004ءکو ختم ہوگئی۔ یہ کوشش اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے تجویز کئے جانے والے ایک ہمہ گیر منصوبہ پر ریفرنڈم کی شکل مےں تھی۔ اس پر جزیرے کے دونوں حصوں مےں بیک وقت ریفرنڈم کروایا گیا تھا۔ یونانی قبرصیوں نے اس منصوبے کے خلاف اور ترک قبرصیوں نے اس کے حق مےں ووٹ دیئے۔ نتیجتاً یکم مئی کو یورپی یونین نے قبرص کو منقسم حالت مےں ہی اپنا رکن بنا لیا۔ جزیرے کا شمالی حصہ یورپی یونین کا رکن نہیں جسے ترک قبرص کہا جاتا ہے۔
طویل جدوجہد کے بعد 1830ءمےں سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہونے والے یونان اور عثمانی حکومتوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ مشکلات سے دوچار رہے لیکن 1950ءکے عشرے کے وسط مےں قبرص کے مستقبل کے سوال پر بین الاقوامی تنازعہ کھڑے ہونے تک یونان اور جمہوریہ ترکی کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔ قبرص کے سوال پر جاری اختلاف کے علاوہ بھی ترکی اور یونان کے تعلقات حیرہ ایجیئن کی خودمختاری کے حوالے سے بھی کئی امور پر الجھے رہے۔
لیکن 1999ءمےں ترکی اور یونان مےں آنے والے زلزلے نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے مےں مدد فراہم کی۔ یونان اور ترکی کے تعلقات مےں بہتری دسمبر 1999ءمےں ہیلسنکی مےں ہونے والے یورپی کونسل کے اجلاس مےں یورپی یونین کی رکنیت کے بارے مےں ترکی کی درخواست پر ہمدردانہ غور کے لئے آمادہ کرنے کی ایک بڑی وجہ تھی۔ اس سے ترکی کے یورپی یونین اور یونان کے ساتھ تعلقات کی ایک نئی بنیاد فراہم ہوگئی۔ یورپی یونین کی رکنیت کے سوال پر یونان اب ترکی کی حمایت کر رہا ہے۔
ترکی دوسرا ملک ہے جس نے 1963ءمےں یورپی تنظیم بنانے سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس کی بنیاد پر یورپی کونسل اور ترکی کی کسٹم یونین بنی۔ پھر دونوں کے درمیان کسٹم قوانین اور ضوابط سے متعلق ایک معاہدہ ہوا جو بالآخر یکم جنوری 1996ءکو نافذ کر دیا گیا۔ اس معاہدے مےں بھی آخرکار ترکی کے یورپی کونسل کا رکن بننے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اس کے لئے ترکی نے 1987ءمےں رسمی درخواست دی۔ 1989ءمےں یورپی کمیشن نے یہ درخواست نہ ماننے کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی مےں ابھی مزید سیاسی اوراقتصادی اصطلاحات کی ضرورت ہے۔ تاہم یورپی کونسل نے 1999ءکے ہیلسنکی اجلاس مےں بالآخر ترکی کو رکنیت کا امیدوارتسلیم کر لیا۔ اس پر 2002ءمےں یورپی کونسل کے کوپن ہیگن اجلاس مےں فیصلہ کیا گیا کہ اگر یورپی کمیشن کی سفارش اور رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ ترکی دسمبر 2004ءکے اجلاس تک کوپن ہیگن اجلاس سے سامنے آنے والے سیاسی پیمانوں پر پورا اترتا ہے تو رکنیت کے بارے مےں اس سے مذاکرات بلاتاخیر شروع کر دیئے جائیں گے۔
کوپن ہیگن سیاسی پیمانوں پر ترکی کے پورا اترنے سے متعلق یورپی کمیشن کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے دسمبر 2004ءمےں ہونے والے اجلاس مےں یورپی کونسل نے ترکی کی رکنیت سے متعلق 3اکتوبر 2005ءکو مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مذاکرات 3اکتوبر کو شروع ہوئے۔ 12دسمبر 2005ءکو ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کا فیصلہ ہوا اور 23دسمبر کو یہ فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔ یورپی یونین مےں ترکی کی شمولیت سے متعلق یورپی کونسل مےں پیش کرنے کے لئے یورپی کمیشن ہر سال ایک تحریری رپورٹ پیش کرے گا۔ کمیشن کی 2005ءرپورٹ کے مطابق ترکی کافی حد تک کوپن ہیگن پیمانوں پر پورا اتر رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment