ٹوگو
Togo
محل وقوع
ٹوگو مغربی افریقہ کے جنوبی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں گھانا، شمال مےں برکینا فاسو اور مشرق مےں بینن واقع ہےں۔ خلیج گنی کی 32میل لمبی ساحل پٹی نشیب مےں ہے اور ریتلی ہے۔ لومے اس ملک کی واحد بندرگاہ اور دارالحکومت ہے۔ ملک کا وسطی علاقہ پہاڑی ہے۔
لوگ
ٹوگو کی آبادی کا 65فیصد حصہ دیہی علاقوں مےں رہتا ہے اور گزر اوقات کے لئے کھیتی باڑی یا گلہ بانی کا سہارا لیتا ہے۔ یہاں آبادی مےں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1961ءسے لے کر 2003ءتک کے عرصے مےں یہاں کی آبادی مےں پانچ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
ٹوگو مےں کم و بیش 40نسلی گروہ موجود ہےں جن مےں سب سے بڑا جنوب مےں آباد ایو (ewe) ہے۔ ٹوگو کی آبادی کا تقریباً 46فیصد حصہ اس گروہ پر مشتمل ہے۔ دیگرے بڑے نسلی گروہوں مےں کابائے (22فیصد) اور اواچی (14فیصد) شامل ہےں۔
یہاں کی آبادی کا 51فیصد حصہ مقامی مذاہب پر عمل پیرا ہے۔ مسلمانوں کی تعداد 20فیصد سے زائد ہے بقیہ مےں عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہےں۔
وسائل
اپنے دوسرے پڑوسیوں کی طرح ٹوگو کے عوام بھی انتہائی غربت اور اقتصادی بحران کے دن گزار رہے ہےں۔ ٹوگو کی آمدنی کا سب سے بڑا وسیلہ فاسفیٹ کی برآمد تھی لیکن عالمی منڈی مےں فاسفیٹ کی مانگ زیادہ نہیں رہی اور قیمتیں گر گئی ہےں۔ پھر یہ کہ ٹوگو، گھانا اور نائیجریا سے برابر عداوت رکھتا ہے جس کی وجہ سے یہ دونوں ملک جب چاہتے ہےں ٹوگو کی سرحدیں بند کر دیتے ہےں۔ اس صورت حال مےں ٹوگو کے عوام کے لئے زراعت کے علاوہ اور کوئی راستہ بہت مک بچتا ہے اور یہی شعبہ ٹوگو کی معیشت کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی افرادی قوت کے 65فیصد کی کھپت اس شعبے مےں ہوتی ہے۔ یہاں کی اہم فصلوں مےں کپاس، کافی اور کوکو شامل ہےں اور برآمدات کا 30فیصد ان فصلوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر فصل معمول کے مطابق ہو تو ٹوگو غذائی حوالے سے خودکفیل رہتا ہے۔
ماضی مےں ٹوگو کے حالات اگرچہ حوصلہ افزا نہیں رہے لیکن گذشتہ چند برسوں مےں آنے والے سیاسی استحکام نے اس کی معیشت پر اچھا اثر مرتب کیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگر حالات مستحکم رہے تو اس کے جی ڈی پی مےں اضافے کا رجحان دیکھنے مےں آئے گا۔
تاریخ
ٹوگو کے باشندوں کے آباﺅ اجداد چودھویں صدی مےں دریائے نائیجر کی وادی سے نقل مکانی کر کے اس علاقے مےں آباد ہوئے تھے۔ سولہویں صدی مےں برازیل کے سیاح اور تاجر یہاں آئے اور انہوں نے رہائشی بستیاں قائم کیں۔ آئندہ دو صدیوں کے دوران مےں یورپ کے سوداگر یہاں غلاموں کی تلاش مےں آتے رہے اور غلاموں کے جواز کے جہاز بھر کر یورپ لے جاتے رہے۔ انہوں نے اس علاقے کا نام ہی ”غلاموں کا ساحل“ (Slave Coast) رکھ چھوڑا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ علاقہ 1884ءمےں جرمنی کے انتداب مےں آگیا۔
1914ءمےں پہلی جنگ عظیم چھڑنے کے بعد ٹوگولینڈ کے مشرقی حصے پر فرانس اور مغربی حصے پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا اور 1922ءمےں لیگ آف نیشنز نے فرانس اور برطانیہ کے مقبوضات کو قانونی حیثیت دے دی۔
دونوں حصوں پر برطانیہ اور فرانس کا قبضہ 1956ءتک برقرار رہا۔ اس سنہ مےں برطانوی ٹوگولینڈ نے گولڈ کوسٹ کے ساتھ ادغام کرنے کے حق مےں ووٹ دیا۔ فرانسیسی ٹوگولینڈ نے فرانس کا حصہ رہتے ہوئے خودمختار جمہوریہ کی حیثیت حاصل کر لی تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے اس منصوبے کو مسترد کر دیا گیا۔
1958ءمےں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انتخابات ہوئے۔ اسمبلی مےں یونین پارٹی واضح اکثریت سے برسراقتدار آگئی اور اس کے لیڈراولمپیو کو وزارت عظمیٰ کا مسند مل گیا۔ 1960ءمےں ٹوگو کو جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔
13جنوری 1963ءکو یہاں پہلا فوجی انقلاب برپا ہوا جس مےں وزیراعظم اولمپیو کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نئی حکومت کی صدارت نکولس گرنٹر کے حصے مےں آئی۔ 1967ءمےں آرمی چیف آف سٹاف کرنل ایاڈیما نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا اور تب سے لے کر اپنی وفات تک وہ صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے آئین منسوخ کر دیا، سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔
ایاڈیما کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش مسلسل کی جاتی رہی لیکن ہر کوشش ناکام رہی اور سازشیوں کو سخت سزاﺅں کا نشانہ بننا پڑا۔ 1979ءمےں ایسی ہی ایک ناکام بغاوت کے نتیجے مےں 13سازشیوں کو موت کی سزا سنائی گئی۔ موت کی سزا پانے والوں مےں سابق صدر اولمپیو کے دو بیٹے بھی شامل تھے جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اسی سال نیا آئین بنایا گیا اور نئے انتخابات ہوئے جن مےں صدر ایاڈیما کو مزید سات سال کے لئے ”منتخب“ کر لیا گیا۔ تب سے لے کر اپنی وفات تک وہ اسی طرح منتخب ہوتے گئے۔ حالیہ دور مےں افریقہ کے طویل ترین دور حکومت کے حامل حکمران کا اعزاز انہی کے پاس ہے۔
2005ءکے اوائل مےں ایاڈیما کا انتقال ہوگیا۔ فوج نے فوراً ان کے بیٹے فارگناسنگ بے کو ان کی جگہ بٹھا دیا مگر وہ زیادہ عرصہ یہ مقام سنبھالے نہ رکھ سکے۔ بین الاقوامی پر فوج کی اس حرکت کی شدید مذمت کی گئی۔ تاہم فرانس، سینی گال اور نائیجریا نے اس اقدام کی حمایت کی۔ ان کی حمایت نے افریقی یونین مےں دراڑ پیدا کر دی۔ فارگناسنگ بے نے استعفیٰ دے دیا اور انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ دو ماہ بعد ہونے والے ان انتخابات مےں انہیں ہی کامیابی حاصل ہوئی مگر حزب اختلاف نے ان علاقوں کو سراسر دھاندلی پر مبنی قرار دے دیا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ، امن و امان کی خراب صورت حال اور انتخابی دھاندلیوں کے الزامات نے ٹوگو کی عالمی سطح پر ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور یورپی یونین کے ساتھ اس کے تعلقات تاحال نارمل نہیں کہے جا سکتے۔
No comments:
Post a Comment