Ad

Ad

Thursday, 9 August 2012

سرینام Suriname History

سرینام
Suriname
محل وقوع
سرینام جنوبی امریکہ کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے مغرب مےں گیانا، مشرق مےں فرانسیسی گیانا اور جنوب مےں برازیل ہے۔
لوگ
نسلی اعتبار سے یہاں سب سے بڑا گروہ ہندوستانیوں کا ہے۔ آبادی کا 37فیصد حصہ یہ گروہ تشکیل دیتا ہے۔ یہ لوگ انیسویں صدی مےں ہندوستان سے یہاں آنے والے پابند مزدوروں کی اولاد ہےں۔ ان مےں سے زیادہ تر کے اجداد کا تعلق بہار اور اترپردیش سے تھا۔ اس کے علاوہ بڑے نسلی گروہوں مےں سرینامی کریول (31فیصد)، جاوانیز (15فیصد) اور سرینامیز مرون (10فیصد) شامل ہےں۔
مذہبی لحاظ سے ویسے تو یہاں سب سے بڑا گروہ عیسائیوں کا ہے لیکن یہ گروہ پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک مےں بٹا ہوا ہے۔ وحدت کے اعتبار سے سب سے بڑا گروہ مسلمانوں (20فیصد) کا ہی ہے۔
آبادی مےں اضافے کی شرح 1.5فیصد ہے اور شرح خواندگی 95فیصد ہے۔
وسائل
سرینام کی معیشت کا انحصار مرکزی طور پر اس کی باکسائٹ کی صنعت پر ہے۔ جی ڈی پی کا 15فیصد اور برآمدات کا 70فیصد اس سے حاصل ہوتا ہے۔ دیگر بڑی برآمدات مےں چاول، کیلا اور جھینگا شامل ہےں۔ حال ہی مےں سرینام مےں تیل اور سونے کے ذخائر کی کان کنی کا کام بھی شروع ہوا ہے جس سے اس کی معیشت پر نہایت صحتمند اثرات مرتب ہوئے ہےں۔
افرادی قوت کا قریباً چوتھائی حصہ زراعت کے شعبے مےں کام کرتا ہے۔
تاریخ
اس ملک کے قدیم باشندے سری نن انڈین تھے جن کے نام پر اس ملک کا نام رکھا گیا۔ سولہویں صدی تک جنوبی امریکہ کہ دیگر ریڈ انڈین قبائل بھی یہاں آ آ کر آباد ہوگئے۔ بعدازاں برطانوی، ولندیزی اور ہسپانوی باشندے بھی آتے گئے یہاں تک کہ برطانوی یہاں پر قابض ہوگئے۔ 1667ءمےں برطانویوں نے نیو ایمسٹرڈم (نیویارک) کے بدلے مےں اسے ولندیزیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اس زمانے مےں غلاموں کی تجارت عام تھی۔ افریقہ سے غلام خرید کر یہاں لائے جاتے تھے جن سے کافی اور گنے کی کاشت کا کام لیا جاتا تھا۔ 
1863ءمےں غلامی کے خاتمے کے بعد یہاں کے باشندے ملک کے اندرونی علاقوں مےں جا کر بستیاں بنا کر رہنے لگے۔ 1870ءکے بعد مزدوروں کی برآمد کا کام انگریزوں کے مقبوضہ جزائر مشرق الہند سے لیا جانے لگا تھا۔
1948ءمےں اس نو آبادی کو مملکت نیدرلینڈ مےں شامل کر لیا گیا۔ اس وقت اسے ڈچ گیانا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 1954ءمےں دفاع اور خارجہ امور کے سوا اسے تمام دوسرے امور مےں خودمختاری دے دی گئی۔ 
1973ءمےں سرینام کی بڑی جماعت این پی کے کی سربراہی مےں قائم مقامی حکومت نے مکمل آزادی حاصل کرنے کے لئے ولندیزی حکومت سے مذاکرات شروع کئے اور 25نومبر 1975ءکے روز ان کا نتیجہ سرینام کی مکمل آزادی کی صورت مےں نکلا۔ نیدرلینڈ کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ایک امدادی پروگرام فراہم کیا گیا جس کے تحت 1985ءتک سرینام کو امداد ملتی رہی۔ ملک کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز جوہان فریئر کو حاصل ہوا اور وزارت عظمیٰ دوسری بڑی پارٹی، سرینام نیشنل پارٹی، کے ہینک آرون کے حصے مےں آئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزادی کے وقت آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہجرت کر کے نیدرلینڈ منتقل ہوگیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ نیا ملک اپنے بل پر زندہ نہیں رہ پائے گا۔
1980ءمےں ہینک آرون کی حکومت کو ایک فوجی بغاوت نے ختم کر دیا۔ بغاوت کی قیادت سارجنٹ میجر دیسی بطروس کے ہاتھ مےں تھی۔ صدر فریئر نے نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک نئے وزیراعظم کا تقرر کیا۔ پانچ ماہ کے بعد ایک اور بغاوت ہوئی اور موجودہ وزیراعظم چن آسن کو صدر فریئر کی جگہ بٹھا دیا گیا۔ عوام نے اس حکومت کا استقبال کیا کیونکہ وہ کرپشن کے خاتمے اور اپنے معیار زندگی مےں بہتری کی توقع لگائے ہوئے تھے۔
نئی حکومت نے تمام مخالف جماعتوں پر آتے ہی پابندی لگا دی اور روز بروز اس کے طرز عمل مےں آمریت کا عنصر نمایاں ہوتا گیا۔ ولندیزیوں نے ابتداءمےں نئی حکومت کو تسلیم کیا تاہم جب فوج نے 8دسمبر 1982ءکے روز سیاسی حزب اختلاف کے پندرہ ارکان کو قتل کر دیا تو نیدرلینڈ اور سرینام کے درمیان تعلقات ختم ہوگئے۔ ولندیزی اور امریکی حکومتوں نے امداد کا سلسلہ بند کر دیا جس کے نتیجے مےں بطروس کو امداد کے لئے گریناڈا، نکاراگوا، کیوبا اور لیبیا جیسے ممالک کی طرف دیکھنا پڑا۔ 
1985ءمےں خزب اختلاف کی جماعتوں پر لگائی گئی پابندی اٹھا لی گئی۔ اس کے بعد حکومت کے خلاف گوریلا بغاوت شروع ہوگئی۔ 1990ءمےں بطروس مستعفی ہوگئے اور بوش نیگرو گروپ کی گوریلا تنظیم نے مسلح مزاحمت کا آغاز کر دیا۔ 1991ءمےں انتخابات ہوئے جس سے فوج کے اقتدار مےں کمی واقع ہوگئی۔
1992ءمےں گوریلا گروپوں اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ 1997ءمےں نیدرلینڈ نے اعلان کیا کہ سابق فوجی آمر بطروس کے خلاف کوکین کے ناجائز کاروبار اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ مئی 1999ءمےں صدر جولیس وجدن بوش کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔ صدر جولیس نے اعلان کیا کہ وہ 2001ءتک عام انتخابات کرا کے سبکدوش ہوجائیں گے۔ تاہم 2000ءمےں افراط زر ستر فیصد تک بڑھ جانے کے باعث عوام مےں زبردست احتجاجی لہر پیدا ہوئی جس کے نتیجے مےں جولیس وجدن بوش کو قبل از وقت انتخابات کرانے پڑے۔ ان انتخابات مےں سابق صدر رونالڈوینی ٹسن کی جماعت کو فتح حاصل ہوئی اور وہ نئے صدر بن گئے۔ 

No comments:

Post a Comment